حادی ادیوا سے بہت پیار تو کرتاہی تھا، مگر اسے سمجھتا بھی تھا، کیوں کہ ادیوا اُس سے ہر بات شیئر کرتی، سکول، کالج، یونیورسٹی لیول تک آکر بھی وہ حادی کو ایسے ہی ٹریٹ کرتی، جیسے کوئی بچپن کی سہیلی۔ جو ہر ہر بات سے واقف ہو۔ مگر کہتے ہیں ناکہ رشتے کبھی ایک سے نہیں رہتے کیوں کہ انسان بدلتا رہتا ہے۔ ادیوا بھی بدل گئی تھی حادی کے لیے۔ بچپن کی سہیلی سے صفان کے دکھ شیئر نہیں کرتی تھی۔ اب وہ بھی کیا کرتی انسان حالات کا ستایا ہو، تو بدلاؤ نا چاہتے ہوئے بھی آجاتا ہے۔
واک کرتے کرتے حادی اور ادیوا ایک قبرستان کے آگے سے گزرے تو ادیوا مسلسل قبروں کو دیکھتی رہی، کبھی کتبے پڑھنے کی کوشش کرتی اور کبھی بغیر کتبے والی قبروں پہ نظر ڈالتی۔ پھر اچانک حادی سے مخاطب ہوئی۔
”حادی! وہ اپنے سٹور روم میں جو کتبہ ہے، وہ دادی امی کی قبر کا ہے نا؟“
”ہاں ادیوا! بس اُس پر نام میں کچھ غلطی آگئی تھی، جو پاپا نے گھر آکر دیکھی۔ مجھے کہہ چکے ہیں ایک دوبار۔ مگر میرا ٹائم ہی نہیں لگا کہ جاؤں اور تبدیل کراؤں۔“
”حادی! ایک بات پوچھوں؟“
”وائے ناٹ …… ادیوا! پوچھو۔
”کیا قبروں پہ کتبے لگانے ضروری ہوتے ہیں؟ جن لوگوں کی پہچان ہمیں ان کی زندگی میں نہیں ہوتی، تو مرنے کے بعد اُن کی قبروں کو نشانیاں دینے کی ضرورت کیوں پڑتی ہے؟ ہم نے اُن کی قبروں کو ڈھونڈ کے کون سی ایسی خوشی دینا ہوتی ہے، جو ان کے ساری زندگی کے دکھوں کا مداوا کرسکے؟
تمھیں نہیں لگتا حادی! ہمیں کتبوں کو زندہ لوگوں پہ نصب کرنا چاہیے تاکہ ان کی پہچان ہم ان کے جیتے جی ہی کرسکیں۔ پھر شاید انھیں قبروں تک پہنچنے کی اتنی جلدی نہ ہو۔“
وہ جانتا تھا کہ ادیوا ابھی کسی اور رنگ میں ہے، اس لیے وہ چپ چاپ اسے سنتا رہا۔ بہت عرصے بعد اُس نے ادیوا کو اس طرح بولتے دیکھا تھا۔ اُس کی سب باتوں کے جواب میں بس اتنا ہی کہہ سکا۔
”ادیوا! تم بہت گہری باتیں کرنے لگ گئی ہو۔ پہلے تو تم کبھی اتنی سنجیدہ نہیں ہوتی تھی۔ تمھیں نہیں لگتا …… پہلے والی ادیوا کی ہم سب کو بہت ضرورت ہے۔“
یہ بات سنتے ہی دل کٹ کے رہ گیا اُس کا۔ دل چاہا کہ اُس کے کندھے سے لگ کے پھوٹ پھوٹ کے روئے، نکال دے سب اذیتوں کے زہر اپنے اندر سے۔ پھر سے ویسی ہی ہوجائے جیسے اُس کے پیارے اُسے دیکھنا چاہتے ہیں۔ مگر کبھی کبھی باتیں اختیار سے بہت آگے چلی جاتی ہیں۔ ہم ہتھیار ڈال بھی دیں، تو بھی ہار ماننے کی سزائیں سہنا پڑتی ہیں۔
”حادی! ماما پاپا کہاں ہیں؟“
”ہاں! وہ نیچے پارکنگ تک گئے ہیں۔ ابو کے دوست انکل زمان کی گاڑی پارک تھی، وہاں شاید ان کے فیملی بھی ساتھ ہے۔ آپ جناب اکیلی اوپر آگئی پہاڑوں پر گھر دیکھنے، تو میں آگیا آپ کے ساتھ ہی۔“
