خاکہ نگاری اُردو ادب کی اہم اور مقبول صنف ہے جو اپنی تاریخی اور سوانحی اہمیت کی بدولت عوام و خاص کی توجہ حاصل کر چکی ہے ۔ یہ صنف اپنے اندر تخلیق اور تخیل کے وسیع امکانات رکھتی ہے۔ ایک اچھااور معیاری خاکہ کسی شخص کا محض ظاہری اور باطنی تجزیہ ہی پیش نہیں کرتا بلکہ اپنے عہد کا ادبی ، سماجی ، سیاسی ، نفسیاتی اور ثقافتی منظر نامہ بھی مرتب کرتا ہے ۔ اس صنف کے اصل خدو خال واضح کرنے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے اس کے لغوی اور اصطلاحی مفاہیم پر ایک نظر ڈال لی جائے۔
٭ خاکہ نگاری کا لغوی اور اصطلاحی مفہوم
اُردو زبان میں ’’ خاکہ ‘‘ کئی معنوں میں مستعمل ہے۔ معروف لغت ’’ فرہنگ آصفیہ ‘‘ کے مطابق اس لفظ کے معنی یہ ہیں :
’’ گروہ نقاشاں ، خاک کے ذریعے سے نقشہ وغیرہ کا نشان ڈالنا ، ڈھانچہ ، نقشہ ، چربہ ۔ ‘‘ (۴۸)
’’ نُور اللغات ‘‘ میں لکھا ہے :
’’ ڈھانچہ ، تصویر کا مسودہ ‘‘ (۴۹)
’’ حسن اللغات‘‘ (فارسی ۔ اُردو) اور ’’ فرہنگ فارسی‘‘ میں بھی وہی معنی درج ہیں جن کا ذکر اُوپر آچکا ہے ۔ البتہ ’’ علمی اُردو لغت‘‘ میں اس معنی میں قدرے وسعت نظر آتی ہے:
’’ وہ نقشہ جو صرف حدود کی لکیریں کھینچ کر بنایا جائے ۔ کسی چیز کا ابتدائی نقشہ ، مرقع ، وہ مضمون جس میں کسی شخص کے جستہ جستہ حالات لکھے جائیں، وہ مسودہ یا منصوبہ جو ذہن میں بنایا جائے۔ ‘‘ (۵۰)
محولہ بالا تعریف میں شخصیت نگاری کا حوالہ بھی شامل ہو گیا ہے تا ہم اس میں کچھ اجزا کی کمی محسوس ہوتی ہے جس کا ازالہ’’ اُردو لغت (تاریخی اُصولوں پر) میں ہو جاتا ہے:
’’ خدو خال وغیرہ کی نقل جو اصل سے مشابہ ہو ، تصویر کا ڈھانچہ ، کسی عمارت وغیرہ کا
کچا نقشہ ، تحریرکا ذہنی پس منظر ، کسی حقیقت کی مختصر کیفیت کا نقشہ ، سوانح حیات پر مبنی تحریر،
تعارف ، حالات زندگی کا مختصر نقشہ ، مختصر ڈرامہ یا نقشہ ، ناٹک ،ایک قسم کی کشیدہ جالی یا
ململ جس کو نقشے یا تصویر پر رکھ کر بنایا جائے۔ ‘‘ (۵۱)
اُردو زبان کے دستیاب لُغات میں لفظ’’ خاکہ ‘‘کی اگر اہم تعریفوں کو دیکھا جائے تو مذکورہ بالا تعریف خاصی جامع اور اطمینان بخش نظر آتی ہے ، یہاں تمام ممکنہ معنی یکجا کر دیے گئے ہیں۔ یہ تعریف خاکہ کے تمام تشریحی لوازم کا احاطہ کرتی ہے۔
اصطلاح میں خاکے سے مراد وہ تحریر ہے جس میں ہلکے پھلکے انداز اور اُسلوب میں کسی شخص کے ظاہری اور باطنی اوصاف کو اجاگر کیا جائے۔ یہ اصلاً ایک سوانحی تحریر ہوتی ہے ، لیکن اس کا انداز سوانحی مضمون ، مرقع ، پورٹریٹ اور سوانح عمری سے یکسر جداگانہ ہوتا ہے۔ ڈاکٹر سلیم اختر نے اپنی مرتب کردہ ، تنقیدی اصطلاحات میں موضوعِ زیرِ بحث کے لوازم پر اس طرح روشنی ڈالی ہے:
’’ انگریزی ’’Sketch‘‘ کے لیے مستعمل اصطلاح خاکہ اُس مختصر تحریر کے لیے استعمال ہوتی ہے جو کسی فرد کے بارے میں شخصی تعلقات ، نجی کوائف اورذاتی احوال پر مبنی ہو۔ اسے شخصیت نگاری کی مختصر ترین صورت بھی قرار دیا جا سکتا ہے ۔‘‘ (۵۲)
اُردو زبان و ادب کا پہلا باضابطہ خاکہ مرزا فرحت اللہ بیگ کا لکھا ہوا ہے جس کا عنوان’’ ڈپٹی نذیر احمد کی کہانی کچھ میری کچھ اُن کی زبانی‘‘ ہے۔ یہ خاکہ ۱۹۲۷ء میں شائع ہوا اور تا حال اس صنف میں خوشگوار اضافوں کا سلسلہ جاری ہے۔
٭ حیدر قریشی کے تحریر کردہ خاکے مع عنوانات
حیدر قریشی کے خاکوں کا مجموعہ ’’ میری محبتیں‘‘ ترتیب و تہذیب کے اعتبار سے دو حصّوں میں منقسم ہے۔ پہلے حصّے کا ذیلی عنوان ’’ اول خویش‘‘ رکھا ہے اس میں صرف قریبی اہلِ خانہ کے خاکے شامل ہیں، دوسرے حصّے کا نام ’’ بعد درویش‘‘ ہے جو قریبی احباب اور ادبی مشاہیر کے ذکر پر مبنی ہے ۔ ذیل میں تمام خاکوں کے نام اور ذیلی عنوانات درج کیے جاتے ہیں:
(ا) اوّ ل خویش :
۱۔ برگد کا پیڑ (ابا جی)
۲۔ مائے نی میں کنوں آکھاں (امی جی)
۳۔ ڈاچی والیا موڑ مہاروے (داداجی)
۴۔ مظلوم متشدد (نانا جی)
۵۔ مصری کی مٹھاس اور کالی مرچ کا ذائقہ (تایا جی)
۶۔ رانجھے کے ماموں (ماموں ناصر)
۷۔ محبت کی نمناک خوشبو (آپی)
۸۔ پسلی کی ٹیڑھ (مبارکہ )
۹۔ اُجلے دل والا (چھوٹا ماموں )
۱۰۔ زندگی کے تسلسل (پانچوں بچے)
(ب) بعد درویش :
