مجھے ابھی بھی اُمید تھی کہ میں پار لگ جاؤں گی۔
مجھے ابھی بھی ایک آسرا تھا۔ مجھے ابھی بھی صرف
روشنی دکھائی دیتی تھی۔ میری آنکھیں جانتی ہی
نہیں تھیں کہ اندھیرا کیا ہوتا ہے۔ میں نے کبھی گر کر
دیکھا ہی نہیں تھا۔ کبھی مجھے بدگمانی کے سمندر
میں پھینکا ہی نہیں گیا تھا۔ پھر میں کیسے مایوس ہو
سکتی تھی۔ مجھ پہ تو ہمیشہ کرم ہی کرم ہوا تھا۔ پھر
اب کیسے میں یہ آس چھوڑ دیتی کہ میں بچ نہیں
پاؤں گی۔ مجھے یقین کی دولت ہی تو ملی تھی اِس
جہان میں، جو میرا سب سے قیمتی اثاثہ تھا۔
__________________________________________
اُس ویران سڑک پہ چلتے ہوئے مجھ پہ کوئی خوف طاری نہ ہوا تھا کیونکہ مجھے ہمیشہ اپنے قریب صرف اللہ کی مدد کا حصار محسوس ہوتا تھا۔ ابھی بھی میں اسی یقین کی چادر اوڑھے چلتی جا رہی تھی جب اچانک مجھے سڑک کے کنارے فٹ پاتھ پہ ایک شخص نظر آیا۔ میرے قدم خود بخود اُس جانب بڑھنے لگے۔ معلوم ہوتا تھا کہ وہ بہت ئکلیف میں ہے۔ وہ رو رہا تھا اور اُس کے ماتھے سے خون بہہ رہا تھا۔ نہیں بلکہ اُس کے جسم سے بہت سی جگہوں سے خون رس رہا تھا۔ اُس کی گود میں ایک بہت پیارا سا بچہ تھا جو رو رو کر ہلکان ہو رہا تھا۔ اُس شخص کی ہچکیوں میں بہت درد تھا۔ میں نے کبھی ایسی خوفناک مدھم آواز نہیں سنی تھی۔ اُسے سانس لینے میں بھی مشکل پیش آر ہی تھی۔ وہ اپنی پریشانی و تکلیف میں ہوش سے اس قدر بیگانہ تھا کہ اُسے میرے اپنے پاس آ کر بیٹھنے کا بھی پتہ نہیں چلا۔ وہ خود گرنے والے انداز میں فٹ پاتھ پر پڑا تھا۔ میں نے اُسے مخاطب کیا۔
“بھائی صاحب کیا ہوا ہے آپ کو؟ آپ ٹھیک نہیں ہیں۔ آپ کو ہوسپٹل جانا چاہیے۔ یہ بچہ۔۔۔”
وہ جو میرے مخاطب کرنے سے میری جانب دیکھ رہا تھا، میرے الفاظ کاٹتے ہوئے بولا
“آپ۔۔۔ آپ۔۔۔اسے۔۔۔آپ اسے رکھ لیں۔ یہ۔۔۔یہ۔۔۔یہ کیسے۔۔۔کیسے جیے گا۔۔۔آپ۔۔آپ لے لیں۔”
وہ بس اتنا ہی بول سکا۔ وہ آہستہ آہستہ ہوش و خرد سے بیگانہ ہو رہا تھا۔ غنودگی اُس کے حواسوں پہ چھا رہی تھی۔ اُس کی ہچکیاں ہنوز برقرار تھیں اور پھر وہ کچھ ہی دیر میں مکمل طور پہ اپنے حواس کھو بیٹھا تھا۔ بچہ اُسکے بازوؤں میں سے گرنے لگا تھا جب میں نے اُسے تھاما
“آپ ٹھیک ہیں؟ سنیے۔ دیکھیے میں ایمبولنس بلا لیتی ہوں۔”
جواب ندارد۔ میں نے آگے بڑھ کر اُس کی نبض چیک کی۔اُسے بہت بار ہلایا۔ آواز دی۔ کوئی فائدہ نہ ہوا۔ وہ مر چکا تھا۔ مجھے بہت خوف آنے لگا تھا۔ میں نے کبھی کسی کو اتنے کرب میں مرتے ہوئے نہیں دیکھا تھا۔ اُس شخص کا خون بچے کے کپڑوں پہ بھی جا بجا لگا ہوا تھا۔ بچہ فقط چند دن کا معلوم ہوتا تھا۔ اُس ننھی جان کو اپنے ہاتھوں میں لیے میں حیران و پریشان تھی۔ مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ میں کیا کروں۔ میں نے آدھا گھنٹہ اُسی حالت میں بیٹھے گزار دیا۔ پھر اچانک میں اُٹھی اور اُس بچے کو گود میں لیے اپنے گھر کی جانب چل دی۔
