فیاض کی نظروں سے بے حد پریشان اب عبیر کے پاس کوئی چارہ نا بچا تھا۔
کبھی پانی مانگتا سب کے سامنے ۔۔ وہ مجبوراً دیتی تو گلاس لینے کے بہانے اُسے کے ہاتھ سے اپنا ہاتھ مس کے دیتا ۔۔۔ عبیر اس کی اس حرکت پر سیخ پا ہو کر رہ جاتی ۔۔۔ پھر نہ جانے کتنی دیر تک اپنے ہاتھوں کو دھوتی رہتی۔
” اتنا مت رگڑو ۔۔ پہلے ہی بہت گورے ہے یہ ہاتھ۔”
سرور اُس کے ہاتھوں کو تھام کے کہتا تو اُس کے چھونے پر لگتا کے اُس کے ہاتھ پھر سے پاک ہوگئے ہیں جو پانی سے بھی نہ ہوئے تھے۔
سردی کی وجہ سے ایک کمرے جیسا بنایا ہوا تھا لکڑیوں سے۔ رات کو سب وہاں بیٹھ کر چائے پیتے باتیں کرتے دیر تک۔۔۔ وہاں بھی فیاض اُسے گھورتا رہتا۔ وہ اُٹھ کر جانے لگتی تو سرور ہاتھ پکڑ کر اُسے روکتا اور پھر سے وہاں بیٹھا لیتا۔۔ مجبوراً اُسے بیٹھنا پڑتا۔
کچھ ہی عرصے میں اُسے سمجھ آگیا تھا کہ فیاض کتنا خطرناک ثابت ہو سکتا ہے ۔۔۔ اس سے پہلے کے وہ کچھ ایسا کر دے اور ایک بار پھر سے ذلت اٹھانی پڑے۔۔
اب اسے ہر قیمت پر یہ گاؤں چھوڑنا تھا تبھی اسکی زندگی واپس سے نارمل ہو سکتی تھی۔
جب اپنوں نے اعتبار نہیں کیا تو یہ تو غیر تھے۔۔
عبیر کے دل میں ایک خوف بیٹھ گیا تھا ۔۔ ذلت کا خوف ۔۔۔ جو نکالے نہ نکلتا تھا کسی صورت۔
لیکن یہ کام بھی آسان نا تھا اسے ان چند مہینوں میں ہی یہاں کا ماحول کافی پسند آگیا تھا لیکن وہ صرف اس ایک وجہ سے یہ گاؤں چھوڑنے کا اپنا ارادہ نہیں بدل سکتی تھی ۔۔۔
اسے سب سے زیادہ اپنی عزت عزیز تھی ۔ دوبارہ سے وہی سب ہونے نہیں دے سکتی تھی وہ اب تو اسے سرور سے محبت بھی ہو چکی تھی۔۔۔۔
اور اب اس پر یہ بات آشکار ہوئی تھی کہ اسے شہیر سے محبت نہیں بلکے روز رات 11 بجے والی کال اور اسکی باتوں کی وجہ سے اسکی لت لگ گئی تھی بلکل ویسی ہی لت جیسی ایک نشئی کو نشے کی لگتی ہے اگر ایک وقت نہ ملے تو وہ بے چینی سے اپنے حواس ہی کھونے لگتا ہے بلکل یہی اسکے ساتھ بھی ہوتا تھا ۔۔۔
سہی وقت پر ایک سہی فیصلہ اسکی زندگی بدل گیا تھا ورنہ وہ ابھی تک اس دلدل میں دھنس کر سب کچھ گنوا کر زندگی کی بازی بھی ہار جاتی ۔۔
لیکن اب اس نے فیصلہ کر لیا تھا اور وہ اپنے فیصلے سے ایک بھی انچ نہیں ہلنے والی تھی سرور گھر آیا تو اسے کھانا وغیرہ دینے کے بعد جب وہ کمرے میں چلا گیا ۔۔۔
تو خود چائے بنا کر اسکے پیچھے ہی کمرے میں داخل ہوئی ۔۔۔