۱۱۔ اُردو ادب کے نوبل پرائز (میرزا ادیب)
۱۲۔ ہم کہ ٹھہرے اجنبی (فیض احمد فیض)
۱۳۔ عہد ساز شخصیت (ڈاکٹر وزیر آغا )
۱۴۔ ایک ادھورا خاکہ (غلام جیلانی اصغر)
۱۵۔ بلند قامت ادیب (اکبر حمیدی)
۱۶۔ صاف گو ادیبہ (عذرا اصغر)
۱۷۔ روشنی کا کمبل (سعید شباب )
۱۸۔ عاجزی کا اعجاز (محمد اعجاز اکبر)
۱۹۔ میرا فیثا غورث (طاہر احمد)
۲۰۔ پرانے ادبی دوست (خانپور کے احباب)
حیدر قریشی نے اِ ن خاکوں میں زندگی کے رنگ بھر دیے ہیں ۔ اُنھوں نے اپنے اہلِ خانہ کے حوالے سے جو خاکے تحریر کیے وہ روایتی یا تاثراتی نوعیت کے بر عکس اعلی ادبی اقدار کا مرقع بن گئے ہیں ۔ وہ محض تعارفی اورسوانحی معلومات پر انحصار کرنے کے بجائے گہرے ادبی شعور کا ثبوت فراہم کرتے ہیں۔ حیدر قریشی کے خاکوں پر بات کرتے ہوئے اُن سب خاکوں کا تجزیہ کیا جائے گا جو اہل ِ خانہ اور دیگر احباب پر لکھے گئے ہیں تا کہ اُن کی تکنیک اور اُسلوب کا پورا پورا احاطہ کیا جا سکے ۔ خوش آئند بات یہ بھی ہے کہ خاندان کے افراد پر لکھے جانے والوں کے خاکوں کا اُسلوب اور اندازِ بیان اُن تمام خاکوں سے یکسر مختلف ہو جاتا ہے جو ادیبوں اور دوستوں پر لکھے گئے ہیں۔ اُسلوب کا یہی تنوع نفسِ مضمون کو سنوارتا اور نکھارتا ہے۔
٭ حیدر قریشی کے خاکوں کا تجزیاتی مطالعہ
حیدر قریشی کی تخلیقی نثر کا حوالہ خاکہ نگاری کے بغیر نا مکمل ہے ۔ خاکہ نگاری کی صنف ان کے مزاج میں رچی بسی نظر آتی ہے۔ اُنھوں نے اب تک بیس(۲۰) خاکے تحریر کیے ہیں جو ’’ میری محبتیں‘‘ کے نام سے شائع ہو چکے ہیں۔ یہ خاکے تکنیکی اور اُسلوبیاتی لحاظ سے مکمل ہونے کے ساتھ ساتھ واقعات کی ترتیب ، دل چسپی ، شگفتگی اور برجستگی کے باعث بھی جاذبِ توجہ ہیں ۔ اِن تمام خاکوں میں شخصیت کا عمیق مطالعہ کرنے کی سعی نظر آتی ہے ۔ نیز خاکے کے جمالیاتی اوصاف کو نمایاں رکھا گیا ہے۔
حیدر قریشی نے جس کسی کا بھی خاکہ تحریر کیا اُس کی زندگی کے نمایاں پہلوؤں کی ایسی سچی تصویر کشی کی جو ہر اعتبار سے جامع و مانع ہے۔ ہر شخص کی زندگی میں کچھ ایسی نا ہمواریاں بھی پائی جاتی ہیں جو ہنسی اور انبساط پیدا کرتی ہیں ، اُنھوں نے شخصیت کے اُن مضحک پہلوؤں کو خاص ادبی رکھ رکھاؤ کے ساتھ خاکے کا حصہ بنایا ہے ۔ خاکہ نگار بذاتِ خود لطافت و شگفتگی اور شوخی کو زندگی کا نا گزیر حصہ تسلیم کرتا ہے یہی وجہ ہے کہ اِن خاکوں میں بے تکلفی اور رونق نظر آتی ہے ۔ کردار نگاری کا کمال یہ ہے کہ قاری دورانِ مطالعہ ہر کردار کے ساتھ اُنس و محبت اور دوستی کا رشتہ استوار کر لیتا ہے۔
حیدر قریشی کی خا کہ نگاری پر بات کر نے سے پہلے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ان کی کتاب ’’میر ی محبتیں‘‘ پر ایک تحقیقی نظر ڈال لی جا ئے۔اس کتاب کے اب تک دو ایڈیشن آچکے ہیں ۔ پہلا ایڈیشن نایاب پبلی کیشنز ، خانپور نے ۱۹۹۴ء میں شائع کیا ، دوسرا ایڈیشن معیار پبلی کیشنز ، دہلی نے ۱۹۹۸ء میں شائع کیا تھا۔ اب یہ مجموعہ بغیر کس تبدیلی کے حیدر قریشی کے کلیات ( عمر لا حاصل کا حاصل )میں شامل کر دیا گیا ہے۔ اس کلیات میں پانچ شعری اور چھے نثری مجموعے شامل ہیں جسے ایجو کیشنل پیلسنگ ہاؤس ، دہلی نے ۲۰۰۹ء زیور طباعت سے آراستہ کیا تھا۔اس تعارف کے بعد اب اُن کے خاکوں پر موضوعاتی حوالے سے تفصیلی بحث کی جا ئے گی۔
(۱) ماضی پر ستی
حیدر قریشی کے خاکوں میں ماضی پر ستی کا رحجان غالب ہے ، خصو صاََ کتاب کے پہلے حصہ میں ماضی کی یادیں سلسلہ در سلسلہ پھیلی نظر آتی ہیں۔ وہ اپنے ممد وحین کے خا کوں میں اپنا بچپن ، لڑ کپن اور جوانی کی یادیں تازہ کرتے ہیں’’ میر ی محبتیں‘‘ کا پہلا خا کہ ’’ برگد کا پیڑ‘‘ (جو والد بزرگ وار سے متعلق ہے) اس میں بھی وہ اپنی شوگر مل کی ملا زمت کو یاد کرتے ہیں جہاں اُنھوں نے زندگی کے اُنیس سال برباد کر دیے تھے۔ والدہ کے خاکے میں حیدر قریشی اس لوری کو یاد کر رہے ہیں جس کے بارے میں ان کا کہنا تھا:
’’ امی جی نے یہ لوری اپنے سارے بیٹوں میں سے صرف میر ے لیے گائی تھی ۔ ماں کی محبت اور دعاؤں سے بھر ی اس لوری نے مجھے پر وان چڑھا یا تھا۔‘‘ (۵۳)
