ماہیے کے وزن کی درستی کی بحث کے ساتھ درست وزن کی ماہیا نگاری کو بھی فروغ ملنے لگا۔ یوں تو ہر ماہیا اپنی جگہ مکمل نظم ہوتا ہے تاہم سوال جواب کی صورت میں ماہیوں کے نمونے پنجابی میں بھی ملتے ہیں اور اردو میں بھی۔ تاحال اردو ماہیے کا جو اولین نمونہ ہے وہ بھی دوگانے کی صورت میں ہے۔ قمر جلال آبادی کے لکھے، محمد رفیع اور آشا بھونسلے کی آوازوں میں گائے ، فلم پھاگن کے یہ ماہیے”اردو میں ماہیا نگاری کی ابتدائ“ میں درج کئے جا چکے ہیں۔ان کے بعد میں نے مکالمے کی صورت میں چند ماہیے کہے تھے۔ یہ مکالماتی ماہیے پاکستان اور بھارت کے بعض رسائل میں چھپ چکے ہیں۔ میرے شعری مجموعہ”عمر گریزاں“ میں شامل ہیں اور میرے ماہیوں کے مجموعہ”محبت کے پھول“ میں بھی شامل ہیں۔ مکالماتی ماہیے کہنے میں تیسرانمبر قاضی اعجاز محور کا ہے۔ ان کے یہ مکالماتی ماہیے دیکھیں:
مرد: ٹوٹے نہ یہ دل گوری
جیسے یہ کہتا ہے
تو اس سے مل گوری
عورت: دل کا تو بہانہ ہے
تیرا ہے کیا مطلب
میںنے اب جانا ہے
O
O
مرد:نزدیک توآگوری
کون ہیں ہم تیرے
ہم کو بتلا گوری
عورت:کیوں رہتے ہو یوں گھیرے
کیسے کہوں تم سے
تم کچھ بھی نہیں میرے
O
O
مرد: ہم تو ہیں کھرے دل کے
ساتھ نہ چھوڑیںگے
تو دیکھ ذرا مل کے
عورت:تم لوگ ہو دیوانے
کیسے دوانوں کی
کوئی باتیں سچ جانے
O
O
سعید شباب نے کسی ایک لفظ کے حوالے سے ماہیے کہنے کی طرح ڈالی اور اسی لفظ کو ماہیوں کا عنوان بنادیا ۔ انہوںنے ”دل“، ”ماہیے“ اور ”دیوانے“ کے عنوان سے عمدہ ماہیے پیش کیے۔
ان کے بعد نذیر فتح پوری نے اس روایت کو آگے بڑھایا۔ انہوںنے احد، احمد، تتلی، ساون، حمد، کتاب اور بعض دوسرے عنادین کے تحت اپنے ماہیے پیش کئے۔ میںنے کسی لفظ کے حوالے کی بجائے ایک موضوع کے تحت ماہیے پیش کئے ہیں۔ ”محبت کے پھول“ میں میرے ایسے ماہیے ”اپنے مولا کے حضور “، ”سوہنی دھرتی“ ، ”ایک باغ میںملنے والی ایک لڑکی“۔ ”۵جولائی ۱۹۷۷ئ“، ”شادی بیاہ“، ”پھر وہی داستاں“ اور ”اکتساب“ کے عنادین کے تحت شامل ہیں۔
ایسے تجربات کے باوجود اصلاً ہر ماہیا اپنی جگہ مکمل ہوتا ہے۔ اسی لیے کسی ایک موضوع یا لفظ کو بنیاد بنا کر متعدد ماہیے کہنے سے زیادہ ایسے ماہیے کہے گئے جو اپنے نفس مضمون کے لحاظ سے اپنی اپنی جگہ مکمل ہیں۔ یہاں اسی حوالے سے اردو کے اب تک کے معلوم تمام ماہیا نگاروں کے تعارف کے طور پران کے ماہیے درج کئے جاتے ہیں۔
زنجیر ہے پاﺅں کی
راہ نہیں بھولے
ڈھولا ترے گاﺅں کی
(یوسف اختر)
بھیگے ہوئے آنچل نے
راز اگل ڈالا
پھیلے ہوئے کاجل نے
(یوسف اختر )
شادی کے جھمیلے میں
