محقق، نقاد،ادیب، شاعر، پروفیسر حسن راشد۔ صدرشعبہ اردو گورنمنٹ کالج یونیورسٹی حیدر آباد
میںجامعہ سندھ کی ڈاکٹر غلام مصطفی خان سیمینار لائبریری میں بیٹھا مطالعہ میںمستغرق تھا کہ ایک آواز سنائی دی:”امین جالندھری کی افسانہ نگاری پر کام کر رہی ہوں” استفسار کرنے پر معلوم ہوا کہ امین جالندھری سندھ کے پہلے افسانہ نگارہیں اور اس حیثیت میں اب تک ان پر کوئی تحقیقی نوعیت کا کام نہیںہوا۔ یہ امین جالندھری سے پہلا ادبی تعارف تھا قبل ازیں ایک دفتر میں کالے کوٹ میں ملوث امین جالندھری سے سر سری سا تعارف ہوا اور بس۔ ملوث اس لئے کہ سیاہ ملبوس شوقیہ پیشہ ہے قبل ازیں بینک میں ملازم تھے اب وکالت سے شغف فرما رہے ہیں شغف اس لئے کہ موصوف مقدمات سے زیادہ مدعا علیہان کا خیال رکھتے ہیں بار میں بیٹھتے ہیں لیکن کسی سائل پر بار بننے سے گریزاں رہتے ہیں۔ یہاںباری باری شاعر ادیب اور پرستارانِ ادب کو باری باری بلاتے ہیں۔ مشورہ نما حکم دیتے ہیں انہیں چائے پلاتے ہیں اور خود بھی اصول میزبانی میں پیتے ہیں، رابطے کی اسی عادت نے ان سے ایک تنظیم رابطہ چار عشروں قبل بنوا ڈالی ہے جس کی نشست ماہ، دو ماہ ، سہ ماہی ، ششماہی غرض جب چاہا کر ڈالی، بیشتر نشستیں کیفے جواہر میں سجتی رہتی ہیں۔ یہ ادبی نشستیں مشاعروں کے سوا ہوتی ہیں، صدارت کے لئے بس جالندھری حکم چلتا اور کوئی ثقہ صورت اس کام کا بیڑا اٹھالیتا، وقوعے کے روزمیر مجلس اول آتا اور آخر جاتا ، سب کی سنتا اور میزبان کے ابروئے چشم سے تحریک پا کر سب کے لئے قابل قبول صدارتی خطبہ ارشاد فرماتا، وقتاً فوقتاً جاری رہنے والی تصویر کشی کے ساتھ نشست اختتام پذیر ہوئی۔
امین جالندھری بنیادی طور پر نثر نگار ہیں نثر میں ان کا امتیازی وصف افسانہ نویسی ہے ۔ موصوف حیدر آباد میں افسانہ نگاری کے بانی ہیں ان کا مطالعہ وسیع ہے مشاہدہ عمیق ہے اور نصف صدی سے زائد تجربہ ہے ان کی عمومی تحریروں، کہانیوں اور افسانوں میں انسانی مطالعے کا نہایت خوبی سے اظہار دیکھنے کو ملتا ہے ادب کا خام مواد چونکہ معاشرے سے حاصل ہوتا ہے اور امین جالندھری کی پیشہ ورانہ مصروفیات اسی دشت کی سیاحی میں گزری ہے ۔ لہٰذا اس خام مال کو برتنے کا فن بخوبی آتا ہے ان کے افسانوں کے کردار دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ یہ کردار ہمار ے ارد گردموجود ہیں حتی کہ نام بھی کرداروںسے مناسبت کے حامل ہیںجوں جوں افسانہ نگار آگے بڑھتا ہے قاری بھی ذہنی لحاظ سے افسانہ نگار کے ہم رکاب ہوتا ہے اور جب آخر میں منتہا (کلائمکس) قاری کے سامنے آتا ہے تو وہ از خود نتیجے پر پہنچ کر اش اش کر اٹھتا ہے اور افسانہ نگار کو دادِ تحسین پیش کرنے لگتا ہے۔ امین جالندھری کے اب تک دو افسانوی مجموعے منظر عام پر آکر شہرت حاصل کرچکے ہیں ان کا پہلا مجموعہ “دو حرف ” ہے اور دوسرا”حرف حرف کہانی” ہے۔ حرف حرف کہانی میںکل ۲۶ افسانے ہیں جن میں محشر خیال، مستی، خمار، چک گ ۔ب، موڑ، بلند پروازی، آگ، بول میری مچھلی، مسافر، شو ٹائم، درد کی زنجیر، رہائی، ایک دن کی بات، کامیاب تجربہ،التجا، پاور، محاسبہ، ہنی مون، روایت، آدھے راستے کا آدمی، بوڑھے آدمی کا نوحہ، زر خرید غلام، سفید دھواں، روپ بہروپ اور گھوڑا شامل ہے۔