ماموں پر لکھے ہوئے خاکے میں صرف اور صرف ما ضی کی یا دیں ہیں ۔ اپنے ماموں کی شخصیت ماضی کے دھند لکوں سے دریافت کر نے کی کوشش کی ہے۔ حید ر قریشی نے گزری یا دوں کی باز آ فرینی کے لیے اپنے خاکوں سے بھرپورمد د لی ہے۔
(۲) شخصی تجزیات
خا کہ نگاری میں با لعموم کسی شخصیت کے سطحی اوصاف کو اتنا بڑ ھا چڑھاکر بیان کر دیا جا تا ہے کہ اصل شخصیت نظر وں سے اوجھل ہو جاتی ہے۔ حید ر قریشی کے خاکوں میں یہ کمزوری نظر نہیں آتی ۔اُن کے خاکوں میں شخصیت کے عمیق تجزیات ملتے ہیں۔ وہ تہذیبی اور ثقافتی تناظر میں اصل شخصیت کے خدوخال نمایا ں کرتے ہیں ۔ مثلاََ اپنے والد صاحب کے حوالے سے وہ بتاتے ہیں:
(ا) ’’ ابا جی و ضع دار انسان تھے۔ روایات سے محبت رکھتے تھے ، مگر زمانے کے ارتقا کی سچائی کو مانتے تھے۔‘‘(۵۴)
(ب) ’’ اباجی کی زندگی پر نظر دوڑاتا ہوں تو مجھے اُن کے اند ر بیک وقت ایک دراوڑ ، ایک آریا اور ایک عرب بیٹھا نظر آتا ہے۔‘‘ (۵۵)
(ج) ’’ اندر کے آریا اور دراوڑ کی کشمکش سے بے نیاز ایک عرب درویش ہمیشہ اباجی کے اند ر موجود رہا یہ درویش خواب بین ، دعاگو اور صاحب ِکشف وکرامات تھا۔‘‘ (۵۶)
مندرجہ بالا جملے بظاہر ساد ہ کھا ئی دیتے ہیں لیکن اگر ان کی شرح کی جا ئے تو درجنوں صفحات کی ضرورت پڑے گی۔ دراوڑ لوگ ہندوستان کی سب سے پرانی اور قدیم نسل سے تعلق رکھتے تھے۔ یہ قدیم باشندے اپنے علاقے کی محبت میں ڈوبے ہو ئے تھے اور اِدھر اُدھر جانا پسند نہیں کرتے تھے۔ حید ر قریشی نے اپنے والد گرامی کو اس لیے دراوڑ کہا کہ وہ ہر شے سے بے نیاز ہو کر صرف اپنی ملازمت پر گزارہ کرتے تھے، رحیم یا رخان کے مسکن پر قناعت کرلی تھی اور اپنی قدیم بودوباش پر قائم رہے ۔
اپنے والد کو دراوڑ کہنے کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ حید ر قریشی کے گھر کا تما م انتظام والدہ کے ہاتھ میں تھا اور تمام اہم امور کی نگرانی بھی اُنہی کے سپر د تھی ۔ دراوڑی تہذیب میں بھی سربراہی کا تمام تراختیار عورت کے پاس تھا۔ رما شنکر ترپا ٹھی نے ڈاکٹر ایل ۔ ڈی بارونٹ کے حوالے سے لکھا ہے:
’’ دراوڑی سماج ایک حد تک ایسا سماجی نظام تھا جس میں عورت سرِقبیلہ ہوتی تھی۔ ‘‘( ۵۷)
حیدر قریشی نے اپنی والدہ محترمہ پر جو خاکہ تحر یر کیا اسے پڑھ کر بھی اندازہ ہوتا ہے کہ سرِ قبیلہ ‘‘ والی بات میں خاصی صداقت مو جود ہے۔ حید رقریشی نے بظاہر اس عمومی صفت کو گہر ے تہذیبی شعور کے تنا ظر میں سمجھنے کی کو شش کی ہے ۔
شخصی تجزیے کے حوالے سے ایک اور اہم مثال اکبر حمید ی کے خا کے میں دیکھی جا سکتی ہے:
’’اکبر حمید ی طبعاََ ایک سید ھے سادے ، سچے کھر ے ، اور صاف گو دیہاتی
ہیں ، اُنہیں ہیرا پھیر ی اور چالاکی نہیں آتی ۔ کھلی دوستی ، کھلی دشمنی لیکن شہر
کے بعض دوستوں اور مہربانوں کی مکاریوں اور ہیرا پھیر یوں کا شکار ہوتے ہوتے
آخر اُنہیں بھی تھو ڑی بہت ہیر ا پھیر ی اور چالاکی کرنا آگئی ہے ۔‘‘ (۵۸)
حیدر قریشی شخصیت کا تجز یہ کرنے کے دوران معروضی اور موضوعی دونوں پہلوؤں کو بروئے کار لاتے ہیں ان کے شخصی تجزیے متوازن ہوتے ہیں۔
(۳) نفسیاتی نکتے
حیدر قریشی اپنے کردارو ں کے باطن میں جھا نک کر بات کرتے ہیں ان کا خاکہ ’’ اُجلے دل والا‘‘ ( چھو ٹا بھائی) جس میں و ہ اپنے چھو ٹے بھائی طاہر کو پیش کررہے ہیں اس خاکے کے اختتا م پرفکری اور نفسی مطالعات کا عمیق مشاہدہ بھی موجو د ہے، انداز ملا حظہ ہو:
’’ عام طور پر تلخ حالات کا مقابلہ کرتے کرتے انسان کے لہجے میں کڑواہٹ آتی ہے۔ مزاج میں چڑ چڑ اپن پیدا ہو جا تا ہے۔ طاہر کا کمال یہ ہے کہ اس نے تلخ ترین حالات سے گزر کر بھی اپنے باطن کی مٹھا س قائم رکھی ہے اور اپنے لہجے میں مزید نر ماہٹ پیدا کر لی ہے۔ ‘‘(۵۹)
ڈاکٹر انور سدید انھی خوبیوں کو مد نظر رکھتے ہو ئے لکھتے ہیں:
’’ حیدر قریشی نے اپنے خون کے رشتوں کو ذرا فاصلے سے دیکھا اور اُن کی شخصیت کی وہ پر تیں ہمارے سامنے پیش کیں جن سے اُن کرداروں کی فطر ی ہمدردی ، محبت
اور اُخوت کی تعمیر ہوتی ہے۔ ‘‘ (۶۰)
(۴) خاکہ نگار کی اپنی شخصیت کا عکس
حیدر قریشی کے خاکوں میں اُن کی اپنی شخصیت کا عکس کسی نہ کسی حوالے سے ضرور اُبھر تا ہے اور قاری کو خوشگوارحیرت سے دوچار کرتا ہے ،طاہر مجید لکھتے ہیں:
’’ حیدر قریشی نے ہر خا کے میں اپنی ذات کے حوالے سے باتیں کی ہیں اس صورت میں قاری جہاں اُن خاکوں کے ذریعے ان شخصیات سے متعارف ہو تا ہے وہاں بالواسطہ خاکہ نگار کی شخصیت جا بجا جھا نکتی نظر آتی ہے۔ بلکہ ایک عام قاری بھی اس کے مختلف حیثیتوں کا اندازہ لگانے میں کا میاب ہو جاتا ہے۔ ‘‘ (۶۱)
اب ’’بلند قامت ادیب ‘‘( اکبر حمیدی) کا یہ اقتباس ملا حظہ ہو :
’’ اکبر حمید ی سے میر ی ملا قات اور تعلق کی نوعیت تھو ڑی پیچیدہ ہے
یہ پیچید گی میر ی اپنی پیدا کر دہ ہے ۔ جس میں اکبر حمیدی کے بنا ئی
ہو ئے یا دکھا تے ہوئے سید ھے راستے پر چلتا ہوں پھر اس رستے کو ،
سید ھے سادھے کو اُلجھا کر بھو ل بھلیاں سی بنا لیتا ہوں ، یوں میرے
لیے اچھی بھلی با معنی منز لیں بھی بے معنی ہو جاتی ہیں ۔‘‘ (۶۲)
اس طرح کی درجنوں مثا لیں ، ’’ میر ی محبتیں‘‘ میں موجود ہیں ۔اگر ان تمام مثالوں کو یکجا کر دیا جا ئے تو حید ر قریشی کی شخصیت پر ایک جامع خاکہ بآسانی مرتب کیا جاسکتا ہے۔
(۵) اَن دیکھی شخصیت کا خاکہ
خاکہ نگاری کی روایت میں اَن دیکھی شخصیات کا خاکہ لکھنے کا رواج بھی رہا ہے۔ سقراط ، سکند را عظم اور گوتم بدھ کے خاکے انگریزی کے علاوہ دوسری بڑی زبانوں میں موجود ہیں ۔ محمد طفیل نے’’ نقو ش ‘‘ کے شخصیات نمبر ‘‘ میں اَن دیکھی شخصیات کے چند خاکے شامل کیے ہیں۔ اُردو زبان کے معروف محقق رشید حسن خان نے ’’ فرہنگ آصفیہ ‘‘ کے مولف مولوی سید امجد دہلوی کا اَن دیکھا خاکہ لکھا ہے ۔ اس کی ابتدائی سطور ملا حظہ ہوں:
’’ اُردو کے مشہور لغت فرہنگ آصفیہ کے مولف مولوی سید احمد دہلوی کو میں نے دیکھا تو نہیں ، اور دیکھتا بھی کیسے ، وہ پیدا ہو ئے تھے ۱۸۴۶ء میں یعنی اب سے ایک سو انتالیس برس پہلے ، اور ۱۹۱۸ء میں اس دنیا سے چلے گئے۔‘‘ (۶۳)
حید ر قریشی نے اپنے دادا کا خاکہ ( ڈاچی والیا مو ڑ مہا روئے) تحر یر کیا جن سے وہ کبھی مل نہیں پائے تھے وہ لکھتے ہیں :
’’ میر ے دادا جی قیام پاکستان سے کئی برس پہلے فوت ہو گئے تھے۔ میں نے دادا جی کو نہیں دیکھا مگر اُن کے بارے میں اپنے دل میں ہمیشہ ایک انوکھی سی محبت محسو س کی ہے۔ ‘‘ ( ۶۴)
یہ اُس محبت کا کرشمہ تھا کہ اُنھوں نے اپنے والد گرامی سے معلومات جمع کرنے کے بعد اپنے دادا کے بارے میں ایک شخصی تصور قائم کیا اور بھر پور خاکہ لکھنے میں کامیابی حاصل کی ۔ دادا کا یہ کردار ایک پیرِ کامل کی صورت میں اُبھر تا ہے اور قاری کے دل پر گہرے نقوش ثبت کرتا ہے۔
(۶) مافوق الفطرت عناصر
حید رقریشی کی تخلیق نثر میں مافوق الفطر ت عناصر کی موجودگی کئی سوال اُٹھاتی ہے۔ آیا یہ سب کچھ اُن کے طبعی رحجانات کے بدولت وقوع پذیر ہوا؟ یا وہ زندگی کے عمومی واقعات میں غیر معمولی عناصر تلاش کرنے پر قادر ہیں ؟اُن کے پیش کردہ کچھ واقعات کا تعلق اہل خانہ سے جا ملتا ہے، مثلاََ اپنے دادا جی ایک واقعہ وہ اِن الفاظ میں بیان کرتے ہیں:
’’ دادا جی معمولی سابیمار ہوئے اور فوت ہو گئے گھر میں رونا پیٹنا مچ گیا۔ سارے عزیز واقارب جمع ہوگئے ۔ دادا جی کو غسل دے دیا گیا تو اُٹھ کر بیٹھ گئے وفات کی خبر سن کر آئے ہو ئے سارے لوگ خوفزدہ ہوگئے۔ کچھ چیختے چلا تے گھر سے نکل بھا گے ، ایک دو عزیز دہشت سے بے ہوش ہو گئے ۔ ابا جی کو ’’ شادی مرگ ‘‘ کا مطلب پور ی طرح سمجھ میں آگیا۔ ‘‘ (۶۵)
اس طرح کا ایک غیر معمولی واقعہ ’’ رانجھے کے ماموں‘‘ ( ماموں ناصر) میں دیکھا جاسکتا ہے۔ ماموں ناصر کا ایک مادہ سانپ سے ایسا پالا پڑا کہ وہ ہر سال آکر ان کے پاؤں سونگھ کر چلی جاتی جس کی وجہ سے ان کا پاؤں صبح تک ایسا ہو جا تا ہے جیسے کس نے پاؤں کی کھا ل اُتار دی ہو۔ کچھ عرصے کے بعد ماموں ناصر کے شاگردوں نے اس ناگن کا خاتمہ کردیا اور اُن کی مصیبت ختم ہوگئی۔ جہاں تک بزرگوں کے خاکوں میں مافوق الفطرت عناصر کی موجود گی کا مسئلہ ہے تو اس پر تجزیاتی رائے دنیا ذرا مشکل ہے کیونکہ روحانی دنیا کے معاملا ت پر رائے زنی خالی از خطر نیست ، البتہ منشا یاد نے یہ کہہ کر ہمارے لیے بھی آسانی پیدا کردی ہے:
’’ حید ر قریشی اپنے بزرگوں کی کسی بات کو جھٹلا تے یا رد تو نہیں کرتے مگر صورتِ حال پہ مختصر ساتبصرہ کر دیتے ہیں جس سے ان کی سوچ اور موقف کا پوری طرح اندازہ ہوجاتا ہے۔ ‘‘ (۶۶)
