دروازہ پر مسلسل دستک سے عندلیب کی آنکھ کھلی تو خود کو دیکھا تقریباً پورے بیڈ پر پھیل کر لیٹی ہوئی تھی جس جگہ پر طالش سویا تھا اُس جگہ پر اب وہ موجود تھی اور وہ کمرے میں بھی نہیں تھا شاید چلا گیا تھا اپنی حالت دیکھ کر ڈھیروں شرمندگی نے آن گھیرا اُٹھ کر اپنے بال باندھے شادی والا کامدار دوپٹہ اُٹھا کر سر پر لیا اور دروازہ کھولا
"چاچی جان آپ”
سامنے طالش کی امی کھڑی تھی جو عندلیب کو سائڈ پے کرتی خود بیڈ پر آکر بیٹھ گئی
"لڑکی یہاں بیٹھو”
اُسے اپنے سامنے بیٹھنے کو کہا تو عندلیب حکم ملتے ہی سامنے بیٹھ گئی
"دیکھو تم ایک طلاق یافتہ لڑکی ہو ۔۔۔اور میرا طالش تم سے چار سال چھوٹا ہے اُسے تو ابھی اِس رشتے کا کچھ پتہ ہی نہیں ہے ۔۔۔تم سمجھ رہی ہو نہ”
ایک نظر عندلیب کو دیکھا جو ہولے سے سر ہلا گئی
"ہمارے بہت ہی سخت رواج ہیں جن کو تمہارے ماں باپ بہت پہلے توڑ کر شہر چلے گے اور کبھی مڑ کر بھی نہیں دیکھا ۔۔۔اور مشکل وقت میں ہم سے ہی عزت بچانے کی بھیک مانگی اور ہم ظرف والے لوگ ہیں تمہارے باپ کا جھُکا ہوا سر نہ دیکھ سکے اور اپنے بیٹے کو قربانی کا بکرا بنا ڈالا”
اُنکی باتیں عندلیب کا سر اور جھُکا گئیں تھیں کالی سیاہ آنکھوں میں نمی اُتر آئی تھی
"یہ ساری باتیں کرنے کا مقصد یہ ہے کہ تم جو مرضی ہو جائے اس رشتے کی شروعات نہیں کرو گی اور نہ ہی طالش کو اپنے پاس آنے دو گی ۔۔۔اُسکی منگنی بہت پہلے ہو چکی ہے اِس خاندان کو وارث میری ہی بھتیجی دے گی ویسے بھی طلاق شدہ عورت کی اولاد کو ہم اپنی وراثت میں شامل نہیں کرتے ”
ابھی وہ بات کر ہی رہیں تھی جب طالش واشروم کا دروازہ کھول کر باہر آیا عندلیب کا سر ابھی بھی جُھکا ہُوا تھا آنکھیں سُرخ ہوچکی تھیں جبکہ ہاتھوں میں لرزش واضح تھی
طالش کی ماں اُسے دیکھتے ہی ایک مرتبہ گھبرا گئیں اُنکو خوف سا آیا تھا طالش کی خاموشی سے پر اپنے دل کو اس بات پر تسلی دی کے اُس جیسا مرد کوئی بات دل میں نہیں چھپا سکتا ہے اور ویسے بھی وہ کونسا عندلیب کو پسند کرتا ہے
"میں کھانے کا کہنے آئی تھی نیچے آجاؤ”
وہ کہتی ہوئیں باہر کی طرف چلیں گئیں طالش یونی جانے کی تیاری کر رہا شیشے کے آگے کھڑا اپنے بالوں کو مخصوص انداز میں جیل سے سیٹ کر رہا تھا عندلیب اٹھ کر واشروم کی طرف بھاگی جب اُسکا بازو طالش کی آہنی گرفت میں آچکا تھا وہیں ساکت ہوگئی ساری باتیں سارے خوف ایک سیکنڈ میں ہوا ہوئے اب تو بس طالش کی گرم سانسوں کی تپش اُسے جھلسا رہی تھی ایک جھٹکا دیا تو وہ کٹی ڈالی کی طرح اُسکے سینے سے آلگی دونوں طرف دھڑکنوں میں ارتعاش پیدا ہوا عندلیب کی آنکھوں میں رکےآنسو ڈھارس ملتے ہی بے قابو ہوگئے اتنی شدت سے رو رہی تھی کے طالش کی شرٹ دل کے مقام پر سے مکمل طور پر بھیگ چُکی تھی لیکن جسم دونوں کے اپنی اپنی جگہ پر ساکن تھے عندلیب کی چھوٹی سی ناک بلکل سُرخ ہو گئی تھی
