حیدر قریشی کی غزل…… فکری موضوعات کا مطالعہ
حیدرقریشی کے بارے میں ڈاکٹر انور سدید دو اہم نکات کی جانب ہماری توجہ مبذول کراتے ہیں:
’’ حیدر قرشی کی غزل نے بیسویں صدی کے ربع آخر میں آنکھ کھولی اس لیے آوازوں کے جنگل میں کھو جانے کی بجائے اُس نے جنگل کے درختوں کی گھنی چھاؤں سے آسودگی حاصل کرنے کی آرزو کی ہے۔۔۔حیدر قریشی اپنے عصر کی حسیّت سے بھی واقف ہے۔‘‘ (۱)
ڈاکٹر انور سدید کا یہ اقتباس بالواسطہ یا بلا واسطہ حیدر کے فکری پہلوؤں کی طرف اشارہ کرتا ہے اور اُن کی انفرادی اور اجتہادی آواز کی تو ثیق بھی کررہا ہے۔یہ آواز فکرو نظر کے زیر اثر ہے اور عصری تغیرات سے پوری طرح باخبر ہے۔افکارو خیالات کی یہی لہریں اُن کی غزل کا معنوی دائرہ کشادہ کرتی ہیں۔حیدر قریشی کی اسی فکری آگہی کو مختلف عنوانات کے تحت سمجھنے کی ایک کوشش کی جارہی ہے۔
(۱) سماجی شعور
حیدر قریشی کی غزل میں سماجی اقدار و تغیرات اور عصریت پر بصیرت افروز اشعار پڑھنے کو ملتے ہیں۔ایک سچے اور کھرے شاعر کی طرح اُنھوں نے زندگی کی صداقتوں کو شعری پیکروں میں ڈھال کر پیش کیا ہے۔یہ باطنی تخلیقی تجربے کا کرشمہ ہے کہ اُن کی غزل زندگی سے ماورا معلوم نہیں ہوتی اور دورانِ مطالعہ قاری کو بھی یہ احساس رہتا ہے کہ ان غزلوں کا شاعر اسی دنیائے خوب و زشت کا باسی ہے۔انسانی رشتوں کی اصلیت پریہ شعر ملاحظہ ہو:
سارے رشتے جھوٹے ہیں،سارے تعلق پُر فریب
پھر بھی سب قائم رہیں یہ بد دعا کر آئے ہیں (۲)
سماجی رویے کیا ایک اور مثال:
کئی خوش نظر سے گماں لیے،گئے ہم بھی کاسۂ جاں لیے
پڑا واسطہ تو پتہ چلا وہ سخی بھی کتنا بخیل ہے (۳)
حیدر قر یشی باطل قوتوں سے ٹکرانے کا حوصلہ بھی رکھتے ہیں:
مجھے معلوم ہے سلطان جابر کیا کرے گا
مگر میں کلمہء حق ہوں ، بیاں ہونے لگاہوں (۴)
اسی موضوع پر ایک اور شعر :
ابھی تو زور ہی ٹو ٹا ہے جابروں کا ،ابھی
نظام ِ جبر کا پورا زوال باقی ہے (۵)
ہر دے بھانوپرتا پ لکھتے ہیں۔
’’ حیدر قریشی کی شاعر ی فکر و فلسفے سے معمور ہے ۔وہ
صر ف حسینوں کی قصیدہ خوانی نہیں کرتے پھر تے بلکہ وہ اس سما ج کو اپنی زندگی سے جوڑ کر دیکھتے ہیں ۔اپنی زندگی سے حاصل ایک ایک تجر بے کو وہ اپنی شاعری میں بہت ہی فلسفیانہ انداز میں پیش کرتے ہیں۔‘‘ (۶)
سماجی اقدار کی شکست وریخت ، نئے نئے معاشرتی مسائل اور بحران زدہ معاشرے کے حوالے سے درج ذیل اشعار کا مطالعہ ناگزیر ہے:
حکم رہا ئی اس کے لیے مو ت ہی نہ ہو
بہتر ہے پہلے پو چھ لو اپنے اسیر ہے ( ۷)
اَنمو ل رتن بننے سے بے مول ہی اچھے
سر جبر کی سرکا ر کے در پر نہیں رکھا (۸)
پھر اہل جو ر کے حق میں فقیہ شہر کے صد قے
حدیث ِجبر کی کوئی نئی تاویل ہونا ہے (۹)
حیدر قریشی کے یہ اشعار جس جدا گانہ فکری منطقے کی تشکیل کر تے نظر آتے ہیں اس میں اُن کا تخلیقی شعور اور فنی گرفت بھی ہمراہ ہے۔اِن کی غزل میں سماجیات کا ایک واضح نظام موجود ہے جس میں اخلاقی پسماندگی،تعصب اورنفرت کے مختلف پہلوؤں کی مذمت کی گئی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ زندگی کے مثبت رویوں پر بھی اظہار ِ خیال ملتا ہے۔
(۲) محبت کا جذ بہ اور رویہ
حید ر قریشی کی غزلوں میں محبت کے اعلیٰ جذبوں اور رویوں کی تجسیم ملتی ہے، ڈاکٹر وزیر آغا لکھتے ہیں:
’’ حیدر قریشی کی غزل میں محبت کا تجربہ اپنے سارے کرب کے ساتھ سامنے آیا ہے مگر پھر بھی اس نے اپنے اس تجر بے پر معروضی نظر بھی ڈالی ہے جہاں تک اس کے ہاں محبت کے تجر بے کا تعلق ہے تو اس کا ذائقہ افلا طونی نہیں بلکہ زمینی اور جسمانی ہے۔‘‘ (۱۰)
ٰحیدر قریشی کے پہلے شعری مجمو عے ’’ سلگتے خواب‘‘ کی غزل کا مطلع اور مقطع ملا حظہ ہو ۔
کسی بھی لفظ کا جادو اثر نہیں کرتا
وہ اپنے دل کی مجھے بھی خبر نہیں کرتا
عجیب طور طریقے ہیں اس کے بھی حیدرؔ
وہ مجھ سے پیا ر تو کرتا ہے ،پر نہیں کرتا (۱۱)
مندرجہ فوق اشعارمیں قلبی واردات کو نہایت عمدگی کے ساتھ شعری تجر بے کا حصہ بنادیا گیا ہے۔ یہ تخلیقی تجربہ جیتی جاگتی زندگی کا عکاس بن گیا ہے۔ اسی نو ع کے رنگا رنگ تجر بات دیگر شعروں میں بھی دیکھے جا سکتے ہیں:
بس ترے بعد تر ے غم سے محبت رکھی
سینکڑوں خوشیا ں اگرچہ مری گروید تھیں (۱۲)
دکھ تو بے شک بہت ہوا لیکن
اس کی چاہت تو آزمالی ہے (۱۳)
ان اشعار کو پڑ ھ کر انداز ہ لگا نا مشکل نہیں کہ یہاں جس محبوب کی بات ہو رہی ہے وہ گو شت پوست کا بنا ہو ا انسان ہے جو لفظو ں میں ڈھل کر ایک پیکر تو بنتا ہے لیکن اس کے خدوخال واضح نہیں ہوتے۔یہ محبوب، شاعر کے تخیل میں زندہ اور تازہ ہے جس کی وجہ سے قلبی اور باطنی کیفیات شعروں کی صو رت منعکس ہو رہی ہیں۔
یہ بھی آنا تھا مقام آخر تمہاری چاہ میں
ہم نے اپنے آپ سے بے زار ہونا تھا ، ہو ئے (۱۴)
خراب کر لی جوانی تمہاری چاہت میں
اب اس سے بڑ ھ کے بھلا کیا خراب ہو نا ہے (۱۵)
سپر دگی بھی محبت کا ایک رنگ سہی
مزہ ہی کیا رہا جب اس میں ردوکد نہ رہے (۱۶)
جس قدر ہوتا گیا اس کی محبت کا اسیر
ذات کے زندان سے حیدر ؔ رہا ہوتا گیا (۱۷)
حید رقریشی کا جذبہء محبت خالص ہے ان کے ہاں محبت کی شد ت جذبے کو کندن بناتی ہے ۔ محبت کے یہی حدود آشنا جذبے قلبی واردات کی تطہیر میں مصروف نظر آتے ہیں ،منز ہ یاسمین لکھتی ہیں:
’’حیدر قریشی نے اپنے شاعری میں عشق کو محض تذکر ے کے طور پر نہیں اپنا یا بلکہ انہوں نے عشق کو اس کی تما م تر حرارتوں اور جذباتی محرکات کے ساتھ پیش کیا ہے۔ ان کا محبوب روایتی غزل کا خیالی ہیو لہ نہیں بلکہ یہ اُس کی دنیا کا باسی ہے جو ان کے اردگرد اپنی تمام ترحقیقتوں کے ساتھ موجود ہے۔‘‘ (۱۸)
درج بالا اقتباس کی تائید میں یہ شعر دیکھے جا سکتے ہیں:
اُس کے ہو نٹوں پہ میں پھر مہکوں تمنا بن کر
پھر وہ چاہت جو کبھی اس نے تھی چاہی، مانگوں
اس کو پانے کی تمنا پہ یقیں کب ہے مگر
ہاتھ جب اُٹھ ہی گئے ہیں تو دعا ہی مانگوں (۱۹)
محبت کی یہ منزل آسانی سے ہاتھ نہیں آتی اور حید ر قریشی کو یہاں تک پہنچنے میں خاصی محنت کر نا پڑ ی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اُنھیں اپنی محبت پر کامل اعتبار ہے:
وجود میرا اگر اس پہ منکشف ہو جا ئے
مجھے یقین ہے وہ خود سے منحرف ہو جا ئے
نہ اعتراف بھی حیدر ؔ کبھی کریں دونوں
