(Last Updated On: )
’’کہانی کہنا ایک فطری عمل ہے ۔۔۔۔ کہانی کسی میز پر سنائی جائے یا کسی جہاز کے دھواں دھار کمرے میں، وہ سننے والے کو اپنی طرف کھینچتی ہے مگر اس حد تک اختصار کے ساتھ جتنی اس کی ضرورت ہو‘‘
سمر سٹ ماہم کی متعین کردہ افسانے کی یہ تعریف دراصل افسانے کی طوالت کے دائرہ کارکا تعین کرتی ہے۔ اور یہ ایک ایسا تعلق ہے کہ جس کا انحصار انسانی ذہن کی رسائی اور کہانی کی دلچسپی پر منحصر ہے۔سمرسٹ ماہم کی اس بات سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ وہ کہانی کے اختصار کا قائل ہے گویا اس کے خیال میں افسانہ کی طوالت وقت کے اعتبار سے دو گھنٹہ ہونی چاہیے۔ تاہم یہ طے کرنا باقی ہے کہ ’افسانہ‘ خود کیا ہوتا ہے ۔ جبکہ کہانی کا عنصر تو ذرا قدیم عہد میں داستان کی صورت میں اور پھر ناول کی صورت میں بڑا بھرپور موجود تھا۔ گویا افسانہ ، ناول سے کیونکر مختلف ہوسکتا ہے اس کی ایک عام وجہ تو افسانے کا اختصار ہے جبکہ ایک اور جامع نقطہ نظر ڈاکٹر ابواللیث صدیقی یوں بیان کرتے ہیں:۔
’’افسانے اور ناول کا فرق طول و اختصار کا نہیں افسانہ نگار زندگی کی بوقلمونی سے کسی ایک پہلو پر توجہ مرکوز کرتا ہے۔‘‘
اس سے یہ بات سمجھنے میں مدد ملتی ہے کہ ناول جو کہ پوری زندگی کا عکاس ہوتا ہے اور بعض اوقات اس کا دائرہ کئی زندگیوں پر محیط ہوتا ہے البتہ افسانے کا وصف یہی ہے کہ وہ بکھری پڑی زندگی کے کسی ایک جزو کا اظہار کرتا ہے۔
سید وقار عظیم مغربی اور مشرقی اکابرین ادب کی آراء کو زیر بحث لانے کے بعد افسانے کی اجزائے ترکیبی میں تین درج ذیل عناصر کو بنیادی قراردیتے ہیں ۔
پلاٹ ، کردار اور فضا۔
اور انھیں تین عناصر پر اہل نقد متفق بھی دکھائی دیتے ہیں۔
اردوافسانے کو اپنی ابتدا میں ہی اپنی ہیئت ، ساخت اور فنی اظہار کے لیے اہم نام مل گئے۔ مثلاََ پریم چند نے اردو افسانے کی نہ صرف فنی اعتبار سے صنف کا تعین کیا بلکہ زندگی سے موضوعات اخذ کرکے فکر کے میدان میں اسے آغاز ہی سے زندگی کے قریب کردیا۔ اس طرح اردو افسانہ کرشن چندر اور سعادت حسن منٹو کے ہاں نہ صرف یہ کہ وسیع موضوعات سے روشناس ہوتا ہیبلکہ اس میں اسلوب کی سطح پر بھی کئی تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں ۔ اور ان تبدیلیوں کے محرک یقیناََ اس عہد کی معروف ترقی پسند مصنفین کی تحریک بھی ہے۔ ترقی پسندوں نے ادب میں مقصدیت کا علم اٹھایا تو ساتھ ہی ان کی مخالف سمت میں ادب برائے ادب کا غلغلہ بلند ہوا۔البتہ اردو افسانہ ان دونوں تحریکوں یا روئوں سے برابر فیضیاب ہوتا رہا اور نئے موضوعات و اسالیب کو اپناتا رہا۔
یہاں مراد اردو افسانہ کی تاریخ کی درجہ بندی نہیں ہے بلکہ مختصر تعارف مقصود تھا اور قدرے ان حالات کی نشاندہی بھی کہ جن میں حیدرقریشی بطور افسانہ نگار اپنی شناخت بناتے ہیں۔
اردو افسانہ تقسیم برصغیرکے بعد جہاں نئی زمین کی بازیافت کا مرحلہ طے کرتا ہے وہاں فسادات کو بھی موضوع بناتا ہے۔ اور پھر جلد ہی خواب ٹوٹنے سے ایک نوحہ کی سی کیفیت نظر آنے لگتی ہے اور ملامت کا احساس پیدا ہوتا ہے ۔ اس عہد کے افسانے کے مطالعہ سے یہ گمان ہوتا ہے کہ تقسیم کا عمل درست نہ تھا۔ تقسیم کا عمل ایک نظریے کے سبب عمل میں آئی جبکہ انسان بذات خود نظریوں سے بڑا ہوتا ہے ۔یہ علیحدہ بحث ہے کہ وہ پھر نظریے کی خاطر کیوں کٹ مرتا ہے۔
فسادات کے نتیجے میں پیدا ہونے والے موضوعات میں جب یکسانیت در آنے لگی تو افسانے نے اسلوب کی سطح پر نئی کروٹ لی اور اس اسلوبیاتی تبدیلی نے اس کے موضوعات بھی تنوع عطاکیا۔
پاکستان بننے کے بعد جلد ہی فوجی تسلط قائم ہوگیا اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی بے چینی کو افسانے میں تبدیلی کا نمایاں مظہر سمجھتے ہوئے ڈاکٹر اعجاز راہی لکھتے ہیں:۔
’’۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ درمیان سے اسے (افسانے کو) مارشل لاء نے اچک لیا چناچہ زمانہ ایک ڈگ بھر کر عصری مبادیات میں محسوس تبدیلیوں کا اعلان نامہ بن گیا اور جذبات ، احساسات اور زندگی کے تجربے ، نئے عصر میں سانس لینے لگے ۔ تب افسانے نے فکری سطح پر اور اسلوبیاتی سطح پر ایک ساتھ موڑ کاٹا اور نئی زندگی اور زندگی کے نئے سانچے ٹوٹ گئے ۔ نئے رویوں میں نیا انداز غالب آگیا۔‘‘
جدید افسانے نے خارج سے باطن اور باطن سے خارج کے سفر میں زندگی کی نئی جہات کو تلاش کیا۔اسلوبیاتی سطح پر پیدا ہونے والا ارتعاش دراصل علامتی افسانے کی تحریک کا پیش خیمہ بنا جو ۶۰ء کی دہائی میں زیادہ زور شور سے اٹھی۔ تاہم اس کے ڈانڈے گذشتہ دہائی کے افسانے میں بھی تلاش کیے جاسکتے ہیں۔ مثلاََ منٹو کا افسانہ ’پھندنے ‘ اور اس سے بھی ذرا پہلے احمد علی اور کرشن چندر کے ہاں علامت ، تجرید اور رمزیت کا پہلو نظر آتا ہے۔
ساٹھ کے لکھنے والوں میں انور سجاد نے باقاعدہ تجریدی علامتی اسلوب کو اپنایا ۔ پھر ان کے ساتھ خالدہ حسین ، رشید امجد ، احمد ہمیش ، سمیع آہوجہ اور اعجاز راہی وغیرہ بھی شامل ہوگئے۔ ۷۰ کی دہائی تک آتے آتے اس فہرست میں چند مزید ناموں کااضافہ ہوگیا۔ جن میں شمس نغمان ، نجم الحسن رضوی ، احمد جاوید ، احمد داؤد ، حیدر قریشی اور بہت سے دوسرے افسانہ نگار شامل ہیں۔
افسانہ نگاروں کی یہ نسل ان افراد پر مشتمل ہے جنھوں نے تقسیم کا منظر تو شاید شعور کی عمر میں نہیں دیکھا البتہ پاکستان کے دگرگوں حالات کا مشاہدہ بڑی باریک بینی سے کیا۔
۶۰ء کے عشرے میں جنم لینے والی ’’نئے افسانے ‘‘ کی تحریک سے نیا افسانہ جوں جوں مقبول ہوتا گیا اس میں اس میں اسلوب سازی کے نئے تجربات میں بھی اضافہ ہونے لگا اور بیشتر افسانہ نگاروں نے اپنے اپنے انداز میں زبان کا ایک نیا نظام وضع کرنے کی کوشش کی ۔ شاعری میں اسی عہد میں نئی لسانی تشکیلات کا شور بپا تھا مگر افسانے کی زبان شروع سے ہی سادہ تھی البتہ اس میں علامتی بیانیہ کا عنصر بعد ازاں غالب آگیا۔ اس دور میں اسلوب سازی میں علامت ، تجرید اور تمثیل کے استعمال کے علاوہ منظر کشی ، فضابندی اور ماحول سازی سے بھی کام لیا گیا ۔ یہ امر واضح ہے کہ ہر لکھنے والے کا اسلوب اپنا ہوتا ہے گو کہ نئے لکھنے والوں میں نمایاں فرق اسلوب کی سطح پر نمودار ہوا۔
گذشتہ افسانے میں خارج سے باطن اور باطن سے خارج کی تلاش کا رحجان غالب تھا جبکہ جدید افسانے میں باطن کو ہی کھوجنے کا عنصر زیادہ نمایاں ہوا۔ باطن کی تلاش اور خارج سے کٹ کر جینے کی روائیت اردو ادب میں صوفی ازم سے جڑی ہوئی ہے ۔ گیان دھیان میں گم صوفی جہاں خارجی علائق سے متعلق نہیں ہوتا وہاں اپنے اندر کہیں گم ہوتا ہے۔جبکہ باطن کی کھوج مذہبی تجربے سے جڑی ہوتی ہے اور وحدانیت کا مذہبی تجربہ اس کے لیے زیادہ سود مند ہوتا ہے کیونکہ کثرت خدا کے تجربہ میں بعض اوقات خدا ٹھوس شکل میں خارجی سطح پر موجود ہوتا ہے جبکہ وحدانی تجربہ میں خدا جتنا خارجی مظاہر میں نمود پذیر ہوتا ہے اس سے کہیں زیادہ باطن کی گہرائیوں میں اپنا جلوہ دکھا رہا ہوتا ہے۔
۶۰ ء اور ۷۰ء کے عشرے میں جہاں دیگر افسانہ نگار خارجی حقائق سے دلبرداشتہ ہو کر باطنی تجربہ کو کہانی میں وقوعہ بنارہے تھے وہاں حیدرقریشی خارج سے کٹ کر گیان دھیان کے فلسفے کو عمل میں لا کرکہانی کی نئی جہت کی تلاش میں مگن تھا۔
حیدرقریشی کا بنیادی فلسفہ ’ہمہ اوست‘ ہے ۔ وہ کائنات اور دیگر تمام مظاہر کو ایک بڑے نامیاتی کل کا جزو مانتے ہیں۔ یہاں اس امر کی وضاحت ضروری ہے کہ میں نے ’جزو‘ کہا ہے عموماََ وحدۃالوجود کی تعریف کرتے ہوئے بعض دانشور ’ایک بڑے کل کے حصے‘ خیال کرتے ہیں ۔ ’حصہ‘ ہونے سے وجود کی وحدانیت ختم ہوکر رہ جاتی ہے ۔ جبکہ ’جزو‘ اس کل کا ایسا حصہ ہوتا ہے جو دوبارہ اپنی جگہ پر قائم ہوسکتا ہے۔
حیدر قریشی کا نظریہ حیات یہ ہے کہ کائنات ایک ’کل‘ کی حیثیت سے وجود رکھتی ہے گویا وہ تمام اشیاء میں وحدت کی کارفرمائی کو بنیادی عنصر خیال کرتے ہیں۔
وحدۃالوجود کا یہ تصور ہند سے فارس اور فارس سے اسلام کا حصہ بنا ہو یا صوفیا کے باطنی تجربہ کی اختراع ہو یہ امر طے شدہ ہے کہ اس نے حیات انسانی پر متنوع اثرات مرتب کیے ہیں۔
