A pen went scribbling along ,when it tried to write love.. it broke (Rumi)
پامیر نے کافی دیر کے تک فون پر کسی سے بات کی تھی ۔ جب کمرے میں واپس آیا تو ارج ابھی بھی صوفہ پر ہی بیٹھی تھی تم ابھی تک سوئی نہیں ۔ پامیر نے گھڑی پر وقت دیکھ کر کہا جو رات کے دو بجا رہی تھی ۔
"نہیں ! ایسی صورتحال میں نیند کس کو آ سکتی ہے ۔” ارج ہلکی آواز میں بولی ۔
"تھوڑا سا سو جاؤ نہیں تو ایسے بیمار بھی ہو۔ سکتی ہو ۔ اور اتنی ٹنشن مت لو ۔انشااللہ سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا ۔” پامیر بیٹھتے ہوئے بولا
"وہ لوگ کون ہیں پامیر ۔اور اب یہ مت کہنا ۔کے میں کیسے جان سکتا ہون ۔ یہ وہ آئیں بائیں کرنے کی کوشش مت کرنا ۔” ارج اپنا رخ پوری طرح اس کی طرف موڑ کر بولی
"میں بھی تمھیں بتانا چاہتا ہون ارج سب کچھ مگر ۔ حالات اور واقعات ہی ایسے ہو جاتے ہیں کے میری بات درمیان میں ہی رہ جاتی ہے ۔ "پامیر نے ارج کی بات کا جواب دیتے ہوئے کہا
"اچھا اب زیادہ بہانے مت بناؤ ۔ سب بتاؤ ابھی کے ابھی "۔ ارج نے سر صوفہ پر پیچھے ٹیکتے ہوئے کہا ۔
"ارج رات کا وقت ہے صبح ہم دونو ن کو کام کے لئے جانا ہے ۔”
اس طرح تو نیند پوری نہیں ہو گی "۔ پامیر بولا ۔
"تو نیند تو کب کی اڑ گئی ہے ۔ پامیر اگر کوئی اس طرح گھر پر حملہ کر سکتا ہے تو ہم دونوں کا بھی گھر سے باہر رہنا خطرے سے خالی نہیں ہے ۔کم سے کم مجھے پتا تو ہو کے خطرہ ھو کس چیز سے ہمیں "۔ ارج اپنی بات کہ کر خاموش ہو گئی ۔ اور اپنا رخ کھڑکی کی طرف موڑا ۔ کمرے میں مدہم روشنی کی وجہ سے چاند کی روشنی کھڑکی سے اندر آتی دکھائی دی ۔ اس اندھیرے میں بھی روشنی نے اپنا راستہ بنا ہی لیا تھا ۔
کچھ دیر خاموشی کے گزرے ۔کوئی جواب نا پا کر ارج نے نے واپس موڑ کر پامیر کی طرف دیکھا تھا ۔یوں لگتا تھا کے وہ کوئی بات کہنا چاہ رہا پر کہ نہیں پا رہا ۔
"ارج ۔” پامیر کی آواز دکھ سے لبریز تھی ۔ ارج نے غور کیا تو معلوم پڑا کے شائد وہ رو بھی رہا تھا ۔
پامیر ارج نے اٹھ کر اس کے پاس آنا چاہا
"وہیں پر ہی رہو ارج ۔ پلیز "۔ پامیر بامشکل بولا
ارج خاموشی سے واپس بیٹھ گئے تھی ۔ اب پامیر کے جواب کی منتظر تھی ۔
"ارج تم جاننا چاہتی ہو نا پامیر کے بارے میں تو سنو ۔ میں تمہارے ماضی کا سن کر اس لئے نہیں رویا تھا کے مجھے تم سے کوئی ہمدردی تھی ۔ مجھے اس چیز کی خوشی تھی کے تم نے حالات کا مقابلہ کیا تھا ۔ دکھ تو مجھے اپنے آپ پر ہوا تھا ۔ پتا ہے ارج کیوں ۔سننا چاہوگی ۔ تو سنو ۔ ارج ۔ پامیر ماضی میں ایک گنڈا تھا بدمعاش تھا ۔”
