“تم جب تک مجھے سچ سچ نہیں بتاتے کہ ہم کہاں جا رہے ہیں ۔۔؟ کیوں جا رہے ہیں ۔۔؟ میں کہیں نہیں جائوں گی ۔۔۔۔
بلکہ میں کیا ، کوئی بھی نہیں جائے گا ۔۔۔۔”
نیند میں ڈوبے گنتی کا ضروری سامان سمیٹتے اپنے بہنوں بھائیوں پر اس نے ایک سخت نظر ڈالی تھی ۔۔۔۔
“ارے یار ۔۔۔!!! کتنی بار تو سمجھایا ہے ۔۔ مجھے خود کچھ نہیں معلوم ۔۔۔۔۔ جو بات مون سے ہوئی ہے وہ لفظ بہ لفظ تمہیں بتائی ہے ۔۔۔ اب اور کیا جاننا چاہتی ہو ۔۔۔۔؟؟؟ یار کوئی اسے سمجھائو زرا ۔۔ سر کھا لیا ہے میرا ۔۔۔ سچ بتائو سچ بتائو سچ بتائو ۔۔!! خود کچھ نہیں پتا تو کیا بتائوں ۔۔۔۔”
پریشان کن سوچوں نے دماغ خراب کر رکھا تھا ۔۔۔ منان کا نمبر بھی بند جا رہا تھا ۔۔۔۔ اوپر سے میشا کی بےوجہ کی ضد ۔۔۔!
“ہم تم پر ایسے کیسے یقین کر لیں ۔۔۔۔؟”
“سر پھوڑوں گا تو یقین کرو گی ۔۔۔؟”
بری طرح عاجز آ کر وہ بہت خطرناک سنجیدگی سے گویا ہوا تھا ۔۔۔۔
“ہاں تب یقین کروں گی ۔۔۔!!”
جزباتی انداز میں ہاتھ نچا نچا کے بول کر وہ اگلے ہی پل چیخ پڑی تھی جب پارس نے “تو یہ لو” کہہ کر میشا کے سر سے اپنا سر ٹکرا دیا تھا ۔۔۔
سر پکڑے وہ اپنے بھائیوں کے کھلکھلانے پر تلملا کر رہ گئی تھی ۔۔۔
“دراصل تم نے واضح نہیں کیا تھا سر کس کا پھوڑنا ہے سو ۔۔۔۔۔”
اتنی پریشانی میں بھی وہ میشا کو تپانا نہیں بھولا تھا ۔۔۔
کوفت سے آنکھیں گھما کر بالآخر وہ بھی اپنا کچھ ضروری سامان سمیٹنے کمرے میں بھاگ نکلی ۔۔۔۔
****************
گاڑی بڑی تھی لیکن اتنی بھی نہیں ۔۔۔۔۔۔!!
پھنس پھنسا کر ایک دوسرے کی گود میں چڑھے بیٹھے وہ سب دل ہی دل میں ڈر بھی رہے تھے ۔۔۔
نہ جانے کیا بات تھی ۔۔۔۔
کیوں انہیں رات کے اندھیرے میں گہری نیند سے جگایا گیا تھا ۔۔ اور اب کہاں لےجایا جا رہا تھا ۔۔۔۔؟
قسمت کیسا عجیب موڑ لائی تھی زندگی میں ۔۔ ایسی صورتحال تو کبھی کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں آئی تھی ۔۔۔۔۔۔
مہنگائی، فاقوں، بیماریوں نے کچھ اور سوچنے ہی نہیں دیا تھا ۔۔۔۔
فہیم رحیم اور کریم کی آنکھوں سے نیند کوسوں دور بھاگ گئی تھی ۔۔۔۔
جگمگ جگمگ نظروں سے وہ تینوں اس قیمتی گاڑی کے بعد اب باہر کے مناظر دیکھ رہے تھے ۔۔
انہیں آج معلوم ہوا تھا کہ دس’ گیارہ بجے کوئی رات نہیں ہوتی ۔۔۔۔
ایک دنیا جاگ رہی ہوتی ہے ۔۔۔
راتیں اتنی چمکیلی اور روشنیوں بھری ہوتی ہیں ۔۔۔
بہت کچھ جانا تھا انہوں نے اس طویل خاموش سفر میں ۔۔۔۔!!