برصغیر کے زرعی سماج میں داستان کا رواج عام ہوا تو اس میں بھی اسی صوفیانہ تجربہ کی کارفرمائی زیادہ دکھائی دی۔ ’ہمہ اوست‘ کا نظریہ داستانی ادب کا حصہ تو تھا ہی اس نے اردو شاعری پر بھی اپنے دیرپا اثرات چھوڑے آج کے جدید شعرا کے ہاں بھی یہ نظریہ اہم نظریاتی سطح تک پایا جاتا ہے ۔ جبکہ حیدرقریشی کے ہاں اس نظریہ کے سبب سے داستانی عنصر نمایاں ہے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ان کے اسلوب میں داستانی عناصر زیادہ ہونے کی وجہ سے نظریہ ہمہ اوست در آیا ہو۔ محسوس ہوتا ہے کہ دوسری بات ہی زیادہ قرین قیاس ہے کیونکہ داستانی طرز بیان ان کی کہانیوں کا خاص وصف ہے۔
مثلاََ اس مجموعے کی دوسری کہانی ’’گلاب شہزادے کی کہانی‘‘گو کہ جدید عہد اور اس کی منافقتوں یا ضروریات زندگی کی تلاش اور زیادہ سے زیادہ اشیا کو اپنے تصرف میں لانے کی جدوجہد کے نتیجے میں پیداشدہ منافقتوں کا اظہار کرتی ہے مگر اپنے داستانوی رنگ اور بیان کے حوالے سے کسی قدیم منظر نامہ کا حصہ لگتی ہے۔
۶۰ اور ۷۰ ء کی دہائی میں جب ابلاغ اور اظہار پر مختلف سطح کی پابندیاں عائد تھیں اور فنکار کے مسدود ہوکر رہ گئے تھے تو انھوں نے تخلیقی اظہار کی نئی راہیں تلاش کیں اور یہ تلاش جہاں جملہ سازی اور کہانی میں تجرید کی سطح پر لے گئی وہیں وقوعہ کا اظہار بھی اسی تجربہ میں ہونے لگا۔
حیدرقریشی کا نمایاں وصف مذہبی اساطیر کو کہانی کا حصہ بنا کر ان کے ذریعے سے سماجی مسائل کا اظہار ہے۔ ان کی کہانیوں کا داستانوی رنگ تقاضا کرتا ہے کہ موضوعاتی سطح پر ایک ایسا تلمیحاتی و استعاراتی نظام وضع کیا جائے جو انسان کے لیے نہ صرف یہ کہ تاریخی حیثیت کا حامل ہو بلکہ عصر حاضر میں اس کی اہم ضرورت بھی ہو۔ مذہب کسی معاشرت کا فعال حصہ ہوتا ہے ۔ گو کہ ابھی تک یہ طے نہیں ہو سکا کہ ثقافت مذہب کے بطن سے پھوٹتی ہے یا مذہب مقامی ثقافت میں ڈھل جاتا ہے۔
’’ایک کافر کہانی‘‘ اور ’’حوا کی تلاش‘ ‘ میں مکمل مذہبی استعارات و تلمیحات کا استعمال ہے۔ ’’ایک کافر کہانی‘‘ دراصل وحدۃالوجودی فلسفے کی مکمل عکاس ہے کہانی کا ر مذہبی تجربے کو کسی خارجی مظہر کے طور پر نہیں لیتے بلکہ اسے تہذیبی ضرورت سمجھتے ہیں اور اسے معاشرتی مسائل کے سدباب کا واحد ذریعہ بھی خیال کرتے ہیں۔یہ کہانی دراصل صوفیانہ تجربے سے گذرنے والے شخص کی کہانی ہے البتہ موضوعاتی سطح پر یہ کہانی اپنی دلچسپی آخر تک برقرار رکھے ہوئے ہے۔ اس کہانی کا بنیادی موضوع انسان کی اہمیت کا ہونا ہے ۔ کہ کائنات میں سب سے اہم انسان ہے اگر اس نے خود کو شناخت کرلیا ہے تو کعبہ اس کے استقبال کو خود چل کر آئے گا۔ ٭ اور جو اپنے وجود کی شناخت ظاہر اور خارج سے چاہتاہے وہ چاہے زمین پر قدم قدم پر سجدے کرتا جائے اسے وہ مقام نہیں مل سکتا۔خدا تک پہنچنے کے سفر میں صوفی جب باطنی تجربے سے گذرتا ہے تو اسے احساس ہوتا ہے کہ وہ جہاں تک پہنچنے کی تگ و دو کر رہا ہے وہ اس کے اندر ہی ہے۔
’’عرش کیا ہے؟
فرمایا ’’میں ہوں‘‘
’’لوح و قلم کیا ہے ‘‘
فرمایا’’میں ہوں ‘‘۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
تب فرمایا
’’جو شخص حق میں محو ہوجاتا ہے اور جو کچھ حق ہے اگر ایسی صورت میں وہ سب کچھ ہو تو کوئی تعجب نہیں ۔‘‘
(ایک کافر کہانی)
اسی طرح اس کہانی میں ایک اور جگہ پر جب صوفی کو عرفان ذات ہوجاتا ہے اور وہ مستانہ وار رقص میں محو ہوجاتا ہے تو کہتا ہے
’’میں خدائے وقت ہوں
مصطفائے وقت ہوں ۔‘‘
(ایک کافر کہانی)
البتہ بعض افراد کی عقل ان حقائق کی رسائی نہیں کرسکتی یا پھر تعصب کی کارفرمائی ہوتی ہے مگر افسانہ نگار کا تجزیہ بالآخر منصور حلاج کا تجربہ بن جاتا ہے ۔ جبکہ صوفی کے لیے فنا فی اللہ کا مقام ہوتا ہے۔ جہاں وہ اور اس جیسے دیگر صوفی ایک ہی کفن میں زندگی بسر کر رہے ہوتے ہیں ۔ کفن میں زندگی بسر کرنا سے یہاں مراد یہ ہے کہ وحدۃالوجودی صوفی اس ظاہری دنیا کو قبر اور خدا سے وصال کو ہی اپنی زندگی سمجھتا ہے ۔ کفن یہاں پاکیزگی اور حقیقت تک رسائی کی علامت ہے ۔ سفید کفن بے داغ کردار کی علامت بنتا ہے اور ایک ہی کفن میں سب کا ہونا ہی دراصل وصال ہے۔
حیدرقریشی ماضی کے واقعہ کونئے عہدکا اظہاریہ بنانے میں مہارت رکھتے ہیں ۔
’’گلا ب شہزادے کی کہانی ‘‘ تجریدی و استعاراتی کہانی ہے مگر اس کا تعلق اس موجودہ عہد سے ہے اور ساتھ ساتھ یہ کہانی ماضی کی بازیافت بھی معلوم ہوتی ہے۔ اس کہانی میں شہزادے جاہ و جلال کے حصول کی خاطر اپنے ہی بھائیوں کا خون کر دیتے ہیں تو یہ واضح ہوتا ہے کہ زیردستوں پر ہمیشہ زبردست حکمرانی کرتے ہیں۔ اور حکم عدولی کا مطلب موت ہوتا ہے یہ افسانہ ’’قصہ چہار درویش‘‘ کی یاد تازہ کرتا ہے اس کہانی کا تانا بانا چاردرویشوں ہی کے گرد بنا گیا ہے پہلے درویش کا کردار کہانی کے مکمل ہونے پر عیاں ہوتا ہے کہ وہ خود غرض تھا اور مال و دولت کا حریص بھی۔ جو باقی درویشوں کو ان کے ماضی کی بازیافت سے احساس گناہ میں مبتلا کردیتا ہے اور وہ حقیقت کی تلخی سے آشنا ہوتے ہی موت قبول کرلیتے ہیں ۔ گلاب کا پھول یوں تو حسن کی علامت ہے مگر اس افسانے میں اسکی معنویت بطور تلخ سچائی کے سامنے آتی ہے۔
دوسرا درویش اپنی بیوی کی خوبصورتی اور جنسی کشش کا گرویدہ ہو کر اس کا غلام بن جاتا ہے گویا ایک عورت اپنی خوبصورتی سے ایک مرد کو گدھا بنا دیتی ہے اس درویش کی کہانی اس المیے کا عملی اظہار ہے۔ یوں پھر ایک دن کوئی اسم اس کے ہاتھ آتا ہے اور جس خووبصورت عورت نے درویش کو گدھا بنایا ہوتا ہے وہ اسے گھوڑی بنا دیتا ہے گھوڑی جنسی علامت ہے وہ اسم کیا ہے ؟ جس سے یہ کایاکلپ ہوجاتی ہے ۔ کہانی کا منظر نامہ دیکھنے سے یہ پتا چلتا ہے وہ اسم اس خوبصورت عورت کی جنسی کشش ہے جسے درویش استعمال کرتا ہے وہ خود کہتا ہے :۔
’’پھر ۔ ۔ ۔ جب میری بیوی اپنی پہلی تنخواہ لائی تھی تو اس کا چہرہ خوشی سے گلنار ہورہا تھا ۔ اس نے اپنی آدھی تنخواہ گھر کے اخراجات میں ڈال دی اور بقیہ آدھی بچوں کے مستقبل کے لیے بنک میں جمع کرادی‘‘
یوں اب غیر محسوس طور پر درویش کا کردار بدل جاتا ہے اور وہ گدھے سے گھوڑی کا مالشیا بن جاتا ہے اس کی ٹہل سیوا کرتا ہے ۔ اور سواری کے شوقین افراد کو پیش کرتا ہے گویا خوبصورتی کا یاک ہی معنی افسانہ نگار دکھاتا ہیکہ وہ یعنی حسن طوائف ہے۔ دراصل یہ سماج کا رویہ ہے جسے افسانہ نگار من و عن دکھا رہا ہے کہ عورت خود بھی محض جنسی آسودگی کا ذریعہ بننے کے اپنے لیے اور کوئی کردار بسا اوقات پسند نہیں کرتی۔ البتہ جب درویش کو سچ کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اسے احساس ہوتا ہے کہ وہ گدھا تو اس صورت میں بھی بنا رہا ہے تو اسے موت کا تحیر آن گھیرتا ہے۔ تیسرا درویش جو خاندانی منصوبہ بندی کا حامی ہے اور اپنے پیشے کے مطابق انسانی کھوپڑیوں کا معائنہ کرتا ہے تو دوبارہ زندگی کی مثبت اقدار کی طرف لوٹتا ہے اور ایک بچے کی خواہش اسکے دل میں مچلتی ہے اور وہ ضد کرکے اپنی بیوی کو بھی ایک بچہ پیدا کرنے پر آمادہ کرلیتا ہے۔البتہ اس کی موت کا سبب کیا ہے؟ کہانی کار واضح اشارہ نہیں دیتا ممکن ہے وہ جو پہلے کنڈوم استعمال کرتا تھاان کی وجہ سے اب جنسی طور پر اس قابل نہ رہا ہو کہ بچہ پیدا کرسکے اور نئے پیدا ہونے والے بچے کو اپنانا اس کے لیے ممکن نہ رہا ہو ۔ گویا اس کی موت کا بھی بنیادی سبب سچ کا سامنا ہے۔ البتہ کہانی کے پردوں میں مستور ایک حقیقت اور بھی ہے اور اس کا سامنا ہمیں چوتھے درویش کی کہانی کے بعدہوتا ہے ۔پہلے دونوں درویشوں کاانجام دیکھ کر وہ چوکنا ہوجاتا ہے ۔ چوتھا درویش دراصل پہلے درویش کا بھائی بند ہی معلوم ہوتا ہے کہ دونوں کا مقصد دولت کا حصول ہے۔چوتھا درویش دولت تو حاصل کرلیتا ہے مگر اس کی بڑی بھاری قیمت چکاتا ہے۔ کہ اپنے سگے بھائی کو قتل کردیتا ہے ۔ یوں وہ بھی سچ کا سامنا کرتے ہوئے موت کاشکار ہوجاتا ہے۔
