HOW beautiful it is to find a person who loves you without asking for anything but to be okay.
ارج اور پامیر ساتھ ہی گھر سے نکلی اور آرزو صاحبہ کی طرف چل دیے ۔ ازمیر کے اس علاقے میں زیادہ تر متو سط طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگ رہتے تھے ۔
ارج اپنے ہی دھیان میں جا رہی تھی جب ایک پندرہ سولہ سالہ لڑکی اپنی سائیکل چلتے ہوئے سیدھا اس طرف ہی آ رہی تھی ۔پامیر نے ارج کو دو تین بار بلایا ۔ پر ارج اپنے خیالوں میں مگن تھی ۔
پامیر نے ایک جھٹکے سے اس کو اپنی طرف کیا ۔لیکن توازن بگڑنے سے سیدھا دیوار کے ساتھ جا لگے۔ ارج کی آنکھیں پھیل چکی تھیں ۔
"یہ آپ کیا کر رہے ہیں ؟” اس نے حیرت اور غصے کے عالَم میں کہا "جی میں بہت کچھ کر رہا ہوں محترمہ آپ پیچھے ہوں گی تو ٹھیک سے کھڑے ہوں گے نا” ۔ پامیر نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا
ارج خجل ہوتے ہوئے سہی سے کھڑی ہوئے
"غلطی تو آپ کی ہی ہے آپ کو کس نے کہا تھا کے مجھے کھینچیں آئندہ مجھے ہاتھ نا لگائیے گا” ۔ارج بولی
"آپ اپنے ہوش و ہواس میں چلنا سیکھ لیں تو مجھے ضرورت پیش نا آئے” پامیر نے اس کے چہرے کے پاس جاتے ہوئے کہا ۔
"یہ آپ میرے قریب کیوں آ رہے ہیں” ۔ ارج نے پیچھے ہونے کی کوشش کی
"قریب نہیں آ رہا محترمہ۔کیا اب اس طرح ہی رہنا ہے یا گھر بھی جانا ہے آپ کو ہر وقت یہی لگتا ہے کے میں ہی غلط ہوں آپ اس سائیکل لے ساتھ بجنے لگیں تھیں۔ اب پیچھے ہوں” پامیر بولا
ارج دوبارہ خجل ہوتے ہوئے پیچھے ہوئی
اور خاموشی سے اپنے راستے پر چل دی ۔ بندہ سوری ہی بول دیتا ہے پامیر نے دل میں سوچا اور ساتھ ساتھ چل دیا۔
آرزو صاحبہ کے گھر پہنچے تو آرزو صاحبہ گھر پر پہنچ چکیں تھیں ۔
"آرزو آنٹی کیسے ہیں جمال انکل” اس نے اندر داخل ہوتے ہوئے کہا ۔
"اب ٹھیک ہیں بیٹا تم کیسی ہو اب ۔” آرزو صاحبہ نے اس کی طرف دیکھ کر بولا وہ بہت نڈ ھال لگ رہیں تھیں
"پامیر کو میں نے ہی کہا تھا کے تم اس کے ساتھ ہی رہ لو گی ۔ اور ہان میں پرسو ں استنبول جا رہی ہوں ۔ بھائی صاحب کی طبیعت بہت خراب ہے ۔ اس ہی پریشانی نے جمال بھائی کی طبیعت خراب کی ۔ اب جلد از جلد مجھے جانا ہو گا میری بات سمجھ رہے ہو نا بچے۔” آرزو صاحبہ بولیں
"اتنی جلدی !!!چلیں کوئی بات نہیں میں اکیلے رہ لوں گی ۔ آپ آرام سے جایئں۔” ارج بولی جس پر پامیر اور آرزو صاحبہ دونوں نے اس کی عقل پر ماتم کیا