شعر و ادب چھوٹا
بس ایک ہی ریلے میں
(غزالہ طلعت)
نرمی کے حوالے ہیں
اولے نہیں ہیں جی
یہ برف کے گالے ہیں
(غزالہ طلعت)
زخموں کے نوادر ہیں
میری نگاہوں میں
خوں رنگ مناظر ہیں
(انور مینائی)
بے موت ہی مرتے ہیں
پروازیں کیسی
جب پنکھ ہی ٹوٹے ہیں
(انور مینائی)
کاغذ کے گلابوں پر
تتلی نہیںآتی
مصنوعی بہاروں پر
(بقا صدیقی)
پھولوں کی طرح رکھتے
پیار جو کرتے تم
رنگوں کی طرح رکھتے
(بقاءصدیقی )
کہنے کو تو روٹھے ہو
خوشبو بن کے مگر
ہر سانس میں بستے ہو
(ضمیر اظہر)
کھڑکی پہ چڑھی بیلیں
گم صم میں تنہا
سکھیاں مری سب کھیلیں
(ضمیر اظہر)
ناکام تمنائیں
ہم اس جینے سے
بہتر ہے کہ مر جائیں
(اجمل جنڈیالوی)
مرشد سے نہ پیروں سے
رفعت ملتی ہے
پاکیزہ ضمیروں سے
(اجمل جنڈیالوی)
اشک آنکھ میں ترس گئے
سامنا ہوتے ہی
سب بادل برس گئے
(امین خیال)
چشمے کہساروں کے
دیس مرے میں اب
چرچے ہیں بہاروں کے
(امین خیال)
بوروں سے لدی بیلیں
آﺅبغیچوں میں
ہم پھول پر ی کھیلیں
(افتخار شفیع)
گمنام کہانی ہے
پہلی محبت کی
روداد پرانی ہے
(افتخار شفیع)
مت دل کو دکھایا کرو
ہجر کے ماروں کے
خوابوں میں تو آیا کرو
(سعید شباب)
عشق اپنا کھرا رکھنا
موسم ہو کوئی
زخموں کو ہرا رکھنا
(سعید شباب)
آجاﺅںنہ دھوکے میں
جند مری لشکے
گوری ترے کوکے میں
(پروین کمار اشک)
دل طائر کیوں چہکے
آگ کو چھوتے ہی
جب باس متی مہکے
(پروین کمار اشک)
ہے مانگ پناہوں کی
خوب درِدل پر
دستک ہے نگاہوں کی
(رشید اعجاز)
ذہنوں میں اترتا ہے
عکس بجھے دل کا
سوچوں سے نکھرتا ہے
(رشید اعجاز)
اک اور ہی منظر ہے
چنچل آنکھوں میں
سیتا کا سوئمبر ہے
(شجاعت علی راہی)
تاریکی ٔ زنداں ہوں
صبح بنارس تو
میں شام غریباں ہوں
(شجاعت علی راہی)
ساون کے مہینے میں
دور ہیں ہم، تم سے
اک پیاس ہے سینے میں
(ندیم شعیب)
ماہی مرا آئے گا
جھیل کنارے پر
وہ گیت سنائے گا
(ندیم شعیب)
برسات کا موسم ہے
دل کے زخموں کا
ترانام ہی مرہم ہے
(رانا غلام شبیر)
احساس کی دولت سے
قسمت بدلی ہے
انساں کی محبت ہے
(رانا غلام شبیر)
ندیا کے کنارے ہیں
ہار کے جیتے تم
ہم جیتے کے ہارے ہیں
(ارشد نعیم)
ملنے کا ارادہ ہے
اب کے برس جانم
تری یاد زیادہ ہے
(ارشد نعیم)
پنچھی ہیں ہواﺅں میں
صرف تجھے ساجن
مانگا تھا دعاﺅں میں
(نوید رضا)
کس ہاتھ کی ریکھا ہے
بعد زمانے کے
میں نے اسے دیکھا ہے
(نوید رضا)
ساون کی فضاﺅں میں
خوشبو کا افسانہ
زلفوں کی گھٹاﺅں میں
(مناظر عاشق ہرگانوی)
کچھ اورسنور جائے
رات سہانی ہے
سپنوں میں گزر جائے
(مناظر عاشق ہرگانوی)
یوں خواب سجاتے ہیں
لوگ زمینوں پر
آکاش سجاتے ہیں
