(Last Updated On: )
۱۹۶۰ء سے ۱۹۷۱ء تک (شائع شدہ ۱۹۷۱ء)
۱۹۴۷ء میں تقسیمِ ہند کے بعد ترقی پسند تحریک کے زیرِ اثر ادب میں جس مقصدیت کا تصور تھا، وہ بڑی حد تک پورا ہوا لیکن یہ تھوڑی سی تبدیلی ترقی پسند نظریات اور تحریک میں جمود کا باعث بن گئی اس کے بعد تشکیک کا ایک دور مختصر عرصہ کے لیے ادب میں جاری رہا اور اس طرح مقصدی شاعری نے ۱۹۵۵ء کے بعد اپنا اثر کھو دیا۔ اس کی سب سے بڑی وجہ شعرا کے پاس مضامین کی یکسانیت اور عنوانات کے دائرے کی محدودیت تھی۔ اکثر و بیش تر شعرا ’’مانگے کے خیالات‘‘ پر سہارا کر بیٹھے تھے۔ رومانیت اور سنسنی خیزی نے دوبارہ دخل در معقولات شروع کر دیا۔ انسانیت کے مسائل کثرت سے وحدت کی طرف سفر کرنے لگے۔ گاندھی، مارکس، لینن کے فلسفے محض (Generalization) عام شدنی کے نتائج تھے۔ اوسط حل سب کا حل نہیں ہوتا ہاں ایک حد تک معاشرتی بہتری پیدا ہو جاتی ہے۔ جب اس ماحول نے زور کم کیا تو ہر ایک اپنے اطراف گھومنے لگا۔ کرب نشاط کش مکش مسرت، تلاش، آرزو، سب کھلے ہوئے میدان سے ہوتے ہوئے اپنے محور میں آ گئے۔
اس کے نتیجے میں ملک کے دوسرے حصوں کی طرح حیدرآباد میں بھی ایک نئے شاعرانہ ماحول نے جنم لیا۔ اردو شاعری کے دورِ جدے دیت میں جو کردار حیدرآباد نے ادا کیا ہے وہ کچھ ڈھکا چھُپا نہیں۔ اس شاعری کا واضح تصور ۱۹۶۰ء کے اطراف سامنے آیا۔ چناں چہ اس لمحے کو اس مضمون کے لیے ازل قرار دیا جا سکتا ہے۔ نئی شاعری کے بارے میں حیدرآباد خوش قسمت ہے کہ یہاں پر کافی تعداد میں نئے شعرا اور تازہ مزاج فہم موجود ہیں۔ لہذا یہاں پر ان اہم شاعروں کا معروضی انتخاب پیش کیا گیا ہے۔
اس مضمون میں ان شاعروں کا جائزہ پیش ہے جن میں بعض تو ایسے ترقی پسند شاعر ہیں جنھوں نے بدلتے ہوئے رجحانات کو نہایت کامیابی کے ساتھ اپنی شاعری میں سمویا۔ اس کے علاوہ ایسے نوجوان شاعروں کا بھی ذکر ہے جنھوں نے پچھلے دس بارہ سال کے عرصہ میں جدید اردو شاعری کو واضح اور متعین سمتیں عطا کی ہیں۔
٭
مخدوم محی الدین:
اس نسل کی ابتدا مخدوم محی الدین سے کی جا سکتی ہے۔ مخدومؔ اصل میں ترقی پسند تحریک کے رہنماؤں میں سے تھے۔ انھیں اپنی عوامی شاعری کے ذریعہ جانا جا چکا تھا لیکن مخدوم کا رخشِ قلم اپنی عصری شاعری کے بھی ہم رکاب تھا۔ بہت کم شاعر ایسے ہوتے ہیں جن کی شاعری زمانے کے ساتھ ساتھ لفظ و معنی کا پیرہن بدلتی رہتی ہے اور مخدوم انھی میں سے ایک شاعر تھے۔ انھوں نے زخم سے گل، درد سے خوش بو کی طرف سفر کیا تھا۔ ان کی شاعری میں خارِ زیرِ گل کی خلش کا بھی لطف آتا ہے لیکن ۱۹۶۰ء کے بعد ان کی شاعری چونک سی پڑی اس سلسلے میں ان کی فکر میں تجسس داخل ہو گیا۔ وہ شناساؤں کے پہچاننے کے لیے دوبارہ تگ دو کرتے گئے۔ ان کی شاعری میں ’’میں‘‘ سے زیادہ ’’ہم‘‘ کی کارکردگی نظر آتی ہے اور ان کے لہجے میں موسیقیت اور دھیما پن محسوس ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں ان کی نظم ’’اپنا شہر‘‘ دیکھیے:
یہ شہر اپنا عجب شہر ہے، کہ راتوں میں
سڑک پہ چلے تو سرگوشیاں سی کرتا ہے
بلا کے زخم دکھا ہے
۔۔ ۔ رازِ دل کی طرح
دریچے بند، گلی چپ نڈھال دیواریں
کواڑ مہر بلب
گھروں میں میتیں ٹھہری ہوئی ہیں برسوں سے
کرایہ پر۔۔ ۔ !!
…… (اپنا شہر)
اس نظم کے اندر شناسائی مکرر کا ایک عجب سا ماحول پیدا کیا ہے اور شاعر کے اندر چھپے ہوئے درد اس کی آنکھوں کے سامنے گھومتے ہوئے دریچوں، خاموش گلیوں میں تبدیل ہو کر رہ جاتے ہیں۔ مخدوم کی شاعری کی ایک اور خوبی پردے کے اندر چھپا ہوا شکوہ ہے۔ جو ہمیشہ ماحول اور الفاظ کے در و بست میں جھانکتا رہتا ہے۔ ان کی آخری نظم ’’رت‘‘ میں:
مداوا کیا ہے؟
چاند کو پیمانہ بناؤ
رت کی آنکھوں سے ٹپکنے لگے کالے آنسو
رت سے کہو دو
کہ وہ پھر آئے
…… (رت)
کالے آنسو، چاند کا پیمانہ، مداوا، رت کی آنکھیں زخم خوردہ سا ماحول پیدا کر دیتے ہیں اور اس پر لہجے کی استفساریت رنگ آمیزی کرتی ہے۔ مخدوم اپنی نظم میں الفاظ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے معانی میں سراسر فرق پیدا کر دیتے ہیں جس سے ان کے لہجے کی پہچان آسان ہو جاتی ہے۔ نہرو کی موت پر ان کی نظم اس کی عمدہ مثال ہے۔
مخدوم کے آخری مجموعہ کلام ’’بساطِ رقص‘‘ کے ’’گلِ تر‘‘ والے حصہ میں بیش تر ایسی نظمیں پائی جاتی ہیں جو ان کے نئے ادب سے انسلاک کی شاہد ہیں۔ وہ ایک عظیم شاعر تھے اور حیدرآباد کی ادبی فضا میں ایک مجدد کا مقام رکھتے تھے۔
٭
خورشید احمد جامی:
خورشید احمد جامی حیدرآباد کے ان اہم شاعروں میں شمار کیے جاتے ہیں جن کا تعلق کبھی کسی ادبی تحریک سے نہیں رہا اور جن کے کلام نے عوام اور خواص دونوں میں مقبولیت حاصل کی۔ اس کا سبب ان کی شاعری میں تشبیہات اور استعارات کا بھرپور استعمال ہے۔ جامی کی شاعری میں دور تک یاس کا سایہ نہیں ملتا۔ اس میں زندگی خیزی جھلکتی ہے۔ جب دیکھیے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جامی کسی نئے شہرِ سخن کی تعمیر میں محو ہیں۔ ان کے لہجہ میں متانت اور سنجیدگی ہے۔ جامی نے تشبیہات کے استعمال میں جس پرکھ کا استعمال کیا وہ ان کے پیرو اور ’’چربہ ساز‘‘ نہ کر سکے۔ اس لیے آسانی سے ان کے اشعار کی شناخت کی جا سکی ہے۔
جامی خود شناس اور خود حساب شاعر تھے۔ اسی لیے ان کی غزلیں باوجود معیاری ہونے کے زیادہ رسائل میں شائع نہ ہوئیں۔ انھوں نے سعی ہی نہیں کی۔ ایک خوبی جو جامی کے اشعار میں پائی جاتی ہے وہ مرصع صناعی ہے۔ انھوں نے معصومیت کے ساتھ بھی جو باتیں کہہ دی ہیں وہ قاری کو یکایک اپنی طرف کھینچ لیتی ہیں۔
جامی کی شاعری میں غنائیت تو ہے لیکن رومانیت نہیں۔ عشق تو ہے لیکن فلسفیانہ باتیں نہیں۔ ان کی شاعری عام اور اوسط معاشرے کے لیے ہے اور زندہ رجحانات کی تابع دار ہے۔ مثلاً:
سنسان راستوں پہ تری یاد نے کہا
حالات کا فریب بھی کتنا حسین تھا
جامیؔ جو زندگی سے زیادہ عزیز تھے
ان کو بھی زندگی کی طرح بھولنا پڑا
شہر میں، شہر کی سڑکوں کے دھڑکتے دل میں
ریگ زاروں کی سلگتی ہوئی تنہائی ہے
صحرا کا سلگتا ہوا احساس ہوں جامی
ذروں کی طرح دہر میں بکھرا ہوا تن ہوں