اور اپنے پیار کی دنیا بھی معترف ہو جا ئے (۲۰)
حیدر قریشی نے کہیں کہیں محبو ب کے ظا ہر ی اوصاف کو نمایاں کرنے کی کوشش بھی کی ہے ،مثلاً:
زباں ایسی کہ ہر اک لفظ مرہم سا لگے اس کا
نظر ایسی کہ اٹھتے ہی دلوں میں تیر ہو جا ئے (۲۱)
خود اپنے حسن کے نشے میں چور لگتا ہے
جوسر سے پاؤں تلک رنگ و نور لگتا ہے (۲۲)
(۳) منفی اقدار پر طنز
حیدر قریشی کی غزل میں ان کی پوری تخلیقی شخصیت جلوہ گر نظر آتی ہے ، اس شخصیت کا آدرش آزادی اور وسیع المشرب روایت کو آگے بڑ ھا نا ہے۔ وہ اپنے اجتماعی احسا س اور خواب کی صور ت گری شعری پیمانوں میں کرتے ہیں جہاں اُن کی تجزیاتی فکر سماج کے باطن میں چھپے منفی عناصر کوڈھونڈ نکالتی ہے۔ اس حوالے سے چند مثالیں درج کی جاتی ہیں:
منافقت کا ہنر آسکا نہ حیدرؔ کو
ہنروروں میں یہی بے کمال باقی ہے (۲۳)
نہیں اس جیسی عیاری تو ممکن ہی نہیں تھی
زمانے سے ذرا بس استفادہ کر لیا ہے (۲۴)
اُردو شاعری میں’’ فقیہۂ شہر ‘‘ بھی استحصال کی علامت ہے حیدر قریشی کی غزل میں یہی علامت منفی اقدار کو نما یا ں کرتی ہے:
فقیہ ِشہر کی باتوں کا احترام کر و
چمن کو دشت کہو ، دشت کو چناب لکھو (۲۵)
پروفیسر سید محمد عقیل نے لکھاہے :
’’ غزل میں مخصو ص نظامِ زندگی ، معاشرت اور تہذیب کے بھی دھا رے بہتے رہتے ہیں۔‘‘ (۲۶)
اصل میں یہ شاعر کا اپنا فکر ی نظام ہے جو غزلوں میں اپنی موجودگی کا احساس دلاتا رہتا ہے۔ حید رقریشی کی غزل میں جو تہذیبی اُفق ابھرتا ہے وہ قاری کی فکری تربیت بھی کرتا ہے۔ حیدر قریشی اپنے مشاہدات اور مفروضات میں دوسروں کو شریک کرنے کا فن جانتے ہیں یہ مثال دیکھیے:
وزیر ، فیل اور شاہ پھر سے بدل رہا ہے
وہ چال ، شاید اب اور ہی کو ئی چل رہا ہے (۲۷)
ایک اور شعر کے تیور ملاحظہ ہوں:
اپنے حق میں تُو بھلے کتنی گواہی لائے
بے گنا ہی سے بریت نہیں ہونے والی (۲۸)
ہمارے معاشرے ضد ی ، مغرر ، بے حس اور بے عمل عالموں پر یہ شعر تازیا نے کا کا م کرتا ہے:
تم اہل علم و فضل ہو لیکن کچھ اس طرح
جیسے کوئی کتاب ہو دیمک لگی ہوئی (۲۹)
ڈاکٹرمحبوب راہی رقمطراز ہیں:
’’ حید ر قریشی کی غزل رنگینی تخیل کا محض نگار خانہ نہیں ، جیتی جاگتی زندگی کے رنگا رنگ حقائق کا منظر نامہ پیش کرتی ہے۔‘‘ (۳۰)
حید ر قریشی کی شاعری کا فکر ی حوالہ خاصا مضبوط ہے ، انھوں نے سماج کے کثیر الجہات ، سنجیدہ موضوعات کو اپنی غزل کا حصہ بنا کر یہ تخلیقی سرمایہ محفوظ کیا ہے۔ یہ ذخیرہ کیفیت اور کمیت ہر دو اعتبار سے ثروت مندہے۔
(۴) خد اکا تصور
حید ر قریشی کے فکر ی نظام میں تصورِ خدا کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ یہ تصور اپنی تمام ترہمہ جائیت ،ہمہ دانیت اور قادرِ مطلقیت کے ساتھ ان کی تقریباً تمام اصناف میں کسی نہ کسی حوالے سے موجود رہتا ہے۔ حتیٰ کہ اُن کے افسانوں میں بھی یہ حرکی تصور مرکزی دھا رے کے طور پر موجود ہے۔ یہ تصور اگرچہ ایمانی حوالہ ہے لیکن حیدر قریشی نے اپنی تحر یروں میں اس کا منطقی جواز فراہم کرنے کی سعی بھی کی ہے۔ اُن کے پہلے شعری مجموعے ’’ سلگتے خواب‘‘ کی ایک غزل کا شعر تو جہ طلب ہے:
کعبے میں جا کے یا کہیں پتھر تراش کر
ممکن ہو جس طرح بھی خدا کو تلا ش کر (۳۱)
دور ِجد ید میں جہاں نئے نئے علوم وفنون کی وجہ سے مادیت پرستی کا رواج عام ہوا وہاں خدا سے دوری یا خد اناشناسی کا چلن بھی اپنی جگہ بنا چکا ہے اور یہ روش مشرق اور مغرب دونوں جگہ فعال ہے ۔ حیدرقریشی کے نزدیک ایسے انتہا پسند انہ رویے کسی صورت میں قابل قبول نہیں ہیں اس لیے ان کا کہنا ہے کہ’’ ممکن ہو جس طرح بھی خد ا کو تلاش کر‘‘ ماہنامہ ’’ شاعر‘‘ کے مدیر افتخار اما م صدیقی نے اپنے انٹرویو میں حیدر قریش سے خدا کے حوالے سے ایک سوال پوچھا تھا وہ سوال وجواب بھی ان کے تصور خدا کو قطعی طور پر واضح کر یتا ہے:
سوال : ’’ کیا آپ خداپر یقین رکھتے ہیں؟
جواب: بہت گہرا یقین اور اس یقین کے کئی ذاتی تجربے بھی ہیں۔ ‘‘ (۳۲)
خدا پر غیر مشرو ط ایمان کی وجہ سے ان کا اعتماد بھی بڑ ھ گیا ہے اور اب ان کے سامنے کسی قسم کی مشکل باقی نہیں رہی اسی لیے وہ کہتے ہیں:
خداہے مشکل کشا تو حیدر ؔ
کوئی بھی کا ر محال کیا ہے (۳۳)
یہ اسی ایمان کا نتیجہ ہے کہ اب زمینی خدا ان کا راستہ نہیں روک سکتے :
زمیں کے جھو ٹے خداؤں سے کچھ نہیں لینا
مر ا معاملہ اب صرف اپنے رب سے ہے (۴ ۳)
خد ا سے وابستہ دوسرا اہم تصور تو حیدکا ہے اس حوالے سے یہ شعر ملاحظہ ہو
تیر ی وحدت سے سمجھ پائے تجھے
اور کثرت میں نظارہ کر لیا (۳۵)
توکل کی ایک مثال اس شعر میں دیکھی جا سکتی ہے ، یہ تو کل صرف انہی لوگوں کو نصیب ہوتا ہے جو ذات خداوندی پر کامل ایمان کی کیفیات سے سرشار ہوتے ہیں:
خدا پہ چھو ڑ دو سارا معاملہ حیدر ؔ
نتیجہ جو بھی نکل آئے استخارے کا (۳۶)
عشقِ خداوندی کے اِنھی جذبوں نے حیدر قریشی کی غزل پرکشش بنائی ہے ۔ اب ان کے لیے زندگی کے تمام رنگ اسی عشق کے طفیل حقائق کی صورت گری کر تے ہیں ۔ خدا کو اس قدر قریب محسوس کرنے کا ضمنی فائدہ یہ بھی ہوا کہ وہ اپنے اردوگرد پھیلی دنیا میں پاکیزہ اور پر خلوص اقدار تلا ش کرنے میں کا میاب ہو جاتے ہیں ۔
(۵) گزرتی عمر کا تذکر ہ
نئی غزل نے شاعر کو موضوعاتی اور اُسلوبیاتی وسعتوں سے ہم کنا ر کیا ہے ۔ عہد جد ید کا شاعر حیات وکائنات کے چھو ٹے بڑے مسائل کو شعری پیر ائے میں پیش کرنے کی کا میاب کو شش کر ر ہا ہے۔ اِن شعری رویوں کو دروں بینی اور بیروں بینی کی اصطلاحوں میں سمجھا جاسکتا ہے ۔ یہی داخلیت پسندی یا دروں بینی شاعر کو اپنے ہونے کا احسا س دلاتی ہے، اور اس کا تخلیقی عمل اپنے من میں ڈوب کر زندگی کا سراغ پانے کی سعی کرتا ہے۔ حیدرقریشی کے ہاں داخلیت پسند ی کا یہ رویہ نت نئے مو ضوعات تخلیق کرتا ہے۔ جس میں گزرتی عمر کا احساس قدرے حاوی جذبے کے طورپر اُبھر تا ہے۔ اس حوالے سے چند مثالیں حاضر ہیں:
یہ کیسی وقت کی آندھی بدن پہ آئی ہے
کہ پھو ل پتے تو کیامیر ی ڈالیاں بھی گئیں
قویٰ جو ڈھیلے پڑے اعتدال آنے لگا
جوانی ڈھلتے ہی بے اعتدالیاں بھی گئیں (۳۷)
تجھ تلک پہنچا ہوں خاصی دیر سے عمر کہن
پہلے آنا تھا مگر رہ میں جوانی پڑ گئی (۳۸)