مجھے تم سے ایک بات کرنی تھی ۔۔
اپنی انگلیاں چٹکھاتے وہ بولی ۔
ہاں کہو ۔۔ سرور کی مصروف سی آواز اسے آئی تھی کیوں کہ وہ الماری۔ سے ہونے کپڑے نکال رہا تھا ۔۔
“میں شہر جانا چاہتی ہوں اپ پلیز وہاں کوئی کام ڈھونڈ لو میں نے بہت کوشش کی لیکن میں یہاں پر سیٹ نہیں ہو پا رہی ہوں ۔۔۔”
آنکھیں بند کرتے ایک ہی سانس میں اپنا مدعا بیان کرتے وہ اپنا رخ پھیر گئی تھی ۔۔
وہی سرور کے کپڑے تلاش کرتے ہاتھ تھمے تھے ۔۔ آج اتنے مہینوں بعد اس نے ایک فرمائش کی تھی اور کی بھی کیا ؟۔۔۔
لیکن اسے غلط تو وہ بھی کہی نہیں لگی ۔جس نے اپنا سارا بچپن اور جوانی شہر میں گزاری ہو وہ کیسے رہ سکتی تھی گاؤں میں ۔۔
اگر وہ اسکے لئے خود کو سر سے پیر تک بدل چکی تھی تو ٹھیک ہے وہ بھی اسکے لئے اتنا تو کر ہی سکتا تھا ۔۔
اور اب تو وہ بھی اسکے لئے جذبات رکھنے لگا تھا اپنے دل میں تو اسکی بات سے انحراف کرنے کی کوئی ٹھوس وجہ نا تلاش پایا ۔۔ کیوں کہ یہ بہت اچانک ہوا تھا اب تک تو سب سہی تھا ۔۔
ٹھیک ہے تم اپنا سامان باندھ لو میں آج ہی شہر کال کر لیتا ہوں میرے دوست نے مجھے ایک نوکری کا بتایا تھا میں اماں سے بھی بات کر لوں گا ۔
تم جاؤ اماں کو دودھ دے اؤ ۔۔ اور خود باتھروم میں بند ہو گیا ۔۔
عبیر کو لگا تھا وہ غصّہ کرے گا ناراض ہوگا لیکن وہ تو اسی وقت مان گیا تھا۔
( کیسا انسان ہے یہ۔۔۔ بھلا کوئی اتنی جلدی مان جاتا ہے؟؟ اتنی جلدی…؟؟؟)
عبیر حیرت کے سمندر میں غوطہ زن تھی۔
روزآنہ عبیر کو شخص کا ایک نیا روپ دیکھنے کو مل رہا تھا۔
اُسے شہر کے لیے قائل کرنے کے کتنے حیلے بہانے اُس نے سوچ رکھے تھے۔
کتنی منت سماجت کا ارادہ تھا اُس کا۔
اُسے لگا مہینہ سرور کو مناتے مناتے ہوئے گزر جائیگا ۔۔۔ لیکن یہ ۔۔۔ یہ تو پل میں مان گیا ۔۔
کیا اس کی کوئی انا نہیں؟؟؟
کونسے خمیر میں گوندھا ہے قدرت نے اس شخص کو۔۔۔ کوئی اتنا اچھا کیسے ہو سکتا ہے؟؟؟
وہ وہاں کھڑی سوچ رہی تھی کہ سرور واش روم سے باہر آیا۔۔۔
” کیا ہوا؟ ” سرور نے اپنا ہاتھ اُس کی آنکھوں کے سامنے لہراتے ہوئے پوچھا ۔۔ جب اُسے گہری سوچ میں دیکھا۔
” تم ۔۔۔ اتنی جلدی مان گئے ۔۔ وجہ بھی نہیں پوچھی ۔۔ کوئی بحث نہیں کی ۔۔ ”
عبیر نے صاف صاف کہا۔
” تو اور کیا تمہیں دھرنا لگانے دیتا؟ تمہاری خواہش ہے تو صحیح ہے۔ ”
سرور نے تولیے سے ہاتھ خشک کرتے ہوئے کہا۔