تھوڑی ہی دیربعد وہ دونوں بھی آگئے۔ عمر حیات نے حادی سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا۔
”ارے بھئی! آپ لوگوں کے ماموں آرہے ہیں اور سب سے بڑی حیرت کی بات ہے کہ اس بار ذریاب صاحب بھی ساتھ ہیں …… عنائیہ اور چھوٹی ہانیا بھی چھٹیاں انجوائے کرنے آرہی ہیں۔“
”حادی! تم کوئی پلان وغیرہ کرو ادیوا کے ساتھ مل کے…… بھئی میں چاہتا ہوں بچے خوب انجوائے کرکے جائیں پاکستان کو۔“
ماما کے خاندان میں ماموں شجاع پاپا کے فیورٹ تھے اور دونوں میں بہت اچھی دوستی بھی تھی۔ شجاع ماموں تھے ہی بہت سویٹ۔
”ارے پاپا! یہ توبہت اچھی خبر ہے۔ آپ فکر مت کریں ان شاء اللہ! ہماری طرف سے کوئی کسرنہیں رہے گی اور ماما جانی! آپ ممانی جان کا خیال رکھئے گا بس (وہ بہت اچھی خاتون ہیں) ”حادی بیٹا! فکر نہیں کرو، میں سب کا پورا پورا خیال رکھوں گی اور ادیوا کی تو عنائیہ آپی آرہی ہیں۔“
ادیوا سے دو سال بڑی تھی عنایۂ لیکن بچپن سے ادیوا اُسے آپی ہی کہتی۔ دوستی بھی بہت تھی اور حادی کی تو عنائیہ سے کچھ زیادہ ہی بنتی تھی۔ اب وہ دوستی تھی یا کچھ اور، یہ تو وہی دونوں جانتے تھے۔
پورا دن نتھیا گلی میں گھومنے کے بعد شام کو سب تھکے ہارے ریسٹ ہاؤس واپس آگئے۔ ادیوا کچھ زیادہ تھکاوٹ محسوس کررہی تھی لہٰذاسب سے معذرت کرکے وہ کمرے میں آگئی۔ تھوڑی ہی دیر بعد مسز عمر کمرے میں داخل ہوئیں بلیک کافی کا کپ لیے۔ ادیوا اسی وقت شاور کرکے باہر نکلی تھی۔
”اوہ …… ماما جانی! تھینک یو ویری مچ۔ میں ابھی آہی رہی تھی کافی لینے۔ یو آر دی بیسٹ مام۔“
ادیواکا اتنا ذرا سا بدلاؤ دیکھ کر وہ بہت خوش ہوئیں۔ ورنہ ادیوا توہر Concern ہر کیئر کو تکلف سمجھنے لگ گئی تھی۔ مسز عمر نے اسے سر پر بوسہ دیا اور روز کی طرح جلدی سونے کی ہدایت کرکے چلی گئیں۔
ادیوا نے کافی کا کپ اٹھایا اور ساتھ ہی موبائل ہاتھ میں پکڑ کر وہ فوٹو گیلری کی تصویریں دیکھنے لگی۔ دیکھتے دیکھتے اسے بہت پرانی یونیورسٹی کی ایک تصویر ملی جس میں اُس نے رائل بلیو شلوار قمیض پہنی تھی اور بال ویسے ہی کھلے ماتھے پہ Fringes۔ وہ اس تصویر کو دیکھتی رہی، یہ اس دن کی تھی جس دن وہ یونیورسٹی کے بعد صفان علی سے پہلی بار اکیلے میں ملی تھی۔ ورنہ جتنی بھی دو چار رسمی ملا قاتیں ہوئیں، وہ ماہا کی موجودگی میں ہوئی تھیں۔
٭٭٭
صفان علی وہیں کافی چین میں اس کا منتظر تھا۔ وہ ڈرائیور کے لیٹ آنے کی وجہ سے پندرہ منٹ لیٹ ہوچکی تھی۔ تھوڑی ہی دیر بعد وہ صفان علی کے سامنے بیٹھی تھی۔ گھبرائی سی مگر اس بار وہ پہلی ملاقات والا کنفیوژن نہیں تھا، کیوں کہ اکثر وہ لوگ فون پر بھی بات کرتے تھے اور میسجز کا بھی تبادلہ ہوتا رہتاتھا۔
