کچن کاؤنٹر سے پیسٹری کا ایک پیس اور گرم کافی کا ایک مگ لئے وہ لمبی میز کے پاس آئی۔جسکے گرد لگی کرسیوں پر کئی لڑکیاں بیٹھی ہوئی تھیں ۔میز پر پلیٹ اور مگ رکھ کر اسنے کرسی اپنی جانب کھسکائی۔وہ اس پر بیٹھنے کو تھی کہ سفید لانگ اسکرٹ پر سفید ہی بلاؤز پہنے سسٹر ایما ہال میں داخل ہوئی تھیں ۔ساری لڑکیوں کے ساتھ وہ بھی احتراماََ کھڑی ہو گئی ۔وہ سب کو نظر انداز کر کے زنیرہ کی طرف آئیں۔
“ہیلو سسٹر!” اسنے قدرے جھک کر انکا خیر مقدم کیا ۔
جواباً اپنے سر کو خم دیتے ہوئے انہوں نے زنیرہ کو بیٹھنے کا اشارہ کیا تھا اور خود بھی اسکے ساتھ کرسی کھینچ کر بیٹھ گئیں ۔
“تمہیں یہاں رہنے میں کوئی پریشانی تو نہیں ہے؟”
“نہیں میں یہاں بہت آرام سے ہوں۔”
انہوں نے اپنا سر ہلایا۔چند لمحے اسکی طرف دیکھ کر وہ کچھ سوچتی رہی تھیں ۔
“آپ مجھ سے کچھ کہنا چاہتی ہیں سسٹر!”
“ہاں۔۔۔” انہوں نے اثبات میں سر ہلایا۔”میں چاہتی ہوں کہ اب تم کرسچن کمیونٹی میں باقاعدہ طور پر داخل ہو جاؤ۔”
زنیرہ نے چونک کر انہیں دیکھا۔اسکے چہرے پر کشمکش آئی۔ اسکے کبھی گمان میں بھی نہیں تھا کہ اس سے اس قسم کا مطالبہ کیا جا سکتا ہے ۔
” مجھے تھوڑا وقت چاہیے ۔”اسنے ہچکچاتے ہوئے کہا ۔
“وقت کس چیز کے لئے ۔۔۔”انکے ابرو سکڑے۔” سات مہینے تمہیں یہاں رہتے ہو گئے ہیں ۔میرے خیال میں تم نے عیسائیت کو اچھی طرح سمجھ لیا ہے اور اب تمہیں اس بات کا یقین ہو جانا چاہئے کہ تمہاری کامیابی اور فلاح اسی راستے پر چلنے میں ہے۔”انکا لہجہ نرم ہی تھا۔
“کامیابی ۔۔۔فلاح ۔۔۔”زنیرہ کے لبوں پر ہلکی سی لرزش ہوئی۔
اسکے کانوں میں کسی کی مدھم، خوبصورت اور گہری آواز گونجنے لگی تھی۔
” زمانے کی قسم ۔بے شک انسان خسارے میں ہے ۔سوائے ان لوگوں کے ۔۔۔”
اسنے اپنا سر جھٹکا۔یہ باتیں اُسکے لئے نہیں ہیں ۔اسکی دنیا اب بہت مختلف تھی۔اسنے پھر سے اپنا دھیان سسٹر ایما کی جانب لگایا۔
“اگلے ایسٹر بشپ یعقوب آنے والے ہیں ۔وہ اس دن تمہیں بپتسمہ (عیسائی مذہب کی ایک رسم جس میں کسی کے سر پر مقدس پانی کے چھینٹے مارے جاتے ہیں اور اسے عیسائی مان لیا جاتا ہے) دینگے۔” وہ اسے بتا رہی تھیں اور وہ بے توجہی سے سنے گئی۔اسکا ذہن دوبارہ کہیں اور جا رہا تھا ۔کہیں دور۔۔اس ماحول سے بالکل مختلف جگہ پر ۔۔
” زمانے کی قسم ۔بے شک انسان خسارے میں ہے ۔سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور نیک اعمال کئے اور ایک دوسرے کو حق کی نصیحت اور صبر کی تلقین کرتے رہے۔”
