حماد احسن کا فون آیا تھا۔ اماں جی اور اباجی نے شاہ نواز کو بلایا تھا۔ تقریباً چار ماہ بیت گئے تھے، مدیحہ ملنے تک نہیں گئی تھی پھر حماد اور کشف کی شادی بھی طے کرنی تھی۔ وہ ایک بار سلمیٰ سے آرم سے بات کرنا چاہتے تھے شاید وہ مان جائیں اور بیٹی کی خوشیوں میں شریک ہو جائیں۔ آج چونکہ اتوار تھا، سب ہی گھر پر تھے، مدیحہ بھی صبح سے کچن میں مصروف تھی کہ احزاز کی بھی چھٹی تھی اور نہیں چاہتی تھی کہ کھانے پر پھر وہ بے چارے مانی کو ڈانٹے کیونکہ وہ یہ بات اسے کبھی نہیں کہہ سکتا کہ کھانا تم خود بنایا کرو، بس سارا غصہ اس مانی غریب پر نکل جاتا تھا۔ دوپہر کا کھانا اتوار کو کچھ اسپیشل ہوتاتھا کیونکہ اس دن مما بھی گھر پر ہوتی تھیں۔ مدیحہ نے اب ان سے گھبرانا چھوڑ دیا تھا اور ان کی باتوں کی عادی ہو گئی تھی، بابا کی محبت اور کشف کے ساتھ نے اسے بہت اعتماد دیا تھا۔ کھانا سب کو پسند آیا تھا کیونکہ اس نے تقریباً گھر کے ہر فرد کی پسند کا خیال رکھا تھا۔ شکر تھا کہ مما نے بھی کوئی بدمزگی نہیں کی۔ کھانے کے بعد سب سٹنگ روم میں بیٹھے تھے، کشف اور وہ اپنی باتوں میں لگ گئیں، احزاز ٹی وی آن کر کے بیٹھ گیا اور شاہ نواز کو آج اپنی بیگم کا موڈ کچھ بہتر لگا تھا سو بات چھیڑ دی۔
”سلمیٰ! اباجی کا فون آیا تھا، حماد اور کشف کی شادی کا پوچھ رہے تھے، تم بتاﺅ کہ کب کا ٹائم دوں؟“ اب تقریباً سبھی ان کی طرف متوجہ تھے۔
”مجھے نہیں پتا شاہ نواز! مجھے اس معاملے میں مت گھسیٹو۔“
”کشف تمہاری بھی بیٹی ہے سلمیٰ!“ بابا کا لہجہ اب بھی نرم تھا۔
”اگر یہ سمجھتے ہو تو پھر یہ شادی میں کبھی نہیں ہونے دوں گی۔“
”سلمیٰ! ہمارے بچوں کی خوشی وابستہ ہے اس کام میں۔ کشف ساری عمر اپنے گھر میں خوش رہے گی تو ہم بھی پُرسکون رہیں گے۔“
”جہاں تم کشف کو بھیجنا چاہتے ہو ناں شاہ نواز! ہاں وہ کچھ سالوں بعد ہی دم گھٹ کر مر جائے گی۔“
”مما! وہاں بھی ہم جیسے انسان رہتے ہیں۔“ احزاز نے کہا۔
”میرے نزدیک وہ انسان ہی نہیں ہیں۔ میں نے بھی زندگی کے کچھ دن گزارے ہیں۔ وہا ںاس گندے ماحول میں….“
”مما! وقت بہت بدل گیا ہے، وہاں کا ماحول بھی اب چینج ہو گیا ہے، لوگوں کو شعور آ گیا ہے۔ اب زیادہ فرق نہیں رہا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ آپ کو اب اچھا لگے گا۔“
”اگر اتنا چینج آ گیا ہے تو تم اب تک اس لڑکی کو کیوں اپنی زندگی میں شامل نہیں کر پائے ہو؟“ ان کی تلخ بات پر اس کی نظر فوراً مدیحہ پر گئی تھی جو اسے ہی دیکھ رہی تھی۔
”مما! میرے اور مدیحہ کے بیچ صرف ذہنی ہم آہنگی کی کمی ہے ورنہ مدیحہ کی یہاں موجودگی اس بات کا ثبوت ہے کہ….“ وہ جانے کیوں بات مکمل نہ کر پایا۔ مدیحہ کی منتظر نظریں مایوس لوٹ گئیں۔
”میں تمہیں بتاتی ہوں احزاز! تم لوگوں کی حقیقت ہے کیا…. بے شک میں نے تمہیں جنم دیا ہے مگر تم دونوں بہن بھائی اپنے باپ پر گئے ہو۔ اس لیے کبھی اس گھٹیا ماحول اور چھوٹی سوچ سے باہر نکل ہی نہیں سکتے۔ شہرمیں رہے ہو تو اس ماحول کے اثر سے پہننے اوڑھنے کا شعور اٹھنے بیٹھنے کی تمیز آ گئی ہے لیکن دراصل تم لوگ بھی اپنے خاندان جیسے ہو اور بس….!“
”بس سلمیٰ! بہت ہو گئی تمام عمرمیں نے تمہاری ہر بات برداشت کی، تم نے مجھ سے میرا سب کچھ چھین لیا، میں سہہ گیا مگر تم جیسی خودغرض عورت پھر بھی میری نہ بن سکی۔ یہاں تک کہ تم تو اچھی ماں بھی نہ بن سکیں۔ تم ہمیشہ سے اکیلی ہو اور تمہیں اکیلے رہنے کا شوق ہے نا تو ٹھیک ہے آج میں تم سے ہر بندھن توڑ کر جا رہا ہوں، اپنے بچوں کو لے کر….“ بابا کا لہجہ اتنا سخت تھا کہ کوئی بھی کچھ نہ بول سکا مگر احزاز نے ہمت کی۔
”بابا! مما کو تو عادت ہے نا! آپ پلیز کیوں پریشان ہوتے ہیں۔ پلیز غصہ مت کریں۔“
”ہر بار میں نے اس کی غلطی یہ سوچ کر معاف کر دی کہ اسے عادت ہے مگر اب میں تھک گیا ہوں۔ کشف! مدیحہ! بیٹا تیاری کرو۔“
”شاہ نواز! یہ دھمکیاں اور ڈرامے کہیں اور کرنا، مجھ پر ان کا اثر نہیں ہونے والا۔ یہ مت سمجھنا کہ میں تمہارے سامنے گڑگڑاﺅں گی بلکہ باقی زندگی سکون سے گزاروں گی، مجھے پروا نہیں کہ تم جاتے ہویا یہیں رہتے ہو۔“
”مماپلیز خاموش ہو جائیں۔“ احزاز چیخ پڑا۔ ”آخر آپ کیوں سارا گھر برباد کرنا چاہتی ہیں اپنی ضد سے….؟“
”احزاز! تم اس معاملے میں مت بولو، یہ ہمارا ذاتی معاملہ ہے۔“
”اور مما ہم آپ کے ذاتی معاملات کا حصہ نہیں ہیں….؟ ہم آپ کے…. آپ نے کبھی زندگی میں ہمارے بارے میں سوچا ہے؟“
”تمہاراباپ کافی ہے نا! تمہارے لیے سوچنے کے لیے پھر تم دونوں نے ثابت بھی تو یہ ہی کیا ہے کہ تم صرف اس کی اولاد ہو۔“ وہ بے دردی سے کہہ کر چلی گئیں۔ احزاز کو اپنے دماغ کی رگیں پھٹتی ہوئی محسوس ہوئی تھیں۔ وہ اپنے کمرے میں بند ہو گیا۔ ڈیڈ اسٹڈی روم میں چلے گئے۔ وہ اور کشف اکیلی رہ گئیں۔ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کیا بات کریں۔