(نذیر فتح پوری)
اشکوں کی روانی لکھ
نیند اچٹ جائے
تب دل کی کہانی لکھ
(نذیر فتح پوری)
کب دل پرچاتی ہے
اب تصویر تری
چپ رہ کے ستاتی ہے
(فرحت نواز)
یوں راز بتانا ہے
ہاتھوں میں ہم نے
جگنو کو چھپانا ہے
(فرحت نواز)
کھڑکی سے نہیں جھانکا
آج دوپٹے پر
تارا بھی نہیں ٹانکا
(منزہ اختر شاد)
تکلے پر پونی ہو
ٹوٹے جب دھاگا
دکھ چادر دونی ہو
(منزہ اختر شاد)
ہے کیسا چلن ساتھی
دھوپ میں جلتا ہے
دن رات بدن ساتھی
(صدف جعفری)
سب راز بتا دے گا
بھٹکا مسافر ہی
منزل کا پتہ دے گا
(صدف جعفری)
دو لفظ کہانی کے
کاٹے نہیں کٹتے
یہ لمحے جوانی کے
(نذر عباس)
یہ سلسلہ جاری ہے
پیار کی بازی تو
جیتی کبھی، ہاری ہے
(نذر عباس)
موسم کی سحر خیزی
کب میرارہتا
اس کو تھی بہت تیزی
(خاور اعجاز)
دیوار سے آگے ہے
میں کیسے پہنچوں
وہ دارسے آگے ہے
(خاور اعجاز)
ہم سہمے پرندے ہیں
سبز رتوں میںبھی
پرواز سے ڈرتے ہیں
(حسن عباس رضا)
دل اپنے کشادہ تھے
اس لیے رونا پڑا
ہم ہنستے زیادہ تھے
(حسن عباس رضا)
رستے میں اندھیرا ہے
ٹھیک سہی لیکن
آنکھوں میں سویرا ہے
(قمر ساحری)
پروائے جہاں کس کو
وقت بگولہ ہے
پہچانے کہاں کس کو
(قمر ساحری)
پلکوں سے اتارے تھے
جھلمل کرتے جو
یادوں کے ستارے تھے
(اجمل پاشا)
پیار ایسے نبھادیں گے
قول کے پکے ہیں
دنیا کو دکھا دیں گے
(اجمل پاشا)
اک ایسی گھڑی ہو گی
مل نہیں پائیں گے
وہاںبھیڑ بڑی ہو گی
(آل عمران)
کیسی بیماری ہے
چڑھتے سورج کا
ہر شخص پجاری ہے
(آل عمران)
کیا رکھو گے پانی پر
پہلے یقیں کر لو
شعلوں کی جوانی پر
(نیاز احمد مجاز)
کاغذ پہ ہے مہنگائی
کیسے کرو گے اب
لفظو ںسے شناسائی
(نیاز احمد مجاز)
ہونا نہ الگ ماہیا
دل کی انگوٹھی میں
تیرا پیار ہے نگ ماہیا
(تنویر نوازش)
مخمور بناتا جا
نین کٹوروں سے
دو گھونٹ پلاتا جا
(تنویر نوازش)
سیتا کی کہانی ہے
چاند میں ہالا ہے
لچھمن کی نشانی ہے
(وقیع منظر)
پردیسی نہ گھر آیا
چاک فلک کر کے
اک چاند ابھر آیا
(وقیع منظر)
ترے پیار کے مارے ہیں
شک نہ کبھی کرنا
ہم دل سے تمہارے ہیں
(بسمہ طاہر)
کھیتوں میں کھلی سرسوں
داغ جدائی کے
مٹ سکتے نہیں برسوں
(رستم نامی)
ساحل پہ نہ چھل آئی
کل تجھے آنا تھا
پر تیری نہ کل آئی
(ایم۔اے تنویر)
سنسان ہوئیں سڑکیں
چاندنی جب پھیلے
دل گوریوں کے دھڑکیں
(شبہ طراز)
جب یاد تری آئی
ہجر کی راتوں میں
بڑھ جاتی ہے تنہائی
(ذوالفقار احسن)
اک نقش مٹانے میں
جیون بیت گیا
یادوں کو بھلانے میں
(ذوالفقار احسن)
یہ حسن ،یہ رعنائی
رب کی امانت ہے
اے دلبر ہرجائی
(ڈاکٹر صابر آفاقی)
تن چھلنی ہے تیروں سے
ہم کو بچا مولا!