وہ اُس ہیلتھ کئیر نرسنگ ہوم میں ایک سامان ڈلیور کرنے آئی تھی۔وہ جب ایک کمرے کے سامنے سے گزری تو بے اختیار ہی ان ساحرانہ الفاظ نے اسکے قدم زنجیر کر دیئے تھے۔وہ دم سادھے، سانس روکے وہیں کھڑی رہی تھی ۔کوئی بے حد دھیمی آواز میں وہ الفاظ کسی سحر کی طرح اس پر پھونک رہا تھا ۔وہ دروازے کا ہینڈل گھماتی اندر داخل ہو گئی۔
اس کمرے میں کھڑکی کے ساتھ لگے بیڈ پر ایک کم عمر نوجوان لیٹا ہوا تھا ۔وہ آہستہ آہستہ چلتی اسکے قریب آئی۔
آہٹ سن کر نوجوان نے اپنی آنکھیں کھولیں اور اسے دیکھا۔
“تم۔۔تم ابھی کیا سن رہے تھے؟” اسنے سحر زدہ سے انداز میں پوچھا۔
وہ ہلکا سا مسکرایا۔”میں سن نہیں رہا تھا بلکہ پڑھ رہا تھا ۔” اسنے اسے بتایا۔
زنیرہ نے پہلے ایک نظر اس پر ڈالی پھر اسکے بیڈ کے قریب دیوار پر لگے کراس کو دیکھا۔
“میں مسلموں کی مقدس کتاب قرآن کا ایک حصہ پڑھ رہا تھا ۔”اسنے مزید بتایا۔
وہ چند لمحے یونہی کھڑی رہی تھی ۔وہ جانے کیوں اس سے بہت کچھ جاننا چاہتی تھی۔کئی سوالات کرنا چاہتی تھی۔ مگر پھر اپنے تجسس کو پرے دھیکیلتی ہوئے وہاں سے چلی آئی ۔
“اوکے اگلا ایسٹر ویک۔۔ہوں! “سسٹر ایما نے اسکی بے توجہی محسوس کر کے اسے دوبارہ یاد دہانی کرائی ۔وہ چونکی تھی اور اسنے الجھے الجھے انداز میں اپنا سر ہلا دیا۔
________
اسکے سیاہ اوور کوٹ کے بٹن آگے سے کھلے ہوئے تھے اور اسنے پرپل ٹی شرٹ کے نیچے جینز پہنی ہوئی تھی ۔وہ اس وقت الفریڈ کے ساتھ پیراڈائز کلب میں تھا۔ایک میز کے گرد لگی کرسی کو کھسکانے سے پہلے اسنے اوور کوٹ اتار کر کرسی کی پشت سے لٹکایا اور پھر بیٹھ گیا ۔
الفریڈ نے پہلے ہی بار کاؤنٹر پر دو شیمپین کا آرڈر دے دیا تھا۔اسلئے انکے بیٹھنے تک انکی میز سرو کی جا چکی تھی ۔
ایلن کرسی پر زرا پیچھے ہو کر بیٹھا اپنے اطراف نظریں گھما رہا تھا ۔پھر اسکی نگاہیں ایک ایشیائی لڑکی پر جا ٹکی تھیں ۔اسکی سیاہ آنکھیں اور گندمی رنگت اسے کسی کا عکس دکھا رہی تھیں۔
“اچھی ہے ۔۔۔” الفریڈ کے کہنے پر وہ اسکی جانب متوجہ ہوا ۔
“میرا مطلب ہے کہ لڑکی اچھی ہے ۔جاؤ اسے ہماری ٹیبل پر انوائٹ کر لو ۔اکیلی ہی لگ رہی ہے ۔” اسنے گلاس میں شیمپین ڈالتے ہوئے کہا ۔پھر پیالے میں رکھی برف کو ہولڈر سے پکڑ کر گلاس میں ڈال دیا ۔برف کی ٹھنڈک نے کانچ کے گلاس کے باہر دھند سی جما دی تھی۔
“تمہیں بلانا ہے تو بلا لو۔مجھے اعتراض نہیں ہوگا مگر فی الحال میرا موڈ نہیں ہے ۔”ایلن نے کہتے ہوئے سرخ مائع سے بھرا گلاس لبوں سے لگایا۔
“ایسی میری قسمت کہاں۔” الفریڈ نے ٹھنڈی سانس لی ۔”ایمی کی دسیوں دوست اسی کلب میں ہونگی اور پھر جب وہ اس سے ملینگی تو میری رپورٹ پیش کرنے میں انہیں زرا دیر نہیں لگیگی۔اور پھر تم تو جانتے ہی ہو کہ ایمی کتنی خونخوار ہے۔” اسنے جلے ہوئے انداز میں اپنی گرل فرینڈ کا ذکر کیا ۔