جامی کی آواز کا نکھرا پن یہ بتاتا ہے کہ وہ شعر گوئی میں حسنِ بیان پر بڑی گہری نظر رکھتے تھے۔ جامی نئے ادب کے بہت اہم اور اچھے شاعر تھے۔ ان کا ذکر ہمیشہ تشبیہ شناسوں کے درمیان رہے گا۔
٭
سلیمان اریب:
جامی کے بعد تیسرا اہم شاعر سلیمان اریب ہے جس نے مخدوم ہی کی طرح مقصدی ادب سے خالص اور نئے ادب کی طرف مراجعت کی تھی۔ سلیمان اریب کی شاعری میں پختگی کا احساس ۱۹۶۰ء کے بعد پیدا ہوا۔ یہ ان کے اپنے مدیرانہ مشاہدے و مطالعہ کا بھی نتیجہ ہے۔ اریب کو ایک مدیر کی حیثیت سے پہچانا گیا اور ان کی شاعری کا اعتراف قدرے تاخیر سے ہوا۔ وہ جدید سے جدید ترکی تلاش کو بہتر سمجھتے تھے۔ اس کے باوجود ان کی شاعری کا جھکاؤ سماجی افادیت کی طرف تھا۔ جدت طرازی کے سبب انھوں نے بعض اوقات اپنے وقار کو دھکا پہنچایا لیکن اریب کی شاعری کا سب سے دل چسپ عنصر ان کی شکستہ ’’انا‘‘ ہے۔ انھوں نے ’’ہم‘‘ پر ’’میں‘‘ کو ترجیح دی اور اس سے ان کے کلام میں بہت عمدہ اضافے ہوئے۔
اریب کا مزاج نظموں کے مقابلے میں غزلوں میں زیادہ واضح طور پر سامنے آتا ہے۔ ان کی شاعری خالی پن، خوابیدگی اور جذباتیت سے مملو ہے۔ نظموں میں ان کا کردار سوالیہ نشان بن جاتا ہے۔ اکثر و بیش تر معمولات اور اظہارِ خیال ان کی شاعری کے واضح Dimensions ہیں۔ مثلاً:
زندگی شعر کا موضوع تو ہو سکتی ہے
شعر کے اور جو عنوان ہیں، گر وہ نہ رہیں
اس پہ کیا بحث کریں؟
بحث پھر بحث ہے
عورت پر ہو، لونڈے پہ ہو یا جنس پہ ہو
…… (لایعنیت)
جب کوئی قرض صداقت کا چکانے کے لیے
زہر کا دردِ تہہ جام بھی پی لیتا ہے
۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔
میں اسے دیکھ کے چپکے سے کھسک جاتا ہوں
یہ تو میں خود ہوں وہ احمق، جس کی
اپنی رسوائی میں تسکینِ انا ہوتی ہے
…… (تسکینِ انا)
اریب نے شاعری میں بالکل واضح زبان استعمال کی ہے۔ ان کی نظمیں اعتراف و تبصرہ کا نتیجہ ہوتی ہیں۔ ان کی غزلوں میں غنائیت فعال قوت ہے اور تحت لہجہ میں بڑی تیز باتیں کہہ جاتے ہیں:
شراب و شعر میں عریاں تو ہو گئے لیکن
فضائے ذات کے پردے ہر ایک چاک میں ہیں
لالہ و گل کی طرح کھینچے ہے دامانِ نگاہ
ہم نے اس طور سے زخموں کو سجا رکھا ہے
تمھاری میری رفاقت ہے چند قدموں تک
تمھارے پاؤں کا چھالا ہوں پھوٹ جاؤں گا
سلیمان اریب ایک با لہجہ شاعر تھے۔ یہ ان کی خوش قسمتی تھی کہ انھوں نے اپنے رجحان کو سنبھال کر رکھا تھا اور بلا خوف تنقید اپنے نظریات کا اظہار کرتے تھے۔
٭
عزیز قیسی:
عزیز قیسی نئی شاعری کے ان ستونوں میں سے ہیں جنھوں نے اپنی منفرد فکر سے اہم مقام حاصل کیا ہے۔ عزیز قیسی کا حیدرآباد سے ہمیشہ سے ادبی اور فکری تعلق رہا ہے۔ فکرِ معاش نے گرچہ انھیں حیدرآباد سے کچھ دور کر دیا ہے لیکن وہ حیدرآباد کے ان شاعروں میں سے ہیں جنھوں نے اردو ادب و شعر میں اپنی آواز پیدا کر لی ہے۔
قیسی کی شاعری نے گرچہ ۱۹۶۰ء سے پہلے ہی اپنی اہمیت منوا لی تھی لیکن ۱۹۶۰ء کے بعد انھوں نے اپنا لب و لہجہ یکسر بدل دیا۔ وہ وجود و حیات کے مسائل کو گہری اور پُر تجسس نگاہ سے دیکھتے ہیں اور اپنی نظم علامتی فکر سے اور شاعرانہ نظر سے بڑی خوب صورت نظمیں کہہ جاتے ہیں۔ قیسی کی نظموں کو ان کی غزلوں پر بلاشبہ ترجیح حاصل ہے، اس لیے کہ یہی ان کے مزاج سے ہم آہنگ ہے۔ ظلمت، روشنی، خواہش، امید، حواس، وقت یہ سب وہ غیر مرئی اشیا اور محسوسات ہیں جن کی گرمی ہم زندگی کے پیکر میں محسوس کرتے ہیں اور پاتے ہیں۔ قیسی نے اپنی شاعری میں ان اشیا و محسوسات کو کلیدی مقام عطا کیا ہے۔ ان کی فکر کسی طرح ترقی پسندوں اور مقصد پرستوں کی نعرہ بازی کی اسیر نہیں۔ قیسی تجربوں اور ندرت کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں اور نئے جہتوں کی تلاش میں کوشاں ہیں۔
یہاں پر قیسی کی شاعری کے اس پہلو کا ذکر ضروری ہے جو عجیب ہے۔ یعنی قیسی کی شاعری دو رنگوں میں بٹی ہوئی ہے اور دونوں رنگ تقریباً ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ پہلا لہجہ وہ کہ جس میں وہ ایک تیز ذہن اور شاعرانہ تخیل کے ساتھ ملتے ہیں۔ مثلاً:
وہ مجھ سے کہتی ہیں
تم بھی تو روز اپنے بدن کے فولاد
دل کے شیشے کو یوں ہی بھٹی میں جھونکتے ہو
تو دیکھ لو
رات رات، دن دن، گھڑی گھڑی، لمحہ لمحہ
مری طرح تم بھی مر رہے ہو
(مری طرح سب ہی مَر رہے ہیں)
مگر نگاہیں بچائے رکھنا
…… (ایکشن نگری، ۲۰)
میں جیتا ہوں اس مٹی پر
جس سے گھر بنتے نہیں
جس سے قبریں بنتی ہیں
جس کا ذرہ ذرہ اوروں کا ہے
ان کا جس میں ’’میں‘‘ ہوں جو مجھ میں ہیں
……… (میں)
دوسرا لہجہ اس شاعر کا ہے جو شاعر کم اور فلسفی زیادہ ہے۔ اس لہجہ میں ایک حد تک اقبال کی شاعری کی پرچھائیں محسوس ہوتی ہے:
ترے درک و ہوش و حواس کی
مرے وجد و وہم و قیاس کی
یہی ایک پل تو اساس ہے
یہی ایک پل میرے پاس ہے
…… (بین العدمین)
قیسی کی شاعری کا ماحول محنت زدہ اور تھکا ہوا ہے۔ وقت نے اس کے مناظر پر زنگ لگا دیا ہے اور شاعری اس زنگ کو چاٹتی نظر آتی ہے۔ قیسی کا زاویہ نگاہ چمک دار اور روشن رہ گزر سے ہوتے ہوئے ایک بے بس اور مغموم انجام تک پہنچتا ہے۔ زبان و بیان میں خوب صورتی اور تعلیم یافتہ شائستگی ہے جو ان کے مطالعہ اور مزاج کی آئینہ دار ہے۔ جھنجھلاہٹ اور کثرت درجہ کی ظاہر پسندی کی شاعری میں نہیں۔
٭
شاذ تمکنت:
شاذ تمکنت کا شمار حیدرآباد کے اہم ترین شاعروں میں ہوتا ہے۔ انھوں نے ہند و پاک میں اپنی واضح اور خوب صورت اور گہری شاعری کی مدد سے مقبولیت حاصل کی۔ انھوں نے اپنی آواز اور اپنی لفظیات میں حسین اور اچھوتی تشبیہات اور تراکیب کا لطف بھر دیا ہے۔ ان کے پاس خیالات میں حکمت کی ندرت نہیں ہے۔ ان کے لہجے میں شوخی و سادگی کی ایک پرُکیف آمیزش ہے۔ ان کی شاعری سے ایک تنہا اور خوش حال شخص کا پیکر ڈھلتا ہے۔ تراشیدہ کی اشاعت کے بعد ان کی شاعری متحرک ہو گئی ہے۔ انھوں نے ان دنوں نظمیں کے مقابلہ میں غزلوں پر دباؤ بڑھا دیا ہے۔
شاذ کی نظموں میں ڈرامائیت، Structure اور لفظیات اظہار کی جان ہے۔ ان کی زبان اور اندازِ بیان میں فیضؔ اور فراقؔ کے رنگوں کے اثرات کا امتزاج محسوس ہوتا ہے اور ’’اچانک پن‘‘ کی بجائے تسلسل ملتا ہے۔ مثلاً:
چاند جگمگاتا ہے۔۔ ۔ !
