حسن جعفر زیدی(لاہور)
ہمارے فکری اور سیاسی بحران کی جڑ میں چند اہم سوالات ہیں جن کا گہرا تعلق ہماری تاریخ فہمی کے ساتھ جڑا ہوا ہے اور ان کے بار ے میں ہمارے پڑھے لکھے افراد میں بھی کنفیوژن پایا جاتا ہے ۔
۱: ریاست اور اس کا نظام کیسا ہونا چاہیے؟ریاست اور دین یا مذہب کا تعلق کیا ہے ؟اگر درخشاں ماضی کے اسلامی نظام حکومت کا احیاء کر دیا جائے تو عوام کو درپیش تمام مسائل حل ہو جائیں گے ۔
۲: اگر دنیا کے تمام مسلمان ،درخشاں ماضی جیسے اسلامی اتحاد اخوت اور بھائی چارہ کا مظاہرہ کرتے ہوے متحد ہو جائیں تو عالمِ اسلام کے تمام مسائل حل ہو جائیں گے ۔
۳: اگر’’جہاد‘‘کیا جائے تو کفار کا خاتمہ اور دنیا پر مسلمانوں کا غلبہ ہو جائے گا ۔
۴: دورِ عروج کے مسلمانوں کا ذاتی کردار بہت اسلامی تھا وہی کردار اپنانے سے عروج حاصل ہو گا ۔
ان سوالات پرکنفیوژن کی وجہ سے ہم نے گزشتہ ڈیڑ ھ سو برس میں شدید نقصانات اٹھائے ہیں ۔ان کا پس منظر یہ ہے
پس منظر:
سرد جنگ کے دوران امریکی سامراج نے اسلامی احیاء کی تحریکوں کو اپنے آلہ کار کے طور پر استعمال کیا اور سرد جنگ کے خاتمے کے بعد جب اسے اپنا سامراجی وجود برقرار رکھنے کے لیے ایک مصنوعی دشمن کے خلاف ایک مصنوعی جنگ کھڑی کرنے کی ضرورت پیش آئی تو اس نے انہی تحریکوں کے غبارے میں ہوا بھر کر ان کا ہوا کھڑا کیا اور دنیا کو بالعموم اور امریکی عوام کا بالخصوص اس سے ڈرایا اور یوں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر پوری دنیا میں دہشت گردی کا بازار گرم کر دیا ۔تیل اور گیس کے ذخائر سے مالامال خطوں پر قبضہ کر نے اور 21 ویں صدی میں اپنے ممکنہ حریفوں پر غلبے کی پیش بندی کی خاطر اہم سٹرٹیجک مقامات پر اپنی فوجیں اتار دیں۔سادہ لوح مسلمان پہلے یہ سمجھتے رہے کہ دو سپر طاقتوں میں دنیا کی سب سے بڑی جمہوری طاقت امریکہ کا ساتھ دے کر اور سوویت یونین جیسی ’’اسلام دشمن‘‘طاقت کے خلاف جہاد کرکے دنیا کو مسلمانوں کے لیے ایک محفوظ مقام بنا رہے ہیں ۔لیکن حالات نے پلٹا کھایا اور سوویت یونین اپنے مختلف ناحل پذیرداخلی اور خارجی تضادات کا شکار ہو کر منتشر ہوگیا گویادنیاسے’’کفر ‘‘کی سب سے بڑی قوم کا خاتمہ ہو گیا ۔
1989میں افغانستان سے روسی فوجوں کے انخلا ء کے بعد سے لے کر 11ستمبر2001تک کم وبیش 12بارہ سال تک مختلف اسلامی جہادی تنظیمیں کسی کفرو اسلام کی جنگ میں نہیں بل کہ ایک دوسرے کے خلاف جہاد کرتی رہیں اور ادھر امریکہ کی بڑی ملٹی نیشنل آئل کمپنیاں اپنے نئے عالمی ایجنڈے کو ترتیب دینے میں مصروف رہیں اور مائیکل مور کی فلمFahrenheit 9/11کے مطابق امریکی خفیہ ایجنٹوں کی ناک کے تلے نام نہاد القاعدہ کا نیٹ ورک پروان چڑھتا رہا ۔یہاں تک کہ 9/11کاحادثہ رونما ہوا۔
اس کو بنیاد بنا کر امریکی بش انتظامیہ نے War On Terrorکے نام سے ایک نئی عالمی جنگ چھیڑ دی اور’’مسلمان‘‘اور ’’اسلام ‘‘کے الفاظ دنیا میں دہشت گردی کی علامت بن کر رہ گئے۔سامراجی مفادات کی جنگ کو تہذیبوں کی جنگ کا نام دیا گیا۔انڈونیشیا سے مراکش تک مسلمان ملک دہشت کا میدان جنگ بنادئیے گئے۔بے شمار نوجوان نام نہاد اسلامی جہاد اور نفاذ شریعت کے نام پر جاری جنگ کا ایندھن بن چکے ہیں ۔اور ہزارہا بے گناہ افراد اس جنگ کا نشانہ بن کر لقمہِ اجل بن چکے ہیں ۔ایران عراق جنگ میں ایک لاکھ سے زیادہ افراد مارے گئے ۔پھر عراق اور کویت کی جنگ اور عراق و افغانستان پر امریکی حملے اور غاصبانہ قبضے کے بعد لاکھوں لوگ مارے جا چکے ہیں ۔
تاریخ کا سنجیدہ طالب علم یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ ’’کافر‘‘سوویت یونین کے زمانے کی دنیا زیادہ پر امن تھی یا آج کی؟کار بم دھماکے،خود کش بم دھماکے اور دوسری طرف سے فضائی بمباری ،فوجی یلغار ،شہر ی آبادیوں کا قتل عام،عمارتوں کا انہدام ،جنگلوں سے پہاڑوں تک ،صحراؤں سے دریاؤں اور سمندروں تک آگ اور خون کی ہولی کھیلی جا رہی ہے ۔مکہ و مدینہ سے کربلاو نجف تک کے مقدس شہر اس جنگ کی لپیٹ میں آگئے ہیں سرد جنگ کے زمانے میں سوائے فلسطین کے مسلمان ملکوں کا یہ حال نہ تھا’’کافر‘‘ سوویت یونین کا وجود کسی حد تک مسلمان ملکوں کے امن کی ضمانت مہیا کرتا تھا ۔
اسلامی احیاء کی پُر تشدد تحریکیں:
دو سپر طاقتوں کی سرد جنگ میں امریکہ کے زیر سرپرستی چلنے والی احیائے اسلام کی تحریکوں نے بہت سے سادہ لوح مسلمانوں کو خوب بے وقوف بنایااور انجام کار مسلمانوں نے شدید نقصانان اٹھایا۔یہ تاریخ میں پہلی بار نہیں ہوا بل کہ کئی بار ہو چکا ہے ۔اس کی چند موٹی موٹی مثالیں گزشتہ دو ڈھائی سو سال کی تاریخ سے واضح طور پر مل جاتی ہیں۔۱۹ویں صدی کے اوائل میں جب مسلمان سلطنتوں کا شیرازہ بکھرنے لگا اور ان کے زوال کا عمل تیزہواتو مذہبی علماء نے احیائے اسلام کی تحریکیں شروع کیں جو شروع میں علمی مگر بعد میں عسکری رنگ اختیار کر گئیں۔برصغیر میں شاہ ولی اللہ نے علمی سطح پر اس نوع کی تحریک شروع کی جسے سید احمد شہید بریلوی نے وہابی تحریک کی صورت میں عسکریت کا جامہ پہنا دیا ۔انہوں نے مشرقی بنگال کے مسلمان کسانوں کی انگریز فارم مالکان کے خلاف مسلح جہدو جہد کو جسے فرائضی تحریک کہا جاتا تھا کارخ موڑ کر پنجاب کی سکھ ریاست کی طر ف کر دیا ۔انہوں نے بنگال اور بہار سے مسلمان نوجوانوں کو جہادی تحریک میں بھرتی کیا اور ان کو قریباً ہزار میل دور پشاور کے گردو نواح میں پہنچا کر وہاں رنجیت سنگھ کی حکومت کے خلاف جہاد شروع کر دیا ۔ڈبلیو ڈبلیو ہنٹر کے مطابق انگریزوں کی بالواسطہ حمایت اس جہاد کو یوں حاصل تھی کہ وہ جہادی جتھے انگریزوں کے زیر انتطام بنگال،بہار،یو پی ،سی پی کے علاقوں سے شمال مغربی سرحدی علاقے میں پہنچتے تھے اور انگریزوں کے علم میں ہوتا تھا کہ یہ لوگ کہاں کس مقصد کے لیے جا رہے ہیں۔ان کے مسلمان ملازم جب ان سے لمبی چھٹی مانگتے تو بقول ہنٹرا نہیں معلوم ہوتا تھا کہ وہ کس مقصد کے لیے چھٹی طلب کر رہے ہیں اور ان کی منزل مقصود کہاں ہوگی۔
سید احمد بریلوی کی جہادی تحریک کو عارضی کامیابی حاصل ہوئی۔پشاور اور اس کے گرد ونواح پر کچھ عرصہ کے لیے ان کا قبضہ ہو گیا ۔جو اس وقت رنجیت سنگھ کی حکومت کے ماتحت ہوا کرتا تھا۔سید احمد نے وہاں طالبان طرز کی شرعی حکومت قائم کی جو وہاں کے قبائلی رواج سے مطابقت نہ رکھتی تھی چناں چہ یوسف زئی قبیلہ جو وہاں ان کا سب سے بڑا اتحادی تھا ان سے منحرف ہوگیا۔ان حالات میں 1831میں رنجیت سنگھ کے فرانسیسی جرنیلوں نے بعض قبائلیوں کی مخبری کی مدد سے بالاکوٹ کے مقام پر جہادی لشکر کو گھیرے میں لے کر سید احمد اور سید اسماعیل سمیت سیکڑوں جہادیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا اور پشاور اور اس کے نواح کے علاقے پر سکھ حکومت کا قبضہ وا گزار کرا لیا ۔اس شکست کے بعد جہادیوں کا لشکر تتر بتر ہو گیا اور ہزاروں بنگالی و بہاری نوجوان جو اپنے گھروں سے سیکڑوں میل دور اس جہاد کے لیے آئے تھے مر کھپ گئے اور بہت کم ایسے تھے جو واپس اپنے گھروں جو جانے میں کامیاب ہوسکے ۔
سید ابوالاعلیٰ مودودی کاکہنا ہے کہ ’’جس وقت یہ حضرات جہاد کے لیے اٹھے ہیں اس وقت یہ بات کسی سے چھپی ہوئی نہ تھی کہ ہندوستان میں اصلی طاقت سکھوں کی نہیں انگریزوں کی ہے اور اسلامی انقلاب کی راہ میں سب سے بڑی مخالفت اگر ہو سکتی ہے تو انگریز ہی کی ہو سکتی ہے پھر سمجھ میں نہیں آتا کہ کس طرح ان بزرگوں کی نگاہِ دوررس سے معاملہ کا یہ پہلو بالکل ہی اوجھل رہ گیا․․․․․بہرحال جب ان سے یہ چوک ہوی تو اس عالمِ اسباب میں ایسی چوک کے نتائج سے وہ بچ نہ سکتے تھے‘‘۔
اس جہادی تحریک سے کس کو کتنا فائدہ اور کتنا نقصان پہنچا ،اس کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ اس کاسب سے زیادہ فائدہ انگریزوں کو ہوامشرقی بنگال کے مسلمان کسانوں کی مسلح تحریک جس سے بنگال میں انگریز فارم مالکان زچ ہوچکے تھے وہ ماند پڑگئی کہ اس کا رخ بنگال سے سیکڑوں میل دور شمال مغربی سرحدی سکھ ریاست کی جانب موڑ دیا انگریز سکھ ریاست کوغیرمستحکم کرناچاہتے تھے کہ رنجیت سنگھ نے فرانس کے ساتھ اتحاد کر کے فرانسیسی جرنیلوں کو اپنی فوج کی قیادت پر مامور کر دیاتھا۔دوسرا فائدہ رنجیت سنگھ کو ہوا جس نے پشاور پر اپنا قبضہ بحال کرنے کے بعد وہاں ہری سنگھ نلوا کو گورنر مقرر کیا جو وہاں کا پہلاغیر مسلم گورنر تھا اور اس نے اپنے تین سالہ عہد اقتدار میں عوام الناس پر اس قدر مظالم ڈھا ئے کہ پٹھان مائیں ہری سنگھ کا نام لے اپنے بچوں کو ڈرایا کرتی تھیں۔چناں چہ افغانوں کی سکھ ریاست سے آزادی کی جہدو جہداور ادھر بنگال میں کسانوں کی انگریز فارم مالکان کے خلاف مسلح جہدو جہد دونوں نقصان پہنچا۔اس کے بعد سرسید کی ترقی پسندانہ علی گڑھ تحریک نے مسلمانوں کو دقیانوسی ملاؤں کی راہ سے ہٹاکر جدید تعلیم اور سائنس کے رحجانات کی جانب موڑا تو مسلمانوں میں وہ تعلیم یافتہ طبقہ پیدا ہوا جو جدید مسلم انڈیا اور پھر پاکستان کے قیام پر منتج ہوا۔
اس قسم کی ایک او ر جہادی تحریک جس میں سادہ لوح مسلمان اپنے گھروں سے نکل کھڑے ہوے اور اپنی مقامی سیاسی جہدوجہد کو چھوڑ کر ایک دور دراز علاقے میں اپنی جانو ں کا نذرانہ لے کر پہنچ گئے ،وہ بیسویں صدی کے اوائل میں تحریکِ خلافت کے دوران تحریک ہجرت کی شکل میں سامنے آئی ۔جب 10اگست1920کو سلطان ترکی نے معاہدہ سیور ے پر دستخط کر دیے اور شکست خوردہ سلطنتِ عثمانیہ کے وسیع عریض علاقوں سے دستبرداری کو قبول کر لیا تو برصغیر میں جمعیت العلمائے ہند کے سیکرٹری مولوی عبدالباری نے فتویٰ صادر کر دیا کہ انگریزوں کے ماتحت ہندوستان دارالحرب ہے اس لیے مسلمانوں کو یاں سے ہجرت کر دینی چاہیے۔یاد رہے کہ سلطنت عثمانیہ کا زوال اور عبرتناک انجام دیگر محرکات کے علاوہ اسی قسم کے فتویٰ باز ملاؤں کی بدولت ہوا تھا جو مذہب کے نام پر ہمیشہ اس کی سیاسی،معاشرتی اور معاشی ترقی کی راہ میں حائل ہوتے تھے جب کہ مد مقابل یورپ کے ممالک ہمہ گیر ترقی کی راہ پر تیزی سے گامزن تھے اور ان کی صنعتی و فوجی قوت میں روز بروز اضافہ ہو رہا تھا تاہم مولوی عبدالباری کے مذکورہ فتویٰ کی مولانا محمدعلی جوہر ،مولاناابوالکلام آزاداوردوسرے خلافتی رہنماؤں نے بھی حمایت کی ۔اس فتویٰ کااثر قبول کرکے مسلمان کے ادنیٰ درمیانہ طبقے کے تقریباً 18ہزار نیم تعلیم یافتہ افراد اپنا سب کچھ بیچ باچ کر اپنے اہل و عیال کے ہمراہ’’دارالحرب‘‘ہندوستان کو چھوڑ کر ’’دارالسلام‘‘افغانستان کی جانب چل پڑے۔ جب وہ اس برادر اسلامی ملک کے علاقے میں پہنچے تو وہاں کی حکومت نے انہیں سرحد پر ہی روک دیا اور ان خانماں برباد مہاجرین کو افغانستان میں رہنے کی اجازت نہ دی گئی۔ لہذا انہیں ذلیل وخوار ہو کر واپس اپنے گھروں کو آنا پڑا اور راستے میں ان میں سے بہت سے لوگ فاقہ کشی اور مختلف امراض میں مبتلا ہو کر جاں بحق ہو گئے۔مذہبی جذبے سے مغلوب ہو کر مصائب برداشت کرنے والے ان مہاجروں میں پنجاب ، سندھ اور سرحد کے رہنے والوں کی تعداد زیادہ تھی ایک غیر سرکاری اندازے کے مطابق جن لوگوں نے تحریک ہجرت میں حصہ لیا تھا ان کی تعداد 5لاکھ سے 30لاکھ تھی۔وہ لوگ نہ افغانستان میں ر ہ سکتے تھے اور اگر واپس اپنے گھروں کو جاتے تھے تو ان کے پاس اب زمینیں نہیں تھیں اور کاروبار بند ہو چکے تھے ۔مہاجرین کی کثیر تعداد خصوصاً بوڑھے ،عورتیں اور بچے سفر کی صعوبتیں برداشت نہیں کر سکے اور راستے میں جان بحق ہو گئے ۔پشاور سے کابل تک کی سڑک ان بدنصیب بوڑھوں ،عورتوں اور بچوں کی قبروں سے بھر گئی تھی جو زندہ واپس پہنچے میں کامیاب ہو ئے تھے ان کے پاس نہ تو پیسہ تھا اور نہ ہی ذریعہ روزگار تھا ۔لیکن مولوی عبدالباری اور دیگر فتویٰ باز ملاؤں نے جن کے ایما پر یہ لوگ ’’دارلحرب‘‘سے ’’دارالسلام‘‘ہجر ت کر گئے تھے ،وہ ان کی مصیبتوں میں شریک نہ تھے ۔ملاؤں کی سیاست نے انہیں کہیں کا نہ چھوڑاتھا ۔وہ بالکل تباہ و برباد ہو گئے تھے ۔
اسی طرح بعض لوگ کسی نہ کسی طرح ترکی پہنچنے میں کامیاب ہو گئے جنہیں وہاں سے خلافت کے خاتمے کے نتیجے میں بے نیل و مرام واپس لوٹنا پڑا اور ان کے خاندان بھی تباہی و بربادی سے دوچار ہوے ۔یاد رہے کہ بانی پاکستان قائد اعظم محمدعلی جناح نے نہ تو تحریک خلافت میں حصہ لیا اور نہ تحریک ہجرت کی حمایت کی ۔ان کا ہیرو سلطان ترکی خلیفہ عبدالوحید نہیں بل کہ نئے سیکولر قوم پرست ترک جمہوریہ کا صدر مصطفی کمال پاشا تھا جس نے 1924میں خلافت کا منصب ہمیشہ کے لیے ختم کر دیا اور نیا آئین بنایا جس میں کہا گیا کہ جو عناصر سیاسی مقاصد کے لیے مذہب کو استعمال کریں گے انہیں آئین کے تحت سزادی جائے گی ۔اور پھر برصغیر کے کروڑوں مسلمانوں نے لبرل آزاد خیال محمد علی جناح کو اپنا رہنما بنا کر ان فتویٰ باز ملاؤں اور ان کی مذہبی جماعتوں کو رد کر دیا اور پاکستان حاصل کرنے میں کامیاب ہوے ۔جس طرح سید احمد بریلوی کی وہابی تحریک کے برعکس سرسید احمد خان کی علی گڑھ تحریک نے مسلم عامتہ الناس کو فائدہ پہنچا یا تھا اس طرح تحریک خلافت کے مسلمانوں پر منفی اثرات ہوے اور اس کے برعکس محمد علی جناح کی ترقی پسندانہ قیادت نے پاکستان حاصل کر کے برصغیر کے شمال مغرب اور شمال مشرق کی وسیع مسلمان آبادی کی ترقی کا سامان پیدا کیا تھا ۔