ایلن زیر لب مسکرایا تھا۔
” روژا کہہ رہی تھی کہ تم نے اس سے کئی مہینوں سے ملنا بند کر دیا ہے ۔تم اسے نظر انداز کرنے لگے ہو اور۔۔۔”
” شروعات اسنے کی تھی ۔تو انجام تک میں نے پہنچا دیا ۔” اسنے الفریڈ کی بات کاٹی۔
” ٹھیک ہے اگر روژا کی باتوں کو نظر انداز کیا بھی جائے تب بھی تم بہت بدل گئے ہو۔بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ اس ایکسیڈنٹ نے تمہیں بدل دیا ہے ۔”
ایلن نے اسکی تردید نہیں کی اور بوتل سے اپنے لئے اور شیمپین ڈالی۔
” میں واقعی جاننا چاہتا ہوں کہ کس چیز نے تمہیں اتنا تبدیل کر دیا ۔اور ہاں ۔۔۔مجھے یاد آیا کہ وکٹر نے تمہیں چرچ جاتے ہوئے بھی دیکھا تھا ۔چلو یہ تو اچھی بات ہے کہ تمہیں گاڈ کے ہونے کا یقین تو آیا اور کم از کم ہفتے میں ایک دن تو چرچ ضرور جایا کرو۔کسی حادثے سے اگر۔۔۔”
” کم آن فریڈی! “ایلن نے گھبرا کر اسکی نہ رکنے والی زبان کو روکا۔اسے اندازہ تھا کہ اگر اسے نہ روکا گیا تو وہ مزید رکے ایک گھنٹے بولتا رہیگا۔” مجھے خدا کے وجود پر یقین تو آیا تھا مگر مجھے اسکا نشان نہیں مل سکا ۔میں اسے کہیں ڈھونڈ نہیں پایا۔میں نے ہر مذہب کے دامن میں پناہ لینے کی کوشش کی مگر تم جانتے ہو وہ مجھے کہیں نہیں ملا۔یا تو وہ خود مجھ سے ملنا نہیں چاہتا یا حقیقت میں خدا کا وجود ہے ہی نہیں ۔”اسنے دوسرا پیگ ختم کر کے گلاس میز پر رکھا۔
” تم نے سارے مذاہب کا مطالعہ کیا؟ “اسنے حیرت سے پوچھا ۔
” ہاں لگ بھگ پر مذہب۔۔۔”اسنے لاپروائی سے شانے اچکاتے ہوئے کہا ۔
” تو تم نے اسلام کو اسٹڈی کیا؟”
ایلن کا بوتل کی طرف جاتا ہاتھ رکا اور پھر وہ چند لمحے فریڈی کو دیکھے گیا۔
‘ تمہیں اسلام کا بھی مطالعہ کرنا چاہیے ۔اگر تمہیں کہیں خدا نہیں ملا تو شاید وہاں تمہاری تلاش پوری ہو جائے ۔”اسنے ایلن کا گلاس بھرتے ہوئے کہا۔
ایلن نے بے اختیار قہقہہ لگایا اور پھر ہنستا ہی چلا گیا ۔
” اس میں ہنسنے والی کون سی بات تھی؟ “اسنے برا مانتے ہوئے کہا ۔مگر ایلن پر اسکا کوئی فرق نہیں پڑا۔وہ یونہی ہنستا رہا۔پھر اسنے چند لمحے رک کر بڑی مشکل سے اپنی ہنسی پر قابو پایا ۔
“اس بات کو یاد رکھنا الفریڈ! اگر میں نے اسلام قبول کر لیا تو سب سے پہلا اٹیک تمہارا اوپر ہی ہوگا۔”وہ کہتے ہوئے دوبارہ ہنسا۔
“اور ایسا کیوں ہوگا؟”
