مسلمان ممالک اور مغربی ممالک کے معاشرتی فرق کی ایک واضح اور روشن مثال دونوں معاشروں کی پولیس کا کردار اور ٹریفک کا نظام ہے۔دونوں معاشروں میں اس سلسلہ میں جو زمین ،آسمان کا فرق دکھائی دیتا ہے”برادرانِ اسلام“ کے نزدیک شاید وہ بھی امریکی مغربی سازش کا نتیجہ ہو۔پولیس کا مجموعی کردار اپنے عوام کی مدد کرنا اور جرائم پر قابو پانا ہے۔مغربی دنیا میںسرِ راہ آپ کو کوئی مشکل پیش آگئی ہے، آپ پولیس سے رجوع کرتے ہیں تو جو ممکنہ ہیلپ مل سکتی ہے ،آپ کو مل جائے گی۔آپ نے کوئی رستہ پوچھنا ہو تب بھی وہ ایک اچھے گائیڈ کی طرح آپ کی رہنمائی کریں گے۔حال ہی میں مجھے فیس بک پر بلجیم میں مقیم اپنے ایک عزیز احسن انجم کی ویڈیو دیکھنے کا اتفاق ہوا۔وہ بتا رہے تھے کہ سائیکلنگ کے ایک لمبے سفر پر برسلز میں پڑاؤ کے بعد سائیکل کو دیکھا تو کوئی شریر اسے نقصان پہنچا گیا تھا۔رات ہو چکی تھی،انہیں اور کوئی رستہ نہیں سوجھا تو وہاں کے قریبی پولیس اسٹیشن جا کر اپنا مسئلہ بیان کیا۔یہ ناقابلِ یقین بات ہے لیکن اس وقت ڈیوٹی پر موجود پولیس کے عملہ نے احسن انجم کی مکمل مدد کی اور مل جل کر سائیکل کو اس قابل کر دیا کہ وہ ۱۱۰کلو میٹر کا سفر کرکے اپنے گھر پہنچ گئے۔ایسی مثالیں استثنائی سہی لیکن بہر حال پہلے سے موجودایک بھروسے والی فضا میں خوشگواری کا اضافہ کرتی ہیں۔نائن الیون کے بعد مغربی دنیا کی فضا میں بڑی تبدیلی آئی ہے۔ پے در پے ہر تخریبی کاروائی یا سازش میں مسلمانوں کی عمومی طور پر اور پاکستانیوں کی خصوصی طور پر نشان دہی ہوتے چلے جانا اس فضا کو مزید مکدر کرنے کا باعث بنی ہے۔ مزید خرابی یہ ہوئی کہ جو غیر پاکستانی پکڑے جاتے ہیں،ان کو دہشت گردی کی تربیت دینے کے مراکز بھی پاکستان سے نکل آتے ہیں۔مغربی دنیا میں پکڑے جانے والے بیشتر”مجاہدین“ایسے رہے ہیں جو یہاں کی حکومتوں سے سوشل ہیلپ لے کر گزر بسر کر رہے تھے۔اب کہہ نہیں سکتا کہ یہاں جس تھالی میں کھانا ،اسی میں چھید کرنا والی بات درست بیٹھتی ہے یا نہیں۔نائن الیون سے پہلے میں افغانی ٹوپی پہنا کرتا تھا۔اس سانحہ کے بعد بھی میں نے اس کااستعمال جاری رکھا۔حالانکہ تب افغانی بھی اپنی اس نشانی کو ترک کرگئے تھے۔لیکن مجھے اس ٹوپی کی وجہ سے کسی نے کوئی روک ٹوک نہیں کی۔اپنے شہر کے بس اسٹاپ پرصرف ایک بار پولیس نے میرے کاغذات چیک کیے اور پھر مسکرا کر معذرت کے الفاظ بول کر چلے گئے۔مجھے علم ہے کہ مجھے ایک بار نہیں سینکڑوں بار خفیہ طور پر چیک کیا گیا ہوگا۔لیکن یہ نگرانی ”باور کراکے“ ہراساں کرنے والی نہیں تھی۔ایسے انداز میں نگرانی کی جاتی کہ مجھے کبھی اندازہ ہی نہیں ہو سکا۔اس کا فائدہ یہ ہوا کہ مجھے ذاتی طور پر کوئی پریشانی نہیں ہوئی اور پولیس کی اپنی جگہ پوری تشفی ہو گئی۔
