’’ہماری امی ، مبارکہ حیدر‘‘، مرتب: شعیب حیدر
کچھ تاثرات
حیدر قریشی صاحب نے’’ پسلی کی ٹیڑھ‘‘ لکھ کر کیا یوں کہ ہم لوگوں کو بالکل اس طرح کسی اور طرف لگا دیا جیسے کوئی ماہر، واردات کے وقت کچھ جعلی ثبوت جان بوجھ کر چھوڑ جاتا ہے اور کھوجی ان ثبوتوں کے پیچھے بھٹک جاتے ہیں اور یوں جرم کا سرا ان کے ہاتھ نہیں آ پاتا۔ اب آپ ٹیڑھ کو پسلی میں تلاش کیجیے اور باقی کی ہڈیاں بھول جائیے۔ بات یہ ہے کہ حیدر قریشی صاحب نے طے کیا ہوا ہے کہ سیدھا کام نہیں کرنا، ٹیڑھ ضروری ہے۔ کوئی منزل صراطِ مستقیم سے نہیں پانی، جب تک راستہ ٹیڑھا میڑھا نہ ہو یا کم سے کم سامنے کی روش سے بغاوت نہ کرلیں، تب تک بات نہیں بنتی۔
شاعری کے کھیت پر پہنچے تو ماہیے کی پگڈنڈی چن لی، رسالہ نکالا تو جرمنی اور پاکستان کے بجائے زیورات کی تجوری سے نکالا، وہ بھی بیگم کی تجوری سے۔ افسانہ لکھا تو علامتوں میں بھی بیگم کو کھڑکی سے جھانک کر دیکھے بنا نہیں رہے۔ بیگم کا خاکہ کیا لکھا، بیگم نامہ لکھا اور لکھتے چلے گئے۔ بلکہ ایسا لگ رہا ہے کہ وہ سب ادیب اور شعرا جو نازنینوں پر مرمٹنے پر تلے رہتے ہوں، یہ انہیں بتا رہے ہیں کہ گویا یہ لوگ گھر کی مرغی دال برابر کا محاورہ کبھی سمجھ ہی نہیں سکے۔ سو حیدر صاحب نے ان سب کو (مطلب ہم سب کو) شرمندہ کرنے کی ٹھان لی ہے۔ اور تو اور لوگوں کو یہ بھی بتا دیا ہے کہ میاں اِس کی ٹوپی اس کے سر کرنے والو، کبھی اپنی ٹوپی بیگم کو پہنا کر تو دکھا، سو اس کتاب کا سرورق دیکھ لیجیے۔ یہ کتاب ہماری امی، مبارکہ حیدر دراصل اسی ٹیڑھ کی ایک مثال ہے جو انھوں نے اپنی مرحوم بیوی کے لیے شائع کی ہے، جو ان کی محبوبہ، دوست اور ہر جرم میں شریک تھیں، مگر اتنا سیدھا کام وہ کیسے کرلیتے، سو خاصی تحریریں خود انہی کی ہونے کے باوجود، یہ کتاب اصل میں حیدر صاحب کے بچوں کی ترتیب اور تدوین ہے جس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ یہ کتاب مختلف تحریروں اور ان کی اقتباسات کا انتخاب ہے۔ یعنی ان کی جانب سے یہ معمولات سے ایک اور انحراف ہوگیا۔
کتاب دلچسپ ہے اور یہ حیدر قریشی صاحب کی اپنی بیگم سے محبت، مطابقت اور ہر معاملے اور ہر قدم پر ایک دوسرے کا ساتھ دینے کے قابلِ رشک عروج کا نشان ہے بلکہ اس ہمالیہ کی چوٹی پر لگا پھریرا ہے۔ ان کے بیٹے شعیب حیدر کا پیش لفظ پڑھ کر ایک خیال یہ آیا کہ اتنا عرصہ جرمنی میں گزارنے والے بچوں کا اپنی تہذیب سے رشتہ جڑے رہنا، والدین کی تربیت اور محنت ظاہر کرتا ہے جو قابلِ ستائش و تقلید ہے۔ ہم ادیبوں کے ہاں جو رکھ رکھا، لوازم، احتیاط، معاملات اور تحریر میں تقدیم و تاخیر کا عنصر ہوتا ہے وہ لاکھ بے تکلفی سے لکھا جائے، صاف پہچان لیا جاتا ہے۔ مگر جب کوئی ان سب تکلفات سے واقعی مبرا ہو کر لکھے تو وہ جو معصومیت نظر آتی ہے وہ مجھے کتاب پر لکھے بعض تاثرات میں نظر آئی جو گاہے گاہے ان کے بچوں کی طرف سے بعد کو لکھے گئے ہیں۔ ان میں سے بعض میں بیساختگی ہے تو دوسروں میں محبت بھری احتیاط ہے۔