اپنی آدھی عمر گزرنے کا تذکر ہ اس انداز سے کرتے ہیں:
چار قدموں کا ہے زندگی کا سفر
دو قد م چل چکے ، دو قد م رہ گئے (۳۹)
ایسا نہیں کہ ڈھلتی عمر نے ان کے جذبوں کو ماندکر دیا ہو ،ا بھی جو ش و ولولہ قائم ہے:
یہ ڈھلتی عمر بھی شعلے مر ے بجھا نہ سکی
لہو میں اپنے ابھی اشتعال باقی ہے (۴۰)
گزرتی یا ڈھلتی عمر کے حوالے سے حیدر قریشی نے جتنے شعر بھی تخلیق کے ان میں کرب اور دکھ کی حدّت تو موجود ہے لیکن مایو سی کا ذکر دور دور تک نہیں ہے۔ ان کی نظر زندگی کے وسیع منظر کا احاطہ کرتی ہے۔ انھوں نے خود کو کسی مصنوعی خول میں بند نہیں کیا ہے بلکہ ایک حساس اور روشن ضمیر تخلیق کار کی طرح اپنی دلی کیفیات کا بر ملا اظہار کر دیا ہے۔
(۶) فلسفۂ عشق
حیدر قریشی کا تہذیبی مزاج جہاں زندگی کی کلا سیکی قدروں کو اپناتا دکھا ئی دیتا ہے وہاں ان کافلسفہ ء عشق بھی عصر حاضر کے مسائل کو اپنی ذات میں سمونے کی کو شش کرتا ہے اوریوں عشق کی وجدانی تحر یک ان کی شاعری میں فکر ونظر کے تشکیلی اجزاء کو ازسر نو ترتیب دیتی چلی جاتی ہے ،یہی جذ بۂ عشق زندگی کی طویل جدوجہد میں ان کا اصلی رفیق اور ہم رازہے۔ اس جذبہ ء عشق کے کچھ انداز پیش خدمت ہیں:
عشق کے قصے سبھی مجھ پہ ہوئے آکے تمام
کوئی مجنوں ، کوئی رانجھا نہ ہوا میرے بعد (۴۱)
اس عشق کی شدت کا اندازہ لگانے کے لیے یہ شعر پڑھنا بہت ضرور ی ہے:
روز طوفان اٹھانے کی مشقت تھی اسے
دشت بے چار ے کو آرام ملا میرے بعد (۴۲)
مندرجہ فوق دونوں اشعار میں تعلی کا انداز اپنی جھلک دکھا رہا ہے لیکن پس ِپردہ شاعرکی عشقیہ توانائی کا اظہار قاری کو فوراََ اپنی جانب متوجہ کر لیتا ہے۔منزہ یاسمین نے لکھا ہے:
’’حیدر قریشی نے اپنی شاعری میں عشق کو محض تذکرے کے طور پر نہیں اپنایابلکہ انہوں نے عشق کو اس کی تما م ترحرارتوں اور جذباتی محرکات کے ساتھ پیش کیا ہے۔‘‘ (۳ ۴)
مزید مثالیں ملا حظہ ہوں :
اے خدا ! ڈر ہے مجھے طے ہی نہ ہو جائے کہیں
منزل ِعشق کو دو چار قد م رہنے دے (۴۴)
یہ شعر اس بات کی بھر پور غمازی کرتا ہے کہ حید رقریشی کو اپنے عشق پر نہ صرف ناز ہے بلکہ وہ عشق کی تما م منازل طے کرنے کا حوصلہ بھی رکھتے ہیں ۔ اُردو ادب کے معروف انشائیہ نگار اور نقاد اکبر حمیدی کا نقطۂ نظر قدرے مختلف ہے، اُن کا کہنا ہے:
’’ حید ر قریشی کی غزل میں عشق ایک مسئلے کی شکل میں دکھائی دیتا ہے جو حل نہیں ہوتا بلکہ مسلسل اُلجھتا چلا جا تا ہے۔ یہ برائے بیت نہیں جیسا کہ اکثر شاعروں کے ہاں ہم محسو س کر سکتے ہیں۔‘‘ (۴۵)
اس بیان کا پہلا حصہ محل ِنظر ہے ،اکبر حمید ی نے اپنے دعو ے کی دلیل میں کوئی مثال پیش نہیں کی جس سے اندازہ لگایا جاسکے کہ عشق کے اُلجھا وے سے وہ کیا مراد لے رہے ہیں ۔ حیدرقریشی کی غزل میں عشق کا جذبہ خلوص اور فکر ی گہر ائی کا پروردہ ہے ،اُن کا فلسفہ عشق تقلید ، فرسودگی ، باسی پن اور روایتی زندگی سے کوئی علاقہ نہیں رکھتا ۔ یہ عشق انفرادی وجدان کا زائیدہ ہے۔ عشق کی یہی توانائی ان کی شاعری کو پر کشش اور دل کش بناتی ہے۔ اگرچہ عشق کا مسئلہ اُن کی غزل میں حل ہوتا دکھائی نہیں دیتاتاہم یہ کسی اُلجھاوے کا شکار بھی نظر نہیں آتا۔ عشق کے بارے میں حیدر قریشی کی رائے بہت واضح اور مثبت ہے ۔یہ مثا ل ملاحظہ ہو:
اہل ِد نیا بھلا اس رمز کو کیسے سمجھیں
عشق رسوا نہیں ہوتا کبھی رسوائی سے (۴۶)
یہ سوچ لیجئے پہلے یہ بازار عشق ہے
سودا تو مل ہی جا ئے گا پر نقدِ جان پر (۴۷)
حید رقریشی کا فلسفۂ عشق کے حوالے سے اصل نقطۂ نظر اس شعر میں بیان ہوجاتا ہے:
درد و غم سے اِسے نکھار تا ہے
عشق انسان کو سنوارتا ہے (۴۸)
یہ شعر بھی اُن کے تصورِ عشق پر روشنی ڈالتا ہے :
نما ز عشق تو پروانہ وار ہوتی ہے
پھر اس میں سجدہ ، رکوع وقیام کا مطلب ! (۴۹)
حیدر قریشی نے اس حقیقت کا اعتراف بھی کیا ہے کہ ان کی شاعری کا دارومدار ہی جذبۂ عشق پر ہے۔
اک فرشتہ ہے عشق کا حیدر ؔ
مجھ پہ جو شاعری اتارتا ہے (۵۰)
حید ر قریشی کا فلسفۂ عشق رجائیت پر مبنی ہے اور یہی ان کے فکر و تخیل کی اصل پہچان ہے۔ ان کی شاعری میں یہ جذبہ کبھی جنون اور کبھی والہانہ محبت کی صورت سامنے آتا ہے اور فکر ی تہہ داری میں اضافہ کرتا ہے۔
(۷) اپنی ذات پر شعری تبصرے
غزل ایک ایسی صنف ہے جو ذاتی حالات وواقعات کو پیش کرنے کے لیے خاصی موثر ثابت ہوتی ہے۔ حیدر قریشی کی غزل میں بھی ان کی ذات کسی نہ کسی حوالے سے اظہار پاجاتی ہے:
کبھی تم چاند سے بڑ ھ کر تھے حیدر ؔ
مگر اب خاک ہوتے جارہے ہو (۵۱)
اپنی حالت ِزار کو ایسے بھی بیان کرتے ہیں:
بے خانما ں یہ شخص کہ حیدر ہے جس کانام
اے ارضِ پاک دیکھ لے تیرا ہی لا ل ہے (۵۲)
حید رقریشی کی غزل پڑھنے کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ ان کے مسائل کی نوعیت جذباتی ، ذاتی اور معاشی رہی ہے ۔ اگر ان کی جگہ کوئی اور شاعر ہوتا تو اس کی شاعری میں شورید ہ سری اور تلخی درآتی لیکن حیدر قریشی کا فن اعتدال اور رکھ رکھاؤ کی حدود میں نمو پذیر ی کے مراحل طے کرتا ہے۔ مسائل کی آگ نے ان کی شخصیت اورفن کو جلایا نہیں، کند ن بنایا ہے۔ وہ اپنی ناراضی ، تکلیف اور دکھ کا اظہار بھی تہذیب اور شائستگی کے ساتھ کرنا پسند کر تے ہیں ۔ ناسازگار حالات اور مخالفت کے باوجود وہ اپنے دکھوں کو بہت زیادہ نمایاں نہیں کرتے،کچھ مثالیں ملاحظہ ہوں :
کس کی سازش تھی کہ سائے رخ بدلنے لگ گئے
ہم جہاں بھی چند گھڑ یاں رک کے سستانے لگے (۵۳)
مشینوں کے اس عہد ناروا کا میں ہی یو سف ہوں
مجھے اس نوکری کی شکل میں نیلا م ہونا تھا (۵۴)
اک اعتدال رہا عمر بھر عزیز ہمیں
نہ بے اصول بنے ہم ، نہ با اصول ہوئے (۵۵)
اکبر حمید ی زیر بحث موضوع کے حوالے سے ہماری رہنمائی کرتے ہوئے رقمطر از ہیں:
’’ اس کے مسائل اس کے حقیقی مسائل ہیں اور ان مسائل کو
شعری لباس پہنا کر اس نے جدید غز ل میں اضافہ کیا ہے۔
یوں اس حیدر قریشی کا شمار آج کے اہم شاعروں میں ہوتا ہے
وہ بے حد اوریجنل ہے۔۔۔اُردو کی جدید غزل کو حیدر قریشی
جیسے شاعروں کی بہت ضرورت ہے۔‘‘ (۵۶)
حید رقریشی کے ذاتی حالات کے تنا ظر میں یہ شعر کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ کیونکہ ان کی زندگی کا نہایت قیمتی حصہ چینی کے کارخانے کی نذر ہوگیا تھا۔