’’گلاب شہزادے کی کہانی اس لیے بھی ایک تفصیلی جائزے کی متقاضی تھی کہ یہ کہانی حیدر قریشی کی نمائندہ کہانیوں میں سے ہے۔ اور ان کے فنی اسلوب کا مکمل اظہار بھی اسی کہانی میں ملتا ہے۔ کہانی کا اندا ز داستانی ہے اور روائتی شہزادوں کی طرح کا ہی منظر نامہ بھی ہے۔ پہلے درویش کی مکاری ( لفظ ’مکاری‘ افسانہ نگا ر پہلے درویش کے لیے صرف ایک بار استعمال کرتا ہے) باقی درویشوں کی موت کا باعث بنتی ہے۔ کہانی کا بنیادی استعارہ ’گلاب کی قلم ‘ ہے گلاب جہاں حسن کی علامت ہے وہیں جوش، ولولہ اور محبت کی گرمجوشی کا استعارہ بھی ہے۔ جسے کام میں لاکر افسانہ نگار پہلے درویش کا کردار بنتا ہے۔ پانی پینے کے بعد موت مرنا بظاہر پانی کی جگہ زہر کا استعمال لگتا ہے ۔ممکن ہے ایسا ہو مگر کہانی کی کوئی علامت ایسا سمجھنے میں مدد نہیں دیتی ۔ دراصل پانی موت کا عمل آسان کرنے کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ اور پھر پہلے درویش کی موت کہ جب وہ سارے صحرا کا جو کہ معدنیات سے بھرا پڑا ہے ، مالک ومختار بن جاتا ہے دراصل مکافات عمل ہے۔ اور یوں افسانہ نگار کا روائتی داستانی انداز اوراپنے پورے اسلوب کے ساتھ تکمیل کو پہنچتا ہے ۔ اور کہانی بھی اپنے منطقی انجام تک پہنچ جاتی ہے کہ جہاں ’’شر‘‘کی قوتوں کو نابود ہوجانا ہوتا ہے۔
یہ کہانی یا اس طرح کی دیگر کہانیاں اپنے جلو میں ایک مکمل تاریخی حقیقت بھی لے کر چلتی ہیں ۔ جیسا کہ ڈاکٹر قمر رئیس حیدر قریشی کی کہانیوں پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :۔
’’یہ کہانیاں علامتی ہیں لیکن معاصر کہانیوں سے الگ اور انوکھی ہیں ۔ یہاں تاریخ گنگناتی ہے انسانی تہذیب سرگوشیاں کرتی ہے اور ان کی کوکھ سے آج کے جلتے ہوئے مسائل پھنکارتے ہوئے نکلتے ہیں۔‘‘ (ڈاکٹر قمر رئیس ۔ تاثرات مطبوعہ مجموعہ ’افسانے‘ از حیدر قریشی)
حیدر قریشی کی کہانیوں کی بنیادی الجھن حب جاہ ہے اور وہ نہ صرف اس پر طنز کرتے ہیں بلکہ اس کے نتائج سے باخبر بھی کرتے جاتے ہیں۔ مثلاََ ’’گلاب شہزادے کی کہانی‘‘ کا پہلا درویش جس دولت کے حصول اور اس پر تنہا ملکیت کا دعویٰ رکھنے میں باقی درویشوں کی جان سے کھیل جاتا ہے وہ اسی دولت کے کنویں میں گر کر مرجاتا ہے۔ اسی طرح ’’بے ترتیب زندگی کے چند ادھورے صفحے‘‘بھی ایسا افسانہ ہے کہ افسانے کا دولت مند کردار بالآخر اپنے منطقی انجام تک پہنچ جاتا ہے اور حق اپنے حقدار کو مل جاتا ہے۔اس کہانی میں پانی کے ایک قطرہ کی مثال کے ساتھ جبر اور اختیار کے مسئلے کو بھی نئے پیرائے میں ظاہر کیا گیا ہے۔
حیدر قریشی نے اپنی کہانیوں کا خمیر اسی معاشرے کی سماجی زندگی سے اٹھایا ہے اور اپنی معاشرت کی بھرپور عکاسی کی ہے ۔ انھوں نے کہانی کا خمیرایسے سلگتے مسائل سے اٹھایا ہے کہ جنھیں کوئی اچھا خاصا فنکار بھی بمشکل ہی نبھا سکے ۔ دراصل اس طرح کے موضوعات کو کہانی کا حصہ بنانا کوئی مشکل امر نہیں ہے بلکہ ان موضوعات کو بجائے خود کہانی بنانا بہر حال مشکل کام تھا۔مثلاََ ’’غریب بادشاہ‘‘ ایک یک جہتی موضوع تھا۔ اور مزید مشکل یہ بھی تھی کہ کہانی کے کرداروں کے مابین خشک اقتصادی نظریات پر بحث ہوتی ہے اور بظاہر تاریخ بھی کرداروں کی گفتگو کا موضوع ہے جبکہ افسانے میں کہانی کا موضوع بھی روایئتی ہے کہ ایک لڑکا اپنے فطری تقاضوں سے مغلوب ہو کر اپنے جیسی جوان لڑکی سے محبت کرتا ہے تاہم لڑکی کے دل و دماغ میں ایسی محبت کا کوئی اکھوا نہیں پھوٹتا بلکہ وہ محبت تو اس لڑکے سے کرتی ہے مگر اس محبت میں جذبات بالکل مختلف ہیں۔ حیدر قریشی نے اس روائتی کہانی کو غیر روائتی انداز میں آگے بڑھایا ہے اور جب وہ لڑکی اس لڑکے کو راکھی باندھتی ہے تو ایک دم سے بیان ہوچکی ساری کہانی اپنی بازیافت کراتی ہے اس آخری مرحلے پر کہانی میں کہانی کا حصہ بنتی ہوئی اقتصادی ، تاریخی اور ثقافتی بحثیں قاری کو ایک نئے ذائقے سے روشناس کراتی ہیں ۔ اور وہ ذائقہ ایک ایسی اذیت ناکی کا ہے جسے کوئی بیان تو نہیں کرسکتا البتہ کبھی کبھار اس پر ایک دکھ بھرا قہقہ لگا دیتا ہے۔ اس کہانی میں جہاں جدید اقتصادی مباحث کو زیر بحث لایا گیا ہے وہیں قدیم اساطیر کی بھی جھلک نظر آتی ہے اور اساطیری موضوعات کے ذریعے کہانی کہنا حیدر قریشی کا اسلوبیاتی سطح پر بہت عمدہ وصف ہے۔ ایسی ہی رائے ڈاکٹر فہیم اعظمی ’’روشنی کی بشارت‘‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے:۔
’’حیدر قریشی الہامی قصص ، اساطیر ، ذاتی اور معاشرتی مسائل کو آپس میں مدغم کرکے ایک ایسا آئینہ تخلیق کرتے ہیں جس میں پیدائش سے موت تک زندگی کا عکس نظر آتا ہے۔‘‘ (ڈاکٹر فہیم اعظمی تاثرات مطبوعہ کتاب’’ افسانے‘‘ از: حیدر قریشی)
اساطیری یا مذہبی تلمیحاتی کرداروں سے کہانی کی تشکیل اور آج کا سچ کہانی کے کرداروں کے مکالموں سے بیان کرانا ان کا خاص وصف ہے ۔ وہ تاریخ سے ، زمینی تمدن اور ثقافت سے بڑی خوبصورتی سے کہانی کو سجاتے ہیں اور اپنے عصر کے مسائل کا اظہار بڑی فنی چابکدستی سے کرتے ہیں ۔
ڈاکٹر فہیم اعظمی ان کہانیوں کے اسی اساطیری پہلو پر تبصرہ کرتے ہوئے مزید لکھتے ہیں کہ:۔
’’حیدر قریشی فلسفیانہ ، مذہبی اور اخلاقی قدروں پر بھی رائے دیتے ہیں تو کسی غیر متعلق
یا خارجی خیال آرائی کا احساس نہیں ہوتا اور سب کچھ کہانی کا حصہ معلوم ہوتا ہے۔‘‘
(ڈاکٹر فہیم اعظمی تاثرات مطبوعہ کتاب ’’ افسانے‘‘ از حیدر قریشی)
حیدر قریشی کے ہاں سماجی جبر اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی گھٹن اور اس گھٹن سے جنم لینے والے خوف کا اظہار المیہ کی صورت اختیار کرلیتا ہے ۔ ان کے افسانوں میں طنز کی کاٹ گہری ہے۔البتہ کرداروں کو عدم تحفظ کا خوف زندگی کی گہما گہمی سے قدرے دورکردیتا ہے ۔ دراصل اس دوری کو حیدر قریشی زندگی کی آلائشوں سے دوری کے طور پر لیتے ہیں۔ اور جلد ہی خارج سے ان سہم کر آئے کرداروں کے باطن میں روشنی کی ایک نئی کرن جگمگا دیتے ہیں اور انھیں زندگی کے ایک نئے جادے کے ہمراہ کردیتے ہیں۔
دیوندراسر اپنے مضمون میں حیدر قریشی کی کہانیوں پر رائے دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:۔
’’حیدر قریشی کی کہانیاں ایک نئی تخلیقی روائیت کی شروعات ہیں جو واقعاتی تسلسل اور کہانی پن پر مبنی ہو کر سوال ، شک اور فکر کی بنیاد پر کہانی کا شفاف شیشہ گھر تعمیر کرتی ہیں ۔ اس شیشہ گھر میں ہم داخل ہونے کے لیے آزاد ہیں ۔ لیکن اس سے باہر نکلنے کے راستے بند ہیں ۔ صرف ایک چھوٹا سا روشن دان کھلا ہے ہمارے دل کا۔ ۔ ۔ جس کے ساتھ ساتھ چل کر ہم وقت کے اس نقطہ پر پہنچتے ہیں جہاں سچ ہمارا منتظر ہے ۔ جہاں سچ سے ہم معانقہ کرتے ہیں‘‘
(دیوندراسر ۔ ’’روشنی کے شیشہ گھر میں‘‘ مطبوعہ ماہنامہ ادب لطیف لاہور)
انسان دوستی کا پرچار اور انسان کو درپیش ایٹمی ہلاکتوں کا خوف ، سماجی طبقاتی ناہمواری اور انسانوں کی انسانوں کے ہاتھوں بے توقیری ، منافقت ، جھوٹ اور انسانی تعلقات کی ٹوٹ پھوٹ جیسے بے شمار موضوعات ان کے افسانوں کا حصہ ہیں۔
حیدر قریشی کا نمایاں وصف یہ ہے کہ ان کی تمام کہانیاں جہاں اپنی الگ الگ شناخت کراتی ہیں وہاں ان میں ایک ایسی وحدت بھی موجود ہے جو ایک نظریاتی اکائی بھی تشکیل دیتی ہے۔ مذہب کی من مانی یا غلط تعبیر کے نتیجے میں پیدا تنگ نظری سے اوپر اٹھ کر صوفیا کی پھیلائی ہوئی انسان دوستی کا نظریہ ہی وہ اکائی ہے جو ان افسانوں میں سے جھلکتی ہے۔حیدر قریشی اس انسان دوستی کو انسان کے تمام سماجی اور طبقاتی مسائل کا حل گردانتے ہیں ۔ جہاں ’’تو‘‘ اور ’’میں‘‘ کی شناخت ختم ہوجائے اور انسان ’’ہم‘‘ کے شعور سے آشنا ہوجائے۔
دیوندراسر اس انسان دوستی کے رویے کی نشاندہی ان الفاظ میں کرتے ہیں:۔
’’۔ ۔ ۔ ۔ راستہ ہم جو بھی اپنائیں ،گیان کا دھیان کا بھگتی کا ۔ ۔ ۔ ۔ حیدر قریشی کی کہانیاں ان مختلف راستوں سے گذرتی ہیں اور انجام کار اس نقطہ پر پہنچتی ہیں جہاں تمام ثقافتیں ، تمام انسان ایک ہوجاتے ہیں۔‘‘(دیوندراسر ۔ ’’روشنی کے شیشہ گھر میں‘‘ مطبوعہ ماہنامہ’’ ادبِ لطیف‘‘ لاہور)
بہتر ہوگا کہ حیدر قریشی کی کہانیوں کا تجزیہ کرتے ہوئے موضوعاتی حوالے کے ساتھ ساتھ ان کی کہانیوں کی فنی نزاکتوں کو بھی پرکھ لیا جائے۔کہ کسی بھی تخلیق کا رکا اسلوب اسکی اپنے فن پر گرفت سے ہی متعین ہوتا ہے۔
