(Last Updated On: )
ہیں میرے دوست کہاں، مجھکو یہ بتا ہی دیا
نہیں ہے کوئی بھی میرا مجھے دکھا ہی دیا
میرا یہ حال کس نے ہے کیا بتاو ذرا
میرا ہے کون اس جہاں میں یہ بتا ہی دیا
یہ مِرا ظرف ہے جسکو کبھی بھلا نہ سکا
یہ اُس کا ظرف کہ اس نے مجھے بھلا ہی دیا
کیا کہا اور ہے کسر جو رہ چکی ہو کہیں
اس نے ہر شہر ہر گلی کو خود جلا ہی دیا
مِرا یہ جسم ، میرا دل ، مِری جوانی کے دن
فریبِ یار نے سب کچھ مرا مٹا ہی دیا
تھا حشر کا سا سماں روز تیرے عاقل پر
تب ہی تو اس نے تیرے عکس کو جَلا ہی دیا