سچ پوچھیے تو یہ کتاب اچھا خاصہ سفرنامے کا اقتباس معلوم ہوتی ہے بلکہ سوانح حیات کا خاصہ اہم باب معلوم ہوتی ہے۔ حیدر صاحب اور ان کی اہلیہ، مبارکہ حیدر صاحبہ کی زندگی کا سفر گویا پوری فلمی کہانی ہے، اس پر چٹکلے اور حیدر قریشی صاحب کے مزیدار جملے مثلا اتوار کی کہانی، کہ اتوار ہی کے دن میاں، بیوی، پہلی بیٹی اور پہلے بیٹے کی پیدائش، اتوار کو ہی نکاح اور پھر آخرکار حکومتِ پاکستان نے تنگ آکر اتوار کی سرکاری چھٹی ختم کردی۔ یا چائے بنانے کے معاملے میں دونوں کا پہل کرنا اور پھر یہ جملہ کہ ہم دونوں کا جذبہ دیکھ کر چائے کہتی ہے آپ دونوں آرام سے بیٹھیں میں خود ہی تیار ہو کر آجاتی ہوں۔
یہاں میاں بیوی کے تعلقات کے حوالے سے اتنی بے تکلفی سے اور براہِ راست لکھا گیا ہے کہ سگمنڈ فرائیڈ کو بھی سہولت سے یاد کر کے آگے بڑھ گئے اور ازدواجی زندگی کی ارتقائی منازل کا ذکر یوں کر گزرے کہ اسے پڑھ کر کوئی بھی اس میں اپنی زندگی کا عکس آسانی سے دیکھ سکتا ہے اور اس بارے میں کھول کر بولنے اور لکھنے کا حوصلہ بھی کرسکتا ہے۔ ان دونوں کے درمیان گھریلو معاملات کے علاوہ بھی، کام کاج اور ادبی زندگی کے حوالے سے اتنا اشتراک رہا کہ حیدر صاحب بیگم پر کچھ لکھتے ہیں تو وہ بھی خودنوشت معلوم ہوتی ہے اور خودنوشت لکھیں گے تو یقینا بیگم کے حالاتِ زندگی سامنے آجائیں گے۔ اس پر طرہ ان کی یادداشت کہ چھوٹی چھوٹی باتوں کا اتنا جامع اندراج، گویا سب کچھ باقاعدگی سے داخلِ دفتر ہوتا رہا ہو، وہ بھی مع تاریخوں کے۔
اس کتاب میں ان افسانوں اور نظموں کا بھی ذکر ہے جن میں انھوں نے اپنی اہلیہ کو کردار کے طور پہ شامل کیا ہے یا انہی کے حوالے سے نظمیں اور افسانے لکھے ہیں۔ ویسے میری رائے میں کسی افسانے کا پس منظر یوں کھول کر بیان کردینا افسانے کو خطرے میں ڈالنے کے مترادف ہے مگر کیا کریں، پھر وہی سیدھی پگڈندی سے اترنے کا مسلہ، سو بہت خوب، اس پر الگ سے داد۔ نظمیں بھی کیا خوب ہیں، مجھے تو بہت لطف آیا پڑھ کر، خصوصا نصف سلور جوبلی کا پیرایہ اظہار بہت بھرپور ہے۔