فنی اعتبا رسے اس مجموعے کی اکثر کہانیاں سادہ بیانیہ انداز میں لکھی گئی ہیں۔ علامتی اسلوب اس بیانیہ کو نشیب جاتی ندی کی مانند تیز کردیتا ہے ۔ استعاروں کا استعمال خوبصورت ہے ۔ فنی اعتبار سے وہ ایسا استعارہ یا تلازمہ نہیں برتتے جو قاری کے لیے الجھن کا باعث بنے ۔ گو کہ وہ استعارہ اپنے اندر معانی کی کئی جہات لیے ہوتا ہے۔ اسی طرح علامت بناتے وقت جہاں وہ تاریخی واقعات کا سہارا لیتے ہیں وہیں جدید عہد کی مشینی زندگی بھی ان کے ہاں علامت کا روپ دھار لیتی ہے۔
زبان کا استعمال حیدر قریشی کی کہانیوں میں سادہ ، رواں ، اور مترنم ہے ۔ بعض اوقات مکالمہ نثری نظم کا سا ذائقہ دے جاتا ہے۔ البتہ وہ زبان کے استعمال میں کوئی تجربہ نہیں کرتے۔ اس کی بنیادی وجہ ان کے اسلوب میں تاریخی اور اساطیری موضوعات کا کثرت سے ہونا بھی ہوسکتی ہے ۔ چونکہ زبان مسلسل ارتقا پذیر عمل ہے اور ہر آن اس میں تغیر اور تحرک کی صورتیں بنتی بگڑتی رہتی ہیں مگر جب کوئی بھی زبان اپنے بنیادی ڈھانچے طے کرلیتی ہے اور ایسا متواتر تاریخی عمل میں ممکن ہوتا ہے تو اس زبان میں ارتقا کا عمل سست پڑجاتا ہے یا وہ غیر محسوس انداز میں اثر انداز ہورہا ہوتا ہے۔ممکن ہے حیدر قریشی اب اس ارتقا کے عمل کو تکمیل کی صورت میں دیکھ رہے ہوں۔ اور ایک صورت یہ بھی ہے کہ وہ کہانی کی زبان میں کوئی نیا تجربہ کرتے دکھائی نہیں دیتے۔ ایک اور اہم کوشش جس میں ان کے شعور کا دخل زیادہ دکھائی دیتا ہے وہ یہ ہے کہ حیدر قریشی نئی رائج ہونے والی لفظیات کو اپنے تاریخی ورثہ میں موجود لفظیات پر ترجیح نہیں دیتے ۔اس کی کئی مثالیں ان کی کہانیوں میں جابجا مل جاتی ہیں مگر اس کی سب سے عمدہ مثال افسانہ’’ حوا کی تلاش ‘‘میں ایٹم بم کی تباہی کا ذکر کرتے ہوئے لفظ’’ایٹم‘‘ اور’’حطم‘‘ جیسے الفاظ کی ہے ایسی اور بھی کئی عمدہ مثالیں موجود ہیں ۔
حیدر قریشی کے اسلوب میں کہیں کھردرا پن محسوس نہیں ہوتا یعنی کہانی رواں دواں کہتے ہیں ۔ اور اسکی منطقی ترتیب کو بدل کریا واقعات کی سچائی کی غیرحقیقی انداز میں پیش کش سے قاری کو چونکا دینے کا غیر تخلیقی رویہ اختیار نہیں کرتے۔گو کہ افسانہ ’’غریب بادشاہ‘‘ میں ایسا رویہ محسوس ہوتا ہے کہ افسانہ نگار کہانی کے اختتام پر ایک دم اسے ایک نیا موڑ دے دیتا ہے دراصل یہ کہانی کی موضوعی ضرورت تھی کہ آخر میں کسی چونکا دینے والے وقعہ پر اس کا اختتام کیا جاتا۔ تاہم اگر بنظر غائر دیکھا جائے تو کہانی کار سارے واقعے میں ایسے نشانات دیتا جاتا ہے کہ جو اس کہانی کے اپنے منطقی انجام سے لگا کھاتے ہیں۔ البتہ قاری کو ایسا اس لئے محسوس ہوتا ہے کہ وہ کرداروں کے دلچسپ مکالموں میں اس قدر منہمک رہتا ہے کہ اسے کہانی کے انجام کی خواہش ہی نہیں رہتی۔ سو وہ تب چونکتا ہے جب کہانی ایک بند گلی کا موڑ کاٹتی ہے اور قاری واقعات کی منطقی ترتیب کی طرف پھر سے لوٹتا ہے۔ایک اور بات یہ بھی اہم ہے کہ اس کہانی کے کرداروں کے ساتھ بھی ایک مخصوص نفسیاتی عارضہ ہے کہ اس کہانی کا ہیرو یا مرکزی کردار محبت کے صرف ایک رخ سے آگاہ ہے اور جب اس پر دوسرا رخ آشکار ہوتا ہے تو وہ خود کو ایک دم سے بند گلی میں پاتا ہے۔ اور محبت کے ایسے معنوں کاشکار ہونے سے جن کی وہ توقع نہیں کررہا تھا چونکنے کا عمل جنم لیتا ہے اسے ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ کہ قاری اور کہانی کا مرکزی کردار فطری محبت کے اس سارے عمل میں خود کو ناکم سمجھتے ہوئے غم کے ناگہانی جذبے سے دوچار نہیں ہونا چاہتے۔
حیدر قریشی کے افسانوں میں ان کا ایک نمایاں وصف قرآنی آیات کے استعمال کا سلیقہ ہے ۔ وہ آیات کا استعمال برمحل اور پراثر انداز میں کرتے ہیں۔ البتہ وہ اپنے فکری ماخذ کے طور پر قرآن اور اسلام کوضابطہ حیات تسلیم کرنے کے باوجود تاریخی اعتبار سے اسی زمین سے جڑے ہوئے ہیں۔ یعنی وہ مذہب کے روحانی پہلوؤں کے ساتھ ساتھ زمینی تمدن کو بھی انسانی حیات کی بقا اور ترقی کے لیے ضروری سمجھتے ہیں ۔
’’قدیم کلچر آج بھی کسی نہ کسی روپ میں ہمارے ساتھ ہے۔ جذباتی نعرے بازی کرکے اس سے فرار حاصل نہیں ہوسکتا۔ ہماری پیدائش سے لے کر شادی، بیاہ اور مرگ تک کی رسومات پر قدیم ہندوستانی کلچر کی چھاپ اتنی گہری ہے کہ کھرچنے سے بھی ختم نہ ہو۔‘‘
’’یہ ٹھیک ہے۔ لیکن اب ہماری اپنی تہذیب کا رنگ جمتا جارہاہے، اور ہماری اپنی تہذیب اس سے زیادہ خوبصورت ہے‘‘
’’یہ تہذیب بھی اس کلچر کے اثرات سے خالی نہیں،کلچر گم نہیں ہوتا بلکہ قدرے مختلف روپ میں پھر سامنے آجاتاہے۔‘‘
’’بابا!اس میں کلچر کاکیاکمال ہے۔ یہ تو دھرتی کا کمال ہے۔ جغرافیے کا کمال ہے۔ یہاں کی مٹی،یہاں کے دریا، پہاڑ، کھیت، جنگل، آب و ہوا، انہیں سے ہی تمہارے قدیم کلچر کی تشکیل ہوئی تھی اورانہیں عناصر ہی سے ہمار ی تہذیب بن رہی ہے اس میں جغرافیے کے ساتھ ساتھ ہماری ہسٹری بھی شامل ہوگئی ہے‘‘ (افسانہ’’غریب بادشاہ‘‘سے اقتباس)
’’میں تمہاری وجہ سے جنت بدرہواتھا مگر اب میں تمہاری وجہ سے زمین بدر نہیں ہوسکتا‘‘
(افسانہ ’’اندھی روشنی‘‘سے اقتباس)
’’ لڑکپن میں ایک بار اُسے اپنے باپ کے ساتھ ایک پہاڑ کی چوٹی پر جانے کا موقعہ ملا۔پہاڑکی چوٹی پر پہنچ کر اس نے نیچے دیکھا تو خوفزدہ ہوگیا۔وہ بلندی اور پانی دونوں سے ڈرنے لگا۔ اسے زمین سے جڑے رہنے میں عافیت محسوس ہونے لگی۔‘‘(افسانہ’’گھٹن کا احساس‘‘سے اقتباس)
’’پچھلی بار میں دس سال بھٹکنے کے بعد اتھاکا پہنچاتھا، اس بار مجھے علم ہے کہ میں اس مدت سے کہیں پہلے اپنے اتھاکاپہنچ جاؤں گا۔ لیکن جیسا کہ میں نے شروع میں کہا ہے، میں وہ او ڈیسس ہوں جسے کوئی ہومرنصیب نہیں۔ اس لئے مجھے ہومر کے حصے کا کام بھی خود کرنا ہے ہومرکے برعکس میری پریشانی یہ ہے کہ میری دونوں آنکھیں سلامت ہیں۔اور مجھے کسی بادشاہ سے انعام و اکرام بھی نہیں لیناہے۔ آنکھیں کھلی ہوں تو ’’دیکھنے‘‘ کا عذاب جھیلنا پڑتاہے۔ مجھے ابھی یہ عذاب جھیلناہے پھر اسے رقم کرناہے۔ مجھے اندازہ ہے کہ اس کے بعد ایک قیامت ٹوٹ پڑے گی لیکن مجھے یقین ہے کہ اسی قیامت میں کوئی طوفانی لہریاشدید تھپیڑا مجھے اتھاکا پہنچادے گا جہاں میرے عوام کے علاوہ میری پینی لوپی بھی شدت سے میرا انتظار کررہی ہے۔‘‘(افسانہ’’۲۷۵۰ سال بعد‘‘سے اقتباس)
جدید سائنس نے انسانی زندگی پر دیرپا اثرات مرتب کیے ہیں۔ خصوصاََ تباہی اور بربادی پھیلانے والے ہتھیاروں نے انسانی زندگی کی بقا کو کئی اندیشے لاحق کردیے ہیں ۔ اور انسان اب معمول کی زندگی میں بھی کئی قسم کے خوف و خطرات میں خود کو بے بس محسوس کررہا ہے۔ حیدر قریشی کے افسانوں میں گو کہ زندگی خوف کی دبیز تہہ میں لپٹی نظر آتی ہے مگر وہ اس سے مایوس نہیں ہوتے اور ان کا بھروسہ زدگی کی بقا پر پختہ ہے۔ حیدر قریشی اپنی کہانیوں میں درپیش حالات کی مماثلت ماضی کے ایسے ہی واقعات سے پیش کرکے زندگی کے ارتقائی عمل کو مہمیز دیتے ہیں اور امید کی لو ٹمٹماتی ہی سہی، روشن رکھتے ہیں۔ایسا ہی ایک افسانہ ’’حوا کی تلاش‘‘ ہے۔ اس کہانی میں ایٹمی جنگ کے بعد کے منظر اور خانہ کعبہ پر حملہ آور ابرہہ کے لشکر کی تباہی کی مماثلت بیان کی گئی ہے۔اور افسانہ نگار اپنے پرامید رویے کے باوجود ابابیلوں کے حملوں کے بعد رہ جانے والے کھائے ہوئے بھس کو ایٹمی جنگ کی پھیلائی ہوئی تباہ کاری سے کئی درجے بہتر خیال کرتا ہے۔ اور انسانیت کو ایٹمی جنگ کی تباہ کاری اور ہلاکت سے آگاہ کرتا ہے۔ اس افسانے کی اہم بات یہ ہے کہ افسانہ نگار کسی صحافتی مضمون کو اپنے دلکش اسلوب اور ایک تاریخی وقوعے سے مماثلت کی بنیاد پراسے محض مضمون بننے سے بچا لیتا ہے اور کہانی کی خوبصورت آمیزش سے اسے ایک پراثر افسانہ بنا دیتا ہے۔ ’’حوا‘‘ اس کہانی میں امید کا استعارہ ہے ۔ حوا کی علامت یوں بھی زندگی کے آغاز اور اس کی نشو و نما کے طور پر برتی جاتی ہے۔ اس افسانے کی ایک دلکش بات جس کا اجما لاََ ذکر پہلے بھی ہوا ہے وہ ’حطم‘ اور ’ایٹم‘ کی صوتی مماثلت ہے۔ یہ مماثلت نہ صرف یہ کہ صوتی اعتبار سے اہم ہے بلکہ ان الفاظ کی معنوی مماثلت بھی موجود ہے۔ اور ایسا کیوں ہے اس کا علم تو ماہرین لسانیات سے ہی لگایا جاسکتا ہے ۔تاہم یہ دونوں الفاظ اپنے درمیان صدیوں کی دوری رکھنے کے باوجود اپنے معانی میں واضح ہم آہنگی رکھتے ہیں۔ افسانہ نگار بڑی فنی چابکدستی سے ان الفاظ کی صوتی و معنوی مماثلت سے سے ان کے ہلاکت خیز اثرات کی وضاحت کرتا ہے اور زمین پر رینگتی زندگی کی بقا کی جدوجہد کی تصویر کشی کرتا ہے۔ ’حطم‘ کی وضاحت میں افسانے میں دی گئی قرآنی آیت کا ترجمہ دیکھئے۔