”پتا نہیں مما ایسی کیوں ہیں؟ کیوں مما خود کو بدل نہیں سکیں۔ عورت کا نام تو مدھو قربانی دینا ہے پھر ہماری ماں میں عورت کے احساسات کیوں نہیں ہیں؟ وہ تمام عمر صرف خود کے لیے جیتی رہیں، شادی سے پہلے خودسر بیٹی…. پھر خود سر بیوی اور جب ماں بنیں تب بھی ان میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ میں نے سنا ہے مدھو! عورت جب ماںبن جاتی ہے تو اس کی دنیا ہی بدل جاتی ہے اور وہ ایک نئے احساس میں ڈوب جاتی ہے۔ مگر میں نے کبھی اپنی ماںمیں وہ احساس نہیں پایامدھو! ہم اتنے بڑے ہو گئے ہیں مگر میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ مما نے ہمیں کبھی اپنی گود میں لیا ہو، کبھی پیار سے اپنے ساتھ لگایا ہو یا سلایا ہو۔ ہمارے یہ کام ہمارے ڈیڈ نے کیے۔ انہوں نے مما کو سمجھایا مگر جب ان کی طرف سے مایوس ہو گئے تو انہوں نے اپنی ساری محبت کا رُخ ہماری طرف کر دیا۔ انہوں نے باپ کی شفقت کے ساتھ ساتھ ہمیں ماں کی کمی بھی محسوس نہیں ہونے دی۔ ہر وہ کام جو ماں کی ذمہ داری ہوا کرتا ہے، وہ خود انہوں نے ہمارے لیے کیا۔ پھر بھی مما کے دل میں ڈیڈ کے لیے ذرا بھی جگہ نہیں ہے۔ مدھو! تم اپنی مثال لو۔ تم نے بھیا کی خاطر خود کو کتنا بدل لیا، جیسا وہ چاہتے تھے، وہ ہی بن گئیں مگر دیرے دھیرے بھیا کو اپنا احساس بھی دلایا۔ آج بے شک وہ لفظوں میں یہ بات تسلیم نہیں کر رہے مگر ان کو تمہاری عادت پڑ گئی ہے۔ تم کھانا نہ پکاﺅ تو وہ تمہارے ہاتھ کا ذائقہ محسوس کرتے ہیں۔ تم گھر پر نہ ہو تو تمہاری کمی انہیں محسوس ہوتی ہے۔ کیا کبھی زندگی کے کسی موڑ پر ڈیڈ کو یہ محسوس نہیں ہوئی ہو گی؟ مگر ممانے کبھی ان کے احساسات و جذبات کی قدر نہیں کی….“ کشف رو پڑی تھی۔ مدیحہ نے اسے گلے لگا لیا۔
”پلیز کشف! کیوں خود کو ہلکان کررہی ہو۔“
”مدھو! ہمارا بھی دل چاہتا تھا کہ ہمارے مما ڈیڈ پُرسکون زندگی گزاریں، پیار محبت سے رہیں۔ مما نے تو کبھی اس چیزکا بھی احساس نہیں کیا کہ ان کے ان رویوں کا ہم پر کیا اثر پڑے گا۔ ڈیڈ صرف ہمارے لیے ہر بات سہہ لیتے، کوشش کرتے کہ جھگڑا نہ ہو اور ہمارے ذہنوں پر اثرنہ پڑے، مگر میں نے مما کو یہ قربانی دیتے کبھی نہیں دیکھا۔“
”کشف! دعا کیا کرو، اللہ کے حضور! ہم دعا کر سکتے ہیں نا! وہ دل سے مانگی دعا کبھی رَد نہیں کرتا۔“ اس نے کشف کے آنسو صاف کیے۔ ”اللہ جو بہتر سمجھتا ہے وہ ہی کرتا ہے اور اس پر بھروسا رکھو، ان شاءاللہ بہتر ہو گا۔“
”ہاں شاید یہ اللہ سے دوری کا ہی نتیجہ ہے۔ ہم نے خود کو دنیا میں اس قدر مصروف کر لیا کہ اس سے دور ہو گئے جو ہمارا رب ہے۔“ کشف نے چہرہ صاف کیا اور دل سے ارادہ کیا کہ آج وہ اللہ سے معافی مانگے گی اور اپنے ماں باپ کے حق میں دعا کرے گی۔
ض……..ض……..ض
عشاءکی نماز کے بعد وہ رب کے حضور بابا اور آنٹی کے لیے گڑگڑا کر دعا مانگ رہی تھی۔ وہ جب کمرے میں داخل ہوا تو مدیحہ کو احساس بھی نہ ہوا۔ وہ بہت غور سے اس کا بھیگا چہرہ دیکھ رہا تھا۔ اس لڑکی نے کتنا بدل دیا تھا اسے…. آج وہ اپنے دل میں اس چیز کا اعتراف کر رہا تھا کہ مدیحہ نے نا صرف خود کو بدل لیا بلکہ اسے بھی بدل ڈالا تھا۔ ان چند ماہ میں احساس ہوا تھا اسے کہ زندگی کیا چیز ہے اور ایک عورت کا وجود زندگی میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ ممانے تو کبھی وہ احساس نہ دیا جو اس لڑکی نے صرف چند ماہ میں اس گھر کے مکینوں کو دیا تھا۔ وہ اس دنیاوی زندگی میں سرتاپیر ڈوبا ہوا تھا کہ اس رب کا نام تک لینا اسے یاد نہ رہتا تھا۔ صرف کام…. کام اور دنیا بھر کے کام….
زندگی کا اصل مقصد کیا ہوتا ہے، اسے کچھ پتا نہ تھا۔ ہاں ان میں جو مروت و لحاظ تھا وہ بھی صرف اپنے ڈیڈ کے باعث وگرنہ ان کی ماں نے تو ان کی تربیت پر کوئی توجہ نہ دی تھی اور وہ بھی جیسے جیسے بڑا ہوتا گیا اسی زندگی میں ڈھلتا گیا۔ آسائش سے بھرپور زندگی….! اسے بھی شروع سے گاﺅں اور وہاں کے رہنے والے پسند نہیں تھے لیکن اس نے مما کی طرح کبھی اظہار نہیں کیا مگر جب پہلی بار وہ ڈیڈ کے ساتھ گاﺅں گیا تو اس کے ذہن پر پڑے پردے ہٹ گئے…. پھر اس کی مرضی کے خلاف سہی، مجبوری کے بندھن میں بندھ کر وہ اس کی زندگی میں آئی۔ اس نے نفرت بھی بہت کی اس سے، دھتکارا بھی مگر اس لڑکی نے کبھی گلہ نہیں کیا اور اپنی عملی زندگی سے اس نے احزاز کی زندگی میں تبدیلی پیدا کی وہ دھیرے دھیرے اس کی تمام عادتوں کو نوٹ کرتا اور اچھی عادتوں پرخود بھی عمل کرنے کی کوشش کرتا۔ صرف اس کی ذات ہی نہیں، اس گھر کے در و دیوار یہاں کے مکینوں تک پر اثر پڑا تھا اس ذات سے۔ وہ ہر کام پر توجہ دیتی نظر آتی۔ ہر فرد کی ضرورت کا دھیان رکھتی۔ یہ بھی تو عورت تھی….! میں نے کبھی اس سے کچھ نہیں کہا مگر اس نے میرے کہے بنا میرے سارے کام کیے، میرے دل کی ہر بات سنی اور میرا جو آئیڈیل تھا، اس نے خود کو اس روپ میں ڈھال لیا مگر اپنی نسوانیت کا وقار برقرار رکھ کے، اپنی روایات اور اسلامی اقدار کا پاس رکھتے ہوئے۔ مدیحہ اس کے ساتھ ہر پارٹی میں جاتی تھی جہاں وہ لے جاتا تھا اور اس کا لباس بھی ویسا ہوا تھا جو افراد کی پسند تھی مگر اخلاق، وقار اور عورت کا مان کبھی اس نے اپنے ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔ اس کے تمام دوستوں کو اس کی بیوی آئیڈیل بیوی لگتی تھی۔ ہر لحاظ سے مکمل…. شاید وہ ہی ناسمجھ تھا…. مگر آج اپنی مما کا اتنا سخت روپ دیکھ کر اسے یہ احساس شدت سے ہوا تھا کہ ان کی زندگی میں عورت کی جو کمی ہمیشہ سے رہی ہے، مدیحہ کے آنے سے دور ہوئی ہے۔ ان کے گھر کو عورت کی جو توجہ درکار تھی، وہ توجہ مدیحہ کے روپ میں مل گئی ہے۔ وہ اسے کیا سمجھتا رہا، اجڈ، گنوار، جال، اَن پڑھ اور نالائق…. مگر اس نے کبھی ان باتوں پر گلہ شکوہ نہیں کیا اور اپنی ذمہ داریاں نبھاتی رہی۔ کاش مما کے اندر بھی ایسی ہی عورت ہوتی۔ انہیں بھی اپنے گھر، شوہر اور بچوں کی فکر ہوتی۔ وہ ہماری چھوٹی چھوٹی خواہشات اور ضروریات اپنے ہاتھوں سے پوری کرتیں تو ان کا گھر آئیڈیل گھر ہوتا۔ جانے کب تک وہ اپنی سوچو ںمیں الجھتا رہتا کہ مدیحہ کی آواز نے اسے چونکا دیا۔
”آپ کے لیے کافی بنا دوں؟“ روز اس وقت خود اسے دودھ پینے کی عادت ڈال کر اب وہ کافی کا پوچھ رہی تھی۔ احزاز نے الجھی نظروں سے دیکھا۔ ”میں سمجھ سکتی ہوں کہ آج آپ بہت ٹینس ہیں اور جب آپ پریشان ہوتے ہیں تو کافی ہی پیتے ہیں۔“
