زیر تبصرہ کتاب ’’ہماری امی مبارکہ حیدر‘‘ اردو دنیا کی مشہور و معروف شخصیت حیدر قریشی کے بڑے بیٹے شعیب حیدر کی مختصر مگرجامع تحقیقی کادش ہے۔ کتاب میں شعیب حیدرنے اپنی والدہ کی شخصیت کے مختلف پہلوؤںکو اجاگر کیاہے۔ یہ کتاب شعیب حیدر اور ان کے سبھی بھائی بہنوں کو جانب سے اپنی والدہ مبارکہ حیدرکے لیے اظہار محبت کی صورت میںایک نایاب تحفہ ہے ۔ جو نہ صرف مبارکہ حیدر کے لیے بلکہ اردو ادب کے لیے بھی کسی تحفے سے کم نہیں۔یہ کتاب اس لیے بھی اہم ہے کہ یہ نہ صرف ایک مشہور ادیب کی اہلیہ کے ذکر پر مبنی ہے بلکہ مبارکہ حیدر بہ حیثیت عورت بھی خواتین کی زندگی کے نشیب و فرازمیں پیش آنے والے ہر امتحان کو ہمت و حوصلے سے پاس کرتے ہوئی خواتین کی نمائندگی کرتی نظر آتی ہیں۔ ایک عورت خاص طور پر کسی ادیب کی بیوی، ماں،دوست کی حیثیت سے سبھی رشتے نبھاتے ہوئے کس قدر اپنا مقام اونچا کر لیتی ہے یہ کتاب ہمیں بتاتی ہے۔
کتاب میں کل ۱۷ مضامین شامل ہیںجس میں دو افسانے ’میں انتظار کرتا ہوں‘ اور ’روشنی کی بشارت‘ایک خاکہ’پسلی کی ٹیڑھ‘دو نظمیں ’پھاگن کی سفاک ہوا‘ ’نصف سلور جوبلی‘کے علاوہ انٹرویوز،مختلف ادیبوں کے مضامین و خطوط اور یونیورسٹیز کے تحقیقی مقالات میںتذکرے اور دیگر مختصر مضامین کی نشاندہی کی گئی ہے جن میں مبارکہ حیدر کے حوالے سے ان کی شخصیت کے کئی پہلو ابھرتے ہیں ۔ خاکہ’’ پسلی کی ٹیڑھ‘‘ نہایت دلچسپ ہے جس میں مبارکہ حیدر کی شخصیت کے مختلف رنگ سامنے آتے ہیں۔مثلاحیدر قریشی بچپن کے ایک واقعہ کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں’’ بچپن کی معمولی غلطی کی کتنی بڑی سزا ملی ہے‘‘ تو مبارکہ حیدر کا جوابا یہ کہنا کہ ’’غلطی آپ نے کی تھی سزا میں بھگت رہی ہوں‘‘ ان کے بے باکانہ انداز اور حوصلہ کو ظاہر کرتا ہے۔ایک اور واقعہ ذاتی زندگی سے متعلق مبارکہ حیدر کی حوصلہ مندی،صبر و استحکام کی نشاندہی کرتا ہے۔شوہر کا ایک کتابی سلسلہ ’جدید ادب‘ کے شائع ہونے میں آنے والی سبھی دشواریوں میں شوہر کے ساتھ قدم بہ قدم ملاکر چلنااور ہرمشکل وقت میں ساتھ نبھانا وفا شعار عورت کی نشانی ہے۔ جو نہ صرف بیوی کا رول بخوبی ادا کرتی ہے بلکہ ایک اچھی دوست بن کر ہر پل ساتھ نبھاتی ہے۔لہٰذا حیدر قریشی کے اس خاکے سے شوہر اور بیوی کے بے تکلفانہ ،صحت مند رشتے کی و ضاحت بخوبی ہو جاتی ہے۔
کتاب میںشامل افسا نہ ’ ’میں انتظار کرتا ہوں ‘‘حیدر قریشی کے افسانوی مجموعے ’’روشنی کی بشارت‘‘ سے اخذ کیا گیا ہے۔ وحدت تاثر پیدا کرتا ہوا یہ افسانہ آدمی کی زندگی کے مختلف حالات و کیفیات، خاندان ،رشتہ داروں کے رویوںسے ملنے والے زخم ،غم و غصہ،نفرتیں،ذلتیں،تہمتیں،بدکاریوں سے پیدا ہونے والے احساسات بیان کرتاہے۔ جب افسانہ نگار اپنے غم و دکھ کے صحرا میں بھٹک جاتا ہے تو اس وقت صحرا میں قدم بہ قدم ملا کر قربانیاں دے کر آگے بڑھتی ہوئی اس کی وفا شعار پاکدامن بیوی ہوتی ہے۔