“او مین! ہر مذہب کم از کم امن و آشتی کی بات تو کرتا ہے ۔اور ان کو دیکھو۔انکی ہر بات جہاد سے شروع ہوتی ہے اور شہادت پر ختم ہوتی ہے ۔ہر بندے کے گھر پر اے کے فورٹی سیون تو رہتا ہی ہوگا اور ہر اگلا انسان سوسائڈ بامبر بن کر اپنی زندگی ختم کرتا ہے ۔دنیا کے سارے دیوانے اور وحشی لوگ اسی مذہب میں پائے جاتے ہیں ۔”یہ کہتے ہوئے اسنے لہجے میں تضحیک اور حقارت در آئی تھی۔
” اب ایسا مت کہو یار ۔سارے لوگ ایک جیسے نہیں ہوتے ۔وہ بھی ہماری تمہاری طرح انسان ہوتے ہیں ۔”
” میں تو ان لوگوں کو انسان کہلائے جانے کا مستحق بھی نہیں سمجھتا۔جن لوگوں کا مقصد ہی دہشت گردی ہوتی ہے انکے لئے یہی الفاظ کہے جا سکتے ہیں۔”
الفریڈ نے اسکے اندر بھرے زہر کو خاموشی سے سن لیا تھا۔وہ مسلمانوں کو اتنا برا نہیں سمجھتا تھا کیونکہ اسکی کالونی میں مسلمانوں کی اچھی تعداد موجود تھی ۔
” اوکے تم ناراض ہو رہے ہو تو میں اپنی بات واپس لیتا ہوں ۔” اسنے دونوں ہاتھ اٹھا کر مصالحانہ انداز میں کہا ۔
” اب تو تم نے میرا موڈ خراب کر دیا ہے ۔اب مجھے اپنا موڈ بہتر کرنا ہے ۔”یہ کہتے ہوئے وہ الفریڈ کی طرف دیکھتا ہوا مسکرایا اور پھر بائیں آنکھ دباتا اٹھ گیا تھا ۔
وہ اب اُس میز پر تنہا بیٹھی ایشیائی لڑکی کی طرف جا رہا تھا ۔
_________
اس رات جب وہ کلب سے لوٹا تو وہ پوری طرح نشے میں چور تھا۔داخلی دروازے کو کھولتے ہوئے وہ اندر آیا۔پھر اندھوں کی طرح آنکھیں پھیلا کر اپنے آس پاس دیکھنے کی کوشش کی ۔مگر چکراتے ہوئے سر نے اسے اندھا کر کے رکھ دیا تھا۔وہ لڑکھڑاتا، راستے میں پڑی چیزوں سے ٹکراتا کچن کی طرف جا رہا تھا ۔اسے متلی بھی آ رہی تھی ۔دیوار کو ہاتھ سے ٹٹولتا ہوا وہ ایک دو دفعہ اوندھے منہ گرتے گرتے بھی بچا۔بالآخر وہ کچن تک پہنچ ہی گیا تھا۔ فریج کھول کر اسنے دو بڑے لیمو نکالے اور الٹی دھار کی طرف سے لیمو کاٹنے کی کوشش کرنے لگا۔
اسکی آوازیں سن کر ہنری کچن میں آ گیا تھا ۔اسنے اسکے ہاتھ سے چاقو لینے کی کوشش کی ۔
“جسٹ گیٹ آف مائی وے۔” اسنے بدتمیزی سے کہتے ہوئے چاقو اور مضبوطی سے پکڑ لیا ۔چونکہ چاقو کی دھار اوپر تھی اسلئے تیز چاقو نے اسکی ہتھیلی پر ایک گہرا زخم لگا دیا۔سرخ خون سفید ماربل کے سلیب پر ٹپکنے لگا تھا۔اسنے چاقو پھینک کر دوسرے ہاتھ سے اپنی ہتھیلی دبائی۔
“ایلن مجھے دیکھنے دو۔۔کہیں زیادہ گہرا زخم تو نہیں ہے ۔” ہنری نے تشویش سے کہتے ہوئے اسکا ہاتھ پکڑا۔
“آپ میرے سامنے مت آیا کریں ۔آپ میری زندگی میں اذیت دیتے زخم کے علاوہ کچھ نہیں ہیں ۔” اسنے بھرائی آواز میں کہا ۔حالانکہ اسنے اسکے ہاتھ سے اپنا ہاتھ نہیں چھڑایا تھا۔وہ جب بھی اپنے باپ کا چہرہ دیکھتا تھا تو اسے اپنی ماں یاد آتی تھی ۔اگر وہ اسے وہ سب خوشیاں دیتا جو اسکی ماں کو چاہیے تھی تو وہ کبھی دوسرا راستہ نہیں چنتی ۔
