آدم خان چغتائی اَور داؤد انصاری شام کو جب اِستنبول پہنچے تو تھک کر چور چور ہوچکے تھے۔ خاص کر آدم۔ اِس کا سر، دَرد سے پھٹا جا رَہا تھا۔ اِن کو گھر سے نکلے ہوئے دَو تین دِن ہوچکے تھے اَور اِس نے اَب تک ڈھنگ کی چائے نہیں پی تھی۔ دَرد شقیقہ کی شکایت اُسے بچپن سے ہی تھی۔ دَونوں کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کرنا ہے۔ آدم کہنے لگا،’ ’یار کوئی سا ہوٹل دِیکھو، نہ مَیں ٹھیک سے نہایا ہوں ،نہ دانت صاف کیئے ہیں۔ کپڑے بھی میلے ہیں‘‘۔
داؤد کہنے لگا،’’اَصل کہانی تو اَب شروع ہوگی، میری جان ۔ سارے رَاستے تم علم و ادب پے گفتگو کرتے رَہے ہو، اَب جاہل اَور بے ادب د ُ نیا میں دَاخل ہونے جارَہے ہو‘‘۔
بس سے نکلتے ہی اِن کے پیچھے ہوٹلوں اَور سیاحتی اِداروں کے ایجنٹ پڑگئے۔ ٹیکسیوں وَالے بھی۔ دَونوں نے اِن کو منع کر دِیا۔
آدم نے پھر مشورہ دِیا،’’یار کیوں نا وَائی اَیم سی اَے کے ہوسٹل چلیں، کوئی یوتھ ہوسٹل دِیکھو‘‘۔
داؤد کہنے لگا،’’تمہارا دِماغ تو صحیح ہے۔ ہم سارے پیسے ہوٹلوں میں رَاتیںگزار کر ضائع کرنے نہیں آئے۔ یہ پاکستان نہیں ہے۔ہمیں جب اَور جس جگہ پیسوں کی ضرورت پڑی ، مل جائیں گے۔ اَب اَصل پردِیس شروع ہوا ہے۔ سب سے پہلے اِیجنٹ ڈَھونڈنا ہوگا۔جو ہمیں ڈَنکی کے ذَریعے یونان لے کر جائے گا۔ تقریبا ًپانچ سو سے ہزار ڈالر تک خرچ آئے گا‘‘۔
آدم نے پوچھا ،’’یہ اِیجنٹ اَور ڈَنکی ،میری سمجھ میں تو کچھ نہیں آتا‘‘۔
’’یار، شاید تمہیں پہلے بھی بتایا تھا اِیک ملک سے دَوسرے ملک میں بِنا وِیزے اَور کاغذات کے جانا اِیجنٹوں کی زُبان میں ڈَنکی کہلاتا ہے اَور اِیجنٹ ہر وہ شخص ہوتا ہے جو پیسے لے کر یا اَپنا کمیشن لے کر آپ کے مسائل حل کرے۔ خواہ وہ جائز ہوں یا ناجائز۔ اَب اِیجنٹ تو ہر جگہ ہوتے ہیں۔خواہ وہ پاکستان ہو یا ترکی۔فرانس ہو یا اِنگلستان۔ یہ ہر نسل، قوم،مذہب کے ہوتے ہیں۔ ہوسکتا ہے تم بھی اِیک دِن اِیجنٹ بن جاؤ۔ تمہارے اَندر کافی خوبیاں ہیں۔وَیسے تمہاری اِطلاع کے لیئے عرض ہے کہ اَگر یوتھ ہاسٹل یا وَائی اَیم سی اَے چلے بھی جائیں تو اِس کے لیئے اِن کا کارڈ بنوانا پڑتا ہے اَور پہلے سے جگہ محفوظ کروَانی پڑتی ہے۔پچھلی دَفعہ جب مَیں آیا تھا تو Yucelt Inter Youth Hostel (یاکل ٹ انٹر یوتھ ہاسٹل) میں ٹھہرا تھا۔ اِس کے بعد میں جگی دادا کے ہاں چلا گیا تھا۔پچھلی دَفعہ ڈَنکی کے دَوران اُسے پولیس نے گرفتار کرلیا تھا۔اُسے جیل بھیج دِیا تھا اَور ہمیں ڈیپورٹ کردِیا گیا تھا۔میرے ساتھ کے کئی لڑکے اَب بھی جیل میں ہیں۔ لیکن فکر کی کوئی بات نہیں، اُس گھر میں کوئی نا کوئی ضرور ہوگا۔ ٹیلی فون نمبر میرے پاس ہے۔ مَیں فون کرتا ہوں‘‘۔
٭
اِن کا متعلقہ شخص سے رَابطہ نہ ہوسکا۔ اِنہوں نے خلافِ معمول اِیک سستا سا ہوٹل دِیکھا۔ داؤد نے تھوڑے سے ڈالر تبدیل کیئے۔بس کا ٹکٹ خرید کر متعلقہ آدمی کے ہاں جانے سے پہلے آدم کو تاکید کرگیاکے،’’ ہوٹل میں اَپنے کاغذات اَور پیسوں کی حفاظت کرنا۔یہ مت سمجھنا کہ اَگر تم تالا لگا کر چلے جاؤ گے تو سب کچھ بحفاظت رَہے گا۔دَوسری چابی ہوٹل کے عملے کے پاس ہوتی ہے۔ وہ چادر، تولیہ اَور صابن بدلنے آتے ہیںاَور کمرے کی صفائی کے ساتھ ساتھ کئی چیزوں کی صفائی کر کے چلے جاتے ہیں۔ یہ ضروری نہیںکہ اَیسا ہی ہو، لیکن اِحتیاط ضروری ہے‘‘۔ یہ ہدایات دِے کر داؤد چلتا بنا۔
٭
آدم نے سب سے پہلے دَانت صاف کیئے پھر غسل کیا اَور کپڑے بدل کر ہوٹل کے رَیستوران میں چلا گیا کہ کچھ کھائے پیئے لیکن اِس کی بھوک مرچکی تھی۔اِس نے اَپنے کاغذات اَور پیسے احتیاط ًپاس ہی رَکھ لیئے۔ باہر نکل کے کیا دِیکھتا ہے ۔ اِیک نئی د ُ نیا ہے۔ سارے سائن بورڈز اَنگریزی حروف میں تھے۔لیکن پڑھنے کے بعد سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا۔ یا تو ٹرانسلٹریشن ،(اِیک زبان اَلفاظ دوسری زُبان کے حروف میں لکھنا)تھی یا کوئی اَور زبان تھی۔ اِسے رَتہ اَمرال کی گلیوں میں کھڑے ٹرک یاد آگئے۔ جن پے اُردو میں لکھا ہوتا، خان گڈز فاروَرڈِنگ اَور اِسے کبھی بھی سمجھ نہ آتا کہ گڈز فارورڈنگ (goduz for wording) کیا ہوتاہے ۔جب اِس نے شعور کی منزلوں کو چھویا تو پتا چلا، جسے وہ goduz for wording پڑھتا تھا وہ اَصل میں goods forwarding (گڈز فوورڈنگ یعنی
