اُس تختی پر نیچے انگریزی حروف میں صاف صاف لکھا تھا۔(NO ADMISSION WITHOUT PERMISSION) میں نے سوچا،شاید اس کمپنی میں ایک دم کسی انگریز کی کچہری جیسا نظم وضبط ہو گا۔چاروں طرف نظر دوڑائی۔اجازت لیں بھی،تو کس سے؟وہاں تو کوئی بھی نہیں دکھائی دے رہا تھا۔دروازے پر ہی میں انتظار میں کھڑا ہو رہا۔کافی وقت بیت گیا۔جی اُکتا گیا۔اجازت کس سے لی جائے،ایسا کوئی آدمی یہاں نہیں ہے،تو وہ تختی لٹکانے کا مطلب ہی کیا ہے؟تبھی اندر سے کسی کے ہنسنے کی آواز سنائی دی۔دور کہیں کوئی باتیں کر رہا تھا۔اِس اُمید سے کہ کوئی نا کوئی اِدھر آئے گا،میں نے سر اٹھا کر اُدھر دیکھا۔لیکن کوئی نہیں آیا۔دن چڑھنے کو تھا۔رات کو گاڑی میں چڑھتے وقت کچھ بھی کھایا نہیں تھا۔سوچا،کیوں نا مائی کے یہاں جاؤں اور وہیں بابو کا انتظار کروں؟مائی کے گھر گیا۔اُسے ساراقصہ سنایا۔بھوک شانت ہونے پر چادر تان کر سو گیا۔بہت تھکا جو تھا۔شام کو بابو گھر آیا۔اُسے ساری کہانی کچھ شکایت بھرے لہجے میں،میں نے سنا دی۔اُس نے ہنس کر کہا،ارے بھئی،تختی لگی تھی،تو لگی رہنے دیتے اُس کی بلا سے۔ تمہیں کیا؟چلے آتے اندر۔
“واہ کیا کہہ رہے ہو بابو،اور کمپنی کا نظم وضبط بھنگ ہوتاتو ؟ میں نے انتہائی سنجیدہ ہو کرکہا۔دوسرے دن بابو سے پہلے میں سو کر اٹھ گیا۔پوہی پھٹی تھی۔فوراًنہا دھو کر کمپنی جانے کے لیے میں تیار ہو کر بیٹھ گیا۔مجھے بے چینی تھی کہ کب کمپنی میں پہنچوں۔پتہ نہیں بابو کو کیا ہو گیا تھا۔سورج بھی نکل آیا،اور یہ پٹھا ابھی سویا پڑا تھا۔آخر مہاشے جاگ پڑے۔اُس کے ساتھ میں تھیٹر کی طرف چل پڑا۔ہم لوگ مہاراشٹر فلم کمپنی کے احاطے میں پہنچ گئے۔وہ دن تھا۲۰ جون ۱۹۲۰ء۔بابو مجھے تھیٹرکی مرکزی عمارت میں لے گیا۔اسٹیج کے سامنے دوسرے سِرے پر جہاں عام ناظرین بیٹھا کرتے تھے،قنات لگا کر ایک کمرا سا بنا تھا،وہاں گئے۔اُس کمرے میں سٹینڈپر ایک بڑا کینوس فریم رکھا تھا۔اُس کی آڑ سے اُس طرف کھڑے شخص کی دھوتی کا صرف نچلا حصہ اور پاؤں ہی دکھائی دیتے تھے۔بابوو ہیں ایک طرف بیٹھ گیا اُس شخص سے کہنے لگا،”یہ ہے ہمارا خالہ زاد بھائی شانتا رام۔یہاں آیا ہے، اپنی کمپنی میں کام کرنا چاہتا ہے۔”اُس شخص نے اپنے ہاتھ کا بُرش روکا اور اُسے ویسے ہی پکڑ کر کینوس کی فریم کی اوٹ سے جھانک کر دیکھا۔اُس شخص کی داڑھی اُس کے سینے پر جھوم رہی تھی۔انہیں دیکھ کر مجھے تو لگا کہ وہ شاید کوئی رِشی مُونی(سادھو) ہیں۔وہ تھے بابو راؤ پینڑ !اپنی تیز نظر سے وہ مجھے گھور رہے تھے۔میرا تو پسینہ چھوٹا،اور دل کی دھڑکن بھی صاف سنائی دینے لگی۔بابوراؤ پینٹر نے میری طرف دیکھنا بند کیا اور پھر سے اپنی برش اُس کینوس پر چلانے میں مگن ہو گئے۔
بابو نے اُن سے پھر پوچھا،”تو اِسے یہاں رہنے دیا جائے،نا؟”انہوں نے گہری آواز میں کہا،”ہوں”اُن کی اجازت سن کر تو جیسے مجھے آسمان ہاتھ لگ جانے کی خوشی ہوئی۔پاؤں کو یسے پَر لگ گئے۔وہاں میں تیرتا،اٹھلاتا،جھومتا ہوا میں باہر آ گیا۔ایک بار،دوبار ہوئی بات،تیسری باربھی ہوتی ہے،والی کہاوت غلط ثابت ہو گئی تھی۔ایک دم جھوٹ ہو گئی تھی۔میں امتحان میں پاس ہو گیا تھا!بابو کچھ دیر بعد باہر آیا۔میرے چہرے پر خوشی چھائی دیکھ کر خود مسکرانے لگا۔بولا،”آؤ تمہیں ساری کمپنی دکھا لاتا ہوں”ہم لوگ تھیٹر کی عمارت کے بغل والے کُھلے میدان میں آ گئے۔اُس میدان میں کہیں انگلی دکھا کر بابو نے کہا،”یہ رہا ہمارا سٹوڈیو یہاں ہم طرح طرح کے منظر بنا کر شوٹنگ کرتے ہیں۔”بابو جس طرف انگلی دکھا رہا تھا۔اُس جانب میں نے دیکھا۔لیکن وہاں تو کچھ بھی دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ہاں،سامنے والے کھلے میدان میں انتہائی آخر پر لکڑی کے کچھ کھمبے گڑھے ہوئے تھے۔اِن کھمبوں کی دو قطاروں کے بیچ فیلٹیوں کی زمین تیار کی ہوئی تھی۔کھمبوں پر سے موٹے لوہے کے تار کھنچ کر باندھے ہوئے دکھائی دے رہے تھے۔اُن دنوں کولہاپور میں بجلی نہیں آئی تھی۔اسی لیے اسٹوڈیو میں فلمائے جانے والی فلموں کے سین سورج کی روشنی میں ہی لیے جاتے۔لیکن اُس وقت برسات کا موسم ہونے کی وجہ سے فی الحال تو دور تک سناٹا تھا۔
ایک طرف کمپنی کا نل لگا تھا۔شاید اُس پر کوئی نہارہا تھا۔پچھواڑے میں ایک چھوٹا سا آؤٹ ہاؤس تھا۔اُس کمرے میں ایک عورت کھانا پکا رہی تھی۔بابو نے اُسے کہا،تلُسا بائی،یہ ہمارا بھائی شانتا رام ہے،یہ بھی آج سے یہاں کھانا کھایا کرے گا۔لیکن دھیان رہے،ماس مچھلی،انڈا مٹن وغیرہ کو یہ چھُو تا تک نہیں۔جس دن اِس میں سے کوئی چیز پکاؤ گی،اس کے لیے سادہ سانبر (سبزی اور دال کی سائوتھ انڈین ڈش)اور سبزی کا کھانا بنانا۔
تُلسا بائی نے “ٹھیک ہے”کہا۔یہاں سے ہم اندر والے کمرے میں گئے۔اُس میں کافی روشنی تھی۔ململ کا آدھی آستین والا چھوٹا کُرتا اور دھوتی پہنے کوئی مہاشے ہماری طرف پیٹھ کیے بیٹھے ہوئے تصویر بنا رہے تھے۔بابو نے کُھل کر انہیں پکارتے ہوئے پوچھا،”کیسے ہو بابا؟”پکار سنتے ہی اُن مہاشے نے پلٹ کر دیکھا اور ہنس کر میری طرف دیکھتے ہوئے بولے،”یہ گھنگھریالے بالوں والا لڑکا کون ہے؟”ٹوپی میں سے میرے گھنگھریالی بالوں کی کچھ لٹیں نکل آئی تھیں۔انہوں نے کہا،”واہ،کافی چُست مزاج والا لگتا ہے!”اُن کی باتوں نے مجھے ایک دم اپنا سا بنا لیا۔اُن کا نام تھا دیتّو باباگجبر۔لیکن سب لوگ انہیں بابا کہہ کر ہی پکارتے تھے۔آگے چل کر کئی بار میں اپنا کام ختم کر اُن کے ساتھ دل کھول کر باتیں کرنے کے لیے جا بیٹھتا تھا۔وہاں سے ہم واپس شیواجی کی مرکزی عمارت میں آ گئے۔پاس ہی ایک بڑھئی فیلٹیوں،تختیاں کاٹنے کے کام میں لگا تھا۔تھوڑی دُوری پر دیوار میں فِٹ کی گئی تختی پر ایک بڑی پیٹی رکھی گئی تھی۔بابو نے اُس طرف انگلی دکھاتے ہوئے کہا،”وہ دیکھو،بابو راؤ پینٹر کا بنایا ہوا کیمرا ‘سہرنگری’ کو اسی کیمرے پر فلمایا گیا تھا۔”اُس کے پاس ہی اُدھیڑ عمر ایک مہاشے لوہے کی ریتی چلا کر لوہے کے کسی حصہ کو منظم ڈھنگ سے چھیلنے تراشنے میں مگن دکھائی دیئے۔’کہو دادا،کیا ہو رہا ہے؟‘بابو نے پوچھا۔”خاص کچھ نہیں۔لیکن اپنا یہ کیمرا گھماتے وقت ہلنے لگتا ہے۔لہذا اُس کے اندر والے پُرزے کو سہارا دینے کے لیے لوہے کا یہ ٹکڑا تراش رہا ہوں۔اُس کے باوجود کیمرے کا ہلنا رُکا نہیں،تو اُس میں نیچے لوہے کی موٹی چادرفٹ کرنی پڑے گی۔لیکن نتیجہ یہ ہو گا کہ یہ کیمرا وزن میں بہت بھاری ہو جائے گا اور اُس کو اٹھانے رکھنے والے کی بڑی درگت بنے گی۔