ہنری اسکی بات کا جواب دئیے بغیر خاموشی سے اسکے زخموں کی ڈریسنگ کرنے لگا۔سفید پٹی اسکی ہتھیلی کے گرد لپیٹ کر اسنے اس میں ایک گرہ لگائی اور ایک گلاس پانی میں دو لیمو نچوڑ کر ایلن کی طرف بڑھایا۔
“اسے پی لو۔۔تم بہتر محسوس کروگے۔” اسنے نرمی سے کہتے ہوئے اسکا کندھا محبت سے تھپکا۔
لب بھینچے اور نیلی آنکھوں میں چھائی ہوئی گہری سرخی کے ساتھ ایلن نے گلاس پکڑا اور ایک سانس میں خالی کر گیا تھا ۔چکراتے ہوئے سر میں قدرے افاقہ ہو گیا ۔اور اسے ایک دم سے متلی آنے لگی۔وہ دوڑتا ہوا واش بیسن تک گیا تھا ۔پھر وہ کافی دیر تک واش بیسن پر جھکا الٹیاں کرتا رہا تھا ۔جو کچھ اسنے کلب میں اپنے حلق میں انڈیلا تھا وہ سب باہر آ چکا تھا ۔منہ پر پانی کے چھینٹے مارتے ہوئے اسکی آنکھیں بے اختیار بہنے لگی تھیں ۔کیا اس دنیا میں کوئی اسکا اپنا تھا؟ کوئی ایسا جس سے وہ کامل محبت کر سکے؟ سارے محبت کرنے والے تو اس سے دور چلے گئے تھے ۔اور جب وہ اپنے مالک حقیقی تک پہنچنا چاہتا تھا تب وہ نہ جانے کہاں جا چھپا تھا۔اسکی نظروں سے دور ۔۔۔اسکے وہم و گمان سے پرے۔۔۔ابہام میں لپٹا۔۔۔بے یقینی اور یقین کے درمیان ۔۔۔۔
________
وہ اس دن دوبارہ نرسنگ ہوم گئی۔حالانکہ اسے وہاں کوئی کام نہیں تھا۔مگر جانے کیوں وہ اس خوبصورت آواز والے نوجوان سے ملنا چاہتی تھی۔
قریب دس منٹ کے بعد وہ رابرٹ کے بیڈ کے ساتھ رکھے اسٹول پر بیٹھی ہوئی تھی۔وہ اسے مدھم مسکراہٹ کے ساتھ اپنی بیماری کا بتا رہا تھا ۔وہ دس گیارہ سال کی عمر سے نیک پیرالائز تھا۔اور اسی حالت میں اسنے اپنی زندگی کے اکیس برس گزار لیے تھے۔اور بیڈ پر سیدھا لیٹے اسے اپنی زندگی کے کتنے سال مزید گزارنے تھے اس بات کا نا ہی اسے اندازہ تھا اور نا ہی علم۔
“تم قرآن پڑھتے ہو۔تو پھر اس کراس کا کیا مطلب ہے؟” زنیرہ نے وہ سوال کیا جسنے اسے سب سے زیادہ تجسس میں مبتلا کیا تھا ۔
“ہاں یہ کراس میں نے ہی یہاں لگایا ہے مگر میں آپکے مذہب سے تعلق نہیں رکھتا۔میں الحمد للہ مسلمان ہوں ۔” وہ زنیرہ کے گلے میں پہنی روژری کی وجہ سے اسے بھی عیسائی سمجھ رہا تھا ۔اسکی بات سے زنیرہ نے اپنے آس پاس یکدم آکسیجن کی کمی محسوس کی۔اسے لگا کہ ابھی اسکا دم گھٹ جائیگا۔اسنے لمبی اور گہری سانس لے کر اپنی حالت بہتر کرنے کی کوشش کی ۔
” تو تم نے اسلام کس طرح قبول کیا؟” اسنے بدقت نارمل لہجے میں پوچھا ۔ورنہ اس وقت اسکا دل چاہ رہا تھا کہ وہ یہاں سے بھاگ جائے اور کبھی اس جگہ واپس نہ آئے ۔