"مضبوط بنو”
کافی دیر بعد طالش اُسکی کمر سُہلاتا ہُوا بولا
"جتنی مضبوط تھی اتنی شدت سے ٹوٹ گئی ہوں”
آواز میں غم تھا لہجہ بالکل تھکا ہُوا محسوس ہو رہا تھا
"جینے کے لیے گر کے پھر اُٹھنا پڑتا ہے”
وہ دونوں ایسے بات کر رہے تھے جیسے صدیوں سے ایک دوسرے کے خیر خواہ تھے نہ رات والی عندلیب تھی اور نہ ہی طالش
اب اُسکے ہاتھ عندلیب کے کمر تک آتے بالوں میں چل رہا جو سٹپ کی صورت میں کاٹے گئے تھے پہلا سٹپ اُسکے کانوں تک آتا تھا ایک سکون ملا تھا طالش کی دسترس میں لیکن رونے میں اضافہ ہی ہوا تھا
ابھی وہ کچھ اور کہتی دروازہ زور کی آواز سے کھولا تو سامنے پھر سے رخسار بیگم ہی تھی
جن کی آنکھیں میں خون اُترا تھا عندلیب کو طالش کے سینے سے لگا دیکھ کر
"امی اب میں شادی شدہ ہوں اسلیے کمرے میں آنے سے پہلے ناک ضرور کر لیا کریں ”
عندلیب جو کسی اور ہی دُنیا میں پہنچی ہوئی تھی طالش کی بات سن کر ایک سیکنڈ میں دور ہوئی سامنے رخسار کو دیکھ کر کاٹو اور بدن میں لہو نہ ہو والا حساب ہوا تھا جبکہ طالش کو اُسکی دور ہونے والی حرکت نہایت بری لگی تھی
طالش نے آگے بڑھ کر اُسکے ماتھے پر اپنا لمس چھوڑا اور اپنا بیگ لیتا باہر چلا گیا
عندلیب کو لگا اب ہل نہیں سکے گی اُسے سمجھ نہیں آئی تھی وہ انسان کیا تھا رات میں جو روپ اُسکے سامنے تھا وہ نہایت ہی بُرا جبکہ اب اُس سے مہربان کوئی اور لگا ہی نہیں تھا
"لڑکی آج سے تم میرے کمرے میں رہو گی اپنا سامان لے کر وہاں آجاؤ ورنہ اچھا نہیں ہو گا”
ناک کے نتھنے پھولا کر بولی جبکہ عندلیب کانپتی ہوئی اپنے جوتے پہنتی اُنکی طرف آئی
"چاچی جان میرا سامان نہیں ہے کوئی”
اگر اُسکی معصومیت طالش دیکھ لیتا تو مر مٹ جاتا اُسکی اِس ادا پر
بال ابھی بھی کھلے چھوڑے تھے اور کپڑے بھی طالش ہی کے تھے جس کی وجہ سے رخسار کو اور زیادہ تپ چڑھی تھی
°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°
گاڑی کو نارمل سپیڈ سے چلاتا اب وہ گاؤں سے کافی دور آگیا تھا یونی چونکہ شہر سے دس کلو میٹر کے فاصلے سے بنائی گئی تھی اِس لیے اُنکے گاؤں سے بیس کلو میٹر دور تھی
بلیک اور آف وائٹ پینٹ شرٹ ،دائیں ہاتھ میں مردانہ واچ جو کافی پُرانی لگ رہی تھی نیلی جھیل جیسی آنکھوں میں اطمینان تھا چہرے پر سنجیدگی کی جگہ ہلکی سی مسکراہٹ جو ہر منٹ بعد معدوم ہورہی تھی ہلکی سی بیرڈ جس کو ایک ہاتھ سے بار بار کھجا رہا تھا