“ٹھیک ہے،ٹھیک ہے،چلنے دیجئے آپ کا کام زوروں سے۔”پھر بابو نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھ اُن مہاشے سے میرا تعارف کرایا۔وہ تھے دادا مستری۔مجھے وہیں چھوڑ کر بابو کسی کام سے اپنے آفس کی طرف چلا گیا۔میں وہاں کیمرا دیکھتا رہا۔اُسی میں کھو گیا۔کمپنی کا یہ دورہ کرتے وقت ایک بات دھیان میں آگئی کہ بابو کو سب لوگ بڑی عزت دیتے ہیں اور’بابوراؤ ‘کہتے ہیں۔وہ کمپنی کا منیجر تھا،بابو راؤ پینٹر کا قابل اعتماد تھا۔مجھے بھی لگا کہ میرا اُسے یہاں “بابو”کہنا مناسب نہیں۔میں نے اُس کے چھوٹے سے آفس کا دروازہ ہولے سے کھول کر آواز دی،”بابو راؤ”!بابو نے فوراً سر اٹھا کر میری طرف حیرت سے دیکھا اور مسکرا دیا۔میں نے پوچھا،”بابو راؤ،میں یہاں کیا کام کروں؟”بابو نے بڑی سنجیدگی سے کہا،”دیکھو،تمہیں ایک بات بتائے دیتا ہوں،کیا کروں ؟کیسے کروں؟کون سا کام کروں،اس سوال بازی میں یہاں کبھی مت الجھنا۔جو بھی کام دکھائی دے،جو بھی کام کرنا پڑے،جو کام تمہیں لگے کہ تم کر سکتے ہو،بس کیے جاؤ،کیا سمجھے؟”جو دکھائی دے،جو کرنا پڑے،جو تمہیں لگے تم کر سکتے ہو۔۔۔۔؟‘بابو راؤ کے یہ الفاظ کانوں میں گونجتے جا رہے تھے۔میں اُن کے آفس سے باہر آ گیا۔انجانے میں میرے پاؤں مجھے اُسی طرف لے جانے لگے۔جہاں وہ کیمرا تھا۔شاید اُس کیمرے نے میرے من پر سحر کر دیا تھا۔جادو کر دیا تھا۔دادا مستری اب بھی لوہے کے اُس حصہ پر ریتی سے تراشنے کاکام کیے جا رہے تھے۔وہ پیسنے سے لت پت ہو چکے تھے۔دھوتی کے کنارے سے پسینہ صاف کرنے کے لیے وہ لمحہ بھر کے لیے رُکے،میں نے پوچھا،”میں چلاؤں یہاں ریتی؟مجھے چلانا آتی ہے ریلوے ورکشاپ میں سیکھا تھا۔آپ ایک بار ٹھیک سے بتا دیجئے کہ اِس پارٹ کو کہاں تک تراشنا ہے؟”انہوں نے کچھ سوچا۔ریتی اور وہ پارٹ میرے ہاتھوں میں دے کر وہ لیتھ مشین پر پیڈل چلانے کاکام کرنے لگے۔میں نے اُس لوہے کے ٹکڑے کوا چھی طرح سے گِھس تراش کر دادا کو دکھایا۔لگا کہ وہ بہت خوش ہوئے۔بعد میں لیتھ مشین کا پیڈل مار کر میں اُن کی محنت کو ہلکا کرنے کی کوشش کرنے لگا۔وہ اوپر مشین پر انہوں نے جو کام کرنا تھا،بنا کسی رکاوٹ کے کرنے میں مگن ہو گئے۔پہلے ہی دن سے میری دادا مستری کے ساتھ اچھی قربت ہو گئی۔دوپہر کا کھانا میں تھیٹر کی مرکزی عمارت میں گیا۔وہاں اسٹیج پر ایک پردا بچھا تھا۔میں نے پاس جا کر دیکھا۔ناٹک کے لیے لگایا جا تا ہے،ویسا ہی جنگل کا منظر اُس پردے پر پینٹ کیا جا رہا تھا۔کام ادھورا تھا۔دو آدمی اُسے پینٹ کرنے کے کام میں لگے ہوئے تھے۔پاس ہی رنگوں کے پیالے،برش وغیرہ سامان پڑا تھا۔اُن دو میں سے ایک نے پیچھے مڑے بنا ہی،پاس ہی رنگ گھولتے شخص سے کہا،بھائی لال کا پیالہ اِدھر دینا۔میں نے اُسے اٹھایا اور اُسے اُن کے ہاتھ میں دے دیا۔پیالہ لیتے وقت اُس آدمی نے مجھے دیکھ کر پوچھا،”تم کون ہو؟”وہ دوسرا آدمی بھی میری طرف دیکھنے لگا۔
میں نے بڑی ہی تیاری سے جواب دیا،”میں بابو راؤ پینڈھارکر کاخالہ زاد بھائی ہوں۔شانتا را م ۔آج سے یہاں کام پر رکھ لیا گیا ہوں۔اُن دونوں نے مجھے پر روکھی طنزیہ نظر ڈالی اور پھر سے اپنے کام میں جُٹ گئے۔رنگ گھولنے والا شخص ہماری باتیں سُن کر مجھے تجسس سے دیکھنے لگا۔میں اُس کے پاس گیا اور اُن دو آدمیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھا،”یہ دونوں کون ہیں؟”،”تم نے جنہیں رنگ کا پیالہ تھمایا تھا نا،وہ ہیں وشنوپنت داملے۔بس لوگ انہیں ’داملے ماما‘ کہتے ہیں اور اُن کے پاس بیٹھ کر جو کام کر رہے تھے،وہ ہیں شوخ پھتے لال۔ہم لوگ انہیں ’صاحب ماما‘ کہتے ہیں۔”اور آپ؟”
“میں ہوں یادو”
اُن کے پاس ہی رنگ کے کچھ خالی پیالے پڑے دیکھے۔تو میں نے پوچھا،”اِن کو دھو کر صاف کر لاؤں؟”
میں اُن پیالوں کو لے جا کر پانی سے دھو لایا۔میری نظر پھر سے اُن دو آدمیوں کی طرف مڑی۔وہ دونوں مجھے ہی دیکھ رہے تھے اور اب اُن کی نظر میں پہلے جیسا روکھا پن نہیں تھا۔وہ دونوں پھر سے پردہ رنگنے کے اپنے کام میں لگ گئے۔تبھی وہاں ایک مہاشے آ پہنچے۔اونچا پورا قد،گھنی گھنی مونچھیں اور کُھلی ٹال کی وجہ سے اُن کی شخصیت پُرکشش لگ رہی تھی۔وہ تھے مہسکرماسٹر۔وہ کسی ناٹک کمپنی میں اداکار اور تعلیم ماسٹر تھے،یہ بات آگے چل کر کچھ دن بعد مجھے معلوم ہوئی۔انہیں دیکھتے ہی داملے ماما نے جاننا چاہا کہ نئی فلم کی کہانی کہاں تک پہنچی ہے۔اگلی فلم تھی سُوُریکھا ہَرن۔‘
تینوں کی باتوں میں کافی رنگ چڑھا تھا۔تبھی وہاں گورے رنگ کے،ذرا ناٹے قد کے گتھے جسم کے ایک اور سجن آ پہنچے۔اُن کا نام تھا ناناصاحب سرپوتدار۔’سُوُریکھا ہَرن ‘کی کہانی کے بارے میں چاروں کی باتیں میں سنتا رہا۔اُن کی باتوں میں بابو راؤ پینٹر کا ذکر ’سیٹھ‘نام سے ہوتا تھا۔ پینٹر جی کو وہ لوگ سیٹھ کہتے ہیں،یہ بات مجھے اچھی نہیں لگی۔سیٹھ اُن مالکوں کو کہا جاتا ہے جو بنیا یا بیوپاری ہوں،یہی میری جانکاری تھی۔لیکن میں آخر تک یہ سمجھ نہیں پایا کہ بابو راؤ پینٹر جیسے ایک عظیم فنکار کو سیٹھ کیوں کہا جا رہا تھا۔سب کے ساتھ میں بھی انہیں سیٹھ ہی کہنے لگا۔دھیرے دھیرے شام ہو گئی۔’سہ رنگری‘فلم کے سارے فنکار بابوراؤ پینٹر کے کمرے کے باہر جمع ہونے لگے۔میں بھی وہاں پہنچ گیا۔نا تو کسی نے میری آؤ بھگت کی،نا کسی نے،یہاں کیوں آئے ہو؟‘پوچھا۔تبھی ’سہ رنگری‘میں بھیم کا کام کرنے والے بالا صاحب یادَو آئے۔سکول میں تھا جب اُن کے اکھاڑے میں کُشتی سیکھنے کے لیے میں جایا کرتا تھا۔اُن دنوں اُن کے پہلوانی ہاتھوں کی کافی رگڑمیں نے کھائی تھی۔اب بھی آتے ہی،ارے شانتیا تو؟،” کہہ کر انہوں نے میری کمر پر ایک تگڑا ہاتھ جما ہی دیا اور پوچھا،”کی ماں کو!تم یہاں کیسے آ گئے؟”میں نے جب کہا،”سیٹھ نے مجھے یہاں کام پر لگا لیا ہے۔”تو انہوں نے شاباشی دینے کے لیے ایک بار اور میری پیٹھ کمر ایسا چانٹا جمایا کہ میں لڑکھڑا کر نیچے بیٹھ گیا۔تھوڑی دیر بعد بابوراؤ پینٹر وہاں آ گئے۔انہوں نے ’سُوریکھا ہَرن‘فلم کے سین کی تعلیم شروع کی۔مجھے گندھروناٹک منڈلی میں تعلیم کیسی لی جاتی ہے،دیکھنے کی مشق تھی۔اِس لیے اِس تعلیم میں بھی مجھے مزہ آنے لگا۔لیکن ناٹک کی تعلیم اور خاموش فلم کی تعلیم میں کافی فرق میں نے محسوس کیا۔ خاموش فلم میں اداکار مکالمہ بول کیا رہا ہے،اُس کی کوئی اہمیت نہیں ہوا کرتی تھی۔کسی کا دھیان بھی اِس بات پر نہیں جاتا تھا۔اداکاری کے بھاؤ اور ہونٹوں کی حرکت کافی مانی جاتی تھی۔کبھی کبھار تو سرپوتدار اداکاروں کو کہانی کے مطابق مکالمہ بولنے کے لیے کہتے تھے۔لیکن ایک کو بھی وہ مکالمے جلدی یاد نہیں ہوپاتے تھے۔کبھی سرپوتدار اُن مکالموں کا مطلب انہیں سمجھانے کی کوشش کرتے تھے۔تو بالا صاحب یادَو جیسا اداکار کہہ دیتا،”رہنے دو،رہنے دو آپ کے مکالمے ! آپ یہی چاہتے ہیں نا کہ میں غصے میں بولوں؟