حالیہ تاریخ میں ایک بڑی مثال نام نہاد افغان جہاد کی ہے جس میں دنیا بھر سے بالعموم اور پاکستان سے بالخصوص ہزاروں مسلمان نوجوانوں نے گھر بار چھوڑ کر حصہ لیا اور ایک درد ناک انجام سے دو چا ر ہوے ۔افغانستان ستر کے عشرے کے اواخر میں دو سپر طاقتوں امریکہ اور سوویت یونین کے مابین سرد جنگ کا میدا نِ کا ر زار بن گیا ۔پاکستان کہ جس کے حکمرانوں نے اسے اپنے قیام کے دن سے مکمل طور پر اینگلو امریکی سامراج کی جھولی میں ڈال دیا تھا ۔آگے بڑھ کر افغانستان میں کود پڑا اور اسے اسلامی جہاد کا نام دے دیا گیا ۔ امریکی سامراج اور اس کی حلیف مغربی یورپی طاقتوں نے اپنی تجوریوں کے منہ کھول دیے۔یہودی لابی اور اس کے سرغنہ امریکی قومی سلامتی کے مشیر برزنسکی نے پشاور میں آکر اپنے ’’دست مبارک ‘‘سے جہادی تنظیموں کو امداد تقسیم کی اس وقت ملاؤں کو قرآن پاک کی یہ آیت5/51کبھی یاد نہ آئی کہ ’’یہود و نصاریٰ کبھی مسلمانوں کے دوست نہیں ہو سکتے ‘‘ مغربی میڈیا نے افغانستان مجاہدین کے کارنامے بڑھا چڑھا کر بیا ن کرنے شروع کیے ۔جعلی مقابلے تک فلما کر مغربی میڈیا پر دکھائے جاتے تھے ۔جتنی فتوحات افغان مجاہدین کی پیش کی جاتی تھیں اس حساب سے کئی افغانستان ملا کر فتح ہو چکے تھے ۔دوسری طرف پاکستان میں مذہبی جہادی تنظیموں کے لیے جہاد کا یہ کاروبار خوب چمکا۔جن ملاؤں کے پاس بائیسکل تک نہ تھی اب پجارو گاڑیوں میں گھومنے پھرنے لگے ،ضیاء الحق کی سر پرستی میں فرقہ وارانہ تنظیمیں خود رو جھاڑیوں کی طرح پورے ملک میں پھیل گئیں ۔مغربی ملکوں سے آنے والے اسلحہ کو جوانبار لگا دئیے گئے تھے سر بر آوردہ جرنیلوں نے اس کا ایسا کاروبار کیا کہ ان کی اگلی نسلیں بھی کروڑ پتی بن گئیں۔ان جرنیلوں نے منشیات کے کاروبار کو بھی فروغ دیا اور سوئٹزر لینڈ میں ان کے بینک بیلنس آسمان سے باتیں کرنے لگے ۔لیکن اس سادہ لوح مسلمان کو کیا ملا جو مراکش،تیونس،الجزائر،مصر ،شام ،اردن ،سعودی عرب،اور شیشان سے یہاں جہاد کرنے کی غرض سے پہنچ گیا تھا ۔علاوہ ازیں پاکستان بالخصوص صوبہ سرحد سے بے شمار نوجوان اس جہاد میں حصہ لینے وہاں پہنچ گئے ۔
89میں سوویت یونین کے افغانستان سے یک طرفہ انخلاء کے بعد ان جہادی تنظیموں میں حکومت سازی پر اتفاق نہ ہو سکا ۔مکہ میں بیت اللہ شریف میں بیٹھ کر معاہد ہ کر لینے کے باجود یہ ایک دوسرے پر اعتماد نہ کر سکے اور 89سے 2001تک بارہ سال تک خانہ جنگی میں مبتلا رہے کوئی ’’اسلامی اتحاد و اخوت‘‘ان کے مابین قائم نہ ہو سکا ۔دل چسپ بات یہ ہے کہ کہ اس خانہ جنگی کو بھی جہاد قرار دیا جاتا رہا جس میں ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا گلا کاٹنے میں مصروف تھا ۔عام سادہ لوح مسلمان نوجوان جو باہر سے وہاں گیا تھا، مختلف مذہبی تاویلوں کے تحت اس خانہ جنگی کو بھی جہاد سمجھ کر اس میں حصہ لیتا رہا۔تاآنکہ 9/11کا واقعہ ہوا۔امریکی سامراج اپنی فضائی اور زمینی افواج کے ساتھ وہاں کود پڑا کابل اور قندھار سے تو رابورا کے غاروں تک امریکی فضائی بمباری سے ہزاروں افراد مارے گئے یازخمی ہوے ۔بے شمار جہادی یا تو مارے گئے یا گرفتا رہوگئے یا لٹے پٹے سرحد عبور کر کے پاکستان پہنچ گئے ۔بے شمار افراد کے خاندان اجڑ گئے ۔بے شمار نوجوانوں کی تعلیم برباد ہوگئی ۔دینی مدرسوں میں تربیت یافتہ ہزاروں نوجوان جنہیں ’’طالبان تحریک‘‘کے ذریعے جہاد میں جھونک دیا گیا تھا زیادہ تر غریب کسانوں یا بے زمین قبائیلیوں کی اولاد تھے اب ان کے پاس نہ تعلیم تھی نہ کوئی ہنر اور نہ روپیہ کہ کوئی کاروبار کر سکیں۔
گزشتہ دو سو سال کی تاریخ سے صرف برصغیر میں یہ تین بڑی مثالیں دی گئی ہیں جن کے نتائج کم و بیش ایک جیسے نکلے ۔ٹھوس زمینی حقائق اور عالمی سیاست سے لاعلمی او ر جدید تقاضوں سے بے بہر ہ مذہبی قیادت کے ہاتھوں سادہ لوح مسلمانوں کو ہر مرتبہ شدید نقصان ،مایوسی اور بربادی سے دوچا ر ہونا پڑا۔بعض دیگر مثالیں بھی ہیں۔جن کا محض سرسری تذکرہ کروں گا:
۱:خاکسار تحریک :علامہ عنایت اللہ مشرقی نے بیلچہ بردار دستوں پر مشتمل ہزاروں نوجوانوں کو تیار کیا ۔وہ بیلچہ کے ذریعے ہندوستان کی فتح کرنا چاہتے تھے اور لال قلعہ پر اسلامی جھنڈا لہرا نا چاہتے تھے۔ اس کی ناکامی سے سب ہی واقف ہیں۔
۲:اینٹی قادیانی تحریک:53میں اور پھر74میں چلی۔ انہیں غیر مسلم اقلیت قرار دے دیا گیا ۔بے شمار احمدی ملک چھوڑ کر چلے گئے۔ بہت سی جگہوں پر احمدیوں کو کلمہ پڑھنے بلکہ السلام علیکم کہنے کے جرم میں تشدد کا نشانہ بنایا گیا ۔بعض کو مار ڈالاگیا۔
۳:مشرقی پاکستان میں مہاجر بہاریوں نے 1970-71میں پاکستانی فوج کی سرپرستی میں جماعت اسلامی کی ذیلی نیم مسلح تنظیموں’’البدر‘‘اور ’’الشمس‘‘کو قائم کیا جس نے بنگالی عوام کے خلاف پاکستانی فوج کے لیے مخبری کے علاوہ بنگالیوں کے خلاف مسلح کاروایوں میں بھی حصہ لیا جسے یہ لوگ جہاد کا نام دیتے تھے ۔سقوط مشرقی پاکستان کے بعد ان میں جو صاحب حیثیت تھے وہ مغربی پاکستان پہنچنے میں کامیاب ہو گئے لیکن ان کا اکثر غریب طبقہ وہاں مہاجر بہاری کیمپوں میں محصور کر دیا گیا جو ابھی تک بے حال زندگی گزار رہا ہے ۔
۴:۱۹۷۷میں ذوالفقار دعلی بھٹو کو اقتدار سے ہٹانے کے لیے پی این اے نے انتخابات میں مبینہ دھاندلی کو بنیا د بنا کر تحریک چلائی جس میں مذہبی نعروں کو استعمال کیا گیا اور نفاذ اسلام کو اس کا نصب العین قرار دیا گیا ۔اس کے نتیجہ میں بھٹو حکومت کا خاتمہ اور مارشل لا ء کا نفاذ عمل میں آیا اور مذہبی جماعتوں کو سرکاری سرپرستی میں خوب پھلنے پھولنے کا موقع ملا ۔ہر مذہبی جماعت کا اپنا اپنا ’’نفاذ اسلام ‘‘تھا اور ضیاء الحق کا اپنی آمریت کو طول دینے کے لیے اپنا’’نفاذ اسلام‘‘تھا ۔نتیجہ یہ ہوا کہ معاشرہ میں موجود سیکڑوں برس سے قائم فرقہ وارانہ ہم آہنگی تار تار ہو گئی اور خود روفرقہ وارانہ مسلح تنظیمیں وجود میں آگئیں ۔ٖضیاحکومت اورسعودی حکومت نے چندمخصوص تنظیموں کی مالی اور عملی سرپرستی کی جب کہ ایرانی حکومت نے دوسرے فرقے کی مسلح تنظیموں کی امداد شروع کر دی ۔مساجد، امام بارگاہیں،بم دھماکوں کا شکار ہو گئیں۔عام مسلمان وہاں جاتے ہوے ہمہ وقت اپنے آپ کوغیر محفوظ سمجھتا ہے ۔دونوں بڑے فرقوں کے بیشتر علمائے دین قتل ہوچکے ہیں اور یہ سلسلہ بدستور جاری ہے ۔فرقہ واریت کا دائرہ عیسائی عبادت گاہوں تک بڑھا دیا گیا جن کے ساتھ تعلیمی درسگاہیں بھی منسلک ہیں۔بے رحمانہ قتل و غارت کے کئی واقعات رونما ہو چکے ہیں۔’’نفاذ اسلام‘‘تو نہ ہو سکا البتہ بے شمار قیمتی جانوں کا زیاں ہو چکا ہے جن میں ڈاکٹر ،انجینئر ،بینک کار،اساتذہ اور دیگر اعلیٰ پروفیشنلز شامل ہیں۔اور اب اس میں خود کش حملوں کا سلسلہ بھی شروع ہو چکا ہے ۔مذہبی جنونیت کی انتہا ہو چکی ہے لوگوں کے ذہن اس حد تک برین واش کر دیے جاتے ہیں کہ وہ اپنی جان پر کھیل جانے پر تیار ہو جاتے ہیں۔اور سمجھتے ہیں کہ وہ سیدھے جنت میں پہنچ جائیں گے ۔
تاریخ فہمی کے مسائل
سادہ لوح مسلمان احیائے اسلام کی ان پر تشدد تحریکوں کا ایندھن بننے کے لیے کیوں تیار ہوتے ہیں؟ان تصورات یا نظریات کی بنیاد کیا ہے جن کی کشش انہیں ان تحریکوں کا لقمہ بننے کے لیے اپنی جانب کھینچ لیتی ہے ؟عام مسلمان بھی ان تصورات یا نظریات کا اسیر ہے اور بعض اس کنفیوژن میں ہیں کہ ان نظریات کی حمایت کرے یا نہیں ۔ دراصل ان کی جڑیں ہماری تاریخ فہمی میں پیوستہ ہیں۔ہم اپنی تاریخ کو مذہبی لٹریچر کے طور پر پڑھتے اور لکھتے ہیں ۔اور اپنی تاریخ کو اسلامی تاریخ یا تاریخ اسلام کہتے ہیں۔جب کہ نہ تو یورپ اور امریکہ کی تاریخ کو ،مسیحیت کی تاریخ اور نہ ہندوستان کو ہندو تاریخ اور نہ ہی چین جاپان اور مشرقی بعید کی تاریخ کو بدھ مت کی تاریخ کہا جاتا ہے ۔کسی عقیدے یا مذہب سے تعلق رکھنے والے حکمرانوں یا بادشاہوں کی تاریخ کو اس دین یا مذہب یا عقیدے کی تاریخ نہیں کہا جاتا ۔اس لیے کے تاریخ مختلف گروہوں کے مابین اقتدار ،سیاسی کشمکش،حکومتوں کے بننے اور بگڑنے کی داستان بیان کرتی ہے اور عام طور پر اسے اس خطے یا گروہ کی تاریخ کہا جاتا ہے ۔ایک ہی عقیدے یا مذہب سے تعلق رکھنے والے جب آپس میں اقتدار کی کشمکش یا ذاتی مفاد کی جنگ کرتے ہیں تو واقعات کے اس تسلسل کو اس عقیدے یا مذہب کی تاریخ نہیں کہا جا سکتا ہے ۔اسے اس عقیدے کے پیروکاروں کی سیاسی تاریخ کہاجاسکتاہے ۔مذہب یا دین بالخصوص اسلام ایک الوہی معاملہ ہے اور لافانی ہے جب کہ سیاست اور سیاسی نظام اور سیاسی کش مکش ہر دور ہر علاقے اور سماجی ترقی کے ہر مرحلے کے ساتھ تبدیل ہوتی رہتی ہے ۔
اب ہم تاریخ کو عقیدے سے جدا کرکے معروضی طور پر ان چار مفروضوں کا جائزہ لیتے ہیں کہ ہم کس قسم کے مغالطوں کا شکار ہیں۔
اسلامی نظام حکومت
اسلامی نظام حکومت سے کیا مراد ہے ؟
یہ ایک ایسی تجریدی اصطلاح ہے جس کی واضح تعریف کہیں موجود نہیں ہے۔کسی نظام کی بنیادی اکائیاں یہ ہوتی ہیں کہ حکومت قائم کیسے کی جائے ،حکومت کس طرح چلائی جائے ،حکومت میں اختیارات کی تقسیم کن اداروں میں اور کس طرح کی جائے اور آخری مگر ضروری بات یہ کہ حکومت تبدیل کیسے کی جائے ؟ہم مسلمانوں کی سیاسی تاریخ سے ایک ایسے نظام کا خاکہ تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں جس میں مذکورہ سوالوں کے جواب موجود ہوں۔آئیے ہم دیکھیں کہ ماقبل اسلام،ابتدائی زمانہ اسلام اور عہد عروج سے دورِ زوال تک کون سے نظام ہائے حکومت تھے جن پر عمل کیا جاتا تھا؟
ریاست او ر سیاسی نظام کا ارتقاء
انسانی تاریخ میں ریاست ہمیشہ سے موجود نہ تھی انسان سیکڑوں ہزاروں سال ریاست کے بغیر زندگی گزارتا رہا ۔دریائی وادیوں میں جب زرعی انقلاب ہوا وافر دولت Surplus Wealthپیدا ہوی تو طبقات نے جنم لیا۔ان طبقات کے مابین توازن رکھنے ،وافر دولت اور غالب طبقوں کی حکمرانی قائم کرنے اور برقرار رکھنے کے لیے ریاستی ڈھانچہ وجود میں آیا ۔اس کا ڈھانچہ موروثی بادشاہت پر مبنی تھا اس کے ابتدائی مراکز دنیا کے بڑے دریاؤں کی وادیاں تھیں ۔5500سال پہلے وادی نیل(مصر)اور میسو بو ٹیمیا (دجلہ وفرات ) میں بادشاہتیں قائم ہویں ۔ تقریباً اسی زمانے میں چین اور ہندوستان میں بھی موروثی بادشاہتیں قائم ہویں ۔4500سال پہلے وسطی امریکہ اورجنوبی امریکہ (اگر چہ وہ ایک علاحدہ دنیا تھی) وہاں موروثی بادشاہت پر مبنی ریاست وجود میں آئی ۔پھر یونان ،روم اور ایران میں اس قسم کی بادشاہتیں قائم ہوئیں۔
ارتقاء
٭شہری ریاست
٭کئی شہری ریاستیں مل کر سلطنت ،بادشاہت
٭کئی سلطنتوں پر قبضہ کرکے شہنشاہیت
سکند ر اعظم عالمگیر سلطنت کا پہلا بانی ہوا ۔پھرا شوک اور پھر رومن ایمپائر۔طبقہ اور رعیتParamid Authorityحکمران خاندان ۔سپہ سالار اور فوجی افسر اہل حرفہ اور اہل فن کا درمیانی طبقہ اور رعیت ۔دوسری طرف وہ علاقے جو دشت و صحرا تھے ۔پیداواری ذریعے محدود تھے وافر دولت موجود نہ تھی ،طبقات موجود نہ تھے البتہ قبائل موجود تھے جو نسلی وحدت کے طور پر منظم تھے ۔یہ قبیلہ ایک ریاست کی مانند ایک اکائی ہوتا تھا۔افراد کی وابستگی اور وفاداری اپنے قبیلے کے ساتھ ہوتی تھی ۔قبائل کے سردار اور سر بر آوردہ لوگ اپنے اپنے قبیلے کے معاملات کی دیکھ بھا ل کرتے تھے ۔ایک قبیلہ دوسرے قبیلے کے ساتھ ویسے ہی معاملات طے کرتا تھاجیسے دو ریاستیں باہم معاملات طے کرتی ہیں ۔ معاہدے ٹوٹتے ،جنگیں ہوتیں پھر صلح ہوتی ۔نئے معاہدے طے پاتے ۔اسے اینگلز نے قبائلی کنفیڈر یسی کا نام دیا ہے ۔
دونوں نظام کسی مذہب یا عقیدے سے پیدا نہیں ہوے تھے ۔بل کہ اپنے علاقے کی معاشی و سماجی ترقی کے حوالے سے قائم ہوے تھے۔ترقی یافتہ سلطنتیں یا باد شاہتیں مختلف مذاہب سے تعلق رکھتی تھیں۔چین ،ہندوستا ن ،ایران ،روم،یونان کے بادشاہ راجہ یا شہنشاہ ۔کسی کا کوئی مذہب تھا اور کسی کا کوئی لیکن معاشی وسماجی ارتقاء تقریباً ایک سا ہونے کی وجہ سے یعنی زرخیز دریا کی وادیوں کی دولت کی معیشت کی بدولت ،ریاست کا نظام ایک جیسا تھا ۔یعنی موروثی بادشاہت ۔جسے ہم اپنے اس دور کا مروجہ سیکولر نظام کہتے ہیں جو دنیا کے مختلف علاقوں میں قائم تھا ۔
دوسرا پس ماندہ معیشت یا Deficitکے علاقوں کا قبائلی نظام جس میں ریاست موجود نہ تھی لیکن بین القبائلی معاہدوں اور جرگوں کی بنا پر ایک تواز ن موجود تھا اس نظام کی اساس بھی مذہب یا عقیدے پر نہیں تھی ۔منگولیا کے صحرائے گوبی والے ہوں ،شمالی افریقہ کے بر بر ہوں ،زیریں صحرائے اعظم (Sub Saharan)افریقہ کے جنگلوں کے باسی ہوں ،وسط ایشیا ء کے ترک یا افغان ہوں ،آسٹریلیا جنو ب مشرقی ایشیا ء کے جنگلوں کے قبائل ہوں یا ہنوز نامعلوم دنیا یعنی امریکہ کے انڈین قبائل ہوں․․․․سب جگہ ریاست بہ شکل موروثی بادشاہت موجود نہ تھی بل کہ قبائلی کنفیڈریسی کی صورت میں ایک نظام یا توازن قائم تھا ۔گویا یہ دوسرا نظام بھی بلالحاظ مذہب و علاقہ ایک ایسا سیکولر نظام تھا جس کی جڑیں اپنے علاقے کے معاشی و سماجی ارتقاء میں پیو ست تھیں ۔
ساتویں صدی عیسوی کے اوائل میں بعثت اسلام کے وقت دنیا میں تہذیبی ارتقاء کے حوالے سے وسیع تر تقسیم دو حصوں میں کی جاسکتی تھی ۔ایک وہ جو دریائی وادیوں پر مشتمل تھا اور زرعی اور معدنی دولت سے مالامال اور سیاسی و سماجی تنظیم کے اعتبار سے ترقی یافتہ اور دوسرا وہ جو مادی وسائل کے لحاظ سے پس ماندہ تھا اور دشت و صحرا میں گھومنے پھرنے والے بدوؤں ،قبائیلیوں پر مشتمل تھا اور سیاسی و سماجی تنظیم کے اعتبا ر سے پس ماندہ یا ترقی پذیر تھا ۔اول الذکر حصہ میں بڑی تہذیبوں اور بڑی سلطنتوں کے کئی عروج و زوال ہو چکے تھے جب کہ آخر الذکر حصہ میں ابھی ریاست یا سلطنت وجود میں نہیں آئی تھی ۔