” اور سب سے بڑھ کے پتا ہے کیا برا تھا پامیر میں ۔کے وہ ایک ریپیسٹ تھا ۔ "پامیر کی آواز آنسوؤں کی وجہ سے بھاری تھی ۔ پر ارج کے سر پر تو کسی نے بم پھوڑا تھا ۔کچھ دیر کے لئے تو اس کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ہی مفلوج ہو کر رہ گئی ۔ وہ سن سی وہاں بیٹھی ہی رہ گئی ۔
"پامیر !! "وہ بامشکل بولی ۔
"ہان ارج کیا ہوا ۔اچھی نہیں نا لگی ۔ میری ماضی کی داستان ۔ میں میں اور سناتا ہون تم پوری سنو ۔” پامیر کسی سائیکو کی طرح بولا تھا ۔وہ اپنے ہوش حواس میں نہیں لگ رہا تھا ۔
"پامیر چھوٹا سا بچا تھا ۔ پامیر کی ماں کو اس کے باپ نے آنکھوں کے سامنے مار ا تھا ۔پر تب میرا نام پامیر نہیں لوگن تھا ۔ اس کے باپ نے لوگن کی ماں کو جسم فروشی پر مجبور کیا ۔ ”
پا میر یوں بتا رہا تھا جیسے کسی دوسرے انسان کے بارے میں بات کر رہا ہو ۔
"تب لوگن محض اٹھ سال کا تھا ۔ پھیر جب اس کے باپ کا کام نا چلا ۔ ڈرگز اور کلبینگ کے لئے پیسے نا ملے تو اپنی اولاد ہی بچ ڈالی ۔” پامیر نے اتنا کہ کر ایک زور دار قہقہ لگایا
"تمھیں پتا ہے ارج وہ لوگن سے نفرت کرتا تھا ۔ کہ لوگن کی ماں بد چلن ہے ۔ جبکہ یہ جھوٹ تھا بلکل سفید جھوٹ کوئی بھی دیکھ کر بتا سکتا تھالوگن کس کا بیٹا ہے خیر ۔ تو ہاں کہاں تھے ہم ۔ ”
پامیر بولا
ہان تو ۔ اس نے لوگن کو بیچ دیا ۔ ہیومن ٹریفکرز کے ہاتھوں ۔ اور پھیر انہوں نے لوگن کو آلہ کار کے طور پی استعمال کیا ۔ اسے گنڈا بدمعاش بنانے کی ٹرننگ دینے لگے ”
"لوگن نے پہلی بار گولی دس سال کی عمر میں چلائی ۔ غصہ اس میں کوٹ کوٹ کر بھرا تھا ۔
جہاں اسے رکھا گیا وہاں ہر طرح کی آزادی تھی ۔ ہر طرح سے مطلب ہر طرح سے ۔ فحشی ، شراب و شباب کی محفلیں لگتیں تھیں ۔
پھیر جب لوگن کچھ بڑا ہوا تو اسے لڑکیوں کی ٹریفکینگ پر مامور کیا گیا ۔ وہ چیختین چلاتی پر لوگن نے اپنے کان بند کر لئے تھے اسے یہی سب تو سمجھایا گیا تھا ۔
اور وہاں لڑکیوں کو مارا پیٹا جاتا تھا ۔ اور اس گینگ میں بس مرد ہی نہیں عورتیں بھی شامل تھیں ۔ ایسے لوگ جب اچھائی کا راستہ بھول جایئں جب ان کے دل کالے ہو جایئں تو وہ ہر طرح کی برائی کو پاندنے کی کوشش کرتے ہیں ۔
یہ لوگن تکریبا چوبیس سال تک لوگن کی زندگی کا ایسے ہی رہی ۔اور یہ تو بتانا میں بھول گیا ۔ سب کو ایک ایک ٹائٹل ملتا تھا ۔ اور لوگن ۔ کا ٹائٹل تھا serpent مطلب سانپ ۔ لوگن کی شکل دیکھ کر ہی اس سے دور بھاگنے کو دل کرا ہے کانوں میں بالیاں تھیں ۔ آدھے چہرے پر سانپ نما ٹاٹو تھا ۔ لوگن نے کبھی اچھا بننا سکھا ہی نہیں تھا ۔ ارج جتنا برا سوچ سکتی ہو سوچو لوگن تمہاری سوچ سے بھی زیادہ برا رہا ہے ۔ وقت گزرا اور ایک سولہ سترہ سالہ لڑکا بھی لوگن کے ساتھ کام کرنے لگ پڑا ۔ ”