عبیر اسے دیکھے گئی۔
( کیسے کہہ سکتا ہے کوئی ۔۔ کیسے سوچ سکتا ہے کوئی ۔۔۔ سوٹڈ بوٹڈ شہیر شیرازی کی شخصیت کیسی بیکار تھی ۔۔ کتنی ارزاں تھی ۔۔۔ کتنی گری ہوئی سوچ تھی اُس کی۔۔۔ قیمتی لباس اور حلیہ اُس نے اوڑھ رکھا تھا کسی نقاب کی صورت ۔۔۔ اور سرور ۔۔۔ بظاھر عام سا دیہاتی دیکھنے والے اس شخص کی شخصیت اور کردار کتنی قابلِ تعریف ہے ۔۔۔ اس کی سوچ کتنی وضع ہے ۔۔۔ شاندار وہ نہیں تھا ۔۔۔ شاندار یہ ہے ۔۔ ہم بس قیمتی لباس اور لہجے سے دھوکہ کھا جاتے ہیں ۔۔۔ کیوں قیمتی لباس والوں کو دیکھ کر لڑکیاں بہک جاتی ہیں۔ اُس کے دل کتنے کالے ہوتے ہیں ۔۔ یہ کالے دل شادی کے بعد وضع نظر آنا شروع ہو جاتے ہیں۔)
وہ سوچ رہی تھی۔
” اوہ مادام ۔۔۔ اتنا حسین نہیں ہوں میں ۔۔ بس کرو دیکھنا ۔۔۔ ورنہ ۔۔۔ بندہ بہک گیا تو فرار کا راستہ نہیں ملے گا تمہیں۔”
سرور سینے پر دونوں ہاتھ باندھتے ہوئے بولا تو عبیر ہوش میں آئی۔
” نہیں ۔۔ میں تو سوچ رہی تھی بس ۔۔ اتنی جلدی مان گئے تم تو ۔۔ مجھے یقین نہیں آرہا تھا۔”
عبیر نے کہا۔
” ٹھیک ہے ۔۔۔ دو تین دن نہیں مانتا ۔۔ تاکہ تمہیں نارمل لگے سب ۔۔۔ پتہ نہیں کیوں تم لڑکیاں کسی چیز سے خوش کیوں نہیں ہوتی ہو۔۔۔ اگر میں نہ مانتا تو تمہیں شکوہ ہوتا ۔۔۔ اب مان گیا تب بھی تمہیں مسئلہ ہے ۔۔ تم بیویوں کو شاید مزہ آتا ہے کے شوہر نہ مانے تو زمانے بھر میں مظلومیت کا ڈھنڈورا پیٹ کر شوہر کی برائیاں کریں۔”
سرور نے اُسے اپنے حصار میں لیتے ہوئے کہا۔
عبیر کو ہضم نہیں ہو رہا تھا ۔۔ اُس کا اتنا نارمل رویہ ۔۔۔ وہ شاید برے رویے کی اتنی عادی ہوگئی تھی کہ اب اُسے سمجھ نہیں آرہی تھی۔
ہاں اگر سرور غصّہ کرتا ۔۔ اُسے ماضی کے تانے دیتا۔ ۔۔۔ تو شاید اسے لگتا یہ سب نارمل ہے۔
” سرور” وہ اُس کی آنکھوں میں دیکھ کے بولی۔
” جی سرور کی جان” سرور نے پیار سے کہا۔
” تمہیں ۔۔ تمہیں واقعی فرق نہیں پڑتا؟ میرے ماضی سے؟ ” عبیر نے اُس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے پوچھا۔
وہ سوچتی تھی کہ جس انسان کے ساتھ چار سال اُس کا افیئر رہا ۔۔ اگر وہ اس کی بیوی بھی بن جاتی تو وہ بھی اسے تانے دیتا۔ پھر یہ کیسا انسان تھا ۔۔ جو سب جانتے ہوئے بھی ۔۔
” پڑتا تو ہے۔لیکن میں ضروری نہیں سمجھتا ۔۔۔ بار بار اُس بات کو ڈسکس کرنا ۔۔۔ جو ہوا سو ہوا ۔۔۔ اب مری ہوئی بھینس کی پھوچ پکڑنے سے کیا فائدہ ۔۔۔ ” سرور بولا۔
