ڈاکٹر حامد اشرف(اود گیر)
ہندوستان کا دل یعنی دلّی سے پچپن کلو میٹر کے فا صلے پر پا نی پت میں خواجہ ایزد بخش انصا ری کے گھر میں ۱۸۳۷ء میں ایک لڑکے کا جنم ہوا۔نام الطاف حسین رکھا گیا دنیا انہیں الطاف حسین حا لیؔ کے نام سے جانتی ہے۔حالیؔکی والدہ سیدانی تھیں اور والدکا سلسلہ نسب حضرت ابو ایوب انصاریؓ سے ملتا ہے۔اکثر یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ قدرت جب کسی شخص کو بڑا آدمی بنا نا چاہتی ہے تو بچپن ہی سے اس کے سہا رے چھین لیتی ہے ۔صد مو ں اور مصیبتوں کے پہا ڑ اس پر شائد اسی لیے توڑے جا تے ہیں کہ اُس کا دل دوسروں کے لیے زیادہ حساس اور نرم و گدازبنے۔
حا لیؔ کا معا ملہ بھی ایسا ہی ہے۔نو برس کی عمر میں یتیم ہوئے۔والدہ دماغ کی خرا بی کا شکار ہو گئیں۔بڑے بھا ئی امداد حسین نے حالیؔ کی نگہداشت کی۔جید حافظ و قا ری ممتاز حسین سے حا لی نے عربی سیکھی ا ور سید جعفر علی سے فارسی پڑھی ۔قرآن حفظ کیا اور قا ری بھی بنے۔علم کی پیاس کو بجھا نے کے لیے حا لیؔ پا پیا دہ پا نی پت سے دلّی آتے۔ جا مع مسجد کے قریب حسین بخش کے مدر سے میں حصولِ علم کی خا طر حا لیؔ نے اینٹیں بھی اٹھائیں۔اور فا قے بھی کیے مگر روح اور دل کی پیاس بہر حال بجھا ئی۔ بڑے بھا ئی نے حالیؔ کی شاد ی سترہ سال کی عمرمیں ما موں میر با قر علی کی لڑکی اسلام النساء سے کر وا ئی۔
پنہاں تھا دامِ سخت قریب آشیا نے کے
اُڑنے نہ پا ئے تھے کہ گرفتار ہم ہو ئے
اب حالیؔ کی ذمہ داریاں بڑھیں۔فکرِ روزی میں حصولِ تعلیم کا خیربادکہااور دہلی میں اینگلو عربک اسکول میں مدرس بنے۔(۱۸) سال کی عمر میں پہلی تصنیف عربی میں مسئلۂ منطق پر لکھی۔۱۸۵۶ء میں حصار میں واقع دفتر ڈپٹی کمشنر میں ملا زم ہو ئے۔غدر کے رو نما ہو نے پر جان ہتھیلی پر رکھ کر پیدل چل کرپا نی پت آ گئے۔ساتھ میں صرف حمائل شریف تھا۔بیس برس کی عمر میں زمانے کے تجربات و حوادث نے حا لیؔ کو اسّی (۸۰) سال کا بو ڑھا بنا دیا۔اس کا ثبوت ہمیں اُن کی مسدس مد و جزرِ اسلام سے ملتا ہے۔ جس کے محرک سر سید تھے۔ مسدس کا شمار سر سید اپنے اعمالِ حسنہ میں کرتے تھے۔ آج بھی جس کے متعدد بند بے چشمِ نم پڑھے نہیں جا تے۔جس کی تخلیق میں حا لیؔ نے اپنے دل و دماغ کی پوری قوت صرف کی ۔ معروف ادیب شیخ محمد اکرام نے مسدس کو ہندوستان کی چھے کروڑ عوام کی تقدیربدلنے کا آلہ بتایا اور ڈاکٹر سید عا بد حسین نے لکھا کہ ’’ سر سید کی بدولت قوم کو شا عر مل گیا اور شا عر کو قوم‘‘بہت پہلے ہی حا لیؔ کی شعری کا وشوں کو جب غا لب نے ملا حظہ کیا تو کہا کہ’’ میں کسی کو فکرِ شعرکی صلاح نہیں دیتا ۔