"دراصل یہاں کچھ دن کے کئے جمال بھائی کا بیٹا اور بہو شفٹ ہو رہے ہیں تو یہ گھر تو خالی نہیں ہو گا۔” وہ بولیں
"کوئی بات نہیں وہ آپ کے کمرے میں رہ لیں گے۔” ارج پریشانی سے بولی
"دراصل بیٹا !! ناز(جمال صاحب کی بہو)کا بھائی بھی آ رہا ہے تو کوئی کمرہ خالی نہیں ہو گا۔”یہ بات انہوں نے خود سے بنائی تھی ۔
"پھر میں کہاں جاؤں گی ؟”وہ نرواس ہوتے ہوئے پریشانی سے بولی
"تم میرے ساتھ جاؤ گی” پامیر نے اس کی پریشانی کو نظر انداز کرتے ہوئے کہا ۔
"میں کیوں بھلا آپ کے ساتھ جاؤں ۔ اللہ کا شکر ہے ابھی میرا دماغ کام کر رہا ہے ۔ میں عفت سے پوچھتی ہوں اگر اس کے پاس کوئی جگہ ہو تو آپ ہر وقت حکم ہی چلاتے رہتے ہیں” ۔ ارج نے پامیر کو گھوری سے نوازا ۔
"عفت کے پاس بھی جگہ نہیں ہے ۔میں نے بات کی تھی اس سے پہلے لیکن اب تمہارآ نکاح ہو چکا تو تم پامیر کے ساتھ ہی جاؤ گی تاکہ میں ذہنی سکون میں رہوں” وہ اس کو راضی کرنے کے جتن کر رہیں تھیں
"پر آرزو آنٹی "۔ ارج نے بولنا چاہا
"بس بہت ہو گیا ۔ اب اتنی بھی بحث اچھی نہیں میں کل آؤں گا ۔اور تم اپنا سامان پیک کر لینا”۔ پامیر بولا
"آپ !!! آپ کو کس حق دیا”۔ ارج بولی
"حق کی تو بات ہی نا کرو ۔ ابھی اٹھا کر کے جاؤں تو کون روکے گا” مجھے پامیر نے غصے میں کہا
"آپ ۔۔” ارج کی آنکھوں میں آنسو آ گئے
"ہاں میں!!” پامیر کہاں پیچھے رہنے والا تھا
ارج آنکھوں میں آنسو لئے اوپری منزل کی طرف بھاگ گئی ۔
"رہنے دیں اس کو ۔ ورنہ کبھی نہیں مانے گی مجھے نئی پتا کے اس کے ساتھ کیا ہوا ہے لیکن میں نے ہر حال میں ارج کو قبول کیا ہے ۔ "پامیر سیڑھیوں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔
"میں چلتا ہوں اب” پامیر نے کہتے ہوئے ایک بار پھر اوپر کی طرف دیکھا ۔ اور باہر بڑھ گیا ۔
ارج کھڑکی سے باہر کی طرف دیکھنے میں مشغول تھی کے پامیر کو دیکھ کر چونکی ۔
پامیر نے کسی کی آنکھوں کی تپش محسوس کرتے ہوئے اپنی آنکھیں اٹھا کر ادھر ادھر دیکھا ۔ پھر کھڑکی پر اس کی نظریں ٹھہر گئیں ۔
ارج نے ہڑبڑا کر پردہ برابر کرنے کی کوشش کی لیکن پامیر کے چہرے پر مسکراہٹ رینگ گئی ۔
صبح کی روشنی اب دوپہر کی روشنی میں ڈھل چکی تھی ۔ پامیر لائبریری کے کاموں میں مصروف تھا کے اس کے فون کی گھنٹی بجی ۔
"جی آرزو صاحبہ بس میں تھوڑی دیر میں پہنچ رہا ہوں لائبریری کے کام کی وجہ سے لیٹ ہو گیا نہیں تو صبح ہی آ جاتا” پامیر نے فون اٹھاتے ہی کہا
"ہاں!!کوئی بات نہیں میں انتظار کر رہی ہوں” ۔ آرزو صاحبہ بولیں