” مجھے ۔۔۔ مجھے عجیب لگ رہا ہے۔ ” وہ ہچکچاتے ہوئے بولی۔
سرور نے ایک آہ بھری۔
” کیا عجب لگ رہا ہے؟؟. کہ میں نے تمہیں مارا پیٹا نہیں؟ یاں تانے دے دے کر تمہاری زندگی اجیرن نہیں کی؟ ۔۔۔ عبیر اگر میں ایسا کروں تو تمہیں پھر شاید سب نارمل لگے۔ پتہ ہے کیا ۔۔۔ تم بہکی ہوئی لڑکیوں کا ذہن اسی بات میں سیٹ ہوتا ہے۔ کے راز کھل جانے کے بعد تم لوگوں کو مارا جائے۔ تم لوگوں کو شاید اسی بات کا انتظار ہوتا ہے۔ ” سرور نے کہا۔
” علی نے مجھے بہت مارا تھا ایک دن ۔۔۔ جب باہر کِسی سے کچھ باتیں سن کر آیا تھا میرے متعلق۔” عبیر نے نظریں جھکاتے ہوئے کہا۔
” وہ بھائی تھا ۔۔۔ بھائی حساس ہوتے ہیں۔ وہ لوگوں کا منہ بند کرانے کی صلاحیت نہیں رکھتا ہوگا ۔۔۔ اور میں ۔۔ میں ایسی بات سن کر لوگوں کا منہ بند نہیں کراتا ۔۔۔ بلکہ اُن کا منہ توڑ دیتا ہوں ۔۔۔ میرے سامنے کوئی کچھ بول کر تو دکھائے تمہارے بارے میں ۔۔۔ ” سرور نے کہا
عبیر جو کچھ سال پہلے جو اس کی مار دھاڑ کی وجہ سے اُس سے کھار کھاتی تھی ۔۔۔۔ آج اُس کی انہیں باتوں سے متاثر ہو رہی تھی ۔۔
( صحیح کہتا ہے یہ ۔۔۔ کچھ لوگوں کا علاج صرف مار ہی ہوتا ہے۔)
عبیر نے سوچا۔
” عبیر ” سرور نے اُس کی سامنے کی لٹ کو ہٹاتے ہوئے اس کا نام پُکارا۔
” بولو۔” عبیر نے کہا۔
” جب کوئی کافر ہوتا ہے ۔۔۔ اسلام قبول کرنے سے پہلے ۔۔۔ وہ ہر گناہ کرتا ہے ۔۔۔ چوری جھوٹ زنا سب۔۔۔ لیکن جب وہ اسلام قبول کر لیتا ہے ۔۔ تو اللہ کو اس کے پچھلے گناہوں سے کوئی سروکار نہیں ہوتا ۔ کیوں کے تب وہ اللہ کا ماننے والا نہیں تھا۔ تو اللہ پچھلے گناہ معاف کر دیتا ہے۔۔۔ لیکن اللہ کا ہو جانے کے بعد اگر وہ شخص گناہ کرے گا تو ۔۔۔ تو اُس کا حساب ہوگا۔۔۔ تو عبیر سرور ۔۔۔ بلکل ایسے ہی ۔۔۔ اللہ کے اس بندے کو بھی ۔۔۔ تمہارے ماضی کے گناہوں سے کوئی سروکار نے ۔۔۔ لیکن اب ۔۔۔ عبیر سرور اب اگر تم نے میرے ساتھ بیوفائی کی تو ۔۔۔ تو تم مجھ سے کسی اچھائی کی اُمید نہ رکھنا ۔۔۔ وہ تو رب ہے۔۔۔ معاف کر دیگا پھر بھی ماضی کے کافر کو ۔۔۔ لیکن کے عام انسان ہوں ۔۔ میں شاید نہ کر سکوں ۔۔ ”
عبیر کی سرور کی باتیں حیران کر رہی تھیں۔
اسے حیرانگی بھی تھی اور خوشی بھی وہ فوراً خود کو اُس کی گرفت سے آزاد کر کے کمرے سے باہر سکینہ بیگم کو دودھ دینے چلی گئی تھی ۔۔۔