جو میر ی روح میں بس زہر گھولتا ہی رہا
مرے نصیب میں چینی کا کا ر خانہ تھا ( ۵۷)
(۸) اہل خانہ کا ذکر
حیدرقریشی کو اپنے اہل خانہ سے جو قلبی اور روحانی لگاؤ ہے اس کا ثبوت اُن کی شعری اور نثری تخلیقات میں جگہ جگہ موجود ہے ۔اُنھوں نے جہاں ادیبوں اور دوستوں کے خاکے تحر یر کیے وہاں اہلِ خانہ کے حوالے سے بھی یاد گار خاکے تخلیق کر کے اپنی تصنیف میں شامل کیے ہیں۔ یادنگاری پر مشتمل اُن کی کتاب’’ کھٹی میٹھی یادیں ‘‘ بھی اہل خانہ کے ذکر سے بھر ی ہوئی ہے،اور اگر شاعری پر نظر ڈالی جائے تو یہاں بھی قریبی رشتوں کا محبت بھرا ذکر ملتا ہے۔محبت کا عملی ثبوت دینے کے لیے اپنے پانچ شعری مجمو عوں کو بالترتیب اپنی زوجہ ( مبارکہ ) اپنے بیٹوں( شعیب ، عثمان ، طارق) ، والدہ صاحبہ ، والد صاحب اور ماموں( صادق) کے نام معنون کیاہے۔ پہلے مجموعے ’’ سلگتے خواب‘‘ کا انتساب زوجہ کے حوالے سے کچھ یوں ہے:
استعارے تو کجا سامنے اس کے حیدرؔ
شاعری ایک طرف اپنی دھر ی رہتی ہے (۵۸)
اپنے ایک اور مجموعے ’’درد سمند ر ‘‘ کو ماموں صادق کے نام موسوم کیا ہے:
آنکھوں میں ابھی دھو ل سی لمحوں کی جمی ہے
دل میں کوئی سیلاب سارونے کے لیے ہے (۵۹)
حیدر قریشی نے اپنے شعری مجموعے ’’ عمر گریزاں‘‘ میں ایک پوری غزل اپنی بڑی بہن ( آپی) کے لیے لکھی ہے۔
’’میر ی محبتیں ‘‘ میں آپی پر ایک جاندار خاکہ بعنوان ’’ محبت کی نمناک خوشبو‘‘ موجو دہے، اس خاکے میں حیدر قریشی یہ اعتراف کرتے ہیں:
’’ ہم دونوں میں جو محبت ہے وہ شاید کسی اور بہن بھائی کے حصے میں نہیں آسکی ۔ ‘‘ (۶۰)
آپی کے حوالے سے لکھی گئی غزل پانچ اشعار پر مشتمل ہے بخوف طوالت دو شعروں پر اکتفا کیا جا تا ہے:
اتنی محبت ہے کہ گماں جیسی لگتی ہے
ماں جا تی ہے لیکن ماں جیسی لگتی ہے۔
اس کے ہونٹوں کی محراب دعاؤں والی
اس کی خاموشی بھی اذاں جیسی لگتی ہے (۶۱)
’’ دعائے دل ‘‘ ( شعری مجمو عہ) میں حید ر قریشی نے ایک غزل بڑے بیٹے شعیب کے نام کردی ہے۔ اس غزل کے کل سات شعرہیں اس کا مطلع اور مقطلع ملا حظہ ہو :
محبت کا مزہ ہے ہجر میں بے تاب ہو نے تک
بہا ریں دل کی ہیں دکھ درد سے سیر اب ہو نے تک
چراغ نیم شب حیدر ابھی جلتے ہی رہنا ہے
سحر ہو نے تلک ، ظلمت سے فتح یاب ہونے تک (۶۲)
ایک اور غزل کے یہ تین شعر تو جہ طلب ہیں۔
ا پنے بچپن سے جوانی کے زمانے تک کی
سونپ دی بچوں کو ہر ایک نشانی اپنی
صورت ابو کی اُبھر آئی مرے چہر ے میں
دے گئی کیسی خوشی جاتی جو انی اپنی
آج اولاد کے آئینے میں حیدر ؔ ہم نے
تازہ کرلی ہے ہر اک یاد پر انی اپنی (۶۳)
حیدر قریشی نے اپنی والدہ سے اس طرح اظہار عقیدت کیا ہے:
یہ ساری روشنی حیدرؔ ہے ماں کے چہر ے کی
کہاں ہے شمس وقمر میں جو نور خاک میں ہے (۶۴ )
ڈاکٹر صابر آفاقی ایسے اشعار کو بنیاد بنا کر یہ کلیہ اخذ کر تے ہیں:
’’ حیدر قریشی انسان دشمنوں کی استواری اور اخلا قی قدروں کی پائیداری
کو تہذیب کی نشوونما کے لیے ضروری سمجھتا ہے ‘‘ (۶۵)
(۹ ) احسا س محرومی
حیدر قریشی حساس شاعر ہونے کے ناطے اپنے گردوبیش کے اثرات دوسرے لوگوں کی نسبت زیادہ محسو س کرتے ہیں۔ سماج میں موجود طبقاتی تنگ نظر ی ، معاشی جبر یت ، دقیانو سی طرزِ فکر اور حق تلفی کے مناظر اُنھیں دکھی کرتے ہیں ، عدم تحفظ اور غیر یقینی صورت ِحال نے ان کے اند ر احسا س محرومی کو بھی پروان چڑ ھا یا ہے یہ شعر توجہ کا طالب ہے:
زندگی حیدر ؔ بسر ہوتی رہی
جیسے کوئی گیت فریادوں کے بیچ (۶۶)
شاعر کے لیے بھی لمحہ فکر یہ ہے :
گھر گئے ہیں نا شنا سوں میں کہاں
منہ کھڑ ے تکتے ہیں دلدادوں کے بیچ (۶۷)
مگر یہ احسا س ِمحرومی اس وقت شدت اختیار کر جاتاہے جب شاعرکی بات سمجھنے والا آس پاس کوئی موجود نہ ہو:
عجیب لوگ ہیں بے چہر ہ شہر کے حیدر ؔ
یہ تیر ی بات کا مطلب سمجھ نہ پائیں گے (۶۸)
حید رقریشی اپنے محبوب سے گلہ مندی کا اظہار اس انداز سے کرتے ہیں :
نہیں تو صرف مرے حال سے نہیں واقف
وہ بے خبر جو جہاں بھر کے راز رکھتا ہے (۶۹)
یہ احساسِ محرومی کئی جہتوں میں پھیلا ہو اہے اور شاعر کی زندگی کو مشکل بھی بنا رہا ہے:
نجانے کب کوئی آ کر بجھا ئے پیاس مری
میں کتنی صدیوں سے پیاسا ہوں پانیوں کی طرح
عبث ہے اب تو تلا ش اور جستجو حیدر ؔ
وہ کھو چکے ہیں وفا کی نشانیوں کی طرح (۷۰)
ان اشعار میں موجود احسا سِ محرومی کا جذبہ شاعر کی فکر پر غالب آکر کوئی منفی رحجان پیدا نہیں کر رہا بلکہ اس کی فکر کو آفاق گیر بنا نے کی کو شش کرتا ہے۔ حیدر قریشی کا تنقیدی شعور احسا سِ محرومی کو علویت کی طرف لے جاتا ہے یوں اُنھوں نے اپنی اضطراری کیفیت کو تعمیری تخلیقیت کے قالب میں ڈھا ل دیا ہے۔
(۱۰) رجائیت
حیدر قریشی کی شاعری میں رجائی عناصر ان کی تخلیقی قوت میں اضافہ کرتے ہیں ۔ وہ وجود کے تمام مظاہر کو از سر نو پر کھ کر اپنے خوابوں ، خیا لوں ، حادثوں اور کیفیات کا رخ متعین کرتے ہیں ۔ان کا تجربہ اور شعور زیادہ دیر تک مایو سی کی حالت میں نہیں رہتے بلکہ اس گرداب سے نکل کر رجائی سرحدوں میں زندگی تلا شتے ہیں، اب وہ موت کو محض زندگی کا اختتام نہیں سمجھتے بلکہ اسے نئی زندگی کا اعلامیہ قرار یتے ہیں۔
اگلی نسلوں میں چلی جا ئے روانی اپنی
زندگی ! ختم نہیں ہو گی کہانی اپنی (۷۱)
مزید مثالیں:
گھٹن کب دیر تک رستہ ہوا کا روک پائی
اُسے کہہ دو کہ میں پھر سے رواں ہو نے لگا ہوں (۷۲)
انتہا ئے تیر گی سے ہو گیا سورج طلو ع
پیاس اتنی بڑ ھ گئی کہ خود سمند ر ہوگئی (۷۳)
یہ شعر پڑھ کر اند ازہ لگانا مشکل نہیں کہ مایوسی نے ان کا راستہ کبھی نہیں روکا ۔ حیدر قریشی کی فکر ی بالیدگی زندگی کے ہر مو ڑ پر رجا ئیت کو ہمراہ رکھتی ہے۔
(۱۱) فکر وفلسفہ
حیدر قریشی کا فلسفیا نہ اور حکیمانہ انداز فکر بھی ان کی غزلیہ شاعری کا لازمی حصہ ہے وہ اپنے اردگرد موجود انسانی رویوں اور فطری مظاہر کو تجزیاتی نظر سے دیکھتے ہیں اور پھر کمال مہارت سے اپنا فلسفیانہ نقطۂ نظر شعری پیرائے میں بیان کردیتے ہیں ۔ان کی نظر گہر ی اور تجز یات بعض معروضی سطح پر ابلا غ کرتے ہیں ۔چند مثالیں پیش کی جاتی ہیں:
بڑ ھنے گھٹنے کا عجب ہے سلسلہ
بڑ ھ گئے حد سے تو سمجھو گھٹ گئے (۷۴)
عطا زمیں کی ہیں رسمیں ، رواتیں ساری