تھال جیسے کندن کا
ہر کرن کے سینے میں
پھوٹتی ہیں جھنکاریں
یہ پھوار سی خنکی
یہ کٹار سی دھاریں
تو اگر میری ہوتی
رنگ ہی دِگر ہوتا
…… (خواب زار)
ان کی نظموں میں ’’حسرتِ بیدار‘‘، ’’مخدوم‘‘، ’’دائرہ‘‘ اہم اور خوب صورت نظمیں ہیں۔ زبان دیکھیے:
پلکیں نیندوں کے چنور، آنکھیں شبستاں کے چراغ
سخنِ زیر لبی مشک کے جھونکے جیسے
…… (دائرہ)
ان کی غزلیں ارتکاز جذبات سے عاری ہیں۔ شاذ کی نظموں کا ٹھہراؤ ان کی غزلوں میں بھی محسوس ہوتا ہے۔ وہ متانت اور وضاحت کو چنتے ہیں۔ ان کی غزلیں زبان کے لحاظ سے بوجھل نہیں ہوتیں بلکہ معنی خیز ہوتی ہیں:
بنا حسنِ تکلم حسنِ ظن آہستہ آہستہ
بہر صورت کھلا وہ کم سخن آہستہ آہستہ
دامن ہے دور اور گلے نارسا کے ہیں
گویا ہمارے ہاتھ فقط اب دعا کے ہیں
کیا یہ دنیا مرے ہاتھوں سے نکل جائے گی
دشت کو تاہ تری بے خبری کیسی ہے
کیوں آج مجھ سے ہیں یہ جی بہلنے کی باتیں
یہ کیسے بھول گئے تم رلا بھی سکتے ہو؟
شاذ کی غزلوں پر غالب کی آسان زبان والی غزلوں کا دھوکا بھی ہوتا ہے۔ لیکن یہ وجدانی کیفیت کا نتیجہ ہے۔ شاذ نے موجودہ نظم میں بہت خلوص سے کام کیا ہے اور ان کی شاعری ان کی لفظیات کی ندرت سے بھرپور ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ شاذ تمکنت ادبی افق پر زبان و بیان کا نمائندہ ہے۔
٭
راشد آذر:
راشد آذر مقصدی سوچ، خاموش انداز اور گھریلو ماحول کے شاعر ہیں۔ ان کی شاعری میں اپنا پن اور خرد مندی کا ایک امتزاج پایا جاتا ہے۔ ان کی نظمیں سلیس و سادہ زبان میں با وزن انداز سے عملی تجربہ ہوتی ہیں۔ اب تک ان کے دو مجموعہ ہائے کلام ’’نقشِ آذر‘‘ اور ’’صدائے تیشہ‘‘ چھپ چکے ہیں۔
ان کی شاعری میں شخصی سوچ اور درون بینی کے مقابلے میں درون خانہ کے مضامین فرد کے سماجی مسائل اور نیم رومانویت کی طرف جھکاؤ زیادہ ہے۔
انھوں نے شاعری میں عمق پیدا کرنے کے لیے تخفیف اور آہنگ سے اکثر فائدہ اٹھایا ہے۔ آزر کے پاس واضحیت کو زیادہ اہمیت حاصل ہے جو ترقی پسند تحریک کے زمانہ کی شاعری کا خاصہ رہا ہے۔ اس کے باوجود ادھر آزر نے ۱۹۶۰ء کے بعد اپنے لب و لہجہ میں نمایاں تبدیلی کر لی ہے۔
راشد آزر کی نظمیں Pre-determined پلاٹ پر لکھی ہوئی ہوتی ہیں۔ جس میں وہ ہر پہلو کو کھول کھول کر سامنے رکھ دیتے ہیں۔ جس سے ان کی شاعری کا تاثر کم ہو جاتا ہے:
جوڑے میں گجرے کی خوش بو
آنکھوں میں کاجل کے ڈورے
اس امید میں تم بیٹھی ہو
میں آؤں تو دن بھر کے دکھ
دونوں آپس میں باٹیں گے
۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔
تم کو مجھ سے یہ شکوہ ہے
۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔
میں بھی ایک طوائف بن کر
لاج ہنر کی بیچ رہا ہوں
۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔
تم میرے بچے کی ماں ہو
سارے شکوے سر آنکھوں پر
لیکن میں یادوں کے پیچھے
یا تتلی کے رنگ چرانے
پاگل بن کر دوڑ رہا ہوں
یہ مجھ کو الزام نہ دینا
…… (یادیں، تتلیاں اور تم)
٭
وقار خلیل:
وقار خلیل حیدرآباد کے ایسے شاعروں میں شامل کیے جاتے ہیں جو فطرتاً زود گو ہیں۔ وہ کلی سمتوں کے شاعر ہیں۔ انھوں نے بچوں کی نظمیں، قومی نظمیں، موضوعاتی نظمیں اور نئی نظمیں سب کہی ہیں۔ اسی لیے ان کے بارے میں کسی ایک رخ سے گفتگو نہیں کی جا سکتی۔ وقار خلیل ترقی پسند تحریک کے زمانے سے لکھ رہے ہیں لیکن ۱۹۶۰ء کے بعد ان کی شاعری میں نیا رنگ جھلکنے لگا ہے۔ وہ نئی تراکیب بنانے کی بجائے الفاظ کو ان کے ہی معانی میں اور ان ہی تراکیب میں استعمال کرتے ہیں جیسے کہ وہ ہیں۔
ان کی ایک اچھی نظم ’’بچپن سے بلوغ تک‘‘ ان کی فکری متنوع مزاجی کی آئینہ دار ہے۔ وہ مقصدی اور موضوعاتی شاعری کے علاوہ فطری اور نئی شاعری کو مطلوبہ اعلیٰ معیار سے ہم کنار کرتے ہیں۔
ان کی زبان نہ تو بہت عام فہم ہے نہ مشکل۔ ان کے لہجے میں ستھرا پن اور معزز اردوداں کی آواز نظر آتی ہے۔ وقار کے اسلوب میں فیض کی نرمی اور اقبال کی مرعوب کن لفاظی دونوں ملتے ہیں۔ ان کی سب سے خوب صورت نظم ’’سیلِ معانی‘‘ ہے جس میں انھوں نے مصرعوں کے اتار چڑھاؤ سے فائدہ اٹھایا ہے۔ مصرعوں کا طول دھیرے دھیرے بڑھتا ہے اور پھر اسی رفتار سے کم ہوتا جاتا ہے۔ اس طرح ایک یا دو لہریں وجود میں آتی ہیں۔ وقار کی یہ نظم دو لہروں پر مشتمل ہے:
فکر ہے یا کوئی بہتی رودِ نیل
یم بہ یم، طوفاں بہ طوفاں، جو بہ جو
جس کی تہہ میں سنگ ریزوں کی طرح بجھتے شر ر
جس کی سینوں میں دبے ہیں
نا سپاسیِ شب و روزِ تمنا کے نقوش
جو کبھی تھے شعلۂ حسنِ خیال
وقار کی زبان میں جو ٹھہراؤ ہے وہ ان کی نظم میں با وقار اہمیت پیدا کر دیتا ہے۔ ان کی غزلوں میں جدت طرازی کے ساتھ ساتھ پرانا پن بھی ہے۔
جس کے سبب کچھ شیر و شکر کا مزہ ملتا ہے:
سوچتے چہروں پہ جلتے ہوئے آثارِ حیات