’’تجھے کیا معلوم ہے کہ حطم(ایٹم)کیا شئے ہے؟ یہ اللہ کی خوب بھڑکائی ہوئی آگ ہے جو دلوں کے اندر تک جا پہنچے گی تاکہ اس کی گرمی ان کو اور بھی زیادہ تکلیف دہ محسوس ہو۔‘‘ (حیدر قریشی مجموعہ ’’افسانے ‘‘
معیار پبلی کیشنز نئی دہلی)
جدید سائنس نے نہ صرف یہ کہ ایٹم کی تباہ کاری کا عبرت انگیز منظر دیکھا بلکہ اس نے اس کی تباہی کے مزید کئی اسرار بھی منکشف کیے ہیں۔ البتہ ’’حوا کی تلاش‘‘ افسانہ انسان ہی نہیں بلکہ کائنات کی تباہی کے خمیر پر دوبارہ زندگی کی طرف لوٹنے کی کہانی ہے۔اور یہ افسانہ اس امر کا اظہار ہے کہ اس کائنات کا اصل حسن تو زندگی میں ہی ہے۔ داستانی انداز سے آگے بڑھتی ہوئی کہانی دراصل اپنا علامتی اور تشبیہاتی نظام تو ماضی سے لاتی ہے کہ جو آسمانی صحیفوں سے عبارت ہے اور صحیفوں کے مضامین کو کمال مشاقی سے افسانہ نگار نے استعمال کیا ہے۔ کہ نہ صرف ان کی تخلیقی روح برقرار رہی ہے بلکہ وہ کہانی کا حصہ بھی معلوم ہوتے ہیں اور سارا منظر ایک خاص مذہبی و ثقافتی روائیت سے الگ بھی محسوس نہیں ہوتا۔ اس کہانی کی اہم خوبی یہی ہے کہ یہ مذہبی تمثیلوں کے سہارے سے ہی آگے بڑھتی ہے ۔ قیامت کے آنے کا بیان اور اس کا امکانی منظر نامہ اور اس کی ایٹم بم کی پیدا کردہ تباہی سے مماثلت اور پھر اسی جنت ارضی پر دوبارہ سے زندگی کے پیدا ہونے کا امکان اس کہانی کی اہم خصوصیات ہیں۔ اس کہانی کی ایک اور اہم فنی خصوصیت ایک کہانی کے اندر دیگر کہانیوں کا ایک خاص ربط میں موجود ہونا ہے۔ اس سے افسانہ نگار ایسا حسن پیدا کرنے میں کامیاب رہا ہے جو کہ قاری کی دلچسپی کو برقرار رکھتا ہے بلکہ آئندہ درپیش حالات کے درست ادراک کے لیے اسے تاریخ سے اخذ شدہ نتائج سے بھی آگاہ کرتا ہے۔ اس طرح کی مذہبی تمثیلیں لانے سے یہ خدشہ ہوتا ہے کہ افسانہ نگار کہانی سے کہیں دور نکل کر کسی مبلغ کا روپ نہ دھار لے۔ مگر حیدر قریشی اس اندیشے کو ہی ختم کردینے میں کامیاب رہتے ہیں اور وہ مذہبی واقعات ، تلمیحات اور علامتوں استعاروں کو محض تخلیقی نقطہ نگاہ سے دیکھتے ہیں اور انھیں کہانی کا حصہ بنا دیتے ہیں ۔ حیدر قریشی کا مذہبی استعارات و علامات کا بیان کرنے میں مبلغ نہ بن جانے کی میری بات کی تائید ڈاکٹر ظفر عمر قدوائی اپنے مضمون ، میں یوں لکھتے ہیں :۔
’’ حیدر قریشی کے افسانوں میں تاریخی حقائق کی جھلک اور مشاہدات کی مہک ہے ۔ مذہبی افکار و عقائد کے اظہار میں ان کا وہ فنی سلیقہ بھی نمایاں ہے جو انھیں خطیب ہونے کے الزام سے بری کرتا ہے۔‘‘( ڈاکٹر ظفر عمر قدوائی ،مطبوعہ ’’حیدر قریشی کی ادبی خدمات ‘‘ مرتب: پروفیسر نذر خلیق)
داستانی انداز بیان جس کی ایک اور بہترین مثال انتظار حسین ہیں ان کے ہاں بھی داستان مذہبی عناصر سے متشکل ہوتی ہے ۔ کہانی کو مذہبی روائت سے کشید کرنے کا عمل حیدر قریشی کے ہاں صوفی ازم کی روائت سے جڑتا ہو ادکھائی دیتا ہے ۔ مثلاََ ’’ روشن نقطہ‘‘ اس طرز کے مضامین کی واضح مثال ہے۔ پیر ، مرشد یا گرو کا کردار دراصل ہندی اسطورہ سے ادب میں داخل ہوا ۔ تاہم جس طرح اساطیر انسان کا داخلی معاملہ ہوتے ہوئے بھی دراصل خارجی عوامل کا اظہار ہوتے ہیں اسی طرح پیر یا مرشد بھی گو کہ خارجی مظہر ہیں مگر یہ انسان کا مکمل داخلی اظہار ہیں ۔ گویا ان کرداروں میں ڈھلی ہوئی کہانی کو ہم آسانی سے خود کلامی کہہ سکتے ہیں۔ اب مجھے شاید اس امر کی وضاحت کرنے میں تو دقت ہو مگر میں خود کلامی اور خود سے مکالمہ کرنے میں کچھ فرق سمجھتا ہوں۔خود کلامی وجود کے اس کل سے ہوتی ہے جس کی تقسیم اگر ہو بھی تو فرد دو میں تقسیم نہیں ہوتا ۔ جب کہ فرد کا خود سے مکالمہ ایک اختصاصی صورت رکھتا ہے جب وہ خود کو دو میں تقسیم کرتا ہے اور اپنے ہی منقسم وجود کو سوالوں کی زد پہ رکھ لیتا ہے ۔ حیدر قریشی کے اسلوب میں یہ وصف نمایاں ہے کہ وہ ایک کردار کی ساری جہتوں کو مختلف مجسم کرداروں میں ڈھال لیتے ہیں اور پھر ان کے آپسی مکالمے سے کہانی کا دائرہ بناتے ہیں ۔ مثلاََ افسانہ ’’ روشن نقطہ ‘‘ کا سارا منظر اس منقسم وحدت میں ہے ۔ ’میں‘ ’پیر سائیں‘ اور ’مجذوب فقیر‘ ایک مکالمہ کرتے نظر آتے ہیں مگر دراصل وہ ایک ہی فرد کی مختلف جہتیں ہیں اور وہ تمام کردار حقیقت کی تلاش میں شک کی بنیادپر رکھتے ہیں اور ایک مکالمے کے نتیجے میں ’’روشن نقطہ‘‘ تک پہنچ جاتے ہیں۔ ’توحید ‘ کا عرفان اس کہانی کا بنیادی موضوع ہے ۔ اس بات کی طرف اس سے قبل بھی اشارہ ہو چکا ہے کہ کہ خدا کی شناخت حیدر قریشی کی کہانیوں کا بنیادی موضوع ہے ۔ تاہم یہ شناخت وہ کہیں خارج میں نہیں کراتا بلکہ اس کا نقطہ نظر یہ ہے جس خدا کو ہم خارج میں تلاش کر رہے ہوتے ہیں وہ تو دراصل انسان کے باطن کا معاملہ ہے :۔
’’علم ایک نقطہ ہے جسے جاہلوں نے بڑھا دیا ہے ‘ مجذوب فقیر اپنی لے میں بولا۔ الف تو بہت زیادہ ہے ۔ بات ایک نقطے میں تمام ہوچکی ہے۔
پیر سائیں مجذوب فقیر کی بات سن کر تڑپے اور بے ہوش ہوگئے ۔ دور کہیں سے بلھے شاہ کی کافی گانے کی آواز آرہی تھی ۔ اک نقطے وچ گل مکدی اے۔ ۔ ۔ ۔ ۔پیر سائیں اور مجذوب دونوں ایک نقطے میں ڈھل گئے تھے ۔ اس نقطے سے عجیب سکون بخش روشنی پھوٹ رہی تھی۔
اور یہ روشنی میرے دل سے پھوٹ رہی تھی۔‘‘
( حیدر قریشی ، افسانے ، معیار پبلی کیشنز نئی دہلی ۱۹۹۹ء ص ۔ ۱۰۰)
افسانے کی آخری سطر اہم ہے۔ یہاں نہ صرف کردار ہمہ اوست میں ڈھل جاتے ہیں بلکہ اپنا کردار ادا کر چکنے کے بعد ’’میں‘‘ میں واپس آجاتے ہیں ۔ گویا کہانی محض ایک فرد کی ہی تھی اور پیر سائیں اور مجذوب فقیر اس تشکیک کے تلاطم کو کم کرنے کے لیے بیدار ہوئے اور ’’روشن نقطہ‘‘ تک پہنچنے کے لیے کردار ’’میں‘‘ کی رہنمائی کرنے کے بعد اس ’’میں‘‘ کا حصہ بن گئے جو کہ دراصل وہ خود تھے۔ البتہ ایک رویہ حیدر قریشی کے افسانوں سے خوف کا بھی ظاہر ہوتا ہے ۔ مثلاََ جہاں بھی وہ اپنے کرداروں کا سامنا ’’شر‘‘ کی قوتوں سے کراتے ہیں وہاں انھیں اپنے کردار بچا لے جانے کی فکر دامن گیر رہتی ہے۔ اور یہ خوف بعض اوقات سماجی سطح پر بھی ان کے کرداروں میں در آتا ہے۔ مجھے یوں لگا ہے کہ جیسے وہ سماجی سطح پر موجود گھٹن ہی کی وجہ سے اور مذہبی تنگ نظری کے باعث ’شر‘ کے نمائندہ کردار شیطان سے انسان کا واضح مکالمہ نہیں کراتے ۔ حالانکہ یہ کا م حیدر قریشی بہتر کر سکتے تھے کہ اردو افسانے میں سوائے انتظار حسین کے اور افسانہ نگار یہ کام انجام دینے پر آمادہ نہیں ہے ۔ خصوصاََ جدید افسانے میں وحدۃالوجودی موضوعات و مضامین کا تذکرہ علامتی پیرائے میں رہا ہے البتہ بالواسطہ ’شر‘ سے اس سطح کا مکالمہ خال خال ہی نظر آتا ہے ۔ حیدر قریشی کا بھی اس موضوع سے صرف نظر کرنے کی وجہ ہمارے سماج میں مذہبی تنگ نظری کا موجود ہونا ہے۔ کہ اس راہ میںدوچار مقام سخت بھی آتے ہیں مگر ایک اہم بات یہ ہے کہ حیدر قریشی کے کرداروں کا یہ فرار وقتی ہے اور وہ معرکہ آرائی کا خیال لیے ہی جلد واپس آتے ہیں ۔ مثلاََ ’’دوکہانیوں کی ایک کہانی‘‘ کے کرداروں کا جائزہ لیجیے ۔ ’شاہ جی‘ اور ’میں‘ دراصل خود سے مکالمہ ہے۔ اس سے پیشتر کہ شیطان ان کرداروں پر غلبہ پا لے یہ اس منظر سے ہٹ جاتے ہیں ۔ سو میں اسے اس طرح کا فرارنہیں سمجھتا۔کیونکہ یہ کردار اپنے باطن کی سچائی سے آگاہ ہیں اور محض وقتی غلبے سے چھٹکارہ حاصل کرنے کے لیے اس مبازرت طلب منظر نامے سے ہٹ جاتے ہیں اور اپنے باطن کی روشنی سے آگاہی کے بعد دوبارہ اسی رزم میں اتر آتے ہیں۔ حیدر قریشی کے افسانوں میں جو خوف کی مجموعی فضا موجود ہے وہ فرار پر ہرگز نہیں ابھارتی بلکہ بار بار زندگی کی طرف پلٹاتی ہے ۔ فرار حیدر قریشی کے تخلیق کردہ کرداروں میں یوں بھی ممکن نہیں کہ وہ ایمان کے وجدانی تجربے سے روشنی حاصل کرتے ہیں۔ اور جہاںوجدان بھی ادراک سے قاصر ہو وہاں وہ معجزہ رونما ہوتا ہے جو انھیں منزل سے دوبارہ آگاہ کردیتا ہے ۔ اور یہ بات طے ہے کہ جب انسان اپنے تمام معمولات میں مذہب کی حقیقتوں سے رہنمائی لیں گے تو معجزاتی عمل کے بھی منتظر ہوں گے۔ اس سے یہ مراد بھی نہیں کہ حیدر قریشی کے افسانوں کے کردار خود سے کچھ کرنے سے قاصر ہیں یعنی بے عملی کا شکار ہیں۔ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ بلکہ ان کا بار بار زندگی کی طرف پلٹنے کا رویہ انھیں مسلسل عمل پر اکساتا ہے۔اور افسانہ نگار انسانی صلاحیتوں کو ہی دراصل کسی معجزے کا باعث خیال کرتا ہے۔