”بنا دو!“ تشکر بھری نظروں سے دیکھا۔ مدیحہ اسے ہی دیکھ رہی تھی۔ پل بھر کو نظریں ملی تھیں پھر وہ رُخ موڑ گئی۔ آج اس نے اپنے اور کشف کے لیے بھی کافی بنائی تھی ± احزاز کا کپ اسے دے کر وہ دو کپ لے کر باہر آ گئی اور کشف کے روم میں داخل ہوئی۔
”ڈئیر کشف! یہ لو، کافی حاضر ہے۔“
”مگر میں تونہیں پیوں گی، میرا موڈ نہیں ہے۔“
”کیا….! تمہاری خاطر میں اپنے شوہر کو کافی وہیں دے کر تمہارے پاس آئی اور تم منع کر رہی ہو؟“
”تو مائی ڈئیر بھابی! تمہیں کس نے کہا تھا؟ تم اپنے شوہر نامدار کے ساتھ بیٹھ کرکافی پی لیتیں۔“
”اچھا…. اچھا…. نخرے مت کرو اور تم اچھی طرح جانتی تو ہو کہ میرے شوہر مجھے اپنے روم میں دیکھ کر زیادہ خوش نہیں ہوتے پھر بھلا میں ان کوکیوں تنگ کروں؟“ وہ مسکراتے ہوئے کپ اسے تھماکر بولی۔
”مدھو! تم خوش ہو؟ بھیا تمہارے ساتھ کتنی زیادتی کر جاتے ہیں مگر میں نے آج تک کبھی تمہارے چہرے پر اداسی نہیں دیکھی۔ تمہیںبھیا کی باتیں دکھ نہیں دیتیں؟“
”کشف! میرا احزاز کے علاوہ اب دنیا میں کوئی رشتہ باقی ہے ہی نہیں….“ احزاز اندر آتے آتے رک گیا اور کان اس کی آواز پر لگا دئیے۔ ”بابا کے بعد جب میں اس گھر میں آئی تھی تو مجھے اتنا پتا تھا کہ بے شک تم سب میرے اپنے ہو مگر احزاز اور میرا تعلق وہ ہے جو شاید دنیا کا مضبوط ترین تعلق ہے۔ ایک عورت کے شادی کے بعد تمام رشتے کمزور پڑ جاتے ہیں۔ ماں باپ، بہن بھائی اور دوسرے تمام رشتے صرف شوہر کا رشتہ استوار کرنے کے لیے عورت تن من صرف اس رشتے کو مضبوط بنانے میں لگا دیتی ہے پھر کہیں جا کر اسے خوشیاں اور من چاہی بیوی کا اعزازملتاہے لیکن مجھے پتا ہے کہ میں کچھ کر لوں، اپنے اور احزاز کے رشتے کو مضبوط نہیں کر سکتی۔“
”مدھو….!“
”ہاں کشف! ان مہینوں میں میں نے پوری کوشش کی کہ احزاز کی نظروں میں اپنی کوئی حیثیت بنا سکوں، میں اس کے مزاج کے ہر موسم کو جان گئی، وہ کب کیا چاہتا ہے، کیا کہنا چاہتا ہے، اسے کس چیز کی ضرورت ہے، کیا پسند ہے اور کیا ناپسند ہے، میں نے خود کو مکمل اس کی پسند میں ڈھال لیا لیکن….“ اس نے گہری سانس خارج کی۔ احزاز دم بخود رہ گیا۔
”مدیحہ! تمہاری خواہش تھی نا کہ انجان بندے سے تمہاری شادی ہو جسے دھیرے دھیرے تم سمجھو….“
”ہاں! کیونکہ میں شادی کے بعد کی محبت پر یقین کرتی ہوں اور کشف میں نے اپنا کہا پورا تو کیا ہے۔ شادی کے بعد پل پل تمہارے بھائی کو جانا ہے، سمجھا ہے مگر میری خواہش اب بھی ادھوری ہے۔ کوئی مجھے بھی تو سمجھے کہ میں کیا چاہتی ہوں۔ میری خواہش میرے خواب…. شاید سب بے معنی…. میں نے تو اب یہ باتیں سوچنا ہی چھوڑ دی ہیں کشف! ہاں مگر جس انسان کی خاطر ہم ہر رشتہ چھوڑ دیتے ہیں، جس کے ساتھ ساری عمر گزارتے ہیں، اس کی باتیں ہمیں دکھ دیں تو….“اس کا لہجہ بھیگ گیا تھا۔
”میں جانتی ہوں، تم بھیا کی باتوں پر دکھی ہوتی ہو، پر اظہار نہیں کرتیں، ہے نا!“
”جب میں یہ سوچتی ہوں نا کشف کہ اتنی لمبی زندگی اگر اسی طرح گزرے گی تو دکھ ہوتا ہے۔ بابا اور آنٹی کی طرف دیکھتی ہوں تو دل سے دعا نکلتی ہے کہ اللہ ان کے درمیان کے فاصلے مٹا دے اور اپنی طرف دیکھتی ہوں تو دعا کرتی ہوں کہ یہ کہانی پھر نہ دہرائی جائے، ہماری سوچوں کے یہ اختلاف عمر بھرنہ رہیں۔ مجھے ڈر لگتا ہے کشف! تم ہو یا بابا، کوئی کب تک میرا ساتھ دے گا؟ زندگی تو بہرحال مجھے اور احزاز کو ہی گزارنی ہے نا! میں پیچھے مڑ کر دیکھوں تو میرے پاس تو کچھ بچا ہی نہیں ہے۔ میرا تو کوئی بھی نہیں ہے، بس اب یہ ہی ایک بندھن ہے اور جو سب سے زیادہ اپناہے شاید اس چیز کا احساس بھی نہیں کہ مجبوراً اور زبردستی سہی، اس نے میرے مرحوم باپ کی خواہش پوری کی تھی اور میرے بابا مجھے یہ زندگی نہیں دینا چاہتے تھے، انہوں نے تو میری خوشیوں کے لیے بھیک مانگی ہو گی۔“
”مدھو!“ کشف نے اس کا چہرہ تھام کر اپنی طرف کیا، اس پورے عرصے میں پہلی بار اس کی پلکیں بھیگی تھیں۔ ”مدھو پلیز! رونا نہیں….“ اس سے پہلے کہ وہ دونوں مزید کوئی بات کرتیں، ہلکی سی دستک کے بعد احزاز اندر آیا تھا۔
”بھیا…. آپ….؟“ کشف کو سمجھ نہیں آیا کہ اس لمحے کیا کہے۔ مدیحہ نے جلدی سے چہرہ صاف کیا۔ ”آئیں ا بھیا! خیریت تھی یا اپنی بیگم کی کمی محسوس کر رہے تھے؟‘ کشف اس وقت ماحول کا بوجھل پن ختم کرنا چاہتی تھی۔
”دراصل کافی پینے کی عادت نہیں رہی تھی نا، آج پی تو نیند اُڑ گئی۔“ وہ کشف کے پاس ہی آ بیٹھا تھا۔
”مدھو! تمہیں پتا ہے، تمہاری شادی کے بعد بھیا پہلی بار آج میرے روم میں آئے ہیں۔ لگتا ہے مجھ سے بھی خفا ہیں، ورنہ پہلے تقریباً روز ہی ہم دونوں بہن بھائی گپ شپ کرتے تھے۔“
”کشف! تم کیا چاہتی ہو کہ میں اٹھ کر چلا جاﺅں؟“ وہ نروٹھے انداز میں بولا۔ مدیحہ نے کن انکھیوں سے اسے دیکھا تھا۔ گندمی پُرکشش رنگت پر کھڑے نقوش، براﺅن گہری آنکھیں، بلیو ٹی شرٹ اور بلیک ٹراﺅزر میں وہ روٹھا روٹھا کتنا خوبصورت لگ رہا تھا۔ وہ کسی بھی لڑکی کا آئیڈیل بن سکتا تھا کہ وہ تھا ہی اتنا اچھا اور وجیہہ…. اس نے احزاز شاہ کے ہونٹوں پر مسکراہٹ بھی بہت کم دیکھی تھی۔ اکثر اس کے چہرے کے نقش بھی اکھڑے رہتے تھے۔
”ارے بھیا! میںتو آپ کو تنگ کر رہی تھی۔“ کشف کی آواز نے اسے حواسوں میں لوٹا دیا تھا۔ تبھی دروازے پر دستک ہوئی اور مانی آیا۔
”بھابی جی! بڑے صاحب بلا رہے ہیں آپ کو۔“
”مجھے بابا….؟ کہاں ہیں وہ….؟“
”اسٹڈی روم میں….“ مانی بتا کر چلا گیا۔ پتا نہیں کشف کو ہی محسوس ہوا تھا مگر احزاز کے چہرے پر سایہ سا لہرایاتھا۔
”اوکے کشف! گڈ نائٹ!“ مدیحہ کہہ کر اٹھ کھڑی ہوئی۔
”ارے ڈیڈ کی بات سن کر آ جاﺅ نا!“
”نہیں یار! اب آرام کروں گی۔“
”چلو ٹھیک ہے، تم بھی تو سارا دن کام کرتی رہتی ہو، تھکن ہوجاتی ہو گی۔“
”اوکے….!“ وہ مسکراتی ہوئی باہر نکل آئی اور اسٹڈی روم میںپہنچی تو بابا اس کے ہی منتظر بیٹھے تھے شاید….