”ادیوا عمر! آج صفان علی چاہتے ہیں کہ آپ کوئی بات کریں۔“ وہ بہت شان بے نیازی سے ادیوا سے مخاطب ہوا کہ اس پہ اچانک ادیوا کی ہنسی چھوٹ گئی۔
صفان علی کا sense of Humor بہت اچھا تھا وہ اکثر ادیوا کو بہت خراب موڈ میں بھی ہنسنے پر مجبور کردیتا۔ چاہے جتنی بھی انڈر اسٹینڈنگ (Understanding) ڈیویلپ ہوگئی تھی، مگر وہ اس کی آنکھوں میں دیکھنے سے اب بھی اسی طرح ڈرتی تھی۔
”ادیوا! ایک بات پوچھوں؟“
وہ اثبات میں سر ہلا کر بولی۔
”جی صفان! پوچھیں۔“
”تمھارے نزدیک اسٹیٹس اور سٹینڈر کتنی حثییت رکھتا ہے؟ آئی مین! پیسے کی کیا ویلیو ہے تمھارے لیے؟“
اسے اس کا سوال بہت عجیب لگا، مگر جواب تو دینا تھا۔
”صفان! میرے نزدیک اسٹیٹس،سٹینڈر اور پیسہ کچھ بھی رشتوں سے زیادہ اہم نہیں ہے۔ میرے لیے رشتے نبھانا اور انھیں نکھارنا دنیا کی ہر دولت سے زیادہ اہم ہے۔“
”لیکن پھر بھی میں یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ جن Laxuries کی آپ use to ہو اگر کبھی ان کے بغیر رہنا پڑے، تو کیا آپ رہ پاؤ گی؟“
اب وہ اس کے سوال کا مطلب اچھی طرح سمجھ چکی تھی۔
ادیوا اتنا تو جانتی تھی کہ ایک آؤٹ لٹ منیجر کا Status کیا ہوسکتا ہے وہ قطعاً اس لیول کا نہیں، جو Status عمر حیات کا تھا۔ ادیوا کو محسوس ہوچکا تھا کہ صفان کو کیا بات ڈسٹرب کررہی تھی۔
”صفان! میں نے کبھی خود کو مادی چیزوں کاUse to نہیں کیا۔ میری ماں نے ہمیں شروع سے ہی ایسا ٹرینڈ کیا ہے کہ ہم ہر طرح کے حالات میں ایڈجسٹ کرسکتے ہیں۔ ہم تینوں بہت Flexible ہیں۔ حادی اور اشعر بھائی دونوں ہی اکثر گاؤں رہنے جاتے ہیں، تو کبھی پریشان نہیں ہوتے۔“
صفان علی قدرے مطمئن ہوا۔ اب وہ ادیوا کو کچھ بھی کہتے ہوئے ایٹ لیسٹ ایسا کچھ نہیں سوچے گا،کیوں کہ وہ ادیوا کو سمجھ رہا تھا بہت اچھی طرح۔
”ادیوا! تم ہمیشہ Hot chocolate ہی آڈر کرتی ہو …… لگتا ہے تمھاری کافی سے کچھ خاص نہیں بنتی۔“
”جی! آپ صحیح کہہ رہے ہیں مجھے کافی پسند نہیں۔“
ادیوا مسلسل اس کی آنکھوں کو اپنے چہرے پہ محسوس کرتی رہی۔ ایک دو بار ہمت کرکے اس نے صفان علی کی گہری کالی آنکھوں میں دیکھنا چاہا، مگر اتنی شدید کشش تھی کہ اُسے لگا، صفان علی کے سارے جذبات آنکھوں میں اتر آئے ہیں۔ وہ کچھ بات کرکے اس کی توجہ ہٹانے کی کوشش کرتی، مگر الفاظ تھے کہ زبان سے ادا ہو ہی نہ پاتے تھے۔ وہ خود کو کسی طلسم میں گرفتار ہوتا ہوا محسوس کرنے لگی اور اچانک سے اسے اپنے ہاتھ پہ صفان علی کا ہاتھ محسوس ہوا اس کا وجود یخ برف ہوگیا، جیسے وہ منجمد ہوگئی ہو، کوئی جنبش کوئی حرکت کرنے سے بالکل عاری۔ نظر اٹھا کے دیکھتی، تو شاید موم کی طرح پگھل جاتی۔ انھی جذبات کی کشمکش میں اُسے صفان علی کی آواز سنائی دی۔
