حیدر قریشی نے اپنی تلخ و شیریں یا دیں بیان کرنے کے لیے ’’کھٹی میٹھی یادیں ‘‘ کے عنوان سے ایک الگ کتاب تصنیف کی اور اسے یاد نگاری کا نام دیا ۔ یہ کتاب پہلی مرتبہ اپنی مرتب صورت میں اُس کلیات میں سامنے آئی جو’’عمر لاحاصل کا حاصل ‘‘ کے نام سے ۲۰۰۹ء میں دہلی سے شائع ہوا ۔ کچھ عرصہ گزرنے کے بعد اس کتاب کو عکاس انٹر نیشنل ، اسلام آباد نے الگ کتابی شکل میں چھا پ دیا تھا۔ یہ تازہ ایڈ یشن ۲۰۱۳ء میں سامنے آیا۔ اِن یادوں کے پس منظر پرروشنی ڈالتے ہوئے حیدر قریشی کہتے ہیں :
’’ کھٹی میٹھی یادیں‘‘ لکھنے کا سلسلہ میں نے ۱۹۹۶ء کے آواخر میں شروع کیا تھا۔
پہلے یورپ میں ہی کہیں ادھر اُدھر چھپوانا چاہا ، لیکن جلد احساس ہوگیا کہ اِنھیں
پاکستان یا انڈیا کے کس ادبی رسالے می چھپوانا زیادہ مناسب رہے گا۔
۱۹۹۸ء میں انڈیا کے رسالہ’’ گلبن ‘‘(احمد آباد) میں اس کی پہلی قسط شائع
ہوئی۔ اس کے بارہ باب ’’گلبن ‘‘میں شائع ہوتے رہے ۔چار باب
’’ عکاس‘‘ انٹر نیشنل اسلام آباد میں اور باقی ’’جدید ادب ‘‘میں چھپتے رہے۔‘‘ (۸۰)
اس سے قبل کہ’’ کھٹی میٹھی یادیں‘‘ کا تجز یاتی مطالعہ پیش کیا جائے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ’’یاد نگا ری‘‘ کے اصطلاحی مفہوم پربات کرلی جائے تاکہ پیش آمدہ مباحت کی تفہیم میں آسانی رہے۔
(الف) یاد نگا ری کیا ہے ؟
یاد نگاری سوانحی ادب کی ایک ایسی صنف ہے جس میں گزرے زمانے کے تجر بات ، مشاہدات اور واقعات کو ازسر نو تازہ کیا جا ہے۔ یہ خا لصتاََ شخصی اور نجی واقعات پر مشتمل بیا نیہ ہوتا ہے جس کا مقصد اپنے دوستوں، عزیزوں اور قریبی رشتے داروں کی یاد وں کو غیر رسمی مگر ادبی سطح پر محفوظ کرنا ہے۔ یاد نگاری عموماََ زمانی اور منطقی ترتیب کے ساتھ لکھی جاتی ہے، لیکن یادوں کی یہ البم شعوری اور لاشعوری رو کے زیر اثر بے ر بط اور منتشر بھی ہو سکتی ہے۔ اُردو ادب میں ’’ یاد نگاری‘‘ کی کس عارضی یا مستقل روایت کا سراغ نہیں ملتا البتہ انگریز ی ( دوسری زبانوں میں بھی اس کی موجود گی کا امکان غالب ہے) میں یادنگا ری کے لیے ’’Reminiscence ‘‘ کی جو اصطلاح استعمال کی جاتی ہے اس کی روایت پر ایچ۔جے ایسنک ( H.J. Eysenic) اور سی ڈی فرتھ (C.D. Firth) نے تفصیلی معلومات فراہم کی ہے نیز علم ِنفسیا ت میں یاد نگاری کی اہمیت واضح کی ہے۔
اس انگریز ی کتاب کا نا م “Reminiscence,motiviation and personality” ہے جسے لندن پلینم پر یس نے ۱۹۷۷ء میں شائع کیا تھا ۔
’’یادنگاری ‘‘ اصل میں سوانحی ادب کی ذیلی شاخ ہے اور دیگر ادبی اصناف کی طرح اپنا الگ وجود اور شنا خت رکھتی ہے۔ اس کے کچھ اجزا خود نوشت سوانح اور خاکہ نگاری سے مناسبت رکھتے ہیں لیکن اپنے بنیادی اوصاف کے باعث اس کا ذکر جداگانہ صنف کے طور پر کیا جا نا چاہیے۔
یادنگاری کا اُسلوب ِبیان عموماََ بے تکلفی پر مبنی ہو تا ہے اور سوانحی ادب کی مانند یہ صنف بھی تاریخی ، سماجی ، ثقافتی ، نفسیاتی ، اخلاقی اور جمالیاتی حیثیت کی حامل ہے۔ یہ یقینا خو ش آئند امر ہے کہ ادب کے علا وہ علم نفسیات میں بھی یاد نگاری کو جو خصو ص حاصل ہے اس کی وجہ سے جدید ماہر ین نفسیات تحلیلِ نفسی کے ضمن میں یادنگاری کو بطو ر معاون تکنیک استعمال کرتے ہیں۔
یادنگاری کا دائرہ عمل خاصا وسیع ہے اور اس کا راست مطالعہ کرنے کی خا طر اگر اس صنف کو بہ اعتبار ِ موضوع مذہبی ، ادبی ، تاریخی ، سیاسی اورافسانوی شاخوں میں تقسیم کردیا جا ئے تو کئی مسائل اور مغالطوں سے بچا جا سکتا ہے۔ ادب کی تقریباََ ہر صنف اپنے مو ضو ع اور برتاؤ( Treatment) کے حوالے سے ان حصوں میں بآسانی تقسیم ہو جاتی ہے۔
ان تمام اُمو ر کو پیش نظر رکھتے ہو ئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ سوانحی ادب میں جس طرح روزنامچہ نگاری ، مکتوب نگاری ،سفر نا مہ نگاری ، رپورتاژ نگاری ، خاکہ نگار ی اور سوانح نگاری کا تذکر ہ کیا جا تا ہے اس طرح یادنگاری بھی اِ نھی ادبی زاویوں کا ایک تسلسل یا توسیع ہے ۔ اردو ادب میں اگرچہ اس صنف کے فنی یا تکنیکی اُصولوں کی حد بندی پر کوئی واضح اشارے نہیں ملتے ۔ اُردو کی معروف ادبی اصطلا حاتی کتب بھی خاموش ہیں لیکن اس کے باوجود یہ صنف اپنا مستقل وجود رکھتی ہے۔