پامیر کچھ دیر جیسے یہ سب بولنا اس کے بس سے باہر تھا ۔ شائد یہ اس کے ضبط کی انتہا تھی ۔
تم جانتی ہو اس کا نام کیا تھا ۔ پامیر ۔۔ پامیر نام تھا ۔ وہ لوگن کو شراب پینے سے روکتا تھا ۔ فحشی کی محفلوں کا دلدادا بھی نا تھا ۔ عجیب شخص تھا وہ بھی ۔ مسلمان تھا ۔ اس میں انسانیت اب بھی زندہ تھی وہ وہاں نہیں رہنا چاہتا تھا ۔ ورنہ نفس کی بھوک تو جانتی ہی ہو ۔ ہوس پیسے کی ، کسی کی عزت مٹی میں ملانے کی ہوس جس کے پیچھے ایک بار ایسی ہوس پڑھ جائے آہستہ آہستہ انسانیت کو ختم کر کے ہی چھوڑتی ہے ۔ پتا ہے اس نے لوگن سے کیا کہا ۔”
"کے اگر ان لڑکیوں کی جگہ لوگن ہو تو ۔ پامیر کے الفاظ کسی ہتھوڑا کی طرح پڑے تھے ۔ لوگن۔ کے دماغ پر ”
ان لڑکیوں کی جگہ لوگن کو اپنی مان نظر آئی سٹفنی نام تھا اس کی ماں کا ۔ وہ جس بھی لڑکی کو دیکھتا اس کی ماں کا چہرہ ہوتا ۔ جیسے اپنے باپ کی جگہ لوگن خود کھڑا ہو۔ اور زہر ان لڑکیوں کی نس نس میں ڈال رہا ہو تکلیف نے غصے نے پہلے پہل اس کے ذہن کا محاصرہ کیا لیکن پھیر دھند جھٹی تو کچھ سوچنے کے قابل ہوا ۔اس نیں اور اس کے باپ میں کیا فرق بچا تھا شائد رتی بھر بھی نہیں ۔ وقت گزرا اور
لوگن میں تبدیلی انے لگی ۔ ”
شراب اسے زہر کا پیالہ لگنے لگی ۔ شباب نے اس کی آنکھوں اور ذہن کو بھا نا چھوڑ دیا ۔
چوبیس سال کی عمر میں اسے ایک جگہ ڈیل کرنے کے لئے بھجا گیا .ان چیزوں سے دل اٹھ گیا تھا۔ خیر ڈیل فائنل ہوئی اور لوگن واپس آ گیا ۔ کچھ دن بعد پتا چلا کے کوئی گھاپلا ہوا ہے ۔ اور ڈیل مقامی ایجنسی اور پولیس کو پتا چل گیا ۔ الزام ۔”
۔ پامیر کی آواز بھرا گئی
” الزام ۔۔پامیر پر لگا ۔ اور ۔۔۔ اور پامیر پر گولی چلانے کا لوگن کو کہا گیا ۔ کوئی چیز لوگن کو دی گئے وہ ڈرگز پہلے بھی دیں جاتیں تھیں پر اس بار مقدار زیادہ تھی ۔ ان سے انسان کنفیوژن میں مبتلا ہو جاتا ہو ۔ غصہ آتا ہے بغیر کسی وجہ کے ۔ اور کہا گیا کے "اگر تم اس گولی سے یہ کام ختم نہیں کرو تو اور بھی درد ناک طریقے ہیں "”ان کے پاس خیر لوگن نے پامیر پر گولی چلا دی ۔ اور اپنا دوست کہو کھو چکا تھا ”
لوگن نے وقت کے ساتھ پتا لگا لیا تھا کے یہ سب کس نے کیا تھا ۔ وہ خود کو فالکن کہتے ہیں ۔ لیکن یہ لوگ ہیومن ٹریفکرز کے خلاف کام کرتے ہیں ۔ ان کے لوگ گینگ کے اندر بھی پائے جاتے ہیں لیکن ان کو بھی نہیں جانتا کے یہ لوگ کون ہیں کہان ہے ۔ ان کے ہیڈ کوارٹر کا یا کسی آفس کا آج تک پتا نہیں نہیں لگا ۔ مگر لوگن نے پتا لگا لیا کچھ لوگوں کا ۔