__________________________________________
ہے دعا یاد مگر حرفِ دعا یاد نہیں
میرے نغمات کو اندازِ نوا یاد نہیں
ہم نے جن کے لیے راہوں میں بچھایا تھا لہو
ہم سے کہتے ہیں وہی عہدِ وفا یاد نہیں
زندگی جبرِ مسلسل کی طرح کاٹی ہے
جانے کس جرم کی پائی ہے سزا، یاد نہیں
“کیا تمہیں نہیں پتہ کہ وہ تمہاری مدر نہیں؟”
“یہ کیا بول رہے ہو تم حیدر؟ میں اپنی ماما کا بیٹا ہوں تم کیوں ایسے کہہ رہے ہو؟”
“کیونکہ وہ تمہاری ماما نہیں ہیں۔”
“تم غلط کہتے ہو۔ میں اپنی ماما کو بتاؤں گا۔”
اُس روز واپسی پہ موحد بہت خاموش تھا۔
“ماما کی جان کیا بات ہے؟ آج آپ نے بتایا نہیں کہ آپ نے کیا کیا ایکٹیوٹی کلاس میں۔”
“کیا آپ میری ماما نہیں؟”
سٹیرنگ پہ میری گرفت کمزور پڑ گئی اور ہمارا ایکسیڈنٹ ہوتے ہوتے بچا۔ میں نے سائیڈ پہ گاڑی پارک کی۔
“موحد جانو یہ کس نے کہا ہے آپ سے؟” ماما ہی آپ کی ماما ہیں۔ آپ نے کبھی اِس بارے میں کسی کی بات نہیں سننی اور نہ ہی ایسا سوچنا کہ ماما آپ کی ماما نہیں۔ اوکے؟”
“اوکے ماما”
“دیٹس لائک مائے گڈ بوائے۔”
میں نے موحد کو اپنے ساتھ لگایا۔
“اب اگر ہم اتفاق سے آئس کریم پارلر کے باہر رک گئے ہیں تو چلو پھر بتاؤ چاکلیٹ فلیور اور چاکلیٹ مینگو مکس؟”
“وہی جو میری ماما کھائیں گی۔”
“اوکے۔”
گھر واپس آ کر موحد کھانا کھا کر سونے کے لیے لیٹ گیا مگر میں گاڑی میں اُس کی پوچھی ہوئی بات میں اب تک گم تھی۔
‘آخر کبھی تو اُس کو پتہ چل جائے گا۔ پھر۔۔۔پھر کیا ہو گا؟ کیا وہ مجھے چھوڑ دے گا؟ میرے پاس تو اب اُس کے علاوہ کوئی ہے بھی نہیں۔ میں کیا کروں گی؟ اور میں۔۔۔میں اُس کے بغیر کیسے رہوں گی؟ وہ میرا حصہ بن چکا ہے اب۔ نہیں میں کبھی نہیں بتاؤں گی اُسے۔ اور بتانے سے کیا فائدہ؟ ہاں یہ ٹھیک ہے۔ میں اُسے کبھی نہیں پتہ چلنے دوں گی۔ اللہ جی پلیز میرے لیے آسانی پیدا کریں۔ مجھے اِس بچے سے کبھی دور نہ کریے گا۔’
__________________________________________
“موحد بیٹا ایسے تو نہیں کرتے نا ماما ساتھ۔ ماما سے آپ کی تکلیف برداشت نہیں ہو رہی۔”
اُسے وینٹیلیٹر پہ دیکھ کر میرا دل خون کے آنسو رو رہا تھا۔ میں کبھی اتنی کمزور نہیں پڑی تھی جتنی اس وقت موحد کی وجہ سے ہو گئی تھی۔ حتی کہ تب بھی نہیں جب۔۔۔