اُردو زبان کے برعکس انگریز ی ادیبات میں اس صنف کو قبول عام کا درجہ حاصل ہے۔ اور ’’Reminscence‘‘ کی اصطلاح بذات خود یہ دلالت کرتی ہے کہ یادنگاری کی صنف اپنے وجود کا کا مل جواز رکھتی ہے۔ انگریز ی زبان میں اس عنوان کے تحت بیسیوں کتب منظر عام پر آچکی ہیں ۔ ہندوستان میں کئی ادیبوں نے انگریز ی زبان میں یاد نگاری کے وقیع نمو نے یاد گار چھو ڑے ہیں ۔
ایم․ او۔میتھا ئی (M.OMathai )کی انگر یز ی کتاب Age” “Reminiscence of the Nehru
بطو ر مثال پیش کیا جاسکتی ہے۔ ایم او میتھا ئی ہندوستان کے پہلے وزیر اعظم جو اہر لا ل نہر و کا اسسٹنٹ تھا ۔ اس نے یہ خدمات ۱۹۴۶ء سے ۱۹۵۹ء تک سرانجام دیں ، مذکورہ کتاب میتھا ئی نے ۱۹۷۸ء میں تصنیف کی جو کئی ایک وجو ہات کی بنا پر متنازع فیہ حیثیت رکھتی ہے۔ اس کتاب میں مولانا ابوالکلام آزاد کی شخصیت کے کچھ ایسے رازوں سے پردہ اُٹھا یا گیاہے جو تو جہ طلب ہیں ۔یہ کتاب تقریباً غیر رسمی اُ سلوب میں ہی لکھی گئی ہے اور اُن تما م یادوں کو سمیٹنے کی کوشش کرتی ہے جو مصنف کے دل و دماغ پر نقش ہوگئی تھیں ۔ کتاب کا اصل مو ضوع جواہر لال نہرو کی زندگی کا عکس دکھا نا ہے لیکن اُسی عہد کی کئی اورمعروف شخصیات بھی کتاب کی زنیت بن گئی ہیں۔ مصنف خود بھی اس بات کا گہرا شعور رکھتا ہے کہ وہ کوئی تاریخ مرتب نہیں کررہا بلکہ محض اپنی یادوں کو صفحہء قرطاس پر منتقل کرہا ہے۔ کتاب کے دیبا چے میں وہ اس کتاب کی نوعیت اورتکنیک پر روشنی ڈالتے ہوئے کہتا ہے۔:
“This book is not history or biography, but chatty stuff containing my reminiscences. No doubt it contains histroical and biographical data pertaining to a segnificant period of India’s history”.(81)
یہ مثال اس با ت کو ثابت کر نے کے لیے کافی ہے کہ یادنگاری کے لیے جو انگر یز ی اصطلاح ’’Reminiscence‘‘ برتی جا رہی ہے جو سوانح سے الگ پہچان رکھتی ہے۔ نیز اس دیباچے کے دو الفاظ ’’Chatty Stuff‘‘ یہ بھی دلا لت کرتے ہیں کہ یاد نگاری کا اُسلوب دوستانہ اور بے تکلفانہ ہوتا ہے۔ دیبا چے کا یہ انگریز ی حوالہ اگرچہ بہت مختصر ہے لیکن یادنگاری کے بنیادی تصورات واضح کرنے کے لیے کافی ہے۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق اُردو ادب میں یادنگاری کی پہلی باضابطہ مثال حیدر قریشی کی کتاب
’’ کھٹی میٹھی یادیں ‘‘ ہے ۔ اس کتاب کے کچھ ابتدائی ابواب جب ہندوستان کے ادبی جریدے ’’گلبن‘‘ میں شائع ہوئے تو منزہ یاسمین (حیدر قریشی پر ایم ۔ اے اُردو کا مقالہ لکھنے والی محقق طالبہ) نے شاید عجلت میں ان تحر یروں کو خودنوشت ‘‘ کا نام دے دیا تھا، اُن کا کہنا ہے:
’’ کھٹی میٹھی یادیں ‘‘ حیدر قریشی کی خود نوشت ہے اس میں حید ر قریشی نے اپنی زندگی کے یاد گار لمحات کو قلم بند
کر نے کی کوشش کی ہے۔ ‘‘ (۸۲)
وہ مزید لکھتی ہیں:
’’ کھٹی میٹھی یادیں ‘‘ سے پہلے حیدر قریشی اپنے تخلیق کردہ خاکوں کی کتاب ’’ میر ی محبتیں‘‘
میں بھی اپنی یادوں کو بیان کر چکے ہیں لیکن ’’میر ی محبتیں‘‘ میں موجود یادوں کو نامکمل سمجھتے
ہو ئے حیدر قریشی نے اپنی خود نوشت ’’کھٹی میٹھی ‘‘یادیں ‘‘ کے عنوان سے لکھنے کا ارادہ کیا۔‘‘(۸۳)
منزہ یاسمین کا یہ مفروضہ حقائق کے منافی ہے۔ حیدر قریشی کی یادوں کا تعلق سوانحی ادب کی جس صنف سے لگا کھا تا ہے وہ خود نوشت سوانح ہر گز نہیں ہے بلکہ یادنگاری ہے ۔ خود نوشت کی ترتیب و پیش کش کا اپنا مخصو ص طریقِ کار ہے جو فنی اور تکنیکی حد بندیوں کے ساتھ اُبھر تا اور آگے بڑھتا ہے۔ اس کے مقابلے میں یاد نگاری شخصی تصورات پر مبنی آزاد منش صنف ہوتی ہے اور جو بات جہاں یا د آگئی اسے وہیں پیش کردیا جاتا ہے۔ جس طرح یادوں کا ذہین میں در آنے کا کوئی کلیہ قاعدہ مقرر نہیں ہوتا تقریباً اسی طرح یادنگاری بھی آزادانہ روش کے تحت وجود پذیر ہوتی ہے، البتہ اگر کوئی مصنف اِن یادوں کو ترتیب میں پیش کرنا چاہے تو اُس کی بھی کوئی خاص پابندی نہیں ہے۔ حیدر قر یشی کے ہاں ترتیب کا اہتمام ملتا ہے اور اُنھوں نے بذات ِخود اپنی ان تحر یروں کو یاد نگاری کا نام دیا ہے اور کہیں کوئی ایسی بات نہیں لکھی جس سے یہ گمان گزرے کہ وہ کوئی خود نوشت سوانح لکھنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
یہ مقالہ لکھنے کے دوران میں نے حیدر قریشی سے بذریعہ ای میل استفسار کیا کہ وہ یادنگاری پر اپنی رائے کا اظہار کریں اُنھوں نے جواب میں لکھا:
’’ یادنگاری کا معاملہ یوں ہے کہ میں نے اسے الگ صنف کے طور پر لکھنا
شروع نہیں کیا تھا۔ میرے پیش نظر دو باتیں تھیں ۔ ایک تو ایسے عزیزوں
اور احباب کا تذکرہ کرنا جن کا خاکہ تو نہیں لکھ سکتاتھا لیکن میر ی زندگی میں
ان کی اتنی اہمیت تھی کہ میر ی تحریروں میں ان کا تھو ڑا بہت ذکر آنا چائیے تھا ‘‘( ۸۴)
اور جہاں تک ان تحریروں کی صنف کا مسئلہ ہے اس پر اظہار خیال کرتے ہوئے حیدر قریشی اسی ای میل میں کہتے ہیں:
’’ مجھے یقین ہے ’’یادنگاری‘‘ کسی نہ کسی صورت میں پہلے سے ہو رہی ہے ، میر ے ہاں نسبتاََ مربوط ہو کر آگئی ہے‘‘(۸۵)
حیدر قریشی کے یہ الفاظ ظا ہر کرتے ہیں کہ ان کے ذہن میں یادنگاری کا اپنا ایک واضح تصور ہے جسے وہ خود نوشت کے ساتھ گڈمڈ نہیں کر رہے تاہم اُنھیں یہ احساس بھی ہے کہ یادنگاری کی روایت اُردو میں پہلے سے موجود نہیں اور وہ پہلی مرتبہ اس صنف کو باضابطہ شکل میں سامنے لا رہے ہیں ،وہ لکھتے ہیں:
ــ ’’ اگر خدانخواستہ یہ کس نئی صنف کی ابتدائی صورت ہے تب بھی مجھے نعوذ باﷲ اس
کا بانی یا موجد ہو نے کا نہ کوئی دعویٰ ہے اور نہ کوئی شوق ‘‘ (۸۶)
لیکن زمینی حقائق یہی بتا رہے ہیں کہ یادنگاری کی صنف میں اُن کی کتاب’’ کھٹی میٹھی یادیں‘‘ معلومہ حقائق کی حد تک پہلی باضابطہ کتاب ہے۔
(ب) ’’کھٹی میٹھی یادیں‘ ‘ــ․ـــــ․․․ تعارفیہ
میر ے پیش ِنظر اس کتاب کا وہ نسخہ ہے جو الگ کتابی صورت میں ۲۰۱۳ء میں ’’عکاس‘‘ انٹر نیشنل ، اسلام آباد نے شائع کیا ہے ۔ صفحات کی کل تعداد ۲۶۴ ہے۔ کتاب کا انتساب ’’ آپی کے نا م‘‘( حید ر قریشی کی بڑی ہمشیر ہ ) ہے ۔ اس کتاب کے ابتدائی صفحات پر تین شعر اور ایک ماہیا در ج ہے۔ نمائندہ شعر کچھ یو ں ہے:
بہت سی بے نیازی اور اک یادوں بھری گٹھڑی
بڑاسامان اپنی خستہ سامانی میں رکھا ہے (۸۷)
حیدر قریشی نے اس کتاب کو اکیس( ۲۱) ابواب میں تقسیم کرکے مختلف عنوانات دیے ہیں جن کی وجہ سے کتاب کی تفہیم ، ترتیب اور حسن پر خوشگوار اثرپڑا ہے۔ کتاب کے سرورق پر تصاویر اور اندرونی صفحات پر درج تاثرات کی موجودگی صوری اور معنوی خوبیوں کو اُجاگر کرتی ہے ۔ کتاب کے آخرمیں ارشد خالد نے ’’حیدرقریشی شخص و عکس ‘‘ کے تحت اُن تمام تخلیقی ،تنقید ی اور تحقیقی کتابوں اور مقالات کی تفصیل فراہم کی ہے جو حیدر قریشی نے تحر یر کیے یا اُن پر لکھے گئے ہیں۔ یہ اشاریہ اتنا جا مع ہے کہ قاری کم وقت میں تمام ضروری معلومات حاصل کر لیتا ہے۔
(ج) کتاب کے ذیلی عنوانات
۱۔ بزمِ جاں
۲۔ ددھیال کے رشتہ دار
۳۔ کزنز
۴۔ پڑھنے سے پڑھانے تک
۵۔ بندہ ء مزدور کی اوقات
۶۔ گراموفون سے سی ڈی تک
۷۔ اخلا قی قدریں اور ویا گرا
۸۔ دعائیں اور قسمت
۹۔ شوخیاں ، بچپنا
۱۰۔ علتیں ، علا لتیں
۱۱۔ اَن دیکھے ، پر جانے دوست
۱۲۔ ابتدائی ادبی زمانہ
۱۳۔ میر ی عمر کا ایک سال
۱۴۔ رپور تاژ :ماریشس میں عالمی اُردو کانفرنس
۱۵۔ ادبی کائنات میں رنگ
۱۶۔ رہے نام اﷲکا
۱۷۔ روح اور جسم
۱۸۔ چند پرانی اور نئی یادیں
۱۹۔ لبیک اللھم لبیک
۲۰۔ زندگی در زندگی
۲۱۔ زندگی کا یاد گار سفر
حیدر قریشی نے ’’ عرضِ حال‘‘ کے نام سے جو دیباچہ لکھا اس میں اپنی تما م یادوں کا پس منظر مہیا کردیا ہے۔
(د) ’’ کھٹی میٹھی یادیں ‘‘: تجزیاتی مطالعہ
اس کتاب کے پہلے حصے ’’بزم جان‘‘ میں حیدر قریشی نے جرمنی آنے کا ابتدائی حال ہلکے پھلکے انداز میں تحر یر کیا ہے۔ اُن کا اہل خانہ تقریباََ اڑھا ئی سال پہلے جرمنی جاچکا تھا اور حیدرقریشی کو بعد میں وہاں جانے کا موقع ملا تھا ۔ جرمنی کا آزاد ماحول اور انسان دوست قوانین نے فکر ونظر پر گہرے اثرات مرتب کیے ۔ عورت کی آزادی پر بھی اُن کے تاثرات قدرے مزاحیہ اُسلوب میں اپنا جادو جگا تے نظر آتے ہیں ۔ یہ جملے ملا حظہ ہوں:
’’ اپنے ہاں تو غالبؔ اس چارگرہ کپڑے کا افسوس کرتے رہے جس کی قسمت میں عاشق کا گریباں ہونا لکھا ہو تا ہے۔ اِدھر مغرب میں اس تین گرہ کپڑے کی قسمت پررشک آتا ہے جو گرمیوں میں حسینانِ مغرب نے زیب تن کر رکھا ہوتا ہے۔ ‘‘ ( ۸۸)
یورپ آنے کے بعد تمام قریبی دوستوں اورعزیزوں کی یادوں نے یلغار کردی تھی جن کے ساتھ پاکستان میں اچھا برا وقت گزرا تھا۔ ایسے تمام لوگو ں کا تذکرہ حیدر قریشی نے ازحد محبت سے کیا ہے۔ کچھ مقامات پر احساس ہوتا ہے کہ جیسے خاکوں کے کردار اور واقعات کی تکر ار کی جارہی ہے یا اُنھی یادوں سے وابستہ دوسرے واقعات کو پھیلا کر پیش کیا جا رہا ہے ۔ پاکستان میں جس طرح اُنھیں روحا نی واقعات کا سامنا کرنا پڑا تھا جر منی آنے کے بعد بھی یہ تسلسل جا ری رہا ۔
