جرمنی میں مقیم ادیب و شاعر محقق و نقاد اور مدیر جدید ادب اردو حیدرقریشی کے فرزند نے اپنی والدہ کو ان کی حیات میں بطور تحفہ کتاب ’’ہماری امی مبارکہ حیدر‘‘ترتیب دے کر ان کی خدمت میں پیش کی تھی۔ انہیں یہ خیال دراصل اس لئے آیا کہ ادب میں اس طرح کے کام سر انجام پائے ہیں۔ جس کی مثالیں بھی انہوں نے اس کتاب کے پیش لفظ میں دی ہیں۔ کہ چودھری ظفر اللہ خان صاحب نے ’’میری والدہ‘‘ قدرت اللہ شہاب نے (خاکہ)’’ماں جی‘‘ اور حمایت علی شاعر کی دختر جاوداں میر نے ’’معراج نسیم‘‘ کے عنوان سے کتابیں ترتیب دیں یا تحریر کیں۔ یہ تمام کتب بعد از وفات منظر عام پر آئیں۔ اس بابت حیدرقریشی کے گھر میں بحث چھڑ گئی جس میں ان کی تمام بیٹیوں اور بیٹوں نے یہ سوچا کہ کیوں نا ہم بھی اس طرح کی کوئی کتاب ترتیب دیں۔ پھر یہ سوال خود ہی کھڑا کیا کہ کیا اس قسم کی کتاب ترتیب دینے کیلئے والدہ کا گذر جانا ضروری ہے یا اس لمحے کا انتظار کرنا ہوگا۔ بالآخر وہ اس نتیجہ پر پہنچے کہ اس طرح کے کام کیلئے نہ تو ان کی وفات کا انتظار کرنا پڑے گا۔ اور نہ ہی ان کی جدائی کا صدمہ برداشت کرنا۔ ان تمام بچوں نے اپنے والدمحترم سے اس کاتذکرہ کیا کہ آگے کی کارروائی کس طرح انجام دی جائے اس پر محترم حیدرقریشی نے انہیں یہ مشورہ دیا کہ
’’بجائے اس کے کہ خود بھی لکھواور دوسرے عزیز و اقارب سے بھی لکھوانے کا جتن کرو، بہتر ہے کہ میری مختلف تحریروں میں آپ لوگوں کی امی کا جو ذکر موجود ہے اسی کو یکجاکرلو۔ میری تحریروں میں ان کا اتنا ذکر کیاگیاہے کہ آپ لوگ اسی کو مرتب کر کے اپنی ماں کو مزید خوش کرسکتے ہو‘‘صفحہ ۸؎
اس طرح ان بچوں نے پروگرام بنایا اور اس کی ذمہ داری فرزند ارجمند شعیب نے لے لی۔ انہوں نے نہ صرف حیدرقریشی کی مختلف تحریروں کو کھنگالا بلکہ اس کے علاوہ حیدرقریشی کے حوالے سے ادب میں جو کام ہوا ہے اس کو بھی انہوں نے سمیٹا جن میں ایم اے ، ایم فل، اور پی ایچ ـ ڈی کے مقالوں میں جہاں جہاں مبارکہ حیدر کا ذکر ہوا اور مختلف انٹرویوز میں جہاں کہیں وہ نظر آئیں ا س کو بھی جمع کرلیا اس طرح ایک مہینے کی مختصر سی مدت میں یہ کتاب مرتب کی گئی۔ یعنی یکم مارچ 2015 کو اس بابت گفتگو کا آغاز ہوا اور چوتھی اپریل 2015کو یہ کتاب چھپ کر منظر عام پر آئی حسن اتفاق کہ یہ تاریخ والدین کی شادی کی چوالیس ویں سالگرہ تھی اس مناسبت سے بچوں نے اپنی ماں کو یہ کتاب تحفتاً عنایت کی۔ اس وقت تو بس کسی حد تک وہ خوش بھی ہوئیں کہ ایک ادیب کی بیوی کو ان کے بچوں کی جانب سے علمی و ادبی تحفہ میسر آگیا یہ ایک انوکھا تحفہ ہونے کے ساتھ ساتھ یادگار تحفہ بھی ثابت ہوا۔