اور وہاں سے اندر کی معلومات اکٹھی کرنے لگا اور وقت کے ساتھ فالکن تک پہنچانے لگا ۔اس گینگ کی جڑ تک پہنچنا تھا ۔وقت کم تھا ۔ میرے ساتھ اور بھی لوگ تھے ۔ پرسرپینٹ اپنے کام کا ماہر تھا ۔ ایک دیں گینگ کا ہیڈ اادھر ہی تھا ۔ حملہ ہوا ان کی آدھی برانچز پہلے ہی تباہ ہو چکی تھیں ۔
لوگن نے وہاں سے نکلنے کے بعد اپنا نام بدلا جب وہ چببیس سال کا ہوا ۔ مگر پامیر کی باتیں اب بھی اس کے ذھن میں تھیں اس نے اسلام کے بارے میں جاننا شروع کیا ۔ کوئی اس دنیا میں بے مقصد نہیں ہوتا ۔ سب سے بڑھ کر جو عزت عورت کو دی گئے ۔ ہر انسان کو عزت دی گئے ۔ مایوسی گناہ ہے ۔ اب جب کہ لوگن کا نام پامیر تا تو اس نے مایوس ہونا چھوڑ دیا ۔ ہان !! اس برے کام کئے تھے مگر اللہ نے اسے زندگی سدھارنے کا موقع دیا ۔ جس کو اس نے اپنا لیا ۔” پامیر روکا ۔
"میں جانتا ہون میں بہت غلط تھا میں نے بہت غلط کام کئے ان کے لئے جتنا معافی مانگوں کم ہے مگر مایوسی گناہ ہے ۔کچھ عرصہ اٹلی رہنے کے بعد اسپین چلا گیا ۔” وہاں سے پھر ترکی کا رخ کیا اور یہاں کا ہی ہو کر رہ گیا ۔
پامیر نے بات ختم کی ۔آنکھوں سامنے دیوار کو دیکھ رہیں تھی ۔ کچھ تواقف کے بعد اس نے اپنی نظریں ارج کی طرف پھری ۔
"کچھ بولو گی نہیں ؟ "پامیر نے دکھی دل کے ساتھ اس کی طرف دیکھا ۔ جو بلکل سن بیٹھی تھی ۔
"مجھے پتا ہے میں بہت برا ہوں تم مجھ سے نفرت مت کرنا ارج ۔ ارج ۔۔۔ کیا تم ۔۔ تم مجھے چھوڑ کے چلی جاؤ گی ۔” پامیر نے کس طرح یہ الفاظ بولے تھے یہ وہی جانتا تھا ۔
"ارج ۔”۔ ارج اب کے اس کی آواز کافی اونچی تھی ۔ "ارج کچھ تو بولو ۔ مجھے برا بھلا کہو ۔ ارج ۔” ارج کے کچھ بولنے پر پامیر تکریبا چلایا ۔
"میں کیا بولوں "۔ ارج آہستہ سا بولی ۔
"کچھ بھی ۔ کیا مجھے چھوڑ کے چلی جاؤ گی ؟ "پامیر نے پھر سے بولا
جس پر ارج نے پاگلوں کی طرح قہقہ لگایا۔”نہیں پا میر میرا نہیں خیال تم برے ہو یا میں تمھیں چھوڑ کر جا سکوں گی تم مجھے پتا نہیں کیوں معصوم لگتے ہو ۔ جبکہ تم نے کتنا برا کیا مگر تمھیں جب اچھائی کا راستہ ملا تو تم نے چن لیا لیکن میں نے تو جانتے بوجھتے اندھے گنوئے میں چھلانگ لگا دی ۔ میری اماں روز کہتیں تھی ۔ عورت کی عزت اس کی شرم و حیا سب سے بڑا زیور ہے میں نے کبھی نا سنا ۔ تمھیں پتا تو ہو گا ہی کے ارج کا نکاح شارق سے ہو چکا تھا ۔ لیکن یہ سب ۔۔۔” ارج نے روتے ہوئے کہا ۔
