حالیؔ کی علمی اور ادبی خدمات کثیر الجہات ہیں۔ اس کی ابتدا اُن کی شاعری سے ہوتی ہے۔ ابتدا میں وہ خستہؔ تخلص کرتے اور غالبؔ کو اپنا کلام دکھاتے تھے۔ یہ غزلیں قدیم انداز کی تھیں۔ غالبؔ نے اس سلسلہ میں اُن کی ہمت افزائی بھی کی تھی۔ اُن کے اس طرح کے اشعار آج بھی شوق سے پڑھے جاتے ہیں :
اک عمر چاہیے کہ گوارا ہو نیش عشق
رکھی ہے آج لذت زخم جگر کہاں ؟
ہم جس پہ مر رہے ہیں وہ ہے بات ہی کچھ اور
عالم میں تجھ سے لاکھ سہی تو مگر کہاں ؟
ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب تر کہاں
اب دیکھیے ٹھہرتی ہے جا کر نظر کہاں ؟
………
اُس نے اچھا ہی کیا حال نہ پوچھا دل کا
بھڑک اُٹھتا تو یہ شعلہ نہ دبایا جاتا
………
کوئی ہمدم نہیں ملتا جہاں میں
مجھے کہنا ہے کچھ اپنی زباں میں
………
اُس کے جاتے ہی یہ کیا ہو گئی گھرکی صورت
نہ وہ دیوار کی صورت ہے نہ در کی صورت
لیکن لاہور کے قیام کے زمانے میں کرنل ہالرائڈ اور محمدحسین آزاد کے زیر اثر انھوں نے نئے انداز کی نظمیں بھی کہیں۔ ان نظموں میں ’برکھا رُت‘، ’نشاطِ امید‘، ’مناظرہ رحم و انصاف‘، ’مناجاتِ بیوہ‘ اور ’حبِ وطن‘ خاص طورسے اہم ہیں ، لیکن ایک شاعر کی حیثیت سے انھیں ہمیشہ زندہ رکھنے والی اُن کی نظم ’مد ّو جزر اسلام‘ ہے جسے عام طورسے لوگ ’مسدس حالی‘ کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ یہ نظم دراصل مسلمانوں کے عروج و زوال کی کہانی ہے جو پہلی بار جون 1879 میں شائع ہوئی۔ سرسید نے اس نظم کے بارے میں لکھا تھا کہ:
’’جب خدا پوچھے گا کہ تو کیا لایا؟ میں کہوں گا کہ حالیؔ سے مسدس لکھوا لایا ہوں اور کچھ نہیں۔ ‘‘
اس نظم میں علم کی فضیلت بیان کرتے ہوئے حالیؔ نے لکھا ہے :
تمدن کے ایواں کا معمار ہے یہ
ترقی کے لشکر کا سالار ہے یہ
کہیں دستکاروں کا اوزار ہے یہ
کہیں جنگ جویوں کا ہتھیار ہے یہ
دکھایا ہے نیچا دلیروں کو اس نے
بنایا ہے روباہ شیروں کو اس نے
اسی طرح علم کی طرف سے بے توجہی کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
جنھوں نے کہ تعلیم کی قدر و قیمت
نہ جانی مسلط ہوئی اُن پہ ذلت
ملوک اور سلاطیں نے کھوئی حکومت
گھرانوں پہ چھائی امیروں کے نکبت
رہے خاندانی نہ عزت کے قابل
ہوئے سارے دعوے شرافت کے باطل
اس نظم کی سب سے بڑی خوبی اس کی سادگی اور درد و اثر ہے جس کی وجہ سے یہ بے اختیار پڑھنے والوں کے دل میں گھر کر جاتی ہے۔
نثر میں حالیؔ کی ابتدائی کتابیں تین ہیں :
۱۔ تریاق سموم (یہ ایک پادری کے اسلام پر اعتراضات کا جواب ہے )
۲۔ مبادی علم ارضیات یا طبقات الارض (ایک عربی کتاب کا ترجمہ)
۳۔ مجالس النساء (اس میں عورتوں کی اصلاح اور بچوں کی عمدہ تربیت کے طریقے بتائے گئے ہیں )
نثرنگاری میں حالیؔ کا مرتبہ اُن کی سوانح نگاری کی وجہ سے بہت بلند ہے۔ وہ اردو کے پہلے سوانح نگار ہیں۔ انھوں نے 1886 میں حیات سعدی، 1897 میں یادگارِ غالب اور 1901 میں حیاتِ جاوید لکھی جو اردو کی بہترین سوانح عمریوں میں شمار ہوتی ہے۔