حیدر قریشی کی قوتِ حافظہ بہت شاندار ہے ۔ وہ ابتدائی بچپن کے واقعات مع جزئیات سنانے پر قادر ہیں ۔ ہر واقعہ اپنی تما م تر تفصیلات کے ساتھ صفحے پر منتقل ہو کر قاری کے دل میں گھر کرتا چلا جاتا ہے۔ اس کتاب کا وہ حصہ جس کا عنوان ’’کزنز ‘‘ ہے اس میں حیدر قریشی نے ایک ایسے واقعے کا ذکر کیا جو انھوں نے محض تین بر س کی عمر میں مشاہد ہ کیاتھا۔ یہ واقعہ اُن کے پسند ید ہ ماموں پروفیسر ناصر کے حوالے سے ہے ۔ جب حیدر قریشی نے اپنی جو انی کے عالم میں وہ واقعہ اپنے ماموں کو سنا یا تو وہ خود حیران رہ گئے، اور اُنھوں نے بتایا کہ حید ر قریشی کی عمر اُس وقت تین سال کی تھی۔ حیدر قریشی کی یادوں کا ایک خاص وصف یہ بھی ہے کہ وہ بالکل ذاتی اور نجی تجربات اور مشاہدات کو ایسے شگفتہ اور پر ا ثر اُسلوب میں بیان کر تے ہیں کہ قاری بذات خود غیر محسو س طور پر ان کے حسی تجر بات کا حصہ بنتا چلا جا تا ہے۔ اُن کی ذاتی خوشیاں اور کرب پڑھنے والے کا ذاتی کرب اور خوشی بن جاتے ہیں۔ یادوں کے بیان میں کئی مقامات ایسے آتے ہیں جب انفرادی تجر بات اجتماعی روپ کے حوالے سے اُبھر تے اور ڈوبتے محسوس
ہو تے ہیں۔ تمام یادیں زنجیر کی کڑ یوں کی مانند ایک دوسرے سے منسلک ہیں اور معصومیت کی داستان سناتی ہیں۔ اس کتاب کا مطالعہ قاری کو بتاتا ہے کہ کس طرح حیدر قریشی زندگی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر جینے کا اُسلوب سیکھتے رہے ہیں۔
کتاب میں ذاتی حالات کا تذکرہ دل کھو ل کر کیا ہے۔ ۱۹۶۸ء میں جب اُن کی عمر صرف ۱۶ سال تھی اور میٹرک کا امتحان نیا نیا پا س کیا تھا جب اپنے گھر کے حالات دیکھے تو ملازمت کا ارادہ کرلیا ،اور اپنے علاقے کی حئی سنز شوگر ملز میں ملازم بھر تی ہو گئے۔ اس نوکر ی نے کچھ وقتی خوشی ضرور مہیا کی لیکن پھر ایک مستقل روگ کی صورت عمربھر ان کا پیچھا کرتی رہی۔ اسی نوکری کے دوران ان کے ذہن میں کچھ اس قسم کے خیالات پیدا ہو رہے تھے :
’’ عملی زندگی کے تلخ حقائق کا سامنا کرنے کے بعد میرے
اند ر نا انصافی کیخلاف بغاوت کے خیالات پرورش پانے لگی
تھے لیکن مجھے ایک خاص اخلا قیات ، اور چند اصولوں کا پاس بھی تھا۔ ‘‘ ( ۸۹)
شوگر ملز کی ملازمت نے سیاست کی جانب بھی راغب کردیا تھا اور یوں یہ ملازمت مزدور یونین اور انتظامیہ کے مابین جھگڑوں میں دبتی چلی گئی اور زندگی کا اولین مقصد یہی قرار پایا کہ کسی طرح مزدوروں کو ان کی جائز مراعات حاصل ہو جائیں ۔ حیدر قریشی نے ۱۹۷۹ء کے اُس اندوہ ناک واقعہ کا ذکر بھی کردیا ہے جس میں جنرل ضیا ء الحق نے کالونی ٹیکسٹائل ملز ملتان کے مزدوروں پر اندھا دھند فائرنگ کرا کر صد ہا بے گنا ہوں کو قتل کرادیا تھا۔ غرض یا دنگاری کا یہ سفر کئی ذیلی کہانیوں کو ساتھ لے کر آگے بڑھتا ہے اور قاری یادوں کے اس تیز بہاؤ میں بہتا چلا جا تا ہے۔
اس کتاب کا ہر صفحہ شوق کی آگ بھڑکاتا ہے اور ٹوٹتی اُمیدوں کے ساتھ اُمید کی شمع روشن ہوتی چلی جاتی ہے۔ حیدر قریشی نے جب یادوں کے چراغ روشن کیے تو اپنی پسند ید ہ عادات واشغال پر بھی تفصیلی معلومات فراہم کی ہے۔ مثلاَاپنے ذوق مو سیقی پر بلا تکلف لکھا ہے اور بتا یا ہے کہ ان کے پسند یدہ گلو کاروں کی فہر ست میں محمد رفیع ، لتا منگیشگر ، مکیش ، مہندر کپور ، طلعت محمود ، آشا بھو سلے ، گیتا دت ، ہیمنت کمار ، کشور کمار ، سمن کلیان پور ، مبارک بیگم ، منا ڈے اور پاکستانی موسیقی میں سلیم رضا، زبیدہ خانم ، مہد ی حسن ، مسعود رانا ، احمد رشدی ، مالا ، نسیم بیگم ، مسرت نذیر اور اسدامانت علی پسند ہیں۔ ’’ کھٹی میٹھی یادیں‘‘ کے باب ’’گراموفون سے سی ڈی تک ‘‘ میں حیدر قریشی نے نہایت دل چسپی اور فنی مہارت کے ساتھ موسیقی پر اظہار خیال کیا ہے۔ اگر چہ اُن کا شوق ِ موسیقی گرامو فون کے زیر اثر پروان چڑھا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ آلات موسیقی میں جو تبدیلیاں رونما ہو ئیں ا س کے مطابق وہ خود بھی جدید چیزوں کے ساتھ وابستہ ہوتے چلے گئے۔