"یہ سب کرنے کے بعد طلاق دے دی ۔ کچھ ہوش تھا اس وقت ۔ اور اس کی تصدیق پاگل خانے سے ملنے والے طلاق کے پپیرز سے ہو گئی ۔ اور ایک بار عدالت کے باہر بھی۔ وقت گزرتا رہا ۔ اور زندگی تلخ سے تلخ ہو گئی ۔ کیونکہ جو ارج نے کیا تھا پامیر وہ اس کو سکھایا نہیں گیا تھا ارج نے خود اپنے ساتھ یہ سب کیا تھا ۔ جبکہ تم تو بڑے ہی اسی جگہ پر ہوئےتم ظالم ہو کے بھی مظلوم ہو اور ارج مظلوم ہو کے بھی ظالم ہے ” ۔ ارج نے بات ختم کر کے اپنا سر پیچھے ٹیک لیا تھا ۔
"تو مطلب تم مجھے چھوڑ کر نہیں جاؤ گی ۔ ہے نا ۔” پامیر نے پھر سے پوچھا ۔
"نہیں میں نہیں جا رہی پامیر ۔” ارج اس کے دوبارہ بولنے پر بولی
"مطلب تم واقعی ہی مجھے نہیں چھوڑ کر جاؤ گی ۔” پامیر حیرانی سے اس کا چہرہ دیکھ رہا تھا ۔
"نہیں میں نہیں جا رہی مگر جو ایک بار اور پوچھا نا تو اس بات پر چھوڑ کر چلی جاؤں گی "۔ ارج نے کہ کر بات ختم کر دی ۔
"تو تمھیں میرے ماضی سے کوئی مسلہ نہیں ہے ۔ "پا میر نے تصدق چاہی
"پامیر !!!! فارسی بو ل رہی ہون کیا ۔ نہیں کوئی مسلہ نہیں ۔ تم نے جو کیا وہ غلط تھا بہت غلط تھا ۔ مگر کیا تمہارے پاس کوئی دوسرا آپشن تھا۔نہیں ۔ تمہارا برین واش کیا گیا تھا ۔تمھیں دوایں دی گئیں ۔ مگر پھر بھی تم غلط تھے مگر تم سہی راستہ اپنا رہے ہو ۔ اور میں میں سب جانتی تھی کے میرے غلط کرنے کے کیانتا ئج کیا ہونگے مگر ارج رکی نہیں ۔ ارج نے اپنے لئے کانٹے منتخب کئے "۔ ارج نے اپنے گرد اپنے ہاتھوں کا حصار کھینچا
"اچھا اچھا ٹھیک ہے ۔ تو مطلب تم نہیں جا رہی "۔ اب پامیر نے تنگ کرنے کے لئے بولا تھا ۔ ارج نے ساتھ پڑا کوشن اٹھایا اور اس کے سر پر سے مارا ۔
"اچھا ٹھیک ہے” ۔ پامیر نے آنسوؤں کے ساتھ مسکرا کر کہا ۔
لیکن ارج مسلسل کوشن سے اسے مار رہی تھی۔ پامیر خود کو بچانے کی کوشش کر رہا تھا ۔
ایک دم سے ارج رکی اور کچھ سوچ کر بولی
” وہ سانپ کا نشان جو ۔ ۔۔اس شخص کے ہاتھ پر تھا ۔ "ارج کی آنکھیں ایک دم سے بڑی ہوئیں اور پریشانی نے چہرے پر ڈیرہ ڈالا ۔
”وہ تمہارے گینگ کے لوگ تھے نا انہوں نے تمھیں ڈھونڈ لیا ہے” ۔ ارج پریشانی سے بولی
"پتا نہیں ارج مجھے کچھ علم نہیں ہے کے کیا ہو رہا ہے ۔ اچھا چلو اب سو جاؤ بہت رات ہوگئے ہے ۔” پامیر نے ارج کو کہا ۔ جس کے جواب میں ارج اسے گھور ہی سکی ۔
"نہیں یہ کوئی حالت ہےسونے والی ۔ ایسے لگ رہا ہے ہارر مووی میں رہ رہے ہیں ۔” ارج نے صوفہ سے اٹھتے ہوئے کہا
"ہان میں مظلوم انسان اور تم ڈاین ۔ جس پر ارج نے کوشن اس کی طرف پھنکا لیکن پامیر تب تک باہر نکل چکا تھا ۔
"بائے ۔ چڑیل” ۔ پامیر نے دروازے سے کہا
جس پر ارج چیخی ۔ "بوڑھے بزرگ انسان ۔”
کسی کو اپنا بنانا ہنر سہی
کسی کے بن کے رہنا کمال ہوتا ہے ۔