جزیدہ نما عرب آخر الذکر نوع سے تعلق رکھتا تھا جہاں ایک قبائلی معاشرہ تھا اور یہاں کوئی باقاعدہ ریاست یا حکومت نہ تھی البتہ سرحدوں پر بعض پاکٹس Pocketsتھیں جہاں ریاست کی شکل موجود تھی ۔ان میں جزیرہ نما عرب کے جنوب میں یمن اورحضر موت کے محدود علاقے میں ریاست رہی تھی جہاں خود مختارموروثی بادشاہت کئی صدیوں تک قائم رہی ،پھر حبشہ کے فرمانرواؤ ں اور بعد ازاں ایران کی کسریٰ کے زیر نگیں باجگزار صوبے کی حیثیت سے رہی ۔لیکن اس کا کوئی اثر یا غلبہ جزیرہ نمائے عرب کے وسیع تر حصوں یعنی حجاز ،نجد اور نفوذ پر نہ ہو سکا ۔بعثت سے کچھ عرصہ قبل عراق کی سرحد پر بصرہ اور شام کی سرحد پر حیرہ اور غسان کی چھوٹی چھوٹی ریاستیں قائم ہویں جو دراصل ایرانی سلطنت اور باز نطینی رومی سلطنت کے مابین بفر سٹیٹ کا درجہ رکھتی تھیں اور کبھی ایک اور کبھی دوسری سلطنت کے زیر نگیں ہو جاتی تھیں ۔ایک اور پاکٹ یمامہ و بحرین میں کندہ کی بھی تھی جو ایرانیوں کے زیر اثر تھی ۔جزیرہ نما وسیع وعریض قبائلی معاشرہ پر مشتمل تھا ۔اس میں مکہ ،طائف اور یثرب (مدینہ) چھوٹے چھوٹے قصبات تھے مگر یہاں بھی کوئی ریاست موجود نہ تھی ۔قبیلہ کا حاکم سردار ہوا کرتا تھا ۔علاقے یا شہر کا کوئی حاکم یا سلطان نہیں ہوتا تھا ۔افراد کی قومیت کی شناخت قبیلے سے ہوتی تھی اور فر د کی وفاداری اور وابستگی قبیلے کے ساتھ ہوتی نہ کہ کسی علاقائی یا شہری ریاست کے ساتھ ۔خون کے رشتے یعنی قبیلے یا خاندان کو زمینی رشتے کی نسبت زیادہ اہمیت حاصل ہوتی تھی۔پس ماندہ صحرائی معیشت پر گزارہ کرنے والے اس قبائلی سماج کو ایک باقاعدہ ریاست کی ضرورت بھی نہ تھی ۔ہر قبیلہ اپنی ذات میں ایک ریاست تھا جس کا اپنا رئیس ہوتا تھا ۔ایسے معاملات جو ایک سے زائد قبائل کو در پیش ہوتے ان کے طے کرنے کے لیے روایت اور رواج سے کام لیا جاتا جو سیکڑوں سال کے تجربہ سے ان قبائل نے اختیار کیے ہوے تھے۔انہیں ’’عرف‘‘کہا جاتا تھا ،مادی مفادات پر لڑائیاں بھی ہوتیں جن میں پانی کے کنوئیں ،نخلستان ،تجارتی قافلوں کے راستے ،حج و خانہ کعبہ پر جمع ہونے والے نذرانے وغیرہ شامل ہو تے تھے،پھر صلح اور عہدو پیمان کے لیے صلاح و مشورے یعنی جرگے منعقد ہوتے اور جتنے عرصہ کے لیے عہد پر قائم رہتے امن و امان رہتا اور جب کوئی فریق عہد توڑ دیتا ،قبایل نئی صف بندی کر کے ایک دوسرے سے نبرد آزما ہو جاتے تھے ۔تاآنکہ ایک نیا معاہد طے پا جاتا یا ایک فریق بزور شمشیر اپنا غلبہ منوا لیتا ۔باہمی عہدو پیمان اور قول و قرار کو بے حد اہمیت حاصل تھی اور قبائل اسے اپنی انا کا مسئلہ گردانتے تھے ۔اس لیے مرد ایک دوسرے کے ہاتھ پر ہاتھ مارتے اور عورتیں زبانی اقرار کرتیں اسے بیعت کہا جاتا تھا ۔بیعت توڑنے کو بہت معیوب سمجھا جاتا ۔آپ اسے اس وقت وہاں کا مروجہ سیاسی نظام کہہ سکتے ہیں جس کی بنیاد سیکولر رواج پر تھی نہ کہ مذہب پر۔
ابن ہشام اور طبری کا مطالعہ سے ماقبل اسلام عربوں کے سیاسی نظام میں رائج روایت دستور کی یہ چند مثالیں دی جا سکتی ہیں۔
۱:مکہ کے ایک حصے میں بنی اسمٰعیل اور ان کی نانہیال بنی جر ہم آباد تھے جب کہ دوسرے حصے میں بنی قطورا ۔جو لوگ مکہ کی بلند جانب سے اس میں داخل ہوتے ان سے بنی جرہم محصول عشر وصول کرتے جب کہ جو نشیبی جانب سے آتے ان سے بنی قطور اعشر لیتے ۔ہر ایک اپنے اپنے قبیلے میں رہتا اور کوئی ایک دوسرے کے پاس نہ جاتا یہاں تک کہ یہ دونوں قبیلے ہوس حکومت میں مقابلہ کرنے لگے اور ان کے مابین جنگ ہوی جس میں بنی قطور شکست کھا گئے ۔یہ مکہ میں ہونے والی پہلی لڑائی تھی ۔اس کے بعد قبیلوں کی تمام شاخیں جمع ہویں۔ان میں صلح ہوگئی اور حاکمیت بنی جرہم کے ہاتھ آئی اور وہ متولی کعبہ بن گئے ۔اس واقعہ سے روایت یا رواج ظاہر ہواکہ لڑائی کے باوجود اقتدار کا فیصلہ قبائل کے جرگے میں ہوا ۔
۲:ایک عرصہ گزرنے کے بعد بنی جرہم کے افراد کے مابین کعبہ میں جمع ہونے والے نذرانوں پر پھوٹ پڑگئی تو انہیں بنی خزاعہ نے صورت حال کا فائدہ اٹھا تے ہوے بنی جرہم سے جنگ کی اور انہیں مکہ سے نکال دیا اور کعبہ کی تولیت پر قابض ہو گئے ۔گویا فیصلہ شمشیر سے ہوا۔
۳:بنی خزاعہ کے آخری متولی حلیل کے بعد اس کے داماد قصی بن کلاب اور بنی خزانہ کے مابین تولیت کعبہ پر ٹھن گئی ۔ایک روایت کے مطابق حلیل نے اپنے داماد قصی کے حق میں وصیت کر دی تھی جس پر قصی نے اس کے جانشین ہونے کا دعویٰ کر دیا ۔قصی بن کلاب کی بنی خزاعہ سے جنگ ہو ئی اور فریقین کے بہت سے لوگ مارے گئے ۔پھر انہوں نے ایک دوسرے کو صلح کی دعوت دی اور عر ب ہی میں سے یعرب نامی ایک شخص کو حکم (ثالث ) بنایا گیا اس ثالث نے قصی کے حق میں فیصلہ دے دیا اور تولیت کعبہ ،حاجیوں کو پانی پلانے کی خدمات (سقایہ) اور حاجیوں کی ضیافت(رفادہ)مجلس شوریٰ(ندوہ ) اور پر چم(لوأ)سب کچھ قصی کو حاصل ہوگیا۔یہاں سے معلوم ہوا کہ ثالث(حکم) کو مقرر کر کے حاکمیت کا فیصلہ کروانا بھی ایک رواج تھا ۔اس کے علاوہ مجلس شوریٰ یا جرگہ کا ادارہ بھی ان قبائل میں موجود تھا ۔بل کہ قصی نے مشورے کے لیے اک کمرہ بنایا جس میں قریش اپنے معاملات کے فیصلے کیا کرتے تھے اور اسے دارلند وہ کا نام دیا گیا تھا ۔
۴:بنی عبدالدار اوربنی عبدمناف میں تنازعہ ہواور یہ جنگ کے قریب تر آگئے ،مگر پھر صلح اس شرط پر ہو گئی کہ سقایہ اور رفادہ بنی عبد مناف کو دے دی جائے اور حجابہ،لوأاور ندوہ بنی عبدلدار کے پاس رہے۔اسے معاہدہ مطبیعین کہا جاتا ہے ۔
۵:قصی کے بعد اس کی آل میں ہاشم اور امیہ کے مابین تنازعہ ہوا تو دونوں نے ایک کاہن الخزاعی کو حکم مقرر کیا جس نے فیصلہ ہاشم کے حق میں دیا ۔پھر عبدالطلب بن ہاشم اور حرب بن امیہ کے مابین تنازعہ ہوا تو انہوں نے نفیل نامی ایک شخص کو حکم بنایا اور اس نے عبدالمطلب کے حق میں فیصلہ دے دیا۔
یہ تھا سیاسی نظام جو بعثتِ آنحضور ؐ کے وقت قبائلی معاشرہ میں بطور روایت و رواج کے موجود چلا آتا تھا۔بعثت کے وقت کعبہ کی تولیت اور حاجیوں کو پانی پلانے کی خدمت آپؐ کے چچا عباس بن عبدالمطلب کے پاس تھی ۔تاہم مکہ میں کوئی ریاست یا ریاستی اقتدار نام کی چیز موجود نہ تھی ۔قبائلی سیاسی نظام اپنی روایات و رواج کے مطابق چل رہا تھا۔
علامہ احمد امین کے مطابق’’زمانہ جاہلیت میں حجاز کے عرب․․․․․بادیہ نشین یا بادیہ نشینوں کی طرح تھے ۔ان کی کوئی منظم حکومت نہ تھی نہ ان کے ہاں ایسے بادشاہ تھے جو اپنی تنقیدی قوتExecutive powerسے لوگوں کو ایک دوسرے سے زیادتی کرنے سے باز رکھتے ،ان کے ہاں قبیلے ہوتے تھے․․․․․․قبیلہ سے ہر فرد کا فرض ہوتا تھا کہ وہ قبیلہ کی مدافعت کرے اور اس کے عرف اور رواج کے سامنے سرتسلیم خم کر دے ۔ہر قبیلہ کا ایک سردار ہوتا تھا جسکی قیادت تمام افراد قبیلہ پر ہوتی تھی اسے یہ سیاست یا تو اس وجہ سے ملتی تھی کہ وہ رئیس گھرانے میں پیدا ہوا ہے یا اس وجہ سے کہ اس کی عمر سب سے زیادہ ہے یا اس وجہ سے کہ وہ صاحبِ حکمت ہے او رصاحب عقل ہے دوسرے قبائل سے خارجی تعلقات کی تعین و تشکیل اس سردار کے ہی ہاتھوں سر انجام پاتی تھی ․․․․ہر قبیلہ کے اپنے عرف اور رسوم و رواج ہوتے تھے جن میں سے کچھ تو بعض اوقات مشترک ہوتے تھے اور کچھ الگ الگ ․․․․․ہر قبیلہ کا ایک حکم یا فیصلہ کن شخصیت ہوتا تھا جو افراد قبیلہ کے باہم تنازعات کافیصلہ اپنے رسوم و رواج اور تجربات کے مطابق کرتاتھا۔علامہ احمد امین آگے چل کر لکھتے ہیں کہ ’’اسلام نے زمانہ جاہلیت کے قانون،باالفاظ دیگر عربوں کے عرف عام اور ان کے رسم و رواج کے ساتھ بالکل بے تعلقی نہیں برتی ۔ان میں سے بعض باتوں کو برقرار رہنے دیا ،بعض باتوں کو ختم کر دیا اور بعض باتوں کومعتدل بنا دیا ‘‘۔
ہجرت کے بعد آنحضورؐ نے مدینہ میں مہاجرین ،انصار اور یہودیوں کے مابین ایک معاہد ہ طے کیا جسے میثاقِ مدینہ کہا جا تا ہے اس کے مطابق ہر قبیلے کو ماقبل اسلام سے رائج اپنے اپنے دستور کے مطابق اپنے معاملات چلانے کا حق حاصل تھا۔یہودیوں کو اپنے دین پر رہتے ہوے اپنے امور اپنے دستور کے مطابق بجالانے کا اختیار حاصل تھا ۔یہ دراصل قریش مکہ کے خلاف ایک متحدہ محاذ کے قیام کی دستاویز تھی ۔ان میں شریک فریقین کے مابین کسی نئے معاملہ یا تنازعہ کی صورت میں آنحضور ؐ کی جانب رجوع کرنے کی شق بھی رکھی گئی تھی جس سے آپ ؐ کی ذات میں ایک مرکزیت کو تسلیم کرلیا گیا تھا ۔تاہم معروف معنی میں کوئی ریاست قائم نہ کی گئی تھی اور نہ ہی آپ نے خود کو حاکم قرار دیتے ہوے کوئی حکومتی ادارے وضع کیے کہ جن سے عرب قبائل اس پہلے ناواقف تھے ۔قرآن و حدیث میں آپ کی بطور رسول اطاعت پر زور دیا گیا ہے بطور حکمران نہیں آپ نے رسالت کا دعویٰ کیا نہ کہ حکمرانی کا ۔لوگ اپنے معاملات طے کرنے کے لیے ثالث مقر ر کرلیا کرتے تھے ۔کئی مرتبہ مسلمانوں نے یہودی کا ہن اپنے ثالث مقرر کئے اور کئی مرتبہ یہودیوں نے آنحضرتؐ کو اپنا ثالث مقر ر کیا اور ان سے فیصلہ کروایا ۔باقاعدہ ریاستی ادارہ عدل موجود نہیں تھا ۔لوگ دین میں آپ کی اطاعت کرتے تھے دنیوی معاملات میں کسی کے پاس بھی جا سکتے تھے ۔
آپ نے ہجرت سے قبل مکہ کے قریب عقبہ کی گھاٹی میں انصار مدینہ سے دو مرتبہ بیعت بھی قول و قرار کے مروجہ عرف کے دستور پر لی تھی ۔جو بیعت عقبہ اول اور ثانی کہلاتی تھی ۔اس طرح حدیبیہ میں بیعت رضوان بھی اسی دستور پر لی گئی تھی۔چناں چہ جب آنحضورؐ کے انتقال کے بعد آپ کی مرکزیت کے خلا کو پر کرنے کے لیے آپ کے جانشین کے تقرر کا مسئلہ درپیش ہوا تو بقول علامہ احمد امین’’اس بارے میں نہ کتاب میں کوئی تصریح موجود تھی نہ سنت میں ۔صحابہ کے لیے اس کے سوا اور کوئی راستہ نہ تھا کہ وہ اپنی رائے کو کام میں لائیں ۔چناں چہ ایسا ہی ہوا ۔‘‘اور انہوں نے صدیوں سے رائج قبائلی سماج کے عرف و رسوم کے مطابق سقیفہ بنی ساعدہ میں جمع ہو کر اپنی اپنی رائے اور دلیل دی اورہی دلیل جو قصی بن کلاب نے قریش کی سیادت کے لیے استعمال کی تھی اسی دلیل کی بنیاد پر انصار کے دعویٰ کو رد کرتے ہوے سید نا حضر ت ابو بکر صدیقؓ کے حق میں فیصلہ ہوا اور بیعت کی گئی ۔عربی لغت میں بیعت کے معنی صفقہ بتائے گئے ہیں جو ہاتھ پر ہاتھ مار کر کوئی عہد یا سودا طے ہو جانے کے ہیں۔یہ رواج صرف عربوں کے ہاں ہی نہیں بل کہ یورپی قبائل میں بھی Manumissionکے نام سے رائج تھا ۔ہاتھ پر ہاتھ مار کر کچھ طے کرنے کے رواج کی جڑیں غالباً انسان کی تہذیبی ارتقاء کے اس زمانے سے ہیں جب وہ اشاروں کی زبان(Body Language) سے کام چلاتا تھاگویا ہم اسے تہذیبی ارتقاء سے مربوط ایک عالمی سیکولر دستور کہہ سکتے ہیں۔
دوسری خلافت ،وصیت یا نامزدگی کے ذریعے طے پائی کہ اس کی بھی روایت قصی کے سسرحلیل کی جانب وصیت میں موجود تھی تیسری خلافت کا فیصلہ ایک نامزد مجلس شوریٰ کے ذریعے ہوا یہ بھی قصی بن کلاب کے دارلند یعنی مجلس شوریٰ کی روایت میں رائج چلی آئی تھی ۔تیسری خلافت کا خاتمہ اور چوتھی خلافت کا قیام باغی بلوائیوں کی شمشیروں تلے انجام پایا جو نہ صرف قبائلی سماج بل کہ اس وقت دنیا میں رائج دوسرے نظام یعنی ملوکیت میں بھی اس وقت اختیار کر لیا جاتا تھا ۔جب تنازعہ ناحل پذیر ہو جاتا تھا۔پھر جب حضرت علی ؓ اور امیرِ شام کے مابین تنازعہ جنگ سے بھی طے نہ ہو سکا تو حکم یعنی ثالث مقرر کرنے کا طریقہ اختیار کیاگیا ۔یہ بھی عربوں کے عرف و رواج سے مروج رہ چکا تھا جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا ہے ۔
چناں چہ ہم دیکھتے ہیں کہ اسلام کے ابتدائی 30سے40برس کے دوران جب تک طاقت کا مرکز جزیرہ نما عرب میں یعنی مدینہ میں رہا،مسلمانوں نے صدیوں سے قائم قبائلی سماج کے سیاسی دستور کے عرف رواج اختیار کئے اور وہ موثر بھی رہے ۔مگرجب خلیفہ کی مرکزیت جزیرہ نما عرب یعنی قبائلی معاشرے سے نکل کر ان علاقوں پر محیط ہوی جو سیکڑوں بل کہ بعض تو ہزاروں برس سے موروثی بادشاہت کے نظام ملوکیت میں رہ رہے تھے تو پھر خلافت کا مرکز بھی ان علاقوں یعنی دمشق (شام) اور پھر بغداد(عراق) میں منتقل ہو گیا اور مسلمانوں نے قبائلی عرف و رواج کو چھوڑ کر اس وقت کی دنیا کے وسیع حصے میں صدیوں سے رائج نظام ملو کیت کو اختیار کر لیا ۔تاہم دونظاموں کے مابین یہ تبدیلی (Transition)پر امن نہ تھی ۔حضر ت عثمان ؓ اور حضرت علیؓ کی شہادت اور پھر کربلا کے درد ناک واقعہ سے گزر کر یہ (Transition)مکمل ہوی ۔سیاسی نظام خواہ وہ قبائلی عرف و رواج کا تھا یا موروثی بادشاہت کا،کسی صحیفہ آسمانی سے اخذ نہیں کیا گیا تھا بل کہ بنی نوع انسان نے تہذیبی ترقی کے مختلف مدارج طے کر تے ہوے اپنے تجربے اور مادی تقاضوں سے تشکیل دیا تھا ۔
قبائلی عرف و رواج کا مذکورہ سیاسی نظام صرف عربوں ہی میں نہیں بل کہ دنیا کے دیگر قبائلی معاشروں میں بھی کم وبیش اسی نوع کی مماثلث کے ساتھ پایا جاتا تھا۔قرون وسطیٰ میں شمالی افریقہ کے بر بر اور شمال مغربی چین و منگولیا کے منگول اور تاتاری بھی ایسے ہی خصائص(Traits) کے حامل تھے ۔ابن خلدون اپنے مقدمہ تاریخ میں بربروں کی مماثلث عربوں کے ساتھ کرتا ہے ۔اینگلز اسی قسم کے ڈھیلے ڈھالے سیاسی نظام کوقبائلی وفاق(Tribal Confederacy) قرار دیتا ہے ۔خود ہمارے ہاں افغانستان ،صوبہ سرحد ،صوبہ بلوچستان ،صوبہ سندھ اور جنوبی پنجاب میں جہاں ابھی قبائلی سماج کی جڑیں مضبوط ہیں ،مقامی جرگے زیادہ موثر ہیں بہ نسبت کسی ریاستی یا منضبط حکومتی اداروں کے کنٹرول کے ۔
خلافت راشدہ کے بارے میں ابن خلدون لکھتا ہے کہ ’’خلافت کی ذمہ داری صرف اسی حد تک محدود تھی کہ لوگوں کو احکام شریعہ کا پابند کیا جائے اور اس نوعیت کی حکومت و سلطنت جو اس زمانہ میں اہل باطل میں رائج تھی ،اس کا تصور بھی دماغوں میں نہ تھا ․․․․․․یہ سب کے سب بزرگ خلفاء مروجہ سلطنت سے دوری کا ایک تو دین سبب تھا جو سادگی کا سب سے اہم سبق دیتا ہے ۔دوسرے ان کی عربی بداوت کہ اس کے طفیل بھی یہ بزرگ تعیش سے دورتھے کیوں کہ عرب اس وقت تمام دنیوی حالات اور عیش و عشرت سے بالکل بے تعلق تھے‘‘۔اس پر مولانا محمد حنیف ندوی کامحاکمہ یہ ہے کہ’’خلافت راشدہ کسی ٹکے بندھے نظام کا نام نہ تھا اور نہ اس کا قالب اور ڈھانچہ ہی ایسا دستوری تھا کہ اس نظام آئین کی موجودہ اصطلاحوں سے تعبیر کیا جاسکے اور اس سے کسی خاص حکومت پر استدلال کیا جا سکے ۔‘‘
عربی کی ایک تصنیف ’’تاج ‘‘کا مصنف لکھتا ہے ’’ہم ایرانی بادشاہوں کا تذکرہ کریں گے کیوں کہ اس بارے میں وہی ہمارے پیش رو ہیں ۔انہی سے ہم نے ملک اور مملکت کے قوانین سیکھے اور یہ بھی کہ خواص اور عوام کی کس طرح رتبہ بندی کرنی چاہیے نیز یہ بھی کہ رعیت کا انتظام کس طرح کرنا چاہیے اور ہر طبقہ کو کس طرح کام میں لگا ئے رکھنا چاہیے‘‘۔
امیر معاویہؓ نے دمشق میں بازنطینی محلات میں رہائش اختیار رکھی اور تزک و احتشام و لباس پوشاک اختیار کیا تو حضر عمرؓ نے اس پر ناگواری کا اظہار کیا ۔اس پر امیر معاویہؓ کا جواب یہ تھا کہ میں بازنطینی سلطنت کی سرحد کے قریبی علاقے کا حاکم ہوں ،جنگ و جہاد تزک و احتشام سے ان پر رعب داب ڈالنے کی ضرورت ہے ۔حضرت عمرؓ نے معاویہؓ کی اس دلیل کو قبول کر لیا ۔