آنکھوں کے سامنے صبح کا منظر دوڑا جب اُسکی آنکھ کھلی تھی تو عندلیب پورے حق سے اُس کے سینے پر قبضہ جمائے لیٹی ہوئی تھی کافی دیر ٹکٹکی باندھے اُسے سراپے حُسن میں کھویا رہا تھا اللہ نے اتنی نازک سے حسین پری اُسکے مقدر میں لکھ دی تھی کسی اور کی ہونے سے پہلے اُسے نواز دیا گیا سوتے ہوئے بھی چہرے پر ڈر کے تاثرات واضح تھے اور اسکے رات بازو پکڑنے کی کوشش بھی طالش سے چھپی نہیں رہی تھی اُسکے بال پہلی بار دیکھے تھے مگر اتنا یقین تھا کہ لمبے ہونگے کیوں کہ ایک مرتبہ چھوٹے ہوتے اُسنے لاڈ سے فرمائش کی تھی
"دیب تم چھوٹے بال مت رکھنا اچھا۔”
چھ سال کا طالش اُسکے بال دیکھتے ہوئے بولا
"کیوں مجھے تو چھوٹے پسند ہیں”
ایک ہاتھ میں گڑیا پکڑ رکھی تھی دوسرے سے طالش کی گال کھینچی
"مجھے تم لمبے بالوں والی زیادہ پسند ہو”
چھوٹے ہاتھوں سے لمبے بالوں کا بتانے کے لیے اُسے پورا پھیلا دیا
طالش سوچ اور تھوڑا سا مسکرایا تو اُسکے گال کا ڈمپل واضح ہوا جو جلد ہی معدوم ہوگیا
اب گاڑی یونی میں داخل ہو چُکی تھی سامنے اُسکے دوست کھڑے پریشانی کے عالم میں اُسے دیکھ رھے تھے
"کیا ہوا ایسا لگ رہا ہے جیسے میں نہیں کوئی جن دیکھ لیا ہو”
وہ باہر نکل کر بولا اور چہرے پر پھر ایک بار مبہم سی مسکراہٹ آئی
"تاشی بول دے تجھے کوئی پاگل پن کا دورہ نہیں پڑا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ مسکراہٹ تین سال سے نہیں دیکھی خیر ہے”
اُن میں سے ایک سامنے آکر بولا
"تو آج دیکھ لے…..ایسے مسکراتا ہوں میں”
ایک بار پھر اپنے ڈمپل کی نمائش کی
"میں بتا رہا ہوں کچھ بہت غلط یا تو ہو چُکا ہے یہ پھر ہونے والا ہے”
پریشانی کے عالم میں سر کھجاتے ہوئے بولا
"ہو چُکا ہے ۔۔۔۔میری کلاس کا ٹائم ہے یہ ”
ایک بار پھر مسکرایا اور اپنے بلاک کی طرف تیز تیز قدم اٹھائے چلا گیا
"بہت اچھا دوست تھا میرا کیسے رہوں گا میں اب”
منان نے عورتوں کی طرح بین ڈالتے ہوئے کہا
°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°
"گائز کل پاکستان سے اومان کے راستے بہت بڑی سمگلنگ ہونے والی ہے جس میں تقریباً چار ہزار لوگ ہوں گے ۔۔۔۔۔۔۔سمگل کیے جانے والوں میں بڑی تعداد نوجوانوں کی ہے ”
ہاتھ میں ایک سٹیک پکڑ رکھی تھی جس کی مدد سے پوائنٹس کو واضح کر رہی تھی بالوں کو ٹیل پونی کی مدد سے باندھا ہوا تھا جس میں سے دو تین لٹیں باہر تھیں جو اُسکے حُسن کو چار چاند لگا رہی تھی سادہ سے ہلکے نیلے رنگ کی کاٹن کے شلوار قمیض میں ملبوس تھی آنکھیں بڑی بڑی جو اُسکے چہرے کو جانبدار بنا رہیں تھیں گرمی کے باوجود بھی ایک چادر اپنے گرد لپیٹ رکھی تھی
وہ ٹیبل کے سامنے کھڑی ویڈیو کانفرنس کے ذریعہ سامنے بیٹھے اُسکے ٹیم ورکر اور رینجر آفیسر اُسے بغور سن رہے تھے