اور وہ چاروں بہنیں بمشکل ایک ساتھ پیچھے بیٹھی بھائیوں کو گود میں بٹھائے زیرلب مسنون دعائوں کا ورد کرتی اچھی خاصی خوفزدہ بھی تھیں ۔۔۔ کسی نے اس بار پارس یا منان سے کوئی سوال نہیں کیا تھا ۔۔ ان کے چہروں کی پختگی انہیں روک رہی تھی ۔۔۔۔
یونہی سوئی جاگی ۔۔ ڈری ڈری حالت میں وہ لوگ اپنی منزل پر پہنچ گئے تھے ۔۔۔۔!!
****************
انہیں اس عالیشان گھر میں چھوڑ کر اور ساتھ ہی بہت سی ہدایات دے کر وہ دونوں پھر کہیں چلے گئے تھے ۔۔۔۔
آدھے گھنٹے تک دوڑ دوڑ کر چمچماتے گھر اور اس میں موجود بیش قیمت سامان کو حیرت اور سرخوشی میں اچھی طرح دیکھ لینے کے بعد وہ تینوں بھائی گہری نیند میں گم ہو چکے تھے ۔۔
کمبل ان پر پھیلا کر وہ لائونج میں آئی تو ساشہ کی گود میں سر رکھے وریشہ بھی اونگھ رہی تھی ۔۔۔
نرم سے سفید صوفے میں دھنس کر اس نے ایک بار پھر پارس کا نمبر ملایا تھا جو مصروف جا رہا تھا ۔۔۔۔۔۔
“کیا مصیبت ہے آخر اس شخص کے ساتھ ۔۔۔؟”
فون کان سے ہٹا کر وہ جھنجلائی تھی ۔۔۔۔
“اتنی ہدائتیں دے گیا ہے کہ سانس لیتے ہوئے بھی خوف آ رہا ہے ۔۔۔۔
لیکن کیوں دے گیا ہے یہ بتا کر نہیں دے رہا ۔۔!”
“کوئی بات تو ہوگی میشا ۔۔ جیسے لوگوں سے ان کا تعلق ، کچھ پتا نہیں کب کون دشمن بن جائے ۔۔۔۔۔ ویسے لوگوں سے دشمنی ہی نہیں دوستی بھی خطرناک ہوتی ہے ۔۔۔”
رسان سے سمجھانے کے بعد ساشہ اس کے مسلسل دیکھنے پر خجل سی ہوگئی ۔۔۔
“اب کیا ہوا ۔۔۔؟؟؟”
“یہ ۔۔ اتنی سمجھدار کب ہوئیں تم ۔۔۔؟؟”
“کیوں ۔۔؟ تم کیا سمجھتی ہو ، ساری عقل بس تمہارے پاس ہے ۔۔۔؟؟”
ساشہ مسنوعی خفگی سے کہہ کر صوفے کی پشت پر سر گرا کر آنکھیں موند گئی تھی ۔۔۔۔
“نہیں عقل تو خیر تمہارے پاس بھی بہت ہے ۔۔۔۔۔ بس تم اسے استعمال کرنے کی زحمت نہیں کرتیں ۔۔۔!”