اس دور کے پیروں سے
(ڈاکٹر صابر آفاقی)
تنہائی میں وہ آئے
مجھ سے گلے مل کر
چپ چاپ بچھڑجائے
(احمد حسین مجاہد)
آواز نہ دہراﺅ
برف برسنے سے
پہلے ہی چلے آﺅ
(احمد حسین مجاہد)
آنکھوں میں بھرا کجلا
مست مناظر میں
ہو جاﺅں نہ میںپگلا
(عارف فرہاد)
مہکا ہے خیال اس کا
وجد کا عالم ہے
یا کوئی جمال اس کا
(عارف فرہاد)
جھرنوں کی طرح پھوٹے
جھوٹ مری باتیں
آنسو تو نہیں جھوٹے
(مشتاق شاد)
ماں خوف سے جاگ گئی
خواب میںدیکھا تھا
لڑکی کہیں بھاگ گئی
(مشتاق شاد)
کیا حکم ہے پیاسوں کو
شہر کاہر دریا
تشنہ ہے بہت اب تو
(یونس احمر)
واعظ کا تکلم بھی
کیف سے عاری ہے
انداز تبسم بھی
(یونس احمر)
شہروں میں ہوا آئے
خوشبو گاﺅں کی
ساتھ اپنے اٹھا لائے
(طفیل خلش)
تم آئے خیالوں میں
کتنے قریب تھے ہم
بیتے ہوئے سالوں میں
(طفیل خلش)
دمساز نہیں کوئی
حال کہیں کس سے
ہم راز نہیں کوئی
(مشتاق احمد)
پامال تو ہونا ہے
موت کے ہاتھوں میں
انسان کھلونا ہے
(مشتاق احمد)
کوئی چیز گنوا بیٹھے
یاد انہیں آیا
جب ہم کو بھلا بیٹھے
(شوکت مہدی)
تو درد سے عاری ہے
رات جدائی کی
کانٹوں پہ گزاری ہے
(شوکت مہدی)
بادل بھی نہیں چھاتے
قحط پڑا ایسا
آنسو بھی نہیں آتے
(سیما شکیب)
اک چاند سا چمکے ہے
پیار ترا پگلی
آنکھوں سے چھلکے ہے
(نازیہ رحمن ناز)
سچ کہنے سے ڈرتے ہو
رب سے نہیں ڈرتے
پر لوگوں سے ڈرتے ہو
(عبدالجلیل عباد)
تصویریں بناتا ہوں
رنگ نہیں ملتے
خوں اپنا بہاتا ہوں
(منظر نقوی)
مرد: میری چھت پہ آیا کرو
ٹیچر بن کے تم
مجھے پیار سکھایا کرو
(وپن ہانڈا۔ فلم اف یہ محبت)
عورت: میری چھت پہ آیا کرو
جب میںسوجاﺅں
مری مکھیاں اڑایا کرو
(وپن ہانڈا۔ فلم اف یہ محبت)
گم نام جزیروں میں
ڈھونڈرہا ہے کیا
ہاتھوں کی لکیروں میں
(اشعر اورینوی)
طوفان، بھنور، دریا
دل میں تری چاہت
میں پھر بھی رہا پیاسا
(اشعر اورینوی)
مجبور ہوئے ایسے
چھوڑ کے دیس اپنا
پردیس میں آ پہنچے
(سجاد مرزا)
خوابوں میں چلے آﺅ
اپنے پجاری کو
تم اور نہ تڑپاﺅ
(سجاد مرزا)
منہ زور جوانی ہے
عشق میں کیا حاصل
پانی میں مدھانی ہے
(جان کاشمیری)
ارمان یہ نکلیں گے
مطلع فاراں کے
ہم چاند کو دیکھیں گے
(محمد اقبال نجمی)
دو پھول اناروں کے
کب وہ پوچھے گا
حالات بیماروں کے
(امجد حمید حسن)
تم پیار سے پیارے ہو
دو جگ روٹھ گئے
اک تم توسہارے ہو
(کندن لاہوری)
یہ دن کب دیکھا تھا
ہم یوں جدا ہوںگے
کب پہلے یہ سوچا تھا
(یاسمین مبارک)
دلدار وہ ایسا ہے
انگ گلاب اس کا
رنگ سیبوں جیسا ہے
(نوید امین اعظم)