لیکن تمہا ری نسبت میرا یہ خیال ہے کہ اگر تم شعر نہ کہو گے تو اپنی طبیعت پر ظلم کرو گے۔‘‘لیکن غا لبؔ کی اصلاح سے زیا دہ فائدہ حا لیؔ کو شیفتہ کی آٹھ سا لہ صحبت سے ہوا۔یہ وہ زما نہ تھا کہ انگریزی تہذیب کا سورج طلوع ہو چکا تھا۔قدیم دہلی کالج پُر رونق تھا۔حالیؔ جس ما حول کے پروردہ تھے وہاں انگریزی اسکولوں کو مجہلے( جہا لت کی جگہ) کہا جاتا تھا۔یہی وجہہ ہے کہ حا لیؔ انگریزی زبان کی طرف دیر سے راغب ہو ئے اوربقول صا لحہ عا بد حسین:’’ محض انگریزی کتا بوں کے تر جموں سے وہ حا صل کیا جو دوسرے سا ری زندگی کھپا نے کے با وجود نہ پا سکے۔‘‘
۱۸۶۹ء میں غالبؔ و شیفتہؔکی رحلت کے بعد حالیؔ لاہور میں پنجاب گورنمنٹ بُک ڈپو میں ملازم ہو گئے۔یہاں حالیؔ کو انگریزی ادب اور تنقید سے آگا ہی ہوئی۔ حالیؔ کی نثر میں بے تکلف انگریزی الفاظ کا استعما ل یہاں کی چار سالہ ملا زمت کا ہی نتیجہ ہے۔حالیؔ پھر دلّی آئے اور علیگڑھ کالج کے قیام کی خاطر سر سید کا ہاتھ بھی بٹا تے رہے اور تصنیف و تا لیف کا کام بھی جاری رکھا۔حیاتِ سعدی اور سفر نامہ حکیم ناصر خسرو کی تصیح اُسی زمانے کی یادگار ہیں۔بعد میں حا لیؔ نے مقدمہ ٔ شعرو شا عری یادگارِ غا لبؔ اورسر سید کی ضخیم سوا نح عمری حیاتِ جا وید لکھ کر سوا نحی ادب اورتنقیدکا خشتِ اوّل رکھا۔خوا جہ غلام اثقلین نے ایک جگہ لکھا ہے کہ ’’مولانا یو نا نی خیا لات کی رو سے ایک معتدل اور متوسط کامل انسان صوفیا نہ رو سے صا حب با طن ولی تھے۔کبھی کسی کی برا ئی اُن کے منہ سے سنی نہ گئی۔‘‘یہی وجہہ ہے کہ سر سید کے فرزند سید محمود دنیا میں سب سے زیادہ حالیؔ سے متاثرتھے۔ ۱۸۸۶ء میں حالیؔ کو بڑے بھائی کے داغِ مفا رقت کو سہنا پڑا۔لیکن درد و غم کی سیاہی کا غذ پر پھیلتی ہی گئی۔
آئے ہیں سدا بھا ئیوں سے بھا ئی بچھڑتے موت ایک کے آگے ہے ضرور ایک کو آنی
پر بھا ئی ہو جس شخص کا حالیؔ کا سا بھائی غم بھا ئی کا مر جانے کی ہے اس کے نشا نی
جس بھا ئی نے بیٹوں کی طرح بھا ئی کو پالا سوکھی ہوئی کھیتی میں دیا باپ کی پانی
جس بھا ئی کی آغوش میں ہوش اُس نے سنبھالا جس بھائی کے سائے میں کٹی اُس کی جوا نی
دل مردہ ہو حالیؔ کی طرح جس کا عزیزو کیا ڈھونڈتے ہو اُس کی طبیعت میں روا نی
باقی رہے گا داغ سدا بھائی کا دل پر ہر چند کہ فا نی تھا وہ اور ہم بھی ہیں فانی
۱۸۸۷ء میں جب حا لیؔ سر سید کے ساتھ حیدرآباد آئے ۔نواب آسمان جاہ وزیرِ ریاستِ حیدرآباد سے ملے۔وہ حا لیؔ کی شا عری سے متا ثر تھے ۔سیرت و شخصیت دیکھ کر اور بھی متا ثر ہوئے۔پچھتر (۷۵) روپیے ما ہا نہ وظیفہ یہ کہہ کر مقرر کر دیا کہ ’’ ایسی غیر معمولی قا بلیت کے آدمی کا فکرِ معاش میں پریشان رہنا زبر دست قو می نقصان ہے۔‘‘