مسکراہٹ دبا کر کہتی وہ اس کے گھورنے پر ہنس پڑی تھی ۔۔۔
“چائے چاہیے ۔۔۔۔۔”
بڑے سے اسکرین والے دیوار پر نصب ٹیوی پر چلتے ڈرامے سے زیادہ ٹیوی کے خول کو اشتیاق سے دیکھتی علیشہ نے اعلانیا نہ جانے پوچھا تھا یا بتایا تھا ۔۔۔
“کون سی جناب ۔۔؟”
“جو بھی بنائے ۔۔ وہ لاجواب ۔۔”
میشا کے شرارت سے پوچھنے پر اس نے بھی سمجھا دیا تھا کہ وہ بتا رہی تھی ۔۔۔۔۔
“اس وقت چائے کون پیتا ہے ۔۔؟ آرام سے سو جائو ۔۔۔۔۔ کچھ پتا نہیں صبح کیا تماشہ منتظر ہو ۔۔۔۔؟”
ساشہ کے ڈپٹنے پر میشا استہزا انداز میں ہنسی ۔۔۔۔
“یعنی ڈر تو تمہارے بھی دل میں ہے ۔۔۔۔”
“ہاں ہے ۔۔!!”
منہ بنا کر کہنے کے بعد ساشہ نے سر پھر صوفے کی پشت پر گرا کر آنکھوں پر بازو رکھ لیا تھا۔۔۔ ایک دوسرے سے اشاروں اشاروں میں چائے کا پوچھتیں میشا اور علیشہ اٹھ کر کچن میں چلی گئیں ۔۔۔
**************
“مجھے سمجھ نہیں آ رہا کہ اب جب سب ٹھیک ہوگیا ہے ہمدانی نے کیوں ہماری جاسوسی کروانے کا فیصلہ کیا ۔۔۔۔؟؟”
“ہم پرانے کھلاڑی صحیح پر ہمدانی اس کھیل کا بادشاہ ہے ۔۔۔ کچھ نہ کچھ بھنک تو اسے پڑی ہوگی ۔۔۔۔۔
شکر ہے میں نے سب پہلے ہی سن لیا ۔۔ اگر وہ ساشہ وغیرہ تک پہنچ جاتا تو ۔۔۔۔!!”
پارس کو جواب دے کر منان نے بےساختہ ہلکی سی جھرجھری لی تھی ۔۔۔۔ کیونکہ وہ اچھی طرح جانتا تھا ہمدانی بےرحمی میں کس حد تک جا سکتا یے ۔۔ اپنے کام کے درمیان آنے والے ہر شخص سے تو خاص دشمنی ہوجاتی تھی اسے ۔۔!
اس کا اڑا رنگ دیکھ کر ہلکی سی مسکراہٹ پارس کے لبوں پر بکھری تھی ۔۔ پھر قدرے سنجیدگی سے مخاطب ہوا تھا ۔۔
“ویسے یار ۔۔۔ اتنی جلدی مچانے کی بھی کیا ضرورت تھی ۔۔۔۔؟ دس منٹ میں سب کو لے کر پہنچو ۔۔۔۔۔۔ ہمدانی نے جیٹ طیارے پر تو جاسوسوں کو نہیں بھیجنا تھا ۔۔۔”
“ہمدانی کو جانتے ہو پھر بھی یوں کہہ رہے ہو ۔۔۔؟ میں نے تمہیں اس کی پلاننگ بتائی ہے اس کے الفاظ نہیں ۔۔۔۔ میں بہت ڈر گیا تھا پارس ۔۔۔۔!! کس طرح ڈرائیو کر کے یہاں تک پہنچا تھا میں ہی جانتا ہوں ۔۔”
جواباً پارس سر ہلا کر رہ گیا ۔۔۔۔ کافی دیر تک درمیان میں خاموشی حائل رہی تھی جب نیند کی وادیوں میں اترتے منان پر ایک اچٹتی نظر ڈال کر وہ بولا تھا ۔۔۔۔
“ماڈل ٹائون میں بھی ان لوگوں کا آنا جانا رہتا ہے ۔۔۔ مجھے لگتا یے وہ بھی کچھ سیف نہیں ۔۔۔”
“ہنہہ ۔۔؟؟ ہاں ۔۔۔”
نیند بھگاتا وہ سیٹ پر سیدھا ہوا تھا ۔۔۔
“ان کا تو ہر طرف آنا جانا یے ۔۔۔ اب ۔۔؟؟؟”
منان شدید بیزار لگ رہا تھا ۔۔۔۔۔
“دل تو چاہتا ہے ہمدانی اور اس کے کام پر لعنت بھیج کر سکون سے زندگی جینے لگوں ۔۔۔۔”
پارس نے بری طرح ٹھٹھک کر منان کو دیکھا تھا ۔۔۔ ایک عجیب سے خوف سے بھی اس کا دل دھڑکا تھا ۔۔۔۔۔
منان بہت آگے تک سوچ رہا تھا ۔۔
کچھ زیادہ ہی تبدیلیاں آ گئی تھیں اس میں جو اس کے لیئے ٹھیک نہیں تھیں ۔۔۔۔۔!!