“دیکھیے پلیز آپ باہر جائیے۔ اِس طرح باقی پیشنٹس بھی ڈسٹرب ہو رہے ہیں۔” نرس نے مجھے کہا
مجھے پتہ ہی نہیں تھا کہ میں اونچی آواز میں روتی چلی جا رہی تھی۔ مجھ سے اپنے بچے کی تکلیف برداشت نہیں ہو رہی تھی۔
ایک ڈاکٹر راؤنڈ پہ آیا اور اب وہ موحد کی فائل پکڑے دیکھ رہا تھا۔ میں موحد کا ہاتھ پکڑے بیٹھی تھی۔ میرا دیہان ڈاکٹر کی طرف گیا
“یہ ٹھیک ہو جائے گا نا؟”
“اسے بہت چوٹیں آئی ہیں لیکن آپ حوصلے سے کام لیں۔ ان شاء اللہ وہ ٹھیک ہو جائے گا”
اس دوران میں نے ڈاکٹر کا چہرہ غور سے نہیں دیکھا لیکن ڈاکٹر کی آواز۔۔۔ وہ اگلے بیڈ کی جانب جاتے ہوئے مڑا
“سنیے”
مجھے اُس لمحے اُس شخص کی طرف دیکھنے سے بہت کچھ یاد آ چکا تھا۔
“جی”
“اس بچے کے پیرنٹس کہاں ہیں؟ آپ نے اُنہیں انفارم نہیں کیا؟”
وہ شاید میرا چہرہ بھول چکا تھا اور آواز بھی۔ نہیں بلکہ اُس نے میرے چہرے کی جانب تو دیکھا ہی نہیں تھا۔ وہ فائل دیکھ رہا تھا۔ اُس نے ایک بار بھی نظر اُٹھا کر نہیں دیکھا کہ وہ کس سے مخاطب ہے اور مجھے یہ اپنے حق میں سب سے بہتر لگا۔
“مے۔۔۔میرا بیٹا ہے یہ۔” میں نے اپنے آنسو پونچھتے ہوئے کہا
“اوہ۔ مجھے نرس نے بتایا کہ۔۔۔اٹس آل رائیٹ۔”
میں اُس وقت تئیس سال کی تھی اور دکھنے میں اور بھی چھوٹی لگتی تھی۔ اس عمر میں میرا شادی شدہ ہونا غیر متوقع نہیں تھا مگر وہ بچہ جسے میں نے اپنا بیٹا کہا تھا، وہ چھ سال کا تھا۔ اس لیے مجھے دیکھتے ہوئے نرس کے ذہن میں جو خیال آیا ہو گا وہ حیران کن نہیں تھا۔ اُس کی سوچ بالکل ٹھیک تھی کہ وہ میرا بیٹا کیسے ہو سکتا تھا۔ میں نے مزید کسی الجھن سے بچنے کے لیے وہاں سے جانے میں ہی عافیت سمجھی۔ یہ بات نہیں تھی کہ میں کسی کے سوال کا جواب نہیں دے سکتی تھی بلکہ مجھے اُس وقت موحد کے ٹریٹمینٹ میں کسی بھی مشکل کے زیرِ اثر تاخیر نہیں کرنا تھی۔
__________________________________________
اُس رات سے لے کر آج چھ سال گزر جانے کے بعد میں ہوسپٹل میں بیٹھی اُس بچے کی محبت میں تڑپ رہی تھی جسے ایک مرتا ہوا شخص مجھے اللہ کے انعام کے طور پہ سونپ گیا تھا۔ میں جتنا شکر ادا کرتی اس نعمت کا، اُتنا کم تھا۔
__________________________________________
مجھے سفید آنچل پہ جا بجا بکھرے دھنک رنگ بہت پسند تھے مگر مجھے اندازہ نہیں تھا کہ
رنگ کچے بھی ہوا کرتے ہیں اور یوں مجھے سفید اوڑھنی لیے لمبی مسافت طے کرنا پڑی۔
__________________________________________
مجھے اپنی ماں بہت یاد آ رہی تھی۔ اب تو مجھے شدت سے اس جذبے سے مزید محبت ہو چلی تھی جو ایک ماں کا اپنی اولاد سے محبت کا جذبہ ہوتا ہے۔