یک بہ یک وقت کا عرفان ہوا ہو جیسے
پڑھتے ہیں لوگ ہجر کے لمحات میں کتاب
ہم بھی اچھالتے ہیں خرابات میں کتاب
دیکھو تو زندگی کی حسیں شاہراہ پر
اب بھی ہجوم نوحہ گراں ساتھ ساتھ ہے
٭
تاج مہجور:
تاج مہجور نئی نظم میں اپنا مخصوص مقام رکھتے ہیں۔ یہ نظمیں کہنے میں جتنے فراخ دل ہیں اتنے ہی چھپنے چھپانے کے معاملہ میں تنگ دل واقع ہوئے ہیں۔ ان کی شاعری اکثر تبدیلی سے متاثر ہوتی ہے۔ زباں و مکاں کی تبدیلی انسانوں اور لمحوں میں خاصا فراق پیدا کر دیتی ہے۔ تاج ہر نئی تبدیلی پر حیرت سے نظر کرتے ہیں۔ ان کے مضامین انسانی رشتوں اور شہروں کے بدلتے ہوئے پرتو ہیں۔ تاج کی نظمیں ایک منتخبہ پلاٹ سے پیدا ہوتی ہیں۔ نپی تلی ان کا میدان فکرِ مختصر اور مخصوص ہے۔ وہ مروجہ قوانین سے بغاوت کرتے ہوئے گھبراتے ہیں اور اپنی نظم میں قاری کی دل بستگی کا خیال بھی رکھتے ہیں۔ تاج کے اسلوب کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ انھوں نے افسانوی انداز کو اپنایا ہے جو ایک خاص Trend ہے:
بہت مدتوں بعد اک دن اچانک
مجھے راہ چلتی ہوئی مل گئی وہ
۔۔ ۔۔
جب میں نے اس کو بتایا
کہ دل میں ابھی تک
تری آرزو کی لجیلی کنواری
۔۔ ۔۔
مسلسل ترا راستہ دیکھتی ہے
۔۔ ۔۔
تو وہ مسکرائی
۔۔ ۔۔
کہا اس نے مجھ سے
’’مگر اب تو میں۔۔ ۔۔
چھوڑیے دوسری بات کیجیے
کہیں کوئی اچھا مکان ہو تو کہیے
مگر اس کے نزدیک
اچھا سا ایک ماڈرن اسکول بھی ہو
…… (دوسری بات)
کل تیرگیِ شب میں جدا ہو گئے تھے ہم
آج اس حسین شب میں ہماری نظر کے نور
کھیتوں سے، کالجوں سے، ملوں سے خوشی خوشی
ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کے نکلیں گے ساتھ ساتھ
اک روشنی کی موڑ پہ مل جائیں گے گلے
…… (’’روشنی کی موڑ پر‘‘)
تاج اپنی نظم کے اطراف ایک خاص ماحول پیدا کرتے ہیں تاکہ ان کی نظمیں سمجھنے میں قاری دشواری نہ محسوس کرے اس ماحول کی پیدائش کے لیے انھیں لفاظی سے کام لینا پڑتا ہے لیکن جو باتیں وہ کہتے ہیں نہ تو وہ بہت گہری ہوتی ہیں نہ ان میں کوئی نفسیاتی اور فکری نکتہ ہوتا ہے اس کے باوجود ایک ندرت سی محسوس ہوتی ہے ان کی اکثر نظمیں ذاتی تجربے کی عکاس ہوتی ہیں۔
٭
انور معظم:
انور معظم حیدرآباد کے خاموش ترین شاعروں میں سے ہیں۔ اسی وجہ سے بہت سے لوگ ان کو شاعر کی حیثیت سے نہیں جانتے۔ انور کی شاعری بہت ہی سادہ اور دل آویز ہوتی ہے۔ وہ اکثر فطرت اور قدرتی مناظر سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔
انھوں نے ۱۹۶۰ء کے بعد جدید طرز کی نظمیں جو کم ہونے کے باوجود نئی شاعری کی اچھی مثال ہیں۔ یہ اقتباسات قابلِ غور ہیں:
نگارِ سحر بن سنور کر نکھر کر
دھندلکوں سے باہر اجالوں میں آئی
کہ مشتاق دیدار بے تاب ہوں گے
مگر آج سب اس سے یوں بے خبر تھے
کہ جیسے وہ ان کے لیے اجنبی ہو
…… (پہلا دن)
بھنور نے گرجتے ہوئے قہقہوں میں
یہ مجبور تنکے سے پوچھا
۔۔ ۔۔
مجبور تنکے نے گردش کی۔۔ ۔
۔۔ ۔ بڑھتی ہوئی بے بسی میں یہ مانا
’’یہ سچ ہے کہ رفتار کا تو ہی خالق ہے
میں صیدِ رفتار ہوں‘‘
اور دریا
وہ اک تیسرا شخص
خاموش
یہ گفتگو سن رہا تھا۔۔ ۔
انور معظم نے طویل منظوم ڈرامے اور غنائیے بھی لکھے ہیں اور اس میں بھی کامیاب ہیں۔ ان کی بیش تر نظمیں موجودہ خود فکری اور بے نیازی سے متاثر ہیں بیانیہ ہوتے ہوئے بھی ان کی زبان میں خیالات کی زیادتی دل چسپی فراہم کرتی ہے۔ ان کے فلسفیانہ نظریات میں انفرادیت ہے۔
٭
مغنی تبسم:
مغنی تبسم تحقیق اور تجزیہ کے مردِ میدان ہیں۔ وہ اپنی فن دانی تنقید اور عروض دانی کے سبب مشہور ہوئے۔ ان کی شاعری ایک معیاری لب و لہجے میں ذات کے کرب اور جذبات کے نرم و نازک اظہار سے پُر ہے۔
مغنی تبسم لسانی نازک خیالیوں سے بہ خوبی واقف ہیں وہیں ہم عصر فکر و فلسفہ سے ان کی سوچ ہم آہنگ ہے۔ ان کی شاعری جدید شاعری کی اچھی مثال ہے۔ مغنی تبسم کی نظمیں اکثر درمیانی طول کی ہوتی ہیں نہ طویل نہ بالکل مختصر۔ کبھی کبھی ایک مصرعہ کو توڑ کر اس طرح پیش کرتے ہیں کہ لہجے میں پُر اسراریت کا شبہ ہوتا ہے۔ مثلاً:
وہ
تیرا
مقدر
نہیں
تھا
تری آگ تھی
…… (اندھیری رات کا سفر)
اس کے برخلاف انھوں نے اپنی نظم ’’رائگاں‘‘ میں ایک طویل Statement کو Rapid عاجل انداز میں پیش کیا ہے جس سے ان کے لہجے میں جداگانہ معنی خیزی پیدا ہوتی ہے:
ہاتھ میں یہ قلم وزن رکھتا ہے لیکن
یہ میں کس طرح مان لوں کہ ہمالہ ہے کوہ گراں
تم سناتے ہو صدیوں کی تاریخ، میں کیسے
باور کروں جب کہ دنیا مرے ساتھ پیدا ہوئی
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مغنی تبسم نظم کہتے وقت اپنی قوتِ بیان کے قابو میں رہتے ہیں اور وجدان ان کی شاعری میں دائمی نہیں ہوتا۔ گرچہ کہ اظہار کی زیریں رو وجدان سے سراسر متاثر رہتی ہے۔