کسے خبر ہے کہ کتنا شعور خاک میں ہے (۷۵)
جسم بھی اپنی جگہ زندہ حقیقت ہیں مگر
دل نہیں ملتے فقط جسموں کی یکجائی سے (۷۶)
یہی تذبذب وتشکیک اب سند ٹھہر ے
سند سمجھتے تھے جن کو وہ مستند نہ رہے (۷۷)
(۱۲) حقیقت پسند ی
شاعری خواہ کتنی ہی تصوراتی او ر تخیلا تی کیوں نہ ہو جا ئے وہ زمان و مکاں کے حقائق سے بھی ایک واضح علا قہ ضرور رکھتی ہے۔ یہ حقائق معاشرتی ہو تے ہیں اور خا لصتاََ تجر بے اور مشاہد ے پر مبنی ہو نے کے ساتھ ساتھ شاعر کے وجدان اور احساس کی بھی نمائندگی کرتے ہیں ۔حیدر قریشی کی شاعری میں مجر د اور خا لص عقلیاتی مکالمے نظر آتے ہیں ،جواُن کی حقیقت پسند ی پر روشنی ڈالتے ہیں :
اعتبار اک دوسرے پر کب ہمیں تھا زندگی
جھو ٹی مو ٹی دوستی تھی اور نبھا نی پڑ گی (۷۸)
شرطوں پہ محبت کی کوئی بات نہ کرنا
یہ تیر ا طلب گار شہنشا ہ نہیں ہے (۷۹)
ابھی تو اس نے کئی عہد مجھ سے کرنا ہے
ابھی تو اس نے ہر ایک عہد سے مکر نا ہے
تو کیوں نہ مل لیں ہم ایک دوسرے کو جی بھر کے
یہ جب یقیں ہے کہ ایک دن ہمیں بچھڑنا ہے (۸۰)
مند رجہ بالا اشعار کسی ایسے شاعر کے نہیں ہو سکتے جو محض خیالی دینا سے دل چسپی رکھتا ہو ۔ یہ شاعر لوگوں کے بدلتے رویوں سے پوری طرح آگا ہ ہے اور ان رویوں کو سہنے کا حو صلہ بھی رکھتا ہے۔
(ب) فنی اور اُسلوبیاتی محاسن
حید رقریشی کا فکر ی اُسلوب جہاں حیات وکائنات کے اہم مسائل سے تعرض کر تا ہے وہاں شعری اُسلوب میں فنی محاسن کی موجودگی معیار و اعتبارکے نئے علا قے قائم کرتی ہے۔اُنھوں نے اپنا وسیلۂ اظہار موثر بنانے کے لیے عمدہ الفاظ، معیاری زبان و بیان ، بلیع تراکیب ، معنی خیز استعارات و تشبیہات اور جدید علائم و رموز کا استعما ل بہت سو چ سمجھ کر کیاہے۔ مو اد و ہیئت کا سلجھا ہوا امتزاج اور ارتکاز اُن کی غزل کا وقار بڑ ھا تا ہے، ذیل میں اہم فنی محاسن کو موضوع بنایا گیا ہے۔
(۱) تلمیحات
علمِ کلام اور معنی وبیان کو گہرا اور تہہ دار بنانے کے لیے تلمیح کا سہارا لیا جاتا ہے اور اس کا استعمال صدیوں پرانا ہے ۔ ڈاکٹر سلیم اختر تلمیح کی تعریف پر روشنی ڈالتے ہو ئے رقمطراز ہیں :
’’ علم بد یع کی اصطلا ح میں تلمیح اس شاعر انہ حربے کو کہتے ہیں جس کے تحت کہنے والا یا لکھنے والا اپنے کلام یا تحر یر میں کم سے کم الفاظ میں کس قصے ، آیت ، حدیث ، شخصیت یا مشہور واقعے کی طرف اشارہ کرے ‘‘ (۸۱)
تلمیح عام طو ر پر مرکب الفاظ یا تراکیب پر مشتمل ہوتی ہے جیسا کہ آبِ حیات ، اورنگ سلیمان ؑ ، صبر ایوبؑ اور لن ترانی ؑ وغیر ہ اور بعض اوقات مفرد الفاظ بھی تلیمح کا مفہوم ادا کر دیتے ہیں ،مثلا معراج ، کربلا ، سقراط اور فرعون وغیر ہ۔
حیدر قریشی کی غزلوں میں تلمیح کا یہ دوسر انداز قدرے غالب ہے چند مثالیں ملاحظہ ہوں:
جبر کے کرب و بلا کی خا ک میں ُرلتی ہوئی
زندگی بھی حضرت زنیب ؓ کی چادر ہو گئی (۸۲)
کربلا کی نسبت سے کچھ مزید تلمیحات:
عجیب کر ب و بلا کی ہے رات آنکھوں میں
سسکتی پیاس لبو ں پر فرات آنکھوں میں (۸۳)
جب یزیدِ عصر کے لشکر سے باہر آگئے
حرسے نسبت اپنی بھی تھو ڑی سی حیدرؔ ہوگئی (۸۴)
حیدر قریشی کی تلمیح کا ایک جدید آہنگ یہ بھی ہے:
رومی ؔ کو حیدر ؔ جب بھی پڑھنے لگتا ہوں
باطن کی د نیا طبر یزی ہو جاتی ہے (۸۵)
عشق ومحبت کے حوالے سے یہ تلمیح لائق توجہ ہے:
کام ہمارے حصے کے سب کر گیا قیس دوانہ
کون سا ایسا کا م تھا باقی جس کو اب ہم کرتے (۸۶)
حیدر قریشی کی غزل میں تلمیح کا ایک ایسا انداز بھی ملتا ہے جس میں اُنھوں نے تلمیح کی وضاحت کے لیے کوئی خاص لفظ یا ترکیب تو استعمال نہیں کی البتہ شعری فضا میں ایسے لطیف اشارے رکھ دیئے ہیں جس سے تلمیح کا لطف پیداہو گیا ہے اور پڑھنے والے کا ذہن فوراََ اصل تلمیح تک جا پہنچتا ہے ،شعر ملا حظہ ہو:
رہا نہ دھیان کسی کو دیا بجھا نا تھا
جب اس کو میں نے ، مجھے اس نے آزمانا تھا (۸۷)
غر ض حیدر قریشی نے تلمیحات کا استعمال بڑی عمد گی اور ادبی رکھ رکھا ؤ کے ساتھ کیا ہے اور کسی مقام پر اصل تلمیح کی جمالیات متاثر نہیں ہو نے دی بلکہ ان کی کو شش ہوتی ہے کہ وہ تلمیح کے حسن کو دوبالا کرنے کی خاطر تلا زمات کا بھی سہارا لیں ۔ تلمیح میں تلا زمات کا اضافہ اس صنعت کو مزید نکھارتا ہے، ایک مثال دیکھیے:
پھر قصرِ زلیخا میں رسائی بھی ہو کیسے
کنعان ِتمنا میں کوئی چاہ نہیں ہے (۸۸)
حید ر قریشی کی فکر اصلا ًرجا ئیت پر اُستوار ہے ٰلہٰذا اُن کا فنی حوالہ بھی ہر قسم کے منفعلانا اور قنو طی وسیلے کو رد کر دیتا ہے وہ تحر ک اور نمو کے قائل ہیں فعال اندازِ نظر اُن کے فن کی پہچان ہے:
ہم کہاں کے کوئی سقراط تھے پر ہم پر بھی
آئے الزام نئی نسل کو بہکانے کے (۸۹)
ڈاکٹر شفیق احمد نے حیدر قریشی کی تلمیحات میں سے ایک نیا نکتہ یہ اخذ کیا ہے:
’’ حیدر قریشی کی شاعری میں تقریباً تما م صنائع شعری ملتے ہیں لیکن تلمیحات کثرت سے ہیں ۔اس حوالے سے یہ بات بھی قابلِ توجہ ہے کہ غالب ؔکے ہاں تلمیحات زیادہ ترایرانی ادبیات سے ماخوذ ہیں اور اقبال کی تلمیحات کا دائرہ اسلام اور اسلامی تاریخ پر محیط ہے ، لیکن حیدر قریشی ہندی تلمیحات کو بھی کام میں لاتے ہیں۔‘‘ (۹۰)
اس ہند ی رنگ کی دو مثالیں پیش خد مت ہیں:
تمہارے نام کے ساتھ اپنے نا م کا مطلب
وہی جو ہو تا ہے رادھاؔ سے شامؔ کا مطلب (۱ ۹)
پریوں کے جمگھٹے میں جو اِند ر بنا رہا
عمر ِعزیز! وہ تیرا حیدر ؔ کدھر گیا (۹۲)
حیدر قریشی نے اپنی غزل میں جن کلا سیکی تلمیحات کا سہا را لیا ہے اس کے طفیل ان کا کلا م زیادہ بامعنی ، نتیجہ خیز ، لطیف اور مؤ ثر ہو گیا ہے، اُن کی پیش کردہ تلمیحات معنی آفرینی اور جمال آفرینی کا خو بصورت مرقع ہیں۔ اِن تلمیحات میں تفکر و تخیل کی ہم آہنگی خیال انگیز ہے۔
(۲) تغزل
معیار ی شعر کے اجزائے ترکیبی میں خیا ل بندی اور کیفیت کے عنا صر اپنی فنی آب و تاب کے ساتھ موجود ہو تے ہیں تغزل کا تعلق کیفیت کے ساتھ ہے ابو الاعجاز حفیظ صدیقی تغزل کی تعریف بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’ شعر کے عام اوصاف کے علاوہ غزل کے شعر میں بعض کاخا ص عنا صر بھی ہوتے ہیں مثلاََ نفاست و نزاکت ، نکتہ سنجی ، رمزو ایما ،تعمیم ، گداز ، بے سا ختگی اور جذبے کا سوزوگداز اِن عناصر کے مجموعے کو تعزل کہا جاتا ہے ‘‘ (۹۳ )