چیزوں کی نقلِ حمل )تھا۔اِسی طرح میلاد نگر اَور اَلیکٹرک کو وہ میلہ دَنگر اَور علی کڑک پڑھتا تھا۔ترکی کے سائن بورڈز بھی اِسے وَیسے ہی لگے۔ اَب اِسے یقین ہوچلا تھاکہ وہ پردِیس میںہے۔ترکی جدید طرز کا ہے۔ اِیران کے برعکس یہاں لوگ آزادخیال ہیں ۔سرکاری زبان ٹرکش ہے لیکن لوگ اَنگریزی اَور جرمن بھی جانتے ہیں۔ وہ اِیک چھوٹی سی دَوکان میں گھس گیا۔ و ُ ہاں اِیک بوڑھا ترک اَپنی موچھوں سے کھیل رَہا تھا اَور اَپنی زبان میں کچھ کہہ رَہا تھا۔آدم کو دِیکھتے ہی کہنے لگا، ’”yes…….what” (جی۔۔۔کیا) ؟ آدم نے چند پوسٹ کارڈز پسند کیئے ،قیمت ادا کر کے دوکا ن سے باہر نکل آیا۔ کارڈز کو غو ر سے دِیکھنے لگا۔ ہاگیہ صوفیہ ، نیلی مسجد، سلیمانیہ مسجد۔ تینو ں کارڈز بہت خوبصورت تھے۔ اِن کی پشت پر ٹر کش، اَنگریزی، فرانسیسی اَور جرمن میں لکھا ہوا تھا کہ کس جگہ کے کارڈز ہیں۔ کارڈز اُٹھائے وہ
سڑک پے چل نکلا۔ کبھی کبھی رَاہ چلتے لوگ مڑ کے دِیکھ لیتے۔ وہ گنگنانے لگا،
’’تیرا شہر بھی کتنا عجیب ہے
کوئی دَوست ہے نہ رَقیب ہے‘‘
سڑک پے چلتے چلتے اچانک اِس کی نظر اِیک دوکان پر پڑی۔ نہ رَیستوران تھا،نہ ڈھابہ ۔ لوہے کی اِیک سلاخ پے گوشت لگا ہوا تھا اَور گھوم رَہا تھا اَور اِس کے اِیک طرف آگ جل رَہی تھی۔ بالکل اِس طرح لگ رَہا تھا ، جیسے سردِیوں میںاِن کے گھر، گیس کے ہیٹر کی آگ جلتی تھی۔ اِیک آدمی اِیک لمبی سی چھری سے گوشت اُتارتا، اِیک نان نما لمبی سی رَوٹی کو دَرمیان سے چیرا لگا کر اُس میں گوشت بھرتا اَور سلاد ،چٹنی اَور رائتہ ملا کر لوگوں کو پیش کرتا۔
آدم نے پوچھا،”what is this” (یہ کیا ہے؟)
دوکاندار،”doner kebab, you tourist” (ڈونر کباب ، تم سیاح)
آدم، ,”yes” (جی ہاں)
دوکاندار، "from” (کہاں)
آدم،”Pakistan” (پاکستان)
دوکاندار، "arkadash, arkadash”(آرکداش، آرکداش)
آدم نے ڈونر کباب کے لیئے کہا۔ اُس نے جلدی سے بنا کر پیش کردِیا۔ آدم نے پیسے ادا کیئے اَور ڈونر کباب کھانے لگا ۔ کافی لذیذ تھا۔ وہ کباب کھاتا کھاتا ہوٹل کی طرف لوٹا۔ اُس نے کمرے کا رُخ کیا کیونکہ اِسے سامان کی فکر تھی۔ کمرے میں دَاخل ہوتے ہی اِس نے سب سے پہلے سامان کی جانچ کی۔کچھ بھی غا ئب نہیں تھا۔ تھوڑی دِیر میں داؤد دَاخل ہوا۔ ہلکا ہلکا نشے میں لگتا تھا۔وہ بڑ بڑا رَہا تھا،’’ یار بڑے دِنوں بعد پی ہے۔ یہ رَاکی (ترکی کی اِیک بیئر کا نام) چیز ہی اَیسی ہے۔ دَو بوتلوں کے بعد ہی چڑھ گئی۔ تم بھی پیا کرو، دِیکھو نا کتنی گرمی ہے‘‘۔
آدم بڑا پریشان ہوا۔ یہ کیا ہے۔ داؤد شراب بھی پیتا ہے۔خیر آدم کے لیئے یہ کوئی نئی بات نہ تھی۔ کیونکہ رَتہ اَمرال میں کئی لوگ پی کر غل غپاڑہ کرتے اَور نالیوں میں گرے پڑے ہوتے۔ وہ اَچھا تو نہیںسمجھتا تھا لیکن اِس نے کچھ نہیں کہا۔
داؤد نشے میں پھر بڑبڑانے لگا، ’’بَبلی۔۔۔۔۔بَبلی، تجھے مَیں حاصل کر کے رَہوں گا اَور چاچا مَیں تم سے زیادہ اَمیر آدمی بن جاؤں گا۔ آدم تم نے بھی میرے ساتھ دَھوکا کیا۔سارے رَاستے لوگوں سے باتیں کرتے رَہے اَور اُس لڑکی سے بھی۔ مجھے بھی اَگر فرنچ زبان آتی تو مَیں بھی بات کرلیتا‘ ‘ اَور بڑبڑاتے بڑبڑاتے بستر پے ڈھیر ہوگیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صبح جب دَونوں کی آنکھ کھلی تو آدم نے اُسے رَات وَالی بات کی روئیداد سنائی۔ داؤد نے ماننے سے بالکل اِنکار کردِیا کہ،’’ اُس نے یہ باتیں کی ہیں‘‘ ۔آدم نے کیا کہنا تھا۔ رَات گئی بات گئی۔
آدم نے داؤد سے پوچھا ، ’’ایجنٹ کا پتا چلا‘‘۔
’’ہاں اِیک آدمی سے ملاقات ہوئی ہے۔ اِنڈین سردار ہے۔ جٹلہ نام ہے ۔کشن سنگھ جٹلہ، لیکن سارے اُسے شندے کے نام سے جانتے ہیں اُس کی اِیک کھیپ گئی ہوئی ہے۔ اِیک ہفتے بعد ہمارا نمبر آئے گا۔بس د ُعا کرو، کام بن جائے۔پچھلی دَفعہ تو مَیں پکڑا گیا تھا۔ وَیسے ،آدم تم خوش بخت و خوش قسمت اِنسان ہو۔ سارا سفر بھی اَچھا کٹا اَور کسی طرح کی تکلیف بھی نہیں ہوئی‘‘ ۔
’’اَور وہ مہ جبیں قزلباش‘‘۔
’ ’بھول بھی جاؤ،مَیںنے نشے میں کوئی بکواس کردِی ہوگی‘‘۔
’’داؤد اِیک بات پوچھو، یہ ترکی تو اِسلامی ملک ہے۔لیکن یہاں بھی شراب ملتی ہے‘‘۔
’’تو کیا پاکستان اِسلامی ملک نہیں، و ُ ہاں شراب نہیں ملتی‘‘۔
’’ملتی ہے،لیکن اِس طرح کھلے عام نہیں‘‘۔
’’اَرے چھپ کر بیچیں یا کھلے عام۔مزا تو تب ہے کہ مری بروری ہی بند کردِیں‘‘۔
’’ہاں یہ درست ہے۔ لیکن اَگر مری بروری بند بھی کر دِیں۔ تو کیا فرق پڑتا ہے۔ لوگ گھروں میںبھی تو کشید تے ہیں‘‘۔
