رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ماں کے پاؤں تلے جنت ہے ‘‘ ۔
شیخ سعدی نے کہا:’’محبت کی ترجمانی کرنے والی کوئی چیز ہے تو وہ صرف ماں ہے ‘‘۔
مشہور مفکر اور شاعر علامہ اقبال :
’’سخت سے سخت دل کو ماں کی پرنم آنکھوں سے موم کیا جاسکتا ہے ۔‘‘
الطاف حسین حالی :’’ماں کی حقیقت محبت کی آئینہ دار ہوتی ہے‘‘۔
مغربی دانشور ملٹن نے کہا:’’آسمان کا بہترین اور آخری تحفہ عورت ہے ۔‘‘
شیلے نے کہا:’’دنیا کا کوئی رشتہ ماں سے پیارا نہیں ۔‘‘
ارسطو کے مطابق:
’’ماں سے ہمدردی کی توقع رکھنے کے بجائے ماں کا ہمدرد ہونا چاہئے ۔‘‘
شیکسپئیر کا کہنا ہے :بچے کے لئے سب سے اچھی جگہ ماں کا دل ہے ۔‘‘
ماں کے متعلق مختلف آراء پیش کی جاتی رہی ہیں ۔اور اسکی عظمت کا اعتراف دانشور، ادیب ،مفکر اور شاعر نے اپنے اپنے طریقے سے کیا ہے جہاں فن کاروں نے اپنے فن سے عورت کی عظمت کا اعتراف کیا ہے وہیں عام انسان نے بھی اپنے طریقے سے ،محبت سے،اپنائیت سے، خلوص سے ،عاجزی سے ،انکساری سے اپنی ماں کا احترام کیا ہے ۔اسی محبت و اپنائیت اور عزت و احترام کی عمدہ مثال شعیب حیدراور ان کے باقی چار بھائی بہنوں کی ترتیب دی ہوئی کتاب ’’ہماری امی مبارکہ حیدر ‘‘ ہے ۔شعیب حیدر کے والد محترم حیدر قریشی ادبی دنیا میں کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں اور مبارکہ حیدر انکی اہلیہ ہیں ۔مبارکہ حیدر کی بکھری تصویریں حیدر قریشی کی تحریروں میں جابجا نظر آتی ہیں جن کو ان کے بچوں نے یکجا کر کے ایک قلمی البم بنا دیا ہے اور یہ البم ’’ہماری امی مبارکہ حیدر ‘‘کے نام سے عکاس انٹرنیشنل پبلی کیشنز اسلام آباد پاکستان سے ۲۰۱۵ میں شائع ہوا اور یہ خوبصورت قلمی البم مبارکہ حیدر کی تصویر سے شروع ہوتا ہے۔
زیر نظر کتاب کو شعیب حیدر نے ترتیب دیا ہے اوراسکا انتساب بھی مبارکہ حیدر کے نام ہے اور حیدرقریشی کے اس ماہئے سے یہ قلمی البم اپنے قلم کو روشنائی عطا کرتا ہے۔
پھولوں کی ہے نرمی بھی
اسکی محبت میں
صحراؤں کی گرمی بھی
اس سے حیدر قریشی کے دل میں مبارکہ حیدر کے مقام اور محبت کا اندازہ ہوتا ہے۔ شعیب حیدر نے پیش لفظ کے عنوان سے اس کتاب کی غرض وغایت کے ساتھ اپنا مختصر سا تعارف بھی پیش کردیا ہے کہ گھر کی کسی تقریب میں جب سبھی افراد خانہ موجود تھے اس وقت ماں پر لکھے گئے کتابوں اور خاکوں پر تبصرے ہورہے تھے کہ کس طرح حمایت علی شاعر کی دختر نے اپنی والدہ کے انتقال کے بعد ایک کتاب ترتیب دی اور اسی سے تحریک پاکر شعیب حیدر اور انکے بھائی بہن کے دل میں یہ خیال آیا کہ کیوں نہ ہم بھی اپنی والدہ کے لئے کچھ ایسا کریں کہ انھیں بھی خوشی ہو۔ اس سلسلے میں شعیب حیدر کتاب کے پیش لفظ میں لکھتے ہیں ۔
’’جب ماں سے محبت کا کوئی قلمی اظہار کرنا ہے تو کیا ضروری ہے کہ پہلے ماں کے مرنے کا انتظار کیا جائے اور پھر ماں کو یاد کرتے ہوئے کوئی کتاب ترتیب دی جائے ۔۔۔۔۔۔ ایسا کام ماں کی زندگی میں ہی کرلیا جائے ۔ماں کی روح کوخوش کرنے کے بجائے کیوں نہ جیتی جاگتی ماں کو اسکی روح سمیت خوش کیا جائے ۔‘‘
کتاب کے مرتب کے والد خود اردو دنیا کے نامی گرامی ادیب و شاعر ہیں جب انہوں نے اپنے بچوں کی باتیں سنیں تو کہا کہ :
’’بجائے اسکے کہ خود بھی لکھو اور دوسرے عزیز و اقارب سے بھی لکھوانے کا جتن کرو بہتر ہے کہ میری مختلف تحریروں میں آپ لوگوں کی امی کا جو ذکر ہے اسی کو یک جا کرلو۔۔۔۔۔۔میری تحریروں میں انکا اتنا ذکر کیا گیا ہے کہ آپ لوگ اسی کو مرتب کر کے اپنی ماں کو مزید خوش کر سکتے ہیں ۔‘‘