زندگی کا بیشتر حصہ دونوں نے ساتھ گزارا تھا سگے بھائیوں کی طرح ۔۔۔ فکرمندی تو بنتی تھی ۔۔!!
“آہم ۔۔۔ !! ہمدانی پر لعنت بھیجو گے تو سکون سے جینے دے گا وہ تمہیں ۔۔۔؟؟
ایک فیصلہ کرنا ہوگا ۔۔۔ ہمدانی پر لعنت یا پرسکون زندگی ۔۔۔؟؟”
ہلکے پھلکے انداز میں پوچھتا وہ اس کا امتحان لینا چاہتا تھا ۔۔۔
اس کی دلی خواہش تھی منان پرسکون زندگی کا انتخاب کرے مگر ۔۔!!
“اگر اس کی وجہ سے ساشہ کا کوئی نقصان ہوا تو ہمدانی پر لعنت ۔۔۔ بلکہ ہمدانی کی موت ۔۔۔۔!!”
بہت سرد انداز تھا منان کا ۔۔۔ جس نے پارس کو پریشان کر دیا تھا ۔۔
“تم کچھ زیادہ ہی سنجیدہ ہورہے ہو ۔۔۔”
وہ خود کو کہنے سے روک نہیں سکا تھا ۔۔۔۔
“تم نہیں ہو سنجیدہ میشا کے لیئے ۔۔۔۔؟ ہمدانی اسے کوئی نقصان پہنچادے تو تم صبر کر کے بیٹھ جائو گے ۔۔۔۔؟؟؟”
بگڑ کر پوچھتا منان اس کی خاموشی پر حیران رہ گیا تھا ۔۔۔
“اوہ ۔۔۔! تم واقعی چپ رہ جائو گے ۔۔۔۔!! میں سمجھا پتا نہیں تم کتنے سیریس ہو ۔۔ ہاہا ۔۔۔!”
بات کے آخر میں اس نے ایک مسنوعی اور مختصر قہقہ لگایا تھا ۔۔ پھر ناگواری سے اسے گھورتے ہوئے گویا ہوا تھا ۔۔۔
“میں میشا کو ہماری یہ گفتگو لفظ بہ لظ سنائوں گا ۔۔۔۔ تاکہ وہ تم پر ایک حد تک ہی یقین کرے ۔۔ یقین میں اندھی نہ ہوجائے ۔۔”
“ہوگیا تمہارا ۔۔۔؟”
پارس نے فوراً ہی پوچھا تھا ۔۔۔
“ہاں ۔۔۔”
منان نے بھی پتھر مار انداز میں مختصر جواب دیا تھا ۔۔۔
“تو پھر مہربانی کرو اور سو جائو ۔۔۔ دماغ کھا لیا ہے ۔۔۔”
“ہنہہ! !”
خفگی بھری ہنکار بھر کر منان رخ دوسری طرف کر کے سو گیا تھا اور ڈرائیو کرتا پارس اپنا جواب سوچنے لگا ۔۔۔ جو اس نے منان کو نہیں دیا تھا ۔۔۔۔
شائد کہ ڈر کی وجہ سے ۔۔۔ یا شائد وہ واقعی ابھی منان جتنا آگے نہیں بڑھا تھا ۔۔!