’’پہلے تو عام ہی تھی۔رَوٹی کپڑا اَور مکان کے دَور میںتو آسانی سے مل جایاکرتی تھی۔ سُرمے وَالی سرکار نے آکر پابندی لگا دِی اَور لوگوں کو ہیروئن اَور چرس جیسی لعنت مل گئی۔ اَچھا چھوڑو اِن باتوں کو ،تم بھی کہیںگئے تھے یا نہیں‘‘۔
’’تمہاری اِطلاع کے لیئے شراب پے پابندی سُرمے وَالی سرکار نے نہیں بلکہ رَوٹی کپڑا اَور مکان وَالوں نے ہی لگائی تھی۔ خیرمَیںنیچے بازار تک گیا تھا۔یہ پوسٹ کارڈز لایا ہوں۔اَور اِیک نئی چیز کھائی ہے۔ڈونر کباب۔ بہت مزیدار تھا‘‘۔
’’یار یہ کارڈز کیا کرو گے، تمہیں پتا ہے ڈَنکی کے لیئے ہمیں اِیک پتلون اَور قمیص میں جانا ہوگا۔ یہ سب کچھ یہیں چھوڑ جائیں گے۔ خواہ مخواہ تم نے پیسے ضائع کیئے‘‘۔
’’تم بھی تو بیئر اَور سگرٹ پے پیسے خرچ کرتے ہو‘‘۔
’’وہ مَیں نہیں چھوڑ سکتا۔ میرا مطلب ہے سگرٹ اَور بیئر تو شراب نہیں ہوتی۔ جَو کا پانی ہوتا ہے۔وَیسے ہی گرمیوں میں کبھی کبھی پی لیا کرتا ہوں‘‘۔
’’آدم نے موضوع بدلتے ہوئے کہا،’’تمہیں پتا ہے ،یہ ہاگیہ صوفیہ کیا ہے‘‘؟
’’مجھے کیا پتا، کسی لڑکی کا نام ہوگا‘‘۔
’’یہاں کوئی سیاحتی معلوماتی دَفتر نہیں ہے۔ اُن سے معلومات مل جائیں گی‘‘۔
’’آدم تم بھی عجیب آدمی ہو۔ ہم یہاں سیر کرنے تھوڑی ہی آئے ہیں۔ تمہیں پتا ہے اَگر ڈِیپورٹ ہوگئے تو لوگ ہمارا کتنا مذاق اُڑائیں گے‘‘۔
’’اَبھی ہمارے پاس پورا ہفتہ باقی ہے‘‘۔
’’اِس ہفتے میں کھانا پینا، ہوٹل کا خرچہ‘‘ ۔
’’مَیں کون سا اِن کو دِیکھنے جارَہا ہوں۔ مَیںتو صرف معلومات حاصل کرنے جارَہا ہوں۔ شاید و ُہاں سے کوئی معلوماتی کتابچہ مل جائے‘‘۔
’’اَور آدم اَیسا بھی ہوسکتا ہے ،ہفتے سے پہلے ہی ڈَنکی کا اِنتظام ہوجائے‘‘۔
’’ داؤد۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہاں اذان نہیں ہوتی‘‘؟
’’ہوتی ہے ۔اذان کے علاوہ تمام عبادات ٹرکش زبان میں ہوتی ہیں۔ میرا باوا بھی نمازی ہے۔ اذان سنتے ہی مسجد کی رَاہ لیتا ہے۔اُس کے ماتھے پے سیاہ رَنگ کا محراب ہے۔ پتا نہیں چٹائیوں پے زِیادہ ماتھا رَگڑتا ہے‘‘۔
’’تو کیا نماز اَور د ُ عائیں سب ٹرکش میںہیں‘‘؟
’’ہاں ہاں۔ کمال اتا ترک نے ترکی کو مکمل طور پے بدل کے رَکھ دِیا۔ اُس سے پہلے ترکی میں بڑی بڑی دَاڑھیوں وَالے شخص گھوما کرتے تھے۔ اُس نے نہ صرف ترکی کو جدید کیا بلکہ ٹرکش زبان کے حروفِ تہجی بھی رَومن اَنداز میں کردِیئے۔ لباس بدل دِیا۔اَیسے ہی تو نہیں اُسے لوگ اتاترک کہتے۔ ترکوں کا باپ‘‘۔
’’اَرے داؤد تمہیں یہ سارا کچھ کیسے پتا ہے۔ بڑے چھپے رُستم نکلے‘‘۔
’’تم ہمیں کیا سمجھتے ہو۔تمہیں پتا ہے مَیں پورے پندرہ دِن ذَلیل و خوار ہوکر گیا ہوں‘‘۔
’’یہ سب ٹھیک ہے ، لیکن ہم یونان کیسے جائیں گے‘‘۔
’’یہ سب تم شندا صاحب پے چھوڑ دَو۔ وہ بڑا شاطرایجنٹ ہے۔ حالات کے مطابق ڈَنکی تیار کرتا ہے۔ اَچھا اَب مَیں چلتا ہوں۔ شام کو ملتے ہیں‘‘۔
آدم نے کہا،’’اَور مَیں‘‘۔
’’تم اِنتظار کرو۔ ہوسکتا ہے جٹلہ صاحب کے ہاں رَہنے کا اِنتظام ہوجائے۔ یہ ہوٹل تو ہم زیادہ دِن نہیں افورڈ کرسکتے۔ڈَنکی میں دِیر سویر بھی ہوسکتی ہے‘‘۔
٭
آدم نے سوچا آج ضرور معلومات اَکھٹی کرے گا۔ وہ کپڑے بدل کر نیچے بازار میں چلا گیا۔ موسم بہت اَچھا تھا۔ اِس لیئے وہ پیدل ہی چلتا گیا۔ اِس کے سر میں شدید دَرد شروع ہوگیا۔ اِس نے سوچاچائے پی جائے۔ لیکن یہاںکی چائے تو بالکل مختلف تھی اَور زیادہ تر لوگ قہوہ پیتے ۔ بیئر وہ پیتا نہیں تھا۔ اِس نے سوچا کیوں نہ کافی پی جائے۔ اِس میں نکوٹین بھی ہوتی ہے اَور کیفین بھی ۔اِس کی ضرورت پوری ہوجائے گی۔وہ اِیک کیفے میں دَاخل ہوا۔کیفے کا نام پڑھ کر اِسے بڑی حیرت ہوئی،’’برلن کیفے‘‘۔کچھ دِیر سوچ کر وہ بار کے باہر لگی کرسیوں میں سے اِیک پر، جو خالی تھی ، بیٹھ گیا۔بیرے نے آکر پوچھا،”what” (جی کیا خدمت کرسکتا ہوں)
اِس نے جواب دِیا،”Just one coffee” (صرف اِیک کافی)
تھوڑی دِیر میں وہ کافی لے کر آگیا۔ آدم نے تین چمچ چینی کے ملائے اَور جیسے ہی چُسکی لی اِسے اَیسالگاجیسے کوئی کڑوی چیز منہ میں چلی گئی ہو۔ لیکن آس پاس بیٹھے ہوئے لوگوں کو پتا نہ چلے ، اِس لیئے اِس نے چہرے کے تاثرات سے پتا نہ چلنے دِیاکہ بہت کڑوی ہے۔ کافی پینے کا یہ اِس کا پہلا تجربہ تھا۔ اِس نے مزید چھ سات چمچ چینی کے ملائے اَور چمچ سے ہلانے لگا۔ اِس کی بغل میں دَرمیانی عمر کا اِیک گورا بیٹھا تھا۔ لگ بھگ پچاس کا ہوگا۔ کئی طرح کے نقشے اَپنے سامنے کھول کر بیٹھا ہوا تھا۔آدم نے سوچا، اِس سے پوچھتا ہوں، ہاگیہ صوفیہ کا۔ شاید اِسے پتا ہو۔ شکل سے تو کوئی سیاح لگتا ہے۔
