رشید امجد جدید اردو افسانے کا ایک اہم اور معتبر نام ہیں۔ ’’تمنا بے تاب’‘ ان کی خود نوشت سوانح ہے لیکن کتاب کے آغاز میں انہوں نے یہ وضاحت کر دی ہے۔ ۔ ۔
’’معروف معنوں میں یہ خود نوشت نہیں بلکہ یادیں، خیالات، تجزیے اور مختلف اشیاء کے بارے میں میرے نقطہ ہائے نظر ہیں جن میں میری نجی زندگی اور میرا عہد دونوں شامل ہیں …اس میں زمانی ترتیب نہیں جس طرح کوئی ذکر آیا ہے اور بات میں سے بات نکلی ہے، میں نے اسے اس طرح بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔ خود میری زندگی ایک تمنائے بے تاب ہے، عاشقی کے لیے جو صبر طلبی چاہیے وہ مجھ میں نہیں …ان یادداشتوں میں ذاتی احوال کے ساتھ ساتھ بعض ایسی بحثیں بھی شامل ہیں جو کسی حد تک مضمون بن گئی ہیں۔ اسی طرح بعض تجزیے خاصے پھیل گئے ہیں لیکن یہ سب میری زندگی کا حصہ ہیں۔ میں ان سب میں کسی نہ کسی حوالے سے موجود ہوں ’‘
رشید امجد کی یہ وضاحتیں اس خود نوشت کو پڑھتے ہوئے بہت سے سطحی اور مدرسانہ نوعیت کے اعتراضات سے نجات دلا دیتی ہیں۔ بلا شبہ اس خود نوشت کی حدیں کہیں خود نوشت کی مقرر و معین حدود سے باہر تک جاتی ہیں اور کئی مقامات پر معین حدود سے بھی کہیں اندر تک سمٹی ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔ ایسا نہ ہوتا تو پھر یہ ایک عام سے ادیب کی خود نوشت ہوتی۔ رشید امجد جیسے مجتہد جدید افسانہ نگار کی خود نوشت نہ ہوتی۔ اس کتاب کے مطالعہ سے ایک طرف رشید امجد کی ذاتی زندگی کے نشیب و فراز سے واقف ہوتی ہے تو دوسری طرف راولپنڈی، اسلام آباد کے ادیبوں کے مختلف النوع احوال بھی معلوم ہوتے ہیں۔ ایک طرف پاکستان کی بیورو کریسی اور سیاستدانوں کے اندر خانوں کے حالات معلوم ہوتے ہیں تو دوسری طرف وقفے وقفے سے جمہوریت کا گلا گھونٹنے والے فوجی حکمرانوں کے کارنامے بھی سامنے آتے ہیں۔ دنیا داروں کی باتیں ملتی ہیں تو ساتھ ہی تصوف کی پرا سرار روحانی لہروں کی آواز بھی سنائی دیتی ہے۔
رشید امجد کو پاکستان میں نو ترقی پسند لکھنے والوں کا قافلہ سالار کہا جا سکتا ہے۔ اس حوالے سے ان کے بارے میں میں نیم دہریہ یا مذہب بیزاری کا فتویٰ آسانی سے دیا جا سکتا ہے۔ نجی زندگی میں عام گفتگو میں وہ کچھ ایسے ہی رہے ہیں لیکن جب اس کتاب میں رشید امجد کے نفس سے اوپر اٹھ کر صوفیانہ قسم کے تجربات سامنے آتے ہیں تو بے اختیار کہنا پڑتا ہے کہ رشید امجد بھی غالبؔ کی طرح ؎ ہے ولی پوشیدہ اور کافر کھلا
بحیثیت ادیب رشید امجد کی داستان ان لفظوں میں سمٹ آتی ہے۔ ’’کہتے ہیں کوئی درویش ہمیشہ یہ دعا مانگتا تھا کہ ’’اے خدا مجھے مضطرب رکھ ‘‘۔
کسی نے کہا ’’تو عجب شخص ہے، لوگ خدا سے اطمینان مانگتے ہیں اور تو اضطراب کا طالب ہے ‘‘۔ درویش بولا ’’یہ اضطراب ہی تو میرے ہونے کی دلیل ہے’‘ سو میں بھی ہمیشہ اضطراب کی دعا مانگتا ہوں کہ میرا بے چین ہونا، میری تحریروں کی زندگی ہے۔ میرے عہد کے جو لکھنے والے بے چینی کی دولت سے عاری ہیں، وہ قصیدے لکھ رہے ہیں، لطیفے سنا رہے ہیں اور تالیاں پٹوار ہے ہیں۔ ان میں اور شو بزنس کے لوگوں میں کوئی فرق نہیں۔ ان کی زندگی سٹیج پر پردہ گرنے تک محدود ہے۔ اس لئے ہر لکھنے والے کو انتخاب کرنا پڑتا ہے کہ وہ کہاں کھڑا ہونا چاہتا ہے۔ ویسے انتخاب کا مرحلہ تو ہر لمحے موجود ہوتا ہے۔ ’‘