حیدر قریشی کی اس کتاب کا نمایاں وصف یہ ہے کہ یہاں ہر صاحب ذوق کی پسندکا سامان موجود ہے اور ہر شخص اپنی پسند ملحوظ رکھتے ہوئے لطف اندوز ہو سکتا ہے۔ سلطان جمیل نسیم نے اِنھی اوصاف کو مد ِ نظر میں رکھتے ہو ئے لکھا ہے:
’’ اپنی کھٹی میٹھی یادوں کوحیدر قریشی نے عنوانات کے خوش رنگ اورمختلف پیمانوں میں بھر دیا ہے کہ ادب کا کوئی پیاسا جس پیمانے کی پیاس محسوس کرے پہلی سانس میں اُسی کوپی لے۔ ‘‘ (۹۰)
اِن کھٹی میٹھی یادوں میں سبق آموز اور نتیجہ خیز واقعات کا ایسا سلسلہ ملتا ہے جو حیدر قریشی کے تخلیق عمل کے محرکات و اسباب کو بھی واضح کرتا ہے۔ یادوں کی یہ نیر نگی اور بو قلمونی اصل میں ان کی اپنی ہی ذات اور شخصیت کا پر تو ہے، یہ ان کی اپنی شخصی رنگا رنگی ہے جو ان نثر پاروں میں حسن و جمال کے رنگ بکھیر تی ہے۔
٭ فکر ونظر کے زاویے
حیدر قریشی نے یہ کتاب بظاہر قلم برداشتہ لکھی ہے اس کے باوجود کئی مقامات پر ان کا تفکر فعال نظر آتا ہے۔ وہ و۱قعات کی تفہیم و ترسیل کے ضمن میں ان کی معنو یت اور مقصد یت سے غافل نہیں رہتے ۔ کرداروں کی تحلیل کے دوران اخلاقیات اور سماجیات کے حوالے سے بھی قاری کو فیض باب کرتے ہیں ۔کچھ مثالیں ملا حظہ ہوں :
(الف ) ’’ مذہب کی ایک سطح عقائد اور فروعات سے تعلق رکھتی ہے۔ دنیا کے بیشتر مذہبی جھگڑے اسی سطح سے ابھر ے اور خونر یز فسادات کی حد تک گئے ۔مذہبی اختلافات اورفسادات کا یہ سلسلہ آج بھی دنیا بھر میں کسی نہ کسی رنگ میں چل رہا ہے۔جبکہ مذہب کی دوسری اور اہم سطح روحانیت سے متعلق ہے دنیا کے ہر مذہب اور مسلک سے تعلق رکھنے والے کا دعویٰ ہے کہ صرف اسی کے مسلک پر عمل پیرا ہو کر خدا سے روحانی تعلق قائم کیا جاسکتا ہے۔ ‘‘ (۹۱)
(ب) ’’ ہر مذہب کے دو پہلو ہیں ۔ ایک دانش والا دوسر دہشت والا۔ دانش والے پہلو میں دوسروں کے ساتھ مکا لمہ بلکہ ایک دوسرے کی تفہیم والے تقابلی مطالعہ کا ظرف پیدا ہوتا ہے۔یہی پہلو آگے چل کر صوفیانہ ریاضت کی طرف بھی لے جانے میں ممد ہوتا ہے۔ جہاں مختلف علوم ایک نقطے میں یکجا ہو جا تے ہیں ۔ اسی لیے اپنے ظرف کی وسعت کے باعث مذہب کے اس پہلو میں مکالمہ اور تقابلی مطالعہ سے کس کو گھبراہٹ نہیں
ہوتی ۔ ‘‘ (۹۲)
محولا بالا دونوں اقتباسات کا تعلق مذہب کے ساتھ بنتا ہے لیکن وہ درپردہ اپنے اُس وژن کو واضح کر رہے ہیں جس کے تحت ان کی اپنی زندگی گزر رہی ہے۔ ان باتوں میں باریک بینی ، عمیق نظر ی اور دل کو گداز کر دینے والی سچائی
پو شید ہ ہے۔ حیدر قریشی کے لفظوں میں وہ گہر ی دانائی اور حکمت جھلکتی ہے جو زندگی کے عطر سے پھو ٹتی ہے اور جہان ِ معنی کا تازہ دریچہ وا کرتی ہے۔ یہ جہانِ معنی پیچیدہ افکا ر اور گنجلک نظریات کا طلسم ِہو شربا نہیں ہے،یہاں فکر ونظر کا بے ساختہ پن اپنا جلوہ دکھا ر ہا ہے۔ جو گندر پال رقمطرازہیں:
’’ حیدر قریشی کا ذہن زرخیز ہے اور منہ کھٹی میٹھی باتوں سے لبر یز وہ چونکہ پورا منہ کھو ل کر
جی جان سے بات کرتاہے اس لیے اس کی تحر یر بر جستہ اور غیر مبہم ہوتی ہے۔ ‘‘( ۹۳)
حید رقریشی کا فطری رحجان سادگی اور سلاست کی طرف مائل ہے۔ اُن کے ہاں مشکل سے مشکل جذبہ یاخیال واضح شعو ر کے ساتھ بیان ہو تا ہے۔ اِن یادوں میں مشاہدۂ حیات ہی نہیں مجاہد ۂ حیات کا رس بھی ہے۔ بیان میں ایسی روانی اور جوانی تبھی ممکن ہے جب لکھنے والا بحرِ حیات کا پختہ کا رشنا ور ہو ۔یادوں کا یہ سمندر محبت کے جواہرریزوں سے بھرا ہوا ہے۔ ’’ کھٹی میٹھی یادیں‘‘ فکر یات کا عمدہ مطالعہ پیش کرتی ہیں۔،اور بیسیوں جملے ایسے ہیں جو بغیر کسی پس منظر کے قاری کو متاثر کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں،مثلاً:
’’ ہم لوگوں کی خرابی یہ ہوئی ہے کہ ہم گھسے ہوئے ریکارڈ کی طرح چند باتوں
اور نصیحتوں کو دہراتے رہتے ہیں لیکن ہمارا عمل کا خانہ یکسر خالی ہے۔‘‘ (ص ۱۷۴)
’’ بات ہم روح کی کرتے ہیں ،دوڑتے جسم کی ضروریات کی طرف ہیںـ۔‘‘ (ص۱۷۹)
’’ زندگی کے معاملہ میں دو جمع دو چار کی طرح کوئی دوٹوک اور حتمی بات کہہ کر گزر جانا ممکن نہیں(۱۹۰)
’’ روحانی تجربات کا مطلب یہ ہوا کہ اس بندے کو خدا سے پیار ہی
اور یہ اپنے رب کی جستجومیں لگا ہوا ہے۔اس کے بر عکس مغربی اسکالرز
جو سائنس اور ٹیکنالوجی میں پیش رفت کر رہے ہیں،ان کا شمار اُن لوگوں
میں کیا جانا چاہیے جو خدا کے بندوں سے پیار کرتے ہیں۔‘‘ (ص ۱۷۹)
