محمد رفیع الدین مجاہد
محمد رفیع الدین مجاہد ۱۵؍ جولائی کو قصبہ پنچر ضلع اکولہ میں پیدا ہوئے۔ ایم اے (اردو) اور بی ایڈ کرنے کے بعد اکولہ میں تدریسی خدمات انجام دے رہے ہیں۔
ادبی مضامین، تبصرے اور بچوں کے لئے کہانیاں لکھنا ان کے ادبی مشاغل میں شامل ہیں۔ انھوں نے مزاحیہ مضامین بھی تحریر کئے جو اخبارات و رسائل میں شائع ہو چکے ہیں۔ ان کے مزاحیہ مضامین کا مجموعہ زیرِ ترتیب ہے
رابطہ: 8087382570
حلال خور
محمد رفیع الدین مجاہد
معاف کیجیے گا! دنیا رنگ برنگی ہے۔ شخصیات کے اعتبار سے بھی اور خصوصیت کے اعتبار سے بھی۔ اسی ضمن میں کہہ رہا ہوں کہ اگر حرام خور ہو سکتا ہے۔ تو کوئی حلال خور کیوں نہیں ہو سکتا؟ آپ کہیں گے کہ دونوں میں تو فرق ہے۔ آپ کی بات بجا ہے۔ بے جا نہیں۔ لیکن بات فرق کی نہیں ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ حرام خور، حرام خور ہوتا ہے۔ اور حلال خور، حلال خور ہوتا ہے۔ مگر یہ بھی تو ایک بحث ہے کہ کیا کوئی نصف بھی ہوتا ہے؟
آئیے اصل مقصد کی طرف جو حلال خور سے منسوب ہے۔ بات ان دِنوں کی ہے۔ جب چاروں طرف شدت کی سردی پڑ رہی تھی۔ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں چل رہی تھیں۔ نہیں بہہ رہی تھیں کہنا زیادہ مناسب رہے گا۔ کیوں کہ ہوا ٹھنڈی ہو یا گرم پھر معتدل، ہوا بہہ ہی سکتی ہے چل نہیں سکتی۔ اس کے پاؤں جو نہیں ہوتے (ہے نا مزے کی بات) ٹھنڈ سے لوگوں کا بُرا حال تھا ویسے ماضی اور مستقبل میں بھی کوئی خاص فرق نہیں تھا(لوگوں کے یا سردی کے خود ہی سمجھ لیجیے!) ایک جگہ آگ کا الاؤ روشن تھا اور لوگ اسے گھیرے یوں بیٹھے تھے جیسے مکھیاں گُڑ کو گھیر کر اور چپک کر بیٹھتی ہیں۔ طرح طرح کے لوگ تھے اور طرح طرح کی باتیں ہو رہی تھیں۔ وہ بھی ان لوگوں میں شامل ہو گیا۔ (وہ یعنی ہمارے اس مضمون کا عنوان۔ اتفاق سے وہ گوشت پوست کا ہے۔) کتنی ٹھنڈ لگ رہی ہے۔ ایک آدمی دونوں ہتھیلیوں کو آپس میں رگڑتے ہوئے بولا۔ ٹھنڈ یا سردی دوسرے نے پوچھا۔ سردی ہی کہنا ٹھیک ہو گا۔ تیسرے نے جواب دیا۔ لگ رہی ہے یا بج رہی ہے؟ چوتھے نے جاننا چاہا۔ اب ٹھنڈ لگ رہی ہے یا بج رہی ہے اور سردی لگ رہی ہے یا بج رہی ہے کہ علاوہ اور کیا کہا جا سکتا ہے؟ وہ پہلی دفعہ ان لوگوں کی باتوں میں بھی شامل ہو گیا۔ اجنبی تھا اور ڈر رہا تھا کہ کہیں اسے یہاں سے بھگا نہ دیا جائے۔ ہاں بھلا اور کیا کہا جا سکتا ہے! کسی نے گویا سبھوں کے دلوں کی بات کہہ دی۔ سب لوگ اسی طرف دیکھنے لگے۔ میرے خیال سے سردی محسوس ہو رہی ہے۔ یا ٹھنڈ محسوس ہو رہی ہے کہنا زیادہ مناسب ہو گا۔ اس نے کہا۔ ہاں بابو! بالکل ٹھیک کہا۔ بھلے آدمی معلوم ہوتے ہو۔ کیا نام ہے تمھارا؟ ایک بوڑھے نے پوچھا۔ جی حلال خور۔ کیا!!! سبھوں کو حیرت سے بھی زیادہ حیرت کا شدید جھٹکا لگا۔ یہ کیسا نام ہے بھئی؟ ایک بوڑھے نے آنکھوں کو مسلتے ہوئے پوچھا۔ حیرت کے عالم میں غوطہ خوری کی وجہ سے آنکھوں پر لگا چشمہ اتارنا بھی مناسب نہیں سمجھا تھا۔ کیسا ہے یہ تو مجھے نہیں معلوم۔ مگر ہے میرا نام ایسا ہی اس نے گویا اپنے ساتھ اپنے نام کا بھی تعارف کروا دیا۔ خیر، جیسا بھی نام ہو۔ ہمیں اس سے کیا! یہ بتاؤ کہ آخر اتنی سردی محسوس کیوں ہو رہی ہے؟ ایک نے پھر سے سوال داغا۔ کیوں کہ اتنی گرمی جو محسوس نہیں ہو رہی ہے! اس نے جواب دے کر سبھوں کے چہروں پر مسکراہٹ بکھیر دی۔ اس بیچ آگ الاؤ سُست پڑ رہا تھا۔ شاید باتوں باتوں میں کسی کا دھیان اس طرف نہیں گیا تھا۔ موسم سردی کا ہو گا تو ظاہر بات ہے کہ سردی ہی پڑے گی نا! کسی کا دم دار بات کہی۔ وہ تو ٹھیک ہے۔ اس کے علاوہ کل پانی بھی تو آیا تھا نا! میرا بیٹا جو ایک انگریزی اسکول میں پڑھتا ہے۔ کھڑ کی میں سے چلا چلا کر کہہ رہا تھا۔ اِٹس رے ننگ۔ اِٹس رے ننگ۔ ایک پڑھے لکھے سابق اردو اسکول کے ثا بت ہیڈ ماسٹر صاحب نے بارش کا ذکر کر دیا۔ بارش ہو رہی ہے۔ بارش ہو رہی ہے۔ اس نے کسی سے پوچھے بغیر انگریزی کا اردو میں ترجمہ کر دیا۔ کیا! پھر تو الاؤ کی آگ ٹھنڈی ہو جائے گی۔ اور ہم بھی گیلے ہو جائے گے۔ چلو اپنے اپنے گھروں پر چلتے ہیں۔ ایک بوڑھے نے اٹھتے ہوئے سبھوں کو اٹھانا اور اٹھا کر بھگانا چاہا۔ ارے ابھی نہیں کل۔ کل بارش ہو رہی تھی۔ ایسا ان کا پوتا جسے وہ بیٹا سمجھتے ہیں کہہ رہا تھا۔ ایک نوجوان نے زور دار آواز دی اور اشاروں کے ساتھ سمجھایا۔ وہ بوڑھا شانت ہو گیا۔ پھر سبھی شانت ہو گئے اور پتہ نہیں کیوں؟ خاموش بھی ہو گئے کوئی لکڑی سے انگارے اِدھر اُدھر کرنے لگا تو کوئی بار بار نہارنے لگا۔ اور وہ بھی ایک دوسرے کو۔
ارے بھائی یہ آگ تو بجھی جا رہی ہے۔ اس کا کچھ انتظام کرو! اس نے گفتگو کے سلسلے کو زندہ کرنا مناسب خیال کیا۔ سبھوں نے اپنی اپنی ساس لا کر روشن کیا تھا بھیّا! ایک آپ ہی حلال خور تھے جو بغیر ساس کے گھس بیٹھے تھے۔ گھس بیٹھے، کو کہنے والے نے اتنا گھِس کر کہا جیسے بے چارہ حلال خور واقعی گھس پیٹی ہے جو فوج کی موجودگی میں بھی ملک میں گھس آتے ہیں۔ ساس کو آگ میں ڈالنے کا ذکر کر کے حلال خور کو مشکل میں ڈال کر خوفزدہ کر دیا تھا۔ اور فرار ہونے کے واسطے بغلیں جھانک رہا تھا تاکہ پر تول سکے۔ ان کا مطلب اصلی ساس، جو بیوی کی ماں ہوتی ہے۔ سے نہیں بابو! یہاں کی بولی میں سب لوگ اپنا اپنا ھن کوڑا کرکٹ جمع کر کے لاتے ہیں اور اسے آگ میں ڈال کر اس طرح جلاتے ہیں اور اسے ساس لانا کہا جاتا ہے۔ شت لہر چل رہی ہے نا! ایک بوڑھے نے بڑے پیار سے سمجھایا تو اس نے بھی راحت کی سانس لی کہ ساس کو لانے سے جو بچ گیا تھا۔ اس عمر میں تمھیں اتنی رات کو کڑاکے کی ٹھنڈ میں جاگنے اور ساس کا بچاؤ کرنے کی کیا ضرورت آپڑی کاکا! ایک من چلے نے چٹکی لی اور سب ہنس پڑے۔ اس میں ضرورت والی کون سی بات ہے رے! میری گھر والی سسرال گئی ہے اس لیے میں یہاں بیٹھ کر جاگ رہا ہوں۔ بوڑھے نے جواب دیا۔
عورت میکے جاتی ہے۔ یہ سنا تھا، لیکن سسرال جاتی ہے پہلی مرتبہ سن وہ ہوں۔ اسی من چلے نے اعتراضاً کہا۔ اصل میں۔ مَیں رہتا ہوں اپنی سسرال میں گھر داماد بن کر اب میری گھر والی کو کچھ کام ہو گا تو وہ چلی گئی۔ اس کے ساس سسر سے ملنے۔ اس بات کو اتنا لمبا بلکہ اس قدر لمبا کھینچنے کی کیا تک ہے بھئی؟ کیوں؟ درست کہہ رہا ہوں نا میں! کیا نام ہے تمھارا بابو؟ جی بالکل درست فرمایا۔ ویسے یہاں بیٹھ کر تاپ کرنے یا آگ تاپنے یا پھر سینکنے والی بات کو بھی اتنا زیادہ بلکہ مزید لمبا کھینچنے کی اب کوئی ضرورت نہیں محسوس کی جانی چاہیے اور اپنے گھروں میں جا کر گرما گرم چائے پی کر موٹی روئی کی گودڑی اوڑھ کر خراٹوں سے ہم آغوش ہو جانا چاہیے۔ اس نے لمبائی کو گھٹانے کی چاہ میں مزید لمبا کرتے ہوئے کہا اور سب اُٹھ کھڑے ہوئے۔ چلتے چلتے ہر ایک یہ سمجھ رہا ہو گا کہ وہ ہم سے کسی ایک کے ہاں مہمان ہے اور اسی کے ساتھ جا رہے۔ تاکہ حلال خور کی ہوا خوری پر کوئی حرف نہ آئے۔