بات نہ تو صرف ہمارے دیسی معاشرے کی ہے اور نہ محض شاعروں اور ادیبوں کی، ہر طرح کے اور ہر قوم کے لوگوں میں یہ عام ہے کہ بیوی پر لطیفے بنا کر ایسے مذاق اڑاتے ہیں گویا شوہروں کا مسخراپن کوئی انہونی بات ہو۔ کبھی کبھار کی بات اور ہے لیکن سوشل میڈیا نے تو عجیب ماحول بنا دیا ہے کہ بیویوں پر لطیفے پڑھ پڑھ کر اور سن سن کر اب بعض اوقات کوفت ہوتی ہے۔ مگر یہ کتاب اس ماحول کے بالکل الٹی سمت میں چلتی ہے، وہ بھی آئینہ اٹھائے ہوئے۔آخری حصے میں انٹرویو بھی دلچسپ ہیں اور پھر جو مختلف مقالوں کے اقتباسات ہیں، وہ بجائے خود اسی کتاب کے خلاصے بلکہ کتاب پہ تبصرے معلوم ہوتے ہیں۔ پڑھ کر ایسا لگ رہا ہے کہ جیسے کتاب پر اچھا خاصہ تبصرہ، کتاب مرتب ہونے سے بہت پہلے ہی لکھ دیا گیا ہو۔۱؎ ان مقالوں میں حیدر صاحب اور مبارکہ صاحبہ کی زندگی کے مشترکہ پہلوؤں کو بہت خوبی سے سمیٹا گیا ہے، سو میں ان باتوں کو دہرانے سے گریز کرتے ہوئے حیدر قریشی صاحب کو بہت سی داد دے کر اجازت چاہوں گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎ نوٹ از مرتب: فیصل عظیم صاحب نے کتاب کو بہت سرسری طور پر دیکھ کر مزاحیہ پیرائے میں تبصرہ کیا ہے۔وگرنہ وہ جن مقالوں کا ذکر کر رہے ہیں وہ مختلف یونیورسٹیوں کے تحقیقی مقالات ہیں۔میری مختلف کتابوں میں مبارکہ کا جو ذکر ہے اسی حوالے سے مقالات میں ان کا سنجیدگی سے ذکر کیا گیا ہے۔کتاب’’ہماری امی مبارکہ حیدر‘‘ میں ایسے بیشتر اقتباسات یک جا کیے گئے ہیں۔ فیصل صاحب نے سنجیدگی کے ساتھ پورا مطالعہ کرتے ہوئے تبصرہ لکھا ہوتا تو یونیورسٹیوں کے تحقیقی مقالات میں ذکر کو ان الفاظ میں بیان نہ کرتے:’’پڑھ کر ایسا لگ رہا ہے کہ جیسے کتاب پر اچھا خاصہ تبصرہ، کتاب مرتب ہونے سے بہت پہلے ہی لکھ دیا گیا ہو۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
واٹس ایپ سے 22.07.2019
حیدرقریشی: ’’ٹیڑھ والی بات پر جوگندر پال کا مضمون یاد آگیا۔
’’میں نے مندرجہ بالا سطور میں لکھا ہے کہ حیدر قریشی کو اپنی ساری وارداتیں اپنے جادہ ِ مستقیم پر پیش آئی ہیں۔ ایسا نہیں کہ سیدھے راستوں پر کوئی موڑ واقع نہ ہوں۔ اس مجموعے کی کئی کہانیوں میں راستے کہیں تمثیلی باریکی اختیار کر کے اور کہیں اچانک داستانوی پھیلائو میں بے ساختہ بل کھاتے ہوئے گزر جاتے ہیں اور انہیں اس طرح مڑتی ہوئی سیدھ میں دیکھ کر دھیان بے اختیار دلوں کی گزرگاہوں کی طرف ہو لیتا ہے۔‘‘(’’روشنی کی بشارت ‘‘کے افسانے از جوگندر پال)
اور میرا اپنا موقف یہ رہا:
’’میں بھی صراط مستقیمی بننے کی کوشش کرتاہوں مگر زگ زیگ چلتاہوں کیونکہ مجھے احساس رہتاہے کہ لکیریں اپنے فقیروں کو کھاجاتی ہیں۔‘‘(خاکہ ’’برگد کا پیڑ‘‘ سے)
فیصل عظیم صاحب: ’’واہ ،دونوں خیالات سے متفق ہوں کسی نہ کسی سطح پر۔ویسے اگر میں یہ بات سنجیدہ پیرائے میں لکھتا تو وہ آپ دونوںکے خیالات کے بین بین ہوتی‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