آدم، "Excuse me” (معاف کیجئے گا)
گورا،”Yes” (جی)
آدم، "Do you know what is Hagia Sofia” (کیا آپ جانتے ہیں یہ ہاگیہ صوفیہ کیا چیز ہے؟)
گورا،”Yes it’s a historical church” (ہاں، یہ ایک تاریخی گرجا ہے)
آدم،” I am sorry, my name is Adam, Adam Khan Chughtai and your’s (معاف کیجئے گا میرا نام آدم ، آدم خان چغتائی ہے اور آپ کا ؟)
گورا، "My name is Henry, Henry Globjatnikof.I am from States, I mean United States of America” (میرا نام ہنری، ہنری گلوب جتنی کوف ہے۔ میں سٹیٹس کا رہنے والا ہوں ۔میرا مطلب ہے یونائیٹڈ سٹیٹس آف امیریکہ)
آدم،”I am from Pakistan” (جی میں پاکستان کا رہنے والا ہوں)
ہنری، "Oh!……..Pakistan, the neighbouring country of India. you have Kashmir problem and Afghan refugees problem as well” (او۔۔۔۔۔پاکستان ، انڈیا کا ہمسایہ ملک۔آپ کے ہاں کشمیر کا مسئلہ اور افغان مہاجرین کا کافی مسئلہ ہے)
آدم،These are all political stunts. the political tycoons, cash every political issue” (یہ تمام سیاسی باتیں ہیں۔بڑے بڑے سیاست دان ہر سیاسی شوشے سے فائدہ اُٹھاتے ہیں)
ہنری، "Well, I have nothing to do with these things” (خیر ، مجھے اس سے کیا لینا دینا)
آدم،”What you do , here is Turkey, I mean Istanbul” (آپ یہاں کیسے، ترکی میں ،میرا مطلب ہے استنبول میں)
ہنری، "I am restorer” (میں ریسٹورر ہوں،مخدوش اشیاء کو نئی زندگی دینے والا)
آدم، "What is restorer?” (یہ ریسٹورر کیا ہوتا ہے؟)
ہنری، ” I am working for Byzantine Institute of America. Me and my team, we are restoring Byzantine monuments since 1931. I am working in Hagia Sofia. We are still repairing tapasteries,frescoes and mosaics” (میں بازنطینی انسٹیٹیوٹ آف امیریکہ کے لیئے کام کر رہا ہوں۔میں اور میرے ساتھی ہم ۱۹۳۱ سے بازنطینی عمارات و یادگاروں کی مرمت کررہے ہیں۔میں ہاگیہ صوفیہ میں کام کررہا ہوں۔ ہم اب بھی ٹیپیسٹریز، فریسکوزاور موزائیک مرمت کررہے ہیں۔یعنی انہیں نئی زندگی دے رہے ہیں)
آدم،”What are these? I mean frescoes, tapastaries and mosaics” (یہ کیا ہیں؟۔ میرا مطلب ہے ٹیپیسٹریز، فریسکوز اور موزائیکز)
ہنری، "Tapastaries are, any heavy woven cloth with decorative designs and pictures.frescoes are, the art of painting with water colours on wet plaster and mosiacs are, the porcess of making pictures or designs by inlying small bits of coloured stones or glass etc, etc.” (ٹیپیسٹریز، کسی بھی بنے ہوئے کپڑے پے خوبصورت تصاویر اَور نمونے بنانے کو کہتے ہیںیعنی غالیچے کی وہ قسم جو تصاویر و نقش ونگار سے مزین ہو۔گیلے پلستر پے کچے رَنگوں سے تصویریں بنانے کو فریسکوز کہتے ہیں کیونکہ اطالوی اور لاطینی زبان میں فریسکوکا مطلب ہے تازہ، ٹھنڈا یا گیلا گیلا یعنی استرکاری پر رنگ سے نقش ونگار بنانا۔موزائیک یعنی پچی کاری کام۔رنگین شیشوں اور خوبصورت پتھروں کو اس طرح جڑنا یا اس ترتیب سے لگانا کہ کوئی تصویر یا خوبصورت نقش بن جائے اور آنکھوں کو بھلا لگے)
آدم، "Thanks Mr Glob……jat……..ni……….kof.your name is difficult. Would you like to tell me somthing about Hagia Sofia” (شکریہ جناب گلوب ۔۔۔۔۔۔۔جت۔۔۔۔۔نی۔۔۔۔۔کوف صاحب۔آپ کا نام تھوڑا مشکل ہے۔ کیا آپ مجھے ہاگیہ صوفیہ کے بارے میں بتانا پسند کریں گے)
آدم، "Yes of course, I am working there from last many weeks” (ہاں کیوں نہیں۔میں و ُ ہاں پچھلے کئی ہفتوں سے کام کررہا ہوں)
آدم، "If you don’t mind” (اگر آپ کا برا نہ لگے تو)
ہنری، ” No I don’t…….well……it’s a long story but I will tell you, well…… it was like that. Originally known as great church . the name Hagia Sofia means , The Holy Wisdom of Christ. the second person of the holy trinity. Byzantine king Justinian concieved the grandois project. Construction work lasted for five years, from 532a.d. to 537 a.d.and on the
december 27th, 537A.D. Patriarch Menas consecrated the magnificient church.It was great church of Constantanople. six hundred people were serving .80 priests,50 deacons, 40 deaconess, 6o sub deacons, 160 readers, 25 chanters and 75 door keepers.
