ہے کیسی ظلمت نہ ہاتھ کو ہاتھ دے دکھائی چراغ ڈھونڈو
ہے کون ساتھی ہے کون دشمن نہ دے سُجھائی چراغ ڈھونڈو
یہ پیر کس کے؟ وہ کس کا سر ہے؟ یہ بال کس کے وہ کس کا پر ہے
پتہ چلے گا مگر ابھی چھوڑ کر لڑائی چراغ ڈھونڈو
ارے یہ بندوق، تیز خنجر، ہ چاقو، پتھر کہاں سے لائے
عجیب ہو دے رہا نہیں کیا تمہیں سنائی چراغ ڈھونڈو
پڑھو کتابوں میں کیا لکھا ہے چراغ دیکھو کہاں پڑا ہے؟
مگر پڑھیں کیا بجھی بجھی سی ہے روشنائی چراغ ڈھونڈو
ہمیں ملے گا چراغ کیسے ذرا سی بھی روشنی نہیں ہے
چلو اٹھو ڈھونڈ کر جلاؤ دیا سلائی چراغ ڈھونڈو
کوئی نہیں رہنما تمہارا تمہیں سے ہے فاصلہ تمہارا
تمہیں کو کرنی ہے پار اندر کی اپنی کھائی چراغ ڈھونڈو
اب اس اندھیرے کی روشنی میں چلو کہ ماضی پہ غور کر لیں
اتر کے من میں سب اپنے اپنے کرو صفائی چراغ ڈھونڈو
نکل جو آئے ہو زن سے باہر، نکل بھی جاؤ نا ظن سے آخر
ہے کوکھ اب کائنات کی پیش اپنے بھائی چراغ ڈھونڈو
وطن کی تعمیرِنو کی خاطر طلب ہے قومی بیانئے کی
تو دینی ہو گی ادب کو سائنس تلک رسائی چراغ ڈھونڈو
بری ہے عادت طویل تمہید باندھنے کی، ہے بات اتنی
کہ چھوڑ دیں سب چھپن چھپائی، سمجھ میں آئی؟ چراغ ڈھونڈو
چلو اٹھو دیر ہو نہ جائے کہ ہاتھ یہ راکھ ہو نہ جائے
رگڑ رگڑ کر ہتھیلی اپنی یہ لَو جلائی چراغ ڈھونڈو