”بابا! آپ نے بلایا تھا مجھے….؟“
”جی بیٹا! مجھے تم سے ضروری بات کرنی ہے۔“
”مجھ سے…. کہیں….!“ وہ ان کے پاس ہی بیٹھ گئی۔
”مدیحہ! میں نے فیصلہ کر لیا ہے حالانکہ یہ فیصلہ مجھے بہت پہلے کر لینا چاہیے تھا مگر دیر سے سہی، اب میں نے حتمی فیصلہ کر لیاہے۔ میں گاﺅں جارہا ہوں ہمیشہ کے لیے…. کشف تو ظاہر ہے کہ میرے ساتھ جائے گی مگر میں تم سے کچھ پوچھنا چاہتا ہوں۔“
”بابا! آپ آنٹی کو اکیلا چھوڑ کر کیسے جا سکتے ہیں؟ انہیں آپ کی ضرورت ہے۔“
”مدھو! اسے تو میری ضرورت کبھی بھی نہیں رہی بچے! کاش ایسا ہی ہوتا۔ خیر، میں تم سے پوچھنا چاہتا تھا کہ تم ہمارے ساتھ چلو گی؟ بچے! میں تمہارا بھی مجرم ہوں۔ اپنے مرحوم بھائی اور اپنی خواہش تو میں نے پوری کر لی لیکن تمہاری زندگی مشکل میں ڈال دی۔ احزازجانے کب تمہاری ذات کو سمجھے گا، جانے کب اسے احساس ہو۔ میں ڈرتا ہوں کہ کہیں تم بھی میری طرح اکیلی ہی زندگی کا یہ سفر نہ طے کرتی رہو، ہم سفر کے انتظار میں…. میں جانتا ہوں کہ تم نے پوری کوشش کی ہے اور تم کسی حد تک کامیاب بھی رہی ہو…. لیکن احزاز کا مزاج اپنی ماں جیسا ہے، مدیحہ! اس کا تم اندازہ لگا چکی ہو گی اور میں اس کی طرف سے خوش فہمی کا شکار ہونا نہیں چاہتا۔ تم سوچ لو، رات ہے تمہارے پاس…. میں اور کشف کل چلے جائیں گے۔تم ہمارے ساتھ جانا چاہو گی یا احزازکو ایک موقع اور دو گی؟“ بابا نے اسے دیکھا جو خود جیسے ہاری ہوئی لگ رہی تھی۔ اس کا دل تو پہلے ہی اداس ہو رہا تھا۔ وہ بابا کی گود میں سر رکھ کے بُری طرح رو دی۔
”شاید بابا میری کوششوں میں ہی کمی رہ گئی ہے۔ میں آپ کے ساتھ جاﺅں گی۔ آپ کی ذات سے میرا حوصلہ بڑھتا تھا، آپ نہیں ہوں گے تو…. اور رہی میرے نصیب کی بات تو احزاز کو میری ضرورت ہوئی تو مجھے لینے ضرور آئیں گے۔ بابا میں انہیں موقع نہیں، خود کی کوششوں کو آزمانا چاہتی ہوں۔ میں دیکھنا چاہتی ہوں کہ میں خلوص اور نیک نیتی سے کیے گئے اس تمام عرصے کی کوشش میں کہاں تک کامیاب ہوئی ہوں اور کامیاب ہوئی بھی ہوں یا نہیں….؟“
”اللہ تمہیں کامیاب کرے بیٹا!“ انہوں نے اس کا سر تھپکا۔ وہ کافی دیر روتی رہی۔ بابا سے وہ دل کی ہر بات شیئر کر لیتی تھی۔ انہیں بتاتی رہی۔ وقت گزرنے کا احساس تک نہ ہوا۔
”مدھو! بہت رات ہو گئی ہے بچے! اب جا کے آرام کرو۔“
”جی بابا!“ اس نے چہرہ صاف کیا اور ”گڈنائٹ“ کہتی اپنے کمرے میں آ گئی۔ اس کی آہٹ پر وہ یوں اٹھ بیٹھا تھا جیسے اس کا ہی منتظر ہو۔ مدیحہ نے پہلے واش روم کا رُخ کیا پھر باہر آ کر تکیہ اٹھاتے بیڈ پر گئی تو وہ خود کو روک نہ پایا اور پوچھ بیٹھا۔
”بابا سے کیا بات ہوئی ہے؟“ مدیحہ نے اسے بہت حیرت سے دیکھا۔
”بابا صبح ہمیشہ کے لیے گاﺅں جا رہے ہیں….“
”اور….“ اس نے پوچھا۔
”میں اور کشف بھی ان کے ساتھ جائیں گے۔“ یک دم ہی احزاز کو لگا اس کے اندر کچھ زور سے ٹوٹا ہو۔
”تم نے ڈیڈ کوسمجھایا نہیں….؟“ جواباً اس نے صرف سر ہاں میں ہلایا تھا۔ اس سے پہلے احزاز نے کبھی اتنی بات نہیں کی تھی اس سے….“ مگر وہ فیصلہ کر چکے ہیں۔“ اس نے تکیہ اٹھایااور صوفے پر جا کے لیٹ گئی۔
”اور تم….؟“ وہ آواز شاید ایک خواب تھا۔ وہ بھلا کیوں مجھ سے پوچھے گا۔ وہ آنکھوں پر ہاتھ دھر کے سونے کی کوشش کرنے لگی اور احزاز سوچ میں پڑ گیا۔ آج اس نے مدیحہ کی ہر بات سنی تھی اور واقعی اسے احساس ہوا تھا کہ وہ اس کی ذات سے وابستہ ہو کر ہی اس گھر میں آئی تھی اور اس نے کبھی سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی تھی۔ صبح کیا وہ چلی جائے گی۔ بابا اور کشف کے ساتھ….؟ کیا مما کو روکنا نہیں چاہیے بابا کو؟ انہوں نے ایک عمر ساتھ گزاری ہے…. کاش مما روک لیں ڈیڈ کو…. اور وہ….! کیا وہ مدیحہ کو روک پائے گا؟ اس کا ذہن بُری طرح الجھ رہا تھا۔ مگر اس کے پاس ان الجھنوں کا کوئی حل نہیں تھا۔
اگلے روز اس نے بابا کو جا لیا۔
”بابا پلیز! آپ میرے بارے میں سوچیں، مجھے اکیلا چھوڑ کر مت جائیں نا!“
”میں نے تو کوشش کی تھی بیٹا کہ تم اکیلے نہ رہو، مگر تم نے خود وہ تمام لمحے گنوا دئیے اور اب میں مدیحہ کو یہاں چھوڑ کر پھر سے وہ کہانی نہیں دہرانا چاہتا جو میرے ساتھ بیت چکی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ میری ذمہ ادری پوری ہوئی۔ تم ماشاءاللہ ایک اچھے بزنس مین بن چکے ہو، سیٹل ہو، البتہ کشف کو رخصت کرنے کی ایک ذمہ داری ابھی مجھ پر باقی ہے اور گاﺅں جا کر پہلا کام یہ ہی کروں گا۔ ٹائم ہو تو آ جانا ورنہ میں جانتا ہوں، تم اپنی بہن کو اچھی دعائیں ضرور دو گے۔ اپنا خیال رکھنا اور ہاں! بے شک تمہاری ماں کو کسی کی ضرورت نہیں ہے مگر تم اپنا فرض ادا کرنا اور ان کا خیال رکھنا۔“
”ڈیڈ پلیز!“
”احزاز! مجھے مجبور مت کرنا بچے! زندگی میں پہلی بار کوئی فیصلہ کر کے مجھے دلی سکون ملا ہے۔“ گویا وہ اٹل تھے۔ احزاز مما کے پاس گیا انہیں سمجھانے مگر….!