Constantinople,suffered in the hands of catholic crusaders.after 1204 A.D. Latin crusaders looted everything from the church. Seven embossed gospel books of gold were looted as well. On tuesday 29th ,1453,Sultan Mehmat , the conquerer entered the vanquished city, late in the afternoon and rode to Hagia Sofia. he was amazed at it’s beauty and decided to convert the cathederal into his imperial mosque” (نہیں بالکل بھی نہیں۔اصل میں یہ ایک لمبی کہانی ہے۔ اس کا اصل نام عظیم گرجا ہے۔ہاگیہ صوفیہ کا مطلب ہے حضرت عیسیٰ ؑکی مقدس ذات پاک،یعنی مقدس تین چیزوں میں سے دوسرے نمبر والی۔بازنطینی بادشاہ نے اس عظیم منصوبے کا تخیل پیش کیا۔ اس کی تعمیر پانچ سال تک جاری رہی۔۵۳۲ عیسویں سے لے کر ۵۳۷ عیسویں تک اور ۲۷ دسمبر ۵۳۷ عیسویں میں پتری آرک میناس نے اس عظیم گرجے پر نظر و نیاز پیش کی۔ یہ قسطنطنیہ کا عظیم گرجا تھا۔ چھ سو لوگ اس کی دیکھ بھال کے لیئے معمور تھے۔ اسی۸۰پادری، ایک سو پچاس ۱۵۰ ڈیکنز،یعنی نیاز و تبرکات کا مہتمم،چالیس ۴۰ڈکن عورتیں،۶۰ ساٹھ نائب ڈیکنز،۱۶۰ ایک سو ساٹھ ریڈرز یعنی قاری یا پڑھنے والے،۲۵ پچیس گانے والے اور ۷۵ پچھتر دربان۔
راسخ العقیدہ رومن عیسائیوں کی صلیبی جنگوں سے قسطنطنیہ کو کافی نقصان پہنچا۔ ۱۲۰۴ عیسویں میں لاطینی صلیبی جنگیں کرنے والوں نے اس گرجا گھر کی تمام چیزیں لوٹ لیں۔ سونے کی تاروں سے لکھی ہوئی سات انجیلِ مقدس بھی ساتھ لے گئے۔
۱۴۵۳ عیسویں میں ۲۹ تاریخ بروز منگل سلطان محمد فاتح اپنے اس مفتوحہ شہر میں داخل ہوا۔ شام کے وقت اس نے ہاگیہ صوفیہ کا رخ کیا۔ وہ اس کی خوبصورتی سے بہت متاثر ہوا اور اس نے اس گرجے کو اپنی شاہی مسجد میں تبدیل کرنے کا حکم دِے دِیا‘‘۔
آدم،Thanks Mr Globjatnikof.It’s very interesting but what happened after 1453″ (شکریہ جناب گلوب جتنیکوف صاحب۔ یہ بہت دلچسپ ہے۔ لیکن ۱۴۵۳ (عیسویں) کے بعد کیا ہوا؟)
ہنری، ” As I told you , it became mosque in 1453 with minerates and great chandelier was added.
in the 17th century Byzantine mosiacs were uncovered. in 1847 Sultan Abdul Majid hired two Italian restorers.Gasper Fossatti and Giuseppe Fossatti. All mosiacs were restored. In 1935 it was made into museum. the walls are still hung with muslim calligraphic disks and since 1931, the Byzantine Institute of America has been uncovering the christian mosiacs” (جیسا کہ میں آپ کو بتا چکا ہوں۔۱۴۵۳ میں یہ گرجا مناروں اور فانوس کے اضافے سے مسجد میں تبدیل کردیا گیا تھا۔سترہویں صدی عیسویں میں بازنطینی پچی کاری کے کام کو جسے عرفِ عام میں موزائیک کے نام سے جانا جاتا ہے دوبارہ ظاہر کردیا گیا جو کہ ڈھک دی گئی تھیں۔سلطان عبدل مجید نے ۱۸۴۷ میں دو اطالوی ریسٹورروں، یعنی پرانی چیزوں کو جو فنونِ لطائف سے متعلق ہوں کو بحال کرنے والوں کو جناب گیسپر فوساتی، جوزپے فوساتی کو اس کام پر معمور کیا۔تمام پچی کاری کے کام کو دوبارہ بحال کیا گیا، یعنی ریسٹور کیا گیا۔ ۱۹۳۵ میں اسے میوزیئم، یعنی عجائب گھر میں تبدیل کردیا گیا۔ اس کی دیواروں پے اب بھی مسلمانوں کے خطاطی کے نمونوں سے مزین ہیں۔۱۹۳۱ سے امریکہ کا بازنطینی انسٹیٹیوٹ ان کی مرمت کررہا ہے اور عیسائیوں کی بنائی ہوئی موزائیک،یعنی پچی کاری کے کام کو صاف کررہا ہے۔)
آدم،”Mr Globjatnikof, last question.In the beginning you told me , you are your team ,are restoring Byzantine monuments. It means there isn’t only Hagia Sofia, there are other monuments as well” (جناب گلوب جتنیکوف صاحب آخری سوال۔شروع میں آپ نے بتایا کہ آپ اور آپ کے ساتھی بازنطینی یادگاروں کو بحال کررہے ہیں۔اس کا مطلب ہے صرف ہاگیہ صوفیہ نہیںہے اور بھی تعمیرات ہیں۔)
ہنری، "The list is too long but there are 25 Byzantine churches. Many of these are still in use as mosques” (ان کی فہرست تو بہت لمبی ہے۔لیکن ۲۵ بازنطینی گرجے ہیں۔ان میں سے اکثر اب بھی مسجدوں کے طور پے استعمال ہو رہے ہیں۔)
آدم،”Mr Globjatnikof, you live in America or you are American” (گولب جتنیکوف صاحب آپ امریکہ میں رہتے ہیں یا آپ امریکن ہیں)