خوف دراصل انسان کی جبلت میں سے ہے ۔ البتہ خوف کی وجہ سے فرار کی سی کیفیت کا پیدا ہونا منفی صورتحال کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ مذہب کی مثبت اقداری فکر پر اپنے کرداروں کی عمارت استوار کرتے ہوئے حیدر قریشی فرار سے گریز کا رویہ ابھارتے ہیں۔ البتہ مغلوب ہوجانے کے اندیشے سے وہ اپنے کرداروں کی بساط بدل دیتے ہیں :۔
’’ شاہ جی آپ نے کہا تھا نا کہ شیطان جنوں میں بھی ہوتے ہیں اور انسانوں میں
بھی اور یہ کہ ہم شیطان کا مقابلہ نہیں کرسکتے ۔ ‘‘(دوکہانیوں کی ایک کہانی)
اسی افسانے کے آخر میں اسی کردار کا ایک اور رویہ دیکھیے :۔
’’ تو تم نے نوکری چھوڑ دی ؟‘‘ شاہ جی نے بے حد دکھی لہجے میں پوچھا۔
مجھے یوں لگا جیسے شاہ جی نوکری اور کوارٹر چھوڑ آئے ہیں اور میں پیر جی کو جواب دے کرآیا ہوں اور ہم دونوں شیطان سے لڑ کر نہیں بھاگ کر آئے ہیں۔‘‘
(دوکہانیوں کی ایک کہانی)
انسان دوستی بھی حیدر قریشی کی کہانیوں کا اہم موضوع ہے دراصل وہ اپنی کہانیوں میں اپنا مکمل نظریۂ حیات تلاش کررہے ہوتے ہیں۔ اور یہ نظریہ ان کے بعض افسانوں میں اپنی مکمل اور واضح شکل میں متشکل ہوتا ہے ۔نظریۂ حیات کی تلاش کسی بھی فن کار کے فن پارے سے تب ممکن ہوتی ہے کہ جب اس کے تخلیق کردہ کردار اپنی تخلیقی سطح پر ایسا مواد مہیا کریں جو اس فنکار کے عصر کی زندگی کی ترجمانی کرتا ہو۔ حیدر قریشی کے ہاں دوطرح کے کردار اہم ہیں ۔ صوفیانہ مسلک اختیار کیے ہوئے یا کرتے ہوئے کردار اور دوسرے ایسے نوجوان کردار جن میں زندگی اپنے نئے راز کھولتی اور کروٹیں بدلتی ہوئی ، جذبات بیدار کرتی ہوئی اور چہلیں لگاتی در آتی ہوئی ہے۔ دراصل یہ کردار ایک دوسرے کا پرتو ہیں۔ اور افسانہ نگار افسانہ کی موضوعاتی ضرورت کے تحت ان کرداروں کو استعمال کرتا ہے ۔ مثلاََ افسانے کے دو نوجوان کردار سماجی گھٹن پیدا کرتی ہوئی اخلاقی اقدار ، مکالمے سے گریزاں زندگی ، انسان کے جائز جبلی اظہار پر عائد پابندیوں اور تاریخ سے نفرت کے رویوں کے شدید مخالف ہیں۔
’’کیا تمہیں پتہ ہے میں اپنے مذہبی تہوار منانے کے ساتھ ساتھ دوسروں
کے مذہبی تہوار بھی اسی عقیدت اور احترام کے ساتھ مناتی ہوں۔ کرسمس،
بیساکھی، دیوالی۔۔۔۔۔۔‘‘
’’یہ بڑی اچھی بات ہے اگر ساری قومیں اسی طرح ایک دوسرے کے
جذبات کا احترام کرنے لگیں تو دنیا میں مذہب کے نام پر کبھی کوئی فتنہ فساد
پیدا نہ ہو‘‘ (افسانہ’’ غریب بادشاہ ‘‘سے اقتباس)
’’انسان نے مختلف نظریات اور مزعومہ برتری کی لڑائیوں میں نفرت کی آلودگی
بڑھائی، بلندیوں کی آرزو میںاوزون میں شگاف ڈال دیئے، صنعتی ترقی
اور اسلحے کی دوڑ میں ماں جیسے مقدس پانی کو ناپاک کردیا، جنگلوں کو اُجاڑدیا،
اتنے ہولناک نیوکلیائی ہتھیاربنالئے کہ دھرتی کا دم گھٹ کررہ جائے۔ یہ
ساری بلندیاں انسانیت کو قبر میں گرانے والی ہیں۔ جیتے جی قبر میں گرانے والی،
اور پھر اس کا دم گھٹنے لگتا۔ اس پر شدید گھبراہٹ طاری ہونے لگتی۔‘‘
(افسانہ’’ گھٹن کا احساس‘‘ سے اقتباس)
’’پھر وہ رات ،جب تک دونوں جاگتے رہے، دادا نے پوتے سے کہانیاں سننے
میں گزار دی۔اور اسی رات کہانی کار نے سوچا کہ اپنی ادھوری کہانی میں کسی امتیاز
کے بغیرہر مذہب و مسلک کے سارے کے سارے انتہا پسندوں کو ایٹمی جنگ سے
ہلاک کرکے صرف اپنے پوتے جیسے انسانوں کو بچایا جائے اور انہیں کے ذریعے نسلِ
انسانی کوپھر سے دھرتی پر آباد کیا جائے۔لیکن ابھی یہ صرف کہانی کار نے سوچا ہے،
کہانی لکھتے وقت کیا روپ اختیار کر جائے! اس کا تو خود کہانی کار کو بھی علم نہیں ہے۔‘‘
(افسانہ ’’کہانیوں سے بھاگا ہوا کہانی کار‘‘سے اقتباس
مطبوعہ جدید ادب جرمنی شمارہ جولائی تا دسمبر ۲۰۰۶ء)
وہ ایک ایسے پرامن معاشرے کی کھوج میں ہیں جہاں انسان کو مذہب کے ٹکڑوں میں تقسیم کرکے دیکھنے کی بجائے فقط انسان سمجھا جائے۔ اسی لیے وہ تاریخ کا سفر کرتے ہیں۔ دراصل وہ تاریخ کی آگاہی سے ایسے سماج کی مثالیں لاتے ہیں جہاں انسان مختلف خانوں میں تقسیم نہیں تھا۔ اور نہ ہی انسانوں میں کسی برتری کا تعصب موجود تھا۔
حیدر قریشی کے افسانوں میں قدرے ڈھلتی عمر کے کردار ’ہمہ اوست‘ کا نظریہ اختیار کرتے نظر آتے ہیں۔ یعنی نوجوان کردار تاریخ سے آگاہی میں دراصل یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ ایسا نظریۂ زندگی موجود رہا ہے جو انسانوں کو منقسم نہیں کرتا ۔ تو یہی کردار جب اپنی عمر کی پختگی کو پہنچتے ہیں تو وہ ’ہمہ اوست‘ کا نظریہ اختیار کرلیتے ہیں۔ دراصل برصغیر کی تہذیب میں ان صوفیوں کا کردار خالصتاََ انسان دوست تھا۔ جہاں پہلے برہمن اپنے علاوہ باقی تمام انسانوں کو بھرشٹ سمجھتا تھا وہیں مغل حکمران بھی انسانوں سے ایسا ہی سلوک روا رکھتے تھے۔ البتہ صوفیوں کا راستہ اورانداز نظر جداگانہ تھا۔ اسی لیے حیدر قریشی اس صوفیانہ فلسفے کو زندگی کے فلسفے کے طور پر لیتے ہیں۔ گویا ان کے کرداراجتماعی سطح پر ایک نظریۂ زندگی تشکیل دیتے نظر آتے ہیں۔ چونکہ ادب کی قدریں زندگی کی قدروں سے ہی اخذ کی جاتی ہیں اس لیے وہ دائمی تو یقیناََ نہیں ہوتیں اور ان میں تغیر رونما ہوتا رہتا ہے لیکن انسان دوستی ایسا رویہ ہے جسے حیدر قریشی نئے سائنسی علوم سے آراستہ کرکے زندگی کا قابل قبول نظریہ بنا دیتے ہیں۔
انسانی ثقافت و تمدن کی بو قلمونی دراصل انسان کی معاشرتی زندگی کی ہمہ رنگی کی علامت ہوتی ہے۔ البتہ زندگی بسر کرتے انسان اپنی بقا کے لیے کیا رویہ اختیار کرتے ہیں اس کا فیصلہ ان کے موجود رویے سے ہونا ہوتا ہے۔ حیدر قریشی کے ہاں ایک المیہ بطور سماج پاکستانی قوم کی انا کا گروی رکھا جانا بھی ہے۔
جنس اور بھوک کو وہ انسان کی بنیادی جبلت قرار دیتے ہیں کہ جن کے بغیر زندگی اپنی کوئی بھی صورت مکمل نہیں کرپاتی۔ قدیم اسطورہ میں گندم کے دانے کی ظاہری شکل اور نسوانی جنسی اعضا کی مماثلت کی وجہ سے انھیں بنیادی گناہ کا سبب سمجھا گیا۔ جبکہ آدم کا جنت میں سے نکلنا ، جس کا حوالہ حیدر قریشی کی کہانیوں میں اکثر آیا ہے، گندم ہی کی وجہ سے تھا۔ جنت سے ا س اخراج کی تعبیریں مختلف کی جاسکتی ہیں۔اور ممکن ہے کہ یہ ثقافتی اور جبلی مسئلہ بھی ہو کہ ہمارے سماج کے لیے گندم اہمیت رکھتی ہے اس لیے جنت سے آدم کے نکالے جانے کا باعث گندم کو سمجھا جاتا ہے جبکہ عرب ممالک میں یہی روایت سیب کھانے کی ہے تاہم دونوں صورتوں میں یہ عمل جنسی کشش محسوس ہونے کے بعد کے جنسی عمل کا اظہار ہے۔ البتہ حیدر قریشی اس افسانے ’’اندھی روشنی‘‘ میں جس بنیادی المیے کا ذکر کرتے ہیں وہ مختلف ہے۔ اور وہ المیہ تب جنم لیتا ہے جب پاکستان جیسا زرعی ملک اپنی زرخیز زرعی زمینوں سے مالا مال ہونے کے باوجود قحط جیسی صورتحال کا سامنا کرنے پر امریکی گندم درآمد کرتا ہے ۔
’’آج صبح کے اخبارات میں قوم کو یہ نوید سنائی گئی ہے کہ قحط کے خطرے کے
پیش نظر ایک دوست ملک سے طویل مدت قرض کی بنیاد پر کئی ہزار ٹن گندم خریدنے
کے ایک معاہدے پر دستخط ہوگئے ہیں۔میرے اندرکا’’میں‘‘سورج نکلنے سے پہلے
ہی مرگیاہے۔
٭٭
میں پھر اپنی حواکو ملنے چلاگیاہوں۔پھر وہی رشنیاں ہیں۔۔۔۔۔وہی موسیقی ہے
اور وہی رقص ہیں۔ میری وہ کرسی اب خالی پڑی ہے۔
یہ روشنیاں اب مجھے راس آگئی ہیںاور میرا اندھاپن ختم ہوگیاہے۔
اب میں اس کے اشاروں پر نہیں ناچ رہابلکہ اسے اپنے اشاروں پر نچارہا