حیدر قریشی نے زندگی کو بہت قریب سے دیکھا ہے اور اُن کی فکری بصیرت کتابی علم کی مرہون ِ منت نہیں بلکہ سماج کی عملی ذمہ داریوں سے کشید ہوتی ہے۔ہمارے اُردو ادب میں ایسے دانشوروں کی کمی نہیں جو مستعار کتابی علم کی بدولت ہر کسی پر سکھی معتبری کرتے دیکھائی دیتے ہیں لیکن حیدر قریشی کا علمی اور فکری رویہ اصل میں اُن کے تخلیقی عمل ہی کی توسیع ہے۔
٭ روحانیت سے لگاؤ
حیدر قریشی کو تصوف اور روحانیت سے جو خاص لگاؤ ہے اس کا اظہار افسانہ نگاری ، خاکہ نگاری اور سفرنامہ نگاری کے علاوہ یادنگاری میں بھی ہوتا ہے۔اس تصوف کا مدار اَخلاص فی العمل پر ہے۔ ان کی جملہ تحریروں کو نظر میں رکھتے ہو ئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان کا فکر ی جھکاؤ وحدت الوجود کی طرف ہے ۔ وہ خالق ِکائنات کو بجائے قال کے حال میں محسوس کرتے ہیں اور شریعت و طریقت میں کس دوئی کے قائل نہیں ہیں۔ حیدر قریشی کا صوفیانہ رویہ ایجا بی ہے۔ وہ تصوف کے انفعالی پہلوؤں کی مذمت کرتے ہیں اور اعلی تصوف کو تمام مذاہب کی معراج تسلیم کرتے ہیں ۔ ان کے فکری نظام میں روحانیت اور تصوف کا اُسلوب متوازن اور تعمیر ی ہے۔
حیدر قریشی کرامات پر یقین رکھتے ہیں اور تمام کرامات کا سبب زبان وعمل کی پاکیزگی قرار دیتے ہیں ۔ روحانیت چوں کہ ایک ایسی اصطلاح ہے جس کی تعبیر و تشریح ہر شخص اپنے فہم کے مطابق کرتا ہے۔ لہٰذا حیدر قریشی نے اپنی کتاب کے باب ’’روح اور جسم‘‘ کے پہلے صفحے پر اس کی وضاحت ان الفاظ میں کردی ہے:
’’اپنی سوجھ بوجھ کے مطابق مختصر ترین عرض کرتا ہوں کہ انسانی روح جب اپنے اصل مالک وخالق کی جستجو کا سفر کرتی ہے تو یہ سفر روحانیت کہلاتا ہے خالقِ کائنات روح اعظم ہے ، ہم سب اسی کی طرف سے آئے ہیں اور اس کی طرف ہم سب نے لوٹ کر جانا ہے ۔‘‘ (۹۴)
یہی خیالات شعری صورت میں اس طرح سامنے آتے ہیں:
اسی کے پاس تو جانا ہے لوٹ کر آخر
سوخوب گھو مئیے ، پھر ئیے ، رجو ع سے پہلے ( ۹۵)
حیدر قریشی کے فلسفہ ء روحانیت میں وہ آفاقی عنصر بآسانی دیکھا جا سکتا ہے جو ان کی بات میں وزن پیدا کرتا ہے۔
وہ لکھتے ہیں:
’’ کو ئی عام انسان اگر سچی لگن کے ساتھ خدا کی جستجو کرتا ہے تو اس کی یہ جستجو ہی اس کی روحانیت ہے ۔ اس میں وہ جتنی ترقی کرتا جائے گا۔ اتنا ہی روحانی طور آگے بڑھتا جا ئے گا ۔ روحانی مدارج طے کرنے کے لیے مختلف مذاہب کے ہاں مختلف طریقے ملتے ہیں میرا خیال ہے کہ طریق کارکوئی بھی اختیار کیا جا ئے۔ اصل چیز یہ ہے کہ انسان کی جستجو اور لگن سچی ہو۔‘‘ ( ۹۶)
یہ آفاقی نقطہء نظر اپنے اندر بے پناہ قوت رکھتا ہے اگر روحانیت کو دوسرے عقائد و نظریات کی طرح چھو ٹے چھوٹے تنگ خانوں میں بانٹ دیا جا ئے تو پھر اس کی افادیت محدود بلکہ مشکوک ہو کر رہ جاتی ہے۔ اصل میں صوفی اپنی ذات کے باطن میں بکھر ی سچائیوں اور گہرائیوں کی تعبیر کرتا ہے اور ذات و کائنات کے یکجا ہو نے سے ہی حیات کا فلسفہ مکمل ہوتا ہے۔ حیدر قریشی کا یہی طبعی میلا ن سماجی اور سائنسی علوم کے با طن میں چھپی اسی روحانی پہلو کو دیکھ لیتا ہے جو عام نظر سے مخفی رہتی ہے۔ یہ بیان ملا حظہ ہو:
’’ میر اشروع سے یہی خیا ل رہا ہے کہ سائنس خدا کی نفی کرتے ہوئے اسی کی طرف
جارہی ہے۔ مذہب روحانی طور پر اسی کی طرف سفر کراتا ہے اور ادب بھی جمالیاتی
سطح پر اسی حقیقت عظمیٰ کی طرف سفر کرتا ہے۔‘‘ ( ۹۷)
حیدر قریشی کے خیالات سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کا اپنا ایک مخصو ص طرز فکر یا فکر ی نظام موجود ہے جس کی مدد سے وہ اِدھر اُدھر بکھر ی حقیقتوں کو پر کھنے کے بعد ایک وحد ت میں پرو دیتے ہیں۔ وہ کائناتی مظاہر کو کُل کی شکل میں دیکھ کر حکم لگا تے ہیں اور یوں اس روحانیت کے ڈانڈے فلسفہ اور سائنس سے جا ملتے ہیں ۔ ان کے نزدیک ہر جزو کسی کُل کا حصہ ہے، اور جز میں کُل کا مشاہد ہ ہی اصل روحا نیت ہے۔ حیدر قریشی نے اپنی روحانیت کا تذکر ہ کچھ اس انداز سے کیا ہے کہ قاری خود کو ان تمام تجربات میں شریک سمجھتا ہے اور پیش کر دہ واقعات اور مشاہدات میں پڑھنے والوں کی ذاتی دل چسپی بھی شامل ہوتی چلی جاتی ہے۔ اُنھوں نے روحانی مشاہدات کہیں واضح انداز میں اور کہیں محض علا متی اُسلوب میں بیان کیے ہیں۔