حالیؔ اپنی جوا نی میں بھی حد درجے مذہبی تھے۔وہ غالبؔ کو دیکھتے اور سوچتے کہ’’ روضۂ رضواں میں ہمارا اُن کا ساتھ چھوٹ جائے گا‘‘۔اس لیے انہوں نے ایک مر تبہ غالبؔ کو خط لکھا کہ وہ شراب چھوڑ دیں اورنماز با قاعدگی کے ساتھ ادا کریں۔ کھڑے نہ سہی بیٹھ کر اشا رے سے نماز پڑھیں اور وضو نہ ہو سکے تو تیمم سہی۔نماز ترک نہ کریں‘‘خط دیکھ کر غا لبؔناراض ہو گئے۔غصہ کے اظہارمیں ایک غزل حا لیؔ کو لکھی۔حالیؔ نے معذرت چا ہی۔جواب میں غالبؔ نے پھر قطعہ لکھا۔غالبؔ کی شکایت محبت پر مبنی تھی۔وہ حالیؔ کو بہت عزیز رکھتے تھے۔یادگارِ غالبؔ میں حا لیؔ نے غالبؔ کو مذکو رہ خط لکھنے کی وجہہ اس طرح بیان کی ہے کہ
’’ یہ وہ زمانہ تھا کہ لوگ مذہبی خود پسندی کے نشے میں سر شار تمام مخلوق میں صرف مسلمانوں مسلما نوں کے تہتر(۷۳) فرقوں میں سے صرف اہلِ سنت کو اور اہلِ سنت میں سے صرف حنفیہ کواور اُس میں سے بھی صرف چند لوگوں کو مغفرت کے لا ئق جا نتے تھے۔گویا دائرہ رحمتِ الٰہی کو کو ئن وکٹو ریہ کی وسعتِ سلطنت سے بھی جس میں ہر مذہب و ملّت کے آدمی بہ امن و اماں زندگی بسر کرتے ہیں زیا دہ تنگ اور محدود خیال کرتے تھے۔‘‘
یادگارِ حالیؔ میں صا لحہ عابد حسین لکھتی ہیں کہ
’’حالیؔ کی طبیعت میں متا نت اور سنجیدگی تھی۔بلند آواز نہیں بلکہ دھیمی اور شیر یں ہوتی۔دلنشیں اندازقہقہہ نہیں بلکہ دلکش مسکرا ہٹ ہوتی۔حیا کا مادہ اس قدر تھا کہ تعریف سن کر شر ماتے تھے۔۔۔۔۔۔حالیؔ سلیقہ شعار صفائی پسنداور خوش ذوق تھے۔لباس رنگ ڈیزائین وغیرہ کے معا ملے میں اُن کی پسند نفیس تھی۔کرتا پاجامہ اچکن کا پہنتے۔جا ڑے میں چوغہ اور مفلر کے ساتھ گول ٹوپی پہنتے۔۔۔۔۔۔۔پان تمبا کو کا شوق تھا۔عمدہ پان کھا تے ۔افیون کی چھوٹی گولیاں بھی (برائے نام) استعمال کرتے تھے۔قویٰ اچھے تھے اور کسرت کا بھی شوق تھا۔‘‘
اِس کے علاوہ حالیؔ کی خدا ترسی اپنے پرایوں کے کام آنے اور غرباء کا غم کھا نے کے بیشتر وا قعات ملتے ہیں۔ جس سے اُن کی حساس طبیعت اور رقیق القلبی کا اندازہ ہوتا ہے۔جب دلّی میں اُن کے سخن فہم سخن سنج ساتھی ایک ایک کر کے ملکِ عدم کوروانہ ہو ئے توحالیؔ کے ذہن و دل درد انگیز کیفیت کا شکارہو جاتے ہیں اور حالیؔ کا قلم حسرت و یاس کی داستان سنانے لگتا ہے :
غالبؔ و شیفتہؔ و نیرؔ و آزردہؔ و ذوقؔ اب دکھائے گا یہ شکلیں نہ زمانہ ہر گز
داغؔ و مجروح کو سُن لو کہ پھر اِس گلشن میں نہ سنے گا کو ئی بلبل کا ترا نہ ہر گز
رات آخر ہوئی اور بزم ہو ئی زیر و زبر اب نہ دیکھو گے کبھی لطفِ شبانہ ہر گز