دل زرد کے صحرا میں
گم ہو یہ دنیا
اس درد کے صحرا میں
(دلشاد علی دلشاد)
تیرے ہی سہارے میں
بندے ہم تیرے
یہ بھاگ ہمارے ہیں
(بشارت احمد بشارت)
رت آگئی یادوں کی
ایک ستمگرکی
اورٹوٹتے وعدوں کی
(ثریا شہاب)
کیوں تیرا خیال آئے
تیز ہوا جب بھی
سر کھڑکی سے ٹکرائے
(ثریا شہاب)
یہ کون سا رشتہ ہے
جب بھی اسے دیکھوں
دل میرا دھڑکتا ہے
(ڈاکٹر عارف حسن خان )
سب سپنے ٹوٹ گئے
تھے جو کبھی اپنے
وہ ساجن روٹھ گئے
(ڈاکٹر عارف حسن خان )
دریا میں رواں کشتی
تیری عنایت کو
میں بھول نہیں سکتی
(شاہدہ ناز)
اک پھول چنبیلی کا
ملنا لگا اچھا
بچپن کی سہیلی کا
(شاہدہ ناز)
قاضی اعجاز محور سے شاہدہ ناز تک درج ماہیا نگاروں کی تعداد 62 بنتی ہے۔اس تعداد میں قمر جلال آبادی، ساحر لدھیانوی اور حیدر قریشی کے نام بھی شامل کر لیں تو تادم تحریر ماہیا نگاروں کی تعداد 65 تک جا پہنچتی ہے ان ماہیا نگاروں میں قمر جلال آبادی اور ساحر لدھیانوی کو اردو ماہیے کے بانی قرار دیا جا سکتا ہے۔باقی ماہیا نگاروں کی تعارفی درجہ بندی چار حصوں میں کی جاسکتی ہے۔
ان میں سے چند ماہیا نگار ایسے ہیں جنہوںنے زیادہ تر ثلاثی لکھے ہیں لیکن درست وزن والے چند ماہیے بھی لکھ دئیے ہیں۔ ان شعرا میں حسن عباس رضا اورا یم اے تنویر کے نام بطور خاص لئے جا سکتے ہیں۔ چندماہیا نگار ایسے ہیں جنہیں ابھی وزن پر پوری گرفت حاصل نہیں ہے تاہم وہ اخلاص کے ساتھ درست وزن کو اپنانے کی کوشش ضرور کر رہے ہیں۔ ایسے ماہیا نگاروں میں بشارت احمد بشارت، نیاز احمد نیاز، نذر عباس اور بعض دیگر شعرا شامل ہیں۔
چند ماہیا نگار ایسے ہیں جنہوںنے درست وزن کو سمجھا اور مانا۔ گنتی کے چند ماہیے کہہ کر رک گئے۔ شاید ماہیا ان کے مزاج کا حصہ نہیں بن سکا۔ ایسے ماہیا نگاروں میں رستم نامی، منظر نقوی، اجمل جنڈیالوی اور نوید رضا جیسے عمدہ شعرا شامل ہیں۔
ان ماہیا نگاروں میں بعض ایسے شعرا بھی ہیں جنہوں نے پہلے تین ہم وزن مصرعوں کے ثلاثی کہے۔ جب انہیں حقیقت حال کا علم ہوا انہوںنے غلط وزن کو ترک کرکے درست وزن کو اختیار کر لیا۔ایسے شعرا میں ضمیر اظہر، عارف فرہاد، یوسف اختر، ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی، انور مینائی، نذیر فتح پوری جیسے اہم شعرا شامل ہیں۔ ان ماہیا نگاروں سمیت ایک بڑی اکثریت ایسے ماہیا نگاروں کی ہے جو ماہیے کے مزاج اور وزن کو بخوبی سمجھتے ہیں اور ماہیے کے موضوعات میں وسعت پیدا کر کے اپنی اپنی بساط کے مطابق تخلیقات پیش کر رہے ہیں۔
٭٭٭٭