یکم مارچ ۲۰۱۵ کو حیدر قریشی کے گھر پر ہونے والی تقریب میں میکسم گورکی کے ناول ’ماں‘ سے بات شروع ہو کر’ہماری امّی مبارکہ حیدر‘ پر ختم ہوتی ہے۔بعض کتابیں ایسی ہوتی ہیں جو نہایت سادہ انداز میں لکھی جاتی ہیں مگر ان کا مطالعہ کرنے سے ان کی گہرائی کا پتہ چلتا ہے۔ ’’ہماری امّی مبارکہ حیدر‘‘نامی کتاب کا شمار اسی قسم کی کتابوں میں ہو تا ہے۔ یہ کتاب احساسات اور جذبات کی ترجمان ہے۔یہ کتاب دراصل معروف شاعر اور ادیب حیدر قریشی کی اہلیہ مبارکہ حیدر سے متعلق ہے۔اگرچہ یہ پانچوں بچوں کی مشترکہ کاوشوں کا نتیجہ ہے تاہم شعیب حیدر جو ان کے بڑے بیٹے ہیں اس کتاب کے مرتب ہیں۔ کتاب کا تانا بانا محبت سے تیار کیا گیا ہے۔گر چہ ماں کی محبت ،عظمت اور شفقت کا قرض ادا کرنا ناممکن ہے لیکن ماں سے اپنی محبت کے اظہار کے لیے وقت اور لفظوں کی کوئی قید نہیں۔’ہماری امّی مبارکہ حیدر ‘ بھی اسی محبت کا اظہار ہے۔
زیر نظر کتاب میں حیدر قریشی کی وہ تحریریں شامل ہیں جن میں مبارکہ حیدر کا ذکر ملتا ہے۔ان کے لکھے ہوئے خاکے،افسانے ،انشائیوں ،شاعری اور انٹرویوز سبھی میں ان کی اہلیہ کا عکس موجود ہے۔ کتاب کے مطالعہ سے ان کی زندگی میں مبارکہ حیدر کی کیا اہمیت رہی اس کا اندازہ ہوتا ہے۔خاکہ ’پسلی کی ٹیڑھ‘ میں حیدر قریشی لکھتے ہیں :
’ بیوی بالخصوص زندہ بیوی کا خاکہ لکھنا اپنی خیریت کو داؤ پر لگانے اور شیر بلکہ شیرنی کے منہ میں ہاتھ ڈالنے کے مترادف ہے۔بہر حال میں اقرار کرتا ہوں کہ جو کچھ لکھوں گا سچ لکھوں گا۔سچ کے سوا کچھ نہیں لکھوں گا۔اللہ میر حفاظت فرمائے۔‘
حیدر قریشی اور ان کی اہلیہ کے درمیان کس قدر بے تکلفی اور اپنائیت کا رشتہ تھا اس کا اندازہ مذکورہ بالا سطور سے لگایا جا سکتا ہے۔ مبارکہ ایک محبت کرنے والی خاتون تھیں ان کا دل بہت صاف تھا۔انہوں نے زندگی کے ہر دُکھ سکھ میں اپنے شوہر کا ساتھ دیا۔ان دونوں نے اپنی زندگی کے کینوس پر ہر رنگ مل کر بکھیرے۔ یہی وجہ ہے کہ جب حیدر قریشی نے قلم اٹھایا تو لاشعوری طور پر ان کی تحریروں میں مبارکہ حیدر چلتی پھرتی نظر آئیں۔کہیں وفادار بیوی تو کہیں ایک محبت کرنے والی ماں ،کبھی ایک مخلص دوست اور کبھی مکمل عورت کی صورت میں مبارکہ موجود رہیں۔ حیدر قریشی لکھتے ہیں:
اک روح کا قصہ ہے
میرے بدن ہی کا
جو گم شدہ حصہ ہے
آج مبارکہ حیدر ہمار ے درمیان نہیں ہیںلیکن روح کا وہ قصہ آج بھی اپنے جسم کے ساتھ ہے۔ میری ملاقات ان سے حیدر قریشی کی تحریروں کے ذریعہ ہوئی ۔جب اپنا ایم ۔فل کا مقالہ لکھتے وقت میں نے حیدر قریشی سے یہ سوال کیا کہ انہوں نے اپنے افسانوں میں خوبصورت عورت کو استعارہ بنا کر پیش کیا ہے کیا اس کی کوئی خاص وجہ ہے ۔میرے اس سوال کے جواب میںوہ لکھتے ہیںکہ:
’عورت کے کئی روپ ہیں جو میرے افسانوں میں آئے ہیں۔ان میں ماں، بہن ،بیوی ،بیٹی تک کے رشتے موجود ہیں۔انتہائی مظلوم عورت (شناخت) کا کردار بھی موجود ہے۔گویا دیگر کئی روپ میں عورت موجود ہے۔مقدس رشتوں میں بھی یہ روپ خوبصورت ہی ہے۔بلکہ یاد آیا مجھے کتابی چہرے اس لیے اچھے لگتے ہیں کہ میری والدہ کا چہرہ کتابی تھا اور میری اہلیہ بھی ان کی بھتیجی ہونے کی وجہ سے ان سے مشابہت رکھتی ہیں۔سو میرے لیے عورت کی خوبصورتی کا محور میری ماں اور انہیں کے حوالے سے میری بیوی ہیں۔‘
لگ بھگ انتیس سال بعد حیدر قریشی نے ایک بار پھر اپنی اہلیہ کا خاکہ لکھا ہے۔ یہ خاکہ ’پسلی کی ٹیڑھ ‘ کا دوسرا حصہ ہے جو ۲۸ جولائی ۲۰۱۹ کو روزنامہ نوائے وقت میں شائع ہوا۔ یہ دراصل وہ وعدہ تھا جو انہوں نے پہلا خاکہ لکھتے وقت خود سے کیا تھا ۔خاکے کے پہلے حصہ میں انہوں نے لکھا تھا کہ:’اس خاکہ کا دوسرا حصہ مبارکہ کی وفات کے بعد لکھوں گا یا میری وفات کے بعد وہ لکھے گی۔‘
زیر تبصرہ کتاب حیدر قریشی کاافسانہ ’میں انتظار کرتا ہوں ‘ اور روشنی کی بشارت‘ سے بھی معاملہ کرتی ہے۔اس کے علاوہ افسانہ ’آپ بیتی،گھٹن کا احساس،بھید،اپنے وقت سے تھوڑا پہلے وغیرہ میں بھی مبارکہ حیدر کا ذکر موجود ہے۔افسانوں کے علاوہ وہ نظمیں بھی شامل ہیں جن میں ان کی اہلیہ کو مرکزیت حاصل ہے۔اس کتاب میںزندگی کی چھوٹی سے چھوٹی یادوں کو سمیٹنے کی کوشش کی گئی ہے۔ مبارکہ حیدر کے بچوں کی کاوشوں کا یہ نتیجہ ہے کہ آج ان کی امّی مبارکہ حید اپنے شوہر کی تحریروں میں زندہ ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