”تو کیا ہوا؟ وہ یہاں ہو کر بھی کبھی میرے نہ بن سکے۔ یہ شادی صرف ایک سمجھوتا تھی…. ورنہ شاہ نواز احمد کبھی بھی میرے شوہر نہ ہوتے۔“
”مما….!“ وہ ساکت رہ گیا۔ ”آپ کو ڈیڈ کے جانے کا ذرا بھی افسوس نہیں….؟ آپ نے ایک عمر ان کے ساتھ گزاری ہے۔“
”وہ میری مجبوری تھی مائی سن! پلیز میرا سر مت کھاﺅ۔ شاہ نواز نے بہت دیر سے سہی، صحیح فیصلہ کیا ہے، اسے بہت پہلے چلے جانا چاہیے تھا۔ شاید وہ یہاں ہو کر بھی یہاں کبھی تھا ہی نہیں…. میں نے زبردستی اسے اس کے ماں باپ سے دور رکھا تھا اور وہ صرف اپنے بچوں کی خاطر خاموش رہا۔ آج جب اس کے بچے اپنے پیروں پر کھڑے ہیں تو اس نے بالکل ٹھیک فیصلہ کیا ہے۔“ احزاز کو محسوس ہو رہا تھا کہ یہ عورت جسے وہ ماں کہتا رہا ہے اس کی ماں ہے ہی نہیں۔ اس عورت میں جذبات و احساسات تھے ہی نہیں۔ جس شخص کے ساتھ زندگی گزاری۔ اس کے ہونے نہ ہونے سے انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔
”مجھے بہت افسوس سے یہ کہنا پڑ رہا ہے آج کہ آپ ہماری ماں ہیں اور یہ بات میرے لیے خوشی کا باعث ہرگز نہیں ہے“ پہلی بار اس کے لبوں سے ایسے الفاظ ادا ہوئے تھے کہ جن پر اسے خود بھی دکھ تھا۔ مگر بابا کے جانے سے زیادہ نہیں۔ وہ ہارے ہوئے شخص کی طرح کمرے میں آ گیا جہاں مدیحہ جانے کی تیاری کر رہی تھی۔
”اب اس سے کیا کہوں….؟“ اس نے خاموشی سے اپنے آفس کی تیاری کی اور جب کمرے سے جانے لگا تو مدیحہ کی آوازنے قدم روک دیے۔
”میں جانتی ہوں احزاز! کہ میرے وجود نے آپ کو کبھی خوشی نہیں دی، میں ایک زبردستی کے بندھن میں بندھ کر آپ کی زندگی میں آئی تھی، میں نے ہمیشہ کوشش کی کہ میری ذات سے آپ کو کوئی تکلیف نہ ہو پھر بھی کبھی اگر میں نے آپ کو دکھ دیا ہو تو اس کے لیے مجھے معاف کر دیجیے گا۔“ اس کی آواز بھاری ہو گئی تھی تب ہی وہ خاموش ہوگئی
”اگر یہ ہی الفاظ میں کہوں تو….؟ کیونکہ میری ذات سے تو مدیحہ احزاز شاہ تمہیں ہمیشہ دکھ اور تکلیف ہی ملی ہے۔ اس کے لیے ہو سکے تو مجھے معاف کر دینا۔“ اس نے مڑ کر نہیں دیکھا تھا۔ اپنی بات ختم کر کے فوراً چلا گیا تھا۔
ض……..ض……..ض
حویلی کا ہر فرد انہیں دیکھ کر بہت خوش ہوا تھا۔ دادی اماں اور پھوپو نے اسے گلے لگایا۔
”پتا ہے کتنا مشکل تھا ہمارے لیے تیرے بنا جینا، کتنے دن تو یوں محسوس ہوا کہ تُو آ جائے گا۔“ پھوپو اسے سینے سے لگائے کہہ رہی تھیں۔ ”اور حماد کتنے دن تجھے یاد کر کے روتا رہا، اس نے تو گھر آنا چھوڑ دیا تھا کہ مدھو کے بنا گھر کاٹ کھانے کو دوڑتا ہے۔ ہمیں تو عادت بھی نہیں تھی تیرے بنا رہنے کی کبھی تجھے خود سے الگ کیا نہیں…. اور جب یوں اچانک اپنے سسرال گئی تو لگا ہمارے آنگن کی ساری چڑیا اُڑ گئیں، وہ چہچہاہٹ نہیں رہی تھی مدھو!“ انہوں نے دونوں ہاتھوں کے پیالے میں اس کا چہرہ تھام کر چوما۔ مدیحہ کی مسکراہٹ انہیں اچھی لگ رہی تھی۔ اس کے اندر بہت تبدیلی محسوس کی تھی انہوں نے…. لیکن یہ تبدیلی اس پر جچ رہی تھی۔ پھوپو نے کشف کو بہت پیار کیا۔ اماں جی اور اباجی اپنے بیٹے کو دیکھ کر ہی مسرور ہو گئے تھے۔ حماد شام میں آیا تو گھر میں رونق دیکھ کر نہال ہو گیا۔ مدیحہ اس کے کاندھے سے لگ گئی۔
”بڑی سنگ دل بہن نکلی مدھو! ایسی پیا دیس گئی کہ مڑ کر اپنا بھائی بھی یاد نہ آیا۔ پتا ہے تیرے بغیر رہنے کی عادت کتنی مشکل سے ڈالی ہے ہم نے ….؟“
”میں نے ہر پل آپ لوگوں کو یا دکیا ہے بھیا! مگر وہاں زندگی گزارنے کے لیے ان لوگوں میں گھلنا ملنا انہیں وقت دینا بھی ضروری تھا نا!“
”اچھا کیا….! چل یہ بتا احزاز کیسا ہے اور وہ تم لوگوں کے ساتھ نہیں آیا؟“ اس کے سوال پر پل بھر کو وہ گڑبڑا گئی پھر سنبھل گئی۔
”بابا اور وہ دونوں آ جاتے تو بزنس کا کیا ہوتا؟ پھر آنٹی کا ارادہ تھا کہ وہ اپنی فرینڈز کے ساتھ گھومنے جائیں گی۔ گھر پر کسی کو تو رہنا تھا نا!“ اس بے مہر کی سنگت نے اسے جھوٹ بولنے کا ہنر بھی سکھا دیا تھا۔ حماد ماموں اور کشف سے ملا۔ ان کے ساتھ باتیں کرتے ٹائم کا پتا ہی نہ چلا تھا۔
”میرا خیال ہے اب سو جانا چاہیے بچو! بارہ بچ چکے ہیں۔“ بابا نے کہا تو انہیں ٹائم کا احساس ہوا۔
”جی ماموں! آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں، پھر صبح مجھے شہر بھی جانا ہے، ضروری کام سے….“ حماد بولا۔ کشف تو انجوائے کر رہی تھی مگر مدھو کا نیند سے بُرا حال تھا، اس نے شکر ادا کیا۔
ض……..ض……..ض
شام شاید اپنے پیر پھیلا چکی تھی۔ اس نے کسلمندی سے کمبل ٹانگوں سے ہٹایااور انگڑائی لیتا کھڑا ہو گیا۔ پردے سمیٹ کر کھڑکی کھولی تو سورج جیسے اسے ہی الوداع کہنے کو رکا ہوا تھا۔
موسم بدل رہا تھا اور بدلتے موسم کی یہ اداس سیاہ شامیں، ڈوبتا سورج احزاز شاہ کے اندر تک سناٹے اُتار گیا۔ اسے اپنے اندر کچھ ڈوبتا محسوس ہوا تھا۔ سرد ہوا کا جھونکا چہرے کو چھو کر گزرا تو جھرجھری لیتا وہ کھڑکی بند کرنے لگا۔ فریش ہو کر نیچے آیا تو خلاف معمول مما سٹنگ روم میں بیٹھی ٹی وی دیکھ رہی تھیں۔
”گڈ ایوننگ بیٹا! اب کیسا محسوس کر رہے ہو؟“ کل سے بخار نے اس کے وجود کو توڑ کر رکھ دیا تھا مگر اب کچھ بہتر تھا۔
”اب بہتر ہوں مما!“ جب ہی مانی چائے لے آیا۔
”بھیا جی! چائے کے ساتھ کچھ لاﺅں؟ آپ نے دوپہر بھی کچھ نہیں کھایا تھا۔“