“یہ کراس جو آپ دیوار پر دیکھ رہی ہیں وہ میرے بہت گہرے دوست کا تھا۔میرے ساتھ اسی نرسنگ ہوم میں وہ ایڈمٹ تھا۔اسکی کڈنیاں خراب ہو چکی تھیں اور وہ ڈائلسس پر اپنی زندگی گزار رہا تھا ۔پھر ایک دن اسنے مجھے بتایا کہ اسے ڈونر مل گیا ہے اور وہ جلد ہی یہاں سے چلا جائیگا۔وہ بہت خوش تھا۔وہ خوش تھا کہ اسکی زندگی اب عام لوگوں کی طرح ہوگی۔مگر سرجری کے دوران ۔۔۔”رابرٹ نے کچھ سیکنڈ کا وقفہ لیا۔زنیرہ نے دیکھا کہ اسکی آنکھیں بھر آئی تھیں ۔” مگر سرجری کے دوران میں نے اپنے دوست کو کھو دیا ۔یہ کراس میں نے اسکی یادگار اور آخری نشانی کے طور پر اپنے پاس رکھ لیا تھا ۔”پھر وہ رک کر چند لمحے کچھ سوچتا رہا تھا۔زنیرہ اسکے بولنے کا انتظار کرتی رہی۔
“اس رات۔۔مجھے تاریخ تو یاد نہیں ہے مگر اس رات دیکھا گیا خواب مجھے اپنی جزئیات سمیت یاد ہے۔میرے خواب میں ایک شخص آئے تھے اور انہوں نے مجھے اپنا نام محمد بتایا۔اور مزید انہوں نے کہا کہ یہ کراس جو تم نے ٹانگا ہوا ہے اور جن عیسی مسیح کو تم خدا مانتے ہو وہ خدا نہیں ہیں ۔بلکہ در حقیقت خدا بس ایک خدا ہے۔جو ساری زمین و آسان اور ساری کائنات کا خالق ہے۔ خدا وہی ہے جس نے تمہیں بنایا، سارے انسانوں کو بنایا اور عیسی علیہ السلام کو بھی بنایا ۔میری اسی وقت آنکھ کھل گئی تھی ۔میں کبھی خوابوں کے حقیقی ہونے پر یقین تو نہیں رکھتا مگر نہ جانے کیوں میں وہ خواب جھٹلا نہیں پایا۔”وہ ایک عجیب سے جذبے کے زیر اثر کہہ رہا تھا ۔جیسے اب بھی اسکی آنکھوں میں حضرت محمد صل اللہ علیہ ولسلم کی شبیہ اتر آئی ہو اور وہ اب بھی انکی آواز کو اپنے کانوں میں سن رہا ہو۔
اور زنیرہ مسحور ہو گئی تھی۔اسکا پتھر ہو چکا دل چٹخنے لگا تھا۔
“اور پھر میں نے اگلی صبح ہی انٹرنیٹ پر محمد کو سرچ کرنا شروع کر دیا ۔جتنا میں نے سرچ کیا اتنی حقیقت مجھ پر کھلتی گئی۔پھر کیا تھا میں نے بغیر دیر کئے کلمہ شہادت پڑھ لیا۔” رابرٹ کے چہرے پر نور اتر آیا تھا۔زنیرہ نے خالی اور حسرت زدہ نگاہوں سے اسکے پُر نور چہرے کو دیکھا۔جب وہ وہاں سے نکلی تو اسکے دل پر زمانے بھر کا بوجھ تھا۔اوور کوٹ کی دونوں جیبوں میں ہاتھ ڈالے زنیرہ ادیب نے خود کو اتنا حقیر کبھی محسوس نہیں کیا تھا جتنا رابرٹ سے ملنے کے بعد کیا تھا۔وہ ایک عیسائی تھا اور وہ پیدائشی مسلمان ۔وہ عبادت کرنے سے قاصر تھا اور وہ فرائض کے ساتھ نوافل کی پابند۔پتہ نہیں اسنے اپنی زندگی میں زنیرہ جتنا صبر و توکل کیا ہوگا یا نہیں ۔مگر پھر بھی وہ خوش قسمت تھا، وہ خوش بخت تھا کہ اسے راستہ دکھانے اور ہدایت کی روشنی دکھانے کے لئے خود اس دنیا کا سب سے عظیم انسان آیا تھا ۔اور اُس کے ساتھ کیا کیا گیا؟ اسے ہر مصیبت سے لڑنے،انکا سامنا کرنے اور تاریکی میں بھٹکنے کے لئے تنہا اور بے یار و مددگار چھوڑ دیا گیا ۔کیا وہ رابرٹ سے ارزاں تھی؟ اسکا ہاتھ تھامنے، اسے سہارا دینے اللہ نے کسی کو نہیں بھیجا تھا۔زنیرہ ادیب کو اگر وہاں سے دھتکارا گیا تھا تو کیا اسکے پلٹنے کا کوئی راستہ تھا، کوئی موقع تھا؟ ہر سوال کا جواب نفی کے علاوہ کچھ نہیں تھا۔وہ آنسوؤں کو ضبط کرتی یونہی چلتی رہی۔برفیلی سڑک پر اسکے قدموں کے نشان بنتے اور بگڑتے رہے تھے۔
_______
وہ ایک بڑی سی مسجد کے سامنے کھڑا تھا۔پشت پر لٹکے گٹار کے ساتھ، اوور کوٹ کے بٹن آگے سے کھلے اور ایک ہاتھ جینز کی جیب میں ڈالے ہوئے وہ گہرے تفکر کے ساتھ مسجد الرحمۃ کے سامنے کھڑا تھا۔ مسجد کے داخلی دروازے کے آگے تین اسٹیپس تھے۔ کانسرٹ سے لوٹتے وقت وہ یونہی اپنے ذہن میں کسی خیال کے بغیر وہاں آ گیا تھا۔وہ کیا کر رہا تھا دہشت گردوں کے ہیڈ کوارٹر کے پاس؟ اسنے اپنا سر جھٹکا۔مگر اب وہ پہلے اسٹیپ پر چڑھ رہا تھا ۔اُن نیم وحشی انسانوں کے درمیان اسکا کیا کام ہے؟ اسکی پیشانی پر لکیریں ابھریں ۔اور اسکے قدم دوسرے اسٹیپ پر آ چکے تھے ۔وہ کون سا اسلام قبول کرنے آیا ہے؟ وہ تو الفریڈ کو بتانے کے لئے مزید وجوہات ڈھونڈنا چاہتا تھا کہ اسے اسلام میں کوئی دلچسپی کیوں نہیں ہے۔اسنے دایاں پیر تیسرے اسٹیپ پر رکھا اور اب وہ مسجد کے اندر داخل ہو چکا تھا۔
اسنے ستونوں والی مسجد کے وسیع و عریض ہال پر طائرانہ نظر ڈالی۔رات گہری ہو چکی تھی اسلئے اکا دکا لوگ ہی وہاں دکھائی دے رہے تھے ۔وہ جوتوں سمیت فرش پر بچھے قالین پر چلتا آگے بڑھا۔سِلور بالوں اور گردن پر نمایاں ٹیٹو والے اُس لڑکے کو ان لوگوں نے حیرت سے دیکھا۔کچھ کی آنکھوں میں اسے دیکھ کر واضح ناگواری تھی مگر وہ انکی نا پسندیدگی نظر انداز کر رہا تھا۔اسنے جیب سے چیونگم نکالی اور نہایت اطمینان سے اسکا ریپر اتار کر چیونگم کچلتا اپنے جوتوں سمیت نماز پڑھتے ایک شخص کے سامنے سے گزرا۔گٹار کی اسٹرپ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے وہ تنقیدی نظروں سے اپنے اطراف دیکھتا وسیع ہال کے وسط میں پہنچ چکا تھا ۔
پھر اسنے ایک لبنانی شخص کو اپنی طرف آتا دیکھا۔سفید جبے اور لمبی داڑھی کا حامل وہ شخص اسی جانب آ رہا تھا ۔ایلن نے اپنے سلور بالوں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے استہزائیہ انداز میں اسے دیکھا۔اسے قوی امید تھی کہ ابھی وہ اسکے پاس آ کر اس پر چیخے گا، اس پر چلائیگا اور پھر مسجد سے نکل جانے کو کہیگا۔وہ لوگ اپنے علاوہ کسی اور کا وجود کہاں برداشت کرتے ہیں ۔