ابن خلدون لکھتا ہے کہ ’’عربوں نے جب فتوحات کیں اور فارس و روم کو اپنے اقتدار میں لائے اور ان کے لڑکے اور لڑکیوں سے خدمتیں لینے لگے توان کا یہی حال رہا کہ انہوں نے شہریت محکمو م ملکوں سے سیکھی ورنہ فتح سے پہلے وہ شہریت کے نام سے نا آشنا تھے․․․․جب عربوں نے روم و فارس کو اپنی غلامی میں لیا اور اپنے کاموں میں ان سے خدمتیں لینے لگے ۔گھر بار کے دھند ے ان کے سپر د کیے اور کاموں کے لیے ان میں سے ماہر چنے تو انہوں نے ہر چیز میں اصلاح و درستی اور عمدگی کے راستے عربوں کو سکھائے․․․․․پھر کیا تھا عرب نے بھی رنگ بدلا اور اپنے حالات میں شہریت و تمدن کو چوٹی پر پہنچا دیا ‘‘۔
موروثی بادشاہی نظام قرون وسطیٰ کا مروجہ دوسرا سیکولر نظام حکومت تھا جس پر بلالحاظ مذہب قدیم مصری ،یونانی ،رومی ،بازنطینی ،ایرانی ، ہندوستانی،چینی سلطنتیں قائم و دائم تھیں یہ نظام دنیا کی بڑی دریائی وادیوں کے زرعی معاشروں سے حاصل ہونے والی وافر دولت کی بنیاد پر قائم ہو ا تھا چناں چہ اس کے مراکز وادی نیل ،سند ھ ،وادی دجلہ و فرات (بابل ونینوا)وادی گنگا و جمنا ،وادی برہم پتر،وادی ڈینیوب،وادی جیحو و آمودریا،وادی کرشنا اور گوداوری(جنوبی ہند)وادی میکانگ(ہند چینی) وادی دریائے چانگ ژیا نگ (چین)وغیرہ شامل رہی ہیں۔فراعین مصر کی سلطنت ،یونان کی سلطنت،روم کی سلطنت،اسیری سلطنت (شام و عراق ) ایران کی شہنشاہیت ،ہندوستان میں اشوک اور اس کے سابقین کی سلطنت ،چین کے شاہی خاندان کی سلطنتیں۔ورودِاسلام سے قبل ڈھائی تین ہزار سال کے عر صے میں قائم رہ چکی تھیں اور بنی نو ع انسان کے پاس موروثی جاگیری نظام حکومت کا وسیع تجربہ اور پس منظر موجود تھا ۔اور یہ اس وقت دنیا کا سب سے ترقی یافتہ نظام تھا جو کہ دنیا کے ترقی یافتہ زرعی معاشروں کی تہذیبوں میں رچ بس گیا تھا ۔چناں چہ عرب جب شام ،مصر،شمالی افریقہ ،اندلس،ایران،وسط ایشیا اورسندھ تک ان علاقوں پر قابض ہوے جو سیکڑوں بل کہ بعض تو ہزاروں برس سے ملوکیت پر مبنی موروثی بادشاہی نظام کے اند ر رہ رہے تھے تو عربوں نے حکمرانوں کے اس مروجہ سیکولر نظام حکومت کو اختیار کر لیا ۔مصرو شام اس وقت بانطینی سلطنت روم اور عراق و ایران ایرانی شہنشاہیت کے ماتحت تھے ۔ یہاں کے لوگ صدیوں سے اسی نظام کے عادی تھے اور حکمران کے بارے میں ان کا تصور موروثی جاگیری بادشاہ یا شہنشاہ ہوتاتھا ۔چناں چہ وہ نئے عرب حکمرانوں کی اطاعت اسی صورت میں کر سکتے تھے کہ یہ بھی ملوکیت کے نظام پر عمل پیرا ہوتے جس میں جاہ وجلال اور شاہانہ شان و شوکت اور رعب و دبدبہ ایک وسیع عریض علاقے میں نظم و نسق برقرار رکھنے کے لیے لازمی عناصر ہوتے تھے ۔اس لیے بنو امیہ نے بہت جلد یہ نظام اختیار کرلیا او رشمالی افریقہ سے وسط ایشیا تک پھیلی ہوی سلطنت پر حکمرانی کی ۔اقتدار کا مرکز بھی مدینہ سے دمشق منتقل ہو گیا جو کہ باز نطینی سلطنت روم کا سرمائی دارالحکومت تھا ۔اور پھر بغداد ،قاہرہ ،قرطبہ،غرناطہ ،خوارزم،اصفہان،شیراز ،مشہد ،بخارا،سمر قند،کابل ،ہرات ،اور دہلی ان کے پایہ تخت بنے۔جہاں مسلمان فرمانرواؤں نے اس موروثی استبدادی نظام و سیاست کو اختیار کیا جس پر ان کے ہم عصر عیسائی،ہندواور بدھ مذاہب سے تعلق رکھنے والے یورپ ، ہندوستان اور چین کے حکمران عمل کرتے تھے اور جس پر گزشتہ ڈھائی تین ہزار سال سے دنیا بھر کے فرمانروا بلالحاظ مذہب و ملت عمل کر رہے تھے۔تقریباً 1300سال یعنی بیسویں صدی عیسوی کے اوائل تک مسلمانوں نے سپین سے ملائیشیاو انڈو نیشیا تک بے شمار چھوٹی بڑی سلطنتیں بنائیں اور گرائیں مگر دستو ر سیاست وہی موروثی جاگیری شہنشاہیت یا ملوکیت کا رہا ۔یعنی عقیدہ الگ رہا اور نظام سیاست و حکومت الگ رہا ۔دین الگ رہا اور دنیا الگ رہی۔حکمرانوں نے نہ صرف دنیا کے مروجہ تقاضوں سے خود کو ہم آہنگ کیا بل کہ اس مروجہ استبدادی دستور کو اس قدر بڑھ چڑھ کر اپنایا اور اسے اس کمال مستعدی سے بروئے کار لائے کہ صدیوں تک عروج اور غلبہ حاصل کئے رکھا۔مسلمان حکمران خواہ وہ عرب تھے یا عجم ، صدیوں تک اسی نظام پر عمل کرتے رہے اور اسے مسلمانوں کے عروج کا دو ر شمار کیا جاتا ہے ۔
چناں چہ نظام حکومت کی بنیاد مذہب پر نہیں ہوتی ۔بنی نوع انسان کے تہذیبی ارتقاء پر ہوتی ہے اور انسانی تاریخ میں یہ تہذیبی ارتقاء مسلسل عمل ہے ۔مسلمان ابتداء میں جزیرہ نماعرب کی قبائلی کنفیڈریشن کے سیکولر نظام پر رہے کہ وہاں تہذیبی ارتقاء کے اگلے مرحلے میں کئی صدیوں سے رہتے چلے آرہے تھے ۔پھر مسلمان حکمرانوں نے بھی دین او ر سیاست کو الگ رکھا اور خود علمائے دین نے کبھی سیاسی اقتدار کے حصول کے لیے یا اسلامی حکومت کے قیام کے لیے تحریک نہیں چلائی ۔بعض نے بادشاہوں کی مخالف تو کی لیکن بادشاہت کی بطور نظام حکومت مخالفت نہیں کی اور اسے غیراسلامی نظام یا کافرانہ نظام قرار نہیں دیا ۔اہلِ تصوف نے اسے دنیا داری قرار دے کراس سے خود کو کنا رہ کش رکھا ۔اگرچہ بعض موقعوں پر سلاطین اور شہنشاہوں کی سیاست میں علماء اور صوفیا نے سیاسی کردار بھی ادار کیا ۔تاہم وہ اسی نظام کے دائرے میں رہے جسے ملوکیت کہاجاتا تھا ۔
یورپ کے صنعتی انقلاب کے بعد دنیا سیاسی نظام کے اگلے مرحلے میں داخل ہوگئی ۔قرون وسطیٰ کے استبدادی سیاسی نظام کا زوال یورپ کے بورژ وا صنعتی انقلاب بالخصوص انقلابِ فرانس سے شروع ہوا اوردنیامیں جمہوری قدروں جمہوری اداروں منتخب حکمرانوں،جمہوری سیاسی جماعتوں ،عوام کے بنیادی انسانی حقوق ،عورتوں کی آزادی وغیرہ کی بنیاد پڑی ۔اس انقلاب کی بنیاد یورپ میں تحریک احیائے علوم تھی جس نے صدیوں پرانے جامد نظریات کا خاتمہ کر کے سائنسی تصورات پیش کیے اور جدید سائنس و ٹیکنالوجی کا آغاز ہوا۔یورپ اس ترقی یافتہ نظام کی بدولت ایشیاء کی زوال پذیر جاگیری سلطنتوں پر غلبہ پانے میں کامیاب ہوامسلمانوں کی موروثی جاگیری سلطنتیں یورپی اقوام کے اس ترقی یافتہ نظام کا مقابلہ نہ کرسکیں اور نہ کر سکتی تھیں۔چناں چہ بہت جلد اپنے انجام کو پہنچ گئیں۔مغل سلطنت،ایران کی بادشاہت اور سلطنت عثمانیہ دیمک زدہ ،کرم خوردہ بوسیدہ دیوار کی طرح گرگئیں۔کروڑوں مسلمان عوام یورپ کے غلام بن گئے ۔اس کی وجہ ہر گز یہ نہ تھی کہ مسلمان فرمانروا اسلامی نظام سے دور ہو گئے تھے اور قرون وسطیٰ کے بادشاہوں کا’’اسلامی دستور‘‘ترک کر چکے تھے بل کہ اس کی صاف سیدھی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے تقلید جامد کو مذہبی تقدس بخش دیا اور نئے سائنسی علوم اور ٹیکنالوجی کو اختیار نہ کیا ور جدید جمہوری نظام اور اس کے ادارے قائم نہ کیے۔جب کہ انہی ایشیائی جاگیری سلطنتوں میں جاپان ،چین ،کوریا،اور تائیوان نے جب کہ مسلمان ممالک میں صرف ملائیشیا نے وقت کے بدلتے تقاضوں کو قبول کیا او ر سائنس و ٹیکنا لوجی او ر جدید نظام کو سینے سے لگا کر دنیا کی ترقی یافتہ اقوام کی صف میں شامل ہو گئے۔بیشتر مسلمان ممالک قرون وسطیٰ کی بادشاہتوں یا آمریتوں کے تحت ہیں اور یہاں کے عوام بالعموم اور پڑھا لکھا طبقہ بالخصوص کنفیوژن کا شکار ہے جدید اور قدیم کے مابین مشرق اور مغرب کے مابین’’اسلامی نظام‘‘اور عہد حاضر کے جمہوری نظام کے مابین ،اور اسی کنفیوژن میں وہ مذہبی انتہا پسندی کے ہتھے چڑھ جاتا ہے ۔
اسلامی اتحاد اور مسلم امّہ کا تصور:
دوسرا بڑا تاریخی مغالطہ یہ ہے کہ ماضی میں مسلمانوں کا عروج اس لیے تھا کہ مسلمان متحد تھے اور ایک امت واحدہ کی حیثیت سے عمل کرتے تھے ۔اگر ایک بار پھر مسلمانو ں میں ویسا ہی اتحاد قائم ہو جائے تو پھر ویسا ہی غلبہ و عروج حاصل ہو سکتا ہے اور اس اتحاد کے تصور کے لیے ایک نئی اصطلاح ’’مسلم امہ‘‘گھڑی گئی ہے ۔انسانی تاریخ شاہد ہے کہ اتحاد عقیدہ کی بنا پر پیدا نہیں ہوتا بل کہ مفاد کی بنیاد پر قائم ہوتا ہے ،اسی طرح دشمنی و عداوت بھی محض عقیدہ کی بنا پر پیدا نہیں ہوتی بل کہ مفاد کے ٹکراؤ سے پیدا ہوتی ہے ۔ چناں چہ مسلمانوں کی تاریخ کا مطالعہ اگرعقیدہ سمجھ کر نہیں انسانی تاریخ سمجھ کر کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ زمانہ پیغمبر ؐاسلام سے لے کر آج تک کبھی ایسا نہیں ہوا کہ مسلمان متحد رہے ہوں اور ان میں نفاق ،اختلاف ،دشمنی اور عداوت موجود نہ رہی ہو یہ بات صرف مسلمانوں پر موقوف نہیں ،دوسرے مذاہب و عقائدکے ماننے والے بھی باہمی مفادات پر لڑتے جھگڑتے رہے اور متحد نہ ہوے ۔مسلم بھائی چارہ اور اسلامی اخوت جیسی اصطلاحیں ،خطبوں اور نصیحتوں میں تو ملتی ہیں لیکن ان کی عملی شکل کبھی دیکھنے کوئی نہیں ملی ۔آنحضرت ؐ کا تاریخی خطبہ جو آپ ؐ نے حجتہ الوداع10ھ میں فرمایا تھا کہ تمام مسلمان بھائی بھائی ہیں اور جس میں عربی و عجمی،کالے اور گورے ،امیر و غریب کے امتیاز کو ختم کر کے تقویٰ کی فضلیت کی بنیاد ٹھہرایا تھا ۔اس کے باوجود عرب قبائل کی عصبیتیں ختم نہ ہوئی تھیں ماقبل اسلام کے قبائلی نظام میں قبائلی عصبیتیں بڑی شدید تھیں اور اس کی جڑیں صدیوں پرانی تھیں اور اسلامی تعلیمات سے یکا یک دور نہ ہوئی تھیں بقول علامہ امین’’ان تعلیمات کے باوجود عصبیت کا رحجان مٹ نہیں گیا تھا ۔جب کبھی عصبیت کو بھڑکانے والی کوئی چیز ظاہر ہوتی تھی تو یہ عصبیت پوری قوت کے ساتھ سراٹھا کر کھڑی ہو جاتی تھی‘‘
اگر چہ آپؑ کی حیات طیبہ اور پہلی دوخلافتوں کے دوران بھی یہ عداوتیں ابھرتی رہتی تھیں مگر شدید ہونے سے پہلے دب جاتی تھیں جس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ شام،مصر ،عراق ،ایران کے وسیع ومالدا ر علاقوں کی فتوحات میں سب مصروف ہو گئے تھے اور ان کو فقید المثال کامیابیاں اور بے اندازہ مال غنیمت حاصل ہوا تھا ۔تاہم تیسری خلافت کے زمانے میں تمام دبے ہوئے تضادات ابھر کر شدید ہوئے ۔خلیفہ ثالث مسلمان بلوائیوں اور خلیفہ چہارم مسلمان خوارج کے ہاتھوں شہید ہوے ۔بڑی لڑائیاں اکابر صحابہ اور اہل بیت کے مابین جنگ جمل اور جنگ صفین کی صور ت میں لڑی گئیں ۔اور اس کے کچھ ہی عرصہ بعد سانحہ کربلا درپیش ہوا ۔بقول احمد امین،جب خلافت بنی امیہ کے ہاتھوں میں پہنچ گئی تو پرانی عصبیت پھر اسی حالت پر لوٹ آئی جیسا کہ وہ زمانہ جاہلیت میں ہوا کرتی تھی ۔بنو ہاشم او ربنو امیہ کے درمیان زمانہ اسلام میں بھی قطعاً وہی عصبیت موجود تھی جو زمانہ جاہلیت میں ہوا کرتی تھی ۔۔۔․ان کا یہ جھگڑا اور منافرت زمانہ جاہلیت کی باہمی منافرت کی سچی تصویر ہوا کرتی تھی ۔اس کے ساتھ ہی زمانہ اسلام میں عدنانی اور قحطانی قبائل میں بھی پرانی نزاع زندہ ہو چکی تھی ۔چناں چہ دونوں قبائل میں ملک کے ہر حصے میں دشمنی و عداوت بل کہ جنگ و جدال کا بازار گرم تھا ۔اگرچہ مختلف علاقوں میں ان کے نام ذرا مختلف تھے مثلاً خراسان کے اندر بنوازد اور بنو تمیم کے مابین جنگ برپا تھی ۔ان میں سے بنو ازدیمنی ہیں اور دوسرے عدنانی ہیں شام کے علاقہ میں بنو کلب اور بنو قیس میں معرکہ کا ر زار گرم تھا جن میں سے بنو کلب یمنی (یعنی قحطانی) اور بنو قیس عدنانی ہیں۔یہی حالت اندلس میں تھی بعینہ یہی کچھ عراق میں ہو رہاتھا ۔‘‘
90سالہ عہد بنو امیہ میں مسلمانو ں کے مابین بے شمار چھوٹی بڑی جنگیں ہوئیں تاہم گیا رہ بڑی جنگیں ہوئیں جن میں مجموعی طور پر مارے جانے والوں کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ان میں سانحہ کربلا،مدینہ اور مکہ پر دو مرتبہ اموی مسلمان فوج کاحملہ جس میں سے ایک کی قیادت حجاج بن یوسف نے کی تھی۔دونوں حملوں میں خانہ کعبہ پر منجنیق سے پتھر اور آگ کے تیر برسائے گئے یہاں تک کہ وہ منہدم ہو گیا اور مسجد نبوی کی بے حرمتی کی گئی ۔دونوں مقدس شہروں میں ہزاروں مسلمانوں کو شام کے مسلمان لشکر نے تہہ تیغ کیا ۔حجاج بن یوسف نے کوفہ میں ایک لاکھ تیس ہزار مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتارا۔مختار ثقفی نے قاتلین حسینؓ کو عبرت ناک موت دی ۔مصعب بن زبیر اور مختار کے مابین جنگ میں مختار قتل ہواحجاج اور مصعب کے مابین جنگ میں مصعب مارا گیا ،اندلس میں فتح پاتے ہی فاتح مسلمانوں کے مابین خانہ جنگی شروع ہو گئی ۔یمنی ،مصری،ربیعہ ،مدنی عرب،شامی عرب اور بربروں کے مابین مسلسل خانہ جنگی کے نتیجے میں ہزاروں مسلمان مسلمانوں کے ہاتھوں تہہ تیغ ہوے ۔خراسان میں بھی یمنیوں اور حجازیوں میں معرکہ آرائی جاری رہی ۔ مدینہ پرخارجیوں کا حملہ اور قتل عام ہوا۔خلافت(سلطنت) کے دو دعویداروں ابراہیم بن ولید اور مروان بن محمد کے مابین خونریز جنگ، یزید ثالث کی لاش کو قبر سے نکال کر سولی پر چڑھایا گیا ۔عراق ،شام اور مصر میں بنو امیہ اوربنو عباس کے داعیوں کے مابین خونریز لڑائیوں میں ہزاروں مسلمان مسلمانوں کے ہاتھوں موت کے گھاٹ اتارے گئے۔آخری اموی خلیفہ مروان بن محمد مارا گیا ۔اس کے علاوہ اموی دور میں دوخلیفہ قتل ہوے ۔ایک مروان بن الحکم اور دوسرے ولید بن یزیداس دور میں جن اہم شخصیات کوخلیفہ کے حکم یا اشارے سے قتل کیا گیا ،ان میں فاتح سندھ محمد بن قاسم،فاتح وسط ایشیا مسلم بن قتبیہ ،فاتح اندلس موسیٰ بن نصیر کے تمام بیٹے شامل تھے جب کہ خودموسیٰ کسمپرسی کی حالت میں مرے ، علاوہ ازیں اہل بیت کے بہتر72افراد کربلا میں اور اس کے بعد شیعوں کے آئمہ علی زین العابدینؑ،باقرؑ اور جعفرؑ زہر دے کر شہید کیے گئے اور زید شہید بن علی اور یحییٰ بن زید کو قتل کیا گیا ۔محمد بن قاسم کے بیٹے عمرو نے قتل کے خوف سے خود کشی کر لی۔بنو عباس کے امام ابراہیم بن محمد کو زہر دے کر قتل کروایا گیا ۔یہ تھا اسلامی بھائی چارہ اور مسلم امہ کی اخوت اس دور میں جسے مسلمانوں کے عروج کا دور کہا جا تا ہے اور جس میں ایک جانب مراکش کے ساحلوں پر بحر ظلمات میں گھوڑے دوڑائے گئے تھے تو دوسری طرف فتوحات کا سلسلہ سندھ اور وسط ایشیا تک پہنچ گیا تھا ۔