مغربی دنیا میں جن لوگوں کو کسی شک و شبہ میں گرفتار کیا گیااسے یکسر غلط کہنا زیادتی ہے۔ان میں سے جو بے قصور تھے یا مغربی قوانین کے مطابق ان کا جرم ثابت نہیں کیا جا سکا،ان سب کو رہا کیا گیا تھا۔بلکہ جن کے جرم کا علم تھا اور قانونی موشگافی کی وجہ سے سزا نہیں دی جا سکتی تھی،انہیں بھی رہا کرنا پڑا۔بہر حال یہاں کہنے کا مقصد یہ ہے کہ مغربی دنیا میں پولیس کا عمومی کردار عوام کی مدد کرنے والا ہے،عوام میں خوف اور دہشت پیدا کرنے والا نہیں۔اس کے بر عکس پاکستانی پولیس ہو یا دوسرے مسلمان ملکوں کی پولیس۔ان سب کا فریضہ اپنے حکمرانوں کی حفاظت،ان کے مفادات کا تحفظ اور عوام کی تذلیل کے سوا کچھ نہیں ۔کوئی عام آدمی کسی پولیس والے سے رستہ پوچھ بیٹھے تو اسے حوالات کا رستہ دیکھنا پڑجاتا ہے اور احسن انجم کی طرح کوئی سادہ لوح سائیکل کا مسئلہ لے کر پولیس اسٹیشن چلا جائے تو اسے اپنے ہی سائیکل کی چوری کے جرم میں دھرلیا جائے گا۔
پولیس کلچر کے واضح فرق کے ساتھ مغربی ممالک کی پولیس کے زیر انتظام ٹریفک کے نظام اور مسلمان ملکوں کے ٹریفک کے نظام کے فرق سے بھی دونوں معاشروں کے فرق کو بہتر طور پر سمجھا جا سکتا ہے۔ٹریفک کے قواعد و ضوابط صرف کتابوں میں درج کرنے کے لیے نہیں ہیں بلکہ رواں دواں سڑکوں پر ان کا مکمل طور پر اطلاق ہوتا ہے۔ان قواعد کی خلاف ورزی عام آدمی کرے ،چاہے امریکی صدر کی اولاد کرے یا ملکہ برطانیہ کے شاہی خاندان کا کوئی فرد کرے،سب کے لیے سزا یکساں ہے۔کسی کے لیے کوئی رعائت نہیں۔ اگر امتیازی فرق ہوسکتا ہے تو یہ کہ شاہی خاندان کے فرد کو اصل جرمانہ سے زیادہ جرمانہ کی سزادی جائے کہ تم پر تو قانون کا احترام کرنا عام آدمی سے بھی زیادہ واجب تھا۔مغربی ممالک کے ٹریفک سسٹم کے برعکس پاکستانی معاشرے کا ٹریفک سسٹم ہو یا دوسرے مسلمان ملکوں کا ٹریفک سسٹم ہو،سب نفسا نفسی کا نمونہ پیش کرتے ہیں۔ٹریفک کے قوانین کی دھجیاں نہ صرف مقتدر افراد اڑاتے ہیں بلکہ قانون نافذ کرنے والے ادارے خود اس کی پامالی کر رہے ہوتے ہیں۔غریب کے کاغذات پورے ہوں تو اس کی موٹر سائیکل میں کوئی نہ کوئی نقص ڈال کر (بلا رسید)جرمانہ عائد کردیا جائے گا اور اشرافیہ طبقہ کے لوگ سرِ عام ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کررہے ہوں گے تو بیچ چوراہے میں کھڑے ہوئے پولیس والے بھی ان سے بے خبر ہوجاتے ہیں۔یہ اصل رویے ہیں جن سے مغربی سوسائٹی اور مسلمان ملکوں کی سوسائٹی کے فرق کو سمجھا جا سکتا ہے۔اپنی ہرغلطی اور کوتاہی میں مغربی سازش ڈھونڈ نکالنا مریضانہ رویہ ہے۔جس سے مرض کا علاج نہیں ہوگا بلکہ اس میں مزید اضافہ ہوگا۔دونوں معاشروں کی پولیس کے کردار سے دونوں معاشروں کے فرق کو بخوبی سمجھا جا سکتا ہے۔ مسلم ملکوں کے افسوسناک پولیس سسٹم کے ہونے میں امریکہ ، جرمنی،برطانیہ،فرانس اور باقی یورپ کی کوئی سازش شامل نہیں ہے۔بے تکی الزام تراشی سے مسئلے حل نہیں ہوں گے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اپنی خرابیوں کو مان کر ایمانداری کے ساتھ اصلاحً احوال کے لیے قدم اٹھایا جائے
روزنامہ مقدمہ کراچی مورخہ ۔۔۲۲جنوری ۲۰۱۰ء
روزنامہ ہمارا مقصد دہلی مورخہ۲۵جنوری ۲۰۱۰ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