اس کتاب میں روحانیت کا بیان حد درجہ وضاحت سے ہو ا ہے۔کتاب کی خاص خوبی یہ ہے کہ قاری کسی مقام پر کوئی اُلجھن یا ابہام محسو س نہیں کرتا ورنہ عموماََ دیکھا گیا ہے کہ مابعد الطبیعیاتی عقائد و نظریا ت تحر یر کو بوجھل اور بلکہ نا قابل فہم بنا دیتے ہیں لیکن یہاں معاملہ اس کے برعکس ہے ۔چند مقامات پر تو یہ گمان گزرتا ہے جیسے مصنف معروضی اور منطقی استد لا ل کے سہار ے آگے بڑھ رہا ہے تا کہ اُس کا قاری عالم ِ اسباب میں رہتے ہوئے روحانی لطف میں شامل رہے ۔ یہ تمام روحانی مسائل حید ر قریشی کے فکر و نظر پر اچھو تا تنا ظر مہیا کرتے ہیں۔
٭ ادیبوں کا ذکر
حید ر قریشی کی زند گی کا بڑ ا حصہ علم ادبی سرگرمیوں کے لیے وقف رہا ہے ۔ پاکستان میں ان کا قیام اور پھر جرمنی میں مستقل سکونت نے علم و ادب کے کتنے ہی نئے در اُن پروا کیے ہیں۔’’ کھٹی میٹھی یادیں‘‘ کا باب ’’ادبی کائنات میں رنگ ‘‘ ادیبوں کے ذکر سے بھراہے۔ جن خا ص ادیبوں سے مراسم زیادہ رہے اُن کے نام کچھ یوں ـ:
قر ۃالعین حیدر ، کشور ناہید ، ڈاکٹر وزیر آغا ، ڈاکٹر انور سید ید ، امرتا پر یتم ، بانو قد سیہ ، عشرت آفرین( امریکہ) حمید ہ معین رضوی( لندن) نو شی گیلانی( آسٹر یلیا) صفیہ صدیقی ( لند ن) ماہ طلعت زیدی ، ثمینہ راجا ، عذرا اصغر ، کرشنا پال ، جو گندر پال ، ثر یا شہاب ، ڈاکٹر کر سٹینا (جرمنی) اولدک اسٹارک ( جر منی) ڈاکٹر لد میلا (روس) ، ڈاکٹر وسیم بیگم ، شاہد ماہلی ، صدیقہ بیگم ، قمر علی عباس، سیدہ حنا( پشاور) ، نجمہ منصور ، روشن آرا نزہت ، راغب شکیب ، پروین عاطف ، ریحانہ قمر (امریکہ) افتخار نسیم ( امریکہ ) عباس تابش ، عطیہ خان ، رضیہ اسماعیل ( انگلینڈ) پروین شیر
( کینیڈا) فرحت نواز ، اکبر حمید ی ، اور بشرٰی ملک وغیرہم۔
محو لہ بالا ادیبوں کی فہر ست خاصی مختصر ہے۔ اصل میں حیدرقریشی نے صرف اُ نھی لوگوں کا ذکر اس کتاب میں کیا ہے جو کسی نہ کسی حوالے سے یاد گار بن گئے ہیں۔ ادیبوں کا یہ تذکرہ جہاں خالص لکھنے والوں کی تعریف و تو صیف سے مزین ہے وہاں ایسے جعلی ادیبوں کو بے نقاب بھی کرتا ہے جو دوسروں کو بھاری رقوم دے کر شعری مجمو عے لکھو اتے ہیں۔
حید ر قریشی کی یہ کتاب ایک ایسی مصد قہ تاریخی د ستاویز ہے جہاں ادبی بد عنوانی پر سیر حاصل مقد مات پڑھنے کو ملتے ہیں۔گو اس مو ضو ع پر دوسرے ناقدین اور محققین نے بھی دل کھو ل کر لکھا ہے لیکن حید ر قریشی نے سنی سنائی معلومات سے زیادہ عینی مشاہدات کو فوقیت دی ہے۔’’ قلندر ہر چہ گوید ، دیدہ گو ید‘‘ والی بات یہاں عملاََ دیکھی جا سکتی ہے۔ حیدر قریشی نے معیاری ادب پیدا کرنے والوں کا ذکر حد درجہ ادب احترام سے کیا ہے اور ان کے ادب پاروں کی تحسین کی ہے۔
٭ احبا ب کا ذکر
حیدرقریشی کا حلقہء احباب نیل کے سا حل سے لے کر تابخاک ِ کا شغر پھیلا ہو ا ہے۔ دوستوں کا یہ حلقہ جنس اور عمر کے تکلفات سے یکسر آزاد ہے ’’کھٹی میٹھی یادیں ‘‘ ایسے دوستوں کا تذکرہ بھی محفو ظ کرتی ہے جن سے اُن کی کبھی ملا قات نہیں ہو ئی ۔ حید ر قریشی کہتے ہیں :
میر ی ادبی زندگی میں بہت سے دوست آئے۔ کچھ نے چند قدم تک ساتھ نبھا یا بعض سے لمبی دوستی نبھی ۔ کس سے نبا ہ میں میرا سلیقہ کام آیا تو کس سے نباہ میں اس کی اپنی محبت کا ر گر رہی۔ ادبی دوستوں میں اَن دیکھے دوستوں سے تعلق کی نوعیت عام دوستوں سے خاصی مختلف ہو جاتی ہے۔،میر ے بہت سے اَن دیکھ دوست ہیں لیکن یہ
میر ے لیے اور میں ا ن کے لیے انجا نا نہیں۔ ‘‘ (۹۸)
ایسے اَن دیکھے دوستوں کی محفل میں سب سے پہلے ابن صفی کا ذکر آتا ہے۔ حید ر قریشی نے ابن صفی کی عمر ان سیریز کا مطالعہ ساتویں جماعت سے شروع کر دیا تھا، وقت گزرتا گیا اور تعلق کی نوعیت میں شدت آتی گئی ۔حیدر قریشی دنیا ئے ادب میں اپنی شناخت بنا نے کے بعد کھلے دل سے یہ اعتراف کرتے ہیں :
’’ اگر چہ میر ی تحر یر یں اُن کے مو ضوعات اور میدان سے بالکل الگ ہیں لیکن مجھے یہ اعتراف کرتے ہوئے خوشی ہو رہی ہے کہ میر ی نثر پر کہیں نہ کہیں اُن کے اُسلوب کا کوئی نہ کوئی اثر ضرور ہے ،حقیقت یہ ہے کہ ابن صفی سے میرے جیسے سینکڑوں ادیبوں نے پڑھنے اور لکھنے کا سلیقہ سیکھا ہے۔ ‘‘ (۹۹)
یہ حید ر قریشی کی بڑائی ہے کہ اُنھوں نے کشادہ ظرفی کا مظاہر ہ کرتے ہوئے ابن صفی کے اثرات کا اعتراف کیا ہے ۔ اگلے مرحلے پر معروف ادیب امین خیال کا ذکرآیا ہے جو ماہیے کی تحریک کے سرگرم رکن رہے تھے۔ اُن کے ذکر کا حو الہ ایک اور نسبت سے بھی آیا ہے جس کا تذکرہ حیدرقریشی نے ان الفاظ میں کیا ہے :