ہنری،” Very interesting, I know ,why you said that,………………because of my name. Mr Chughtai, you know your name is Chughtai. Chugta was the name of Ganghes Khan’s son. If I consider your nationality according to your name than you must be from Mongolia but you are Pakistani. Similarly my parents were Jew and they had to leave Russia due to communism and they were settled in Estonia. When it became the Russian dominian. My parents migrated to States. I was born in America. So I am more American than anybody else” (یہ بہت دلچسپ سوال ہے۔ میں جانتا ہوں آپ نے یہ سوال کیوں کیا ہے۔ میرے نام کی وجہ سے۔چغتائی صاحب ، آپ کا نام چنگیز خان کے بیٹے کا نام تھا۔ اس کا نام چغتاء تھا۔ اگر میں آپ کی شہریت آپ کے نام کی مناسبت سے دیکھوں تو آپ یقینا منگولیہ کا رہنے والا ہونا چاہئے۔ لیکن آپ پاکستانی ہیں۔بالکل اسی طرح میرے والدین یہودی تھے۔ لیکن انھیں کمیونزم کی وجہ سے روس چھوڑنا پڑا اور یہ روس سے نقلِ مکانی کرکے استونیہ چلے گئے۔ جب استونیہ بھی روس کی باجگذار ریاست بن گیا تو وہ امریکہ چلے گئے۔ میں امریکہ میں پیدا ہوا اور میں کسی بھی امریکن سے کم نہیں ہوں۔)
اِسی اَثناء ہنری کا موبائل فون بجنے لگا۔ اُس نے فون سننے کے لیئے اِجازت چاہی۔ فون سننے کے بعد کہنے لگا
ہنری،Mr Chughtai, nice meeting you. If you want to see Hagia Sofia or more informations about Byzantine monuments. This is my visiting card. You don’t need to pay entrance fee. Just show them this card. I have to go” (چغتائی صاحب آپ سے مل کر خوشی ہوئی۔اَگر آپ کو ہاگیہ صوفیہ دیکھنا ہو یا اس کے بارے میں مزید معلومات چاہیئے ہوں اور بازطینی یادگاروں کے بارے میں بھی۔ یہ میرا وزیٹنگ کارڈ ہے۔ آپ کو اندر داخل ہونے کے لیئے ٹکٹ کی ضرورت پیش نہیں آئے گی۔ بس یہ کارڈ دکھا دیجئے گا۔ اب مجھے جانا ہوگا۔)
آدمـ:thank you very much mr globjatnikof.if i will have time .i will come.i would love to see all the Byzenitne monuments” (گلوب جتنیکوف صاحب بہت بہت شکریہ۔اگر میرے پاس وقت ہوا تو میں ضرور حاضر ہوں گا۔ مجھے تمام بازنطینی یادگاریں اور عمارات دیکھ کر خوشی ہوگی۔)
آدم کا دِھیان کافی کی طرف گیا۔ ٹھنڈی ہوچکی تھی۔ اِس نے اِیک ہی گھونٹ میں ساری پی لی۔ اِس میں کڑواہٹ اَب بھی باقی تھی لیکن مٹھاس کا بھی مزہ تھا۔ پینے کا بعد اِس کا جی متلانے لگا۔ وِیٹر بل لے کر آگیا۔ آدم نے جیب میں پیسے دِیکھے تو کم تھے کیونکہ وہ پیسے تبدیل کروَانا بھول گیا تھا۔ بیرا جاکر مالک کو بُلا لایا،’’یہ آدمی پیسے نہیں دِے رَہا‘‘۔آدم نے کہا ،’’رِیٹ لسٹ پر کم لکھے ہیں‘‘۔ اِس آدمی نے کہا، ’’جناب وہ کاونٹر کا رِیٹ ہے۔جن کرسیوں پے آپ بیٹھے ہیں اِس جگہ کا ہم ٹیکس دِیتے ہیں۔اِس کے علاوہ بھی ٹیکسسز ہیں۔ مَیںنے یہ بار بھکاریوں کے لیئے نہیں کھولی۔ مَیں نے دَس سال جرمنی میں محنت مزدوری کی ہے، تب جاکر یہ جگہ نصیب ہوئی ہے۔ وَیسے کہاں کے ہو تم‘‘۔
آدم نے کہا،’’جی پاکستان‘‘۔اِتنا سُننا تھا کہ وہ کہنے لگا،’ ’اَرکداش اَرکداش، معاف کرنا ،تم یہ پیسے بھی
رَہنے دَو۔ پاکستانی ہمارے بھائی ہیں۔لیکن آئندہ یاد رَہے،کسی بار میں بھی جاؤ تو رِیٹ لسٹ پے مت جانا۔ معاف کرنا مَیں غصے میںکچھ زیادہ ہی بول گیا‘‘۔
آدم نے بہت کہا کہ،’’ پیسے بعد میں دِے جاؤں گا‘‘
لیکن وہ کہنے لگا، ’’اَب اَور شرمندہ نہ کرو‘‘۔ آدم برلن بار کو دِیکھنے لگا۔ اِس نے اَپنی گھڑی پے نظر دَوڑائی اَور ہوٹل کی رَاہ لی۔
٭
آدم جب ہوٹل پہنچاتو داؤد اِس کا اِنتظار کررَہا تھا۔’’یار کدھر چلے گئے تھے ۔ضرور کسی ٹورسٹ آفس چلے گئے ہوگے۔ جلدی سامان باندھو،ہم جٹلہ صاحب کے ہاں ٹھہریں گے۔ و ُ ہیں سے ہمارا آگے جانے کا اِنتظام ہوگا‘‘۔
دَونوں نے جلدی جلدی سامان باندھا اَور ٹیکسی لے کر جٹلہ صاحب کے اَڈے پر پہنچ گئے۔جٹلہ صاحب کا گھر اُسکدر کے علاقے میں تھا۔یہاں پر زیادہ تر اِیشیائی ممالک کے لوگ رَہتے ہیں۔ اِن میں اِیرانی، پاکستانی ،ہندوستانی، بنگالی اَور سری لنکن ۔ یہاں سے اٹلی اَور یونان کے لیئے ڈَنکیاں تیار کی جاتی ہیں۔
٭
