حیدر قریشی
جتنے سیاہ کار تھے نردوش ہو گئے
ہم سر جھکا کے شرم سے خاموش ہو گئے
فریاد جتنا شورِ قیامت اُٹھا گئی
منصف ہمارے اور گراں گوش ہو گئے
جب باغیانہ ہمت و جرأت نہیں رہی
شہرِ ستم گراں میں ستم کوش ہو گئے
اہلِ خرد جو ہونے لگے اور ہوشیار
دیوانے بھی سیانے و باہوش ہو گئے
نیکی ہماری ایک بھی ان کو رہی نہ یاد
سب زود رنج، زود فراموش ہو گئے
اب کے شرابِ غم میں کچھ ایسا سرور تھا
چکھتے نہ تھے جو،وہ بھی بَلا نوش ہو گئے
دل کی تو کیا خود اپنی خبر بھی نہیں ملی
جس دن سے میرے دل میں وہ روپوش ہو گئے
ہجر و وصال ہو گئے یکجا کچھ اس طرح
جذبات پھر سے جاگ اُٹھے،پُر جوش ہو گئے
حیدرؔ جب اس نے چاہ سے غم کر دئیے عطا
تو والہانہ ہم بھی غم آغوش ہو گئے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پہنچائی گرچہ آپ نے ہر ممکنہ گزند
اک سرنگوں کو کر دیا مولا نے سر بلند
جو جتنا رب کے شکر سے لبریز ہو گیا
اللہ نے کردیا اسے کچھ اور ارجمند
اِتنے ہی ہم مزاج تھے،اِتنے ہی مختلف
جو مجھ کو ناپسند تھا،اُس کو رہا پسند
اُس کے خیال میں اُڑی مچھلی ہوا میں، تو
ہم نے لگائی ایڑ،سمندر میں تھا سمند
مسجد میں ہم گئے تو وہ جائیں گے چرچ میں
ہم قادیاںؔ گئے تو وہ جائیں گے دیو بندؔ
اک بائبلؔ کہے تو کہے ویدؔ دوسرا
قرآنؔ ایک لائے تو لے آئے ایک ژندؔ
قسمت میں تھا یہی کہ پلٹ کر نہ جا سکیں
ہم بام تک پہنچ گئے،ٹوٹی نہیں کمند
پھر بھی نباہ ہو گیا،جیسے بھی ہو گیا
ہم مستِ حالِ فقر تو وہ سخت خود پسند
دونوں گناہگار ہی کچھ لاڈلے سے تھے
دونوں نے مل کے کھولا تھا بابِ قبول بند
اک دوسرے کو زخم بھی دیتے ہیں پیار سے
اک دوسرے کے واسطے دونوں ہیں دردمند
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پہلے آدھا ملک ہمارا توڑ دیا
باقی کو دہشت گردی سے جوڑ دیا
خود کش حملے، خونریزی و بربادی
کن رستوں پہ لاکے قوم کو چھوڑ دیا
غیروں سے بدلہ لینے کے چکر میں
پورے دیس کا حلیہ موڑ ، تروڑ دیا
جس نے تھوڑا سا بھی سمجھانا چاہا
اس کے گھر پہ جا کے بم اک پھوڑ دیا
مولا! کیا تو نے بھی بے بس لوگوں کو
بے رحموں کے رحم و کرم پہ چھوڑ دیا
کس نے عذاب میں ڈالا ساری دنیا کو
کس نے کس سے مل کے روس کو توڑ دیا
کس کے ’’جہاد‘‘ نے امریکہ کو طاقت دی
اور دنیا کو یہ ’’تاریخی‘‘ موڑ دیا
بولو کتنے زخم لگانا باقی ہیں
جسدِ وطن کو اتنا تو بھنبھوڑ دیا
ھیدرؔ بے حس میں احساس کہاں، پھر بھی
کچھ احساس دلانے کو جھنجھوڑ دیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کتنے تفکرات لیے آرہی ہے عید
مہنگائی جیسے لُوٹ گئی قوتِ خرید
یا خود کشی کی خبریں ہیں یا خود کشوں کا کھیل
صاحب! کہاں کی رونقیں اور کیسا شوقِ دید
اک دوسرے کا قتل ہے شوقَ جہاد میں
اِس کے بھی سب شہید ہیں،اُس کے بھی سب شہید
افسوس ہم میں اک بھی حسینی نہیں رہا
اور دندنا رہا ہے یہاں لشکرِ یزید
خوش فہمیوں سے اب بھی نہ نکلیں تو کیا کہیں
جن کو بشارتوں کا نتیجہ ملا وعید
اپنے کیے دھرے کی سزا میں ہیں مبتلا
اب بھی اگر نہ سمجھے تو بھگتیں گے پھر مزید
وہ پاک باز ہم پہ مسلط کیے گئے
حیدرؔ زمینِ پاک کی مٹی ہوئی پلید