یہ تھیں لفیٹنٹ جنرل مایا شیخ خانزادی جو اپنی ٹیم کی طرف سے الجیریا میں موجود تھی کسی بھی خفیہ کاروائی کے لیے پوری ٹیم نہیں جاتی بلکہ اُنکی سربراہی کرنے والوں میں سے کوئی ایک یا دو لوگ جاتے ہیں جو وہاں کام بھی بالکل ایک دوسرے سے انٹرکٹ کیے بغیر کرتے ہیں
"مایا بی سیف الجیریا کے حالات کچھ اچھے نہیں چل رہے کچھ بھی ہونے کی توقع کی جاسکتی ہے میجر خان آپکی مدد کے لیے آسکتے ہیں اگر آپکی اجازت ہوتو”
سکرین پر بیٹھے ایک ادھیڑ عمر باوردی آفیسر نے کہا
"مایا موت سے نہیں ڈرتی سر اور رہی بات مدد کی تو جب مجھے لگا کہ مجھے مدد درکار ہے میں یہ کام چھوڑ دوں گی ”
بلا کے اعتماد سے بولی تھی یہ پھر کبھی موت قریب سے دیکھی ہی نہیں تھی
"بیسٹ آف لک بیٹا ۔۔۔۔۔بس اپنے ٹھکانے کا پتہ لگانا ہے آگے آپ کو اجازت نہیں ہے ”
دوسری طرف سے اُسے اُسکی حدود بتائی گئیں جس کے بعد چہرے پر جو جوش و ولولہ پہلے تھا وہ چند سیکنڈ میں ختم ہوگیا تھا اب کانفرنس بھی ختم ہو چکی تھی اور وہ سر پکڑ کر بیٹھ گئی تھی
"کبھی تو وہ دن آئے جب میں ان کے ملزموں کو کیفرے کردار تک پہنچا سکوں ”
ہاتھ میں پکڑے ہوئے موبائل کی تصویر پر اپنا انگوٹھا پھیرتے ہوئے بولی
°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°
محد اِس وقت جی ایم کے کمرے میں کھڑا تھا جو کسی سے کال پر مصروف تھے یہ پھر مصروف ہونے کا ناٹک
ایک ہفتہ ہوچکا تھا اُسے آتے ہوئے سب کچھ بہت اچھے سے جارہا تھا اب کپڑوں پر سلوٹیں ذرا کم نظر آتیں تھی اور بالوں کو بھی پونی میں قید کیا ہوا تھا لیکن منہ نہ دھونے کی قسم ابھی بھی نہیں توڑی تھی
"پیسہ کمانا چاہتے ہو ”
وہ وہاں پڑی مہنگی مہگنی چیزوں کو حسرت بھری نگاہوں سے دیکھ رہا تھا جب کُرسی پر بیٹھا ادھیڑ عمر انسان بولا
"جی صاحب کون نہیں چاہتا”
انتہائی عجلت سے جواب دیا جیسے سوال دیر سے دینے پر سزائے موت ہوجائے گی
"تم مجھے اچھے انسان لگے ہو یہاں تو اتنی تنخواہ میں ایک وقت کی روٹی بھی نہیں لگ سکتی ”
وہ موبائل پر ہاتھ چلاتے ہوئے بولا جبکہ محد کے دل میں اتنے مہنگے موبائل کو ایک مرتبہ پکڑنے کی خواہش ہوئی۔
"نہیں صاحب میں اور میرا دوست بہت خوش ہیں آپ مجھے نکالیے گا نہیں”
محد نے اُسکے آگے ہاتھ جوڑ دیا
"نہیں نہیں اگر تمہیں امریکہ جانے کا موقع دیا جائے ۔۔۔کیا تم اس موقعہ سے فائدہ اٹھاؤ گے۔۔۔ہماری کمپنی ہر سال ایک مستحق نوجوان کو یہ opportunity دیتی ہے”
وہ مخصوص انداز میں ٹھہر ٹھہر کر بول رہے تھے اور محد کے چہرے کا رنگ ہر اگلی بات پر تبدیل ہورہا تھا
"سچ”
وہ آنکھوں میں حیرت کے طوفان لیے بولا
°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°
جب قانون موجود نہ ہو۔۔۔۔ ایک حیرت انگیز سچا واقعہ
یہ 1 نومبر 1955 کی بات ہے کہ جان گلبرٹ گراہم نامی ایک امریکی شہری کہ جس کا اس کی...