تو آ بیٹھیے اور سنیے،پھر وہ سامنے بیٹھے شخص پر ٹھیٹھ کولہاپوری گالیوں کی وہ بوچھاڑ اور غصے کی وہ اداکاری کر دکھاتے کہ بس دیکھتے ہی بنتا تھا۔کبھی کبھار تو ایسی اداکاری میں بالا صاحب اتنی دیر تک گالیاں دیتے جاتے کہ زور دار قہقہہ لگتا۔عام طور پر شاید ہی کبھی ہنسے والے،سنجیدہ بابو راؤ پینٹر بھی اُس قہقہے میں شامل ہو جاتے۔میں بھی اپنی ہنسی روک نہیں پاتا۔لیکن کبھی بھولے سے بابوراؤ پینٹر کی نظر مجھ پر پڑتی،تو میں فوراً اپنا منہ بند کر ہنسی کو نگل لیتا۔فلم کے متنوع سین کی ریہرسل کے ایسے موقع پر کبھی کبھی کیشوراؤ دھائبر نامی چھریرے،نوکیلی ناک والے،گورے،فرکی ٹوپی پہنے مہاشے بھی حاضر ہو جاتے تھے۔وہ مہاراشٹر فلم کمپنی کی ساجھے دار تانی بائی کاگلکر کے رشتے دار تھے۔کمپنی کے قیام کے وقت اِس تانی نائی نے بابوراؤ پینٹر کو پونجی دی تھی۔دھیرے دھیرے ان سب لوگوں سے میرا اچھا تعارف ہو گیا۔میں کمپنی میں ہر جگہ آزاد روپ سے گھومنے لگا۔آگے چل کر تو،’سوریکھاہرن‘کی کہانی پر ہونے والی بحث کے وقت میں بابوراؤ پینٹر کے کمرے میں بھی جا کر کھڑا ہونے کی ہمت کرنے لگا۔اُس وقت ایک اور بات دھیان میں آئی کہ بابوراؤ پینٹر بولتے وقت لفظوں کو کچھ غیر ضروری لمبا کھینچتے ہیں اور کچھ رُک رُک کر بولتے ہیں۔کسی زمانے میں ہوئی ایک بیماری کا اثر اُن کی زبان پر ہو گیا تھا۔دن بیتتے جا رہے تھے۔برسات رُت ختم ہونے کو تھی۔فلمانے کی تیاریاں شروع ہو رہی تھیں۔دو بڑھئی سین کھڑے کرنے کے کام میں جٹ گئے تھے۔میں آگے ہو کر فیلٹیاں آرے سے کاٹنے میں اُن کا ہاتھ بٹانے لگا۔اب منظر کھڑے کرنے کی رفتار کافی بڑھ گئی تھی۔بابوراؤ پینٹر کے بنائے گئے خاکے کے مطابق منظر تیار کرنے اور انہیں رنگ روغن دے کر سجانے کے کام میں داملے اور فتے لال بڑی لگن سے لگ گئے تھے۔انہیں رنگ کے پیالے دینا،رنگ گھولنا،کام کے بعد پیالے برش دھو کر صاف کرنا وغیرہ کاموں کو بھی میں شفافیت سے اور ذرا بھی آنا کانی کیے بغیر کرتا تھا۔
اُسی وقت مہاتما گاندھی کی سودیشی تحریک کی ہوا کولہاپور میں آ دھمکی تھی۔میں بھی سودیشی کی اُس تحریک سے متاثر ہو گیا تھا۔باپو کے خوبلی سے چلتے وقت دئیے گئے پندرہ روپے سے میں نے اپنے لیے کھادی کا ایک لمبا کُرتا،پاجامہ کمبل کی جیکٹ اور ٹوپی وغیرہ خریدے تھے۔کھادی کا وہ لباس پہنتے وقت لامحالہ ایسا جذبہ جاگتا تھا کہ اپنے دیس کے لیے ہم بھی کچھ کر رہے ہیں۔اس کی وجہ سے بڑا اطمینان بھی ملتا تھا۔میرے پاس کھادی کے کُرتہ پائجامہ کی بس یہی ایک جوڑی تھی۔سویرے میں تڑکے ہی اٹھ جاتااور پہلے کُرتا پائجامہ صاف دھو سکھاتا۔پھر اُن کے سوکھنے تک نہا دھو کر لنگوٹ پہن کر ہی ادھر اُدھرکے کام کرتا رہتا۔بعد میں انہی کپڑوں کو پہن کر نئے دن کاکام کاج شروع کرتا تھا۔ایک دن صبح بابو راؤ پینٹر ہمیشہ کی طرح نہانے وغیرہ سے نبٹ کر اپنے کمرے میں گئے۔اُن کا بستر رات سونے کے بعد ویسا ہی تتر بتر پھیلا پڑا تھا۔اپنی ہمیشہ کی عادت کے مطابق وہ رک رک کر کہنے لگے،ارے،وہ گھونڈو،آج آیا نہیں کیا؟”سنتے ہی میں لپک کر اُن کے کمرے میں گُھسا۔اُن کے بستر کو ترتیب سے ٹھیک کیا اور لپیٹ کر ایک طرف رکھ دیا۔مہاراشٹر فلم کمپنی میں جھاڑنے پونجھنے کاکام کرنے والا گھونڈو ہی اکلوتا نوکر تھا۔ویسے کمپنی کا کنبہ چھوٹا سا ہی تھا۔کل ملا کر پندرہ لوگ ہی وہاں مستقل طور پر کام کرنے والے تھے۔
بابو راؤ پینٹر فلم شوٹنگ کے دوران
گھونڈو جھاڑو کہاں رکھتا تھا،میں نے ڈھونڈ نکالا۔پہلے بابو راؤ پینٹر کا کمرا منظم ڈھنگ سے جھاڑو لگا کر صاف کیا۔پھر سوچا کہ وہ جگہ جہاں میں روز کام کرتا ہوں،صاف ستھری اور شفاف ہونی ہی چاہیے۔اِس سوچ سے اُس دن میں نے کمپنی کی پوری عمارت اور احاطہ جھاڑ پونچھ کر ایک دم چمکا دیا۔
برسات کے دن ختم ہو گئے۔’سوریکھاہَرن‘کے فلمانے کی تیاریاں اب بڑی تیزی سے پوری کی جانے لگیں۔کون کس کا کردار کرے گا،طے ہو گیا۔سری کرشن کا کردار کس کو دینا ہے،طے ہونا باقی تھا۔اس کے مطابق سبھی دیگر کرداروں کے کپڑے،زیورات وغیرہ تیار کیے گئے۔ساگوان کے اونچے اونچے کھمبے گاڑ کر تیار کیے گئے۔اسٹوڈیو اوپر سے اور دونوں طرف سے سفیدکپڑالگا کر شوٹنگ کے لیے تیار ہو گیا۔شوٹنگ کا دن آیا۔بڑھئیوں کی مدد کرنے کے لیے صبح سے ہی فتے لال اور داملے جی کی ہدایات کے مطابق،میں بورڈ تحتیاں کھڑی کرنے اور سیڑھی پر چڑھ کر کیلیں ٹھوکنے میں لگاتھا۔یادو نے کیمرا اٹھا کر اسٹوڈیو میں لا کر رکھ دیا اور اُس کی پوزیشن پر ٹھیک سے رکھ دیا۔میری بے چینی انتہائی حد تک پہنچ چکی تھی۔پتہ نہیں آج کون سا منظر فلمایا جانے والا ہے،یہ سوچتا ہوا میں اسٹوڈیو کے ایک کونے میں کھڑا تھا۔تبھی بابو راؤ پینٹر کی پکار سنائی دی،”شانتا رام”!میں آگے بڑھا۔”دیکھو، تم میک اپ کر کے تیار ہو جلدی یہاں آ جاؤ۔”اتنا سننا ہی تھا کہ میں جلد بازی میں تھیٹر کے میک اپ روم کی طرف بھاگنے لگا تبھی بابو راؤ پینٹر نے پیچھے سے پھر آواز دی،”ارے تم بھاگ کر جا تو رہے ہو،لیکن میک اپ کس کردار کا کرنا ہے،یہ تو تم نے پوچھا بھی نہیں؟”،”جی، میں تو بھول ہی گیا،بتائیے کس کا میک اپ کر آؤں؟”
یہ لو سیکچ۔ اس کے جیسا میک اپ اور کپڑے پہن کر جلدی آ جاؤ۔”
میں نے اسیکچ دیکھا۔وہ تو بھگوان وشنو کا اسیکچ تھا۔میں بہت جلدی جلدی تیار ہو گیا۔وشنو کا بھیس اور زیور وغیرہ بدل کر دیئے۔گلے میں تازے پھولوں کا ہار پہن لیا۔ماتھے پر تلک لگایا۔تیار ہو کر تھیڑ سے باہر آیا پورچ سے ہوتا ہوا اسٹوڈیو کی طرف جانے لگا۔’بغیر اجازت اندر آنا منع ہے‘لکھی وہی تختی دکھائی دی۔اِسی تختی نے پہلے دن مجھے روکا تھا۔اب اُس کی پیٹھ میری طرف تھی۔آ ج پہلی بار سنیما میں کام کرنے جا رہا تھا اور پہلا میک اپ ہی اپنے ایشٹ دیوتا(پسندیدہ دیوتا) شری وشنو کا تھا!یہ تو فلمی دنیا میں قدم رکھنے کا میرا آغاز تھا۔مجھے لگا،وہ تختی اطمینان سے ہنس رہی ہے۔
کسی نے میری کندھے پر ہاتھ رکھا۔میں نے مڑ کر دیکھا، بابو میرے پاس کھڑا تھا،”بھئی،جلدی کرو،سیٹھ اسٹوڈیو میں تمہاری راہ تک رہے ہیں۔”میں اسٹوڈیو کی سمت میں بھاگتا گیا۔
بابو راؤ پینٹر کے بنائے گئے سیکچ میں وشنو کے چار ہاتھ تھے۔اسٹوڈیو میں ایک ہالہ بنایا گیا تھا۔میں اُس کے سامنے کھڑا ہو گیا۔لیکن میں کچھ تذبذب میں پڑا تھا کہ میرے دو ہاتھوں کے چار ہاتھ کیسے بن جائیں گے۔کے۔پی۔بھاوے نامی ایک اداکار اپنے ایک ہاتھ میں شنکھ اور دوسرے میں چکر لیے میرے پیچھے اس طرح کھڑے ہو گئے کہ سوائے اُن دوہاتھوں کے ان کے جسم کا کوئی حصہ کیمرے کے سامنے نہیں آ رہا تھا اور وہ دو ہاتھ بھی انہوں نے اِس طرح باہر نکالے تھے کہ سامنے دیکھنے والوں کو لگتا تھا کہ میرے ہی چار ہاتھ ہیں۔اُن جانے میں شنکھ،چکر اور میرے ہاتھوں میں گدا،پکڑا دیے گئے تھے۔پیچھے کا ہالہ دھیمی رفتار سے لگا تار گول گھومتا تھا۔بابو راؤ پینٹر نے سے اپنے دونوں ہاتھ آہستہ آہستہ لیکن لگاتار ہلاتے رہنے کا کہا۔