وہ اپنی نظموں میں اکثر مکالماتی بیان کا انتخاب کرتے ہیں۔ ’’رائگاں‘‘، ’’سوال‘‘، ’’آنکھ ملتے ہوئے‘‘، ’’اندھیری رات کا سفر‘‘ ہر نظم میں انھوں نے اسی مخصوص انداز کا انتخاب کیا ہے۔ ان کے مکالماتی لہجے میں کبھی تو حاضر و متکلم دونوں ہوتے ہیں تو کبھی صرف حاضر یا صرف متکلم موجود ہوتے ہیں۔ جس سے خود کلامی یا گفتگو کا انداز پیدا ہو جاتا ہے۔ انھوں نے اپنی نظموں میں تفصیل کے مقابلہ میں اختصار کو زیادہ اہمیت دی ہے جس کی وجہ سے ان کی نظمیں قاری سے زیادہ دل چسپی اور توجہ مانگتی ہیں۔
٭
حکیم یوسف حسین خاں:
حکیم یوسف حسین خاں کا شمار ان شاعروں میں ہوتا ہے جو قدیم نظریات کو نئی زبان میں پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کے مجموعۂ کلام ’’خوابِ زلیخا‘‘ میں بیش تر نظموں میں یہ بات موجود ہے۔ ان کی زبان میں نیا پن ضرور ہے لیکن سجاوٹ اور گنجلک مزاجی دونوں سے قریب تر ہے۔
ائے عدم! ائے عدم! ائے عدم! ائے عدم
پھر بنا دے مجھے سرِ لوح و قلم
اب میں سمجھا کہ مکتی فنا ہے مری
میں عدم رہ سکوں تو بقا ہے مری
…… (مراجعت)
نفسِ گل کا اعتبار ہی کیا
پھول نے خود بھی خود کشی کر لی
کیوں کہ ہر صبح نو جو آتی ہے
تتلیاں اور ساتھ آتی ہے
…… (حادثہ)
حکیم یوسف حسین خاں کے تعلق سے یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ ان کی شاعرانہ عمران کی طبعی عمر کے مقابلہ میں بہت کم ہے۔ انھوں نے ۱۹۵۹ء کے اطراف پہلی نظم کہی ان کی عمر کوئی ۴۸ برس کے لگ بھگ ہو گی اس سے ان کی شاعری میں عبوری دور کی ناپختگی ہم عصر شاعروں کے اثرات نہیں ملتے البتہ ایک سلجھا ہوا احساس پایا جاتا ہے اور ان میں وہ عنصر کم کم ملتا ہے جسے جذبہ کہتے ہیں۔
ان کی مشہور نظم ’’رشتہ‘‘ ایٹم بم کی تحریک سے شروع ہوتی ہے لیکن آخر میں آ کر وہی ’’انسان دوستی‘‘ کا حرف لگا کر ختم ہو جاتی ہے۔ اگر حکیم صاحب اپنے کینوس کو وسیع کریں تو ان کی شاعری میں اور جلا پانے کے کافی امکانات ہیں۔
٭
رؤف خلش:
۱۹۶۰ء کے بعد نیا لب و لہجہ اور نئی فکر لے کر آنے والے شاعروں میں رؤف خلش اہم اور ممتاز ہیں۔ رؤف خلش نئے پر کش مکش، حیراں و زخم خوردہ ماحول کی پیداوار ہیں۔ ان کی شاعری میں دور و غم سے انس سا ملتا ہے۔۔ ۔ پیار۔۔ ۔ ہر چیز سے پیار۔۔ ۔ جلتی ہوئی آگ سے، بہتے ہوئے پانی سے، ٹوٹتی ہوئی رگوں سے۔ اسی لیے ان کی شاعری مانوس معلوم ہوتی ہے۔ انھوں نے اپنا ماحول ہندستانی دیہی زندگی سے حاصل کیا ہے۔ ماگھ، پوس، ساون بھادوں، پروائی، گوپال، اشوک و کلنگہ سب کے سب علامئے خالص ہندی ہیں:
جانے کب تک شہروں کی آبادی میں
پت جھڑ کے دیوتا راس رچائیں
جانے کب تک
اگنی کے بادل منڈلائیں
بیتے موسم لوٹ نہ آئیں
…… (بیتے موسم)
خلش کی شاعری میں کوئی رنگین عینک نہیں ہے وہ کسی بھی چیز کو اور کسی بھی احساس کو اپنے ترتیب شدہ مطالعے سے نہیں دیکھتے، ہاں ان کی نظم و غزل کے پس منظر میں درد و غم کا ایک ہلکا ہلکا سُر محسوس ہوتا ہے۔ ان کی بعض نظموں میں لہجے کی یکسانیت کا یہ حال ہے کہ اگر ان نظموں کو ملایا جائے تو ایک نئی نظم حاصل ہو اور یہ ان کی شاعری کی ایک صفت ہے ان کی شاعری کی چند مثالیں:
آئینے دل کے تراشوں تو ہے آشفتہ سری
سنگ اندازوں کی بستی میں ملی شیشہ گری
غم پرستی کی لگن جانے کہاں لے جائے
راستے آج نظر آتے ہیں گہرے سائے
…… (دکھتی رگیں)
سال ہا سال سے میں
کتابوں خیالوں کے مصنوعی سانچوں میں جکڑا رہا
وقت کی شور کرتی مشینیں
ڈھا گئیں ان تعفن بھرے مکتبوں کو
کتابوں، خیالوں کے مصنوعی سانچے
مقبرے بن گئے
…… (خوابوں کی چاندنی)
ان کی غزلوں میں الجھن زیادہ ابھر کر آئی ہے اور ان میں نظموں کے ہی موضوعات ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی غزلوں میں عجبیت کا احساس ہوتا ہے۔ خلش نے اکثر اپنے تجربات پر نظر ڈالی ہے۔ وہ غم زدہ شخص کی طرح اپنے ماحول کا جائزہ لیتے ہیں:
بے نشاں منزلو! کس سفر کی کہانی لکھوں
تھک گئی سوچ ہر موڑ پر، ذہن جلتا رہا
مری افتاد کا حاصل یہی ہے
بکھر کر ٹوٹ کر تم سے ملا ہوں
جھنجھلا کے کیوں نہ چھین لوں، ٹوٹا ہے وہ عذاب
پھر وقت گھومتا ہے لیے درد کی زکات
رؤف خلش نے اپنی شاعری کے در و بام کسی مخصوص شاعر کے اثر سے نہیں بنائے ہیں بلکہ انھوں نے اپنا منفرد لہجہ وضع کیا ہے۔ ان کی نظموں میں انتظار، الجھن اور واہمہ کو خاص مقام حاصل ہے۔ فی الواقع وہ نظموں کے شاعر ہیں۔
٭
صلاح الدین نیر:
صلاح الدین نیر حیدرآباد میں ایک خاص لب و لہجہ کے شاعر کی حیثیت سے مقبول ہیں۔ مشاعروں اور ادبی تحریکات میں ان کی شمولیت بھی اس مقبولیت کا سبب ہیں۔ سماجی اور زندگی سے تعلق رکھنے والے موضوعات پر آسان بلکہ از کار رفتہ اسلوب میں غزل لکھتے ہیں۔ ادھر کچھ عرصہ سے ان کی شاعری میں نئے رجحانات کا پرتو جھلکنے لگا ہے ان کی شعری کاوشوں سے یہ واضح ہوتا ہے کہ پُر خلوص طور پر وہ خوب سے خوب تر کی تلاش میں سرگرداں ہیں۔ لیکن لسانی صلاحیت اور موضوعاتی ندرت محدود ہیں۔ نیر کی غزلوں میں حیدرآباد کے مشہور شاعر شاہد صدیقی مرحوم کا گہرا اثر ہے۔ چند اشعار سنیں:
برگِ آوارہ کی مانند ہے تنہا تنہا
زندگی ساتھ مرا چھوڑ کے پچھتائی ہے
نرم آغوش ہو یا بسترِ گل ہو نیرؔ
سونے والوں کی تو کانٹوں پہ بھی نیند آئی ہے
وقت قاتل سہی دیوانے کو ہوش آنے سے
خود بہ خود پاؤں کی زنجیر پگھل جاتی ہے
ان کے مجموعۂ کلام ’’گل تازہ‘‘ کی اشاعت کے بعد کی تخلیقات نئے ماحول سے ہم آہنگ ہوتی جا رہی ہیں۔ ان کی جستجو اور محنت حوصلہ شکن نہیں ہے۔ نیر کی نظموں میں غزلوں جیسا تحرک نہیں ہے۔ اسی لیے صرف ان کی غزلوں کو ہی اہمیت دی جا سکتی ہے۔ توقع ہے کہ نیر آگے ہمیں بہتر شعری سرمایہ دیں گے۔
٭
مسعود عابد:
مسعود عابد کم شائع ہونے والے شاعروں میں سے ایک ہیں۔ ان کی شاعری میں نئے مزاج کا اثر ہے۔ عابد کی زبان میں سادگی ہے اور وہ علامات پر تشبیہات کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس لیے ان کی نظموں کو پڑھ کر نئے پن کا مدھم سا اثر پیدا ہوتا ہے۔ ان کی شاعری میں مقصدی انداز کی جھلک بھی ملتی ہے۔ ان کے مضامین ہیں، وہ عام مسائل جن سے ہر ایک دوچار ہوتا ہے۔ ذاتی فکر اور ذاتی تجربہ کے مقابلہ میں سماجی اندازِ فکر گہرا نہیں ہو پاتا:
ثبت پھولوں کے دہن پر ہیں
خموشی کی ہزاروں مہریں
سلب ہے قوتِ گویائی بھی
ہر طرف ایک سکوں ایک فسوں طاری ہے
…… (اسٹوڈیو)
لیکن اب تو
موڑ پہ اس تاریک گلی کے
اک دروازہ اور کھلا ہے
روشن دانوں سے رس رس کر
نور کی دھاریں پھیل رہی ہیں
…… (نیا در)
عابد کا زاویہ نظر ہمیشہ اس بات سے متاثر ہے کہ چیزیں اور شکلیں بدل جائیں گی لیکن مسائل وہی کے وہی رہیں گے۔ عابد کو زبان اور بیان پر قابو ہے اور ان کی نظموں میں دل کشی ہوتی ہے۔
٭
حسن فرخ:
نئی شاعری میں ایک خاص تعداد ان شعرا کی ہے جو شک و شبہ کی نظر سے فلسفہ کو دیکھتے ہیں۔ ان شعرا میں حسن فرخ بھی ایک نام ہے۔ حسن فرخ ۱۹۶۰ء کے بعد آنے والے شاعروں میں نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ ان کی شاعری نہ گنجلک ہے نہ الجھی ہوئی انھوں نے جو لہجہ اختیار کیا ہے وہ ذرا سا نشتر انگیز ہے۔ لیکن اس میں ترشئی تیزی نہیں۔ حسن فرخ زندگی کے اطراف لمحوں کی تلاش میں گھومتے ہیں۔ جب انھیں کوئی اہم لمحہ مل جاتا ہے تو اسے زیبِ دیوان کر لیتے ہیں۔ ان کی نظمیں عنوانات کے لحاظ سے بھی دل فریب ہوتی ہیں۔ حسن فرخ کے خیال میں کوئی فلسفہ، کوئی مسلک موجودہ پے چیدگی کا حل نہیں ہے وہ انسان کے چہرے میں بڑھتے ہوئے کھردرے پن کو محسوس کرتے ہیں اور ڈوبتے ابھرتے ہوئے جزیروں کو دیکھتے ہیں۔ انھیں ہر لمحہ پر شبہ ہے۔ وہ پھر بھی بڑی متانت سے اپنی بات کہتے چلے جاتے ہیں:
ہڈیاں، گوشت کے خوب صورت غلافوں میں
پھر سے لپٹنے لگیں
کھٹکھٹاتی ہوئی رات کے اونچے اونچے
مکانوں کے دروازوں کو
کل برہنہ ملی تھی مجھے
اصطلاحوں کا پیراہن اوڑھے ہوئے زندگی
…… (کل برہنہ ملی تھی مجھے)
میں نے ہر غم کو جلا بخشی ہے
دل گیتی کو دھڑکنے کی ادا بخشی ہے
اک کلی مجھ سے مگر پوچھتی ہے
تم میں پہلی سی وہ معصومیت اب کیوں نہ رہی؟
…… (سوال)
کوئی چہرہ، کوئی اک واقعہ
لاشعوری روکی گرہیں
گن تو سکتا ہے
مگر سلجھا نہیں سکتا
…… (امکان کے دہلیز پر)
حسن فرخ کی نظموں میں توانائی محسوس ہوتی ہے۔ اگر وہ اپنے کینوس میں اور رنگ آمیزی کریں تو ان کی نظمیں اردو کا اہم سرمایہ بن جائیں۔ انھوں نے نئے تصورات کی تلاش میں کئی قسم کے اجتہاد کیے ہیں اور ان کی نظموں کی ہیئت کی جو سب سے خاص چیز ہے وہ یہ ہے کہ ان کی ہر نظم ابتدا اور آخر دونوں مقامات پر زیادہ باوزن ہو جاتی ہے۔ اس سے ان کے اندرونی کرب کا ابلاغ بہ آسانی ہو جاتا ہے۔ حسن فرخ شکست خوردگی کی بجائے لٹے جانے کا احساس زیادہ رکھتے ہیں اور ان دونوں احساسات میں واضح فرق ہے۔
٭
اکمل حیدرآبادی:
اکمل حیدرآبادی ایک کم گو قسم کے شاعر ہیں۔ نئے رجحانات کا ان پر معتدل اثر ہے۔ اس کے باوجود وہ جدت کے قائل ہیں۔ ایک بات جو اکمل کی شاعری میں ہے وہ ان کا بیانیہ Descriptive انداز ہے۔ اس میں بالکل نیم شاعرانہ سلاست پائی جاتی ہے۔ اگر وہ اس انداز کو رمزیت یا اشاریت کی طرف موڑ دیں تو ان کی شاعری کا میدان کافی وسیع ہو سکتا ہے۔ ان کی نظم ’’جدید قاری‘‘ نئی نظموں میں اہمیت کی حامل ہے۔ ان کی نظموں میں ندرت اور بدلتے ہوئے سماج کا اثر مانوس حد تک ہے۔ انھوں نے ہیت، ڈرامائی زیر و بم، لہجہ کی تبدیلی کو اپنی شاعری میں راہ نہیں دی کیوں کہ وہ بالکل سلجھے ہوئے اور سادہ انداز میں باتیں کہتے ہیں:
نصف صدی کے بعد بھی لیکن پیشِ نظر عنوان
وہی ہیں!