"ٹھیک ہے ” پامیر نے فون بند کرتے ہوئے کہا اور عمر کی طرف متوجہ ہوا جو کتابوں کے ڈبے کے کر جاتے ہوئے زمین بوس ہو چکا تھا ۔
"تم سے کبھی زندگی میں سہی کام ہوا ہے” پامیر نے سر نفی میں ہلا کر کہا
"وہ غلطی سے ہو گیا پامیر بھائی” عمر کتابوں میں دبے ہوئے بولا
پامیر نے اس پر سے تمام کتابیں اٹھائیں ۔
"میں ذرا ارج کو لینے جا رہا ہوں تم یہاں کا کام دیکھ لو میں نے تمام کتابیں دیکھ لیں آرڈر ٹھیک ہے سب کتابیں وہی ہیں جو ہم لوگوں نے منگوائی تھیں اب ان کو سائنس ریک میں سیٹ کر دو ” ۔ پامیر نے ہدایات دیتے ہوئے کہا ۔
"ٹھیک ہے باس ۔ مبارک ہو ہم لوگ لائبریری کو سجا دیں۔ یا نہیں پہلی بار بھابی آ رہیں ہیں تو ان کے لئے کوئی نا کوئی تیاری کر لیتے ہیں ۔ میں اور ھایال ۔” عمر ایک ہی سانس میں بولا
"نہیں تم رہنے دو ۔ کسی چیز کی ضرورت نہیں ہے ۔ اور نا ہی کسی کو اس سے فلحال ملنے کی ضرورت ہے "پامیر کہتا ہوا باہر کو چل دیا ۔
جبکہ عمر عجیب و غریب منہ بنائے اس کو دیکھتا ہی رہ گیا ۔
پامیر آرزو صاحبہ کے گھر پہنچ کر خود کو جنگ کے لئے تیار کر رہا تھا ۔
"السلام علیکم !آرزو صاحبہ ارج کہاں ہے” ۔ پامیر نے اندر داخل ہوتے ہوئے کہا ۔
"ابھی تک نیچے نہیں آئی کل سے کچھ کہا پی بھی نہیں رہی ” آرزو صاحبہ نے بےبسی سے اوپر کی طرف دیکھ کر کہا
پامیر نے سیڑھوں کا رخ کیا اوپر پہنچ کر اس نے گہرا سانس لیا اور ارج کے کمرے کا دروازہ کھو لا ۔
"میں تیار ہوں جانے کے لئےآپ ان سے جا کر کہیں میں آ رہی ہوں ” ارج جو دروازہ کھلنے کی آواز پر چونکی تھی پامیر کو آرزو صاحبہ سمجھ کر بولی
"ارج !! سامان کہاں ہے ۔” پامیر کے پوچھنے پر اس نے سوٹکیس کی طرف اشارہ کیا ۔
وہ لوگ سامان لے کر نیچے آئے تو آرزو صاحبہ ان کو کچن میں ملیں "بیٹا تم لوگ دوپہر کا کھانا کھا کر ہی جانا ” وہ کام کرتے ہوئے بولیں
”نہیں اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے آپ بہت شکریہ اگر آپ میری مدد نا کرتین تو پتا نہیں کیا بنتا میرا ۔ بہت شکریہ آپ کا آرزو صاحبہ” وہ کہتے ہوئے باہر چل دی
آرزو صاحبہ اور پامیر نے شوک کی حالت میں اس طرف دیکھا جہاں سے وہ ابھی گئی تھی ۔
آرزو صاحبہ صاحبہ کی آنکھوں میں آنسو تھے ۔
"آپ ٹنشن نا لیں کچھ دیں میں ٹھیک ہو جائے گی "پامیر نے ان کے چہرے کی طرف دیکھ کر کہا
"شائد” انہوں نے کہتے ہوئے منہ پھیر لیا ۔