شوٹنگ کے وقت اسٹوڈیو کے باہر چکا چوند چمکنے والے کاغذ کے گتے ریفلیکٹر ز رکھے تھے۔اُن بورڈوں کی مدد سے سورج کی کرنوں کو مطلوبہ سمت میں اِس طرح تبدیل کیا جاتا اور شوٹنگ میں مطلوبہ نتیجہ لایا جاتا۔
شام ہوتے ہی کام ختم ہوا۔تُلسابائی کے کمرے میں سب کے ساتھ میں کھانا کھانے کے لیے بیٹھا تھا۔سب کے ساتھ میں بے حد خوشی سے باتیں کر رہا تھا۔تُلسا بائی کوبھی سارا قصہ بڑے چاؤسے سنا رہا تھا۔لیکن لگتا تھا کہ ہو نا ہو،تُلسا بائی کسی وجہ سے آج اُکھڑی اُکھڑی سی ہے۔میری باتوں کی طرف اس کا کوئی دھیان نہیں تھا۔میرے جوش پر پانی پھر گیا۔تُلسا بائی نے میری تھالی میں مٹن تڑی کی کٹوری رکھی تھی۔اُس دن اتوار ہونے کی وجہ سے گوشت کا دن تھا۔
اپنی تھالی میں مٹن کی کٹوری پاکر میں نے تُلسا بائی سے کہا،”بات کیا ہے،تُلسا بائی،آ ج آپ لگتا ہے بھول گئیں۔مجھے میرا سادہ کھانا دیجئے”تُلسا بائی تیزی سے بولیں،”یہاں کوئی دال بھاجی نہیں بنی ہے۔”
میں غصے میں اٹھ کر جانے لگا،تُلسابائی کوندی “مفت کا کھاتا ہے،اور اوپر سے یہ نخرا دکھاتا ہے؟تیرے لیے الگ سے کھانا پکانا،مفت سے نہیں ہوتا،”،”کون کہتا ہے،میں مفت کا کھانا کھاتا ہوں؟کمپنی دیتی ہے میرے کھانے کے پیسے!”۔”کمپنی چلی ہے دینے!وہ بے چارے بابو راؤ پینڈھار کر دیتے ہیں پیسے تیرے کھانے کے،اپنی تنخواہ سے۔”بات اب پوری میری سمجھ میں آ گئی۔تو میرے کھانے کا پیسہ بابو راؤ دیتے ہیں۔یوں تو اُن کی اپنی تنخواہ تھوڑی۔۔۔صرف پچیس روپے،اُس پر میرے کھانے کے پیسے دینے کا بھار بھی انہی پر۔
میں واپس تھالی پر بیٹھ گیا۔مٹن کی تڑی کے ساتھ جوار کی روٹی اور چاول کھالیا۔لیکن میں اُس دن گوشت نہ کھا سکا۔
ہاتھ دھو کر سیدھا بابو راؤ پنیڈھارکر کے کمرے میں گیا۔لیکن وہ وہاں نہیں تھے۔کافی دیر تک میں کمرے میں ہی بیٹھا رہا۔من میں سوچوں کا طوفان اٹھا تھا۔یہ کمپنی میرے کھانے تک کا بھی پیسہ نہیں دیتی؟اتنے دنوں سے بابوراؤ پنیڈھارکر اپنی کم تنخواہ سے میرے کھانے کا بھی پیسہ چُکا دیتے ہیں؟میں سوچتا ہی رہا اور وہیں جھپکی لینے لگا۔سچ میں آدھی رات اچانک جاگ پڑا۔پتہ نہیں کتنی رات بیتی تھی؟بابوراؤ پھر بھی نہیں آئے تھے۔میں اپنے ہمیشہ کی جگہ پر سونے کے لیے چلا گیا۔بستر لگا دیا اور بے چین من سے لیٹ گیا۔سویرے پہلا کام کوئی کیا تو یہی کہ بابو راؤ پنیڈھارکر کے آتے ہی اُن سے سیدھا سوال کر بیٹھا،”بابو راؤ،اتنے مہینوں سے میرے کھانے کا پیسہ آپ دے رہے ہیں؟”،”تمہیں کس نے بتایا یہ؟”
“تُلسا بائی نے،سچ کیا ہے،بتائیے؟”
“بڑا آیا ہے سچ جاننے والا!چل بھاگ،اپنے کام میں لگ جا۔بے کار کی اِن باتوں سے تمہیں کیا لینا،دینا؟”
میرے کھانے کا خرچا،بابو راؤ پر پڑتا ہے،یہ بات میرے من میں لگا تار چُبھتی رہی۔پھر بھی اپنے آپ کو سنوارتا ہوا میک اپ روم کی طرف گیا۔
آج فلمائے جانے والے سین میں کافی کردار تھے۔سب نے میک اپ روم میں بھیڑ لگا رکھی تھی۔کچھ لوگوں نے چہرے پر رنگ پوت لیا تھا۔خود بابو راؤ پینٹر مرد کرداروں کو داڑھی مونچھیں لگا رہے تھے۔میں بھی اُن کی مدد کرنے لگا۔گندھرو ناٹک منڈلی میں میک اپ کا طریقہ میں جان گیا تھا۔میں اچھا میک اپ کرتا ہوں،یہ دیکھ کر بابو راؤ پینٹر نے مجھے سب کرداروں کی داڑھی مونچھوں کے طریقے سمجھادئیے اور وہ وہاں سے چلے گئے۔سبھی اداکاروں کو داڑھی مونچھیں لگاتے وقت میں نے سب کو ایک بار دیکھ لیا۔اُن میں شری کرشن کا میک اپ کرنے والا کوئی نہیں دکھائی دیا،تو کرشن کا کام آخر کون کرنے والا ہے؟کل میں نے وشنو کا روپ اپنایا تھا،تو وشنو کے اوتار کرشن کا روپ بھی مجھے ہی اپنایا چاہیئے۔میرا بچگانہ من سوچ رہا تھا۔تبھی بابو راؤ پینٹر نے آواز دی،”شانتا رام،ارے تم کرشن کا میک اپ کرکے آؤ تھیڑ میں۔”
کرشن کا کردار مجھے ملا تھا۔میں ہیرو بن گیا تھا!خوشی کے مارے لگا کہ دو چار بار اوچھل کودکر لوں۔سب کے میک اپ کرنے کے بعد میں نے کرشن کا میک اپ کیا،کپڑے پہن لیے اور جلدی جلدی تھیٹر میں حاضر ہو گیا۔
کیونکہ میں کہانی کے پلاٹ پر ہونے والی بحث کے وقت اور تعلیم کے وقت معمول کے مطابق حاضر رہتا تھا۔اسٹوڈیو میں سین کے فلمانے کے وقت بابو راؤ پینٹر جو بھی بتاتے اُسے سمجھنے میں مجھے کوئی مشکل نہیں ہوتی۔اِسی لیے میں اُن کی ہدایات کے مطابق اداکاری فوراً کر لیتا۔شروع شروع کی شاباشی ملنے کی اُمید سے اُن کی طرف دیکھا کرتا تھا۔لیکن اُن کے داڑھی مونچھوں کے جنگل سے ’شاباشی‘لفظ تو کیا،سراہنے میں سادی مسکراہٹ بھی کبھی دیکھنے کو نہیں ملی۔
شام ہو گئی۔دن بھر کڑی محنت کی وجہ مجھے کس کر بھوک لگی تھی۔تُلسا بائی کے یہاں گیا۔جو بھی کھانے کو بنا تھا چُپ چاپ کھانے لگا۔کام کی دُھن میں کچھ بھولی ہوئی وہی چبھن پھر کھٹکنے لگی۔رات کا اندھیرا کھانے کو دوڑنے لگا۔خوبلی سے چلتے وقت،باپو نے پھر کبھی پیسے نا مانگنے کا جو ارادہ میں نے کر لیا،اب چرمرانے لگا۔اتنی محنت کرنے کے بعد بھی اپنا پیٹ بھرنے کے لیے کافی پیسہ بھی مجھے نہیں مل رہا تھا۔میں گھر لکھنے بیٹھ گیا،”ابھی مجھے کمپنی کی طرف سے تنخواہ ملنا شروع نہیں ہوا ہے۔لہذا آپ ہر مہینے کھانے،تیل، صابن وغیرہ کے خرچ کے لیے مجھے کیا کم سے کم دس روپے بھیج سکیں گے؟‘خط بند کر جیب میں رکھ لیا،تب جا کر کہیں نیند آ سکی۔
سویرے اٹھنے کے بعد لیٹر بکس میں ڈالنے کے لیے تھیٹر کے پورچ سے ہوتا ہوا میں باہر جا ہی رہا تھا کہ میرا دھیان اسٹوڈیو کی طرف گیا۔وہاں نئے سین کے لیے ضروری سیٹ کھڑا کیا جانے لگا تھا۔بڑھئیوں کے لیے مدد گاروں کی کمی پڑ رہی تھی۔فتے لال جس کونے میں فلاٹ کھڑا کرنا چاہتے تھے،وہ ٹھیک سے جم نہیں رہا تھا۔میں نے بات سمجھ لی تھی،لہذا :وہ ٹھیک ٹھیک کیا چاہتے ہیں،میں فوراً جان گیا۔آگے بڑھا اور اُن کی خواہش کے مطابق فلاٹ رکھ کر کیلیں ٹھوکنا میں نے شروع کر دیا۔خط جیب میں ہی رہ گیا۔سارا سین کھڑا کرنے کے بعد اسٹوڈیو سے باہر آیا،تو میک اپ والے سبھی فنکار اُس دن کی شوٹنگ کے لیے حاضر ہو گئے تھے۔سب کا میک اپ کیا۔تب تک شوٹنگ کا وقت ہو گیا تھا۔