ان میں صرف تین افسانے خمار، آگ اور درد کی زنجیر دیکھے۔ خمار ایک مظلوم لڑکی ماروی کی کتھا پر مبنی ہے۔ جو دیارِ غیر سے وطن مالوف لعل شہباز قلندر کے مزار پر اپنی عقیدت کی تسکین کی خاطر آتی ہے۔ یہاں سے مختلف روحانی تجربات ہوتے ہیں، مزار سے وابستہ ایک بزرگ، واپسی پر ماروی کو رخصت کرتے ہوئے آنے والی ایک نا معلوم کار میں بیٹھنے کا کہتے ہیں جونہی ایک کار آتی ہے ماروی اس میں ایک انجان مرد سے یہ جانے بغیر کہ وہ کیسا ہے لفٹ لے کر بیٹھ جاتی ہے، دوسری جانب اس شخص کا نام عمران ہے، ایک خوبرو دشیزہ کو دیکھ کر دل میں ہلچل پیدا ہونے لگتی ہے جب ماروی اسے صاحب مزار سے ملنے والے فیض کے متعلق بتاتی ہے تو عمران کا ذہن فوراً اس جانب چلا جاتا ہے کہ اسے بھی ایک صاحب کرامت خاتون نے عمران کی بہن کے لئے عروسی جوڑا اور زیور کا تحفہ عنایت کیا تھا لیکن عمران کے بتانے پر اس کی کوئی بہن ہی نہیں ہے کہا گیا کہ راستے میں اسے لڑکی ملے گی اسے سبز عمامے والے (صاحب کرامت بزرگ) کے پاس لے جاتا جو ماروی کا نکاح پڑھائے گا۔ آگ میں صدیوں پرانا ہندو مسلم تنازع کو موضوع بنا یا گیا ہے کہ کس طرح ہندو مسلم دو کردار شیخ اور پنڈت کے درمیان تاریخی قضیہ کا عمدگی سے ابلاغ کیا گیا ہے۔ اگر دونوں باہم مل جل کر رہنا چاہیں تو بہت سی قدر مشترک نکل سکتی ہیں اور اگر ایک دوسرے کے بغیر تنہا رہنا چاہیں تو اس کا ایک ہی راستہ گولی سے ہو کر گزرتا ہے جو صرف آگ کو جنم دے گا اور یہ آگ اکثریت اقلیت، مسلم ہندو کسی کو خاطر میں نہیں لاتی۔ اور افسانہ درد کی زنجیر ایک ایسے قبیلے کے گرد پھیلا ہوا ہے جو خانہ بدوش ہے آج یہاں کل وہاں، پڑائو عارضی ہوتا اور سفر مستقل جاری رہتا ہے اور مسلسل جاری رہتا ہے صرف اس سفری کا سفر رکتا ہے جس کے پاس رزق تنفس ختم ہو جاتا ہے سو یہاں بھی ایسا ہی تھا۔ اس میں وہی تین روایتی کردار عاشق، معشوق اور رقیب ہیں، یہ تینوں کردار امروئی، گلشن اور قبیلے کا سردار کے روپ میں ہیں ۔ گلشن نامی خانہ بدوش کو مرکزی حیثیت حاصل ہوتی ہے سرداری کی بیوی ہوتے ہوئے وہ امروئی سے عشق کرتی ہے اور امروئی اس سے زبانی محبت تو کرتا ہے مگر سردار کے خلاف بغاوت کرنے کے بجائے تمام امیدیں اچھے وقتوں کے لئے رکھتا ہے گلشن حقیقت پسند محبوبہ کے روپ میں نظر آتی ہے اور امروئی اور اس کے سہو لت کار کو شراب کہن پلا کر دلی جذبات کی تسکین کا سامان کرتی ہے اور انقلاب شراب کہن میں بہہ نکلتا ہے۔