’’ میر ی ادبی ترقی جتنی بھی ہے اور جیسی بھی ہے یہ میرے دوستوں میں سے زیادہ امین خیال جی کی محبت ، خلوص اور دعاؤں کا نتیجہ ہے۔‘‘ (۱۰۰)
دوستوں کا ذکر دراز ہو تا ہوا حمد حسین مجاہد تک جا پہنچتا ہے جو ماہیے کی تحر یک میں حید ر قریشی کے ہم نوا رہے اور ماہیے کے عروضی مسائل پر گراں قدر کام کیا ہے۔ ترنم ریاض کے ساتھ مراسم کی اصل وجہ ماہیا نگاری قر ار پاتی ہے۔ اگرچہ وہ افسانہ اور نظم بھی لکھتی ہیں ۔ دوستوں کے اس تذکرے میں’’ شعرو سخن ‘‘ کے مدیر جان عالم کا ذکر بھی محبت بھر اہے ۔ جان عالم سے ان کے فکر ی مکا لمے بھی چلتے رہے اور دوستی کا یہ سلسلہ آگے بڑھتا جا رہا ہے۔ حید ر قریشی کہتے ہیں۔
’’ جان عالم سے دوستی میں فکر ی مکا لمہ شروع ہوا ۔ میں حیران ہوں کہ جان عالم نے کم عمری میں ہی کتنا سفر طے کر لیا ہے۔ یہ نوجوان روحانیت کی دنیا سے گزرتا ہوا سوالات کی دنیا میں آگیا۔ سوال اٹھتے رہے اور اس کی جستجو بڑھتی رہی اور جان عالم کی جان یقین اور گمان کے بیچ اٹکی رہی۔ ‘‘ (۱۰۱)
قاری کو ان یادوں سے بہت کچھ مل جاتا ہے کیونکہ حیدر قریشی نے حد درجہ ذمہ داری کے ساتھ تمام شخصیات کے خصائص کو بھی اجاگر کر دیا ہے، جو یادوں کا حصہ بنتی چلی گئی ہیں۔ اُن کا نقطہ نظر یہی ہے کہ سچ بہر حال سچ ہے اور اس کا ظاہر ہوجانا اچھا ہے۔ وہ خود سے وابستہ تما م دوستوں کا نفسی اور فکر ی تجزیہ کر نے کے بعد اُن کی باطنی دنیا کو پرکھنے کی شعوری کرتے دکھا ئی دیتے ہیں ۔ جان عالم کے بارے میں ان کی تجزیاتی رائے اس امر پر تفصیلی روشنی ڈالتی ہے۔
یادوں کے اس گلستان میں ہر قسم کی دوستی کا پھو ل مہک رہا ہے اور حیدر قریشی نے رنگ و بو کی تخصیص کا پاس لحاظ کرتے ہوئے شخصی مطالعات پیش کیے ہیں ۔ اُنھوں نے جن دیگر دوستو ں کا ذکر کیا ان میں محمد وسیم انجم ، سید ظفر ہاشمی(ایڈ یٹردو ماہی’’ گلبن‘‘ احمد آباد) ، ناوک حمزہ پوری ،ڈاکٹر مناظر عاشق ہر گانوی ، ڈاکٹر فراز حامدی ، ڈاکٹر جمیلہ عرشی اور بشری رحمن شامل ہیں۔ آخر میں وہ اپنے ایک ایسے دوست کا ذکر اچانک کر دیتے ہیں کہ قاری پر وجد کی کیفیت طاری ہو نے لگتی ہے۔ اس قریبی دوست کے بارے میں حیدر قریشی کا بیان ملاحظہ ہو:
’’ کیا کوئی ایسے دوست کا تصو ر کر سکتا ہے جو کبھی سامنے آکر ملا بھی نہ ہو اور ر اپنے دوست کی خیر خواہی میں ماں ، باپ ، بھائی ، بہن ، بیو ی ، بچوں ، مخلص دوستوں سے بڑھ کر خیر خواہ ہو۔ شاید آپ نے میرے اس بہت پیارے دوست کو پہچان لیا ہے۔ جی ہا ں یہ میرا خدا ہے! جو ہم سب کا خداہے ‘‘ (۱۰۲)
اس دوست کا ذکر پڑھ کر انسان کا سر جھک جاتا ہے اور وہ گہر ی سوچ میں ڈوب کر حیدر قریشی کے اس شعر کا ورد کر نے لگتا ہے۔
ستم جو ہم پہ کیے اس نے بے حساب کیے
کرم بھی کرنے پہ آیا تو بے شما ر دیا
( ۱۰۳)
حیدر قریشی نے دوستوں کے تذکر ے میں بخل سے کا م نہیں لیا۔ جو دوست جس مقام ومرتبہ کا حامل تھا اسے حزم واحتیاط سے اسے درجے پر فائز کیا ہے۔ دوستوں کی اس گہماگہمی کی وجہ سے پوری کتاب کا ماحول پُر رونق ہوگیا ہے اور قاری بے خودی کی حالت میں کتاب پڑھتا چلا جاتا ہے اور اچانک اسے احساس ہوتا ہے کہ یادوں کا یہ طلسم کدہ ختم ہو گیا ہے ۔ حیدرقریشی نے ماضی کو کھر چ کھر چ کر یادوں کا جو میلہ لگا یا تھا وہ اپنی یادوں کے نقش چھو ڑ کر جاچکا ہے ۔ میں تو اسے یادوں کی جنتری کہتا ہوں جو پرانی ہو نے کے باوجود صدیوں تک کا رآمد ہوتی ہے۔ اِن یادوں میں دھو پ چھاؤں کا مزہ ہے ۔ زندگی کے نشیب وفراز کی داستان ہے۔ دوست اور دشمن کے باطن میں جھا نکنے کے مناظرہیں اور زندگی کے ایسے ایسے رنگا رنگ نظارے ہیں جو خوشی اور غم کی اضافی قدروں میں نئی معنو یت پیدا کرتے ہیں۔
٭ حیدر قریشی کا اعتراف
’’ میں نے اپنے خاکوں اور یادو ں میں جوکچھ لکھا ہے وہ سب سچ ہے۔بیتا ہوا سچ ، دیکھا ہوا سچ یا سنا ہوا سچ اور وہ انکشافی سچ جو کسی تخلیق کارکو نصیب سے ملتا ہے ‘‘(۱۰۴)
کتاب پڑھ کر اس بیان کی تصدیق ہو جا تی ہے۔ حیدر قریشی کی یاد نگاری نے اُردو ادب کو ایک نئی تخلیقی صنف کا تحفہ دیا ہے جو ہمیشہ یاد رکھا جا ئے گا۔اس کتاب کا مطالعہ ایک جہان ِ معنی کی سیر کراتا ہے۔فاضل مصنف نے یادوں کی جمع آوری کے دوران ادب کی اعلیٰ اقدار کو ہر لمحہ پیش ِ نظر رکھا ہے۔