آدم اَور داؤد ،جیسے ہی پہنچے، اِن کا جٹلہ صاحب نے بڑی گرم جوشی سے اِستقبال کیا۔’’ ست سری آکال، شلاما لیکم‘‘۔آدم دِیکھتا کا دِیکھتا رَہ گیا۔ لمبا تڑنگا ،نہ سکھوں جیسی شباہت۔ نہ سر پے سکھوں جیسی پگ، نہ کیس۔ وہ بڑا حیران ہوا۔ اِس نے بیساکھی کے دِنوں میں راولپنڈی رِیلوے سٹیشن پر کئی سکھوں کو ٹرین سے اُترتے، آتے جاتے دِیکھا تھا۔ یہاں سے وہ حسن اَبدال ، پنجہ صاحب جاتے۔لیکن جٹلہ اِس کے تصور سے بالکل مختلف نکلا۔ اِسے مونے سکھ دِیکھنے کا اِتفاق کبھی نہیں ہوا تھا۔
جٹلہ، ’”You want some coc” (کیا تم تھوڑی سی کوک لینا پسند کرو گے)
آدم جھٹ بول پڑا،’ ’جی ہاں‘‘۔کیونکہ پیاس سے اِس کا گلہ بالکل خشک ہوچکا تھا۔ جٹلہ صاحب نے
جلدی سے اَپنی جیب سے سفید پڑیا نکالی اَور میز پے پلاسٹک کے ٹیلی فون کارڈکیساتھ اِس سفید سفوف کی دَو لائنیںبنائیں۔ اِیک کو خود اِیک ٹرکش لیرے کے نوٹ کی نلکی بنا کر، ناک کے ذَریعے کھینچ لیا اَور و ُہی ٹرکش لیرے کے نوٹ کی بنی ہوئی نلکی آدم کو تھما دِی، ’’لو کوک پیئو‘‘۔آدم بڑا حیران ہوا،’ ’جی مہاراج ! یہ کیا‘‘ ؟’ ’یہ کوکین ہے‘‘۔’ ’جی مَیں سمجھا آپ کوکا کولا کی بات کررَہے ہیں‘‘ ۔جٹلہ صاحب کوکین پیتے ہی کہنے لگے،
a thing of beauty is joy forever
Keats
say this city has ten million souls
W.H.Auden
آدم بڑا حیرت سے جٹلہ صاحب کو سن رَہا تھا کہ کیا کہہ رَہے ہیں۔ پھر جٹلہ صاحب بولے،
’ ’اُؤئے پراچے، اِنا نو اِنا دِے سونڑ دِی جگہ دَس‘‘۔
پراچہ دَونوںکو اَندر کمرے میں لے گیا۔ بیشمار جوتوں اَور چپلوں کے جوڑے اِس طرح بکھرے ہوئے تھے جیسے کسی مسجد کے باہر جماعت سے پہلے دَاخلی دَروازے پے پڑے ہوتے ہیں۔زَمین پر گدے بچھے ہوئے تھے۔ آہستہ آہستہ لوگوں نے آنا شروع کیا۔ بنگالی، سردار، پاکستانی۔ آدم کو بہت عجیب لگا۔ اَبھی وہ اِسی اُدھیڑ بُن میںتھاکہ اِیک لڑکا اِس کے پاس آکر کہنے لگا،
’’پاکستانی اَو‘‘؟
آدم نے جواب دِیا،’ ’جی‘‘۔
وہ شخص بولا،’ ’کتھو دِے اَو‘‘؟
آدم بولا،’’جی راولپنڈی کے ہیںاَور آپ‘‘؟
وہ شخص بولا،’ ’اَسی سرگودھے دِے آں۔ تو آڈے کول مسواک ہے‘‘۔
آدم،’ ’جی میرے پاس تو ٹوتھ برش ہے‘‘۔
وہ شخص بولا،’ ’اَے کے بلا اَے‘‘۔
آدم ،’’جی دَانتو کا برش‘‘۔
وہ شخص بولا،’’اَو جو وِی اَے لے آؤ۔ ذرا دَند میلے ہوگئے سَن ۔میں آکھیاچلو وَل صاف ہی کر گھنیئے‘‘۔
آدم ،’’لیکن وہ تو میرا برش ہے‘‘۔
وہ شخص بولا،’ ’تے فیر کی ہویا۔ دَند صاف کرکے وَل دَھو دِیساں۔ فیر نواں ہو وَیسی۔ اَسی مسلمان بھرا آں۔ کیڑھا پلید ہووَیسی‘‘۔
آدم کو بالکل سمجھ نہیں آرَہا تھا کہ وہ کہاں آگیا ہے۔ جٹلہ کوکین پی رَہا تھا، یہ برش مانگ رَہا تھا۔ داؤد ، آدم کی حالت بھانپتے ہوئے کہنے لگا،’ ’ہاں تو محترم ،ادب و سیاحت بھول گئے۔ آگے آگے دِیکھئے ہوتا ہے کیا‘‘۔
زَمین پر گدے بچھے تھے۔ اِیک کمرے میں لاشوں کی طرح سب پڑگئے۔ آدم کویاد آیا، جب رَتہ اَمرال میں کسی کے ہاں شادی یا کوئی فوتیدگی ہوتی تو لوگوں کے گھروں سے گدے اَور چارپائیاںمانگ کر لوگوں کے سونے کا اِنتظام کیا جاتا تھا۔ آدم سونے کی کوشش کرنے لگا۔ لیکن نیند کوسوں دَور تھی۔ وہ سوچنے لگا،وہ کس د ُنیا میں آگیا ہے۔ اِیک اِیک کر سب اِس کی آنکھوں کے سامنے آنے لگے۔نجمہ بیگم، نادِیہ، خاقان صاحب۔ وہ سوچنے لگا ۔ہم سب کیوں بھاگتے ہیں۔ نجمہ بیگم اَپنی زِندگی سے فرار چاہتی ہے۔اِسے کس چیز کی کمی ہے۔نادیہ بہرام بھی فرار چاہتی ہے۔ لیکن کس چیز سے۔ خاقان صاحب ، اِس کے وَالد صاحب اَپنے بچوں سے فرار چاہتے ہیں۔آخر کیوں؟ اِنسان یُگوں سے کیوں بھاگ رَہا ہے۔ پارسی ، اِیران سے اِنڈیا بھاگ گئے۔ مسلمان، ہندوستان سے پاکستان بھاگ آئے۔ گلوب جتنیکوف کے وَالدین رَوس سے اِستونیاء اَور اِستونیاء سے اَمریکہ بھاگ گئے۔ظہیر ا لدین بابر نے پہلے فرغانہ چھوڑا۔پھر سمرقند و بخارا بھی چھوڑدِیا اَور ہندوستان چلا آیا۔آریاء، میتانی قبیلے چھوڑ کر ہندوستان ،ایران اَور آئرلینڈ چلے گئے۔ کیوں؟۔ہم کیوں بھاگ رَہے ہیں؟ یہ دَوڑ، یہ فرار کب ختم ہوگا؟ اَور پھر اِس کی آنکھ لگ گئی۔
٭
صبح جب اِس کی آنکھ کھلی تو اِسے پراٹھوں اَور سالن کی خوشبوؤآئی۔ اِس نے داؤد سے پوچھا،’’یہاںچائے بھی ملے گی‘‘ ۔
داؤد نے کہا،’’ہاں چائے بھی ملے گی۔ لیکن ہم یہاں زیادہ دِن نہیں رُکیں گے۔ اَگر اِس ہفتے ہماری ڈَنکی کا اِنتظام ہوگیا اَور اَللہ کرے کامیاب ہوجائیں تو ہم لوگ ہفتے کے اَندر اَندر یورپ میں دَاخل ہوجائیںگے۔ ہماری اَگلی منزل اَلیکسندرا پولس ہے‘‘ ۔