”نہیں! میرا دل نہیں چاہ رہا۔“ اس وقت کی چائے کے ساتھ کچھ نہ کچھ وہ ضرور بنا کے رکھتی تھی۔ یہ ٹائم وہ ہوتا جب مدیحہ، بابا، کشف اور ان سے الگ بیٹھا احزاز چائے پیتے گپ شپ کیا کرتے اور آج! شام تو تھی مگر وہ نہیں تھے۔ جانے کیوں اس کا دل عجیب سے سناٹے میں گھِر گیا۔ ملازم چائے لے کر آیا تو اس نے لوٹادی۔
”مانی! میرا دل نہیں چاہ رہا چائے کو، لے جاﺅ پلیز!“ ملازم نے اسے حیرت سے دیکھا۔ اس وقت کی چائے اور وہ منع کر دے؟ لیکن اسے اپنے چھوٹے صاحب کے موڈ سے ڈر لگتا تھا،سو خاموشی سے کپ اٹھا کے کچن کارُخ کیا۔
”مائی سن! مجھے لگتا ہے تم ان لوگوں کو یاد کر رہے ہو۔ آج دس دن ہو گئے ہی اور میں دیکھ رہی ہوں کہ تم میں پہلے والی بات نہیں رہی۔“
”مما! اگر ایسا ہے تو ظاہر سی بات ہے، وہ میرے ڈیڈی ہیں، کشف میری بہن ہے۔ اک عمر گزاری ہے میں نے ان کے ساتھ اور میں تو پھرانسان ہوں مما! شاید آپ نے غور نہیں کیا یہ گھر اس کے در و دیوار تک اداس ہیں۔“
”اور تمہاری بیوی؟ مجھے جانے کیوں لگتا ہے کہ تم اس میں شامل ہو چکے ہو، اس کی کمی محسوس کر رہے ہو؟“
مما کی بات پر پل بھر کو اس کے اندر ایک سکون سا اترا تھا پھر سنبھل گیا۔
”مما! مانا کہ میرے اور مدھو کے درمیان ہم آہنگی نہیں رہی مگر یہ سچ ہے کہ اس نے اس گھر کو گھر بنایا ہے، توجہ اور پیار سے…. جو آپ ایک عمر گزار کر بھی نہ کر سکیں، وہ چند ماہ میں کر گئی۔ اس نے مجھے احساس دلایا ہے کہ گھر کے لیے عورت کا وجود کتنی اہمیت رکھتا ہے اور عورت کی توجہ اگر اس کا گھر اور گھر والے ہوں تو وہ گھر کتنا مکمل اور پُرسکون ہوتا ہے۔ مجھے کوئی شرمندگی نہیں ہے یہ کہنے میں کہ میں اس کی کمی شدت سے محسوس کر رہا ہوں کیونکہ مجھے اور اس گھر کو اس کی عادت ہو گئی ہے، وہ میری ہر ضرورت، ہر ہر خواہش کا خیال رکھتی تھی بنا میرے کہے۔ کاش مما! آپ نے بھی ڈیڈ پر یوں توجہ دی ہوتی۔“
”اُف خدایا! یہ لیکچر بند کرو۔ اگر اتنی محبت ہے اس اجڈ سے تو چلے جاﺅ تم بھی وہاں….“
”کاش ایسا ہو سکتا مگر میرے ڈیڈ نے مجھ سے کہا تھا کہ میں اپنی ماں کے ساتھ رہوں، ان کا خیال رکھوں جنہیں اپنے علاوہ کسی کا خیال نہیں۔“
”میں اپنا خیال رکھ سکتی ہوں، مجھے کسی کی ضرورت نہیں ہے۔“
”جی مما! اس کا عملی مظاہرہ تو آپ کر چکی ہیں۔ اپنے شوہر کے جانے پر جس عورت کو دکھ تک نہ ہو وہ….“ وہ یہ کہہ کر اٹھ گیا۔
احزاز شاہ کی حالت عجیب سی تھی۔ گھر آنے کو دل نہ چاہتا تھااور آنا تو یوں محسوس ہوتا جیسے ابھی ڈیڈ یا کشف کی آواز آئے گی، وہ اسے پکاریں گے، اپنے کمرے میں جاتا تو لگتا ابھی کسی کی چوڑیاں کھنکیں گی مگر ہر سو صرف سناٹا تھا اور وہ ایک ماہ میں ہی اس زندگی سے اُکتا گیا تھا۔
”پلیز ڈیڈ! مجھے یہ سزا مت دیں، لوٹ آئیں،میں آپ کے بنا نہیں رہ سکتا۔“ اس نے ڈیڈ کو فون کیا تھا۔ شاید اس دن سلمیٰ بیگم کو یہ احساس ہوا کہ اس نے احزاز کے ساتھ زیادتی کی ہے۔ وہ خاموشی سے اپنے کمرے میں چلی گئیں مگر انہوں نے یہ ملک چھوڑنے کا فیصلہ کیا تھا اور یہ ہی اطلاع دینے کے لیے آج زندگی میں پہلی بار انہوں نے خود شاہ نواز احمد کو فون کیا تھا۔
”میں احزاز کو یوں نہیں دیکھ سکتی۔ یہ سچ ہے شاہ نواز! میں کبھی تم سے محبت نہیں کر پائی ورنہ تم نے ہر ممکن کوشش کی کہ ہمارا یہ رشتہ مضبوط ہو مگرمیرے دل میں آج بھی تم نہیں ہو۔ سو میں مزید تمہیں یا اپنے بچوں کو دکھ نہیں دوں گی، میں امریکہ جا رہی ہوں۔ تم پلیز اپنے بچوں میں لوٹ آﺅ کیونکہ میرے بغیر تو بچے ہمیشہ ہی رہے ہیںلیکن تمہارے بنا وہ نہیں رہ سکتے۔ احزاز بہت تنہائی محسوس کرتا ہے، اس کا باپ اسے لوٹا دو پلیز!“ انہوں نے آج صرف اپنی کہہ کر لائٹ کاٹ دی اور شاہ نواز احمد ایک بار پھر سلمیٰ احمد کے سامنے ہار گئے۔
کاش ہمارے بڑوں نے یہ فیصلہ سوچ سمجھ کرکیا ہوتا تو آج….!
وہ اس وقت کشف کی شادی کی تیاری میں مصروف تھے اور انہوں نے احزاز کو بھی اطلاع دے دی تھی کہ پرسوں کشف کا نکاح ہے، تم آنا چاہو تو ضرور آنا اور جس دن نکاح تھا، وہ سویرے ہی پہنچ گیا تھا۔ کشف کو یوں لگا جیسے وہ برسوں بعد اپنے بھائی سے ملی ہو۔ کتنی دیر اس کے گلے سے چپکی رہی۔
”بھیا! آپ ٹھیک ہیں، اتنے کمزور لگ رہے ہیں۔“ اس نے بغور مشاہدہ کیا تھا۔ وہ مسکراتا ہوا ڈیڈ کے گلے لگ گیا اور جانے کس احساس سے اس کی آنکھوں کے گوشے نم پڑ گئے۔
”اگر آپ بھی مما کی طرح کا رویہ رکھتے تو شاید آپ کی کمی اتنی شدت سے محسوس نہ ہوتی۔ مگر آپ نے تو اپنی ذات سے زیادہ ہمارا خیال رکھا ہے۔ ڈیڈ! پھر آپ نے یہ سوچ کیسے لیا کہ ہم آپ کے بنا رہ پائیں گے؟ نہیں ڈیڈ….!“ ڈیڈ نے اپنے خوب صورت بیٹے کو مزید خود سے بھینچ لیا۔
”جناب! ہم بھی تو پڑے ہیں راہوں میں….“ حماد کی چہکتی آواز نے اسے ڈیڈ سے الگ کیا۔
”اوہ، سوری ڈئیر!“ وہ حماد سے ملا پھر دادا، دادی جی، پھوپو اور گھر کے ہر فرد سے مل چکا تھا مگر اسے مدیحہ کا چہرہ نظر نہیں آیا۔ اس کی نگاہیں ادھر اُدھر بھٹک رہی تھیں۔ ظاہر ہے شادی کا گھر تھا، مہمان تھے اور اتنے لوگوں میں اسے تلاش کرنا…. شاید بابا اس کی نگاہوں میں چوری چوی کسی کی تلاشی دیکھ چکے تھے تبھی بھنویں اچکا کراشارے سے پوچھا تو وہ مسکرا کر سر جھکا گیا اور شاہ نواز احمد اسی بات کے منتظر تھے کہ احزاز، مدیحہ کو خود پکارتا ہے یا ان کی طرح اب مدیحہ نے بھی یوں ہی بے مقصد زندگی گزارنی تھی لیکن وہ خوش تھے کہ مدیحہ کی محنت رائیگاں نہیں گئی۔