(۷) شگفتہ مزاجی
حید ر قریشی نے جو خاکے اپنے اہلِ خانہ کے حوالے سے تحر یر کیے ان میں طنز و مزاح کا خاصا اہتمام نظر آتا ہے جبکہ ادیبوں پر لکھے گئے خاکوں میں یہ عنصر نہ ہو نے کے برابر ہے۔ قریبی رشتے داروں کے خاکوں میں اُنھوں نے طنزومزاح کا کوئی موقع ضائع نہیں ہونے دیا۔ اُن کا ایک خاکہ ’’ پسلی کی ٹیڑھ‘‘( اپنی زوجہ مبارکہ پر لکھا ہواخاکہ) کا آغاز ان شگفتہ جملوں سے ہوتا ہے:
’’ بیو ی ․․․․․بالخصو ص زندہ بیوی کا خا کہ لکھنا اپنی خیریت کو داؤ پر لگا نے اور شیر بلکہ شیرنی کے منہ میں ہاتھ ڈالنے کے مترادف ہے ۔ ‘‘ ( ۶۷)
دادا جی کی فیا ضی اور سخاوت کا ذکر کرتے ہوئے وہ بتا تے ہیں کہ ان کے دروازے سے کوئی سائل خالی ہاتھ واپس نہ جاتا تھابلکہ ایک دفعہ جب کوئی سائل آیا تو دادا جی کے پاس اور تو کچھ دینے کے لئے موجو د نہ تھا لہٰذا اپنی قیمض اُتار کر بھکاری کے حوالے کردی ،حید ر قریشی لکھتے ہیں:
’’ خد اکا شکر ہے کہ اس کے فورا بعد کوئی اور سائل نہیں آگیا کیونکہ اس وقت
دادا جی کے جسم پر صرف ایک چادر تھی جو انہوں نے نیچے باندھی ہوئی تھی اور
یہ تو طے ہے کہ انہوں نے سائل کو بہر حال خا لی ہاتھ نہیں جانے دینا تھا ۔‘‘ ( ۶۸)
حیدر قریشی کا ایک اور خاکہ’’ مظلوم تشدد ‘‘ جو اُنھوں نے اپنے نانا پر لکھا ہے اس میں بھی شگفتہ اُسلوب اور طنز و مزاح کے عناصر بھر ے پڑے ہیں ۔ ترنم ریاض لکھتی ہیں:
’’ میری محبتیں‘‘ تو کمال کی کتاب ہے سید ھی ، سنجید ہ باتیں لکھتے ہو ئے آپ جو ہلکا سا مزاحیہ رنگ دے کر جملہ مکمل کرتے ہیں تو ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے قہوہ پیتے پیتے الائچی کاکوئی دانہ دانت تلے آکر ذہن و دہن کو خوشبو سے معطر کر جائے۔ ‘‘ ( ۶۹)
خاور اعجاز رقم طر از ہیں:
’’ حیدر قریشی کی یہ تحر یر یں محبت کی چاشنی میں ڈوبی ہوتی ہیں۔ کہیں کہیں ہلکا ساطنز یا مزاح کا پہلو لے ہو ئے کوئی چبھتی ہوئی بات بھی محبت ہی کا ایک اظہار ہے۔ ‘‘(۷۰)
حیدر قریشی کے طنزو مزاح میں گراوٹ کا احسا س نہیں ہو تا ۔ وہ شگفتگی اور بذلہ سنجی کی اخلاقی حدوو وقیو د کے قائل ہیں اور غیر رسمی اُسلوب میں بھی احتیاط کا دامن ہاتھ سے نہیں چھو ڑتے۔
(۸) حیدر قریشی کی تحریروں میں زوجہ مبارکہ کا ذکر
حیدر قریشی کی تحریریں ہمہ جہت حیثیت رکھتی ہیں ان میں جہاں تحقیقی و تنقید کے محاکمے قاری کو دعوت ِ فکر دیتے ہیں وہاں تخلیقی رنگ و آہنگ بھی اپنا جادو جگاتا نظر آتا ہے۔اُن کی تخلیقی سرگرمیوں کا دائرہ خاصا وسیع ہے جس پر پاک و ہند کے علاوہ دیگر یورپی ممالک کے ادبا نے دل کھول کر داد دی ہے۔قریشی صاحب نے اپنی تخلیقی نثر میں جہاں متنوع موضوعات پر خامہ فرسائی کی وہاں اہل خانہ کو بھی خاص اہمیت دی ہے یہی وجہ ہے کہ اُن کی ادبی کہکشاں میں ہر رنگ کا ستارہ جھلملا رہا ہے۔زیر نظر حصے میں صرف اُن تحریروں کی طرف توجہ دلانا مقصود ہے جن کا تعلق اُن کی اہلیہ(مبارکہ) کے ساتھ ہے۔اس حوالے سے اُن کی نمائندہ تحریر وہ خاکہ ہے جو اُنھوں نے ایک خاص کیفیت میں ڈوب کر لکھا ہے۔اُردو ادب میں خاکہ نگاری کی روایت اور ذخیرے پر نظر کی جائے تو علم ہوتا کہ لکھنے والوں نے تقریباً ہر قسم کی شخصیت پر قلم برداشتہ لکھا ہے لیکن ایسا بہت کم ہوا ہے کہ کسی ادیب نے اپنی بیوی پر خاکہ لکھ کر محبت کا ثبوت فراہم کیا ہو۔ حیدر قریشی کا تخلیقی قلم جہاں تمام اہل خانہ کے ذکر پر روانی اور جولانی کا مظاہرہ کرتا ہے وہاں اہلیہ کا ذکر ِ خیر بھی فراخ دلی سے صفحہ ء قرطاس کی زینت بنتا ہے۔اس موضوع میں اُن کی خاص دل چسپی نظر آتی ہے،یہی وجہ ہے کہ نظم و نثر کی اہم اصناف میں وہ اپنے دل پسند موضوع کو حد درجہ سلیقے اور قرینے سے نبھاتے ہیں۔اس دل چسپ اور شگفتہ خاکے کا آغاز ایک حسب ِ روایت طبع زاد شعر سے ہوتا ہے:
پھول تھا وہ تو میں خوشبو بن کے اس میں جذب تھا
وہ بنا خوشبو تو میں باد ِ صبا ہوتا گیا
حیدر قریشی نے خاکے کا عنوان بھی بہت منفرد رکھا ہے۔۔۔۔’’پسلی کی ٹیڑھ‘‘ (مبارکہ) ۔خاکے کی ابتدائی سطور قاری کی توجہ اپنی طرف کھینچ لیتی ہیں۔انداز ملاحظہ ہو:
’’ بیوی۔۔ بالخصوص زندہ بیوی کا خاکہ لکھنا اپنی خیریت کو داؤ پر لگانی
اور شیر بلکہ شیرنی کے منہ میں ہاتھ ڈالنے کے مترادف ہے۔بہر حال میں
اقرار کرتا ہوں کہ جو کچھ لکھوں گا سچ سچ لکھوں گا۔۔سچ کے سوا کچھ نہ لکھوں
گا۔( کلیات:ص ۳۱۱)
’’پسلی کی ٹیڑھ‘‘ میں خاکہ نگاری کے ممکنہ اہم نکات اور وسائل یکجا صورت میں ملتے ہیں۔ بچپن کا تذکرہ نہایت میٹھے انداز میں سامنے آتا ہے اور قاری کو پتا چلتا ہے کہ حیدر قریشی نے بچپن کی معصومیت میں ماموں کی بیٹی سے شادی کرنے کی جس خواہش کا اظہار کیا تھا وہ بالآخر پوری ہو گئی تھی۔وہ خود بھی کہتے ہیں:
’’ پچپن میں غیر شعوری اور غیر ارادی طور پر کہی ہوئی مذاق کی ایک بات اتنی سنجیدگی
ا ختیار کر گئی کہ اب سارا مذاق وجدانی معلوم ہوتا ہے۔‘‘ ( کلیات:ص ۳۱۱)
یہ خاکہ اپنایت اور محبت کی ملی جلی کیفیات کا عکاس ہے،اور اگر اسے ’’ میری محبتیں‘‘ کا کلیدی او ر نمائندہ خاکہ کہا جائے تو مبالغہ نہ ہو گا۔ اُردو ادب میں ایسے خاکے کم ملتے ہیں جس میں اپنی اہلیہ کو اتنے ادبی رکھ رکھاؤ کے ساتھ پیش کیا گیا ہو۔ ہمارے ہاں بیویوں کا تمسخر اُڑانا عام سی بات اور اگر کبھی تعریف بھی کرنا پڑ جائے تو اُس میں سے بھی ایسے پہلو لازماً تلاش کرلیتے ہیں ہیں جس میں طنز پوشیدہ ہوتا ہے۔حیدر قرشی کے ہاں یہ رویہ کسی سطح پر نہیں پایا جاتا۔ اس کے بر عکس توازن اور شائستگی نظر آتی ہے۔یہ توازن اوصاف نگاری کے دوارن بھی برقرار رہتا ہے۔چند مثالیں دیکھئے:
’’ مبارکہ صاف دل اور صاف گو عورت ہے۔محبتی بیوی اور بے تکلف ماں ہے۔
ماں ولی دھونس نہیں جماتی البتہ دوستانہ دھونس ضرور جماتی ہے۔ ‘‘ ( کلیات:ص ۳۱۳)
حیدر قرشی کو جہاں اپنی کوتاہی کا اعتراف کرنا ہوتا ہے وہ بھی برملا کر دیتے ہیں۔
’’ میں اپنی فکری آزادہ روی کے باعث مبارکہ کے لیے بہت تکلیف کا سامان
کر بیٹھا۔‘‘ ( کلیات:ص ۳۱۳)
اس ادبی خاکے میں ہر طرح کے رنگ موجود ہیں۔کہیں ممدوح کی شخصیت نمایاں کرنے کی خاطر گہرے شوخ رنگ برتے گئے ہیں اور کہیں کہیں ہلکے رنگ شخصیت کی پر تیں کھولتے چلے جاتے ہیں۔خاکہ نگار نے بے جا لفاظی اور طوالت سے اپنا دامن بچایا ہے۔مختصر اشارے کنائے اس تحریر کا خاص حسن ہے جس کی وجہ سے شخصیت کا ناک نقشہ اور عادات و اطوار کا بیانیہ فطری اُسلوب متاثر کرتا ہے۔حیدر قریشی جانتے ہیں کہ خاکہ نگاری ایک ایسی ظالم صنف ہے جس میں ایجاز و اختصار کا جادو اپنا اثر ضرور دیکھاتا ہے۔
حیدر قرشی نے زوجہ مبارکہ کا ذکر جہاں بھی کیا کما ل محبت اور لگاؤ سے کیا ہے،’’کھٹی میٹھی یادیں‘‘ کا آخری حصہ جہاں تمام اہم احباب کا تذکرہ روانی سے آگے بڑھتا ہے وہاں ایک بار پھر بہانے بہانے سے اہلیہ کی باتیں ہونے لگتی ہیں۔ان باتوں میں مبارکہ کی بیماری کا احوال سامنے آتا ہے اور دو طرفہ محبت اور احترام کی کیفیات بھی لہریں مارتی نظر آتی ہیں۔حیدر قریشی نے جب اپنا کلیات ’’ عمر لاحاصل کا حاصل‘‘ مرتب کیا تو اس کا انتساب لکھتے ہوئے ایک بار پھر’’ اظہار ِ تشکر‘‘ کا آغاز اپنی اہلیہ سے کیا ہے:
’’ اپنی اہلیہ مبارکہ کا شکریہ جس نے مجھے میری ساری خامیوں سمیت نہ صرف قبول کر رکھا ہی
بلکہ مجھے ادبی کاموں میں ہر طرح کی سہولت بھی فراہم کرتی رہتی ہے۔‘‘
یہ محبت کی کہانی مزید آگے بڑھتی ہے اور ’’ محبت کے پھول‘‘ میں ایک پھول ادائے خاص سے مبارکہ کو نذر کرتے ہیں:
اک روح کا قصہ ہے
میرے بدن ہی کا
جو گم شدہ حصہ ہے ( ( کلیات:ص۱۳۹)
ایک عام قاری کو بھی اندازہ ہو جاتا ہے کہ حیدر قریشی کا رویہ اپنی اہلیہ کی جانب حد درجہ ہمدردانہ اورمشفقانہ ہے۔اس حوالے سے ان کی ہر تحریر دردمندی اور احسان مندی کی کیفیت میں ڈوبی نظر آتی ہے۔حق سچ کی بات تو یہ ہے کہ بیوی کے حوالے سے یہ عمومی رویہ نہیں ہے۔ یہ ایسا خاص الخاص رویہ ہے جو ہر کسی کو ارزانی نہیں ہو سکتا،اور کہیں نظر آ جائے تو حیرت ضرور ہوتی ہے۔اس نوع کی کیفیات کا صرف وہی شخص مکلف ہو سکتا ہے جو ذہنی آسودگی سے مالا مال ہو اپنی شریک ِ حیات کو زندگی کی مسرتوں اور ازلی خوشیوں کا محرک ِ اول مانتا ہو۔حیدر قریشی کے فکری نظام میں اہلیہ کی علامت خوش بختی اور بے لوث محبت کا بلیغ اشاریہ ہے،اُنھوں نے اپنی تحریروں سے یہ ثابت کر دکھایا ہے کہ ہر کامیاب مرد کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے اور یہ عورت بیوی بھی ہو سکتی ہے۔حیدر قریشی کے اس خوب صورت ماہیے کے ساتھ بات تمام کرتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔
اظہار ضروری ہے
پیار اگر ہوتو
اقرار ضروری ہے(کلیات)
٭ فنی اور اُسلوبیاتی مطالعہ
حیدر قریشی کے خاکے پڑھ کر کہیں بھی یہ تاثر نہیں اُبھر تا کہ انھوں نے کسی شخصیت کی پیش کش میں مدلل مداحی سے کام لیا ہے۔ وہ شخصیت کے ظاہر وباطن کو دیکھنے اور دکھانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ شخصیت کے ممکنہ اہم اوصاف کو منکشف کرنا ہی ان کا صل کمال ہے۔ یہ اُن کا اُسلوبِ بیان ہے کہ شخصیت کی تازگی اور حرارت پڑھنے والوں کو متاثر کرتی ہے۔
منشا یاد اس ضمن میں بتاتے ہیں:
’’ حیدر قریشی نے سچ کا دامن کہیں نہیں چھو ڑا یہی وجہ ہے کہ ا ن کی تحر یر میں متاثر کرنے کی قوت ہے ان کا خوبصورت انداز تحر یر اسے اور بھی دل نشین بنا دیتا ہے۔(۷۱) ‘‘
حیدر قریشی نے جو خاکے اہل خانہ کی نسبت سے تحر یر کیے اس میں کہیں غیر ضروری محبت اور لگاؤ کا عنصر نظر نہیں آتا بلکہ ادب کے معروض پیمانوں کو ہر وقت سامنے رکھ کر خاکے لکھے ہیں ۔ڈاکٹر انور سدید نے درست لکھا ہے :
’ ’حیدر قریشی نے اپنے خون کے رشتوں کو ذرا فاصلے سے دیکھا اور ان کی شخصیت کی وہ پر تیں ہمارے سامنے پیش کیں جن سے اُن کرداروں کی فطری ہمدردی ، محبت اور اُخوت کی تعمیر ہو تی ہے۔‘‘(۷۲)
خا کہ نگاری توازن کا فن ہے اگر یہ توازن برقرار نہ رہے تو صاحب خاکہ کی شخصیت اُبھر نے کے بجائے مسخ ہو جا تی ہے۔حید ر قریشی شخصیت کی پر کھ کے لیے معروضی اور مو ضوعی دونوں زاویوں کو اہمیت دیتے ہیں وہ بذات خود باغ وبہار طبیعت کے مالک ہیں اور اپنی عملی زندگی میں خلوص ، محبت اپنائیت اور دوستی کو خاص اہمیت دیتے ہیں ، یہی تمام اوصاف ان کے خاکوں میں جگہ بناتے نظر آتے ہیں۔ حیدر قریشی کے اُسلوبیاتی محاسن پر بات کرنے سے پہلے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ایک نظر اُسلوب کی تعریف پر ڈال لی جا ئے، ریاض احمد کے نزدیک:
’’ اُسلوب تحر یر کی اس صفت کا نام ہے جو ابلا غِ محض کی بجا ئے اظہار سے مختص ہے۔ ابلاغ حقائق کی پیش کش کانام ہے۔ اظہار اس کے مقابلے میں حقائق کے شخصی ، ذاتی یاانفرادی تاثر کو پیش کرنے کا نام ہے۔ ابلا غ موضوع کی منطق تک محدود رہتا ہے اور اظہار پوری شخصیت کااحاطہ کر تا ہے۔‘‘(۷۳)
اُسلوب کی بحث میں مندرجہ فوق تما م نکا ت کی اہمیت اپنی جگہ اہم ہے لیکن نئی اور تازہ فکر کے ساتھ فکرو نظر کی گہر ائی بھی منفرد اُسلوب کے بنیاد ی اوصاف ہیں ۔ ان تمام تنا ظرات کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے حیدر قریشی کے اُسلوبیاتی محاسن پر بات کی جا ئے گی ۔
(۱) شاعرانہ تخیل اور انداز بیان
حیدر قریشی کے خاکے پڑھ کر اُن کے ذاتی علم و مشاہد ے کے رنگ وآہنگ کی آخری حد و د کا احساس ہو تا ہے ۔ ان کا اُسلوب نگارش موضو ع اور شخصیت کے مطابق نئے نئے رنگوں میں ڈھل کر اظہار و ابلاغ کے تقاضے پور ا کرتا ہے ۔ کئی مقامات پراُن کے باطن میں موجود شاعر نثری تحریروں میں بھی جھلک دکھا جاتا ہے ۔ حیدر قریشی کا شاعرانہ انداز بیان ان کے نرم لہجے کی نغمگی اور محبت کو ظاہر کرتا ہے یہ مثال ملا حظہ ہو ۔
’’ ا می جی کی گائی ہوئی لوری کا ایک ایک لفظ الٹ ہوگیا ہے ۔ ان کی اکھیوں کے تارے کی اپنی قسمت کا ستارہ ہی کہیں گم ہو گیا ہے۔ امی کے باغ کا البیلا پھو ل وقت کے صحرا میں خود دھو ل ہو رہا ہے جس کے مکھڑے کے آگے چاندنی میلی لگتی تھی اس کا رنگ روپ بگڑ چکا ہے۔ حالات ، تپتا ، دہکتا سور ج سواتیزے کے فاصلے پر آن کھڑ ا ہے۔ ‘‘(۷۴)
یہ اقتباس ’’ مائے نی میں کینوں آکھاں‘‘( امی جی ) سے لیا گیا ہے۔ حیدر قریشی نے اس خاکے میں کئی اور مقامات پر بھی والدہ کی محبت کا ذکر کرنے کے دوران شاعرانہ طرز نگارش اختیار کیا ہے۔ اس کے علاوہ دوستوں اور اہل خانہ کے دیگر خاکوں میں بھی یہ اُسلوب بآسانی مشاہد ہ کیا جاسکتا ہے ۔
(۲)حقیقت نگاری