”ادیوا! مجھے نہیں پتہ، میں جو تمھارے لیے محسوس کرتا ہوں، وہ تمھارے لیے کوئی اہمیت رکھتا ہے یا نہیں، لیکن میں اتنا ضرور جانتا ہوں کہ جو میں تمھارے لیے محسوس کرتا ہوں، وہ میں کسی اور کے لیے کبھی نہیں کرسکتا۔ میری اوقات، میرا Status تمھارے لائف سٹینڈر سے یکسر کم درجے کا ہے، لیکن میں ایک Self made انسان ہوں، میں چیزوں کو اپنی محنت سے حاصل کرنے کا عادی ہوں۔ جیسا صفان علی تمھارے سامنے اس وقت ہے ایسا اور کسی کے سامنے نہیں ہوتا۔ میں بہت پریکٹیکل انسان ہوں، میرے نزدیک زندگی کی Realities کی زیادہ اہمیت ہے بجائے کہ خوابوں کی دنیا کے۔ یہ پیار محبت کے جذبات اپنے مخصوص ٹائم پر ہوں، تو زیادہ اچھے لگتے ہیں، میں کبھی ان چیزوں میں نہیں پڑا ادیوا! لیکن جس دن سے تم میرے سامنے سے گزری، تمھارا وہ مجھ سے ٹکرانا، بالکل ایسے ہی تھا جیسے تپتے صحرا میں بے موسم بارش کا برس جانا۔ میرے محبت کے بارے میں سارے اندازے غلط نکلے ادیوا……! یہ کبھی بھی پوچھ کر نہیں ہوتی، یہ کبھی بھی نہیں دیکھتی کہ مخصوص ٹائم کیا ہے۔ اسے کوئی غرض نہیں آپ Stableہو میچور ہو یا نہیں ہو…… جو مخصوص ٹائم میں نے محبت کے لیے سوچ رکھا تھا کہ پہلے اپنے آپ کو Stableکروں گاBusiness Setup کروں گا، یہ اس ٹائم سے بہت پہلے ہوگئی ادیوا……!“
وہ مسلسل اس کا ہاتھ تھامے بولتا چلا گیا۔ صفان علی اس قدر Expressive تھا ادیوا کو کبھی گمان تک نہ ہوا۔ وہ اس کی سب باتوں کو اُس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے سُن رہی تھی۔
شاید محبت میں بہت طاقت ہوتی ہے اظہار پہ آجائے تو بہت ہمت آجاتی ہے انسان میں اور وہ اُس کی آنکھوں سے سچا اظہار محسوس کرسکتی تھی۔ اُس کا دل چیخ چیخ کر صفان علی کی محبت کی گواہی دے رہا تھا، وہ سب ایک خواب لگ رہا تھا۔ ادیوا کو زندگی اتنی بڑی خوشی دے گی، اس نے کبھی سوچا بھی نہ تھا۔ اس کا آئیڈیل اُس کے اظہار سے پہلے ہی اقرار کرچکا تھا۔ اس سے بڑھ کر اور کیا تھا اُس کے لیے۔ وہ چاہ کر بھی اُسے نہ کہہ پائی۔
”میں نے تم سے محبت تب سے کی ہے جب سے جذبات کو اپنے اندر پھوٹتے دیکھا، اُن جذبات کی تخلیق سے تحلیل تک کا سارا عمل صفان علی کے پیکر کے گرد گھومتا ہے۔“
وہ چاہتی تو اس کے ہاتھوں کو اور بھی مضبوطی سے تھام لیتی اور اپنے دل کے سارے جذبات اُسی کے قدموں میں بچھا دیتی، مگر وہ صفان علی کو سننا چاہتی تھی۔ وہ اس کے ایک ایک لفظ کی گرویدہ ہوچکی تھی۔ محبت کا حصار کتنا دلفریب ہوتا ہے۔ انسان خود کو دنیا میں سب سے زیادہ محفوظ تصور کرنے لگتا ہے اور ادیوا بھی محبت کے حصار میں آچکی تھی۔