اس کتاب میں حیدر قریشی کی ادبی نگارشات کے تحت مبارکہ حیدر کو تلاشا گیا ہے یہ ۱۷ مختلف موضوعات پر محیط ہے ۔ا س کا پہلا مضمون ’’پسلی کی ٹیڑھ ‘‘(خاکہ) ہے اس خاکہ میں حیدر قریشی نے اپنی شادی شدہ زندگی کے نشیب وفراز کو بیان کیا ہے اپنے اور مبارکہ حیدر کے تعلق کو بہت ہی دلنشین پیرائے میں بیان کیا ہے ۔یہ خا کہ حیدر قریشی کے خاکوں کے مجموعے ’’میری محبتیں‘‘سے لیا گیا ہے اور اس خاکہ کے مطالعہ سے انکی محبت ،قربت ،ذہنی ہم آہنگی کا اندازہ ہوتا ہے۔حیدر قریشی رقمطراز ہیں ۔
’’میں نے کتابی سلسلہ جدید ادب جاری کیا اس میں مبارکہ کی تمناؤں کا لہو شامل تھا۔ ہر شمارے کے ساتھ اس کا ایک آدھ زیور بک جاتا۔اس اللہ کی بندی نے ایک دفعہ بھی تکرار نہیں کی۔ جب تک اس کا زیور ساتھ دیتا رہا جدید ادب جاری رہا ۔زیور ختم ہوگئے تو جدید ادب بھی بند ہو گیا۔‘‘
اس اقتباس سے دونوں کی ایک دوسرے کے لئے محبت ،احساس اور فکر کا پتہ چلتا ہے کہ کس طرح مشکل حالات میں بھی دونوں نے ایک دوسرے کا ساتھ نہیں چھوڑا ۔ساتھ چھوڑنا تو درکنار ادب اور اردو کی ترویج و اشاعت کی خاطر اپنی پونجی لٹانے سے بھی گریز نہیں کیا۔
مختلف خاکوں جیسے’’ رانجھے کے ماموں‘‘ ،’’مائے نی میں کنوں آکھاں‘‘ ،یاد وں کے مجموعے ’’کھٹی میٹھی یادیں‘‘ میں شامل مضامین ’’بزم جاں‘‘ ،’’دعائیں اور قسمت ‘‘،’’شوخیاں بچپنا ‘‘،’’علتیں علالتیں‘‘ ،’’روح اور جسم‘‘ ،’’لبیک الھم لبیک ‘‘،’’زندگی در زندگی‘‘ ،’’زندگی کا یادگار سفر‘‘،انشائیوں کے مجموعے ’’فاصلے اور قربتیں‘‘ کے اقتباسات اور افسانوں میں،’’میں انتظار کرتا ہوں‘‘،’’ روشنی کی بشارت‘‘میں مبارکہ حیدراپنی پوری شخصیت کے ساتھ جلوہ گر ہیں۔ اسکے علاوہ جزوی طور پر شامل افسانوں میں’’ آپ بیتی ‘‘،’’گھٹن کا احساس‘‘ ،’’بھید‘‘،’’اپنے وقت سے تھوڑا پہلے‘‘،’’مامتا‘‘ میں بھی ان کا جزوی ذکر ہے۔ سفر ناموں میں ’’سوئے حجاز‘‘ کے عمرہ والے حصہ میں بھی مبارکہ حیدر اپنے شوہر کے ہم رکاب ہیں اور حج کے سفر میں بھی ساتھ ساتھ ہیں۔ چنانچہ ’’سوئے حجاز‘‘ کے دونوں حصوں (عمرہ اور حج) میں مبارکہ حیدر کامسلسل ذکر ملتا ہے ۔
’’ پھاگن کی سفاک ہوا‘‘،’’نصف سلور جوبلی‘‘دونوں نظمیں بیوی،بچوں سے متعلق ہیں۔ اورتو اورحیدر قریشی کے مختلف ادبی انٹرویوز میں بھی جا بجا مبارکہ حیدر کا تذکرہ ملتا ہے انکی محبت کی مثال یہ ماہیا دیکھئے ۔
بیوی
اک روح کا قصہ ہے
میرے بدن ہی کا
جو گم شدہ حصہ ہے
حیدر قریشی کی شخصیت پر مختلف ممالک کی یونیورسٹیز میں پی ایچ ڈی اور ایم فل کا کام ہوا ہے اور ان مقالوں میں بھی مبارکہ حیدر کا ذکر ملتا ہے ۔مجھے اس کتاب کو اس وقت دیکھنے اور پڑھنے کا موقع ملا جبکہ وہ اس دنیا میں نہیں رہیں۔
مبارکہ آنٹی واقعی خوش قسمت تھیں انھیں حیدر سر کی محبتیں ،قربتیں نصیب ہوئیں۔ اس قلمی البم میں حیدر قریشی کی تخلیقی تصویروں میں مبارکہ حیدر کا وجود جابجا موجود ہے انہیں صرف شوہر نے محبت ،عزت اور وقار عطا نہیں کیا بلکہ انکے بچوں نے اس کتاب کو ترتیب دے کر اپنے والدین کی شادی کی ۴۴ ویں سالگرہ کے موقع پر ایسا قیمتی اور انمول تحفہ دے کر ایک نئی مثال قائم کی ہے ۔
گوکہ آج مبارکہ آنٹی اس دنیا میں نہیں ہیں لیکن وہ حیدر سر اور انکے بچوں کے دلوں میں، یادوں میں اور تحریروں میں ہمیشہ زندہ رہیں گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(مطبوعہ روزنامہ ’’اودھ نامہ‘‘ لکھنئو۔یکم جولائی، ۲۰۱۹ء۔۔ادب زندگی)