__________________________________________
چھ سال پہلے میرے گھر والوں نے میرا ساتھ دیا تھا۔ ہاں مشکل تھا مگر وہ لوگ مان گئے تھے کہ میں اس بچے کو اپنے ساتھ رکھ لوں اور اس بات کی مجھے بہت خوشی تھی۔ میں نے اُس کا نام موحد رکھا۔ دن گزرتے گئے اور یوں ایک سال گزر گیا۔ میں چھوٹی تھی مگر مجھے بڑا ہونا پڑ گیا تھا۔ میں نے بی۔ایس۔سی میں ایڈمیشن لے لیا تھا۔ سیچرڈے سنڈے اوف ہوتا تھا اور مزید ایک ہفتے میں تین چھٹیاں میں خود کر لیا کرتی تھی۔ گورنمنٹ کالج تھا اس لیے اٹینڈنس کا کوئی ایشو نہ تھا۔ باقی دو دن امی موحد کو سنبھال لیتی تھیں۔ میری اس دوران ایک ہی دوست تھی ‘انیا’ ۔ اُسے بھی موحد کے بارے میں، میں نے بتا رکھا تھا۔ یوں دو سال گزر گئے۔ اور بی۔ایس۔سی ہو گئی۔ تب تک موحد بھی تین سال کا ہو چکا تھا اور ماشاءاللہ سے بہت باتیں کرنے لگا تھا۔ وہ مجھے ماما ہی بلاتا تھا اور کیا بلانا چاہیے تھا؟ میں اُس کی ماں ہی تھی۔ میں نے اُسے ماں سے بڑھ کر پیار دیا تھا۔ امی کو اس بات پہ بھی اعتراض تھا۔
“دانی تم پاگل تو نہیں ہو گئی ہو؟ کیوں خود کے لیے مصیبتیں اکٹھی کر رہی ہو؟ پہلے ایک انجان بچے کو گود لے بیٹھی ہو اور اب ماں بلانے لگا ہے وہ تمہیں۔ کچھ ہوش کے ناخن لو۔ ہم نے تمہارے ہر جائز اور اچھے عمل میں تمہارا ساتھ دیا ہے مگر بٹیا مزید خود کو آزمائیشوں میں نہ ڈالو۔ آخر میں بھی ماں ہوں۔ ٹیپیکل سوچ ہی سہی میری مگر مجھے اپنی بیٹی کے نصیب میں اچھے کی چاہ ہے۔ یوں خود کے لیے کیوں کانٹے چن رہی ہو تم؟ مجھے دوبارہ سمجھانا نہ پڑے تمہیں۔”
“امی جب میں سترہ سال کی عمر میں ایک نعمت کو سنبھال چکی ہوں تو مزید اور کسی چیز کی طرف مجھے دیہان دینے کی ضرورت نہیں۔ میں آپ کو تکلیف نہیں دینا چاہتی مگر آپ پلیز یہ خیال ابھی اپنے ذہن سے نکال دیں کہ میں شادی کر لوں اور اس بچے کو پھر سے بے آسرا کر دوں۔ مجھے آج بھی اُس شخص کا اس بچے کی فکر میں ڈوبا ہوا درد سے بھرپور لہجہ یاد ہے۔ میں امانت میں خیانت نہیں کر سکتی۔ میں اس کی طرف سے غفلت برت کر اپنے لیے خوشیاں تلاش نہیں کرنا چاہتی۔ آپ پلیز میری بات سمجھیے۔ میں۔۔۔میں ایسا کبھی نہیں کر سکوں گی۔”
میں نے رو کر اپنا مدعا بیان کر دیا مگر اپنی ماں کے وہ آنسو مجھے اپنے دل پہ گرتے ہوئے محسوس ہوئے جو وہ مجھ جیسی اولاد کی محبت میں بہا نہ سکیں۔