شام میں جا کر وہ اسے دکھائی دی تھی۔ میرون کلر کے فل کام والے سوٹ میں خوبصورت سے کیے میک اَپ اور جیولری نے اسے نظر لگ جانے کی حد تک خوبصورت بنا دیا تھا۔ کسی کام سے گزر رہی تھی جب احزاز سے سامناہوا۔
”السلام علیکم!“ اس کے یاقوتی لب ہولے سے ہلے تھے، احزاز کہیں کھو گیا۔
”بہت جلدی یاد آ گیا آپ کو….؟“ صبح سے اسے ڈھونڈ کر نگاہیں تھک گئی تھیں سو وہ نا چاہتے ہوئے بھی طنز کر گیا مگر اس کی موجودگی اس بہکا رہی تھی۔
”تم ٹھیک ہو؟“
”جی! آپ اور آنٹی کیسی ہیں؟“
”مما امریکہ چلی گئی ہیں۔“ سنجیدگی سے جواب دیا۔ مدیحہ نے نظریں اٹھا کے اسے دیکھا، جسکے چہرے پر عجیب سا دکھ نظر آیا تھا، وہ پہلے سے بہت کمزور لگ رہا تھا۔ چہرے پر تازگی بھی نہیں تھی، اس کے دل کو کچھ ہوا۔
”آپ ٹھیک ہیں نا احزاز! بہت کمزور ہو رہے ہیں؟“ اس کی فکر جیسے احزاز شاہ کی روح تک کو پُرسکون کر گئی۔
”تمہیں فکر ہے میری….؟“ اس نے گلہ کیا۔ مدھو نے اسے دیکھا جو اسے ہی تک رہا تھا۔ ”جس دن سے آئی ہو بیمار ہی رہا ہوں۔“ جانے وہ کیا جتا رہا تھا۔ مدیحہ کی پلکیں خوشی سے بھیگیں۔
”احزاز بھائی!“ حماد کے دوست کی آواز نے اس لمحے بہت پریشان کیا تھا اسے۔ ”مجھے تم سے بات کرنی ہے مدیحہ احزاز!“ وہ اپنی بات مکمل کر کے تیز قدموں سے پلٹ گیا۔
ض……..ض……..ض
ڈیڈ! اب تو کشف کی ذمہ داری ادا کر دی آپ نے، پلیز اب گھر چلیں، میں بہت تنہا ہو گیا ہوں۔“
”احزاز! کیامیرے واپس جانے سے تمہاری تنہائی واقعی دور ہو جائے گی بچے!“ ڈیڈ کی ذومعنی بات وہ سمجھ نہیں پایا تھا۔
”کیا مطلب ڈیڈ!“
”میں نے تمہاری مما کے ساتھ ہوتے ہوئے بھی اک عمر تنہا گزاری ہے احزاز! اور میں نہیں چاہتا کہ دوبارہ ایسا ہو۔ میں تمہارے ساتھ رہوں یا نہ رہوں مگر تمہیں زندگی کے اس سفر میں ایک ہم سفر چاہیے۔ جس کا ہاتھ تھام کر تم یہ زندگی آسانی سے گزار سکو اور جو تمہارے ہر دکھ سکھ کی ساتھی ہو۔ تم ایک دوسرے کی مشکلیں سمجھو اور مل کر حل کرو۔“ اب اسے یہ بات واضح اندازمیں سمجھ آ گئی تھی۔ وہ خود بھی تو دوبارہ سے یہ کہانی نہیں دہرانا چاہتا تھا لیکن اپنی زندگی وہ کسی سمجھوتے کے سہارے نہیں بلکہ دل و دماغ کی رضامندی سے گزارنا چاہتا تھا، جس کے لیے وہ اب پوری طرح تیار تھا۔ وہ اس آنے والے نئے سال میں اپنی نئی زندگی کا آغاز کرے گا، مڑ کر گزر جانے والے ماہ و سال کو نہیں دیکھے گا۔ یہ ہی وعدہ تو کر کے آیا تھا وہ خود سے اور یہ ہی اقرار تو اس نے مدیحہ سے لینا تھا۔
”آپ فکرنہ کریں ڈیڈ! مجھے صرف آپ کی دعائیں چاہئیں۔“ اس نے مسکرا کے ان کے خدشات دور کیے۔ ”میں مدیحہ سے کہہ دیتا ہوں کہ صبح ہمیں نکلنا ہے، وہ پیکنگ کر لے۔“ اس کی مکمل بات سن کر ڈیڈ سرشار ہو گئے تھے۔
ض……..ض……..ض
اگلی صبح وہ سب کی دعائیں سمیٹ کر ایک بار پھر اسی سفر پر رواں دواں تھی لیکن اس بار دل میں امید تھی، اسے یقین تھا کہ وہ اپنا ہم سفر پا چکی ہے۔ بس اس کے اظہار کی منتظر تھی۔ جس نے اس سے کہا تھا کہ وہ مدیحہ سے بات کرنا چاہتاہے۔
گھر پہنچے تو مانی انہیں دیکھ کر کھل اٹھا۔
”بھابی جی! قسم سے آپ کے آنے سے حوصلہ ملا ہے، ورنہ بھائی جی کے خراب موڈ سے مجھے ڈر لگنے لگا تھا۔“ احزاز نے اسے آنکھیں دکھائیں تو بابا اور وہ ہنس پڑے تھے۔
”اچھا اب فٹافٹ کچھ بناﺅ،میں ابھی فریش ہو کر آتی ہوں، بھوک سے بُرا حال ہے۔“
”جی اچھا….!“ وہ مسکراتی ہوئی سیڑھیاں چڑھ گئی تھی۔ شام تو ویسے بھی ڈھل چکی تھی۔ جب تک وہ لوگ فریش ہو کر آئے، مانی نے کھانا تیار کر لیا تھا۔
”ڈیڈ! میں اور مدیحہ کھانے کے بعد باہر جائیں گے۔ آپ چلی گے ہمارے ساتھ؟“ وہ کھانے کے دوران ڈیڈ سے مخاطب تھا۔
”ارے نہیں بھئی! میں آرام کروں گا۔ تم دونوں جاﺅ۔“ انہوں نے سہولت سے منع کر دیا۔
”تم تیار ہو جانا کھانے کے بعد!“ وہ اب مدیحہ سے مخاطب تھا۔ جس نے صرف سر ہلایا تھا۔ کھانا ختم کرتے ہی احزاز اٹھ گیا، بابا اسے دیکھ رہے تھے۔
”خوش رہو بچے! آج تمہاری محنت کا ثمر تمہیں مل گیا، اللہ رب العزت تمہیں ہمیشہ خوش رکھے اور ہر آنے والا ہر دن تمہارے لیے خوشیاں ہی خوشیاں لائے۔“
”شکریہ بابا!“ اس نے اٹھ کر ان کے گلے میں بانہیں ڈیں
”اچھا! اب جا کر تیار ہو جاﺅ، کہیں احزاز کا موڈ بگڑ نہ جائے۔“ انہوں نے کہا۔
وہ ”اچھا“ کہتی اٹھ گئی اور آدھے گھنٹے بعد وہ دونوں باہرجا رہے تھے۔ گاڑی میں بیٹھتے ہی اس نے پُرشوق نظروں سے مدیحہ کو دیکھا تھا، وہ جھینپ کر رُخ موڑ گئی۔ احزاز نے گاڑی اسٹارٹ کی۔
”ہم کہاں جا رہے ہیں؟“
دراصل میرے دوستوں نے آج پارٹی رکھی ہے لیکن وہاں جانے سے پہلے میں تم سے کچھ کہنا چاہتا ہوں۔“ وہ ڈرائیو کرتے ہوئے بہت نرم انداز میںبات کر رہا تھا۔ اس نے گاڑی کو ایک خوبصورت اور شہر کے بڑے ہوٹل کے سامنے لا کر کھڑا کیا تھا۔ مدیحہ نے حیرت سے دیکھا۔
”آجاﺅ!“ گاڑی پارک کر کے وہ آگے بڑھ گیا، مدیحہ اس کے ہمراہ تھی۔ یہاں بہت زیادہ لوگ تھے، شاید وہ بھی پارٹی میں مدعو تھے۔ احزاز اسے لے کر پُرسکون سی جگہ تلاشتے ہوئے ایسی جگہ لے آیا تھا جہاں بہت کم لوگ تھے۔
بیٹھ جاﺅ! اس نے کرسی کی جانب اشارہ کیا۔ مدیحہ کچھ جھجکتے ہوئے بیٹھ گئی۔ بے شک یہاں لوگ کم تھے مگر اس کے خیال سے رش تھا۔ احزاز نے اس کی الجھن محسوس کی۔
”پلیز ریلیکس! یہ وہ دنیا ہے جہاں کسی بھی شخص کو دوسرے سے کوئی سروکارنہیں، بے فکر ہو جاﺅ۔!!
