سلو پوائزن ہے فضا میں پلوشن
ہر اک شخص پر یہ حقیقت ہے روشن
یونہی لوگ بے موت مرتے رہیں گے
نہ ہو گا اگر جلد اس کا سلوشن
بڑے شہر ہیں زد میں آلودگی کی
جو حساس ہیں ان کو ہے اس سے الجھن
فضا میں ہیں تحلیل مسموم گیسیں
ہے محدود ماحول میں ’’آکسیجن‘‘
جدھر دیکھئے ’’کاربن ‘‘ کے اثر سے
ہے مایل بہ پژمردگی صحن گلشن
کسی کو ’’دمہ‘‘ ہے کسی کو ’’الرجی‘‘
مکدر ہوا سے کسی کو ہے ’’ٹینشن‘‘
جوانوں کے اعصاب پر ہے نقاہت
بزرگوں کی اب زندگی ہے اجیرن
کہاں جائیں ہم بچ کے آلودگی سے
کہیں بھی نہیں چین گلشن ہو یا بن
کئی ۔۔’’یونین کاربائڈ‘‘ ہیں اب بھی
جو در پردہ ہیں نوع انساں کے دشمن
شب و روز آلودگی بڑھ رہی ہے
ہیں ندیاں سراسر کثافت کا مخزن
جہاں گرم سے گرم تر ہو رہا ہے
نہ ہو جائے نوع بشر اس کا ایندھن
ہے ’’اوزون‘‘ بھی زد میں آلودگی کی
جو ہے کرۂ ارض پر سایہ افگن
جو بھرتے ہیں دم رہبری کا جہاں کی
وہ رہبر نہیں درحقیقت ہیں رہزن
’’کیوٹو‘‘ سے کرتے ہیں خود چشم پوشی
لگانے چلے دوسروں پر ہیں قدغن
بناتے ہیں خود ایٹمی اسلحے وہ
سمجھتے ہیں خود کو مگر پاک دامن
’’سنامی‘‘ ہے انکے لئے درس عبرت
دکھانے چلے ہیں جو فطرت کو درپن
سلامت رہے جذبۂ خیرخواہی
چھڑائیں سبھی اس مصیبت سے دامن
ضروت یہ ہے وقت کی آج برقی
بہرحال اب سب پہ نافذ ہو قدغن
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...