میں نے پی۔یو میں اپلائی کر دیا تھا۔ کچھ دن کے بعد لسٹ لگی اور میرا ایڈمیشن ہو گیا۔ اب مجھے پی۔یو میں ایم۔ایس۔سی کرنا تھی۔ انیا نے بھی میرے ساتھ ایڈمیشن لیا۔ کچھ عرصے بعد موحد بھی سکول جانے لگا۔ ایڈمیشن میں ولدیت کے حوالے سے مسئلہ آیا تھا مگر پھر حل ہو گیا۔ مجھے ہمیشہ سے اس بات پہ یقین تھا کہ جب وہ کسی کام کے لیے اپنے بندے کو چنتا یے تو اُس کی ادائیگی میں آنے والی مشکلات میں مدد بھی فراہم کرتا ہے۔ میرا ایم۔ایس۔سی کا پہلا سال تھا۔ میں یونیورسٹی سے واپسی پر موحد کو سکول سے پک کرتی اور گھر آ کر اُس سے اُس کے سکول کی روداد سنتی۔ پھر ہم کھانا کھاتے اور تھوڑی دیر سو جاتے۔ شام کو میں اسے ہوم ورک کروا کر اس کے ساتھ کھیلتی۔ پھر رات کو اسے سلانے کے بعد اپنا یونی کا پڑھنے لگ جاتی۔ زندگی بہت مصروف مگر خوبصورت محسوس ہوتی تھی۔
ایک دن انیا کی کال آئی۔ اُس نے مجھ سے اپنے بھائی کے لیے اپنے پیرنٹس کو میرے گھر بھیجنے کی اجازت چاہی۔ میں نے فوراً منع کر دیا۔ میں اپنی زندگی کے بارے میں سوچنا نہیں چاہتی تھی۔ مجھے لگتا تھا کہ میرے رب نے جو ذمہ داری مجھے سونپی ہے، مجھے ساری زندگی اب وہی پوری کرنی ہے
“انیا تمییں معلوم ہے کہ میرے پاس موحد ہے پھر تم کیوں؟”
“کم آن دانی۔ آئی نو کہ موحد ہے تمہارے پاس۔ تم اپنے ساتھ موحد کو بھی لاؤ گی ادھر۔ پلیز۔ آدی بھائی بہت اچھے ہیں۔ اُنہیں کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔”
“انیا تم ہوش میں آؤ۔ جب ایسا ممکن ہی نہیں ہے تو تم اس بارے میں کیوں سوچ رہی ہو؟ دیکھو اس بات کو یہیں ختم کرو۔ جاؤ اب سو جاؤ۔ میں نے ابھی موحد کا یونیفارم بھی پریس کرنا ہے۔”
“عقیدت کیوں اپنی خوشیوں سے منہ موڑ رہی ہو تم؟ تمہیں اسی بات کا ڈر ہے نا کہ بھائی موحد کو نہیں اپنائیں گے اور موحد کہیں نیگلیکٹڈ چائلڈ نہ بن جائے۔ یہی ڈر یے نہ تمہیں؟”
“انیا مجھے شادی کرنی ہی نہیں۔ نہ اب اور نہ بعد میں کبھی۔ گڈ نائٹ۔ بائے۔”
‘اللہ جی پلیز میری مدد کریں۔ مجھے اس امانت کو کسی پہ بوجھ کی طرح نہیں ڈالنا۔ کوئی کیوں نہیں سمجھتا۔’
اگلے کئی دن انیا مجھے مناتی رہی مگر میں نے اُس کی کوئی بات نہ سنی۔ پھر اُس نے بھی یہ بات چھوڑ دی۔
پھر ایک دن انیا نے یونیورسٹی چھوڑ دی۔ میں نے اُسے بہت کالز کیں مگر اُس کا فون بند رہا۔ بہت بار اُس کے گھر گئی مگر وہاں تالا لگا ہوتا۔ گرد و نواح میں کسی کو معلوم نہ تھا کہ وہ لوگ کہاں چلے گئے۔ میری ایک دوست تھی اور وہ بھی اب میرے ساتھ نہیں رہی تھی۔ میں بہت دن تک اپ سیٹ رہی۔ مجھے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ یوں اچانک وہ لوگ بنا بتائے کہاں چلے گئے۔
وقت گزرتا گیا۔ ایم۔ایس۔سی کا پہلا سال خیر سے گزر گیا۔ موحد کی بھی اب کلاس چینج ہو گئی۔ ابو بھی اب اپنے آفس میں بہت کم جایا کرتے تھے۔ دو، تین دکانوں کا کرایہ آ جاتا تھا۔ الحمدللہ ہم اچھے حالات میں اپنی زندگی بسر کر رہے تھے۔