”میں یہاں ایزی فیل نہیں کر رہی۔“ بار بار دوپٹا درست کرتے وہ تنگ آ گئی تھی۔
”مدھو! اِدھر دیکھو میری طرف….!“ وہ قدرے تیز لہجے میں بولا تھا مگر آج اس کے روئیے میں اپناپن نمایاں تھا اور پہلی بار اس نے ”مدھو“ پکارا تھا۔ مدیحہ نے نظریں ذرا سی اٹھائیں تو اسے متوجہ پایا۔
”میں تمہیں یہاں اس لیے لایا ہوں کہ ہم آرام سے بات کر سکیں گے۔ گھر کے ماحول سے دور….!“ اس کے لفظوں سے مدیحہ کے دل کی دھڑکن بے قابو تھی۔ ٹیبل پر نظریں جمائے جانے کیا کھوجنے لگی۔ احزاز نے بغور اس کا سراپا دیکھا پھر ٹیبل پردھرے اس کے ہاتھ کو اپنے ہاتھوں کی پناہ میں لے لیا۔ مدیحہ کی جان پر بن آئی تھی، ایک تو احزاز کا یہ روپ، پھر پبلک پلیس۔
”مدھو! میں تمہیں شکریہ کہنا چاہتا ہوں۔ تم نے مجھے زندگی کی ایک نئی راہ دکھائی ، میں شاید اس حیات کے صحیح معنوں سے واقف ہی نہیں تھا اور کبھی ہو بھی نہ پاتا، اگر تم میری زندگی میں نہ آئی ہوتیں۔ میں بھی شاید مما کی پسند کی کسی لڑکی سے شادی کر لیتا، جو بے شک مما جیسی ہی ہوتی مگر ہمارے گھر کی وہ ہی روٹین تاعمر چلتی رہتی جو تمہارے آنے سے پہلے تھی۔ مدھو! تم میری زندگی میں بنا میری خوشی اور مرضی کے آئی تھیں اور یقین کرو کہ مجھے صرف تمہارا نام پتا تھا۔ اس کے علاوہ مجھے تمہارے بارے میں کچھ علم نہ تھا اور نہ ہی مجھے دلچسپی تھی۔ مجھے صرف اتنا پتا تھا کہ مما کہتی تھیں گاﺅں کے لوگ جاہل اور چھوٹی سوچ کے ہوتے ہیں اور تعلیم کے سخت خلاف۔ سو میرے ذہن میں یہ ہی تھا کہ تم بھی اَن پڑھ ہو گی حالانکہ حویلی کا ماحول دیکھ آیا تھا مگر مجھے لگا تم ہمارے گھر کے لیے قطعی نامناسب ہو۔ ہمارے ساتھ کبھی ایڈجسٹ نہیں کر سکتیں اور کم از کم ہم دونوں میں ہم آہنگی ہو ہی نہیں سکتی۔ مگر مدھو! میں غلط تھا۔ میں نے لاکھ تمہیں نظرانداز کیا مگر پھر بھی تم میری توجہ کا مرکز رہیں۔ تم نے دھیرے دھیرے میرے گھر، میرے کمرے اور پھر میرے دل میں ایسے جگہ بنائی کہ میں تمہارا عادی ہو گیا۔ ہاں مدھو! مجھے اعتراف ہے کہ تم میری ضرورت بن گئی تھیں۔ جب تم گاﺅں میں تھیں تو میں شدید تناﺅ کا شکار ہو رہا تھا، نہ کھانا اچھا بنتا اور نہ ہی میرے کام ٹھیک سے کوئی کر سکتا تھا۔ بس میں تم سے کہہ نہیں پایا کہ پلیز لوٹ آﺅ مدھو! تم نے مجھے جان لیا تھا، میری ہر خواہش ہر ضرورت اور ہر وہ بات جو میرے دل میں ہوتی تھی تم جان لیتی تھیں۔ میرے اندر کے انسان کو وہ ہی توجہ چاہیے تھی جو تم نے دی۔ ہاں میں آج تم سے اقرار کرتاہوں کہ تم نے مجھے مجھ سے چھین لیا ہے، تم میرے اندر بستی ہو، تم واحد ہستی ہو جس نے مجھے پیار کے معنی سکھائے۔ اپنی خاموشی، محنت اور لگن سے…. شکریہ مدھو! تھینک یو سو مچ!“ وہ بڑی سچائی سے اعتراف کر رہا تھا۔ جذبات سے بھرپور لہجے میں۔ اس نے مدھو کے ہاتھوں کو لبوں سے چھوا تو اس نے یک دم ہاتھ کھینچ لیے۔ ”تم کچھ نہیں کہو گی؟“ جواب میں مدھو نے صرف اسے دیکھا، لبالب پانی سے بھری آنکھیں…. احزاز شاہ چند لمحے دیکھتا رہا۔ ”میں جانتا ہوں تم مجھ سے خفا ہو، تمہارے اندر بہت گلے ہیں جو صرف میری ذات سے ہیں اور میں یہ بھی جانتا ہوں کہ تم کبھی بھی ان کا اظہار نہیں کرو گی؟“ مدیحہ نے بہت حیران نظروں سے اسے دیکھا۔ ”میں نے تمہاری تمام باتیں سن لی تھیں جو تم اس دن کشف کے روم میں بیٹھی اس سے شیئر کر رہی تھیں۔آئی ایم سوری، میں نے ارادتاً ایسا نہیں کیا تھا مگر جب میں نے تمہارے اندر کے وہم اور تمہارے شکوے جو تم کر رہی تھیں اور اپنا ذکر سنا تو میں نہ چاہتے ہوئے بھی سنتا گیا…. تم نے بالکل غلط کہا تھا مدھو! کہ تم اپنے اور میرے رشتے کو کبھی مضبوط نہیں کر سکتی
تمہیں اندازہ ہے کہ تم نے اس بندھن کو کس قدر محبت سے باندھ دیا ہے، مائی ڈئیر وائف! کہو تو کان پکڑ کر سوری کروں کہ میں نے تمہیں سمجھنے میں واقعی دیر کر دی یا شاید اظہار کرنے میں ٹائم لگا دیا۔ تمہیں پتا ہے مدیحہ! شاید میں اب بھی تمہاری محبت کو اندر ہی دبائے بیٹھا رہتا، مجھے اظہار کرنے کا ہنر نہیں آتا تھا مگر مما کی بات نے میرے جذبوں کو جیسے زبان دی تھی۔ جب انہوں نے مجھ سے کہا کہ میں تم میں شامل ہو چکا ہوں اور تمہاری کمی مجھے محسوس ہوتی ہے تو میں یکدم پھٹ پڑا۔ اس دن میں نے مما کے سامنے وہ اقرار کر لیا جسے میں دل میں چھپائے پھرتا تھا۔ تب مجھے ہمت مل گئی اور میں نے فیصلہ کر لیا کہ میں جاﺅں گا، تمہیں لینے کیوں کہ تمہارے بنا میں واقعی نہیں جی سکتا۔“
”مجھے لگا کہ میں نے اپنی محنت اور سچی لگن سے آپ کو پا لیا تھا مگر جب میں نے آپ سے جانے کا کہا تو میرے دل کو امید سی تھی کہ شاید آپ مجھے روک لیں گے مگر وہ امید، امید ہی رہی۔ اگر آپ چاہتے تو میں کبھی نہ جاتی۔“ اس کے لب ہلے تو شکوہ ہی اترا تھا، وہ ہولے سے ہنس دیا۔
”شکریہ! تم نے کچھ کہا تو…. گلہ ہی سہی۔“ وہ ہولے سے ہنسا۔ ”تم میرے اندر سما گئی تھیں واقعی تمہیں روک سکتا تھا، کیونکہ تم میرے اندر عیاں نہیں تھیں۔ اسی لیے میںنے تمہیں نہیں روکا کیونکہ میں دیکھنا چاہتا تھا کہ میری یہ فیلنگز محض وقتی ہیں یا پھر تمہارے جانے کے بعد بھی تم یوں ہی میری روح میں بسی رہو گی۔ شاید میں خود کو آزمانا چاہتا تھا کہ میں تمہارے بن رہ پاﺅں گا یا نہیں اور تم جیت گئیں….“
”احزاز….!“ اس کے لبوں سے اپنا نام اسے بہت خوبصورت لگا تھا۔
”ہوں!“ وہ اب تک اس کی آواز کے سحر میں کھویا ہوا تھا۔
”آج میں بہت خوش ہوں، بہت خوش، کیونکہ تمہارے وسوسے دم توڑ گئے ہیں۔“
”ہاں مدیحہ! میں سمجھتا ہوں تمہیں ڈر تھا ناکہ کہیں ہماری بھی ساری زندگی مام اور ڈیڈ ی طرح نہ گزر جائے؟ لیکن نہیں، ہماری زندگی محبت و احساسات سے بھرپور ایک دوسرے پر مکمل اعتبار کے ساتھ گزرے گی کیونکہ مدھو! میں نہیں چاہتا تھا کہ ہمارے بچے بھی…. ساری عمر اسی کشمکش کا شکار رہیں۔“ اس کے لفظوں نے مدیحہ کے چہرے کی رنگ گہری کر دی تھی اور احزاز شاہ کو اس کے اس روپ پر ٹوٹ کر پیار آیا تھا۔ ”تم بہت خوبصورت ہو مدیحہ احزاز! بہت پیاری…. آئی رئیلی لَو یو!“ محبت سے چُور لہجہ تھا اس کا۔ مدیحہ نے اسے گھورا مگر اس پر اثر نہیں تھا۔
”میں تم سے وعدہ کرتا ہوں مدیحہ کہ آج سے ہم اپنی زندگی کا خوشگوار آغاز کریں گے جس میں غلط فہمی اور گلے شکوے نہیں ہوں گے اور میں تمہیں اتنا پیار دوں گا کہ تم اپنے سارے دکھ بھول جاﺅ گی۔ بس مجھے اور میرے گھر کو ہمیشہ یوں ہی تھامے رہنا کیونکہ مجھے اور میرے گھر کو تمہاری عادت ہو گئی ہے اور میں اپنی یہ عادت عمر بھرنہیں بدلنا چاہتا۔“ اس کی دیوانگی پر وہ ہراساں تھی۔
”آﺅ آج سے ہم اپنے نئے سفر کا آغاز کرتے ہیں۔“ اس نے مدیحہ کا ہاتھ تھاما اور ہوٹل سے باہر نکل آیا۔
ض……..ض……..ض