“میں آپکی کیا مدد کر سکتا ہوں برادر؟” خلاف توقع اسنے بے حد نرم انداز میں پوچھا۔
“کیا آپ میرے کچھ سوالوں کے جواب دے سکتے ہیں؟” ایلن کے لہجے میں تمسخر تھا۔جیسے وہ اس سے اپنے سوالوں کے جواب نہیں چاہتا تھا بس اسکا مقصد اپنے سامنے کھڑے اس شخص کو نیچا دکھانا تھا۔
” کیوں نہیں؟ “وہ بیحد نرمی سے مسکراتا اسے اپنے ساتھ ایک کمرے میں لے آیا۔
ایلن نے اس سے سوالات کرنے شروع کر دئیے ۔اسے اصولاً اسلام میں خدا کے وجود اور اسکے متعلق سوالات کرنے تھے۔مگر وہ ابو حمزہ سے وہ سارے سوالات کر رہا تھا جسکا جواب عموماً ہر غیر مسلم چاہتا ہے۔وہ اپنی دانست میں سخت سوالات کر رہا تھا ۔ان سوالوں یا غلط فہمیوں کے جواب جو ہر کم علم مسلمان کی زبان بند کر دیتے ہیں ۔مثلاً اسلام ہی سچا مذہب کیوں ہے؟ عورتیں حجاب کیوں لیتی ہیں؟ آپ لوگ چار شادیاں کیوں کرتے ہیں؟ عورتیں ایک سے زیادہ شادیاں کیوں نہیں کر سکتیں؟ وغیرہ ۔۔
ابو حمزہ اسکے ہر سوال کا جواب بڑے تحمل سے دیتا رہا۔اگر وہ اسکے جواب پر مطمئن نہیں ہوتا تو وہ اپنے سامنے موجود ایک دبیز سی کتاب اٹھا کر اسکا مدلل جواب دے دیتا۔
ایلن کی پیشانی پر پڑے بل اور اسکی آنکھوں میں موجود طنز دھیرے دھیرے غائب ہونے لگا۔پہلے وہ جو سوالات محض مسلمانوں کو کمتر اور حقیر ثابت کرنے کے لئے کر رہا تھا اب اسکی جگہ تجسس اور اشتیاق نے لے لی تھی۔پھر وہ دیر تک وہیں بیٹھا رہا۔مزید سوالات ۔۔۔مزید استفسار ۔۔مزید مسائل کی جواب طلبی۔۔ابو حمزہ اسی نرمی سے اپنے سامنے رکھی دبیز کتاب سے اسکے ہر سوال کی تشفی کر رہا تھا ۔اسکی ساری باتیں، اسکے سارے دلائل، اسکی ساری حجت اُس کتاب میں موجود تھیں ۔الفاظ اس کتاب کے تھے، زبان ابو حمزہ کی تھی۔
“آپ ہر چیز اِس کتاب سے دیکھ کر کیوں بتا رہے ہیں؟ کیا آپکا اپنا کوئی نقطہ نظر نہیں ہے؟ کیا آپ خود اپنی کوئی رائے نہیں دے سکتے؟” ایلن نے اپنا آخری سوال کیا۔
اسنے ابو حمزہ اور چرچ کے پادریوں کے درمیان ایک واضح فرق محسوس کیا تھا ۔پادری کبھی کسی چیز کا جواب دینے کے لئے بائبل نہیں کھولا کرتے تھے اور ابو حمزہ کے لئے ہر سوال کا جواب قرآن میں موجود تھا۔
” ہمارا اپنا نا ہی کوئی نظریہ ہے اور نا ہی کوئی خیال ۔ہماری ساری رائے، سارا اجتہاد اس مقدس کتاب کے آگے ہیچ ہیں۔اللہ نے بنی آدم کی ساری مشکلات کا حل اسکی کتاب میں دے کر بھیجا ہے ۔” ابو حمزہ نے اسے بتایا تھا۔
اور ایلن جب مسجد سے باہر آیا تو اسکے دل میں مسلمانوں کے لئے نفرت بہت کم ہو چکی تھی ۔وہ ان لوگوں سے کافی حد تک متاثر ہو چکا تھا ۔
__________
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...