رشید امجد نے چونکہ اپنی یادوں کو آزادانہ طور پر بیان کیا ہے اس لئے کہیں کہیں بلا ارادہ ان سے واقعات کے بیان میں سہو بھی سرزد ہوئے ہیں۔ مثلاً اسلام آباد کی جس اہلِ قلم کانفرنس میں جنرل ضیاع الحق نے نام لئے بغیر بعض ادیبوں کے خلاف تقریر کی تھی۔ اس کے احوال میں انہوں نے کچھ ایسا لکھا ہے کہ اس کانفرنس کے بعد ہم دونوں (رشید امجد اور میں )بدمزگی کے ساتھ پنڈی واپس آرہے تھے…وغیرہ۔
اس حوالے سے وضاحت کرنا چاہتا ہوں کہ مذکورہ کانفرنس میں مدعو کئے جانے کے باوجود میں نے شرکت نہیں کی تھی(البتہ اس سے ایک سال پہلے والی کانفرنس میں شرکت کر چکا تھا۔ تب رشید امجد کے ایماء پر میں نے ایک ’’خاص قرار داد’‘ پیش کرنے کا پروگرام بنایا تھا لیکن جیسے ہی ڈاکٹر وزیر آغا کو اس کے بارے میں علم ہو ا انہوں نے مجھے سختی سے اس ’’جرات رندانہ’‘ سے باز رہنے کی تاکید کر دی)اس لئے وہاں سے واپسی پر ہم دونوں کے بہائی سینٹر جانے کی بات درست نہیں ہے۔ البتہ ایک اور موقعہ پر بعینہ وہ ساری باتیں ہوئی تھیں جو رشید امجد نے لکھی ہیں۔ بس اپنے زمانی اعتبار سے دو الگ الگ قصے گڈمڈ ہو گئے ہیں تاہم ان سے مذکورہ واقعات کی روح اپنی جگہ قائم رہتی ہے ایک عرصہ کے بعد لکھتے ہوئے کبھی کبھی ایسا سہو یا زبانی مغالطہ ہو جاتا ہے۔
پاکستانی قوم کو اس کے حکمرانوں اور بیورو کریسی نے مل کر کس کس طریقے سے لوٹا ہے اس کی ایک جھلک بھی رشید امجد کی کتاب ’’تمنا بے تاب’‘ سے دیکھ لیں۔ رشید امجد لکھتے ہیں۔
’’گزشتہ دنوں میں ذکریا یونیورسٹی ملتان میں گیا تو ایک شام ملک ظفر نے ایک حیرت انگیز بلکہ نا قابلِ یقین واقعہ سنایا۔ انہوں نے بتایا کہ پنجاب کے ایک گورنر کو جو صاحبان عالیشان میں سے تھا، بہاول پور کے علاقہ میں مربعے الاٹ ہوئے۔ ایک دن گورنر نے کمشنر بہاول پور سے فون پر پوچھا کہ ان مربعوں کی مالیت کیا ہو گی؟کمشنر نے یونہی نمبر بنانے کے لیے کہہ دیا’’سر!تقریباً ایک کروڑ’‘
گورنر نے کہا ’’تو ایک ہفتہ میں مربعے بیچ کر کروڑ روپے انہیں بھجوا دئیے جائیں۔ ’‘
کمشنر کو مصیبت پڑ گئی۔ وہ تواس نے یونہی نمبر بنانے کے لیے کہہ دیا تھا۔ حقیقت یہ تھی کہ مربعے چند لاکھ سے زیادہ کے نہ تھے۔ انہوں نے اپنے ماتحتوں کو بلایا کہ اب کیا کریں ؟۔ میٹنگ میں ایک ایس پی بھی تھے۔ انہوں نے کہا’’سر!آپ اجازت دیں تو میں ایک راستہ بتاتا ہوں۔ ’‘ ……کمشنر نے کہا ’’وہ کیا؟’‘
اس نے کہا ’’مقامی نیشنل بنک کی شاخ میں تین چار کروڑ ہمیشہ موجود ہوتے ہیں۔ آپ اجازت دیں تو آج رات اس پر ڈاکہ پڑوا دیتے ہیں۔ ’‘۔ ۔ رات کو بنک پر ڈاکا پڑا اور دو کروڑ لوٹے گئے۔ ایک کروڑ تو گورنر کو بھیج دیئے گئے اور ایک کروڑ متعلقہ انتظامیہ میں بٹ گئے۔ صبح چوری کا پرچہ درج ہو گیا۔ کچھ عرصہ ذکر اذکار ہوا پھر داخل دفتر۔ ’‘
اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ رشید امجد کی اس خود نوشت کا کینوس کتنا وسیع ہے اور اس میں کیسی کیسی تلخ سچائیاں بھری ہوئی ہیں۔ اصل کتاب پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ ادیبوں کی سوانح نگاریوں میں یہ کتاب اپنی ایک الگ پہچان رکھے گی۔