ابروئے جاناں، چشمِ غزالاں
جام و سبو اور سنبل و ریحان
جانے کتنی دور روایت سایہ بن کر ساتھ رہے گی
جانے کتنی صدیوں ہم پر صدیوں کی یہ چھاپ رہے گی
…… (صدیوں کی چھاپ)
اکمل کے اندر کا چھپا ہوا فن کار چاہتا ہے کہ اس کے مشاہدے اور الفاظ کو برتنے کا انداز بھی اسی قدر نیا اور تازہ ہو جس طرح کہ اس کے موضوعات نئے اور تازہ ہیں۔ اکمل ایک کم گو شاعر ہیں۔ انھیں ابھی نئی جہتوں کی تلاش میں جستجو کرنی ہے۔
٭
مصحف اقبال توصیفی:
مصحف اقبال توصیفی ایک بہت گہرے شاعر ہیں نظمیں اور غزلیں دونوں ہی ان کا وسیلۂ بیان ہیں۔ وہ اپنے قاری سے ذہنی انسلاک چاہتے ہیں۔ نظموں میں ایک نیا اور حیرت انگیز خیال ملتا ہے۔ وہ احساسات کے پس منظر پر اپنی خیالی تصاویر کو ابھارتے ہیں۔ جس سے ایک بالکل نیا اور سلیقہ مند لہجہ ابھرتا ہے۔ مصحف اقبال شروع میں بہت سارے شاعروں کی طرح ۱۹۶۰ء کے بعد پاکستانی رسائل میں چھپنے کو زیادہ ترجیح دیتے رہے۔ اس لیے ان کا نام ہندستانی قاری کے لیے نیا نظر آتا ہے۔ اگر ان کی نظموں کے مختلف حصص کو مناسب لہجوں میں پڑھا جائے تو ایک بے حد معنی خیز شاعری ابھر کر آتی ہے:
مجھے وقت کے چند قطروں میں حل کر کے
میرے لہو سے
ایک اک پل نچوڑا گیا ہے
میں جانتا ہوں
۔۔ ۔۔
اگلا اسٹیشن آنے سے پہلے
اندھیرے کے زینے سے
چپ چاپ باہر نکل جاؤں گا
…… (گیان کے جنگل میں)
مصحف کی نظموں میں وقت ایک اہم رکن ہے۔ وہ وقت کو پل سے لیکن صدیوں تک ناپتے ہیں۔ محولہ بالا نظم میں وقت کا طول کم ہے لیکن ان کی نظموں ’’قید‘‘، ’’مسیح کی ولادت سے پہلے‘‘، ’’فائزا‘‘ میں اس نے بہت اہم مقام حاصل کیا ہے۔ مصحف کی زبان بھی بہت فن کارانہ ہے۔ وہ تراکیب اور بندشوں میں ایک طویل بیان کو محو اور منجمد کر دیتے ہیں:
وہ آ رہا ہے
وہ اقلیدسی شکل اس کی، مثلت نما ہونٹ
لہجے کی مخصوص گمبھیرتا
وہی جانے پہچانے فقرے
۔۔ ۔۔
’’مداری پٹارے میں کیا ہے؟
وہیں بین، سانپ اور کوئی تماشہ؟‘‘
…… (سفید پوش)
وہ ابتدا میں ’’درمیانی ترقی پسند‘‘ شاعری سے متاثر رہے لیکن ان کی بعد کی نظموں میں نیا پن ہے، طاقت ہے اور ارتکاز ہے اس لیے ہیئت میں تجربہ ان کی شاعری کے لیے اضافی نہیں ہے۔ مصحف کی شاعری کا ایک اور قابلِ ذکر حسن لہجے اور محل میں حسبِ عنوان تبدیلی ہے۔ ان کے تجربات میں ڈرامائیت کا احساس زیادہ ہوتا ہے۔ مستقبل میں مصحف کی شاعری سے بہت توقعات منسلک ہیں۔
٭
شفیق فاطمہ شعریٰ:
ہندستانی عورت ہمیشہ پیار کا ایک حسین نقطہ رہی ہے۔ گاؤں کی کلاسیکی سانولی کا انداز ہمارے قدیم ادب کا رنگین شعبہ ہے۔ لیکن موجودہ ماحول میں عورت اپنی تمام علمیت اور قابلیت کے ساتھ کس طرح اپنے رومان کا اظہار کرے گی اور اس نئی فضا میں اس کے احساسات کس طرح رنگ لیں گے اس کے لیے شفیق فاطمہ شعریٰ کی نظموں کا دیکھنا بہت ضروری ہے۔
شعریٰ کی نظمیں عمدہ اردو کا نمونہ ہیں۔ زبان پر ان کو قدرت حاصل ہے۔ ان کے اندازِ بیان میں معنی خیزی اور تمثیلات میں گہرائی ہے۔ شعریٰ اپنے اظہار کے لیے منظر کا وسیلہ لیتی ہیں۔ منظر وہ اپنی درونی کیفیات سے ہم آہنگ اور ہم مزاج منتخب کرتی ہیں اور پھر ایسی زبان میں بیان کرتی ہیں فی الحقیقت ارژنگ تصورات شعریٰ کی محبت میں فراق ہی فراق ہے۔ لیکن اس عشق میں وہ غم اور وہ درد نہیں جو ایک زخمی عاشق کے احساس میں؟؟؟ اس محبت میں ایک خود اعتمادی ہے ایک نسوانی انا ہے۔ اس کے باوجود کہ اور بھی نئے شاعروں نے رومانی نظمیں لکھی ہیں یہ کہا جا سکتا ہے کہ شعریٰ اپنی طرزِ اظہار میں یکہ و تنہا ہیں:
مجھے خبر نہیں پنچھی خبر نہیں مجھ کو
تجھی کو کوئی پتہ ہو تو مجھ سے کہہ دینا
کہ ہر نواح کی خوش بو ترے مشام میں ہے
کہ دیس دیس کی پرواز کام ہے تیرا
مجھے خبر نہیں پنچھی خبر نہیں مجھ کو
نہ پوچھ مجھ سے، میرا ماہ کس مقام میں ہے؟
…… (فصلِ نیک فال)
یہی اندھیرے میں، سونے سبھی اجالے ہیں
کہیں بھی فطرت بے تاب کو قرار نہیں
بلند و پست سبھی اپنے دیکھے بھالے ہیں
کہا جو کچھ تو یہ حسرت رہی کہ کچھ نہ کہا
ہوئے خموش تو دل دھیرے دھیرے خون ہوا
نہ جانے کیا ہے حیات دو دم کا کفارہ
…… (دل ناداں)
شعریٰ کی نظم میں جو علامتیں ہیں وہ اکثر قدرتی مناظر سے لی گئی ہیں۔ ان کی ترکیب ہی میں بہت بڑا کمال ہے۔ مناظر سے پوری طرح لطف اندوز ہونے میں عورت زیادہ کامیاب ہے۔ مرد مناظر کو پکڑنے میں اس قدر حساس نہیں جتنی کہ عورتیں۔ یہ نظم دیکھیے:
اور سنہری دھانی نقطوں والی دھرتی ابھری
پاٹ گئی تاریک ڈھلانوں کو
سارے نشیب ہیں قد آدم، اونچے بنفشوں میں ڈوبے
بسراوے کی نرمل جوئے شیر سی چمکیلی دھارا بہتی ہے
اور بہار آئی
…… (رُت مالا)
شعریٰ اگر رومانی ماحول سے باہر نکل آئیں تو ان کے لیے ادب کا بہت کھلا میدان ہے۔ وہ اپنی شعری خصوصیات کو قائم رکھتے ہوئے جدید رجحانات کی عکاسی کریں تو اردو نظم میں قابلِ قدر اضافہ کریں گی۔
٭
غیاث متین:
غیاث متین ایک سنجیدہ اور گہری فکر کے حامل شاعر ہیں۔ وہ روایات اور میلانات کی پابندی سے گھبراتے ہیں۔ ان کی نظمیں بکھری ہوئی ہوتی ہیں اور ان کی سوچ علامات کی پیداوار ہے۔ متین کی نظموں میں شکست و ریخت کا عمل جاری رہتا ہے۔ جس کی وجہ سے ان کے قول میں بو قلمونی پیدا ہو جاتی ہے۔ متین کے لہجہ میں عجوبیت بھی جھلکتی ہے اور اخترالایمان کا کھردرا پن بھی بعض اوقات اپنی شاعری میں غیر شاعرانہ علامات بھی استعمال کر جاتے ہیں۔ ان کی شاعری کو سمجھنے کے لیے ان کی نظم ’’کچی اینٹوں کا پل‘‘ قابلِ مطالعہ ہے:
ہر پتھر میں چھپی ہوئی اک مورت ہے
جو سوچ رہی ہے
سورج کے آئینے میں جو شکل بھی ہے
وہ اندھی کالی
دیواروں سے چپکی ہیں ٹوٹی پرچھائیں
۔۔ ۔۔
اپنی اپنی قبر سے اٹھ کر
راتوں میں کیوں
کتبے لوگ مٹا دیتے ہیں
سادے کاغذ پر کتنی ہی تصویریں ہیں
رات پگھلتے سورج کا منھ دیکھ رہی ہے
اب سو جاؤ۔۔ ۔ !!