امویوں کا زوال اور عباسیوں کا عروج عجمیوں کا عربوں کے خلاف ردِ انقلاب تھا جس کی قیادت خراسانی عجمیوں نے کی ۔عباسیوں نے اقتدار پر قبضہ کرتے ہی امویوں کو چن چن کر قتل کیا ۔اموی خلیفوں میں امیر معاویہؓ اور عمر بن عبدالعزیزؓ کو چھوڑ کر سب کی قبروں کو کھدوایا او رجو کچھ نکلا اس کی راکھ ہوا میں اڑا دی گئی ۔عباسی دور میں عجمیوں کو فوج اور اقتدار میں غلبہ حاصل ہو گیا اور انہوں نے عربوں کے ساتھ گزشتہ ایک سو سال کی محکومی کا خوب بدلا لیا ۔اندلس میں علاحدہ اموی سلطنت کے قیام سے مسلم امہ دو سلطنتوں میں بٹ گئی ۔پھر شمالی افریقہ میں حسنی سید ادریس بن عبداللہ نے ایک تیسری سلطنت کی بنیاد رکھی جو شروع میں عبیدین کی سلطنت کہلاتی تھی ۔اور بعد میں فاطمی سلطنت کہلائی ۔عالم اسلام تین سلطنتوں میں بٹ گیا ۔بنو عباس کے دور کو دو حصوں میں بانٹا جا سکتا ہے ۔ایک وہ جس میں خلیفہ کو اپنی حکومت و سلطنت پر کنٹرول حاصل تھا اور دوسرا وہ جس میں اس کی حیثیت محض کٹھ پتلی کی تھی اور مسلمانوں کی مکمل طور پر خود مختار سلطنتیں وجود میں آگئی تھیں۔خلیفہ کا اقتدار صرف بغداد اور گرد ونواح کے کچھ علاقے تک محدود تھا ۔اول الذکر دور میں بھی جا بجا بغاوتیں سر اٹھاتی ر ہیں۔اور کہیں بھی مذہب کے نام پر یکجہتی و اتحاد دیکھنے میں نہیں آیا۔عباسی دور میں تقسیم در تقسیم اور تضاد در تضاد کی صورتیں یہ تھیں ۔
۱۔عباسیوں اور امویوں کے مابین تضاد:
امویوں کا مرکز اندلس بن گیا اور عباسیوں کا بغداد۔عباسیوں نے کئی مرتبہ شمالی افریقہ کے راستے اندلس پر بیرونی فوج کشی کی اور امیہ مخالف گروہوں کی مدد سے اندرونی بغاوت کے ذریعے انہیں غیر مستحکم کرنے کی کوشش کی۔ شاہ فرانس شار لیمن نے اندلس پر حملہ کیا تو عباسی خلیفہ ہارون رشید نے شارلیمن کو قیمتی تحائف کے ہمراہ سفارت بھیجی۔ ادھر اموی امیر اندلس حکم بن ہشام نے ایک مرتبہ حملہ کرتے ہوے اپنی فوجیں اسکندریہ تک پہنچا دی تھیں اور یہاں عارضی قبضہ کر لیا تھا ۔ان کی باہمی جنگوں میں ہزاروں مسلمان سر زمین اندلس اور شمالی افریقہ میں مارے گئے۔ایک مرتبہ دمشق میں بھی بنی امیہ کے ایک گروہ نے سفیانی نامی سردار کی سرکردگی میں علم بغاوت بلند کیا جسے عباسی طاقت کے ذریعے کچل دیا گیا ۔
۲۔عباسیوں اور اہل بیت کے مابین تضاد:
حسنی سادات نے دو مرتبہ حجاز میں اور ایک مرتبہ عراق میں بغاوت بھڑکائی ۔اول الذکر دو میں محمد نفیس ذکیہ ،ابراہیم،حسین بن علی اور ان کی اولاد اورتیسری میں ابن طبا طبا اور ابو سرایا اپنے سیکڑوں ساتھیوں سمیت مارے گئے۔حرم کعبہ کی بے حرمتی بھی ہوی ۔زید شہید بن علی کے ماننے والے فرقہ زیدیہ نے پہلے طالقان او ر پھر کوفہ میں بغاوت کی ۔ سرکردہ ابوالحسن یحییٰ قتل ہوا ۔امام جعفر ؑ صادق مدینہ میں نظر بند رہے ۔اما م علی رضاؑ کو زہر سے شہید کیا گیا ۔امام موسیٰ کا ظم ؑ کا طویل قید میں انتقال ہوا ۔متوکل نے حضرت علیؑ اور امام حسین ؑ کے روضوں کو منہدم کروایا ،ہل چلا دیے۔امام علی نقی اور حسن عسکری ؑ کا قید کی حالت میں انتقال ہوا ۔علویوں نے رے ،ویلم اور طبرستان میں بغاوت کرکے وہاں اپنی علاحدہ ریاست قائم کر لی ۔
۳۔عرب و عجم کا تضاد:
عباسی اقتدار کے بانی ابومسلم خراسانی عجم سے تھا اس نے اپنے حریف ابو سلمہ کو قتل کر ادیا جو عرب تھا اور خلیفہ سفاح کا معتمد تھا ۔پھر ابو جعفر منصور نے ابو مسلم خراسانی کو قتل کر ادیا ۔خراسان سے مسلسل بغاوتیں ہوتی رہیں ۔استاذسیس کی بغاوت جس کی سرکوبی کی جنگ میں ستر ہزار آدمی مارے گئے ۔مقغ کی بغاوت ،اس کی سرکوبی میں بھی ہزاروں افراد مع مقغ قتل ہو ئے ۔عجمی خاندان برامکہ کا عروج و زوال ،جعفر برمکی کا قتل اور بقیہ برامکہ کی قید ۔آذر بائی جان میں بابک خرمی کی بغاوت اور اس کی سرکوبی ،بابک سمیت ہزاروں افراد کا قتل ۔
۴۔حکمران عباسی خاندان کے اندونی تضادات:
ابوجعفر منصور نے اپنے چچاعبداللہ بن علی کو قتل کیا کہ وہ اس کامخالف تھا ۔خلیفہ ہادی کو اس کی ماں خیرزاں نے قتل کردیا کہ وہ اپنے چھوٹے بیٹے ہارون کو حکمران بنانا چاہتی تھی ۔خلیفہ امین اور خلیفہ مامون کے مابین تخت نشینی کی خونریز لڑائیاں ۔امین کا قتل ۔خلیفہ معتصم نے اپنے بھائی مامون کی اولاد کا صفایا کر دیا کیوں کہ اس کے بھتیجے عباس سے بغاوت کا اندیشہ تھا ۔خلیفہ متوکل کو اس کے بیٹے منتصر نے قتل کیا اور خلیفہ بن گیا ۔خلیفہ مکتفی کے مرنے پر دو چچا زاد بھائیوں میں تخت نشینی کی جنگ ۔ایک کو خصیے کاٹ کر مروادیا گیا ،دوسرا خلیفہ بن گیا جو مقتدر باللہ کہلایا ۔بعد میں مقتدر اپنے بھائی سے جنگ میں مارا گیا جو قاہر باللہ کے نام سے خلیفہ بن گیا ۔
۵۔امرائے سلطنت کے باہمی تضادات :
تیسری صدی ہجری کے وسط میں ترک فوجی امراء غالب ہو گئے اور ان کی باہمی چپقلش سے خلیفہ معزول اور مقرر ہونے لگے اس کے نتیجے میں خلیفہ مستعین کی معزولی ہوی اور وہ نظر بندی میں قتل ہوا ۔خلیفہ موید کی معزولی اور قتل ، خلیفہ معتز کی معزولی اور اذیت ناک قتل ہوا ۔اسی طرح خلیفہ مہتدی کا قتل ہوا ۔خلیفہ قاہر ،خلیفہ متقی اور خلیفہ مستکفی کو علی الترتیب ترک امراء کے مختلف گروہوں نے گرم لوہے کی سلائیاں آنکھوں میں پھروا کر اندھا کیا اور قید میں ڈالا جہاں وہ مر گئے ۔خلیفہ مستر شد اور خلیفہ راشد کو سلاطین سلجوقیہ کی باہمی کشمکش کے نتیجے میں سلطان مسعود سلجوقی نے یکے بعد دیگرے قتل کرایا۔خلیفہ مستنجد اپنے امراء کے ہاتھوں قتل ہوا۔پھر امرائے سلطنت کے معزول اور قتل ہونے کا لامتناہی سلسلہ جاری رہا ۔کئی وزیر اور امیر قتل ہوے ۔
۶۔فرقہ وارانہ تضاد:
اموی دور میں شیعان علی ،شیعان معاویہ ،اشعری اور خوارج ہی بڑے فرقے تھے ۔عباسی دور میں حنفی ،مالکی ،شافعی ،حنبلی ،جعفری (شیعہ) معتزلہ(معقولات پسند) تقلید پسند(اہل سنت ) راوندیہ ،زیدیہ ،علویہ ،قرامطہ وغیرہ نئے فرقے وجود میں آگئے ۔ابو جعفر منصور نے امام ابو حنیفہ ؒ کو قید میں ڈالا اور وہیں ان کا انتقال ہوا ۔اس نے امام مالک ؒ کو مدینہ میں نظر بند کیا ۔خوارج نے خراسان اور ماور النہر میں تین مرتبہ علم بغاوت بلند کیا ۔ان کی سرکوبی میں پہلی مرتبہ دس ہزار ،دوسری مرتبہ تین ہزار اور تیسری بار ان گنت خوار ج مارے گئے۔کو فہ میں حمد ان عرف قرمط کا ظہور ہوا جو اسماعیلیوں کی شاخ قرامطہ کا بانی ہوا۔بحرین سے عراق و شام اور یمن و حجاز تک ان کی دہشت چھا گئی ۔انہو ں نے شام اور اردن میں بیس ہزار حاجیوں کو قتل کیا ۔وہ مکہ سے حجر اسود اکھاڑ کر لے گئے ۔سات دن تک حج نہ ہو سکا ۔
مامون مستعصم اور واثق معتزلہ کے ہم خیال تھے چناں چہ انہوں نے مسئلہ خلق قرآن پر امام احمد بن حنبل ؒاور دیگر علماء کو اذیت ناک سزائیں دیں ۔واثق نے اسی مسئلہ پر بغداد کے عالم احمد نصر کو قتل کرا دیا۔خلیفہ متوکل معتزلہ کے خلاف تھااس نے چن چن کر معتزلہ اور معقولات پسند علماء کو قتل کیا۔ اس نے واثق کے زمانے کے وزیر ابوزیات کو سخت ایذائیں دے کر قتل کیا ۔
علویوں نے مدینہ میں بغاوت کی، چار جمعہ نماز نہ ہو سکی ۔بغداد میں شافیعوں اور حنبلیوں کے مابین فسادات میں خلیفہ نے حنبلیوں کے خلاف فتویٰ دیا۔چوتھی صدی ہجری کے وسط میں آل بو یہ کا بغداد میں اقتدار قائم ہوا اور خلیفہ کٹھ پتلی بن کر رہ گیا ،چونکہ آل بویہ شیعہ تھے ،بغداد میں شیعہ سنی فسادات کا لامتناہی سلسلہ شروع ہو گیا ۔
۷۔عربوں کے قبائلی تضادات:
اندلس سے سندھ تک جہاں جہاں عرب سکونت پذیر ہوے ۔عباسی دور میں بھی ان کی قبائلی عصبیت ان کے ساتھ رہی ۔فلسطین میں ابوحرب کی قیادت میں عرب قبائل کی بغاوت ہوی جس کی سرکوبی میں بیس ہزار آدمی قتل ہو ئے ۔جزیرہ نما عرب کے قبائل نے بھی بغات کی جن کی سرکوبی میں ہزاروں قتل اور گرفتا رہوے ۔
۸۔بغاوتیں اور نئی سلطنتوں کا قیام اور ان کے باہمی تضادات:
علویہ نے رے ،ویلم اور طبرستان میں بغاوت کر کے علاحدہ سلطنت قائم کر لی۔صوبوں کے والیان نے بھی خود مختاری اور پھر مکمل آزاد سلطنتیں قائم کرلیں ۔مصر کے احمد بن طولون کی علاحدہ سلطنت مصرو شام پر قائم ہو گئی ،عباسی اور طولونی کے درمیان شام پر غلبے کی جنگ میں طولونی کامیاب رہا ۔زیدیہ نے زنگیوں کی مدد سے بصرہ میں بغاوت کی اور 15سال تک یہ بغاوت جاری رہی ۔جس کی سرکوبی کی جنگوں میں ہزار ہا افراد مارے گئے ۔یعقوب بن لیث نے کرمان ،فارس اور خراسان میں صفاریہ سلطنت قائم کر دی ۔ ماورالنہرمیں آل سامان نے اپنی خود مختار سلطنت قائم کر لی ۔اور جلد ہی ویلم کی علوی سلطنت اور فارس و خراسان کی صفاریہ سلطنت بھی سامانیوں کے قبضے میں آگئی ۔چوتھی صدی ہجری کے اوائل میں عالم اسلام میں خلیفہ بغداد سمیت پندرہ آزاد خود مختار سلطنتیں موجود تھی۔ َاس کے بعد یہ سلسلہ پھیلتاچلاگیااورکہیں بڑی چھوٹی آزاد سلطنتیں بنتی اور بکھرتی رہیں ۔ان میں بعض میں بظاہر دینی تعلق کی رعایت سے عباسی خلیفہ کانام باد شاہ کے نام کے ساتھ پڑھا جاتا تھا ۔آل سامان کے زوال سے غزنوی سلطنت قائم ہوی ،پھر سلجوقی سلطنت ،غوری سلطنت ،خوارزم شاہی سلطنت ،زنگی سلطنت ،ایوبی سلطنت وغیرہ قائم ہویں ۔ان سب کے حکمران مسلمان تھے مگر ایک دوسرے کے بدترین دشمن تھے ۔محمود غزنوی نے سترہ حملے ہندوستان پر کیے ۔خوارزم ،خراسان ،فارس اور ملتان کی مسلمان حکومتوں کا خاتمہ کر کے قبضہ کر لیا ۔اس نے بغداد کے عباسی خلیفہ کو بغداد پر حملے کی بھی دھمکی دی جسے خلیفہ نے بڑی مشکل سے قرآن کا واسطہ دے کر ٹالا۔غزنوی کمزور ہوے تو سلجوقی اور غوری ابھرے ۔سلجوقیوں نے چھوٹی بڑی مسلمان سلطنتیں جنگ یا دبدبہ کے زور پر جلد ہی ہڑپ کر لیں اور ایک بڑی سلطنت قائم کر لی ۔
غوریوں نے غزنی کی اینٹ سے اینٹ بجا دی ،غوری سلطنت سلطان علاؤ الدین جہاں سوز کے غزنی پر حملے اور مظالم کی خونچکاں داستان رونگٹے کھڑے کر دیتی ہے ۔ سات روزقتل عام ہوا ۔لاکھوں افراد لقمہ اجل بنے ۔مکانات جلادیے گئے ۔غزنوی سلاطین کی قبریں اکھاڑ کر مردے جلا دیے گئے۔غزنوی اور غوری دونوں ہی ہمارے ہیرو ہیں ۔
سلطان محمد خوارزم شاہ اور خلیفہ ناصرالدین کی دشمنی سے فائدہ اٹھاتے ہوے چنگیز خاں کی قیادت میں تاتاری یلغار سے عالم اسلام پر قیامت ٹوٹ پڑی ۔لاکھوں افراد لقمہ اجل بنے شہر کے شہر ملیا میٹ ہو گئے ۔ہندوستان کے سلطان دہلی التمش اور ملتان و سندھ کے سلطان ناصر الدین قباچہ نے تاتاریوں سے پسپا ہوتے ہوے جلال الدین خوارزم شاہ کی مدد کرنے کے بجائے بذریعہ جنگ اسے ہندوستان سے فرار ہونے پر مجبور کیا ۔اسی طرح کسی مسلمان فرمانروا بشمول خلیفہ بغداد نے صلیبیوں کی یلغار کے خلاف زنگیوں اور ایوبیوں کی مدد نہ کی ۔سوسال تک بیت المقدس پر صلیبیوں کا قبضہ رہا ۔
۹۔عباسیوں اور فاطمیوں کا تضاد:
دونوں سلطنتیں خلافت کہلاتی تھیں اور ان کے فرمانروا خلیفہ کہلاتے ۔دونوں ایک دوسرے کی تباہی کے لیے کوشاں رہتے ۔تاہم فاطمیوں نے اپنی خفیہ تنظیمیں جن میں کام کرنے والے فدائین یا حشیشین کہلاتے تھے کے ذریعے عباسی خلیفہ کے مسلک سے وابستہ سلجوقی اور غوری امراء سلاطین کو قتل کیا ۔حسن بن صباح کا قلعہ الموت بڑے بڑے امراء اور حکمرانوں کے لیے دہشت کا منبع بن گیا تھا ۔سلجوقی وزیر اعظم نظام الملک طوسی کو انہوں نے قتل کیا ایک روایت کے مطابق برصغیر میں مسلمان سلطنت کا بانی سلطان شہاب الدین غوری بھی اسماعیلی فدائی کے ہاتھوں قتل ہوا ۔صلاح الدین ایوبی کے ہاتھوں فاطمی خلافت کاخاتمہ ہوا ۔
۱۰۔سلطنتوں کے حکمرانوں کے اندرونی تضادات:
عباسی خاندان کے اندرونی تضادات کے علاوہ دیگر جتنی مسلمان سلطنتیں بنتی اور بگڑتی رہیں ان کے حکمران طبقے باہمی تضادات اور آویزش کا شدت سے شکار رہے ۔ سلجوقی تخت نشینی کی جنگیں بعض اوقات بغداد کو بھی لپیٹ میں لے لیتی تھیں ۔جو کوئی بھی بزور شمشیر بغداد پر قابض ہو جاتا ،خلیفہ اسی کے نام کا خطبہ اپنے نام کے ساتھ جاری کر دیتا ۔ اگر خلیفہ اس کی اطاعت نہ کرتا تو سلطان یا تو خلیفہ کو زبر دستی اطاعت کرنے پر مجبور کر تا یا پھر خلیفہ کو معزول یا قتل کر دیا جاتا ۔خلیفہ مستر شد اور خلیفہ راشد اسی طرح قتل ہوے ۔اقتدار کی جنگ میں جس کا پلہ بھا ری ہوتا وہ اپنے حریف کو بدترین سزا دیتا ۔گرم لوہے کی سلاخیں آنکھوں میں پھیرنا تو عام سی بات ہوتی تھی ۔محمود غزنوی اور صلاح الدین ایوبی عالم اسلام کے دو بڑے ہیرو تصور کیے جاتے ہیں۔ان کے جانشین نے اقتدار کی خونریز لڑائیوں اور غوریوں کے خلاف لڑائیوں میں ہندو راجاؤں کی مدد بھی حاصل کی ۔جب کہ ایوبی کے جانشین اپنے اپنے اقتدار کی خاطر صلیبیوں کے ساتھ گٹھ جو ڑ کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے تھے ۔
یہ تھا کم و بیش پانچ سو سالہ (138ھ تا 656ھ)کے عباسی دور کا اسلامی اتحاد و بھائی چارہ ۔اس میں 37عباسی خلیفہ ہو ئے جس میں سے4 1مسلمانوں کے ہاتھوں قتل ہوے جب کہ آخری خلیفہ کا فر تا تاریوں کے ہاتھوں مارا گیا ۔تاہم اسی دور کے ابتدائی حصے میں مسلمان علمی،فکری اور تہذیبی ترقی میں اپنی معراج پر پہنچے ۔ادب و شعر ،فلسفہ، ریاضی ،کیمیا،طبیعات اور طب کے ماہر پیدا ہوے ۔اس ترقی کا کوئی تعلق ’’اسلامی اتحاد و اخوت‘‘سے نہیں تھا کہ اس کا دور دور نام و نشان موجودنہ تھا ۔ترقی کی وجہ یہ تھی کہ علم پر قد غن لگانے والی اور تقلید جامد کی پیروی کرنے والی قوتیں کمزور تھیں جب کہ علم و فن و ہنر کے حصول اور نئی اختراعات کو فروغ دینے کی معتزلہ جیسی تحریک کو سرکاری سرپرستی بھی حاصل ہوی اگر چہ عارضی ،پھر تقلید جامد کا غلبہ ہوا اور ان علوم کا چراغ بجھنا شرو ع ہوا۔اس کی جگہ فقیہیت اور ملائیت نے لے لی ۔چناں چہ جب تاتاری یلغار ہوی تو ماورالنہر ،خراسان ،فارس ، خوارزم اور بغداد تک ہر شہر میں فرقہ وارانہ تناؤاور مولویانہ مباحث عروج پر تھے۔اشعری ،حنبلی ،شافعی ،شیعہ اور سنی تنازعات کا حال یہ تھا کہ کوئی ایک فرقہ تاتاریوں سے امان کا وعدہ لے کر ان کے لیے شہر کا دروازہ کھول دیتا تا کہ دوسرے فرقے کے لوگوں کو تبادہ کر دیا جائے ۔مگر حقیقتاً تاتاری امان کا وعدہ بھول کر سب کو تباہ و برباد کر ڈالتے تھے ۔
سقوط بغداد کے بعد عالمِ اسلام کا نیاسیاسی جغرافیہ نمودا رہوا۔تاتاری سکونت پذیر ہو کر مسلمان ہونا شروع ہوے اور طاقت کے نئے مراکز اور نئی سلطنتیں وجود میں آئیں ۔ ممالیک مصر کی سلطنت مصر،شام اور حجاز ویمن تک قائم ہوگئی ۔عثمانی ترکوں کو اناطولیہ سے ابھرتی ہوی نئی سلطنت ،وسط ایشیا اور ایران میں تیموری سلطنت،ہندوستان میں سلاطین ، دہلی ،ڈوبتی ہوی اندلس کی دولت غرناطہ اور دیگر چھوٹی بڑی کئی سلطنتیں ۔عالم اسلام میں اتحادتب بھی قائم نہ ہوا۔نئی سلطنتیں ایک دوسرے سے نبر د آزما رہیں اور ایک دوسرے کے عروج و زوال کا باعث بنتی رہیں ۔ممالیک مصر نے قاہرہ میں دکھاوے کا عباسی خلیفہ رکھا ہوا تھا ۔یہاں تک کہ عثمانی سلطان سلیم اول نے شام اور مصر پر قبضہ کر کے ممالیک سلطنت کا خاتمہ کر دیا اور خلافت کا خرقہ اس کٹھ پتلی عباسی خلیفہ سے اپنے نام منتقل کر لیا ۔پھر خلافت کے ٹائٹل کو عثمانی ترک سلاطین نے دیگر مسلم ریاستوں کو زیر نگیں لانے کے لیے استعمال کیا ۔اور کئی خونریز جنگیں لڑی گئیں۔