اس کتاب کو شائع ہوئے چار سال کے بعد اب جبکہ مبارکہ حیدر ہمارے درمیان نہیں رہیں ا س کتاب کی اہمیت اور بڑھ گئی اب رہ رہ کر یاد آتی ہے جو ان کے قریب رہے ہیں ان میں خواہ ان کے رفیق حیات حیدرقریشی ہوں کہ ان کے لڑکے اور لڑکیاں (بہویں اور داماد بھی) اس طرح جن کے قریبی تعلق اس خاندان سے رہے انہیں بھی اور ادب سے وابستہ افراد کو بھی یک گونہ صدمے سے گذرنا پڑا۔ شعیب حیدر کی مرتبہ کتاب کی اہمیت اس لئے بھی بڑھ گئی کہ اس میں مرحومہ کے تعلق سے مکمل مواد ایک جگہ دستیاب ہوا۔ اور انہیں پڑھ کر اپنی یادوں کو تازہ کرنے اور مبارکہ حیدر کو دعائے مغفرت دینے کا ایک ذریعہ بن گیا۔ اس کتاب میں مبارکہ حیدر کے حالات، واقعات، ان کی سادگی، ان کی محبتیں، ان کی دوستی، ان کے جذبات غرض وہ سارے حالات ہماری آنکھوں کے سامنے آجاتے ہیں۔ وہ ایک اہلیہ، ماں، ساس،دادی، نانی ان سب سے کہیں زیادہ اس خاندان کی ایک مربی کی حیثیت سے ہماری سامنے آتی ہیں۔ ان کی شفقتیں ان کا پیار اور ان کے من جملہ جذبات ہمارے علم میں آجاتے ہیں۔ غرض ان کی پیدائش سے لے کر آخری عمر تک کے حالات اس کتاب میں یکجا مل جاتے ہیں۔ اس کے بعد والا حصہ خود حیدرقریشی نے’’ پسلی کی ٹیڑھ ‘‘کا دوسرا حصہ (بعد از وفات) تحریر کردیاہے۔ جو ان کی اگلی کتاب’’حیاتِ مبارکہ حیدر‘‘ میں آرہا ہے۔
اس کتاب کے مشمولات کو دیکھنے سے حیدرقریشی کی دوراندیشی اور بصیرت کا اندازہ ہوجاتاہے۔وہ ایک ادیب و شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اچھے دوست اور رفیق حیات بھی رہے کہ انہوں نے اپنی شریک حیات کو کبھی اپنے افسانوں میں جگہ دی تو کبھی خاکوں میں ،کبھی نشائیوں میں یاد کیا تو کبھی اپنی یادداشت نگاری میں، غرض انہیں ادبی دنیا میں اپنے ساتھ ساتھ لئے پھرے۔ حیدرقریشی نے اپنی مختلف کتابوں میں اپنے محبوب، اپنی رفیق حیات کو سمودیا۔ جسے ان کے فرزند ارجمند شعیب حیدر نے یکجاکر کے زندہ جاوید کردیا۔ اور وہ مواد یا کتاب مبارکہ حیدر کی وفات کے بعد بہت اہمیت کی حامل بن گئی۔اور اب تو اسی کتاب سے آگے بڑھ کر حیدر قریشی اپنی کتاب’’حیاتِ مبارکہ حیدر‘‘جلد شائع کرنے جا رہے ہیں۔جسے وہ بجا طور پر اپنا ’’قلمی تاج محل‘‘ قرار دے رہے ہیں۔ ہم دعا گو ہیں کہ اللہ تعالیٰ مبارکہ حیدر کو جنت الفردوس میں علی علین مرتبہ عطا فرمائے اور پسماندگان کو صبر جمیل عطا کرتے ہوئے مرحومہ کیلئے مغفرت کی دعا کرتے رہنے کی توفیق عطافرمائے۔آمین۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