تغزل صرف صنف غز ل کے ساتھ مخصو ص نہیں ہے بلکہ یہ وصف کسی بھی شعری صنف میں پایا جاسکتا ہے ۔ ان اوصاف کا معیاری ہونا شر ط ہے ، محض سطحی جذبات کو موزوں کرنے سے تغزل پیدا نہیں ہوتا ۔ اسی طرح شدید جذبات اور بو جھل احسا سات بھی تغزل سے کوئی علا قہ نہیں رکھتے۔ تغزل روح کی لطا فتوں میں خوشگوار اضافہ کرتا ہے۔ حیدر قریشی کی غزل میں تغزل کے عناصر وافر مقدار میں موجود ہیں ۔ کہیں یہ تغزل کو مل سروں میں اپنا راگ چھیڑ جاتا ہے اور کہیں جذبے کی دھیمی آنچ خیال انگیزی کو ہو ا دے جاتی ہے:
ہماری عمر کی یہ آخری محبت ہے
سو اب کے بار محبت کی کوئی حد نہ رہے (۹۴)
تشریف تو لے آئے وہ حیدر ؔ دمِ رخصت
سو اپنے لیے اتنی عنایت ہی بہت ہے (۹۵)
چند لمحے وہ ان سے ملا قات کے
میر ی سانسوں میں برسوں مہکتے رہے (۹۶)
ہر آن ہے گمان کہ شاید وہ آگئے
دھڑکن ہے دل کی یا کوئی دستک لگی ہوئی (۹۷)
ان اشعار میں خیال کی ترتیب اور نزاکت قلبی واردات کو جمالیاتی آہنگ کے ساتھ مربوط کر رہی ہے جس کی وجہ سے شعر کی لطافت اور تاثیر میں اضافہ ہو ا ہے اور پڑھنے والے پر خوشگوار اثرات مرتب ہوتے ہے۔ اس ضمن میں درج ذیل اشعار بھی توجہ طلب ہیں :
پھول تھا وہ تو میں خوشبو بن کے اس میں جذب تھا
و ہ بنا خوشبو تو میں بادِ صبا ہوتا گیا (۹۸)
گلا بوں کی مہک تھی یا کسی کی یاد کی خوشبو
ابھی تک روح میں مہکار کا احسا س باقی ہے (۹۹)
وہ نام لکھوں تو لفظوں سے خوشبو ئیں اُٹھیں
وہ دے گیا جو مہکتے ہوئے خیا ل مجھے (۰ ۱۰)
(۳) صنعت تضا د یا طبا ق
صنعت ِتضاد کا تعلق صنائع معنوی کے ساتھ ہے مولوی نجم الغنی نے ’’بحرالفصا حت ‘‘ میں اس کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے۔
’’ اس کو صنعت تضا د ، مطابقت اور نکا فو بھی کہتے ہیں ۔ یعنی ایسے الفاط استعمال میں لائی
جائیں جن کے معنی آپس میں ایک دوسرے کے فی الجملہ ضد اور مقابل ہو ں۔‘‘(۱۰۱)
حیدر قریشی نے جن شعری و سائل کو برتا ہے اس میں صنعت ِتضاد کا بھی خاص التزام ملتا ہے۔ یہ صنعت ان کے حسیاتی ادراک کے تابع ہے اور ان کے ذہن کی تلا زماتی قوت کو ظاہر کرتی ہے:
صنعت تضا دکی نمائندہ مثالیں:
بکھر گئے ہیں ملن کے تمام دن حیدرؔ
ٹھہر گئی ہے جدائی کی رات آنکھوں میں (۰۲ ۱)
دیکھا خلو ص موت کا تو یا د آ گیا
کتنے فریب دیتی رہی زندگی مجھے (۱۰۳)
مرے ہی خواب کنو ارے نہیں رہے اب تو
کہ آرزوئیں تری بھی بیا ہیاں نہ گئیں (۱۰۴)
محولہ بالا مثالوں میں صنعت ِتضا د کا اہتمام دونوں مصر عوں میں کیا گیا ہے البتہ چند غزلوں میں صنعت ِتضاد کو ایک ہی مصرعے میں پیش کر نے کی کا میاب کو شش بھی ملتی ہے :
کسی کے جو روستم کی حیدر ؔ کرامیتں ہیں
بجھا ہو ا ہے یہ دل مگر پھر بھی جل رہا ہے (۱۰۵)
خود اپنے آپ سے احوال کہہ کے روتے رہے
کہ شہر دل کو جلا نا تھا اور بجھانا تھا (۱۰۶)
٭ قو افی میں صنعت ِتضا د کی مثال
جو اپنی ذات میں سمٹا ہو ا تھا
سمند ر کی طرح پھیلا ہو ا تھا (۱۰۷)
حیدر قریشی کی غزل میں صنعت ِتضاد کی ایک مثال ایسی بھی ہے جس میں پہلے مصرعے کے دوسرے لفظ اور دوسرے مصرعے کے دوسرے لفظ میں تضاد کا علا قہ دکھایا گیا ہے۔ صنعت ِتضا د میں لفظوں کی یہ ترتیب گہرا تاثر پیدا کر تی ہے۔
پہلے غم سے نہا ل کرتا تھا
اب خوشی سے نہا ل کر ڈالا (۱۰۸ )
کہیں جذبے کی شدت کو دو آتشہ کرنے کے لیے حروفِ عطف کی مد د سے ایک لفظ کے دو متضاد علاقے برت کر اپنی مہارت کا ثبوت فراہم کیا ہے:
اک حقیقت کے روپ میں آکر
مجھ کو خواب و خیال کر ڈالا (۱۰۹ )
صنعت تضا د کا یہ تکنیکی تنو ع ان کی شاعری کو پر کشش بنا تا ہے۔
(۴) تکرار لفظی
شاعری کے فنی لوازم میں صنعتِ تکر ار یا تکر یر کی اہمیت کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ مولو ی نجم الغنی نے اس ضمن میں ’ ’ بدائع الافکار ‘‘ کے حوالے سے لکھا ہے:
’’ دو لفظوں کو ، جو ایک ہی معنے رکھتے ہوں ، مصرعوں یا شعر میں برابر جمع کر نا‘‘ (۱۱۰)
صنعتِ تکرارِ لفظی کی سات قسمیں ہیں جن کے نام درج ذیل ہیں :
۱۔ تکرارِ مطلق ۲۔ تکرارِ مثنٰی
۳۔ تکرارِ مستا نف ۴۔ تکرار ِمشبہ
۵۔ تکرارِ مع الوسائط ۶۔ تکرار ِموکد
۷۔ تکر ار ِحشو
حیدر قریشی کی غزل میں ان سات اقسام میں سے چند ایک کا استعمال ہوا ہے جس کی مثالیں حسب ذیل ہیں :
(الف) تکرارِ مطلق
نجم الغنی تکرارِمطلق کے بارے میں کہتے ہیں:
’’ یہ اس طرح ہے کہ ایک شعر میں لفط مکر ر آویں ، خواہ دونوں
مصرعوں کے اول میں ۔۔۔یا مصرع اول کے شروع میں یا
مصرع ثانی کے شروع میں‘‘ (۱ ۱۱)
غرض اس کا اہتمام دونوں مصرعوں میں کسی بھی جگہ ممکن ہے حید ر قریشی کے ہاں اس کی وافر مثالیں موجودہیں:
روشنی روشنی سی ہر سو ُ ہے
یہ ترا دھیان ہے کہ خود تو ہے (۱۱۲)
نہیں ہے کو ئی بھی اُمید جس کے آنے کی
د ل اس کے آنے کے سو سو قیاس رکھتا ہے (۱۱۳)
کسی کے گاؤں جا کے دل میں آبلے سے پڑ گئے
گلاب جیسے لوگ تھے کہ خار خار ہو گئے (۱۱۴)
(ب) تکرارِ مستانف
مولو ی نجم الغنی تکرار یا تکریرِ مستانف کے بارے میں لکھتے ہیں :
’’ لفظ ایسے مکر ر آئیں کہ پہلے لفظ کے بعد دوسرا لفظ لانے سے معنی کی تجدید ہو جا ئے۔
لفظ تو وہی ہو تا ہے مگر اس کے آنے سے معنے میں نئی کیفیت پیدا ہو جا تی ہے ‘‘(۱۱۵)
حیدر قریشی نے دوسرے لفظ میں معنی کی تجد ید ایسے انداز سے کی کہ اسے قافیہ بنا دیا ،مثلا َ ایک غزل کامطلع یوں ہے:
اسی خمو شی کو تیرا جواب ہو نا ہے
ہمارے صبر نے سیلِ چنا ب ہونا ہے (کلیات:ص۸۶)
حیدر قریشی نے اس غزل کے چوتھے شعر میں تکرارِ مستانف کا اہتمام اس انداز سے کیا ہے:
ابھی کچھ اور بھی الزام وہ لگائے گا
پھر اس کے بعد اسے آب آب ہونا ہے (۱۱۶)
ایک اور غزل کا مطلع اس طرح ہے :
دل کہیں پر ہے اور دماغ کہیں
اپنا ملتا نہیں سراغ کہیں (۱۱۷)
اسی غزل کے پانچویں شعر میں تکرارِ مستانف کا استعمال ملا حظہ ہوا:
خواب مجھ سا ہی دیکھ کر کوئی
ہو رہا ہو گا باغ با غ کہیں (۱۱۸)
٭ تکرارِ مطلق کی منفر د مثال
تکرار ِمطلق کی ایک صورت یہ بھی ہوتی ہے کہ شعر کے دونوں مصرعوں میں لفظی تکرار پیدا ہو جا ئے :
لوگ مر مر کے جی رہے ہیں آج
اور جی جی کے مر رہا ہوں میں (۱۱۹)
ج۔ تکرار مع الوسا ئط
مولوی نجم الغنی نے اس کی تعریف میں لکھا ہے:
’’ دو لفظ مکر ر کے درمیان کوئی لفظ واسط واقع ہو ۔‘‘ (۱۲۰ )
اور پھر مثال میں یہ شعر در ج کیا ہے:
جا ن حاسدپہ برستی تھی پڑی نار پہ نار
دل پہ یاں اپنے اُترتا تھا سدا نور پہ نور (۱۲۱)
حیدر قریشی کی غزل میں تکرار مع الوسائط کی مثال قابلِ توجہ ہے:
خواب کی دنیا میں کتنی دیر تک رہتے بھلا
اک نہ اک دن تو ہمیں بیدار ہونا تھا ہوئے (۱۲۲ )
حیدر قریشی نے غزل میں صنعت ِتکرار لفظی کے متنوع زاویے متعارف کرا کے اپنی فنی مہارت کا ثبوت فراہم کیا ہے۔
(۵) تشبیہا ت کا استعمال
تشبیہہ علمِ بیان کا اہم رکن ہے ۔ صوفی غلام مصطفی تبسم اپنی تصنیف’’اُردو اور تدریس ِ اُردو‘‘ میں تشبیہہ کی تعریف ان الفاظ میں کرتے ہیں:
’’ لغوی معنوں میں تشبیہہ ایک چیز کو دوسری چیز کے معنی میں شریک کرنے کو کہتے ہیں،لیکن اصطلاح میں ایک شئے کو کسی دوسری جیسا ظاہر کرنا تشبیہہ کہلاتا ہے۔ ‘‘(۱۲۳)
تشبیہہ کے چار ارکا ن ہیں یعنی مشبہ ، مشبہ بہ، وجہ شبہ اور حرفِ شبہ ، تشبیہہ کی کئی اقسام اردو ادب میں مروج ہیں،حیدر قریشی کی غزل میں عموماََ تشبیہہ مفصل یا مطلق کی مثالیں زیادہ ملتی ہیں۔ اس نوع کی تشبیہہ میں چاروں ارکان اپنی پوری صحت کے ساتھ مذکورہ ہوتے ہیں ۔
چند مثالیں ملا حظہ ہو ں :
ممکنہ حد تلک شب سے اُلجھے تو ہیں
جگنوؤں کی طرح گو چمکتے رہے (۱۲۴)
کچھ اس طرح ڈوبنے لگی ہے یہ دل کی دھڑکن
کہ جیسے دھیرے سے کوئی گھر سے نکل رہا ہے (۱۲۵)
زندگی حیدرؔ بسر ہوتی رہی
جیسے کوئی گیت فریادوں کے بیچ (۱۲۶)
نہیں وہ رنگ پہ رنگوں ساعکس ہے اس کا
نہیں وہ پھو ل پہ پھو لوں سی باس رکھتا ہے (۷ ۱۲)
حیدر قریشی کی تشبیہات سادہ اور پُرا ثر ہیں اُنھوں نے تشبیہہ کے روایتی انداز کو اپنا یا ہے اور اپنی تقریباََ تمام غزلوں میں تشبیہۂ مطلق کو برتا ہے اگرچہ وہ نئی اور جدید غزل پر بھر وسا کرتے ہیں لیکن تشبیہہ کے ضمن میں وہ قد ماکی پیرو ی کو کافی سمجھتے ہیں۔
(۶) استعارات کا استعمال
استعار ہ علم بیان کا ہم ارکن ہے اس کا لغوی مفہوم ہے ’’ ادھا ر لینا‘‘ استعارے کا تعلق مجاز کی اعلی صور توں کے ساتھ ہے۔ ’’علمی اُردو لغت ‘‘کے مولف وارث سر ہندی نے استعار ے کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے:
’’ کسی لفظ کو اصل معنی کی بجائے کسی اور معنی میں استعمال کرنا جب کہ ان دونوں میں تشبیہہ کا تعلق ہو۔‘‘ (۱۲۸)
علمائے علم بلا غت نے استعارے کو دو بڑی قسموں میں تقسیم کیا ہے یعنی استعارہ بالتصریح اور استعارہ بالکنا یہ، حیدر قریشی کی غزلوں سے کچھ مثالیں پیش خدمت ہیں جس میں استعارے کو خوبی سے باندھا گیا ہے۔ اگر چہ وہ اس بات کا اعتراف بھی کر تے ہیں :
استعارے تو کجا سامنے اس کے حید ر ؔ
شاعری ایک طرف اپنی دھر ی رہتی ہے (۱۲۹)
مگر استعاروں کا خوبصورت استعمال بھی کرتے ہیں:
عجب اب کے طلسم ِخامشی طاری کیا ا س نے
وہ جادوگر نہ کچھ سنتا نہ کچھ ارشاد کرتا ہے (۱۳۰)
ستم گر حو صلے کی داد تو دینے لگا حیدر ؔ
اگر چہ داد میں بھی وہ مجھے بے داد کر تا ہے (۱۳۱ )
ان اشعار میں’ ’ جادوگر‘ ‘ اور’’ ستم گر‘ ‘ کے الفا ظ مجازی حوالے سے محبوب کے لیے استعمال کر کے استعارہ بنایاگیا ہے۔
(۷) سہل ممتنع
سہل ممتنع کا دارومدار سادگی ، سلا ست اور آسانی پر اُستوار ہے جب کوئی سادہ اور رواں شعر پڑھنے کے بعد یہ محسوس کرے کہ ایسا شعر تو میں بھی لکھ سکتا ہوں لیکن وہ لکھ نہ سکے تو ا یسی خوبی کو سہل ممتنع کہا جاتا ہے میر تقی میرؔ اور ناصرؔ کا ظمی کے ہاں اس کی مثالیں بکثرت موجود ہیں ۔ حیدر قریشی کی غزلوں میں سہل ممتنع کی امثال بآسانی مل جاتی ہیں۔
عجب بے کیف سی ہے زندگی پچھلے مہینے سے
نہ کوئی یاد آتا ہے نہ کوئی یا د کرتا ہے (۱۳۲)
خواب کی دنیا میں کتنی دیر تک رہتے بھلا
اک نہ اک دن تو ہمیں بیدار ہونا تھا ہو ئے (۱۳۳ )
اب کے اس نے کمال کر ڈالا
اک خوشی سے نڈ ھا ل کر ڈالا (۱۳۴ )
ان مثالوں میں سہل متمنع کے جملہ اوصاف پوری توانائی کے ساتھ موجود ہیں ۔
(۸) الفاظ کا چنا ؤاور برتاؤ
غزل جیسی نازک صنف میں الفاظ کی بحث خاص اہمیت رکھتی ہے اُردو ، عربی اور فارسی میں اس موضو ع پر خاطر خواہ تحقیقات اور تجزیات و تنقیدات موجود ہیں۔ اُردو زبان میں شمس العلما مولانا عبدالر حمن کی گراں قدر تصنیف
’’ مرۃ الشعر ‘‘ مولو ی احمد دین کی’’ سرگزشت ِالفاظ‘‘ اور غلام ربانی کی کتاب ’’الفاظ کا مزاج‘‘ میں’’ لفظ‘‘ کی ماہیت ، معنی ، ارتقا اور تاثیر پر سیر حاصل مقدمات ملتے ہیں غلام ربانی لکھتے ہیں:
’’ الفاظ ، اینٹ اور پتھر کی طرح بے جان نہیں ہوتے ۔ یہ جانداروں کی طرح پیدا ہو تے ، بڑ ھتے اور مر جا تے ہیں ان میں شریف بھی ہوتے ہیں اور رزیل بھی ، سخت بھی ہوتے ہیں اور نرم بھی کسی میں شہد کی سی مٹھاس ہوتی ہے۔ او ر کوئی کڑوا ہو تا ہے۔ کسی میں ترنم ہوتا ہے اور کوئی چٹان کا روڑا ہوتا ہے ان میں سادگی بھی ہے اور پرکاری بھی‘‘(۱۳۵)
حیدر قریشی ’’لفظ ‘‘کی نامیاتی قوت سے پوری طرح آگاہ ہیں اُنھوں نے ثقیل اور بھاری بھر کم الفاظ سے اپنا دامن بچائے رکھا ہے اور ہر ممکن طریقے سے آسان ، علم فہم ، بامعنی اور سلیس الفاظ کی مد د سے دل کی بات شعر میں بیان کردی ہے۔ ان کے نزدیک لفظ کی فصاحت اور بلاغت کا معیار سادگی اور فطری پن ہے ان کے تمام شعری سرمائے میں نامانوس اور بوجھل الفاظ نظر نہیں آتے ۔ وہ الفاظ کی صوری اور معنوی جمالیات کا ہر دم احسا س رکھتے ہیں ۔
چند شعرملا حظہ ہوں:
اپنی ذات کے دروازے تک آپہنچے
بھید ہمارے ہم پر کھلنے والے ہیں (۱۳۶)
ایک خو ش خط سے شخص نے حیدر ؔ
ہم کو بھی خوش خیال کر ڈالا (۱۳۷)
ایک غزل کے کچھ شعر توجہ چا ہتے ہیں:
مرجھا ئے ہو ئے پھو ل کی خوشبو ہے کہ تو ہے
یہ حسن کا ٹوٹا ہو اجادو ہے کہ تو ہے
آنکھوں کو یقیں آیا نہیں خود پہ ابھی تک
ایک وہم سا پھیلا ہوا ہر سو ہے کہ تو ہے
مٹنے ہی جو والا ہے ابھی خاک پہ گر کر
پلکو ں پہ لرزتا کوئی آنسو ہے کہ تو ہے (۱۳۸)
حیدر قریشی کا غزل میں استعما ل ہو نے والا ذخیر ۂ الفاظ ابلا غ کے تمام تقاضوں کو پورا کرتا ہے اُردو شاعری ( خواہ جدید ہو یا قدیم ) میں اکثر اوقات فارسیت کا غلبہ نظر آتا ، حیدر قریشی نے اس کے برعکس خا لص اُردو کے الفاظ پر توجہ مرکوز رکھی ہے ، البتہ کہیں کہیں ہندی الفاظ فکراور جذبہ و احسا س کو متحر ک کرتے نظر آتے ہیں:
(۹) ہندی روایت کا اثر
حیدر قریشی کی غزلوں میں ہند ی طر زِ احسا س کا اظہارہند ی الفاظ اور ہند ی روایت کی مد دسے ظاہر ہوتا ہے ۔ ان کے ایسے تما م شعر جہاں ہندی اثرات نظر آتے ہیں ان میں ایک خاص قسم کی ترنگ اور اد ا بھی محسو س ہوتی ہے۔ کچھ مثالیں ملا حظہ ہوں:
پہلے دیوی بنایا ہے تجھ کو
پھر تیر ی آرتی اتاری ہے (۱۳۹)
ہم نے بھو گا ہے صرف اسے حیدر ؔ
ہم نے کب زندگی گزاری ہے (۱۴۰)
گیان ، دھیان کے رستوں پر اب اور نہ مجھ کو رول
میر ے مالک ! مجھ پر میرا ساتواں در بھی کھول (۱۴۱)
محولہ بالاا شعار سے یہ اندازہ ہو جاتا ہے کہ حیدر قریشی کو ہندی الفاظ سے خا ص لگاؤ ہے ۔درج ذیل اشعار سے ان کی ہندی روایت سے دل چسپی کا اظہار بھی ہو جاتا ہے:
حیدر ہمارے عہد میں ، اکیسویں صدی میں بھی
میرا نے اپنے ہاتھ سے رادھا ؔکو شامؔ لکھ دیا (۱۴۲)
پھر وقت کے برگد کے تلے گیان کی دُھن میں
نکلا ہو ا گھر سے کوئی سادھو ہے کہ تو ہے ( ۱۴۳)
ہند ی روایت کا گہرا شعور اُس غزل میں خصو صاً بہت واضح دکھا ئی ہے جو انھوں نے با با بلھے شاہ کی زمین میں کہی ہے ۔ چند شعر بطور مثال درج ہیں:
رقص کنا ں ہے جس کے اندر ازل ابد کا مور
وہ ہے اک بے انت خلا سا جس کی اور نہ چھور
من سے لے کر بکل تک ہوں ویران و حیران
چوری کرنا چھوڑ گئے ہیں میرے سارے چور
سات سمند ر سے تو اپنے پاپ نہیں دُھل پائے
تو ہی بھیج اب دل کے صحرا کوئی گھٹا گھنگور (۱۴۴ )
(۱۰) انگریز ی الفاظ کا استعمال
اُردو زبان وادب کے کلا سیکی عہد میں اور خصوصاً ۱۸۵۷ء کے بعد ہمارے شاعروں اور نثر نگاروں نے اپنی تخلیقات میں انگریز ی الفاظ و تراکیب برتنا شروع کر دی تھیں۔ اقبالؔ اور اکبرؔ الہ آبادی کے کلام میں انگریز ی الفاظ طنز و مزاح کی شدت نمایاں کر نے کے لیے استعما ل ہوئے جبکہ جدید عہد میں انگریز ی الفاظ اکثر و بیش تر سنجید ہ مقاصد کے لیے بھی برتے جا رہے ہیں ، اگر چہ مزاحیہ شاعری میں انگریز ی الفاظ آج بھی خوبی سے استعمال ہو رہے ہیں۔ حیدر قریشی کی غزلیات میں ماسوائے چند اشعار کے، باقی جس جگہ بھی انگریز ی لفظ آیا وہ فطری معلوم ہوتا ہے۔ اُنھیں خود بھی احسا س ہے کہ وہ ا پنی شاعری میں انگریز ی کا استعما ل کر جا تے ہیں ، ایک جگہ اس کا اعتراف بھی کیا ہے۔
کوشش جتنی بھی بچنے کی کر لو ں پھر بھی
اُردو میں کچھ کچھ انگریز ی ہو جاتی ہے (۱۴۵)
اسی غزل کا ایک اور شعر دیکھئے:
بے حد پاور جس کو بھی مل جا ئے ، اُس کی
طرز یزید ی یا چنگیز ی ہو جاتی ہے (۱۴۶)
وہ غزلوں میں کہیں کہیں انگر یز ی الفاظ کی مد د سے طنز و مزاح کی کیفیت ا س انداز سے پیدا کرتے ہیں کہ پڑھنے والا اصل مفہوم تک پہنچ کر سنجید ہ نتا ئج اخذ کرنے کی کو شش کر تا ہے ۔
مثلاً:
رہا نہ کام علامت یا استعارے کا
یہاں تو عشق ہے جیسے بجٹ خسارے کا (۱۴۷)
کچھ مقامات پر انگریز ی کا استعمال محض مزاح پیدا کرنے کے لیے کیا گیا ہے :
چھاؤ ں کا اک خیال ساتھا وہ بھی چھن گیا
فیشن کسی نے کر لیا زلفیں تراش کر (۱۴۸)
وہ بھی تھا کچھ ہلکے ہلکے سے میک اپ میں
بال اپنے ہم نے بھی کا لے کر رکھے تھے (۱۴۹)
حیدر قریشی نے انگریز ی لفظ کی مدد سے تغزل کی کیفیت پیدا کر نے کا کا میاب تجر بہ بھی کیا ہے:
فون سے بھی اس کے ہونٹوں کا اثر آیا سدا
گھو لتا ہے کان میں ، لفظوں کو رس کرتے ہوئے (۱۵۰)
حید ر قر یشی کا کمال ملاحظہ ہو کہ اُنھوں نے سائنس کے جدید نظریات اور قرآنی فکر میں ہم آہنگی تلا ش کر نے کی خاطر بھی انگریز ی الفاظ کا سہارا لیا ہے ۔ جو قاری کی قوت فکر بڑ ھاتا ہے۔
جو پھو نک دیں تو قیامت ہی ایک اُٹھا ئے گا
چھپا ہوا کوئی ایٹم کا صور خاک میں ہے (۱۵۱)
حیدر قریشی کی غزل میں انگریز ی الفاظ کا استعمال متنوع پس منظر رکھتا ہے جس میں نمائندہ زاویوں پر روشنی ڈالی گئی ہے ۔ نجو ف طوالت و تکرار زیادہ مثالوں سے گریز کیا گیا ہے۔
(۱۱) تراکیب کا استعمال
دو یا دو سے زیادہ الفاظ مل کر ترکیب بناتے ہیں ۔ہر نئی ترکیب نیااحساس متعارف کراتی ہے ۔ ترکیب بنانے کے متعین اُصول و ضوابط موجود ہیں جن کی پاسداری ہر شاعر پر لازم ہے تاہم اِن اُصولوں کو توڑنے کی کوشش بھی عام ہے ۔ حیدر قریشی شعری روایات او ر اُصول و ضوابط کا احترام کرتے ہیں البتہ بعض مقامات پر وہ اس سے انحراف بھی کر جا تے ہیں جس کا ذکر اپنے مقام پر آئے گا ۔ اُن کی غزلوں میں دو لفظی، سہ لفظی اور چہا ر لفظی تراکیب کی مثالیں عا م ہیں۔ دوران ِ بحث صرف نمائند ہ مثالوں پر اکتفا کیا جا ئے گا۔
(الف) دو لفظی تراکیب
دو لفظی تراکیب کہیں مرکبِ عطفی کی صورت سامنے ا ٓتی ہیں اور کہیں مرکبِ اضافی کے پیرائے میں اپنی موجودگی کا احساس دلاتی ہیں :
یہ بال و پر تو چلو آگئے نئے حیدر ؔ
بلا سے پہلے سے اپنے وہ خال و خد نہ رہے (۱۵۲)
رہنے دو مر ی جان یہ تو قیر و تکلف
حید ر ؔ ترااب اتنا بھی ذی جاہ نہیں ہے (۱۵۳)
زندگی ! دیکھ بجھتے ہو ئے لوگ ہم
بزم جاں میں چمکتے رہے رات بھر (۱۵۴)
(ب) سہ لفظی تراکیب
تر دیدِ شبِ ہجر میں روشن سی کوئی شب
پھیلی رہی تا حدِ سحر اور مکمل (۱۵۵)
یہ گردشِ ماہ وسال کیا ہے
زمانے ! تیر ی یہ چال کیا ہے (۱۵۶)
حقیقتیں تو فریب نکلیں
جہان ِخواب وخیال کیا ہے (۱۵۷)
(ج) دو لفظی اور سہ لفظی تراکیب کا اشتراک
حید رقریشی کے ہاں ترکیب بندی کی ایک صورت یہ ملتی ہے کہ مصرع اول میں دو لفظی ترکیب برتی گئی ہے جبکہ مصر ع ثانی میں سہ لفظی ترکیب جمالیاتی تاثر گہر ا کرتی ہے:
قریش ِمکہ میں ہو یا مدینہ والوں میں
فقیر نسبتِ ارضِ حجاز رکھتا ہے (۱۵۸)
ایک شعر میں ان دونوں تراکیب کو مصر ع اولی ٰ میں پیش کر دیا گیا ہے:
ہے ماہِ شبِ ہجر بھی وہ ماہِ و صالاں
یوں جمع کبھی دونوں مہینے نہیں دیکھیے (۱۵۹)
(۲ ) چہار لفظی تراکیب :
اس ترکیب کی دو مثالیں نقل کی جاتی ہیں:
اگرچہ اُن کا تعلق ہے عرش سے لیکن
اساس ِکعبہ و بنیادِ طور خاک میں ہے (۱۶۰)
مئے رخسار و چشم ولب اتنی
چھو ٹا پڑ جا ئے نہ ایا غ کہیں (۱۶۱)
حیدر قریشی نے اکثر و پیشتر تراکیب غزل کی مجمو عی مزاج کے مطابق برتی ہیں ۔ ان تراکیب میں سادگی ، قدرت اور وضاحت ملتی ہے۔ فنی اعتبار سے یہ تراکیب معیار ی اور جمالیاتی ہیں۔