سلطنت عثمانیہ یا خلافت عثمانیہ اور تیموری سلطنت اور ہندوستان کے مسلمان سلاطین کا آپس میں کوئی اسلامی اتحاد نہ ہوا۔امیر تیمور نے چھوٹی بڑی تمام مسلمان سلطنتوں پر حملے کیے اور وہاں اپنا اقتدار مسلط کیا ۔فارس اور عراق پر کئی خونریز جنگوں کے بعد قبضہ کیا اور آل مظفر کے تمام بہاد ر جوان تہہ تیغ کر دئیے۔اس کے بعد تیمور کی عثمانی سلطان بایزید کے ساتھ شدید جنگ ہو ئی ،بایزید شکست کھا کر اپنے خاندان سمیت قید ہوا اور اسی حالت میں مر گیا ۔امیر تیمور نے سلطنت دہلی پر حملہ کیا اور اس کی اینٹ سے اینٹ بجا دی ۔اتنا قتل عام ہوا کہ اس کی واپسی کے بعد کئی ماہ تک دہلی میں انسانوں کے بجائے صرف چیل کوؤں کا راج تھا ۔عثمانیوں اور ایران کے صفویوں کے مابین تضاد میں سنی ،شیعہ کامسئلہ بھی درپیش تھا۔ان کے مابین خونریز جنگوں میں دونوں طرف ہزاروں مسلمان مارے گئے۔ایک جنگ میں شاہ اسماعیل کو شکست ہوی اور تبریز پر عثمانیوں کا قبضہ ہو گیا ۔سلطان سلیم اول نے شاہ اسماعیل کے دور میں جو سرحدی لوگ شیعہ ہو گئے تھے اور جن کی تعداد چالیس ہزار تھی ،سب کو قتل کروادیا ۔شاہ عباس صفوی نے بغداد پر اور بعد میں نادر شاہ نے موصل اور بغداد پر حملہ کر کے ترکوں کو شکست دی ۔عراق کبھی ترکوں اور کبھی عثمانیوں کے قبضے میں چلا جاتا تھا۔اندلس کی آخری مسلمان دولت غرناطہ،بنی احمر جب عیسائیوں کے ہاتھوں تباہ ہونے لگے تو ترکی سلطان بایزید سے مدد طلب کی مگر اس نے کچھ زیادہ توجہ نہ کی صرف ایک معمولی بیڑا بھیجنے پر اکتفا کیا ۔
عثمانی سلاطین یا خلیفوں کی اندرونی صورت حال یہ تھی کہ جب کوئی جانشین تخت پر بیٹھتا ،وہ سب سے پہلے اپنے تمام بھائیوں کو قتل کروا دیتا ۔اگرچہ مراد اول نے اپنے بیٹے صارو جی کو بغاوت کے جرم میں اندھا کیا تھا ،بایزید نے اپنے بھائی علاؤ الدین کو اور مرادثانی نے اپنے بھائی مصطفےٰ چلپی کو قتل کیا تھا لیکن اس کا رواج مراد ثالث کے مرنے پر محمد ثالث کی تخت نشینی سے ہوا جس نے تخت پر بیٹھتے ہی اپنے انیس بھائیوں کو قتل کروا دیا اور باپ کے ساتھ ہی دفنا دیا پھر اس کو رواج کے طور پر باقاعدہ تسلیم کر لیا گیا ،کسی شیخ الاسلام یا قاضی نے اسے خلاف اسلام قرار نہ دیا ۔کئی سو سال رواج رہنے کے بعد اس میں فقط یہ تبدیلی کی گئی کہ مارنے کے بجائے بس بھائیوں کو قید میں ڈال دیا جاتا تھا ۔
ایران کے شاہ اسماعیل صفوی نے شیعہ مذہب کو باقاعدہ سرکاری مذہب قرار دیا اور ہمسایہ مسلمان ریاستوں پر حملے کئے جن میں ترکوں اور افغانوں کے ساتھ زیادہ تر جنگیں ہویں ۔ایک افغان حکمران محمود نے قزویں او ر شیراز پر قبضہ کر کے وہاں قتلِ عام کیا ۔ایرانیوں ،افغانیوں اور ترکوں کی باہمی جنگوں میں دشمن مفتوح کے سروں کے مینا ربنانا ، آنکھوں میں گرم سلائیاں پھروانا عام بات تھی عباس شاہد صفوی خود اپنے بیٹوں کو قتل کروادیتا تھا کہ کہیں وہ اسے تخت سے نہ ہٹادیں ۔نادر شاہ افشار ایران کا بادشاہ بنا تو اس نے ہمسایہ مسلمان ملکوں پر یلغار کر دی ۔ہندوستان پر حملہ کیا اور دہلی کی اینٹ سے اینٹ بجادی ۔
ہندوستان میں سلاطین دہلی کے ادوار میں ترکوں اور افغانوں کے مابین تضاد تھا ۔جب کہ مغلیہ دور میں تورانی اور ایرانی کا تضاد غالب رہا ۔شمالی ہند کے سلاطین اور مغل شہنشاہ سنی العقیدہ تھے ۔ان کا جنوبی ہند (دکن) کی ریاستوں کے شیعہ حکمرانوں کے ساتھ سنی ،شیعہ تضاد بھی کار فرما رہا ۔مغلیہ عہد میں شیخ احمد سرہندی (مجدد الف ثانی)نے شیعہ سنی اختلاف کو خوب ہوا دی ۔خود حکمران خاندانوں کے اند رباپ اور بیٹا اور بھائی بھائی کے خلاف تخت نشینی اور اقتدارکی جنگ میں صف آراء نظر آتے ہیں ۔التمش کی اولاد میں تخت نشینی کی جنگ اور رضیہ سلطانہ کا قتل ،جلال الدین خلجی کے ہاتھوںِسلطان کیقباد کا قتل علاؤالدین خلجی کے ہاتھوں اپنے چچاجلال الدین خلجی کاقتل ،بابر اور ابراہیم لودھی کے مابین پانی پت کی جنگ میں ابراہیم لودھی کا قتل ،بابر کے بیٹوں میں تخت نشینی کی جنگ اور ایک دوسرے کا قتل ،جہانگیر کی اپنے بیٹے خسروسے تخت نشینی کی جنگ اور خسرو کی قید میں موت ،شاہ جہاں کا تخت نشینی کی جنگ میں اپنے چچیرے بھائیوں ،بھتیجوں اور نور جہاں کے داماد شہریار کا قتل ،اور شاہ جہاں کے بیٹوں کے مابین تخت نشینی کی جنگ اور اورنگ زیب کے ہاتھوں بھائیوں کا قتل اور پھر خود اس کی اولاد اور اس کے بعد تمام متاخرین مغلوں کے مابین لڑائیاں اور قتل، دینی بھائی چارہ اور اخوت تو دور کی بات ہے خون اور خاندان کا رشتہ بھی ان کے درمیان کوئی حیثیت نہیں رکھتا تھا ۔
ایک مرحلے پر ہندوستان میں پنجاب سے بنگال تک کم و بیش دس علاحدہ آزاد ریاستیں موجود تھیں ۔دہلی،ملتان (لنگاہ) جونپور(مشرقی) بنگال ،خاندیش ،مالوہ (خلجی) گجرات ،دکن (بہمنی) ،سندھ،کشمیر ان کے پایہ تخت تھے۔پھر دکن کی بہمنی سلطنت بکھر کر پانچ حصوں قطب شاہی ،عادل شاہی،عماد شاہی ،نظام شاہی اوربرید شاہی میں تقسیم ہو گئی ۔مغلوں نے جنوب کی ریاستوں کو چھوڑ کر بقیہ تمام ریاستوں کو یکجا کر لیا مگر اس کا سہرا جلال الدین اکبر کے سر تھا جو سیکولر ازم کا داعی تھا ۔تاہم اس کی انتظامیہ اور بعد کی مغل سلطنت بھی تورانی ایرانی تضاد جسے شیعہ سنی تضاد کی شکل دی گئی کا بُری طرح شکار تھی دیگر فرقہ بندیاں اور گروہی مفادات کے ٹکراؤ مسلسل موجود رہے ۔ایران کے نادر شاہ اور افغانستان کے احمد شاہ ابدالی کے حملوں میں دہلی اور پنجاب میں بلالحاظ مذہب کی لوٹ مار کی گئی ۔اسلامی اتحاد و اخوت برصغیر کے مسلم دور میں کہیں دیکھنے میں نہیں آیا۔تاہم ترقی کے اعتبار سے اسے بھی مسلم تاریخ کا درخشاں دور قرار دیا جاتا ہے اور حقیقتاً قرونِ وسطیٰ کے معیار سے دیکھاجائے تو فن تعمیر،مصوری ،شاعر ی اور دیگر فنون میں یہاں واقعی عروج حاصل ہوا ۔ گویا مذہبی اتحاد و اخوت کا تجریدی نظریہ ترقی و تعمیر سے کوئی تعلق نہیں رکھتا تھا۔
مسلمانوں کی تاریخ کے دور عروج کی یہ چند جھلکیاں یہ سمجھنے کے لیے کافی ہیں کہ مذہب یا عقیدہ اتحاد قائم نہیں کرتا اور نہ ہی عروج وترقی کا تعلق مذہبی اتحاد و اخوت سے ہوتا ہے ۔ہر کوئی اپنے مفا د کے حوالے سے اتحاد کرتا ہے۔نہ صرف ظالم اپنے مفا د کے لیے متحد ہو جاتے ہیں بل کہ مظلوم بھی اپنے مشترکہ مفاد کے لیے متحد ہو جاتے ہیں ۔آج امریکی سامراج کے ہاتھوں ظلم و بربریت کا شکار ہونے والے عراقیوں اورافغانیوں کے حق میں غیر مسلم عوام یورپ ،امریکہ،جاپان ،کوریا اور بھارت میں مظاہر ے کر رہے ہیں ۔ جب کہ بیشتر مسلمان ممالک کی حکومتیں امریکہ کی اتحادی ہیں ۔ایسے میں مسلمان عوام کے فطری اتحادی وہ غیر مسلم عوام ہیں جو عالمی امن کے مشترکہ دشمنوں یعنی امریکہ اور اس کی حلیف مسلم و غیر مسلم حکومتوں پر مشتمل ہیں۔
اسلامی جہاد:
تیسرا تاریخی مغالطہ یہ ہے کہ مسلمانوں نے جہاد کا راستہ ترک کر دیا ہے جیسا کہ قرون اولیٰ اور قرون وسطیٰ میں وہ اختیار کیے ہوے تھے اور اگر اس راستے کو پھر سے اختیار کر لیا جائے تو پھر سے مسلمان دنیا پر غلبہ پاسکتے ہیں اور اس مفروضے کو بنیاد بنا کر بعض سادہ لوح مسلمان سر پر کفن باندھ کر گھروں سے نکل پڑتے ہیں اور دنیا میں جہاں کہیں بھی ایسی آزادی یا مزاحمت کی جنگ ہو رہی ہوتی ہے جہاں مسلمان لڑ رہے ہوتے ہیں وہاں یہ حضرات جہاد کے نام پر پہنچ جاتے ہیں ۔اور وہاں کے لوگوں کی علاقائی جہدو جہد آزادی میں شریک ہو جاتے ہیں ۔ان جوشیلے مسلمانوں کی گھر بار چھوڑنے اور دور دراز ،مقامات پر جاکر جان پر کھیل جانے کا جذبہ اپنی جگہ قابل تحسین و آفرین ہے لیکن بیرونی عناصر کے مقامی جہدو جہد ہائے آزادی میں شامل ہو جانے سے کوئی خاطر خواہ فائدہ نہیں ہوتا بل کہ بہت سی پچیدگیاں اور نئے مسائل اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور مقامی باشندوں اور مقامی حریت پسندو ں کے ساتھ تضادات کی شکل اختیار کر لیتے ہیں ۔اس کی حالیہ مثال افغان جہاد ہے ۔جہاں عرب،پاکستانی،شیشانی اور دنیا جہان سے جہاد ی آکر شامل ہو گئے ۔ان بیرونی عناصر کی وجہ سے وہاں سویت افواج کے انخلاء کے بعد کوئی اتفاق رائے کی حکومت خانہ کعبہ میں قسم کھانے کے باوجود نہ بن سکی ۔پور املک خانہ جنگی کی لپیٹ میں آگیا اور ایک ناکام ریاست بن گیا۔11ستمبر 2001کے بعد امریکہ نے طالبان اور القاعدہ کا ہوّا کھڑا کر کے اس علاقے پر اپنے پنجے گاڑنے کے لیے اس علاقے کو دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر ایک نئی جنگ میں جھونک دیا ہے ۔
مذکورہ بالا نوعیت کے ’’جہاد ‘‘کی مثال مسلمانوں کی تاریخ میں یا تو خوارج کی ہے قرامطہ کی ۔خوارج کی نہ اپنی کوئی حکومت تھی اور نہ وہ کسی حکومت یا ریاست کے ماتحت تھے بل کہ اپنے جتھے بنا کر ایک جگہ سے دوسری جگہ چل پڑتے تھے ۔خوارج جو حضرت علیؓ اور امیر معاویہ ؓ سے بر گشتہ ہو کر کر علاحدہ ہوجانے والے مسلمان تھے مگر مذہباً انتہا پسند اور سخت راسخ العقیدہ تھے ۔صاحب العقد الفرید کے مطابق ’’تمام اسلامی فرقوں میں خوار ج سے زیادہ شدید ترین بصیرت کسی دوسرے فرقہ میں نہیں تھی ۔نہ ان سے بڑھ کر کوئی اور فرقہ زیادہ جفا کش تھا اور نہ ہی ان سے بڑھ کو کوئی موت کا اتناوالہ و شیدا‘‘بقول احمد امین ’’وہ چھوٹے چھوٹے گناہ (صغیرہ ) کرنے والے کو بھی کافر شمار کرنے لگتے تھے ․․․․․․وہ غیر خارجی مسلمانوں کو کافر سمجھتے تھے ․․․․․‘‘ان کے داعی ان سے یوں خطاب کرتے ’’آؤ اس آبادی سے نکل چلیں جس کے باشندے ظالم ہیں اورآؤ کسی پہاڑ کی کھوہ کی طرف چل دیں یا کسی دوسرے شہر کی طرف ہجر ت کر جائیں جہاں جا کر ہم ان بدعات کا انکار کر سکیں‘‘غیر خارجی مسلمانوں کے بارے میں ان کا ایمان تھا کہ ’’غیر خارجہ لوگ کفار عرب روایت پرستوں کی طرح ہیں جس سے بجز اسلام یا تلوار کے کوئی دوسری چیز قبول نہیں کی جا سکتی ۔ان کا ملک دارالحرب ہے اور ان کی عورتوں اور بچوں تک کا قتل جائز ہے ‘‘۔
چناں چہ یہ خصائص کہ اپنے ہم عقید ہ لوگوں کے علاوہ دوسرے مسلمانوں کو کافراور واجب القتل سمجھنا ،ہمارے ہاں کے جہادیوں کے خصائص کی طرح ہیں جو افغانستان میں 1989میں روسی افواج کے انخلاء سے امریکی افواج کی آمد 2001تک بارہ سال خانہ جنگی کے دورا ن دیکھنے میں آئیں اور پاکستان میں فرقہ واریت کی آگ بھڑکانے میں مصروف رہیں اور آج بھی مصروف ہیں ۔خوارج کی تحریک اموی عہد میں بڑی طاقتور تھی ۔وہ اپنے جہا د کو ’’خروج فی سبیل اللہ ‘‘قرار دیتے تھے اور اسی وجہ سے خارجی کہلاتے تھے ۔انہوں نے عراق ،خراسان اور حجاز میں کئی بار علم بغاوت بلند کیا ۔ہزاروں کی تعداد میں مارے گئے لیکن جان پرکھیل جانے سے گریز نہ کرتے تھے تھوڑی تعداد میں بھی حکومت کی زیادہ فوج سے بھڑجاتے تھے ۔تاہم وہ کہیں اپنی حکومت قائم نہ کر سکے ۔ عباسی دورمیں ان کی تحریک ماند پڑگئی اور بالآخر معدوم ہو گئی ۔
قرامطہ اگرچہ مذہبی عقائد کے لحاظ سے خوارج سے مختلف تھے انہوں نے مہدودیت کے نظریہ کی بنیاد پر اپنے عقائد کی بنیاد رکھی تھی ۔تاہم سیاسی مقاصددونوں کے تقریباً یکساں تھے اور وہ یہ تھے کہ کسی بھی مرکزی حکومت کی حاکمیت کو تسلیم نہیں کرنا ۔جب بھی اور جہاں کہیں موقعہ ملے بدنظمی اور بدامنی پیدا کرنا ہے ۔اپنے سیاسی مخالفین اور عوام الناس پر ظلم و ستم کرنے میں بھی یہ فرقہ خوارج سے پیچھے نہیں تھا ۔قرامطی بھی جب کبھی کسی علاقے پر غلبہ حاصل کرتے تو بے دریغ لوٹ مار اور قتل و غار ت کرتے تھے ۔ان کا داعی حسین القرمطی اپنے لوگوں کو جو فرمان لکھتا تھا ان میں اپنے متعلق کہتا تھا کہ ’’․․میں خلاف چلنے والوں کا قاتل ،فساد کرنے والوں کو ہلاک کرنے والا اور اہل بصیرت کا چراغ ہوں ‘‘
ابن خلدون نے مذہب کے نام پر مسلح تحریکیں چلانے والے کئی اور لوگوں کا ذکر بھی کیا ہے جن میں بغداد میں خالد دریوس،سہیل بن سلام،سوس میں تو بذری نامی صوفی اور غمارہ میں عباس نامی ایک شخص شامل ہے ۔انہوں نے اپنے پیروکاروں کی کثیر تعدادجمع کر کے ’’کتاب اللہ اور سنت رسول ؐ ‘‘کے قانون کے نفاذ کے لیے مسلح تحریک شروع کر دی ۔ابن خلدون ان لوگوں کے بارے میں لکھتا ہے ’’ان کے بارے میں یہی مناسب ہے کہ اگر یہ مجنون و پاگل ہیں تو ان کا علاج معالجہ کرایا جائے ۔اگر حکومت میں اختلال و گڑ بڑی کرتے ہیں تو مار پیٹ یا قتل کی ان کو سزا دی جائے یا ان کو مسخرہ جان کر ان کے حالات سے اعتنا نہ کیا جائے ․․․․․اکثر کو آپ خبطی ،پاگل یا مکار فریبی پائیں گے جوان نابکار حرکتوں سے اور اس قسم کی دعوت سے ریاست و سرداری حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔جس کی آرزو ان کے دل میں سمائے ہوتی ہے۔اب چونکہ اسبا ب عادیہ ان کے ساز گار نہیں ہوتے ،اس لیے یہ اپنے مقصد تک پہنچنے سے عاجز رہتے ہیں ۔اسی لیے یہ تمام اسباب سے کنارہ کش ہو کر دینی ڈھونگ رچاتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ مذہبی پردہ میں وہ اپنے مقصود کو پالیں گے اور وہ ہلاکی جوان کو ملنی ہوتی ہے وہاں تک ان کا دماغ ہی نہیں جاتا ۔چناں چہ اسی فتنہ میں وہ فوراً موت کے بھینٹ چڑھتے ہیں اور اپنے کیے کی سزا پاتے ہیں ‘‘۔
حقیقت یہ ہے کہ مسلم تاریخ میں فقط دو مواقع ایسے آئے جب واقعتا جہاد کے اس تصور کا اطلاق ہو سکتا تھا جسے آج کل کا عام سادہ لوح مسلمان جہاد سمجھتا ہے اور جس کے لیے تمام مسلم امہ کو علم جہاد بلند کرنا چاہیے تھا ۔ایک یورپ کے صلیبیوں کی یلغار اور دوسرے تاتاریوں کی یلغار ۔لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ دونوں مواقع پر امت مسلمہ نے کوئی اجتماعی کاروائی نہیں کی۔ نہ جہاد کی کال دی گئی بل کہ ہر ایک نے اپنی اپنی جنگ لڑی یا حملہ آوروں سے سودابازی کی۔ صلیبوں کا مقابلہ فاطمی ،زنگی ،ایوبی اور ممالیک سلاطین نے اپنی ذاتی حیثیت میں کیا ۔عالم اسلام کے کسی اور سلطان یا بادشاہ نے آکر ان کی مدد نہیں کی ۔یہاں تک کہ عباسی خلیفہ بغداد نے جو کہ شام سے صلیبی مقبوضات سے زیادہ دور بھی نہ تھا ،ایک مرتبہ بھی جہاد کی کال نہیں دی اور نہ ہی خود اس جہاد میں حصہ لینے کے لیے آگے بڑھا ۔عماد الدین زنگی ،نورالدین زنگی،صلاح الدین ایوبی ،اس کے جانشین اور ممالیک سلاطین ، سب نے شام و مصر کے فرمانرواؤں کی حیثیت سے اپنی سر زمین پر بیرونی حملہ آوروں کا دفاع کیا اور بالآخر کامیابی حاصل کی ۔صلیبی یلغار کو نہ تو عالم اسلام پر حملہ سمجھا گیا اور نہ اندلس سے ہندوستان تک پھیلے ہوے کروڑوں مسلمانوں میں سے خلیفہ سمیت کسی نے اس جہاد میں حصہ لینے کے لیے گھر بار چھوڑا ۔