پھر چند ہی دنوں میں اس نے سارا بندوبست کر لیا تھا گھر میں بھی سبکو منا چکا تھا پہلے کہا وہ سنتا تھا اپنی ہی مرضی کرتا تھا اب بھی اپنو منوا چکا تھا ۔۔
___________
بالآخر وہ گاؤں چھوڑ کر شہر آگئے تھے۔
یہاں سرور نے اپنی زمین بیچ کے ایک گھر لیا تھا جو اُن دونوں کے لیے کافی تھا۔
دو کمرے ، لاؤنج ، ڈرائنگ روم اور لاؤنج کے ساتھ ہی کچن بنا ہوا تھا۔ یہ گھر نیا تھا پہلے سے استعمال شدہ بھی نہیں تھا۔
عبیر نے اپنی نئی زندگی کی بنیاد یہاں رکھی تھی سرور کے ساتھ۔
وہ دونوں اپنی پسند سے سامان لائے تھے۔ ایک بیڈ ، ایک سوفا سیٹ لاؤنج میں رکھنے کے لیے۔ ڈرائنگ روم کو اُنہوں نے ابھی لاک لگا دیا تھا۔
“مہمان تو کوئی آنا نہیں تھا پرایا۔۔ جو اپنے ہونگے وہ لاؤنج میں بیٹھ سکتے ہیں۔ باقی جب چاول کی فصل کے پیسے آئینگے تو ڈرائنگ روم سیٹ کریں گے ”
سرور نے بیڈ کو سیٹ کرنے کے بعد کہا۔ اُن دونوں نے مل کر بیڈ فٹ کیا تھا کافی وقت لگا کر۔ اپنی مدد آپ کے تحت ۔۔ پھر صوفے کی جگہ پر دونوں کی بحث چلتی رہی۔
” یہاں ۔۔۔ نہیں یہاں۔۔۔کھڑکی کے پاس صحیح لگے گا۔ ۔۔ نہیں کھڑکی کے باہر کوئی کھڑا ہو تک باتیں سن لیگا ہماری۔۔۔ ” سرور کی عجیب ہی منطق تھی ہے بات میں ۔۔۔ عبیر ہنسنے لگی۔
” ہم دو ہیں ۔۔ کوئی تیسرا ہوگا تو باتیں سنے گا نہ۔۔۔” عبیر نے کہا۔
” کیا پتہ کوئی گھر میں گھس آئے۔۔۔ چوری چھپے ۔۔ اور ہماری باتیں سن لے۔” سرور نے ابرو اچکا کر کہا۔
چلو جی ۔۔۔ نہیں رکھتے اسے کھڑکی کے پاس۔”
عبیر نے ہار مانتے ہوئے کہا۔
وہ سوفا رکھنے کے بعد ہاتھ جھاڑتے ہوئے اٹھی
” اب کچن کی باری۔” عبیر بولی۔
” ہاں وہ لڑکیوں کا کام ہے۔” سرور انجان بن کر کمرے کی جانب بڑھتے ہوئے بولا۔
” کوئی نہیں ۔۔۔ مردوں کو عورتوں کے شانہ بہ شانہ چلنا چاہیے.” عبیر نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اُسے روکا۔
” تم فقراء الٹا بول گئی ہو۔۔۔” سرور نے یاد دلایا۔
” چلو۔” عبیر اُس کا ہاتھ پکڑتے ہوۓ اُسے کچن کی طرف لائی۔
عبیر نے برتنوں والا ریک رکھا اور سرور ڈنر سیٹ کھول کر اُسے برتن دینے لگا۔ عبیر سیٹ کرتی گئی۔
پھر برنیوں میں دونوں ساتھ ساتھ مسالے، نمک ، مرچ ،چائے اور چینی رکھتے گئے۔ کچن بھی سیٹ ہوگیا تھا۔
اُن دونوں کی چھوٹی سی جنت اب تیار تھی۔