میری ایم۔ایس۔سی ہو گئی۔ میں نے ایک یونیورسٹی میں لیکچرر کے طور پر جاب سٹارٹ کر دی۔ اسی دوران امی ابو کا ایک ایکسیڈینٹ میں انتقال ہو گیا۔ وہ میری زندگی کے سب سے تلخ دن تھے۔ ایک طرف مجھے اپنے والدین کی جدائی مار رہی تھی تو دوسری طرف موحد سے ریلیٹڈ لوگوں کے سوالات۔ امی ابو کے ہوتے ہوئے کبھی کسی نے اس بارے میں زیادہ تفتیش نہیں کی۔ ہم نے سب کو وہی بتایا جو کہ سچ تھا مگر اب لوگوں کو یہ بات صرف ایک من گھڑت کہانی لگتی تھی۔ مجھے اپنی دوست بھی بہت یاد آتی تھی۔ انیا بہت اچھی تھی مگر پتہ نہیں وہ کہاں چلی گئی تھی۔ میں نے مزید ایک سال سب کی باتیں سنتے گزار دیا اور پھر بالآخر رہائش تبدیل کر لی۔
موحد کلاس ون میں تھا۔ ایک دن اُس کی ٹیچر کی کال آئی۔ موحد سکول میں کھیلتے ہوئے سیڑھیوں سے گر گیا تھا اور اُسے ہوسپٹل لے جایا جا چکا تھا۔ میں فوراً اپنی کلاس چھوڑ کر ہوسپٹل کے لیے بھاگی۔
__________________________________________
مجھے آج اُس شخص کو دیکھ کر اپنی دوست کی پھر سے بہت یاد آئی مگر اُس سے کچھ بھی نہیں پوچھ سکتی تھی۔ میں نے اڑھائی سال پہلے اُس شخص کے خلوص کو ٹھکرایا تھا۔ اب تو کچھ بھی بات کرنے کی ہمت نہیں تھی اور مجھے تو یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ اُس نے مجھے دیکھا بھی تھا یا نہیں اور اگر دیکھا تھا تو جانے پہچانا بھی یا نہیں۔ ایسا ممکن تو نہیں تھا مگر۔۔۔۔
“آپ کو ڈاکٹر صاحب نے آفس میں بلایا ہے۔”
میں ماضی میں گم تھی جب نرس نے آ کر مجھے بتایا اور دو منٹ بعد میں ڈاکٹر ادیان کے روم کے باہر تھی۔
“کیا میں اندر آسکتی ہوں؟”
“یس پلیز۔”
میں اندر چلی گئی۔
“ارے آپ کھڑی کیوں ہیں مس عقیدت؟ پلیز ہیو آ سیٹ۔”
میں ابھی بھی یہ بات پورے یقین سے نہیں کہہ سکتی تھی کہ وہ مجھے پہچان گیا تھا۔ اس نے ابھی بھی میری جانب نہیں دیکھا تھا۔ شاید فائل سے نام پڑھا ہو۔ میں بیٹھ گئی۔
“جی وہ نرس نے بتایا تھا کہ آپ نے کچھ بات کرنی ہے۔ موحد کب تک ٹھیک ہو جائے گا؟”
“اُس کا بلڈ لاس زیادہ ہوا ہے اس لیے تھوڑا ٹائم لگے گا ریکور ہونے میں لیکن وہ جلد ٹھیک ہو جائے گا ان شاء اللہ۔”
ذرا سا رک کر ڈاکٹر نے بات جاری کی۔
“مگر میں نے آپ کو موحد کے بارے میں بات کرنے کے لیے نہیں بلایا۔”
“جی؟”
اب کی بار میں نے ڈاکٹر کی طرف دیکھا۔ وہ میری طرف ہی متوجہ تھا۔
“مان لیا کہ میں آپ کو یاد نہیں کیونکہ ہمارے درمیان کبھی کوئی تعلق تھا ہی نہیں مگر کیا آپ انیا کو بھی بھول چکی ہیں؟”