ہوں ۔۔۔۔۔ لیکن یہ کیا۔۔۔۔۔؟سامنے دیوار پرنصب آئینے میں میرے اندر کے’’میں‘‘
کی بے کفن لاش مجھے گھور رہی ہے۔میں گھبراکرمنہ دوسری طرف پھیرلیتاہوں۔
لیکن ادھر بھی بڑا آئینہ نصب ہے اور اس میں بھی وہی منظر ہے میرے چاروں
طرف میری لاشیں بکھری ہوئی ہیں اور میں سوچ رہاہوں:
’’کاش میرا وہ اندھاپن ہی لوٹ آئے‘‘
موسیقی کا شورکچھ اور بڑھ گیاہے۔ہمارے رقص کی رفتار تیز ہوگئی ہے۔
لیکن ہمارے پیروں کے نیچے سے زمین نکل گئی ہے۔ ہم بے زمین ہوگئے ہیں۔
صرف اپنی لاشوں پر کھڑے رقص کررہے ہیں۔‘‘
( افسانہ ’’اندھی روشنی ‘‘سے اقتباس)
افسانہ ’’اندھی روشنی‘‘ کے اس اقتباس کے بعد اس پر مزید بات کرنے سے پہلے یہ بتانا ضروری ہے کہ یہ افسانہ حیدر قریشی کا سب سے پہلا افسانہ تھا ۔یہ جنرل ضیاء ا لحق کے دور میں سال ۱۹۷۸ء میں لکھا گیا۔اس سلسلہ میں حیدر قریشی کا یہ بیان ایک دلچسپ انکشاف بھی ہے:
’’میرے نام سے میرا پہلا افسانہ ’’مامتا‘‘ ’’اوراق‘‘ کے ۱۹۸۰ء کے پہلے شمارہ
میں شائع ہوا۔یوں یہ میرا پہلا افسانہ ہوا،لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس سے پہلے میں
افسانہ ’’اندھی روشنی‘‘ لکھ چکا تھا اور یہ افسانہ ’جدید ادب‘ خانپور کے ۱۹۷۸ء کے کسی
شمارہ میں اپنی بیوی(مبارکہ شوکت) کے نام سے چھاپ چکا تھا۔تب رشید امجد اور
بعض دیگر جدید افسانہ نگاروں نے چونکتے ہوئے استفسار کیا کہ یہ مبارکہ شوکت
کون ہیں؟ تو مجھے اپنے افسانہ لکھنے پر اعتماد سا ہونے لگا۔ ‘‘
(’’اوراق اور میں‘‘ از حیدر قریشی
ادبی جریدہ ’’اوراق‘‘لاہور۔شمارہ جنوری،فروری ۲۰۰۰ء پینتیس سالہ نمبر۔ص ۲۷۲)
اس افسانے کو بعد میں شاہد ماہلی کے ادبی رسالہ’’ معیار‘‘دہلی نے افسانے کے پاکستانی انتخاب میں حیدر قریشی کے نام کے ساتھ شامل کیا ۔اور اسی انتخاب کو’’ نیا پاکستانی افسانہ۔نئے دستخط‘‘کے نام سے کتابی صورت میں ۱۹۸۳ء میں شائع کیا۔
اپنے موضوع کے اعتبار سے اس کہانی کا موضوع کہانی سے زیادہ اخباری کالم اور فکری مباحثوں کے لیے سود مند تھا۔ مگر حیدر قریشی بڑی فنی و تیکنیکی چابکدستی سے اسے تاریخی حوالوں ،مذہبی اساطیر و تلمیحات کے حوالے سے افسانے میں لے آئے ہیں۔ اور بڑے ربط کے ساتھ درآمد ہونے والی گندم سے بعد کی صورت حال کی عکاسی کی ہے ۔ ’’اندھی روشنی‘‘ اس حوالے سے اہم افسانہ ہے کہ اس ایک افسانے میں موضوعاتی تنوع ہے جسے افسانہ نگار بڑی چابکدستی سے ایک لڑی میں پرو دیتا ہے۔ افسانے کے شروع میں تیز روشنیاں کسی کلب کے منظرکی تصویر دکھاتی ہیں۔ پھر مرد اور عورت کی ازل سے چلتی آتی بحث کہ جس میں مرد ہمیشہ عورت پر ہی الزام دھرتا ہے اور عورت اپنا جسم اسے بخشنے کے باوجود بھی خود کو گناہ گار سمجھتی ہے۔
’’لیکن گندم۔ ۔ ۔ ۔
سنو ،۔ ۔ ۔ ۔ وہ چلاتے ہوئے بولی۔ گندم کی ہئیت پر غور کرو اور اپنی اس کمزوری پر بھی غور کرو جس کے بغیر تم رہ نہیں سکتے۔ بڑے بڑے تجرد پسند جس کے لیے بالآخر مجبور ہوگئے۔
تم فخش اور ننگی باتیں کر رہی ہو۔
سچ کا کوئی لباس نہیں ہوتا۔ اسی لیے ننگا نظر آرہا ہے۔‘‘
(اندھی روشنی)
سچ واقعی تلخ ہوتا ہے اسی لیے حیدر قریشی پورا سچ بولنے سے گریز کرتے ہوئے اسکی جھلک دکھا جاتے ہیں۔ اور اس بنیادی المیے کی طرف توجہ کرتے ہیں جو پاکستانی سماج کو اندر سے کھوکھلا کرنے والا ہے۔ کیونکہ افسانہ نگار گندم کی درآمد کو محض گندم کی درآمد تک ہی نہیں دیکھ رہا بلکہ وہ اس کے پس منظر میں ایک نظریہ زندگی اور ایک برتر ثقافت کے آنے کی چاپ بھی محسوس کر رہا ہے۔ اور پھر ایسا ہی ہمیں درپیش بھی ہوتا ہے۔ نئی اور ترقی یافتہ ثقافت کے اثرات جب اس سماج پر پڑنا شروع ہوئے تو ہمارا معاشرہ دو انتہاؤں میں تقسیم ہوگیا۔ ایک وہ جو اپنی اقدار کو فرسودہ سمجھ کر نئی اقدار کی کورانہ تقلید کرنے لگا اور دوسرا طبقہ وہ طبقہ تھا جو تاریخی عمل میں بدلتی اقدار کا ساتھ تو شاید دے رہا تھا مگر ایک دم بدلتی صورتحال کا سامنا نہ کرسکنے کے باعث تنگ نظری کا شکار ہوگیا اور اسی طبقے کے المیے سے افسانہ ’’اندھی روشنی‘‘ کی کہانی جنم لیتی ہے۔ یعنی روشنی اس قدر ہوگئی ہے کہ کچھ سجھائی نہیں دے رہا۔ یوں ایک بے یقینی کی کیفیت جنم لیتی ہے اور بے یقینی کی اس کیفیت میں افراد باہم مشورے سے کسی حل تک پہنچنے کی بجائے ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں۔
جیلانی کامران اس ساری صورتحال کی عکاسی یوں کرتے ہیں:۔
’’ان افسانوں کی دنیا ایسی ہے جس کی اندھیری جہتوں سے باہر نکلنا دشوار ہے۔ اس لیے ان کہانیوںکے افراد اندھیرے شب و روز میں اپنے ہونے اور نہ ہونے کے آشوب سے دوچار ہیں۔ ان کی نظر میں سچائیاں اضافی ہوچکی ہیں۔۔۔۔ تاہم ان کے افسانوں کے لوگ ایسے ہیں جو اپنے آپ کو الزام دینے سے کتراتے ہیں‘‘(جیلانی کامران پیش لفظ افسانوی مجموعہ ’’روشنی کی بشارت‘‘)
حیدر قریشی کے افسانوں کا ایک اور اہم موضوع معدوم ہوتی ہوئی زندگی کا المیہ ہے۔ معاشرے میں چھائی ہوئی بیگانگی اور زندگی سے بے رغبتی کا اظہار ان کے ہاں بڑا شدید ہے گوکہ وہ اپنے شعور کی مدد سے لوگوں کو یا سماج کو ایک متعین راہ دکھاتے ہیں لیکن وہ ان کے طرز عمل کو نہ بدل سکنے کا المیہ بھی دکھا دیتے ہیں۔ ’’دھند کا سفر‘‘ اس ساری صورتحال کی نمائندہ کہانی ہے۔ کہانی میں بچے کا کردار مستقبل کا نمائندہ ہے۔
’’ایک اسٹیشن پر مسافروں کاایک بڑا تیز ریلااندر آتا ہے۔ چھوٹے سے
اسٹیشن پر اتنے مسافر!۔۔۔۔۔ شاید کوئی بارات ہو۔ !گاڑی چلتی ہے تو مسافروں کے
اوسان بحال ہونے لگتے ہیں۔ ایک مسافر نے ٹرین کے چیکر کو ایک ایسی گالی دی
ہے کہ میرے چودہ طبق روشن ہوگئے ہیں۔ دوچار اور مسافروں نے بھی ایسی ہی
گالیاں دیں تو پتہ چلاسارے بے چارے فرسٹ کلاس کے فرش پر بیٹھے تھے۔
سب سے دس دس روپے جرمانہ وصول کرکے بغیر رسید کے سب کو اس ڈبے میں
دھکیل دیاگیاہے۔
گالیوں کا سلسلہ بڑھنے لگتاہے۔گالیاں ریلوے کے مختلف افسران سے ہوتی
ہوئی ریلوے کے چیئرمین تک پہنچ چکی ہیں۔پھر وزیر ریلوے بھی اس کی زد میں
آجاتے ہیں۔ جتنے منہ اتنی باتیں۔ بالکل میرے قریب بیٹھے ہوئے ایک ’’یک
چشم‘‘ داڑھی والے نے دانت پیستے ہوئے بابائے قوم کو بھی گالی دے دی ہے۔
میں سنّاٹے میں آگیاہوں۔اس کی بدزبانی پر کوئی احتجاجی آواز بھی نہیں ابھری۔
مجھے لگتاہے ہم سب زمین میں دھنستے جارہے ہیں۔
گردن تک ہم زمین میں دھنس گئے ہیں۔
میرے اندرکاوہ پانچ سالہ بچہ نکل کر زنجیر کے پاس جا کھڑا ہوا ہے اور میرے
اشارے کا منتظر ہے۔ میں اس یک چشم داڑھی والے کو سخت لعن طعن کرتاہوں۔
’’بابائے قوم کاکیا قصورہے؟ یہی کہ اس نے تمہیں آزادی دلائی ہے۔۔۔۔۔ میں لمبی
چوڑی تقریر کرتاہوں۔ مگر وہ یک چشم داڑھی والا بڑی متانت سے پھر وہی گالی
بابائے قوم کا نام لے کر دہراتاہے۔
آخر میں اپنے اندر کے اس پانچ سالہ بچے کو اشارہ کرتاہوں کہ وہ زنجیر کھینچ دے مگر
اس دوران ہی ایک بے حد خوبصورت خاتون سے اس کی آنکھیں چار ہوتی ہیں اور
وہ جوان ہونے لگتاہے۔ پہلے وہ زنجیر کو حیرت سے دیکھ رہا تھا۔ اب اس خوبصورت
خاتون کو حیرت سے دیکھ رہا ہے۔ میں خودآگے بڑھ کر زنجیر کھینچ دیتاہوں۔۔۔‘‘
(افسانہ’’ دھند کا سفر‘‘ سے اقتباس)
ریل گاڑی منزل تک پہنچنے کا اجتماعی سفر ہے۔ اور اس میں افسانہ نگار سماجی منافقت کے مختلف مظاہر کا نظارہ کراتا ہے۔ اور وہ بچہ جو کہ اپنے معاشرے کے مجموعی مزاج سے الگ ابھی سچ بولنے کو اہم سمجھتا ہے اس کی بات کو نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ اور بانیٔ پاکستان کو گالی دینا گویا کوئی ایسا عمل نہیں کہ جس پر گرفت کی جاسکے ۔ یوں زندگی کی ایک بے معنی صورت نمایاں ہوتی ہے کہ قانون ہمیشہ کمزور پر تو اپنا اثر دکھاتا ہے مگر کچھ افراد اس سے بھی بالا ہوتے ہیں۔
’’گاڑی رک گئی ہے۔ ریلوے گارڈ، ٹکٹ چیکر اور کچھ پولیس والے آ چکے ہیں۔
میں انہیں بتاتاہوں کہ اس ذلیل شخص نے بابائے قوم کی شان میں گستاخی کی ہے۔
مگر شاید ریلوے کے عملہ کو میری بات سمجھ نہیں آتی۔ گارڈ اور چیکر میری بات سے
جھلاگئے ہیں۔اور پھر چیکر میرے جرمانے کی رسید کاٹنے لگتاہے۔
پچاس روپے جرمانہ ادا کرتے ہوئے میرے ہونٹوں پر وہی گالی مچلتی ہے جو اس