” دن والے برتن دھونے کی ڈیوٹی میری اور رات والے برتن کی تمہاری۔” عبیر اب کام بانٹنے لگی۔
” یہ زیادتی ہے۔۔ تمہیں اچھا لگے گا برتن دھوتا ہوا شوہر؟؟؟ ” سرور بولا۔
” مجھے بنا نوکری کے گھر میں بیٹھا رہنے ولا شوہر بھی اچھا نہیں لگے گا۔” وہ بولی تو سرور کا قہقہہ بلند ہوا۔
عبیر نے سوالیہ نظروں سے اُسے دیکھا۔
” نوکری لگ گئی ہے میری۔۔۔ اب برتن خود دھونا اپنے۔” وہ بولا۔
” سچ؟ ” عبیر کو یقین نہیں آرہا تھا۔
سرور نے کوئی کاغذ اُسے دکھایا۔ تب اُسے یقین آیا۔ نوکری پرائیویٹ کمپنی میں تھی ۔ چھوٹی پوسٹ تھی لیکن تھی تو ۔۔۔
وہ روز کام پر جاتا اور شام کو گھر آجاتا ان دونوں میں محبت دن بدن بڑھتی جارہی تھی دونوں بولے بغیر ایک دوسرے کی سمجھنے لگے تھے ایک دوسرے کی ضرورت کا خیال رکھنے لگے تھے ۔۔ محلے میں سب لوگ انکو اس طرح خوش اور محبت سے رہتے دیکھ رشک کرتے اور انکی جوڑی کو دیکھ کر صدا سلامت رہنے کی دعا کرتے ۔۔
یہاں آئے انکو دو سال ہو چکے تھے وہ دونوں ہی سب سے الگ اپنی دنیا میں ایک دوسرے کے سنگ بہت خوش تھے آج بھی وہ عبیر کو باہر ڈنر کروانے لیکر آیا تھا کیوں کہ اسے گاؤں جانا تھا کچھ کام سے تو دو دن وہاں لگ ہی جاتے اس لئے جانے سے پہلے وہ اچھا وقت عبیر سنگ گزار کر جانا چاہتا تھا ۔۔
“کیا ہو گیا ہے سرور ہم پبلک پلیس پر ہیں اب پلیز مجھے یوں نا دیکھو سب کیا سوچیں گے” ۔۔ عبیر شرما کر اپنا چہرہ کھانے کی پلیٹ پر جھکا کر بولی تھی ۔۔
“جو سوچنا ہے سوچنے دو میں اپنی بیوی کو دیکھ رہا ہوں اور تم بھی جانتی ہو اگر میاں بیوی ایک دوسرے کو محبت سے دیکھیں تو ثواب ملتا ہے میں تو نیکیاں کما رہا ہوں ۔
تم چاہو تو تم بھی کما لو نیکیاں ۔۔ ”
سرور نے مسکراتے اسے لاجواب کیا تھا ۔
ضرور کماؤں گی لیکن گھر جا کر عبیر نے بھی منہ نیچے کرتے سرگوشی نما آواز میں کہا تھا جو بآسانی سرور نا صرف سن چکا تھا بلکے مسکرا بھی دیا ۔۔
لیکن دور کسی ٹیبل پر ایک شخص آنکھوں میں چنگاری لئے انکو دیکھ رہا تھا ۔ وہ دونوں اپنی زندگی کے سب سے بڑے اور مشکل امتحان سے گزرنے والے تھے ان سب سے انجان اپنی محبت بھری زندگی میں اگے بڑھ چکے تھے ۔
سب سے مشکل اور سب سے بڑا امتحان تو اب شروع ہونے والا تھا دیکھنا یہ تھا کے انکی محبت جیت جائیگی یا ہمیشہ کے لئے اس کہانی کا اختتام ہو جانا تھا
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...