“انیا”
ایک کسک دل میں اٹھی کہ جانے میری بہن جیسی دوست اب کیسی ہو گی۔ شاید پہلے جیسی ہی نٹ کھٹ سی۔
“کیسی ہے وہ؟”
“مر گئی وہ۔”
“آپ پاگل تو نہیں ہو گئے ہیں؟”
میرے لیے یہ ناقابلِ یقین بات تھی۔ میں چیخنے کے سے انداز میں بولی
“ہاں ہو گیا تھا پاگل جب آپ نے مجھے ٹھکرایا تھا۔ ہاں میں تب بھی پاگل ہوا تھا جب میری پیاری بہن یہ دنیا چھوڑ گئی تھی اور اُس کی زبان پہ اپنی دوست کا نام تھا۔ ہاں میں تب بھی پاگل ہوا تھا جب میری ماں اپنی جوان بیٹی کے غم میں اپنی سانسیں ہار بیٹھی تھی۔”
“یہ کیا گھٹیا مذاق ہے ڈاکٹر ادیان؟ آپ کو معلوم ہے مجھے انیا کتنی پیاری ہے۔ اس لیے آپ جان بوجھ کر ایسی باتیں کر رہے ہیں تاکہ آپ مجھ سے بدلہ لیں مگر آپ کو شرم آنی چاہیے اپنی ماں اور بہن کے بارے میں ایسا کہتے ہوئے۔ میری انیا کو نہیں کچھ ہو سکتا۔ وہ، وہ میری بہن ہے۔ مجھے نہیں معلوم کی آپ لوگ کیوں چلے گئے گھر چھوڑ کر مگر میں نے اُسے ہمیشہ اپنے قریب محسوس کیا ہے۔”
میں اٹھ کر جانے لگی تھی جب میرے کانوں میں کچھ الفاظ پڑے اور میں اپنی جگہ سے ہل نہ سکی۔
“یہ کوئی مذاق نہیں ہے۔ انیا اور امی اب اس دنیا میں نہیں ہیں عقیدت۔ انیا کو۔۔۔انیا کو بریسٹ کینسر ہو گیا تھا اس لیے ہم نے گھر چھوڑ دیا اور انگلینڈ شفٹ ہوگئے۔ وہاں اُس کی کیمو بھی ہوئی اور پھر سرجری بھی مگر اللہ نے اپنی امانت ایسے ہی واپس لینا تھی اس لیے سرجری کے چھ ماہ بعد وہ ہمیں چھوڑ کر چلی گئی۔ میری گڑیا نے آپ کو بہت یاد کیا مگر وہ آپ کو اپنی بیماری کے بارے میں بتا کر دکھی بھی نہیں کرنا چاہتی تھی۔ ہاں لیکن جس دن اُس کی ڈیتھ ہوئی، اُس دن اُس نے مجھے کہا کہ میں آپ سے اُس کی بات کرواؤں۔ میں نے آپ کے گھر کال کی مگر آپ اُس وقت گھر پہ نہیں تھیں۔”
مجھے وہ دن یاد آیا جب میں یونیورسٹی سے لوٹی تھی تو امی نے بتایا تھا کہ میرے لیے کوئی فون آیا تھا مگر فون کرنے والے نے نام نہیں بتایا۔ میں بہت حیران تھی کیونکہ انیا کے بعد میری کوئی دوست نہیں بنی تھی اور کسی بھی کلاس فیلو کے پاس میرے گھر کا فون نمبر نہیں تھا۔
“امی اُس کے غم کو جھیل نہیں سکیں اور پھر دو ماہ بعد اُن کا بھی انتقال ہو گیا اور میں یہاں آگیا۔”
انیا نے بتایا تھا کہ اُس کے والد اُس کے بچپن میں ہی وفات پا گئے تھے۔
“یہ انیا نے آپ کے لیے دیا تھا۔”
میری آنکھیں آنسوؤں سے تر تھیں۔ میں پلٹ بھی نہ سکی۔ موحد کی پریشانی ہی برداشت نہیں ہو رہی تھی اور اب انیا کی موت کا سن کر مجھے ہوش ہی نہ رہا اور وہیں زمین پہ گر گئی۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...