سے پہلے وہ یک چشم داڑھی والا بابائے قوم کے خلاف بکتارہاتھا۔ مگر میں گالی کو ہونٹوں
پر اترنے سے پہلے ہی روک لیتاہوں۔ پتہ نہیں بابائے قوم کے احترام کے باعث یا
ان پولیس والوں کے باعث جو ریلوے گارڈ اور ٹکٹ چیکر کے ساتھ کھڑے ہیں۔اتنا
ضرور ہے کہ میں ایک دم چھوٹا ہوتا جارہاہوں اور گھٹتے گھٹتے ایک نقطے میں ڈھل گیا ہوں
زنجیر کے نیچے کھڑا پانچ سالہ ’’میں‘‘ پھر حیرت سے اس تحریر کو پڑھ رہاہوں۔
’’گاڑی ٹھہرانا مقصود ہوتو زنجیر کھینچئے
بلاوجہ زنجیر کھینچنے والے کو پچاس روپے جرمانہ ہوگا‘‘
افسانہ ’’دھند کا سفر‘‘ سے اقتباس)
دراصل یہ کہانی پاکستان کی سیاسی صورت حال کی عکاس ہے ۔ حیدر قریشی کی دیگر کہانیوں میں بھی اس صورت حال کی نشاندہی ہے مگر یہ کہانی اپنے موضوع کی نمائندہ کہانی ہے۔اسی صورت حال کی عکاس ایک اور کہانی ’’بے ترتیب زندگی کے چند ادھورے صفحے ‘‘ بھی ہے۔
’’دھند کا سفر‘‘ اور اس نوع کی دیگر کہانیوں سے حیدر قریشی کا یہ وصف بھی نمایاں ہوتا ہے کہ وہ سماج کی متضاد باتوں کو موضوع بنا کر ایک گہرا نشتر چلاتے ہیں۔ ریل گاڑی ایک اجتماعی سفر کا استعارہ ہے اور ہماری پوری زندگی پر محیط ہے ۔ یہاں وہ ہماری معاشرت میں پھیلی منافقت کی عکاس ہے۔کوئی شخص اگر معاشرتی بگاڑکی نشاندہی کرنا بھی چاہتا ہے تو معاشرہ اس سے اس قدر ناروا سلوک کرتا ہے کہ وہ خود بھی گویا نمک کی کان میں نمک بن جاتا ہے۔
حیدر قریشی کے افسانوں کے کردار ایک خوف کا شکار رہتے ہیں اور مکمل سچ جاننے کے باوجود اس کے اظہار میں سماجی جبر کے خوف کا شکار ہوجاتے ہیں ۔ اس طرح ان کے نفسیاتی رحجانات کا مطالعہ ایک الگ مضمون کا متقاضی ہے۔ لیکن یہ تمام کردار سچ کا اظہار نہ کرسکنے کے باعث زندگی سے گریز کا رویہ اپناتے ہیں۔ اور مستقبل ان کے لیے دھند میں گم ہوجاتا ہے۔ کہیں کہیں ایک ردعمل کی کیفیت بھی پیدا ہوتی ہے۔ اور یہ ردعمل اس نظام کی بساط ہی لپیٹ دینے پر آمادہ کردیتا ہے ۔ مگر دھند لکے میں واضح نظر نہ آنے کے باعث ان کے کردار اس ردعمل کا اظہار اپنی ہی ذات کی نفی کرکے کرتے ہیں۔اور اپنی ذات کی نفی کا ایک اظہار وحدت الوجود میں بھی ہے۔ اور یہ مثبت بات ہے کہ وہ اپنی نفی کرتے ہوے جہان دیگر کی سیر کو نکل جاتے ہیں۔
’’یہ کیا بھید تھا؟ میں خوشی اور حیرت سے مغلوب ہوگیا۔ میں نے اپنی یہ واردات
سارے عزیزوں اور دوستوں کو سنائی۔ کسی نے مجھے رشک بھری نظروں سے دیکھا اور
کسی نے اسے میرا وہم قراردیا۔ اباجی نے کہا کہ جو کچھ ہوا تھااسے اپنے تک رکھنا تھا۔
تم اس اسرار کو برداشت نہیں کرسکے اس لئے اب آئندہ ایسے تجربے کی لذّت سے
محروم کردیئے جاؤگے۔ اور واقعی میں ایسے تجربے کی لذت سے محروم ہوگیالیکن
روحانیت سے میرا لگاؤ بڑھ گیا۔ میرے شکوک و شبہات ختم ہوگئے۔ ‘‘
(افسانہ’’ بھید‘‘ سے اقتباس)
حیدر قریشی کہانی کا انداز مذہبی تلمیحات کے کثرت استعمال کے باوجود برقرار رکھتے ہیں اور کہیں بھی اسے گرفت سے نکلنے نہیں دیتے۔
حیدر قریشی کے ہاں کئی کہانیوں میں خون کے رشتوں کردار تو ملتے ہیں لیکن انسان کے خون کے رشتوں پر کہانیاں کم ہیں۔شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ انہوں نے اپنے خاکوں اور یادوں میں براہِ راست خون کے رشتوں کی کہانیاں لکھ دی ہیں۔افسانوں میں صرف ’’مامتا‘‘ ایسی کہانی ہے جو ذاتی تعلق سے اوپر اٹھ کر ان کے مکمل انسان دوستی کے نظریے سے ہم آہنگ ہوجاتی ہے۔ ’’مامتا‘‘دراصل سوتیلے پن سے عاجز ایک عورت کی کہانی ہے ۔ عورت درحقیقت ، کیسا بھی سماج تاریخ میں رہا ہو، ہمیشہ استحصال کا شکار رہی ہے۔ اور اس کے تمام روپ چاہے انھیں مذہبی صحیفوں نے مقدس ہی کیوں نہ قرار دیا ہو مگر پھر بھی وہ اس کے استحصال کو کم نہیں کرسکے ۔ حیدر قریشی اس افسانے میں اس سوتیلے پن کو ایک لعنت کے طور پر ابھارتے ہیں۔ اور زندگی کی ساری تلخیوں کو وہ اپنے قاری کے سامنے واضح کردیتے ہیں۔
اس امر کی وضاحت پہلے بھی کی جاچکی ہے کہ وہ کہانی کو مقصدی شعوری طور پر نہیں بناتے البتہ وہ ایسے تخلیقی زاویے سے بات کرتے ہیں کہ قاری کہانی کے بین السطور ایک اور کہانی کے ذائقے سے روشناس ہوتا ہے اور وہ خود بخود اس گہرے طنز کا نشتر محسوس کرتا ہے اور اپنے کردار کا موازنہ کہانی کے کرداروں سے کرنے لگتا ہے۔ یہ اہم بات ہے کہ جب قاری افسانے میں موجود کردار پر رحم کھانے کی بجائے اپنا تقابل اس سے کرتا ہے اور اپنی شخصیت میں موجود کجی سے آگاہ ہوجاتا ہے تو وہ یقیناََ اسے بدلنے پر آمادہ بھی ہوسکتا ہے۔
ان کہانیوں کے حوالے سے جو ایک مجموعی تاثر بنتا ہے ان میں ان کا داستانی اسلوب حیدر قریشی کی علیحدہ شناخت اور انفرادیت کا سبب بنتا ہے۔ عصری مسائل کا واشگاف اظہار اور انسانی زندگی کی بے توقیری کا المیہ ان کی کہانیوں کا بنیادی موضوع ہے۔
جوگندر پال اپنے مضمون میں حیدر قریشی کی کہانیوں کے بارے میں لکھتے ہیں۔
’’ حیدرقریشی اس وسیع تر زندگی کی دریافت کے لیے اپنی کہانیاں تخلیقتا ہے۔ اپنے اس کھلے راستے کو طے کرکے اسے دور یا نزدیک کسی شیشے کے محل میں اقامت نہیں اختیار کرناہے بلکہ راستوں سے راستوں تک پہنچنا ہے اور ہر راستے پر تباہ حال زندگی کی بازآبادکاری کیے جانا ہے ۔۔۔۔ اس کی تخلیقات میں تاکید اور اصرار کے عناصر کا شاید یہی جواز ہے کہ وہ تحریر کو بے ضرر آرائشوں کی حدود سے باہر لا کر اسے کارکردگی کا فعال ذریعہ بنالینا چاہتا ہے۔ایسی ہی تخلیقی شرکتیں گنجان ہوکر آخر کسی دیرپا آہنگ کی پیامبری کی اہل ہوجاتی ہیں۔‘‘(جوگندر پال ’’روشنی کی بشارت کے افسانے‘‘ بحوالہ:’’حیدر قریشی کی ادبی خدمات‘‘ مرتب پروفیسر نذر خلیق ص ۱۹۴)
حیدر قریشی نے اپنے افسانوں میں بعض جگہوں پر پنجابی لفظیات کا استعمال بھی بڑے سلیقے اور فنی عمدگی سے کیا ہے ۔ جملے کی ساخت پر حیدر قریشی بڑی توجہ دیتے ہیں ۔ لگتا ہے کہ وہ کہانی لکھنے کے بعد کے عمل سے بخوبی واقف ہیں اور کہانی کی واقعاتی ضرورتوں کی مکمل آشنائی رکھتے ہیں۔ افسانے میں برتے گئے جملوں کے مابین ربط اور اختصار میں جامعیت ان کا نمایاں وصف ہے۔ کہانی کی ضرورت سے زائد جملہ اور جملے کی ضرورت سے زائد لفظ استعمال نہیں کرتے۔
ایک اور اہم بات جس کا اظہار میں اپنے اس مقالے کے آخر میں ہی کرنا چاہتا تھا وہ ہر کہانی کے آغاز میں ان کا اپنا ایک شعر کا ہونا ہے۔ اور میں اس سلسلے میں قیصر تمکین کے اس تبصرے سے متفق ہوں۔ وہ لکھتے ہیں:۔
’’۔۔۔۔۔ حیدر قریشی کی ہر کہانی کی ابتدا ایک شعر سے ہوتی ہے ۔ یہ طرز بیسویں صدی کے ابتدائی برسوں میں بہت مروّج تھا۔ ایم اسلم تو اس کے ماہر تھے۔ لیکن تقسیم ہند کے بعد یہ ادبی نوادر خانوں میںنسیاََ منسیاََ ہوگیا۔ حیدر قریشی نے اس طریقے کو نسیان خانوں سے نکال کر پھر استعمال کیا ہے۔ لیکن ایک ندرت کے ساتھ۔۔۔۔ دوسرے قلم کار ’’اقوال زریں‘‘ کے طور پر اشعار یا کہاوتوں کو استعمال کرتے ہیں حیدر قریشی نے ہر نفس مضمون کی وضاحت کے لیے خود اپنے ہی اشعار پیش کیے ہیں۔ اور یہ کہنا واقعی ناممکن ہے کہ انھیں اس میں کامیابی نہیں ہوئی ہے۔‘‘(قیصر تمکین۔ مضمون’’ افسانے‘‘
مطبوعہ حیدر قریشی کی ادبی خدمات مرتب: پروفیسر نذر خلیق ص ۲۰۱)
حیدر قریشی بلا شبہ اپنے عہد کا نباض افسانہ نگار ہے۔ جو تلخ سماجی حقیقتوں کے گھونٹ پیتا ہے اور پھر اپنے قاری کو کہانی سنانے بیٹھ جاتا ہے تو اس کی دلچسپیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اسے ان حقائق سے بھی آگاہ کردیتا ہے جن سے قاری بے خبر ہوتا ہے۔
حیدر قریشی کا کہانی کہنے کا انداز تیکھا مگر دلنشیں ہے وہ قاری کو حیرتوں میں گم کردیتے ہیں تو ساتھ ہی اسے نئی دنیاؤں کے راستے بھی سجھاتے ہیں۔ گویا اس ان کا فلسفہ عمل کا فلسفہ ہے۔ اور وہ سب سے پہلے انسانوں کے درمیان مذہب کی دیوار ،سماج کی دیوار اور طبقے کی دیوار گرا کر اسے اس بے گانگی سے نجات دلانا چاہتا ہے جس نے اس کی زندگی کی شہزادی کو سامری جادوگر کے جال میں پھنسا رکھا ہے۔
حیدر قریشی تمام انسانوں کو ایک شمار کرتے ہیں اور بلاشبہ انسان دوستی کے بہت بڑے پرچارک ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