***************
فجر کے وقت گھر پہنچ کر منان تو نیند سے بوجھل ایک اچٹتی نظر صوفے پر سکڑ سمٹ کر سوئی ہوئی ان بہنوں پر ڈالتا اپنے کمرے میں چلا گیا تھا جبکہ پارس لائونج کے اس کونے کی طرف بڑھ گیا تھا جہاں میشا نماز پڑھ رہی تھی ۔۔۔
اس کے پہلو میں ہی آلتی پالتی مار کر بیٹھا وہ یک ٹک اسے دیکھتا میشا کا امتحان بنا ہوا تھا ۔۔۔۔۔
سلام پھیر کر اس نے ایک کڑک نگاہ اس پر ڈالی تھی جو جواباً ڈھٹائی سے مسکرا دیا تھا ۔۔۔
“دعا مانگ رہی ہو ۔۔؟ میرے لیئے بھی مانگنا ۔۔۔”
اسے ہاتھ اٹھاتے دیکھ کر فرمائش کی گئی ۔۔۔
“کیا مانگوں ۔۔؟ تمہارے پاس سب کچھ تو ہے ۔۔۔”
“تم نہیں ہو نہ ۔۔۔ ہو کر بھی نہیں ہو ۔۔۔۔!”
وہ جیسے اسے بتا رہا تھا ۔۔ یا شائد شکوہ کر رہا تھا ۔۔۔۔
“تمہیں میری نہیں ۔۔! ہدایت کی ضرورت ہے ۔۔۔۔”
میشا جزبز ہو رہی تھی ۔۔۔۔ دعا مانگنا مشکل ہو رہا تھا ۔۔ بس ہاتھ دعائیا انداز میں جوڑے وہ اس کے جانے کی منتظر تھی ۔۔!
“تو چلو ہدایت کی دعا ہی مانگ لو ۔۔۔۔! ہدایت مل جائے گی ۔۔ تو میشا خود ہی مل جائے گی ۔۔۔ ہے نا ۔۔۔؟؟؟”
اس کے شانے سے اپنا مضبوط شانہ ٹکرا کر وہ اگلے ہی پل اسے حواس باختل چھوڑتا اس کے زانوں پر سر رکھ کر آنکھیں موند گیا تھا ۔۔۔۔۔
اور میشا کی حیرت ختم ہونے سے پہلے ہی گہری نیند میں اتر گیا تھا ۔۔۔۔!
گھبرائی ہوئی سی نگاہیں اس نے گردن موڑ کر اپنی بہنوں پر ڈالی تھیں ۔۔ مگر وہ سب گہری نیند میں تھیں ۔۔۔۔ بمشکل اس نے زانوں پر موجود بوجھ نظرانداز کر کے دعا مانگی تھی ۔۔۔۔ اور دعا مانگ لینے کے بعد بیچارگی سے اسے دیکھا تھا جو ہلکی ہلکی خراٹیں لیتا ہوا کہیں سے بھی معصوم نہیں لگ رہا تھا ۔۔ جیسے کہ اکثر لوگ لگتے ہیں ۔۔۔۔!!
اس کے اپنے گھر کے آس پاس جیسے بھی تھے سب اپنے تھے ۔۔۔۔ جاننے والے تھے ۔۔۔۔ سو وہ ان سے شاکی رہنے کے باوجود بھی اندر سے مطمئین رہتی تھی ۔۔ ایک اطمینان رہتا تھا کہ پارس یا کوئی وہاں ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا تھا ۔۔۔۔۔۔
لیکن یہاں ۔۔۔ اس محل میں ۔۔۔۔
پارس حکمران تھا ۔۔ !!
انجانے خدشات نے دل میں اچانک سر اٹھایا تو اس نے گھبرا کر پارس کا سر اپنی گود سے سرکا دیا ۔۔۔۔
***************
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...