اندھیرا ہوجانے کے بعد فلم دھونے کے کمرے میں فلم پر عمل کرنے کا کام شروع ہو گیا۔اُس کمرے میں دو بڑے ڈرم رکھے تھے،جن پر آڑی پٹیاں ٹھونکی ہوئی تھیں۔اُن ڈرموں پر شوٹنگ کی ہوئی نیگٹیو فلم لپٹی جاتی۔ڈرموں کے نیچے ٹین کی آدھ گول،نیم گول شکل کی ٹینکیاں بنی تھیں۔اُن ٹینکیوں میں سے فلم پر عمل کرنے والی دوائیاں گھُلا پانی ہوتا۔نیگٹیو فلم کو ڈرم پر بہت ہی کس کر لپیٹنا پڑتا تھا۔فلم کے رول کو مضبوطی سے پکڑ کر اتنا کھینچا ہوا رکھنا پڑتا کہ دو سو فٹ کے رول میں پھنسایا ہوا لکڑی کا ڈنڈا ہاتھوں میں گھومتے وقت رگڑ کے باعث بہت گرم ہو جاتا،دونوں ہاتھوں میں پھپھولے پڑ جاتے۔فلم کو اتنا کس کے اِس لیے لپیٹنا پڑتا کہ کیمیکل میں بھیگ جانے پر ڈھیلی پڑ کر نیچے کی کیمیکل کی ٹینکیوں سے گھسنے سے وہ خراب نا ہو جائے۔اُس رول کو مضبوطی سے پکڑتے ہوئے ہاتھوں میں ہی گھومتا رکھنا،اُسے پکڑنے والے کی برداشت اور رضامندی کی کسوٹی ہی ہوا کرتی۔یہ کام ہمیشہ یادو کیا کرتا۔ہاتھ جلنے کی وجہ سے اُس کے منہ سے نکلنے والے سسکاری بیچ بیچ میں مجھے بھی سنائی دیتیں۔یادو کی اجازت سے اُس رول کو تھامنے رکھنے کا کام میں نے اپنے ہاتھوں میں لے لیا۔اُس نے تو خوشی سے وہ کام مجھے سونپ دیا۔میں نے پکا ارادہ کر لیا کہ چاہے ہاتھ جل کر راکھ کیوں نہ ہو جائیں۔رول پورے عمل سے گزرنے تک تو اُسے نیچے نہیں رکھوں گا۔اور نا ہی منہ سے ’اُف‘ نکالوں گا۔
فلم پر جیسے تیسے کیمیائی عمل پوری ہونے لگی،ویسے ویسے اُس پر سین اور کرداروں کے تصویروں لٹکی لال بتی کی روشنی میں دھیرے دھیرے دکھائی دینے لگے۔اُن تصویروں کو دیکھ کر مجھے بہت سکون ملا۔اُس کے بعد اُس فلم کو صاف پانی سے دھو کر سکھانے کے لیے ڈرم پر رات بھر چھوڑ دیا۔فلم پر کیمیائی عمل برابر ہوا ہے یا نہیں،اِس کا فیصلہ تو اُن دنوں آنکھوں سے معائنہ کرکے ہی کیا جاتا تھا۔یہ بڑی ذمہ داری کاکام داملے کو سونپا گیا تھا۔یہ کام ختم ہونے کے بعد میں یادو کے کہنے کے مطابق کیمیائی کمرے کا فرش صاف دھو ڈالا اور سوکھے پوچے سے پونچھ بھی لیا۔اِس کے بعد یہ کام میں ہر روز کرنے لگا اور یادو صرف دیکھ ریکھ۔
مہاراشٹر فلم کمپنی میں تھوڑے دن کام کرنے کے بعد ہی ایک بات میرے دھیان میں اچھی طرح آ گئی۔اونچی ذمہ داری اور اہم کام کسی اور کے حوالے کرنے کے لیے کوئی اکثر تیار نہیں ہوتا تھا۔جو کام زیادہ جسمانی محنت کے ہون،جھنجھٹ بھرے ہوں،انہیں کرنے کی خواہش کسی نے ظاہر کی تو وہ کام نئے آدمی کے حوالے کرنے میں ذرا بھی دیر نہیں لی جاتی تھی۔اسی لیے سامنے دکھائی دینے والے کاموں میں جو کام سب سے نیچا مانے جانے والا ہوتا،سب سے زیادہ محنت کا ہوتا،اُس کے کرنے کے لیے،میں رضا مندی سے آگے آ جاتا۔نتیجہ یہ ہوا کہ آہستہ آہستہ شوٹنگ کی سبھی شاخوں میں بالکل نچلی سطح سے کام کرنے کا موقع مجھے لگا تار ملتا گیا۔
سویرے میں اسٹوڈیو میں فلاٹوں کو فٹ کرنے والا مزدور بنتا۔بعد میں میک اپ کرنے اور کاسیٹوم پہنانے والا کاریگر بنتا۔پھر شوٹنگ میں وشنو کا رول ادا کرنے والا ہیرو بن جاتا۔رات میں کیمیکل روم میں مددگار ہو جاتا اور اُس کے بعد پھر سے زمین جھاڑنے والا،فرش دھو کر صاف صفائی کرنے والا نوکر بن جاتا۔اس طرح کی الگ الگ کرداروں میں ہر روز حسب معمول جوش اور امنگ کے ساتھ نبھاتا تھا۔
رات کافی ہو چکی تھی۔مانگ کرنے والا باپو کو لکھا وہ خط لیٹر بکس میں ڈالنے کے لیے اب میں نے اپنی جیب سے باہر نکالا۔لیکن میرا ہاتھ وہیں کا وہیں تھم گیا۔ماں کا لگاتار چولہے کی آنچ میں تپ کر کجرایا،پسیجتا چہرہ آنکھوں کے سامنے کھڑا ہو گیا۔ہوٹل اور گھر کا سارا کام کاج نبٹا کر وہ اب جا کر تھوڑی سستا رہی ہوں گی۔میرا خط ملتے ہی باپو فوراً پیسہ بھجوا دیں گے۔لیکن خط میں لکھی میری مانگ کو پورا کرنے کے لیے ماں کو اور بھی زیادہ محنت کرنی پڑے گی۔زیادہ وقت کام کرنا پڑے گا۔اسی سوچ میں اُس خط کو لیٹر بکس میں ڈال نہ سکا۔
سویرے سامنے سے بابو راؤ آتے ہوئے دکھائی دئیے۔مجھے دیکھتے ہی انہوں نے کہا،”شانتا رام، اِس مہینے سے کمپنی کی طرف سے تمہیں تنخواہ ملنی شروع ہو جائے گی۔سیٹھ نے طے کیا ہے۔”
سچ ؟کتنی تنخواہ ملے گی؟”
“نو روپے”
میں تو خوشی کے مارے پاگل ہو گیا۔کھانے کے لیے آٹھ روپے اور تیل صابن کے لیے ایک روپیہ۔بہت ہو گا اتناپیسہ !ایک کونے میں جا کر پہلے میں نے باپو کو لکھا وہ خط پھاڑ ڈالا اور اُس کے ٹکڑوں کو وہیں اچھال کر اپنے روز کے کاموں میں جلدی جلدی جُٹ گیا۔
’سُر ریکھا ہَرن‘کی شوٹنگ اسٹوڈیو میں جاری تھی۔کبھی کبھی ایسا ہوتا کہ پہرے دار، ایکسٹرا یا کسی کسی معمولی سپاہی کی عین موقع پر کمی پڑ
جاتی۔
“اچھا ہوکہ یہاں ایک پہرے دار ہوتا،”بابو راؤ پینٹر کہتے اور میں میک اپ روم میں جا کر میک اپ کرنے لگ جاتا۔کبھی کبھار گھنی مونچھیں لگا کر پہرے دار بن جاتا،تو کبھی سفید داڑھی مونچھ اور بھنویں لگا کر عمر رسیدہ وزیر بھی بن جاتا۔نئے نئے روپ دھار کر،اداکاری کے الگ الگ طریقوں کو اپنا کر،چلنے کے اسٹائل میں تبدیلی کرتا ہوا میں ہر بار ایک دم نئے رنگ روپ اور ادا میں کیمرے کے سامنے آیا کرتا۔بابو راؤ پینٹر کا دھیان ہمیشہ اہم کرداروں کے اداکاروں اور ہلچل پر ہی مرتکز رہتا۔وشنو کی اداکاری میں ٹھیک ویسی ہی کرتا جیسا وہ بتلاتے تھے۔لیکن جب کبھی ایسا لگتا کہ بابو راؤ پینٹر نے جو کہا ہے اُس سے ہٹ کر کچھ نرالی ہی ادا سے اداکاری کرنی چاہیے،تو ویسا کرنے اور اُن سے اُس کی اجازت مانگنے کی ہمت میں نہیں کر پاتا۔لیکن میرے جو دیگر معمولی اور چھوٹے چھوٹے کردار ہوتے تھے۔اُن کی طرف چونکہ پینٹر جی کا خاص دھیان نہیں ہوتا،اُن کرداروں میں من چاہی اداکاری کرنے کا موقع مجھے مل جاتا۔
بعد میں فلم تیار ہونے پر میں اِن سبھی کرداروں کا باریکی کے ساتھ معائنہ کیا کرتا۔کبھی کبھی تو اِن چھوٹے کرداروں میں میری اداکاری اتنی گھٹیا ہوتی تھی کہ خود مجھ سے دیکھی نہیں جاتی۔بابو راؤ پینٹر کے ہدایات میں کیے ہوئے اپنے کرداروں کو فلم میں دیکھنے اے ایک طرف یہاں کیا کرنا چاہیئے یہ سیکھنے کا موقع ملتا،وہاں دوسری طرف خود اپنی مرضی سے کیے ہوئے کرداروں کو دیکھ کر کیا نہیں کرنا چاہیئے،اِس کا علم مجھے ہوتا گیا۔’سر ریکھا ہرن‘ کی شوٹنگ چالو تھی۔تب زندگی میں پہلی بار مجھے پرائی عورتوں کی صحبت میں خاموش میل جول کا موقع ملا۔یہ عورتیں کمپنی میں اداکاراؤں کے روپ میں کام کرتی تھیں۔کرشن کے کردار کے میک اپ میں،میں سیٹ پر آتا تو اِن میں سے کئی میرے چاروں طرف جمع ہو کر مجھے گھیر لیتیں اور میرے رنگ روپ کی بہت بہت سراہنا کرتی تھیں۔اُن کی باتوں کو میں ہنس کر ٹال دیتا۔ان عورتوں کی صحبت میں رہوں، اُن کے ساتھ ہنسوں کھیلوں یا گپیں لڑاؤں،ایسا مجھے کبھی نہیں لگا۔