تینوں افسانوں کے موضوع جدا جداہیں لیکن تینوں کا خام مواد ہمارے ارد گرد کے معاشرے سے لیا گیا ۔ امین جالندھری کی افسانہ نگاری میں مکالمہ نگاری، تمثیلی انداز اور اختصار پسندی نمایاں ہے۔ پہلے افسانے میں افسانہ نگار نے جس کہانی کو بیان کیا ہے وہ برصغیر پاک و ہند میں عام ہے مسلمان مزارات اور صاحبان مزار سے دلی عقیدت رکھتے ہیں، بزرگارن اور مزارات سے وقوع پذیر ہونے والے غیر معمولی واقعے کو کرامت سمجھتے ہیں شاید ہی کوئی شخص ایسا ہو جو سن بلوغت کو پہنچا ہو اور کرامت کا تجربہ یا کم از کم مشاہدہ نہ ہو، میرے مطابق غیر مسلم حضرات بھی زندگی میں ایسے تجربات و مشاہدات سے ضرور گزرتے ہیں البتہ ان کے ہاں لفظ کرامت کا متبادل الگ الگ ہے۔ دوسرا افسانہ فرقہ وارانہ موضوع پر ہے گو کہ اسے ہندو مسلم تنازع کی صورت میں پیش کیا گیا ہے۔ پڑوسی ملک بھارت میںبابری مسجد ناقابل برداشت ہے لیکن بھارت کی بنیاد ذہنیت تاج محل جیسی عمارت کو اپنے سوفٹ امیج اور آمدنی کے لئے برداشت کرتی ہے یعنی جہاں مفاد ہے سب کچھ قابل قبول ہے۔ مغرب میں اسے سفید اور سیاہ ایک ازلی حقیقت کی صورت میں موجود ہے تقسیم ہند سے قبل اور بعد میں منافرانہ رویہ عام ہے ۔ تیسرے افسانے میں خانہ بدوش قبیلے کی اجتماعی نفسیات بیان کی گئی ہے کہ انسان اپنی تسکین کے لئے ہر جائز و ناجائز کام کر گزرتا ہے ۔ خانہ بدوش جنہیں Gypsyبھی کہا جاتا ہے تقریباً دنیا کے ہر خطے میں ہیں کہیں انہیں بنجارے کہا جاتا ہے تو کہیں رومینی۔ خلافت عثمانیہ کی بنیاد خانہ بدوشوں کے قبیلے قائی پر ہے اردو ادب میں ایک لفظ “کنجر” مستعمل ہے اس کے قدرے غیر معروف معنی یہی خانہ بدوش کے ہیں۔
امین جالندھری نے اپنے افسانوں میں جن موضوعات کو موضوع بنایا ہے کہ وہ مشرق کا موضوع بھی ہے اور مغرب کا بھی۔ ماضی میں بھی حال میں بھی ہے اور مستقبل بھی رہے گا خواہ تاریخ میں بطور یادگار ماضی۔ اردو ادب میں دو ہی صنف مقبول عام ہیں ۔ شاعری میں غزل اور نثر میں افسانہ۔ امین جالندھری نے نثر میں افسانے کو اپنایا ہے اور جن موضوعات کو فن میں ڈھالا ہے وہ زمان و مکان کی قید سے ماورا ہیں اہل ادب اسی امتیازی وصف کو آفاقیت کا نام دیتے ہیں، امین جالندھری کے فکر اور فن کو مستقبل کا نقاد دیکھے گا کم از کم ہم امین جالندھری کو حرف حرف کہانی کے تناظر میں روایتوں کا امین ضرور کہہ سکتے ہیں۔
٭٭٭٭٭٭٭
بیدلؔ شناسی میں ایک نیا سنگ میل
ڈاکٹر اسلم ؔانصاری کا تحقیقی اور تنقیدی شاہکار
مینا خانہ حیرت
نزاکت ہاست در آغوشِ مینا خانہ مژہ بر ہم مزن تانشکنی رنگِ تما شا را
ابو المعانی مرزا عبد القادر بیدلؔ کے فکر و فن کے تنقیدی و تقابلی مطالعات
اور ان کے منتخب کلام کے تراجم و توضیحات
مرتبہ: ڈاکٹر شوکت محمود کتاب زیور طبع سے آراستہ ہو چکی ہے۔
برائے رابطہ: ادارئہ ثقافت اسلامیہ ۲۔ کلب روڈ، لاہور ۔ فون042-36363127
ڈاکٹر اسلم انصاری کی دو نئی تصانیف
“جسے میر ؔ کہتے ہیں صاحبو ” اور “فکر و انتقاد ” عنقریب زیورِ طبع سے آراستہ ہو رہی ہیں۔
آغا گل کے افسانوی مجموعے
پاسنیگان کا مطلب کیا! کا تجزیاتی مطالعہ
مقالہ نگار: رابعہ جہانگیر
(شعبہ اردو )
گورنمنٹ اسلامیہ گریجویٹ کالج برائے خواتین کوپر روڈ، لاہور
لاہور کالج برائے خواتین یونیورسٹی، لاہور 2021ء