اس نے کھڑ کی سے جھانک کر دیکھا۔ وہ آدمی ابھی تک نیچے چپ چاپ کھڑا تھا۔ابھی ابھی جب اس نے اُس سے کہا تھا کہ وہ اس شہر میں اجنبی ہے اور شب بسری کے لیے ایک رات اس کے گھر میں گزارنا چاہتا ہے لیکن اس کے انکار کے باوجود وہ ابھی تک نیچے کھڑا تھا۔ یہ اس کے لیے ایک پریشان کن مسئلہ تھا۔ اس کی نئی نئی شادی ہوئی تھی۔ اور وہ خود اس محلے کے لیے زیادہ شناسا نہ تھا۔ کچھ دن پہلے ہی اس نے یہاں سکونت اختیار کی تھی۔ ایسے میں شب بسری کے لیے کسی بھی اجنبی کو جگہ دینا خطرہ مول لینے کے مترادف تھا۔
رات کے گیارہ بج رہے تھے۔ سردی ہولے ہولے بڑھ رہی تھی۔ اور ساتھ ساتھ تیز ہوائیں چلنے لگی تھیں۔ بند کھڑکیاں تیز ہوا کے دباؤ سے خودبخود کھل رہی تھیں۔ اُسے ایسا لگ رہا تھا جیسے دبے پاوں کوئی طوفان آنے والا ہو۔ قریب کے کمرے میں اس کی بیوی نیند میں غرق تھی۔کمرے کی لائٹ آف تھی اس لیے کمرے میں اندھیرا چھایا ہوا تھا۔ اس نے اندر جا کر لائٹ آن کرنا مناسب نہیں سمجھا۔ شاید اس کی نیند خراب ہو جائے مگر اس آدمی نے اسی کے گھر کا انتخاب کیوں کیا؟۔۔۔ لیکن وہ اب تک تو چلا گیا ہو گا۔ کسی آشرم کے کمرے نے اس کے لیے اپنی آغوش وَا کر دی ہو گی وہ یہ سوچ کر اطمینان سے اس دریچے کی طرف بڑھا۔ جہاں سے وہ نیچے دیکھ سکتا تھا۔
اسے کھڑکی کی طرف جاتے ہوئے ڈر سا لگ رہا تھا۔ وہ کب کا چلا گیا ہو گا۔ یہ بات اس نے ذہن میں بٹھانے کی کوشش کی۔ اور کھڑکی تک نہ جانے کا جواز اس نے اپنے طور پر ڈھونڈ لیا تھا۔ پھریوں بھی ہوائیں تیز چل رہی تھیں۔ اسے کھڑکی کے مقابل ایک سایہ سا دکھائی دیا۔۔جیسے کہہ رہا ہو۔
بس ایک رات کی بات ہے کسی کونے میں پڑا رہوں گا اور گجر دم چلا جاؤں گا۔ کتنی راتیں ہیں جن کی کبھی صبح نہیں ہوتی۔ مگر یہ عجیب رات ہے جو کچھوے کی طرح رینگ رہی ہے۔ وہ جی کڑا کر کے کھڑکی کے قریب آیا۔ اُسے یہ دیکھ کر سخت حیرانی ہوئی کہ وہ ابھی تک نیچے چپ چاپ کھڑا تھا۔ سڑک پر اکا دکا موٹر کاریں دوڑ رہی تھیں۔ چند لوگ سمنٹ کی سڑک پر آہستہ آہستہ چل رہے تھے۔
بازار کی بیش تر دوکانیں بند ہو چکی تھیں اور سڑک پر کہیں روشنی تھی اور کہیں اندھیرا اس نے سوچا پولیس کو فون کیا جائے کہ اس کے گھر کے نیچے ایک مشتبہ آدمی کئی گھنٹوں سے کھڑا ہے۔ اُسے اپنی جان و مال کا خوف ہے ۔۔۔۔۔۔لیکن پولیس اتنی سی بات پر تھوڑا ہی ایکشن لیتی ہے۔۔۔۔۔ مگر وہ اپنے خط و خال سے بھی بھلا مانس لگتا ہے کپڑے بھی صاف ستھرے پہن رکھے ہیں۔گفتگو میں مٹھاس اور نرمی بھی ہے ۔۔۔۔آدمی تو کئی پردوں میں چھپا رہتا ہے۔ جگہ نہ دینے ہی میں عقلمندی ہے۔ جگہ کے لیے تو ساری دنیا پریشان ہے۔ شیلٹر کب کہاں اور کسے ملا ہے۔
اب وہ کھڑکی سے ہٹ کر اپنی بیوی کے کمرے کی طرف آیا۔ اس کی بیوی ابھی تک سو رہی تھی۔ رات سونے کے لیے ہوتی ہے۔ شاید گہری نیند سو کر وہ اسے یہی بات سمجھانا چاہتی ہو۔ شاید جلد سو کر وہ یہ بات بھی اس کے ذہن نشین کروانا چاہتی ہو کہ نیند کے ساتھ ساتھ وہ اور بہت سی باتوں میں خودمختار ہے۔ مگر وہ بھی تو چپکے سے اس کے قریب جا کر سو سکتا ہے۔ جاگنے کے لیے اگر وہ آزاد ہے تو سونے کے لیے