صفان علی نے ادیوا کا ہاتھ تھام لیا تھا۔ اب وہ یہ ہاتھ کبھی نہیں چھوڑنا چاہتا تھا…… کبھی بھی نہیں۔
٭٭٭
ایک دم سے موبائل ہاتھ سے گرا اور وہ چونک گئی۔ آنسو جانے کتنی دیر سے بہہ رہے تھے۔ وہ پھر سے اُسی کرب سے گزر رہی تھی، جو قسمت نے محبت کی آخری نشانی کے طور پر اس کو سونپ دیا تھا۔ کچھ دیر بالکونی میں بیٹھنے کو دل چاہا، تو وہ باہر آکر بیٹھ گئی اور پھر کچھ ہی دیر بعد فجر کی اذان ہونے لگی۔ وہ بہت محو ہوکر اذان سنتی رہی، اس کے دل کو عجیب سا سکون محسوس ہوا، اٹھی اور وضو کرکے نماز پڑھنے لگی۔ ادیوا کو پتہ نہیں کس طرح یہ خیال آیا، مگر کچھ تھا کہ وہ ایک لمحے کو بھی کسی سوچ میں ڈوبے بغیر اللہ کے سامنے جھک گئی۔ کبھی کبھی انسان اتنا خالی ہو جاتا ہے کہ کشکول لے کے رب کے حضور جھکنے سے ہی سکون کی دولت ہاتھ آتی ہے۔ وہ جی بھر کے رونا چاہتی تھی، مگر ہر بار آنسو پی جاتی، لیکن اب جیسے ہی اُس نے رب کے آگے ہاتھ اٹھائے آنسوؤں کی جیسے قطاریں لگ گئی۔ اُس کا دل چاہا کہ پھوٹ پھوٹ کر روئے اپنے اللہ کو اپنے اندر کا حال سنائے، مگر انسان کتنا بے خبر ہے نا ں! اس کا رب تو پہلے سے ہی اس کے اندر آنے والے ہر سونامی سے واقف ہے۔ ادیوا نے ہاتھ اٹھائے اور اس مالک سے دعا مانگنی شروع کی، کیوں کہ آج اس کی حالت واقعی ضبط کی حدیں توڑ چکی تھی۔
”میرے مالک! تو جانتا ہے…… مجھے رول دیا ہے ایک شخص کی چاہ نے، ریزہ ریزہ کردیا ہے یہ وجود، میں اُٹھ کے دو قدم چلوں بھی، تو لڑکھڑاکے گرجاتی ہوں۔ میرے سارے حوصلے فنا ہوچکے ہیں، میرا ضبط ٹوٹ گیا ہے، میرا کرچی کرچی وجود کئی نشستوں میں بکھرا ہے۔ اب تو مجھے اپنی جائے فنا بھی یاد نہیں۔ میرے مالک! مجھے کوئی نشاں دکھا دے، مجھے صبر دے دے، اپنے سہاروں پہ خود کفیل کردے، تو جانتا ہے، تو واقف ہے میں تیرے ہاتھوں کی تخلیق ہوں تو میری ہر ہر رمز سے واقف ہے۔ تو میری تکلیف کی شدت سمجھ سکتا ہے! یا اللہ! میرے حال پہ رحم فرما! تو بہت وراع الوراع ہے تو چاہے تو مجھے سنوار دے اور چاہے تو خاک میں ملا دے۔“
وہ پھوٹ پھوٹ کر روتی رہی۔ لفظ بھی مکمل ادا نہ ہوپاتے، دل تھا کہ سینے سے باہر نکلنے کو تھا۔ ادیوا نے خود کو سنبھالنا چاہا، مگر وہ زارو قطار روتی چلی گئی۔
”بس التجا ہے میرے سوہنے رب! مجھے اپنی محبت عطا کر، میری روح کو اپنا حصار دے دے۔“
حصار کے لفظ پہ ادیوا کی روح ہی کانپ اٹھی۔ انسان کی محبت کا حصار روح پر مسلط ہو جائے، تو اللہ کے سامنے جھکتے ہوئے روحیں کانپ ہی جاتی ہیں۔ روح پر غیر اللہ کاقبضہ ہو، تو قبضہ دینے والا بھی بھگتا ہے اور قبضہ لینے والا بھی۔۔لیکن دل سے ادا کی گئی نماز کبھی سکون سے خالی نہیں ہوتی اور سچے مانگنے والوں کو اللہ کبھی خالی ہاتھ نہیں لوٹاتا۔