تاتاری یلغار کی صورت تو اور بھی مختلف تھی یہاں تو خود عباسی خلیفہ ،بغداد ناصرالدین اللہ نے محمد خوارزم شاہ سے عداوت کی بنا پر خود چنگیز خان کو محمدخوارزم شاہ پر حملے کی دعوت دی ۔کسی سلطان نے محمد خوارزم کی مدد نہ کی یہاں تک کہ وہ پسپا ہوتے ہوے تاتاریوں کے ہاتھوں مارا گیا ۔اس کے بیٹے جلاالدین خوارزم شاہ کا بھی کسی نے ساتھ نہ دیا ۔وہ پسپا ہوتا ہوا ہندوستان کی طرف آیا مگر یہاں ملتان و سندھ کے سلطان ناصر الدین قباچہ اور دہلی کے سلطان التمش نے اسے پناہ دینا یا حمایت تو درکنار بل کہ اس سے بعض جگہوں پر جنگ کی چناں چہ وہ بے نیل و مرام واپس چلا گیا او رکچھ عرصہ بعد آذر بائیجان میں تاتاریوں کی مزاحمت کرتے ہوے مارا گیا ۔عمومی مسلمانوں کی صورت حال یہ تھی کہ ماورالنہر ، خراسان اور فارس میں فرقہ واریت حد سے بڑھی ہوی تھی ۔اشعری ،حنبلی ،شافعی ،شیعہ و سنی دست بہ گریبان تھے ۔جس شہر پر تاتاری حملہ آور ہوتے وہاں کوئی ایک فرقہ ،تاتاری امان کی یقین دہانی پر شہر کے دروازے کھول دیتا اور پھر اس فرقہ سمیت سب لوگ ہلاک یا برباد کر دیے جاتے تھے ۔کسی جگہ سے جہاد کی آواز بلند نہ ہوی بل کہ مسلمانوں نے تاتاری فوج میں بھرتی ہونا شروع کر دیا اور جب ہلاکو خان بغداد میں داخل ہوا اور سقوط بغداد ہوا تو تاتاری فوج میں بہت بڑی تعداد مسلمانوں کی تھی ۔
چناں چہ مسلمانوں کے دور عروج میں ہر مسلمان اور ہر فر د نے اپنی اپنی جنگ لڑی ہے جیسی کہ کسی بھی حکمران یا کسی بھی علاقے کے لوگ لڑتے ہیں ۔خواہ و ہ دفاع کے لیے ہوتی تھی یا سلطنت کی توسیع کے لیے جس قسم کے جہاد کی دعوت اور نمونہ سید احمد بریلوی سے لے کر طالبان اور اسامہ بن لادن تک گزشتہ ڈیڑھ دوسو برس میں پیش کیا گیا اور مسلمانوں کے لیے فائدے سے زیادہ نقصان کا باعث ہوا اس کی تاریخ میں سوائے خوارج اور قرامطہ اور اسی قسم کے داعیوں کے اور کوئی مثال نہیں ملتی ۔اور ان کے بارے میں ابن خلدون کی متذکرہ بالارائے سب سے صائب ہوتی معلوم ہوتی ہے ۔
دور عروج کے مسلمانوں کا ذاتی کردار :
چوتھا تاریخی مغالطہ یہ پھیلایا جاتا ہے کہ دور عروج کے مسلمان حکمرانوں اور سپہ سالاروں کو میرعن الخطاء پیغمبرانہ صفات کے حامل کردار کے طور پر پیش کیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ اگر آج کے مسلمان ویساکردار اپنا لیں تو سار ے مسائل حل ہو جائیں گے ۔اسلامی احیاکے علمبردار مذہبی رہنماؤں نے یہ منطق اس لیے پیش کی کہ موروثی جاگیری سلطنتوں کے زوال کے ساتھ ہی ملاؤں کا بھی زوال ہو گیا تھا جو ان سلطنتوں میں ایک کل پرزے کی حیثیت سے اقتدار میں شریک رہے تھے وہ اب اسلامی احیاء کے نام پر اپنے اس اقتدار کی بحالی چاہتے تھے ۔
اگر اپنی تاریخ کا مطالعہ مذہبی لٹریچر کے طو ر پر نہ کیا جائے اور تاریخ کے کرداروں کا انسان سمجھ کر مطالعہ نہ کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ وہ انسانوں کی طرح خوبیوں اور عیوب دونوں کے حامل تھے اور آج کا مسلما ن کردار کے اعتبار سے ان سے خاص مختلف نہیں ہے ۔آج کے احیاء پسند مورخین صرف خوبیوں کا ذکر کرتے ہیں عیوب کوئی نہیں بتاتا اور پھر آج کل کے عام مسلمانوں کو مطعون کیا جاتا ہے کہ وہ بد کردار ہو گئے ہیں اور اس لیے تمام مصیبتیں مسلمانوں پر ٹوٹ پڑی ہیں۔لیکن قرون وسطیٰ کے مسلمان مورخین طبری ،ابن اثیر، ابن خلدون ،بلاذری ،یعقوبی ،ابن کثیر ،سیوطی وغیرہ کو سلام کہ انہوں نے دور کے عروج کے سلاطین اور بادشاہوں کے عام حکمران اور عام انسان کے طور پر خوبیاں اور عیب سب کھول کر بیان کیے ہیں ۔ان کے مطابق بغداد کے قاضیوں نے شراب کو حلال قرار دے رکھاتھا۔شراب و رقص و سرود بیشتر اموی،عباسی،فاطمی،اندلسی ،عثمانی خلیفے اور غزنوی ،غور ، سلجوقی ،خوارزم شاہی ،صفوی اور مغل شہنشاہوں کے درباروں کا خاصہ تھے ۔یہاں تک کہ ان میں سے بعض خلیفے سلاطین اور شہنشاہ کثرت شراب نوشی سے وفات پا گئے ۔
قرون وسطیٰ کے مسلمان مورخین نے مسلمان حکمران طبقوں کی باہمی سیاسی کشمکش ،سیاسی رقابت ،قتل و غارت اور استبدادیت ،عیاشی ،شراب نوشی،لواطت و دیگر شرعی عیوب بے لاگ ہو کر لکھ ڈالے کبھی کسی نے یہ نہیں کہا کہ انہوں نے اسلام کے عہد زریں پر کیچڑا چھالا یا کردار کشی کی ہے یا ان کی تحریریں خلاف اسلام ہیں ۔اگر مورخین کے بیانات میں حکمرانوں کے اعمال و افعال اور کردار کو دیکھیں تو ان میں دین داری آٹے میں نمک کے برابر نظر آئے گی۔چند استشنیات کو چھوڑ کر بیشتر بادشاہ،شہنشاہ اور سلاطین کسی نہ کسی شرعی عیب کا شکار ضرو ر رہے ہیں ۔بیشتر شراب نوشی کرتے تھے ۔رقص و سرور کی محفلیں جماتے تھے۔ کنیزوں اور لونڈیوں سے حرم بھرے رکھتے تھے ۔بعض کو لواطت کی لت بھی تھی ۔ان تمام شرعی عیوب کے باوجود علمائے دین حکمرانوں کے نام کا خطبہ پڑھتے تھے اور ان کی اطاعت اور احترام کو واجب گردانتے تھے۔بادشاہ ان کو وظیفے ،تنخواہیں اور انعامات دیتے تھے ۔ عدلیہ اور درس و تدریس کے شعبے انہی علمائے دین کے پاس ہوتے تھے اور یوں وہ اس مروجہ استبدادی موروثی حکومتی ڈھانچے میں ایک کل پرزے کی حیثیت بھی رکھتے تھے ۔کبھی کسی نے اس دستور حکومت کو غیر اسلامی قرار نہیں دیا تھا اور نہ ہی ’’اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات‘‘کے نفاذ کی کوئی تحریک کسی نے چلائی تھی ۔
19ویں اور 20ویں صدی میں مسلمانوں کی موروثی جاگیری سلطنتوں کے زوال کے دوران اور اس کے بعد اسلامی احیاء کی تحریکوں نے جنم لیا اور یہ کہا جانے لگا کہ ماضی میں مسلمانوں کا عروج اس وجہ سے تھا کہ اس وقت کے مسلمان حکمران اور ان کے درباری اور ان کی مسلمان رعایا سب اسلامی تعلیمات پر سختی سے عمل پیرا تھے ۔اسلامی نظام کا دور دورہ تھا ،اسلامی اتحاد و بھائی چارہ ان کے دلوں میں جا گزیں تھا ۔وہ علاقائی ،لسانی ،قبائلی اور رنگ و نسل کے امتیازات سے بالاتر تھے اور وہ لالچ،طمع ،ہوس اقتدار اور ہوس مال و زر سے مبرا تھے ۔وہ عیش پرستی ،لہو و لعب ،جھوٹ ،مکرو فریب،دھوکہ دہی اور ریا کاری اور دیگر گناہوں سے بہت دور تھے ۔ان کی زندگیاں اسلامی تعلیمات کا عملی نمونہ تھیں وغیرہ وغیرہ ۔اور اب جب مسلمان اسلامی تعلیمات ،اسلامی نظام ،اسلامی اتحادسے دور ہو گئے اور علاقائی ،لسانی ،قبائلی تفریق و امتیاز کا شکار ہو گئے ،عیش پرستی لہو و لعب اور گناہ پرستی میں مبتلا ہو گئے تو زوال نے ان کو آلیا اور یہ دنیا میں پست اور کمزور ہو کر ذلیل و خوار ہو گئے ۔وغیرہ وغیرہ ۔اسلامی احیاء کے علمبردار مذہبی رہنماؤں نے یہ منطق اس لیے پیش کی کہ موروثی جاگیری سلطنتوں کے زوال کے ساتھ ہی ملاؤں کا بھی زوال ہو گیا تھا جوان سلطنتوں میں ایک کل پرزے کی حیثیت سے اقتدار میں شریک رہے تھے وہ اب اسلامی احیاء کے نام پر اپنے اقتدار کی بحالی چاہتے تھے اور اپنی لیڈری چمکا کر کاروبار چلانے کا بندوبست کرنا چاہتے تھے ۔انہوں نے اپنے مادی مفاد کی خاطر تاریخ کو مذہبی عقیدہ کے ساتھ جوڑ دیا ۔اور عروج کا نقشہ مذہب کی بنیاد پر استوار کرکے پیش کیا ۔
اسلامی احیاپسندوں نے تاریخ نویسی کا ایک نیا ڈھنگ اختیار کیا جو ماضی کے مورخین سے قطعی مختلف تھا ۔انہوں نے دور عروج کی اس تاریخ کو ’’اسلامی تاریخ‘‘یا ’’تاریخ اسلام‘‘کا نام دے دیا ۔19ویں اور 20ویں صدی میں ملاؤں نے تاریخ پر یہ ملمع کاری کی اور اسے مذہبی لٹریچر بنا دیا ۔زوال پذیر جاگیردار طبقہ نے ان کی سر پرستی کی اور پھر جہاں کہیں اس کے مفاد میں تھا مغربی سامراج نے بھی ان کی سر پرستی کی ۔ان احیاء پسندوں نے قرون وسطیٰ کے بادشاہوں اور سپہ سالاروں کو اسلامی ہیرو بنا کر پیش کیا ۔ انہوں نے مسلمانوں کے نیم تعلیم یافتہ درمیانے طبقے کے نوجوانوں کو عارضہ یادایام(Nostalgia)میں مبتلا کر دیا اور ماضی پرستی میں تقدس اورتحریم کے پہلوؤں کو بھی شامل کر دیا ۔ برصغیرمیں انیسویں صدی کے وسط میں احیاء پسندوں کے مراکز ندوہ اور دیو بند سے یہ سلسلہ شروع ہوا ۔شبلی نعمانی ،سید سلیمان ندوی،ابوالکلام آزاد سے ہوتا ہوا سید ابولاعلیٰ مودودی تک پہنچا۔پھر ’’اسلامی تاریخ‘‘کے نام پر ناول نگاری نے ملمع کاری کی اور ’’اسلامی تاریخی ناول‘‘لکھے گئے جن کا سلسلہ رئیس احمد جعفری ،نسیم حجازی،ایم اسلم وغیرہ تک پہنچا ۔انہوں نے عارضہ یادایام میں مذہبی جنون کی آمیزش کی اور عام سادہ لوح نیم پڑھا لکھا مسلمان ان ’’اسلامی ہیروز‘‘کو مذہبی دیوتا سمجھنے لگا ۔احیاء پسند مسلمان شاعر بھی اس معاملے میں پیچھے نہ رہے بالخصوص علامہ اقبال نے ماضی پرستی اور اسلامی احیاء کے حوالے سے ایسی موثر شاعری کی کہ کئی نسلوں کو عارضہ یادایام(Nostalgia)میں مبتلا کر دیا ۔غالباً برصغیر میں ہندو،مسلم تضاد کی شدت اس کی متقاضی تھی ۔ہندو احیاء پسند جس طریقے سے برصغیر کی تاریخ کو مذہب سے وابستہ کر کے یہاں کے ازمنہ قدیم اور قرون وسطیٰ کے راجاؤں کو مذہبی تقدس دے کر مذہبی ہیرو اور نیشنل ہیرو بنا کر پیش کر رہے تھے ،اس کے جواب میں مسلمان بھی ایسا کرنے پر مجبو ر ہوے ۔لیکن ماضی پرستی کی یہ لہر برصغیر کے مسلمان عوام الناس کے مسائل حل نہ کر سکی ۔ان کے مسائل جد پسندی کی لہر نے حل کیے جس کا آغاز سرسید احمد خان،سیدامیر علی،اور نواب لطیف نے کیا اور محمد علی جناح نے انجام تک پہنچا یا ۔علی گڑھ تحریک او رجد ت پسندی کی دوسری تحریکوں نے مسلمانوں کو پاؤں میں پڑی ماضی کی بوجھل بیڑیاں کاٹنے کی کوشش کی اور انہیں عہد حاضر کے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ ہونے اور مستقبل میں زقند لگانے کا راستہ دکھایا ۔سرسید نے موروثی جاگیری حکمرانوں پر کڑی تنقید کی ۔سید امیر علی نے مسلمانوں کے دور عروج کی تاریخ لکھی مگر اس کا نام ’’تاریخ اسلام‘‘یا ’’اسلامی تاریخ‘‘رکھنے کے بجائے ’’سرسانیوں کی تاریخ ‘‘(History of Saracens)رکھا۔مولانا محمد حسین آزاد نے اپنی تصنیف ’’درباری اکبری‘‘ میں اکبر کے سنہرے دور پر احیاء پسندوں کی جانب سے کیے گئے حملوں کا بھر پورجواب دیا اور تاریخ کو عقیدہ سے جدا کر کے پیش کیا ۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ قرون وسطیٰ کے مسلمان مورخین جنہوں نے اپنے عہد میں تاریخ نویسی کے علم اور فن کے بے لاگ حقائق نویسی کے کمال تک پہنچا دیا اور ہیرو ڈ و ٹس اور جوزفس کی تاریخ نویسی کی قدیم روایت کو بام عروج تک پہنچایا ،انہوں نے تاریخ کو عقیدے،مذہب یا دین سے کبھی وابستہ نہیں کیا ۔وہ خلیفوں ،بادشاہوں ،وزیروں اور سپہ سالاروں کو مروجہ موروثی جاگیری نظام سیاست اور قرون وسطیٰ کی تسلیم شدہ مروجہ اخلاقیات کی عینک سے دیکھتے تھے ،عقیدہ اور مذہب کا محدب عدسہ استعمال نہیں کرتے تھے ۔کسی نے بھی اپنی تصنیف کو ’’تاریخ اسلام‘‘یا’’اسلامی تاریخ ‘‘نہیں کہا۔امام المورخین علامہ محمد ابن جریر طبری نے اپنی تصنیف کا نام’’تاریخ الامم مع و الملوک ‘‘ یعنی ’’قوموں اور بادشاہوں کی تاریخ ‘‘رکھا۔بلاذری نے صرف فتوحات کا حال قلم بند کیا اور نام’’فتوح البلدان‘‘یعنی ’’ملکوں کی فتوحات‘‘رکھا۔مسعودی نے اپنی تصنیف کا نام ’’مروج الذھب و معادن الجوھر فی التاریخ‘‘یعنی’’تاریخ میں سونے کے ذخائر کے میدان اور جواہر کی کان ‘‘رکھا ۔ابن اثیر نے اپنی ضخیم کانام ’’الکامل فی التاریخ ‘‘یعنی ’’مکمل تاریخ‘‘رکھا ہے ۔ابن خلدون کی تاریخ کانام ’’العبروالدیوان المبتداء و الخیر فی ایام العرب و العجم و لبریر‘‘یعنی’’عرب و عجم و بربر کے حالات پر مجموعہ نصیحت و عبرت اور دیوان مبتداؤ خبر‘‘رکھا ہے ۔ابو الفدا ابن کثیر کی تاریخ کی کتاب کا نام ’’البدایہ و النھایہ‘‘یعنی’’آغاز و انجام‘‘ہے ۔جلال الدین سیوطی نے اپنی تصنیف کا نام ’’تاریخ الخلفا‘‘رکھا ۔علامہ شہر ستانی کی کتاب کا نام’’ملن و انحل‘‘تمام فرقوں کی تاریخ بیان کرتی ہے۔اندلس اور مراکش کے مورخ علامہ مقری کی کتاب کا نام’’نفخ الطیب‘‘یعنی’’خوشبو کی لپٹ‘‘ہے۔محمد ابن سعد،جو معروف مورخ و اقدی کا کاتب تھا ،کی تصنیف کا نام’’طبقات الکبیر‘‘یا الطبقات الکبری‘‘ہے جو عام طور سے ’’طبقات ابن سعد کہلاتی ہے ۔واقدی کی اپنی کتاب ’’المغازی الفبویہ‘‘یعنی ’’غزوات نبوی ‘‘کے نام سے موصوم کی گئی ہے ۔احمد بن علی الخطب کی کتاب ’’تاریخ بغداد‘‘کے نام سے موسوم ہے۔جب کہ ابن عسا کرکی کتاب ’’تاریخ الکبیر‘‘یا’’تاریخ دمشق الکبیر‘‘کہلاتی ہے ۔ابن مسکویہ نے اپنی تصنیف کا نام ’’تجاریب الامع‘‘یعنی’’قوموں کے تجربات‘‘رکھا۔ابن خلقان کی مشہور تصنیف ’’وفیات الاعیان‘‘کے نام سے موسوم ہے جس کا مفہوم ہے ’’مشا ہیر کے سوانحی خاکے‘‘۔یہ صرف چند اہم تصانیف کے نام ہیں جو قرون وسطیٰ کے مسلمان حکمرانوں کے بارے میں مستند ترین مآخز کی حیثیت سے متفق علیہ تسلیم کی جاتی ہیں ۔ان کے علاوہ جتنی بھی معروف تواریخ قرون وسطیٰ میں لکھی گئی ہیں ان میں سے کسی تاریخ کے نام کے ساتھ ’’اسلام‘‘یا’’اسلامی‘‘کی اضافت نہیں لگائی گئی ۔اس لئے کہ وہ مورخین بجاطور پر تاریخ کو عقیدہ یا دین سے الگ سمجھتے تھے کیونکہ واقعتا ایسا ہی تھا ۔وہ کسی حاکم یا وزیر یا امیر یا سپہ سالار کو اسلام کا ہیرو بنا کر پیش نہ کرتے تھے ۔البتہ جو شخصیات حقیقتاً تقویٰ و پرہیز گاری اور دین داری میں شہرت کی حامل ہوتی تھیں تو ان کا تذکرہ اس حوالہ سے ضرور کیا جاتا تھا ۔لیکن شاذ ہی کسی حاکم یا بااقتدار شخص کا دین کے حوالے سے ذکر ملتا ہے ۔