صحرا میں بھٹک جانے والے اس شخص پر جب الفاظ وحی کی طرح نازل ہوتے ہیں تو خیالات خود بخود بنتے چلے جاتے ہیں لیکن ان خیالات کو حقیقت کا رنگ دینے کے لیے ہوشمند طریقے سے الفاظ کے موتیوں میں سمیٹنا پڑتاہے۔مگر وہ اکیلا یہ نہیں کر سکتااسے صحرا سے نکالنے کے لیے ایک مضبوط ہاتھ کی ضرورت ہوتی ہے جس کی گرفت اتنی مضبوط ہو کہ بھٹکا ہوا مسافر ہوش میں آ جائے۔اس افسانے میں مبارکہ حیدر کی شخصیت ایک چراغ کے مانند روشن ہوتی ہے جب وہ اپنے شوہر کا ہاتھ پکڑ کر الزامات و تہمات سے رہائی کراتی ہوئی اس کے کرب کو الفاظ کے سانچے میں ڈھالنے کا حوصلہ دیتی ہیں۔مشعل راہ بن کر شوہر کو ہر اندھیرے سے اجالے کی طرف لاتی ہیں۔ بلا شبہ یہ افسانہ ایک جاندار تخلیق ہے۔
’’سوئے حجاز‘‘میں مبارکہ حیدر ایک ماںکی ممتا رکھنے والی بھابھی کی صورت میں ابھرتی ہیں۔عمرہ کرنے کی خواہش کے لیے جمع کی گئی پونجی کو جب وہ اپنے ضرورت منددیور پر قربان کردیتی ہیں تویہاں وہ اللہ سبحان تعالیٰ پر توکل رکھنے والی ،پر اعتماد،فراخ دل عورت کی حیثیت سے سامنے آتی ہیں۔انٹرویو’’منزہ یاسمین کے سوالوں کے جواب کے ساتھ مبارکہ حیدر ‘‘ میں مبارکہ حیدر کی شخصیت کے نئے پہلو سامنے آتے ہیں ۔ وہ ایک خوش مزاج،دوست انسان،خوب سیرت ،مخلص عورت تھیں جو اپنے فکر و خیال میں صاف گوہیں ۔سچی ،کھری اور دو ٹوک انداز میں با ت کہنے والی شخصیت ہیں۔علاوہ ازیں حیدر قریشی کی تین لائینوں میں بیان کیا گیا سراپا بعنوان’’بیوی‘‘ بہت ہی دلکش اور عام فہم ہے۔
اک روح کا قصہ ہے
میرے بدن کا ہی
جو گم شدہ حصہ ہے
بیوی اور شوہر کے رشتے کی گہرائی و گیرائی ،ابتدا و انتہا کو بیان کرتا ہوا فلسفہ ہے ۔جس میں سادہ و آسان الفاظ میںبتایا گیاہے کہ عورت مرد کے بغیر اور مرد عورت کے بغیر ادھورے ہیں ۔نظم ’’پھاگن کی سفاک ہوا‘‘میں مبارکہ حیدر متحرک کردار نظر آتی ہیں ۔جو اپنے وجود میں حال ،ماضی اور مستقبل کو لپیٹے ہوئے اس دنیائے فانی کو با وقارجی رہی ہیں ۔
مختصر یہ کہ ماں دنیاکی عظیم ہستی ہے اگر اولاد نیک اور صالح ہوتو والدین کے لیے نعمت و رحمت ثابت ہوتی ہے۔شعیب حیدر کی یہ کوشش آنے والی نسلوں کے لیے تو قابل فخر ہے ہی ہر اس شخص کے لیے بھی مشعل راہ ہے جو قلم کاسپاہی ہے۔ ادیب ہو یا شاعراسے دنیا میں لانے والی ماں ہی ہوتی ہے۔لہٰذا ہر اولادجس نے قلم سنبھالا ہے ا س کا فرض ہے کہ و ہ اپنے قلم کوماں جیسی ہستی کے لیے بھی اسی طرح استعمال کرے جس طرح باقی موضوعات کے لیے کرتا ہے اور اس کتاب کو مشعل راہ بنا کر اپنی والدہ کے ایثار وقربانی کو نت نئے طریقے سے تخلیق کرکے ادبی دنیا کا دامن وسیع کرے۔
امید کرتی ہوں کہ شعیب حیدر کی یہ کوشش کامیاب ہوگی،قاری اس کتاب سے لطف اندوز تو ہوگا ہی ساتھ ہی یہ کتاب نئی نسل کے لیے بھی فکر وخیال کی نئی راہیں ہموار کرے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