بھی اس کی آزادی برقرار رہے گی۔ وہ یوں ہی ٹہلتا رہا۔ اس کے لیے مشکل یہ تھی کہ وہ اب نہ خود سو سکتا تھا اور نہ اپنی بیوی کو جگا سکتا تھا۔
اس کا ذہن منتشر تھا۔ ذہن میں طرح طرح کے گمان سر اونچا کیے جھانک رہے تھے۔ وہ اپنے کمرے میں اسی طرح ٹہلتا رہا۔ کبھی کبھار کھڑکی کی طرف اس کی نگاہیں اٹھ جاتیں تو اسے بے اختیار اس اجنبی کا خیال آتا۔ اجنبی کے خیال کے ساتھ ہی اس کی طبیعت دگرگوں ہو جاتی۔
آج اسے دو باتوں کی بڑی کوفت تھی۔ اجنبی کا خواہ مخواہ مکان کے نیچے ٹھہرا رہنا۔بیوی کا وقت سے پہلے سو جانا۔ ان دونوں نے جیسے اس کا سکھ چین چھین لیا تھا۔ اس نے دل میں سوچا اگر اجنبی اب بھی اس کے مکان کے نیچے کھڑا نظر آئے تو وہ اسے لڑائی کے لیے للکارے گا۔ اسے اوپر سے ایک موٹی سی گالی دے گا اور کہے گا بدمعاش یہاں سے فوری دفع ہو جا۔
وہ تیز تیز قدم ڈالتا ہوا کھڑکی کے پاس آیا۔ اس نے دیکھا وہ نوجوان اب الکٹرک پول سے ٹیک لگائے سورہا تھا۔ اس نے سوچا۔ سونے والے کو کیا گالی دی جائے۔ رات تو آدھی ڈھل چکی ہے۔ گجر دم وہ یہاں سے چلا جائے گا۔ اس نے کھڑکی سے جھانک کر پھر ایک بار بغور اُسے دیکھا۔ اس کی آنکھیں بند تھیں۔ اور ہاتھ پاوں بالکل ساکت تھے۔ شاید وہ گہری نیند کے مزے لے رہا تھا۔ پھر وہ کچھ سوچ کر کھڑکی کے پاس ہی ٹھہرا رہا۔ شاید وہ جاگے تو اسے للکار سکے۔ لیکن وہ بدستور سو رہا تھا۔
وہ کھڑکی کے پاس سے آہستہ آہستہ اپنی بیوی کے کمرے کی طرف آیا۔ اس کی بیوی کے کمرے میں اندھیرا چھایا ہوا تھا۔وہ نیند میں غرق تھی۔ وہ سوچتا رہا۔ سوچتا رہا۔
اس کا ذہن اب کچھ کام کرنے کے قابل نہ تھا۔ وہ اپنے بستر پر آ کر دراز ہو گیا۔
اس نے آنکھیں بند کرنے کی کوشش کی لیکن نیند اس سے کوسوں دور تھی۔
پھر یوں ہوا کہ آہستہ آہستہ اس پر نیند نے غلبہ پانا شروع کر دیا۔ اس کی مندی مندی آنکھوں میں نیند ننھے منّے قطروں کی طرح جمنے لگی اور ایک حد ایسی آ گئی کہ وہ سو گیا۔
سویرے جب اس کی آنکھ کھلی تواس کا دل بے طرح دھڑک رہا تھا۔
صبح کی سفیدی در و دیوار پر پھیل رہی تھی۔ اٹھتے ہی سب سے پہلے اُسے اس اجنبی کا خیال آیا جو رات گئے الکٹرک پول سے ٹیک لگائے سو گیاتھا۔
یک بارگی وہ بستر سے اُٹھا اور کھڑکی کے پاس آ پہنچا۔ اس نے دیکھا پول کے نیچے ایک مریل سا کتّا پیشاب کر رہا تھا۔
وہ جا چکا۔ چلو ایک الجھن سے نجات تو ملی۔ وہ یہ سوچ کر بڑے اطمینان سے اپنی بیوی کے کمرے میں داخل ہوا۔ وہ بڑے اطمینان سے سو رہی تھی۔ جانے کیوں اس کا سر چکرا گیا۔ وہ اپنی پریشانی اور اُداسی کا جواز بھی نہ ڈھونڈھ سکا۔ چور نظروں سے اس نے پھر اپنی بیوی کو دیکھا۔ اس کے بال بکھرے ہوئے تھے۔ غازہ چہرے کو کچھ عجیب طرح سے چھوڑ رہا تھا۔ کاجل آنکھوں میں پھیل کر رہ گیا تھا۔
اس نے کچھ سوچ کر سگریٹ جلایا اور اس کھڑکی کی طرف دیکھنے لگا۔ جس سے وہ ابھی ابھی لوٹا تھا۔ لمبا کش لے کر دھوئیں میں جھانکتے ہوئے وہ سوچتا رہا۔ کیا میں واقعی رات سوتا رہا تھا یا پھر۔۔۔۔
لیکن اس کی بیوی اطمینان سے سو رہی تھی۔