مجھ پر تو بس ایک ہی دھن سوار تھی،سارے کام سیکھوں گا اور خود کروں گا۔اِسی لیے اپنے کاموں میں،میں ہمیشہ مست رہتا۔لیکن پھر بھی ایک پریشانی من کو کرید رہی تھی۔میری پریشانی کی وجہ اتنی انفرادی اور اتنی نجی تھی کہ کسی کے سامنے اُس کا ذکر کرنے میں بھی مجھے شرم آ تی تھی۔میں بہت شرمندہ تھا۔کولہاپور میں مہاراشٹر فلم کمپنی میں آنے کے بعد ہر رات میرا انزال ہونے لگا تھا۔یہ احتلام (بدخوابی) نہیں تھا۔بھلے برے سپنے مجھے آتے ہی نہیں تھے۔مرد عورت کے تعلق،جنسی تعلق کے معاملے میں میں بالکل اناڑی تھا،لہذا ہر رات معمول کے مطابق ہونے والے انزال کے ڈر سے میں پوری طرح میں تکلیف میں تھا۔آدھی رات ہی نکل جانے میں اپنا لنگوٹ دھوتا اور اُسی گیلے لنگوٹ کو باندھ کر سو جاتا۔ایسا لگ بھگ ہر رات ہونے لگا تھا۔
ایک بار ایسی موضوع پر کمپنی میں کہیں باتیں ہو رہی تھیں۔میں دھیان لگا کر سننے لگا۔باتیں کرنے والے لوگ آپس میں کہہ رہے تھے کہ یہ ایک ایسی بیماری ہے کہ وقت پر علاج نہیں کرایا گیا،تو تپ دق جیسے لا علاج روگ بھی ہو جاتے ہیں۔کئی بار تو شادی ہوجانے کے بعد بھی یہ ٹھیک نہیں ہو پاتی،وغیرہ وغیرہ۔شادی تو مجھے ابھی کرنی ہی نہیں تھی۔لیکن تپ دق ؟۔۔۔۔پھر تو سارا کا م تمام ہی سمجھو!
دوسرے دن صبح :سارے کام چھوڑ کر میں ہومیو پیتھک ڈاکٹر پرابھاولکر کے یہاں گیا۔اُن کے علاج اور دوائیوں میں بچپن سے ہی مجھے بڑا عقیدہ تھا۔میں نے انہیں ساری حقیقت کچھ جھینپتے،کچھ جھجکتے ہوئے کہہ دی۔وہ سنجیدہ ہو گئے۔پوچھا،”کیا تم کمزوری محسوس کرتے ہو؟”
“نہیں”
“بھوک”
“کس کر لگتی ہے”
“کام کرتے وقت کبھی تھکن محسوس کرتے ہو؟”
“نہیں،نہیں۔ویسا مجھے کبھی نہیں ہوتا۔”“پھر کچھ پریشان ہو کر میں نے کہا۔
“کمپنی میں کچھ لوگ کہتے ہیں،اِس کا ایک علاج ہے شادی۔۔۔”
انہوں نے ہنس کر کہا،”تو تم شادی کرنا چاہتے ہو؟”
“نہیں ! اور سات آٹھ سال تو مجھے شادی وادی نہیں کرنی ہے۔مجھے تو فلم کے بارے میں ابھی کافی کچھ سیکھنا ہے۔”
“تمہیں کا سیکھنا ہے نا تو،تو خوب ڈٹ کر کام سیکھو۔شادی کی جلدی کرنے کی قطعی ضرورت نہیں ہے،سمجھے؟”
“جی۔۔لیکن،کہتے ہیں اِس بیماری کی وجہ سے تپ دق بھی ہو جاتا ہے۔۔۔”
“دیکھو،تمہیں تپ دق وپ دق کچھ بھی ہونے والا نہیں ہے۔تم اچھے بھلے تندرست ہو۔ارے بیٹے،کسی پیالے میں زیادہ پانی بھر دیا جائے تو وہ اپنے آپ چھلک جاتا ہے نا؟بس ویسے ہی اِس معاملے کو سمجھو!”
پرابھاوکرجی نے مجھے ایک بھی دوا نہیں دی۔میں نے اپنی پریشانیوں کی پوٹلی باندھ کر باہر پھینک دی اور بے فکر ہو کر پھر سے کام میں بِھڑ گیا۔
کچھ دن بعد بابو راؤ پینٹر نے شہر کے دوسرے کونے پر ندی کے پاس امرود کے باغیچے میں کچھ سین کی شوٹنگ کرنے کا فیصلہ کیا۔اِس باہر شوٹنگ کے پہلے ہی دن بابو راؤ پینٹر کو میں نے اتنا ہی کہتے سنا،”ارے وہ کیمرا ذرا سنبھال کر وہاں لے جانا ہو گا۔”بس کمپنی میں کہیں سے ایک بڑی چادر ڈھونڈ لایا۔اُس چادر میں اُس کیمرے کو میں نے ترتیب سے باندھا۔دادا مستری نے لوہے کی موٹی چادر نیچے فٹ کر دی تھی،جس کی وجہ سے وہ کیمرا بہت ہی بھاری ہو گیا تھا۔ویسے میں اُن دنوں چھریرے بدن کا ہی تھا۔اُس وزنی کیمرے کا بوجھ اپنی کمر لادتے وقت مجھے بہت تکلیف ہوئی۔کیمرے کو اپنی کمر پر لادے میں ایک حمال کی طرح شیو جی تھیٹر کے باہر نکلا۔درختوں کے باغ میں جانے کے لیے پاس کا جو راستہ تھا،وہ مہالکشمی مندر کے بڑے دروازے سے ہوتا ہوا جاتا تھا۔کبھی اِسی محلے میں باپو کی دکان تھی۔لہذا وہاں کے دکان دار اور کافی اور لوگ مجھے راجا رام باپو کے لڑکے کے ناطے پہچانتے تھے۔اِس کے علاوہ اِس راستے پر سکول میں میرے ساتھ پڑھے میری عمر کے کئی ہم جولی لڑکوں کے مکان تھے۔یہ سارے لڑکے اب کالج میں پڑھ رہے ہوں گے۔شاید ان میں سے کئی مل جاتے۔میری کمر پر لدا وہ بوجھ دیکھ کر وہ مجھے ایک حمال سمجھیں گے،میری کھِلی اڑائیں گے،یہ خیال مجھے ستانے لگا۔مجھے شرم آنے لگی۔ویسے بڑے دروزے ہو کر جانے والا وہ راستہ کافی نزدیک کا تھا۔پھر بھی میں نے اُس راستے سے ناجانے کا طے کیا۔گاؤں کے باہر سے جانے والا کافی لمبا راستہ میں نے پسند کیا۔
میں کیمرے کو مقررہ جگہ پر لے گیا۔وہاں اُسے ترتیب کے ساتھ رکھ دیا۔دیگر اداکاروں کا میک اپ کرانے کے بعد میں نے اپنا بھی میک اپ کر لیا۔دن بھر کرشن کے کردار کی منظم عکاسی ختم ہوئی۔شام کو اُس بھاری کیمرے کا بوجھ اٹھا کر میں پھر سے سویرے کے اُسی لمبے راستے سے واپس کمپنی میں جانے کے لیے چلا۔اب پاؤں جواب دینے لگے تھے۔کچھ قدم چلنے کے بعد اب آنکھوں تلے اندھیرا چھا نے لگا۔ہار ہر میں کسی ایک جگہ پر بیٹھ گیا۔کچھ سستانے کے بعد کیمرا اٹھا کرچلنا شروع کیا۔
اِس طرح چار پانچ دن کیمرا کمر پر لادے،پیرو باغ میں میرا آنا جانا جاری رہا۔لیکن ہر روز دور کے راستے سے کیمرے کا لانا لے جانا بہت ہی مشکل ہونے لگا۔پھر سوچا،آخر اتنے لمبے راستے سے کیوں جایا جائے؟لوگوں سے اتنا ڈرنے کی کیا ضرورت ہے؟شانتا رام حمالی کرتا ہے،لے دے کر وہ نا کہیں گے!خوبلی میں ہوٹل چلاتے وقت باپو نے کہا تھا،”کوئی بھی دھندا ایمان داری سے کرو تو،اپنے آپ میں وہ نیچ یا گھٹیا نہیں ہوتا۔”باپو کا وہ قول یاد آیا۔کافی حوصلہ بندھ گیا۔میں نے طے کیا،کل سے کیمرا پیٹھ پر لادے مہادوار کے راستے سے جانے والا نزدیک کے راستے سے جاؤں گا،کوئی مجھے حمال کہے تو اپنی بلا سے!اُس کے بعد وہ بھاری کیمرا پیٹھ پر لاد میں سینہ تان کر مہادوار کے راستے سے ہی پیرو باغ جانے لگا۔
’سُر ریکھا ہَرن ‘کا پہلا پرنٹ دیکھتے ہی پوری مہاراشٹر فلم کمپنی میں امنگ اور جوش و خروش کا ماحول چھا گیا۔ہماری کمپنی کے فلم کامیاب ہوں۔ہمارے گرو جی بابو راؤ پینٹر کا نام سارے ملک میں پھیلے اور ہنر مند،مثالی فلم بنانے والی تنظیم کے روپ میں مہاراشٹر فلم کمپنی ساری دنیا میں مشہور ہو جائے،اِسی نصب العین سے ہم سبھی سحر زدہ ہو گئے تھے۔کمپنی میں رہنے والے ہم دس پندرہ لوگ بہت ہی کم تنخواہ پر کام کر رہے تھے۔کل ملا کر ہم لوگوں کے تنخواہ پر کمپنی کا ہر ماہ ڈھائی تین سو روپے سے زیادہ خرچ نہیں ہوتا تھا۔جُھجار راؤ پوار اور بالا صاحب یادو جیسے اداکار تو صرف اپنے شوق کے لیے بغیر تنخواہ کام کر رہے تھے۔ اسٹوڈیو کے ایک موقع پر میں نے بلڈنگ پہلوان بالا صاحب یادو کا اچھا خاصا مذاق اڑایا تھا۔ اسٹوڈیو میں کہیں کراماتی منظروں یعنی ٹِرک سین کی شوٹنگ چل رہی تھی۔میں ( کرشن) اور بالا صاحب یادو( گھٹو تَلچ) اُس منظر میں کام کر رہے تھے۔کرشن گھٹو تلچ سے کہتا ہے کہ عورت کا کچھ عرصہ فریبی روپ لے کر کوروؤں کے خیمہ میں مایا بازار کی دنیا بساؤ۔میری کورو فو ج میں بے مثال گڑ بڑی مچا دینے کا حکم وہ گھٹو تلچ کو دیتا ہے۔اِس پر “جو حکم “کہتا ہوا گھٹو تلچ گھٹنے ٹیک کر کرشن کو نمسکار کرتا ہے۔ایسا وہ سین تھا۔میرے من میں بالا صاحب سے شرارت کرنے کا خیال آیا۔جب دیکھو تب وہ مجھے ہمیشہ ’شانتیا‘کہہ کر پکارا کر تے تھے اور شانتیا لفظ کے آگے پیچھے خالص کولہاپوری گالیاں بھی جوڑ دیتے تھے۔اِس کے علاوہ آتے آتے اپنے پہلوانی ہاتھ سے چیت چانٹے بھی جما ہی دیتے تھے۔سو الگ۔آج اُن سے سارا حساب چُکتا کرنے کا ارادہ میں نے کر لیا۔