ڈاکٹر سیلم اختر کی پیش کردہ تعریف کے مطابق:
’’ ادب میں فطرت ، افراد ، ماحول اور وقوعات کی تما م تر جزئیات سمیت درست ترین تصور کشی کو حقیقت نگاری قرار دیا جاسکتا ہے۔ ‘‘ (۷۵)
خاکہ نگاری میں شخصیت کی تصویر کشی کے دوران تخیل کی آمیز ش ہو جاتی ہے لیکن حیدر قریشی نے اپنے ممد و حین کے حوالے سے ایسی کوئی بات نہیں لکھی جسے خلافِ واقعہ کہاجاسکتا ہو۔ وہ شخصی زاویہء نظر بیان کرنے کے ساتھ ساتھ حقائق کا کھلم کھلا اظہار بھی کردیتے ہیں فیض احمد فیضؔ کے بارے میں یہ جملے ملا حظہ ہوں :
’’ فیض ؔ کم گوانسا ن تھے ، کہتے ہیں کہ کم گو لوگ یا بہت چالاک ہوتے ہیں یا بہت بے وقوف ، فیضؔ یقینا ہو شیار آدمی تھے فیضؔ بہت اچھے انسان تھے لیکن فرشتہ نہیں تھے۔ ‘‘(۷۶)
جاوید خان ( جر منی) لکھتے ہیں:
’’ جو بے ساختگی اور سچائی میں نے آپ کی تحر یر میں پائی ہے بہت کم لوگوں کے ہاں ملتی ہے۔‘‘(۷۷)
حیدر قریشی نے اپنے اُسلوب میں حقیقت نگاری کا عنصر شامل کر کے اپنی تحر یروں کو مو ثر بنا یا ہے ان کا فطری اُسلوب نگارش شیریں انداز سے حقائق منکشف کرتا ہے۔
(۳) خیال افروزی
خیال افروزی کا شمار اُسلوب کی تخیلی صفات میں ہوتا ہے ’’ میر ی محبتیں‘‘ میں تفکر اور خیال افروزی کی صفات تحر یر کے حسن میں نکھار پیدا کرتی ہیں ۔ کئی جملے تو ایسے مل جاتے ہیں جو اپنے سیاق وسباق سے ہٹ کر بھی دعوت فکر دیتے ہیں ۔
۱۔ ’’ میر ا خیال ہے انسان کی مظلو میت بجائے خود ایک طرح کا مقام والایت ہے۔ ‘‘(۷۸)
۲۔ ’’ ایک عذاب غربت کی وہ سطح ہے جو انسان کو د نیا کے جھو ٹے خداؤں کے سامنے محتاجی کی ذلت کی حدتک گرا دے۔ دوسرا عذاب تکبر کی لعنت ہے۔ ایسا تکبر جو ناحق دوسروں کو ذلیل کرائے ‘‘( ۷۹)
ان مثالوں میں فکر ی اکائیوں کو الفاظ و معانی کی کلاسیکی دروبست کی بدولت پر اثر بنایا گیا ہے۔حیدر قریشی کے خاکوں میں خیال افروزی کا توازن متاثر کن ہے۔
(۴) اشعار کا استعمال
حید ر قریشی نے جس طرح اپنے تمام افسانوں کا آغاز طبع زاد اشعار کے ساتھ کیا ہے بالکل اسی انداز سے خاکوں کا آغاز بھی اپنے شعروں سے کر کے قاری کو دعوت فکر دی ہے کہ وہ متعلقہ شعر کی روشنی میں شخصیت کے باطن میں اتر نے کا خود تجربہ کرے ؛ مثلا فیض احمد فیضؔ کے ساتھ ان کی محض چند گنی چنی ملا قاتیں تھیں اور کچھ خطوط کا تبا دلہ ہوا تھا ، فیض ؔکے خا کے کا آغاز اس شعر سے ہوتا ہے:
چند لمحے وہ ان سے ملاقات کے
میری سانوں میں برسوں مہکتے رہے ( کلیات : ص ۳۳۱)
میرزا ادیب پر یہ شعر خاموش محبت کو ظاہر کرتا ہے:
خاموشیوں کے لب پہ کوئی گیت تھا رواں
گہر ی اداسیوں کے کنول جھو متے رہے (کلیا ت : ص ۳۲۸)
اپنی والدہ محترمہ پر جو خاکہ لکھا اُس پر یہ معنی خیز شعر سجایا ہے:
ماں ! ترے بعد سے سورج ہے سوانیز ے پر
بس تیر ی ممتا کا ایک سایہ بچاتا ہے مجھے ( کلیات : ص ۲۸۱)
ان اشعار میں ان کہی باتوں کو سلیقے سے پیش کردیا گیا ہے۔ حیدر قریشی کے یہ شعری وسائل شخصیت کے اُن گوشوں پر روشنی ڈالتے ہیں جن کا اظہار شاید نثر میں ممکن نہیں تھا۔
(۵) طنز کا استعمال
حیدر قرشی کے خاکوں میں بعض مقامات پر طنز کی کاٹ خاصی گہری ہو جاتی ہے اُن کے یہ طنزیہ انداز زیادہ تروہاں دیکھنے میں آتے ہیں جہاں ادبی گروہ بندی یا منافقت کو سامنے لانا مقصود ہو۔اُن کے طنز میں تلخی موجود ہوتی ہے جو اس امر کو واضح کرتی ہے کہ اُنھوں نے نہایت دکھ کی حالت میں ایسا طنز لکھا ہے۔
اکبر حمیدی کے خاکے’’ بلند قامت ادیب‘‘ کا یہ اقتباس ملاحظہ ہو:
’’مولوی عبد الحق سے محمد طفیل تک خاکہ نگاری کا ایک دور رہا ہے۔پھر یہ صنف ادیب نُما صحافیوں کے ہتھے چڑھ گئی،اُنھوں نے شخصیت کی خاک اڑانے کو ہی خاکہ نگاری سمجھ لیا اور کشتوں کے پشتے لگا دیئے‘‘ (کلیات: ص۳۴۵)
حیدر قریشی کی کتاب (میری محبتیں)سے طنز کی بیسیوں مثالیں نقل کی جاسکتی ہیں لیکن بخوف ِ طوالت اُ ن سے گریز کیا گیا ہے۔خاکہ نگاری کا میدان اُسلوبیاتی حوالے سے وسعت کا حامل ہوتا ہے اور اس میں طنز ومزاح کا تال میل اچھا لگتا ہے لیکن انشائیے کی طرح اس صنف میں بھی طنزیہ اسالیب کا غیر ضروری استعمال ممنوع ہے،اگر بات شائستگی کے دائرے میں رہ کر کی جائے تو اُس کا اثر زیادہ ہوتا ہے۔