اب اسے بہت سکون محسوس ہو رہا تھا۔ اللہ کے سامنے رونا اور دل ہلکا کرنا بالکل ایسے ہی ہوتا ہے، جیسے عدالت میں کھڑے ہوکر جج کو اپنی صفائی میں کچھ کہنا، پھر فیصلہ چاہے آپ کے حق میں ہو یا نہ ہو ……آپ کے ضمیر پہ کوئی بوجھ نہیں رہتا۔
بہت عرصہ بعد وہ اتنے سکون سے سوئی تھی، دن کے 12 بج چکے جب وہ کمرے سے باہر گئی، تو سب لاؤنج میں بیٹھے اشعر سے باتوں میں مصروف تھے۔
”ارے بھائی! آپ آگئے؟“ وہ فوراً اشعر کی طرف بڑھی۔
”جی السلام علیکم! میری چڑیا! میں گیا تھا آپ کے روم میں۔“ اشعر نے پیار سے بہن کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔ ”پر آپ اتنی گہری نیند میں تھیں کہ میں نے اٹھانا مناسب نہیں سمجھا۔“
”بھائی! آپ کی میٹنگز کیسی رہیں؟“
”بس یہی بتا رہا تھا ابھی پاپا کو، سب الحمد اللہ بہت اچھا رہا۔ آؤ بیٹھو۔“
مسز عمر نے فوراً ادیوا کے لیے ناشہ لگوایا اور پھر سب شجاع ماموں کی آمد کے لیے پلانگنز کرنے لگے۔
آج شام میں مال روڈ پرواقع Blue Logon میں انھیں عمر حیات کے دوست زمان نے ڈنر پہ انوائیٹ کیا تھا۔ ادیوا بھی ان کے ہمراہ تھی۔ اب وہ کوشش کرتی رہی کہ جتنا خوش دکھائی دے سکے، دے۔ خیر ڈنر سے فری ہوکرسب نے مال روڈ پر کچھ دیر واک کی۔
اشعر اور حادی دونوں ہی ادیوا کے ایک بائیں اور ایک دائیں چلتے رہے اور یہ وہ بچپن سے کرنے کے عادی تھے۔ ادیوا خود کو کسی سلطنت کی شہزادی سمجھتی تھی۔ بھائیوں کا اتنا پیار ملے، تو بہنیں ویسے ہی خود کو دنیا سے الگ سمجھنے لگتی ہیں۔ پورے راستے وہ کبھی کسی نہ کسی طریقے سے ادیوا کو ہنسانے کی کوشش کرتے رہے۔ ادیوا نے بھی بھائیوں کو مایوس نہیں ہونے دیا۔ کئی موقع کئی منظر ایسے تھے کہ اسے اپنے ماضی کی تمازتیں یاد آئی اور وہ اندر ہی اندر گھٹتی رہی، مگر بھائیوں کا پیار ہی اتنا تھا کہ ان کی ان تھک کوششوں کو وہ کسی بری یاد کی نظر تو بالکل نہیں کرنا چاہتی تھی۔ ایک حقیقت یہ بھی تھی کہ اگر دن میں وہ ایک قدم آگے بڑھاتی اپنے ماضی سے نکلتی، تو رات میں دس قدم واپس لوٹ آتی۔ کسی طلسم کا اثر اتنی جلدی تو پیچھا نہیں چھوڑتا اور وہ بھی محبت کا…… اور محبت بھی ایسی، جو کسی سونامی طوفان کی طرح سب کچھ بہا کر لے گئی ہو۔
ریسٹ ہاؤس واپس آکر سب کچھ دیر لاؤنج میں بیٹھے اور پھر اپنے کمروں میں آرام کے لیے چلے گئے۔ ادیوا کمرے کی دیوار سے لگ کر بالکونی کے دروازے سے باہر دیکھ رہی تھی۔ وہی مدھم سی روشنی، جو لان میں اکثر جلتی تھی۔ وہ ٹکٹکی باندھے اسے دیکھتی رہی۔
٭٭٭