کیمرا چالو ہوا۔میں نے گھٹوتلیج کو حکم دیا۔گھٹو تلیج گھٹنے ٹیک مجھے پرنام کرنے لگا۔تبھی جان بوجھ کر میں نے تذبذب میں ہونے کا انداز بنا لیا۔کیمرا رک گیا۔پھر سے اُسی سین کی شوٹنگ شروع ہو گئی۔بالا صاحب مجھے جھک کر پڑنام کر ہی رہے تھے کہ اب کی بار کسی اور طرح سے میں نے پھر تذبذب میں پڑنے جیسا چہرا بنایا۔ شوٹنگ کرتے وقت بابو راؤ پینٹر کبھی غصہ نہیں کرتے تھے،کیونکہ انہیں اندازہ تھا کہ شاید اس سے اداکار اور بھی گھبرا جائے گا اور زیادہ غلطیاں کرے گا۔لیکن ادھر بالا صاحب مجھ پر ایسے آگ بگولا ہوئے جارہے تھے کہ جیسے کچا ہی چبا جائیں گے۔وہ غرا کر کہنے لگے،”شانتیا،تم باربار مجھ سے اپنے پیر چھواتے ہو کیا؟اب کی بار غلطی کی تو تیری گردن توڑ کر رکھ دوں گا ہاں!”تبھی کیمرا پھر چالو ہو گیا۔وہ خاموش فلم تھی۔لہذا تبھی سین کے مطابق اداکار سین کرتے ہوئے کچھ بھی بول دیا تو کام چل جاتا تھا۔اس بات کا فائدہ اٹھا کر میں نے بالا صاحب یعنی گھٹو تلیج سے ہلکی آواز میں کہا،”بالا صاحب،آپ مجھے پھر کبھی گالیاں نہیں دوں گا اور کبھی ماروں گا بھی نہیں،ایسا وعدہ کرتے ہیں،تو میں آپ کو امان دیتا ہوں۔میں پھر سے غلطی نہیں کروں گا۔جاؤ گھٹوتلیج !”اور میں نے اُس سمت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اپنا ہاتھ تان دیا۔بالا صاحب نمسکار کے لیے جھکے ہوئے غرّائے،”ٹھیک ہے۔ (گالی نمبر ۱)نہیں دوں گا گالیاں(گالی نمبر ۲) ماروں گا بھی نہیں (گالی نمبر ۳)۔
میں ویسا ہی کھڑا رہا۔شارٹ اوکے ہو گیا۔
آخر ’سُوریکھا‘ کی شوٹنگ ختم ہو گئی فلم کے بیچ بیچ میں آئے مکالموں کی پرنٹ تختیوں (ٹائٹلز)کا فلمانا شروع ہو گیا۔فتے لال کے کیمرے میں فلم بھری جانے کے بعد اُسے اٹھا کر تختی کے سامنے جا کر رکھ دیتا تھا۔ٓ
ایک دن،یہ دیکھ کر کہ آس پاس کوئی نہیں ہے،میں نے کیمرے کا ہنڈل ایک لَے میں چار پانچ بار گھما دیا۔ٹائٹلز کا پرنٹ تیار ہو کر آیا۔تب میں نے دھیان سے دیکھا کہ میری فلمائی گئی ٹائٹلز ٹھیک آگئی ہیں یا نہیں؟میری شوٹنگ کافی حد تک ٹھیک ہی آئی تھی۔اُس وقت میں نے یہ جو کام کیا صحیح تھا یا غلط؛اجازت کے بغیر میں نے کیمرا چلا لیا،یہ تو ایک دم غلط تھا،لیکن اُسی وجہ سے آگے چل کر میں نے کیمرا اچھی طرح سے چلانا سیکھا ،بالکل درست اور صحیح۔سچ تو یہ ہی ہے کہ جیون میں کئی سوال ایسے ہوتے ہیں،جن کا جواب پرائمری سکول کے سوال کی طرح،صرف صحیح یا غلط،اتنا ہی نہیں لکھا جا سکتا۔
’سُرریکھا ہرن‘کی ایڈئٹنگ،ڈویلپینگ اور پرنٹ نکالنے کے کام تیزی سے کیے جا رہے تھے۔میں سبھی شعبوں میں مددگار کے روپ میں دن رات خوب کام کرتا تھا،نیگٹو فلم سے پازیٹو پرنٹ تیار کرنے کی ایک مشین ایڈیٹنگ ہال میں رکھی تھی۔اُس کے سامنے آرگنی دیا رکھا تھا۔یہ کافی بڑا تھا۔اُس آرگن دیپ کی روشنی میں داملے اُس مشین کا دھیمی رفتار میں خود گھما رہے تھے۔وہ فلم کا پرنٹ کر رہے تھے۔اُس کے بعد ہر روز رات میں پرنٹ ہو کر تیار پازیٹو فلم کے رولوں پر ہمیشہ کی طرح کیمیکل ہاؤس میں کیمیائی عمل کرنے کا کام شروع ہو گیا۔
بابو راؤ پینٹر فلم کا ایڈٹینگ کرنے لگا۔میں اُن کی رہنمائی کے مطابق فلم کے ڈبے اٹھا کر دھرتا،فلموں کو وہ جیسا کہیں،جوڑتا ، اور ایسےکام کرکے اُن کی مدد کر رہا تھا۔اُن دنوں فلم کو روشنی میں دیکھ کر،معمولی آنکھوں سے ہی وہ مقامات طے کیے جاتے تھے،جہاں اُسے کاٹنا اور جوڑنا ہے۔آج تو تالیف اور ایڈٹینگ کی جدید سہولت سے آراستہ مشین تیار کی جا چکی ہے۔سبھی فلم کمپنیوں کو وہ آسانی سے مل جاتی ہے۔لیکن اُن دنوں تو ایسی کسی مشین کا خیال بھی ناممکن تھا۔شروع شروع میں تو بابو راؤ پینٹر کہانی کے سین کو کہاں کاٹتے ہیں اپنی سمجھ میں نہیں آتا تھا۔لیکن فلم کوپھر سے جوڑنے کے بعد اُس سین کی فلم کو میں باریکی سے دیکھتا تھا۔
کچھ دنوں بعد،بابو راؤ پینٹر کی ایڈیٹنگ کا اسٹائل کچھ سمجھ میں آ گیا تھا اور اُس کے مطابق میں خود ایک،ایک کے سارے منظر ویسی ترتیب سے لگا کر الگ الگ پلندے بنا کر اُن میں رکھ دیتا تھا۔اس سے بابو راؤ پینٹر کے کہتے ہی کہ آج فلاں سین جوڑنا ہے،اُس سین سے لے کے سارے سین ایک ہی پلندے میں اُن کے سامنے آجاتے۔فلم کے چھوٹے چھوٹے ٹکروں کو کھوجنے میں محنت اور وقت بچ جاتا۔لگا کہ ایڈیٹنگ شاستر میں میری اِس ترقی پر بابو راؤ پینٹر کافی خوش تھے۔انہوں نے پوچھا،
“کیوں بھئی،باقی سبھی سین کی ایڈئٹنگ تم کر لو گے؟”
میں نے فوراً جواب دے دیا،”کیوں نہیں،ضرور کر لوں گا۔”
سُر ریکھا،کی ایڈٹینگ میں نے ختم کی۔اپنے خیال سے تو وہ بہت بڑھیا بنا تھا۔اتفاق کی بات ہے کہ جس دن میں نے بابو راؤ پینٹر کو ایڈیٹنگ ختم ہونے کی اطلاع دی تھی۔اُسی دن شاہومہاراج کا پیغال آیا کہ “سُرریکھا ہرن”کاکام پورا ہو گیا ہو تو وہ اُس فلم کو دیکھنا چاہتے ہیں۔لہذا بابو راؤ پینٹر نے پوری فلم کو ایک بار پردے پر پرکھے بغیر ہی شاہو مہاراج کو فلم دیکھنے کے لیے مدعو کر لیا۔
فلم دیکھائی جانے لگی۔شروع کے کچھ سین اچھی طرح نکل گئے۔پردے پر جنگ کے سین آنے شروع ہو گئے اور میں اندزاہ کرنے لگا کہ مجھ سے کہیں نا کہیں بھیانک غلطیاں ہو چکی ہیں۔بات یہ ہو گئی تھی کہ اُن منظروں میں رفتار کا فقدان تھا۔ایک سین میں گھٹو تلیج نے اپنی گدا پھینک ماری۔لیکن دوسرے شارٹ میں وہ جس آدمی کو لگتی ہے،کافی دیر بعد اُس پر گرتی دکھائی دینے لگی۔فلم جیسے تیسے آدھی ادھوری ہی چلی تھی کہ شاہو مہاراج بہت ہی اوب کر باہر آئے اور چلے گئے۔اِس واقعہ کے بعد بابو راؤ پینٹر نے مجھے سے اتنا ہی کہا،
کیوں شانتا رام،کیسی ایڈئٹنگ کی تم نے یہ؟اب تو پھر سے بیٹھ کر سب کچھ ٹھیک کرنا پڑے گا!”میں بہت ہی شرمندہ ہو گیا تھا۔
دوسرے ہی دن سے بابو راؤ پینٹر پھر سے سُرریکھا ہرن کی ایڈئٹنگ کرنے لگے۔اُس وقت میں نے کیا کیا غلطیاں کی تھیں،اور اس کے بدلے مجھے کیا کیا کرنا چاہیئے تھا،ٹھیک ٹھیک تربیت مجھے ملی۔فلم کے ہر سین کا اور اُس کی رفتار کا میں نے ٹھیک ٹھیک مطالعہ کیا۔میں اپنی غلطیوں کو سمجھ گیا۔شوٹنگ کی ایک بڑی چابی میرے ہاتھ لگ گئی!