"میں چلتا ہوں آپ آپ اپنا خیال رکھیے گا ۔ کوئی بھی مسلہ ہو تو کال ضرور کریے گا۔” وہ کہتے ہوئے ارج کے پیچھے چلا گیا
جبکہ آرزو صاحبہ نے دل پر پتھر لئے دروازہ بند کر دیا
"یہ سوٹ کیس مجھے دو” پامیر نے اس سے سوٹ کیس لینے کی کوشش کی ۔
"میں خود اٹھا سکتی ہوں” ارج نے غصے سے غراتے ہوئے کہا ۔
"ارج تم کونسی زبان سمجھ آتی ہے” ۔ پامیر نے سلگتے ہوئے کہا
"پشتو سمجھ آتی ہے اس میں بولیں گے تو ضرور سمجھ آ جائے خیر چھوڑیں آپ کو تو اردو نہیں آتی پشتو کہاں سے آئے گی "ارج اردو میں بربڑ ا رہی تھی ۔
"محترمہ ترکش میں بولیں گی آپ اس نے کہتے ہوئے” سوٹ کیس اس کے ہاتھ سے چھپٹ لیا ۔
"پامیر !!!! ” ارج اونچی آواز میں چلائی
”ارج خاموشی سے چلو نہیں تو پھر جیسے میں لے کر جاؤں گا وہ طریقہ تمھیں بلکل بھی پسند نہیں آئے گا”۔ پامیر نے غصے سے تلملا تے ہوئے کہا
"آپ کی کوئی بھی حرکت مجھے پہلے ہی پسند نہیں فری کی دھونس جماتے رہتے ہیں” ۔ ارج کہاں پیچھے رہنے والی تھی ۔
پامیر نے تنگ آ کر اپنے چہرے پر ہاتھ پھیرا ۔ یہ لڑکی مجھے پاگل کر کے ہی چھوڑے گی ۔ پامیر نے سوچتے ہوئے کہا ۔
تبھی اس کی نظر پاس کھڑے لڑکے پر پڑی جو بارے جوش و خروش سے ان دونو ن کی لڑائی دیکھ رہا تھا ۔
"تم اگر اپنے دانت اور آنکھیں پیاری ہیں تو میری بیوی کو گھورنا بند کرو اور اپنی بتیسی یہاں سے لے کر غائب ہو جاؤ ۔”
پامیر سے سرد سے لہجے پروہ لڑکا نو دو گیارہ ہو گیا ۔ پامیر نے پیچھے موڑ کر دیکھا تو ارج صاحبہ بھی غائب تھیں ۔ ادھر ادھر نظریں دورا ئیں تو سامنے اپنا سوٹ کیس کھینچتے ہوئے جا رہیں تھیں ۔
ا”س کو۔ خود ہی اٹھا کر جانے دو ۔ دیکھتا ہوں کب تک جا سکتی ہے” ۔ پامیر نے اس کی ضد سے تنگ آ کر سوچا
اور بارے مزے سے اس کے ساتھ چلنے لگا ۔ ارج جو اب یہ بات سمجھ چکی تھی تھی کے یہ بیگ اٹھانا اس کے بس کی بات نہیں تھی ۔ لیکن کیا کیا جا سکتا تھا انا بھی کسی چیز کا نام ہے آخر کار تھک ہار کر ایک جگہ پر بیٹھ گئی ۔
"کیا ہوا روک کیوں گئی ہو "۔پامیر جوآ گے آگے جا رہا تھا ۔ واپس پیچھے آ کر پوچھا
"میری مرضی ۔” ارج ازلی ڈیھٹائی سے بولی
"تمہارا کچھ نہیں ہو سکتا ۔ چلو ” اس نے سوٹ کیس اپنے ہاتھ میں لیا اور گھر کے راستے پر چل پڑا ۔
‘اب چلو بھی "۔ اس نے پیچھے مڑ کر دوبارہ ارج سے کہا
تو وہ بھی اٹھ کھڑی ہوئی ۔” ویسے لاجک کے مطابق مجھے ان سے ناراض ہونا چاہیے نا کے یہ مجھ پر حکم چلائیں ۔” ارج نے سوچا
"ارج !!!! ” اب کے پامیر کی گرج دار آواز پر اس کے پیچھے چل پڑی ۔