اس بات کا قوی امکان ہے کہ اپنی نظموں کے ذریعہ دعوتِ فکر دینے والا یہ شاعر اپنے قول کی Frequency میں اضافہ کرے گا اور اردو نظم کے دامن کو مالا مال کرے گا۔
٭
علی الدین نوید:
علی الدین نوید حیدرآباد کے نئے شعرا میں اہم مقام رکھتے ہیں۔ نوید کی شاعری میں سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ آسان طرز سے ہٹ کر کہتے ہیں۔ ان کے پاس تجربوں کا نیا پن ہے۔ نوید کی شاعری میں لا مرکزیت نہیں ہے۔ وہ جدید ہو کر بھی تجریدی انداز کے قائل نہیں اور اشارات میں ایک مقصد کا اظہار ہیں:
ہر صبح میں پتھر کی طرح سخت بنا ہوں
ہر شام میں شیشے کی طرح ٹوٹ گیا ہوں
میرا وجود جذب ہوا تیرے جسم میں
اب مجھ کو اپنے جسم کے اندر تلاش کر
ٹوٹے گی کسی دن تو کٹھن رات کی دیوار
ہو گا اسی دیوار سے خورشید نمودار
جیسے خدا زمیں پہ نہیں آسماں پہ ہے
کچھ یوں دعا کو ہاتھ اٹھاتا ہوں رات بھر
نوید کم گو ہیں لیکن ان کی تخلیقات بہت شوق سے پڑھی جاتی ہیں۔ امید ہے کہ وہ زبان میں اسی طرح اچھے تجربے کریں گے اور اپنے طرز کو واضح کریں گے۔
٭
رحمٰن جامی:
رحمن جامیؔ ان شاعروں میں شمار ہوتے ہیں جن کی شاعری سہل ہے۔ ان کے سمجھنے میں محنت اور ذہنی کاوش درکار نہیں ہوتی۔ اس کے علاوہ ان کی شاعری میں معصومیت بہت زیادہ ہے۔ کبھی کبھی ان کی معصومیت بے انتہا ہو جاتی ہے۔ ان کے فکری رجحان بھی دقاقت نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس لیے ان کے موضوعاتِ اظہار کی خوش بو آسانی سے پھیل سکتی ہے:
محفل میں بے شمار سوالوں کی بھیڑ تھی
میں سادہ لوح تھا کہ جوابوں میں کھو گیا
مجھ سے ملنے کو بڑی دور سے تم آتے ہو
اور جب آتے ہو آئینہ سا دکھلاتے ہو
۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔
تم سے ہر بات میں کہہ دیتا ہوں اپنے دل کی
بات وہ کہنے کے قابل جو نہیں ہوتی ہے
بات وہ سننے کے قابل جو نہیں ہوتی ہے
جانے کیوں تم سے کوئی بات نہیں چھپ سکتی
…… (راز داں)
رحمن جامیؔ ایک سنجیدہ شاعر ہیں۔ انھوں نے تماشہ بننے کے بجائے سوچنے اور سمجھنے کو پسند کیا ہے۔ توقع ہے کہ وہ شعر میں رمزیت اور ایمائیت کو بھی جگہ دے کر اپنی انفرادیت برقرار رکھیں گے۔
٭
قطب سرشار:
قطب سرشار ایک با وزن احساس کے نئے شاعر ہیں۔ جن کی دل چسپی روایت شکنی اور نو آمیزی سے ہے۔ ان کی نظموں اور غزلوں پر پھر بھی روایت اور مقصد پرستی کا سایہ نظر آتا ہے۔ یوں تو وہ ہر بدلتے ہوئے رجحان کو اپنے اندر داخل کر لیتے ہیں۔ اس کے باوجود احتیاط اور مزاج کی صلح پسندی نے کھل کر آگے آنے نہیں دیا:
سر برہنہ، ایک سچائی کا شجر
۔۔ ۔۔
تنہا کھڑا ہے
پیلے پیلے خشک پتے جھڑ رہے ہیں
…… (فسادات کا پس منظر)
فسردہ خاکوں کے پیرہن سے
لہو ٹپکتا ہے قطرہ قطرہ
یہ خشک آنکھیں
۔۔ ۔ یہ خشک آنکھیں نہ رو سکی تھیں
قلم کی آنکھوں سے رو رہا ہوں
…… (ابلاغ)
سرشار کا مستقبل نمایاں اور امید افزا ہے بہ شرطیکہ وہ اپنی نظموں میں طوالت کی بجائے اختصار سے کام لیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سرشار ایک ٹوٹے ہوئے احساس کے شاعر ہیں جن کا انسلاک کسی خاص فلسفہ سے نہیں ہے۔ ابھی ان کا ایسا نقطۂ نظر مکمل شکل میں ابھر کر نہیں آیا ہے۔
٭
رؤف خیر:
رؤف خیر ایک ابھرتے ہوئے شاعر ہیں۔ اندرونی کرب، خالی پن، تنہائی کے موضوعات ان کی نظموں اور غزلوں میں واضح نظر آتے ہیں۔ رؤف خیر نے ہم عصر ادب سے ہم آہنگ ہونے کی واضح کوشش کی ہے۔ رؤف خیر کے لہجہ میں ٹھہراؤ بھی نہیں۔ ایک عام انسان کا لہجہ ہے جو سب کچھ دیکھتا ہے، محسوس کرتا ہے لیکن مشتعل نہیں ہوتا۔ ان کی زبان میں چستی نہیں ہے۔ حالاں کہ انھیں لسانی طور پر نئی تراکیب اور نئی روادیف کا خوب استعمال کیا ہے۔ خیرؔ نے تشبیہہ استعارے اور علامات کے مقابلے میں خیال کو زیادہ اہمیت دی ہے۔
ہم اپنے قتل کا اب کس سے خون بہا چاہیں
ہر آئینے میں تو قاتل ہمیں دکھائی دیے
ہر بار بدل دیتے ہیں لوگ اپنی نقابیں
بے چہرگیِ زیست کی کیا کیا تگ و دو ہے
کسی کے سنگِ ملامت سے اور حد سے بچاؤ
مجھے جنوں سے بچائے مجھے خرد سے بچاؤ
خیرؔ نظموں میں صرف ایک طرز کے خیال نہیں رکھتے اور ان کی نظمیں عنوان کی تابع ہوتی ہیں۔ خیرؔ ایک محنتی شاعر ہیں، انھیں موضوعاتی نہج سے باہر نکل کر کام کرنا چاہیے۔
٭
علی ظہیر:
علی ظہیر حیدرآباد کے ایک نئے شاعر ہیں جن کی فکر نے نئے رجحانات سے گہرا اثر لیا ہے۔ ظہیر کی نظموں میں ابہام اور لسانی بندشوں کی بجائے سادگی اور روانی ہے۔ ان میں نغمہ کا اثر بہت ہے۔ ظہیر نغمہ کو گویا اپنی نظموں کے لیے دیوار و در اور اپنے اظہار کے لیے ہتھیار کی طرح استعمال کرتے ہیں:
جب مرا لطف سخن چھینا گیا!
ٹھنڈے لاوے کی چٹانوں کی طرح
سوچ سینے کے سیہ خانوں میں خاموش ہوئی
زرد سوکھے ہوئے پتوں کی قطاریں ہر سو
راستے ڈھکتی گئی
آج راہوں کے مقدر میں کوئی چاپ نہیں
…… (جب مرا لطف سخن چھینا گیا)
ظہیر کے پاس سوچنے اور بیان کرنے کی صلاحیتیں موجود ہیں بہ شرط یہ کہ وہ ان کو برتنے کے معاملہ میں زیادہ احتیاط سے کام لیں۔ ان کی شاعری سے کافی توقعات وابستہ کی جا سکتی ہیں۔ ظہیر کی شاعری جدید ذہن کی نمائندہ شاعری ہے۔
٭
باذل عباسی:
باذل عباسی ایک معتدل لہجہ کے نئے شاعر ہیں۔ ان کے پاس تراکیب کا ایک سرمایہ ہے لیکن انھیں چاہیے کہ تراکیب کو اس طرح استعمال کریں کہ ان کے معانی کو نئی جہت ملے۔ ان کے مضامین ہیں شک، قیدِ جسم، انسانیت کی بے وقعتی اور یکسانیت۔ وہ ایک غم زدہ شخص کی طرح مناظر کی طرف دیکھتے ہیں اور ہر منظر سے اچانک مایوسی کی تلاش کرتے ہیں:
میں اپنے جسم کا قیدی کہاں کہاں بھٹکوں
کہ قید جسم سے ہونا ہے اب سوا مجھ کو
مرا سراغ نہ پاؤ گے لاکھ سر مارو!
کہ سطح خاک پہ پھیلا ہوا سمندر ہوں
نہ سرِ راہِ تفکر کوئی کوندہ لپکا!
ابرِ آوارہ سے پانی کا نہ قطرہ ٹپکا
نغمہ شوق کے ہونٹوں پہ تراوش نہ ہوئی
لفظ جلتے رہے، اظہار کی پرسش نہ ہوئی
…… (نا آفریدہ)
ابھی باذل کی شاعری پوری طرح سامنے نہیں آئی ہے پھر بھی وہ اپنے اندازِ بیان کے لیے نیا ذہن اور نئی شکل تلاش کریں تو ان کی فکری قوت اور کھل کر سامنے آئے گی۔
٭٭٭
نوٹ: اس جائزہ میں وحید اختر کا ذکر نہیں ہے۔ کیوں کہ وہ اپنے آپ کو (یو۔ پی) کے شاعر کی حیثیت سے نمایاں کر چکے ہیں۔ ویسے یہ حقیقت ہے کہ وحید اختر کی شاعری لب و لہجہ حیدرآبادی تہذیب کا مرہونِ منت ہے۔
٭
مزید نوٹ: اس مضمون میں کچھ اہم نام مثال کے طور پر ڈاکٹر غیاث صدیقی، جاوید مقصود، علی اصغر علی اور مضطر مجاز اس کے علاوہ چند اساتذہ، قدیم طرز کے شعرا کا ذکر بھی نہیں کیا گیا تھا۔ جس کے لیے معذرت خواہ ہوں۔
٭٭٭