بمبئی میں سُرُریکھا ہرن ‘کے ریلیزکی تاریخ پکی ہو گئی۔بابوراؤ پینٹر اور بابو راؤ پنیڈھارکر دونوں بمبئی جانے کے لیے پیش ہوئے۔بابو راؤ پنڈھارکر نے مجھے اپنے آفس میں بلوا کر کہا،
“میری غیر حاضری میں یہاں آنے والے ہر خط کو ٹھیک سے پڑھ کر اُن کے منظم جواب دیتے رہنا،سمجھے؟”
“مجھ سے یہ کیسے ہو پائے گا؟”
“کیوں نہیں ہو پائے گا؟اچھے میٹرک تک پڑھے لکھے جو ہو؟سیٹھ غالباً مجھ سے پہلے ہی کولہاپور لوٹ آئیں گے۔اُن سے پوچھ کر جیسا بتائیں جواب لکھ دینا۔بس۔”
“ٹھیک ہے،آپ جب کہتے ہی ہیں،تو لکھ دیا کروں گا،خطوں پر کیا دستخط میرے ہی ہوں گے؟”
“ہاں دیکھوں تو کیسے دستخط کرتے ہو؟”
خوبلی ورکشاپ میں تنخواہ لیتے وقت میں ’ایس آر وانکدُرے‘دستخط کرتا تھا۔وہی دستخط میں نے انہیں کر کے دکھا دیئے۔بابو راؤ ایک دم ویسے ہی کہہ گئے،جیسے کبھی گڈکری گروجی نے کہا تھا،”شانتا رام”،تمہارا شانتا رام نام تو ٹھیک ہی ہے۔وانکُدرے سر نیم بھی ویسے ٹھیک ہی ہے،لیکن انگریزی میں لکھو گے نا،تو ہر پڑھنے والا اُس کا تلفظ الگ الگ ڈھنگ سے کرے گا۔کوئی ونکُدرے کہے گا۔تو کوئی وہانکورے۔بھئی نام کچھ آسان اور سادہ ہونا چاہیئے۔ “انہوں نے تھوڑی دیر سوچا اور بولے “دیکھو ایسا کرتے ہیں،تمہارے سر نیم کا پہلا انگریزی ’وی‘تمہارے شانتا رام نام سے پہلے لگا دیتے ہیں۔یوں کہہ کر وہ دھیرے دھیرے اپنے سے ہی دو تین بار بُڑ بڑاتے رہے اور یکایک زور سے بولے”وی۔شانتا رام”۔انہوں نے پھر ایک دم پُرجوش ہو کر پوچھا،”کیوں بھئی،کیسا لگا یہ نیا نام۔’وی۔شانتا رام‘ ؟اپنا یہ نیا نام سن کر میں پہلے ہی ہیجان انگیز ہو گیا تھا۔میں اِس دنیا میں پیدا ہوا،تو میرے ماتا پِتا نے میرا نام ”شانتا رام” رکھاتھا اور جن کا ہاتھ پکڑ کر میں نے اِس فلمی دنیا میں پہلا قدم رکھا تھا،اُن میرے روحانی باپ بابو راؤ پنیڈھارکر نے میرا نیا نام رکھا تھا۔’وی۔شانتا رام‘میرے اسی نام کو مقبول بنانے میں انہوں نے مجھے ترغیب دی۔اُس کا احسان مندی سے ذکر کیے بغیر مجھے سے رہا نہیں جاتا۔مہاراشٹر فلم کمپنی میں ہر موقع پر میں خود ہی بڑھتا جاؤں،اس سبب انہوں نے ذمہ داری کے ایک سے زیادہ کام مجھے سونپے۔میرے بارے میں سب کی رائے اچھی بنی رہے،خصوصاً بابو راؤ پینٹر کی رائے اچھی بنے۔اِس کا وہ مسلسل دھیان رکھتے اور ویسی کوشش بھی کرتے۔بابو راؤ پنیڈھارکر خود اتنے نیک گنی فن کار تھے۔لیکن انہوں نے اپنا نام ہو،شہرت بڑھے،عظمت بڑھتی رہے،اس نگاہ سے کبھی کام نہیں کیا۔بلکہ وہ ہمیشہ خود تھوڑے پیچھے رہنا پسند کرتے،لیکن مجھے آگے لانے کی ہی کوشش کرتے تھے۔
سُرریکھا ہرن،کی بمبئی کے ’میجسٹک ‘سنیما میں نمائش ہو رہی تھی۔شائقین کی پسند پر وہ بہت کھرا اُتری ہے،ایسی خبریں ہمیں کولہاپور میں ملیں۔کچھ ہی دنوں بعد بابو راؤ پینٹر بمبئی سے واپس آگئے۔فلم کی کامیابی کی کہانی اُن کی زبانی سننے کو ہم بہت پُرجوش تھے۔اپنی ہمیشہ کے اسٹائل میں رُک رُک کر کہنے لگے،”اُس فلم کے قنات کے ٹکڑوں پر بنے جو پوسٹرزتھیٹر پر لگائے گئے تھے،لوگوں کو بہت ہی پسند آئے۔جے جے سکول آف آرٹس کے اُن دنوں کے پرنسپل می۔سولومن نے تو انہیں دیکھ کر بہت بہت تعریف کی۔فلم کرداروں کے مبصرین نے بھی تعریف کی تھی۔کرشن اور گھٹوتلیج کے کردار بھی لوگوں کو بہت پسند آئے،ایسا بھی اخباروں میں چھپا تھا۔”
ہم سب کی مثالیت پسندی نے کامیابی کی ایک منزل پوری کر لی تھی۔ناسِک کے دادا صاحب فالکے کی ہندوستان فلم کمپنی کے ساتھ ہی بمبئی اور کلکتہ میں بھی کئی فلم ادارے قائم ہو چکے تھے۔بمبئی کی کوہِ نور اور کلکتہ کی مادن کمپنی تو کافی مشہور ہو چکی تھیں۔سُرریکھا ہرن،کے بے مثال شہرت کی وجہ مہاراشٹر فلم کمپنی کا بھی اچھا دبدبا پھیل گیا تھا۔
سُرریکھا ہرن،کے بعد بابو راؤ پینٹر نے پنڈھ پور کے وِٹّھل کے بھگت داماجی کے جیون پر ایک فلم کا نرمان کیا۔اِس میں میرا کوئی خاص اہمیت کا کردار نہیں تھا۔اِسی لیے الگ الگ بھیس بدل کر کافی سارے چھوٹے موٹے کردار اپنے من کے مطابق کرنے کا موقع مجھے ملا۔اِس میں میں نے ایک پٹھان کا چھوٹا سا کردار کیا تھا۔اُس وقت میرا قد پٹھان کے کردار میں جچ جائے ایسا بڑا لمبا نہیں تھا۔یہ کمی محسوس نہ ہو،اِس لیے میں نے ڈیل ڈول والے آدمی کی طرح چلنے کی کوشش کی،مگر بعد میں،میں نے پردے پر وہ منظر دیکھا،تب میرا وہ چلنا اتنا بکواس لگ رہا تھا کہ مجھے بڑی شرم آگئی۔میں نے اپنے آپ کو بہت کوسا۔بعد میں جب جب وہ سین کی باری آئی،تب تب میں اپنی آنکھیں میچ لیتا تھا۔میری اِس اداکاری سے ایک اداکار کو “کیسے نہیں چلنا چاہیئے۔”یہ سبق ملا۔میرے اِس بھلے برے تجربوں سے میرے اندر کا فن کار لگا تار بنتا جا رہا تھا،سُدھرتا جا رہا تھا۔اِس کے بعد بابو راؤ پینٹر نے ’سنگھ گڈھ‘نامی ایک تاریخی فلم بنانے کا فیصلہ کیا۔ہر شام کو کہانی کی بحثوں کا کافی رنگ چڑھنے لگا۔اسٹوڈیو کے باہر کھلے میدان میں تلوار چلانے کی تعلیم دینے والے کھیل شروع ہوگئے۔گھوڑے پر سواری کسنے کی مشق بھی شروع ہو گئی۔اِس کی صحیح تعلیم منظم ڈھنگ سے دی جانے لگی۔
ایک دن ہم سب لوگ تلوار بازی کی تعلیم حاصل کرنے میں مگن تھے کہ اچانک ہم نے شور سُنا،”آگ ! آگ !”ہم لوگوں نے اُس طرف دیکھا۔فلم کے ڈبے جہاں رکھے تھے،اُس ایڈیٹنگ سے آگ کی لپٹیں دُھو دُھو کرتی آسمان کی طرف لپک رہی تھیں۔۔۔۔۔