قرون وسطیٰ کے مسلمان مورخین نے مسلمان حکمران طبقوں کی باہمی سیاسی کش مکش ،سیاسی رقابت ،قتل و غارت اور استبدادیت ،عیاشی ،شراب نوشی ،لواطت و دیگر شرعی عیوب بے لاگ ہو کر لکھ ڈالے ہیں اور کبھی کسی نے یہ نہیں کہا کہ انہوں نے اسلام کے عہد زریں پر کیچڑ اچھالا یا کردار کشی کی ہے یا ان کی تحریریں خلاف اسلام ہیں انہوں نے درصل بے لاگ سیاسی تاریخ لکھی ہے اور جو کچھ ہوا وہ بلا روک ٹوک لکھ دیا چونکہ ہم عصر سیاست میں اس وقت وہ سب کچھ جائز اور روا سمجھا جاتا تھا جو استبداد کے ذریعے اقتدار حاصل کرے اور اسے مستحکم کرنے کے لیے کیا جاتا تھا ،اس لیے یہ مورخین ان حقائق کے بیان پر کوئی معذرت خواہانہ رویہ بھی اختیار نہیں کرتے ۔دنیا کی مروجہ اخلاقیات کسی دوسرے سیاسی یا اخلاقی نظام سے واقف ہی نہیں تھی ۔آج مسلمان احیاء پسند مورخین کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ تاریخ کا وہ بڑا حصہ بیان ہی نہ کیا جائے جسے آج کے زمانے میں Rationalize نہیں کیا جا سکتا یا پھر وہ معذرت خواہانہ رویہ اختیار کر کے تو جیہات بیان کرتے ہیں ۔وہ صرف چند ایسے واقعات کو پھیلا کر بیان کرتے ہیں جن سے وہ حکمران فرشتہ سیرت ثابت ہو سکیں اور یا پھر غیر مسلموں پر ان کے غلبے اور فتوحات کی تفصیل میں مذہبی جوش و جنون شامل کر کے بیان کرتے ہیں جس سے ثابت ہو اکہ نہ مال غنیمت نہ کشور کشائی ان کا مقصد تھا نہ ملک گیر ی،وہ تو بس اسلام اور دین کی سر بلندی کی خاطر حملہ آور ہوے اور اپنی اسلامی سیرت و کردار کی بدولت فتح یاب ہوے اور انہوں غلبہ پانے کے بعد مفتوح غیر مسلموں پر کوئی ظلم نہیں کیا،انہیں تاخت و تاراج نہیں کیا ،ان کامال و اسباب نہیں لوٹا،ان کی عورتیں اور بچے لونڈی غلام نہیں بنائے وغیرہ وغیرہ ۔قرون وسطیٰ کا کوئی مورخ ان حکمرانوں کو اس انداز میں پیش نہیں کرتا اور نہ ان کے سیرت و کردار کو اسلامی بنا کر بیان کرتا ہے اور نہ ہی غیر مسلم مفتوحین پر ان کے ظلم و جور پر کوئی معذرت خواہانہ رویہ اختیار کرتا ہے کیونکہ یہ سب کچھ اس وقت کی مروجہ استبدادی سیاست میں جائز و روا سمجھا جاتا تھا ۔مسلمان مفتوحین کے ساتھ بھی استبدادیت کامظاہرہ کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی جاتی تھی ۔
اسلامی احیاء پسند دنیا میں صنعتی انقلاب کے بعد گزشتہ ڈیڑھ دو سوسال میں آنے والی عظیم سیاسی و معاشی واخلاقی تبدیلیوں سے چشم پوشی کر کے اپنے خوابوں میں قرون وسطیٰ کی اسی استبدادیت کی دنیا میں واپس لوٹنا چاہتا ہے اور مسلمانوں کو دنیا پر پھر سے چھا جانے کا وہی راستہ سمجھا تا ہے جس پر وہ لوگ اس وقت چل رہے تھے ۔وہ ایک تصوراتی مرد مومن کا احیاء چاہتا ہے جس کے بارے میں اس کا خیا ل ہے کہ ’’لیا جائے گا کام تجھ سے دنیا کی امامت کا ‘‘وہ دین کو سیاست سے الگ کرنے کو چنگیزی قرار دیتا ہے جبکہ قرون وسطیٰ میں صرف چنگیز خاں ہی نہیں بل کہ تمام مسلم و غیر مسلم فرمانروااسی ہم عصر استبدادی سیاست پر عمل پیرا تھے جس میں دین سیاست یا حکومت نہیں کرتا تھا ۔اسلامی احیاء پسند ماضی کے استبدادی فرسودہ اور مردہ نظام کو جو آج اپنی Relevanceقطعی طور پر کھو چکا ہے ۔قرون وسطیٰ سے چھلانگ لگوا کر آج کے دور میں لاگو کرنا چاہتا ہے ۔جب کہ اس کا ناممکن العمل ہونا کئی بار ثابت ہو چکا ہے ۔جہاں تک دین داری کا تعلق ہے تو قرون وسطیٰ میں جس قدر دین دار اور پرہیز گار لوگ موجود تھے اس حساب سے آج بھی ان کی کمی نہیں ہے ۔ عروج کا تعلق دین داری کے ساتھ اور زوال کا تعلق بے دینی کے ساتھ نہ تھا اور نہ ہے ۔ہم گزشتہ ڈیڑھ دو سو برس سے اسلامی احیاپسندوں کے عارضہ یادایام میں مبتلا ہو کر اپنے کردار و عمل کو اسلامی بنانے کی کوشش میں لگے ہوے ہیں لیکن دوسری اقوام کے مقابلے میں ہماری حالت زار میں بہتری کے بجائے بدتری پیدا ہوی ہے ۔جو تھوڑی بہت بہتری پیدا بھی ہوی وہ ماضی پرستی اور احیاء پسندی کی بجائے جد ت پسندوں کی عہد حاضر سے ہم آہنگی کی تحریک کی بدولت ہوی ہے۔برصغیر کے کیس میں سر سید کی علی گڑھ تحریک اور پھر محمد علی جناح کی قیا م پاکستان کی تحریک جد ت پسندی کی تحریکیں تھیں جن کا برصغیر کے مسلم عوام الناس کے بے حد فائدہ پہنچا ۔بعد ازاں پاکستان کے حکمرانوں نے اپنے استبدادی اقتدار کے قیام ،دوام اوراستحکام کی خاطر اسلامی احیاپسندی کا سہارا لیا جس سے یہ ملک تنزل کا شکا ر ہوا اور بدستور روبہ تنزل ہے ۔
مسلمانوں کی سیاسی تاریخ کا مطالعہ بطور انسانی تاریخ کے کیا جائے اور جو حکمران یا طبقات یا امراء ،وزراء اور صفا ء اقتدار کی رسہ کشی میں ملوث رہے ان کو انسان سمجھا جائے جیسا کہ قرون وسطیٰ کے مورخین انہیں سمجھتے تھے تو پھر آج کے مسلمان اپنا قبلہ درست کر سکتے ہیں ۔وہ ایک تصوراتی ماضی کی سمت دیکھنے کے بجائے اپنے حال اور مستقبل کی ٹھوس حقیقت پر توجہ دیں گے ۔ایک تصوراتی ہیولے کے پیچھے دوڑنے کے بجائے کسی حقیقی منزل کا تعین کرسکیں گے ۔ہم عارضہ یاد ایام سے نجات حاصل کر کے عہد حاضر کے تقاضوں سے عہد ہ برآہونے کے قابل ہو سکیں گے ۔قرون وسطیٰ کے حکمران اپنے ہم عصر مادی تقاضوں پر جس خوبی اور عمدگی سے عمل پیرا ہو تے تھے ۔اسی کمال کے ساتھ ان کا عروج بھی قائم ہو تا تھا وہ دین اور سیاست کو باہم ملوث کیے بغیر الجھے بغیر عمل کرتے تھے ۔ہم آج اپنے مادی عصری تقاضوں سے نمٹنے بل کہ انہیں سمجھنے سے بھی قاصر ہیں ۔ملاؤں نے دین او رسیاست کو اور عقید ہ اور تاریخ کو باہم ملوث کر کے معاشرے میں وحشت ناک فرقہ واریت کا زہر گھول دیا ہے ۔آج جب کہ یورپ کے صنعتی انقلاب نے دنیا میں قرون وسطیٰ کی تمام اقدار بدل کر رکھ دی ہیں ہمیں قرون وسطیٰ کی جاگیردارانہ قدروں کے خاتمے ،دقیانوسیت اور کٹھ ملائیت کے شکنجے سے نجات حاصل کرنا ہو گی ۔عصر جدید کے جمہوری تقاضوں کی تکمیل ،سرکاری و غیرسرکاری ہر سطح پر جمہوری اداروں کی تشکیلِ نو ،بنیادی انسانی حقوق اور فکر ی آزادی ،سائنسی افکار اورجدید علوم و فنون کے ہر شعبہ زندگی میں اطلاق کا نصب العین ہی 21ویں صدی کی دنیا میں ہمارے لیے ترقی کی گنجائش پیدا کر سکتا ہے ۔انہی بنیادوں پر نئے ریاستی ،سیاسی و حکومتی ڈھانچے کی تنظیم نو کی جاسکتی ہے اور Governanceکے جدیدطریقے اختیار کیے جاسکتے ہیں ۔قرون وسطیٰ کے خلیفہ ،بادشاہ ،امراء ،وزراء،سپہ سالار اور مجاہدین کے دور کا احیاء ہمیں مزید پس ماندگی اور ذلت کی جانب دھکیل دے گا ۔
خلاصہ ء کلام اس مقالے کا یہ ہے کہ:
اسلامی نظام حکومت کی اصطلاح ایک تجریدی اصطلاح ہے ۔نظام حکومت انسان کے تہذیبی ارتقاء سے جنم لیتے ہیں اور مسلمان اپنے عروج کی تاریخ میں اپنے عہد کے مروجہ نظام ہائے حکومت یعنی پہلے تو قبائلی جمہوریت اور پھرملوکیت کے نظاموں پر عمل کرتے رہے ۔مگر جب صنعتی انقلاب نے جدید جمہوری نظاموں کوجنم دیاتومسلمان ان نظاموں سے ہم آہنگ ہونے کی بجائے قرونِ وسطیٰ کے نظاموں اور افکار کو مذہبی تقدس دے کر ان سے چمٹے رہے اور بدستور چمٹے ہوے ہیں کیونکہ ابھی تک مسلمان معاشرے بھر پور صنعتی انقلاب سے دو چار نہیں ہوے۔اسلامی نطام حکومت کے نام سے ہمارے سامنے تین ماڈ ل ہیں ۔
(1) سعودی عرب کا ماڈل جو قرون وسطیٰ کے خاندانی موروثی نظام حکومت کا ماڈل ہے۔
(2) افغانستا ن میں طالبان کا ماڈل جو قرون اولیٰ کے جزیرہ نما عرب کے قبائلی نظام حکومت کے مطابق بنانے کی ناکام کوشش تھا۔
(3) ایران کی ولایتِ فقیہ کا ماڈل ہے جو اگرچہ خاندانی موروثی شہنشاہیت تو نہیں لیکن علماء کی آمریت نے اسے قرون وسطیٰ کی ملوکیت سے قریب تر رکھا ہوا ہے ۔بقیہ تمام مسلمان ممالک فوجی یانیم فوجی آمریتوں کے ماتحت ہیں اور قرون وسطیٰ کی ملوکیت سے قریب تر ہیں ۔یہ تمام ماڈل 21ویں صدی کے جدید تقاضے پورے کرنے سے قاصر ہیں۔
اسلامی اتحاد و اخوت کی بنیاد پر مسلم اُمہ کا تصور بھی تجریدی تصورہے۔دنیا میں مفادات کے حوالے سے اتحاد بنتے بگڑتے ہیں ۔اس وقت امریکی سامراج اپنے حلیف ممالک کے مسلم و غیر مسلم حکمرانوں کی مدد سے ساری دنیا پر بالعموم اور مسلم خطے پر بالخصوص یلغار کیے ہوے ہے اور مسلم عوام الناس کا جو قتل عام کر رہا ہے اس پوری دنیا کے عوام کی اکثریت خواہ وہ غیر مسلم ہوں یا مسلم شدید غم و غصے کی کیفیت سے دوچار ہے ۔بل کہ غیر مسلم عوام کا احتجاج زیادہ پر جوش نظر آتا ہے اور وہ مسلم عوام الناس کے فطر ی اتحادی ہیں کہ وہ بھی امریکی وحشیانہ عزائم سے خائف نظر آتے ہیں ،چنانچہ ایک مشترکہ ظالم کے خلاف دنیا کے تمام مظلوموں کا بلالحاظ مذہب و فرقہ اتحاد کسی حد تک نتیجہ خیز ثابت ہو سکتا ہے ۔اسلامی جہاد کے نام پر دکان چمکانے اور سادہ لوح مسلمانوں کو دور دراز قومی آزادی کی جنگوں میں حصہ لینے بھیجنے کے بجائے اپنے اپنے ملکوں میں پریشر گروپ بنائے جائیں تو عالمی سامراج کی اس عالمی دہشت گردی کا مقابلہ دنیا بھر کے امن پسند عوام کے وسیع تر جہاد کے ذریعہ ہو سکتا ہے ۔
جہاں تک کردار کو زیادہ سے زیادہ ’’اسلامی ‘‘بنانے کا تعلق ہے تو آج مسلمانوں میں اچھے کردار کے حامل افراد کا تناسب ماضی کے مسلمانوں میں اچھے ’’اسلامی‘‘کردار رکھنے والوں سے کم نہیں ہے ۔جس طرح آج اچھے بُرے ہر طرح کے کردار کے لوگ پائے جاتے ہیں ویسے ہیں ماضی میں بھی پائے جاتے تھے۔اس قسم کے ’’نان ایشوز‘‘پر وقت اور توانائی ضائع کرنے کے بجائے ہمیں تاریخی مغالطوں پر مبنی تصوراتی دنیا کے خول کو توڑ کر باہر نکلنا ہوگا اور عارضہ یاد ایام Nostalgiaسے نجات پانی ہو گی ۔21ویں صدی کے مسلمانوں نے 21ویں صدی میں سر اٹھا کر جینا ہے تو خیالی تاریخ کی بھول بھلیوں سے نکل کر جدید تقاضے پورے کرنے ہوں گے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حواشی
1: W.W.Hunter,The Indian Musalmans,187 1Reprinted by thy Premier Book House,Lahore,1974,p1 1
2: تفصیل کے لیے دیکھئے زاہد چودھری حسن جعفر زیدی پاکستان کی سیاسی تاریخ جلد 8افغانستان کا تاریخی پس منظر او رمسئلہ پخونستان کا آغاز ادارہ مطالعہ تاریخ ،لاہور 1994ص ص 27-27
3 :سید ابوالاعلیٰ مودو دی ۔تجدید واحیائے دین ،اسلامک پبلیکشنز لمیٹیڈ لاہور،1963ص 128
4: زاہد چودھری حسن جعفر زیدی محولہ بالا 2 8ص
5ـ: تفصیل کے لیے دیکھئے زاہد چودھری حسن جعفر زیدی پاکستان کی سیاسی تاریخ جلد5مسلم پنجاب کا سیاسی ارتقاء ،ادارہ مطالعہ تاریخ لاہور 199ص70-72
6: (۱)ابن ہشام ،سیرۃ النبی کامل ۔ترجمہ و تہذیب ،مولانا عبدالجلیل صدیقی ،مولانا غلام رسول مہر۔شیخ غلام علی اینڈ سنز ،لاہور حصہ اول ۔ص 138-140-150-151-158-159
(۲)ابی جعفر محمد بن جریر طبری ،تاریخ الامم والملوک(تاریخ طبری)ترجمہ سید محمد ابراہیم ندوی،نفیس اکیڈمی ،کراچی،حصہ اول 1970ص 36-4 3
7: علامہ احمد امین (مصری) فجر الاسلام ،ادارہ طلوع اسلام۔لاہور 1967،ص 643-637-63
:8 قرآن مجید کی سورۃ مبارکہ الفتح کی آیت 10اور آیت 18میں اللہ تعالیٰ نے بیعت رضوان کرنیوالوں کی بے حد تعریف و توصیف فرمائی ہے ۔اور سورۃ مبارکہ ممتحنہ کی آیت12میں آنحضرت ؐ کے عورتوں سے بیعت لینے کی شرائط بیان فرمائی گئی ،تاہم ان آیات سے بھی یہی اشارہ ملتا ہے کہ بیعت کا طریقہ اس وقت کے عربوں میں پہلے سے معروف تھا ۔صرف شرائط کا ہر موقع کی مناسبت سے طے ہوتی تھیں ۔
9: علامہ احمد امین(مصری)محولہ بالا ص667
10: اردو دائرہ معارف اسلامی ،دانش گاہ پنجاب ،لاہور طبع اول 197 1 جلد 5ص 291
11: ابن خلدون ،علامہ عبدالرحمن،مقدمہ ابن خلدون ،ترجمہ سعد حسن خان یوسفی ،اصح الطابع و کارخانہ تجارت ،کراچی ،ص ص 386-191-192
12: Frederick Engels,Origins of Family ,Private Property and State elected Works,Karl Marx and Frederick Engels.Progress Publishers,Moscow, 1970.Vol.3,pp 263-26
13: ابن خلدون ،محولہ بالا ص 233
14: محمد حنیف ندوی،افکار ابن خلدون ،ادارہ ثقات اسلامیہ ،لاہور 196 9ص ص 62-63
15: علامہ احمد امین (مصری) محولہ بالا ،ص 373
16: ابن خلدون ،محولہ بالا ص ص232-233
17: ابن خلدون ،محولہ بالا ص ص199-200
18: علامہ احمد امین (مصری ) محولہ بالا ص 261-262
19: تفصیل کے لیے دیکھئے زاہد چودھری حسن جعفر زیدی خالد محبوب،مسلمانوں کی سیاسی تاریخ ،عہد بنو امیہ ،ادارہ مطالعہ تاریخ ،لاہور 199ص 70
20: تفصیل کے لیے دیکھئے زاہد چودھری حسن جعفر زیدی ،مسلمانوں کی سیاسی تاریخ ،عہد بنو عباس ،ادارہ مطالع تاریخ ،لاہور 2003
21: اسٹینلے لین پول،سلاطین ترکیہ ،ترجمہ ،نصیب اختر ،ایچ ایم سعید اینڈ کمپنی ،کراچی 1966ص 35 7
22: مقبول بیگ بدخشانی ،تاریخ ایران مجلس ترقی ادب لاہو ر،1971 جلد دوم ص 342
23: علامہ احمد امین (مصری ) محولہ بالا ، ص ص 743-44
24: ایضاً ص ص 724-725-741
25: ایضاً ص 73 4
26: زاہد چودھری حسن جعفر زیدی مسلمانوں کی سیاسی تاریخ ،عہد بنو عباس ،ادارہ مطالعہ تاریخ ،لاہور ،200 3جلد 1ص 312
27: ابن خلدون ،محولہ بالا ،ص 188
٭٭٭
(بشکریہ ادبِ لطیف لاہورفروری 2009)
انتخاب :منشایاد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’ تباہ حال قومیں اگر افسانوی ماضی کے نشے میں ڈوبی رہیں تو زمانے کی ٹھوکریں ہی ان کا مقدر ہوتی ہیں۔
ماضی اگر شاندار رہا ہو تو لازم ہے کہ حال،ماضی سے کہیں زیادہ تابناک اور مستقبل، حال سے بھی زیادہ روشن ہو۔لیکن اگر حقیقت اس کے بر عکس ہو تو یقیناََ اس افسانوی ماضی کی روایات مشکوک ہو جاتی ہیں۔حقائق کو مسخ کرکے بے حسی و غفلت اور قومی جرائم کی پردہ داری کرکے فریب دہی و خود فریبی کا ارتکاب کیا جاتا ہے۔ ۔۔۔
۔۔۔۔۔مہلک بیماری کا علاج صحیح تشخیص کے بغیرممکن نہیں۔ سرطان کا علاج تھپکیوں اور میٹھی لوریوں سے ممکن نہیں بلکہ بے رحم نشتر سے کیا جانا از بس کہ لازم ہے۔جس قوم کے جسد کے اعضائے رئیسہ ہی سرطان سے گل سڑ چکے ہوں وہ میٹھی لوریوں کے سہارے زندہ نہیں رہ سکتی۔اس کا علاج صرف اور صرف بے رحم نشتر ہی سے ممکن ہے۔جو معاشرہ ساکت اور جامد ہو جائے ،وہ اپنے مستقبل کا کوئی لائحہ عمل ہی نہیں رکھتا تو پھر اس کے مستقبل
کا فیصلہ غیر اور متحرک قومیں کرتی ہیں۔یہی قدرت کا اٹل فیصلہ ہے۔‘‘
(اقتباس از کتاب پہلا پتھر۔مصنف کیپٹن نذیرالدین خان صفحہ نمبر ۵۱
ناشر:نیو ہورائزن پبلی کیشنز۔راشد منہاس روڈ۔کراچی)