وہ شام جب صفان علی اسے یونیورسٹی کے باہر منتظر ملا، اس کے بعد کافی دیر وہ اس کے ساتھ رہی۔ وہ بہت دیر تک واک کرتے رہے فٹ پاتھ کی سٹریٹ لائٹس بھی اسی طرح مدھم تھی۔
”ادیوا! میں تم سے کچھ کہنا چاہتا ہوں ……“
صفان علی نے ادیوا کو اسی محبت بھرے انداز میں دیکھتے ہوئے کہا۔
”تم میرے لیے کسی معصوم بچے کی چاند کی خواہئش کی طرح ہو، جس کے بہلنے کے لیے دلاسہ کافی نہیں ہوتا۔ جب تک کہ جھوٹی أٓس نہ دلائی جائے۔ادیوا! میں جانتا ہوں کہ میری اتنی اوقات نہیں، جو میں مانگنے جا رہا ہوں، لیکن پھر بھی میں چاہتا ہوں کہ میں اپنی امی کو تمھارے گھر بھیجوں۔“
ادیوا کا دل چاہا کہ وہیں اس کے قدموں میں بیٹھ جائے اوراس محبت پہ سے دل و جان وار دے۔۔ وہ پوری کائنات سمیٹ کے صفان علی کے قدموں میں رکھ دے اور کہہ دے۔
”ادیوا عمر تمھارے علاوہ کسی اور کی ہوہی نہیں سکتی، میری کائنات تم! میری ذات تم میری ہستی کچھ بھی نہیں صفان علی کے بغیر۔“
جانے کیا کچھ سوچتی چلی گئی، مگر کچھ نہ کہہ پائی۔
کبھی کبھی Expressive نہ ہونا بھی کتنی تکلیف کا باعث ہوتا ہے۔ آپ اپنی جان سے پیارے انسان کے آگے بھی اپنے دل کا حال کھول کر نہیں رکھ سکتے۔
اس نے ادیوا کو پھر سے مخاطب کیا، جو کہ کافی دیر سے اپنے سوال کے جواب کا منتظر تھا۔
”میں نے کچھ پوچھا تھا؟“
ادیوا نے شرما کے نظریں جھکا دی اور کہا۔
”فون پر بتا دے گی۔“
اب وہ گھر آئی، تو ماما جانی کچن میں کام کررہی تھیں۔ ادیوا نے جاتے ہی ماں کو ڈھیر سارا پیار کیا اور اسے دیکھ کے بخوبی اندازہ کیا جاسکتا تھا کہ اگر لوگ خوشی سے پاگل ہوتے، تو وہ کیسے لگتے۔
”ماما جانی! مجھے آپ سے بات کرنی ہے۔“
”بولو بیٹا! میری جان کیا ہوا؟ آج کیا بات ہے میری بیٹی ماشاء اللہ بہت خوش ہے۔“
”ماما جانی! وہ مجھے کسی کو ملاوانا ہے آپ سے،آپ پلیز! ان سے مل لیں۔“
ادیوا کے چہرے پہ صاف صاف تحریر تھا کہ وہ کسی خاص انسان سے ملوانا چاہتی ہے۔
اور پھر ماں تو صورت سے ہی پہچان جاتی ہے اپنے بچوں کو کہ ان کے چہرے پہ خوشی کا کون سا رنگ ہے۔
مسز عمر انتہائی خوش تھیں۔ وہ تو بس اپنی بچی کی خوشیوں کے لیے کچھ بھی کر سکتی تھیں۔ ادیوا کے چہرے کی خوشی ہی اتنی بڑی گارنٹی تھی کہ انھیں ادیوا سے باقی رسمی باتیں پوچھنا مناسب نہ لگا۔ انھیں ادیوا کی پسند پر بہت یقین تھا اگر اس نے کسی کو پسند کیا ہے، تو وہ کوئی عام انسان ہو ہی نہیں سکتا۔
صفان کی چھٹی چوں کہ اتوار کو ہوتی تھی، اس لیے انھیں اتوار کو کھانے پہ انوائیٹ کیا گیا، حادی، اشعر اور عمر حیات سب دل وجان سے ادیوا کی خوشیوں کو ویلکم کرنے کے لیے بے تاب کھڑے تھے۔
کچھ ہی دیر میں ٹیکسی رکی اور ڈور بیل ہوئی۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...