اَبھی وہ باتوں میں مصروف تھے کہ جٹلہ صاحب کا پیغام آگیا کہ ِاس نے دَونو ں کو بلا یا ہے۔دَونوں جٹلہ صاحب کے سامنے کھڑے تھے۔جٹلہ صاحب مخاطب ہوئے، ’’ہاں تو پاکستانیوں،داؤد صاحب اَور تمہارا کیا نام ہے‘‘ ۔آدم نے جلدی سے بتایا’’آدم خان چغتائی‘‘۔’’چگتائی صاحب ، آپ دَونوں چار چار تصویریں اَور پانچ پانچ سو ڈالر جمع کروادِیں۔ یہاں رَہنے کا خرچہ، کھانا پینااَور ڈَنکی کا خرچہ اِس میں شامل ہے۔ مَیں پیسوں کے معاملے میںکسی پر اِعتبار نہیں کرتا۔اَور چگتائی (چغتائی) صاحب کل آپ مجھ پر ہنس رَہے تھے کہ یہ کیسا سردار ہے۔ اِنسان کو حالات اَیسا بنا دِیتے ہیں‘‘۔
آدم،’’جی مَیں آپ پے نہیں ہنس رَہا تھا، بلکہ مَیںتو اَپنی بیوقوفی پر شرمندہ و کھسیانہ ہورَہا تھا۔مجھے نہیں پتا تھا کہ کوکین کو کوک بھی کہتے ہیں۔ لگتا ہے آپ کو ادب سے لگاؤ ہے‘‘۔
جٹلہ،’ ’کبھی ہوا کرتا تھا۔ مَیں بھی تم لوگوں کی طرح یورپ جانے کے لیئے ترکی آیا تھا اَور یہیں کا ہوکر رَہ گیا۔ کبھی AUDEN (آڈن) میرا پسندیدہ شاعر ہوا کرتا تھا۔ اَب تو سب کچھ بھول گیا ہوں۔ کبھی کبھی اِس کی نظموں کے شعر زبان سے خود بخود نکل جاتے ہیں۔ دَو نظمیں بہت ہی خوبصورت ہیں۔ UNKNOWN CITIZEN (غیر معروف شہری) اَور دَوسری (کچھ سوچتے ہوئے) ہاں یاآیا REFUGEE BLUES (ریفیوجی بلیوز)‘‘۔
آدم،’ ’کل آپ KEATS کیٹز کی اَوڈز (نظم) کا بھی شعر پڑھ رَہے تھے‘‘۔
جٹلہ ،’ ’ہاں بڑی جلدی فوت ہوگیا۔ لیکن اَپنے حصے کا کام کرگیا۔ مجھے داؤد بتا رَہا تھا کہ آپ بھی پڑھتے پڑھاتے رَہے ہیں۔ اِس طرف کیسے رُخ کیا‘‘؟
آدم کو یقین نہیں ہورَہا تھا کہ جٹلہ صاحب اِتنے نرم کیسے ہوگئے ہیں۔ کہاں تو ناک پر مکھی نہیں بیٹھنے دِے رَہے تھے اَور اَب آپ جناب کرکے بات کررَہے تھے۔
آدم،’’جی کوئی خاص وَجہ نہیں۔ مَیں اَپنے ماحول سے اُکتا گیا تھا۔ میری سانس رُکنا شروع ہوگئی تھی۔اِس دَوران داؤد مل گیا اَور اَب آپ کے پاس ہوں‘‘۔
جٹلہ،’’آپ کو زیادہ اِنتظار نہیں کرنا پڑے گا۔ ہفتے کے اَندر اَندر آپ لوگ یونان ہونگیں۔ باقی جو گرو جی کو منظور ہوا‘‘۔
آدم،’ ’آپ کو کافی عرصہ ہوگیا ہے یہاں۔آپ ٹرکش زبان تو کافی حد تک سیکھ گئے ہوں گے‘‘۔
جٹلہ،’ ’ہاں اَپنے مطلب کی بات سمجھ لیتا ہوں۔ وَیسے مَیںفارسی اَور بنگلہ زبان زیادہ اَچھی جانتا ہوں‘‘۔
آدم،’’ وہ کیسے‘‘؟
جٹلہ،’ ’یہ لمبی کہانی ہے چگتائی(چغتائی) صاحب۔ آئیں میرے ساتھ، علیحدہ چل کے بیٹھتے ہیں‘ ‘پراچے کو آواز لگادیتے ہوئے، ’’اُوئے پراچے وِہسکی، برف اَور گلاس لے کر آ اَور چگتائی صاحب کے لیئے کوکا کولا لے کر آ۔چل رَہنے دِے اِن کے لیئے پی جی ٹپس چائے بنا کر لا، کافی دِنوں سے پی نہیں ہوگی‘‘۔
آدم،’’آپ کو کیسے پتا ہے‘‘۔
جٹلہ،’ ’آؤ میرے ساتھ‘‘ (وہ آدم کو اپنے کمرے میں لے گیا اَور اَپنی دَاستان سُنانے لگا) ’’آدم صاحب میں پنجاب کے اَمیر گھرانے سے تعلق رَکھتا ہوں۔ اِندرا گاندھی کے قتل کے بعد ہندوستانی حکومت اَندر ہی اَندر سکھوں کی مخالف ہوگئی۔ مَیں اُن دِنوں اَنگریزی ادب میں ماسٹرز کررَہا تھا۔ اچانک اِیک دِن میرے وَالد صاحب غائب ہوگئے، حالانکہ اِن کا سیاست سے کوئی تعلق نہ تھا۔ پھر خود ہی وَاپس بھی آگئے اَور چپ چپ رَہنے لگے‘‘۔ (قدموں کی چاپ سُنائی دِی اَور جٹلہ خاموش ہوگیا) پھر کہنے لگا، ’’اُو پراچے آجا، چاء تے وِہسکی میج تے رَکھ دِے‘‘ ۔وہ دَونوں چیزیں رَکھ کے چلا گیا۔’’ہاں تو مَیں کیا کہہ رَہا تھا۔ وہ چپ چپ رَہنے لگے۔ مَیں اَپنے کالج میں سٹوڈنٹ یونین کا لیڈر تھا۔ میرے وَالد مجھے اکثر کہتے ،’’ پتر اَے کم چھڈ دِے‘‘۔ مَیں نے اُن کی بات نہ مانی۔ مجھے جھوٹے اِلزام میںکالج سے نکال دِیا گیا۔ پھر دَو تین دَفعہ پولیس جھوٹے مقدموں میں پھنسا کر تھانے لے گئی۔ میرے گھر وَالے میری وَجہ سے پریشان رَہنے لگے۔ اِیک دِن سب کو چھوڑ کر مَیں گھر سے بھاگ گیا۔ پہلے غیرقانونی طور پے بنگلہ دِیش دَاخل ہوا۔مَیں اَپنی شناخت کھونا چاہتا تھا۔ مجھے اَور میرے گھر وَالوں کو صرف اِس لیئے تکلیفیں اُٹھانی پڑرَہی تھیں کہ ہم سکھ تھے۔ ہمارے رَہنما ہندو،سکھ،مسلمان، اَندر خانے اِیک ہی ہیں۔لیکن میرے جیسے نوجوان، جن کے اَندر سچ کی رَوشنی جاگ جاتی ہے۔ اِن سے سب ڈرتے ہیں۔ اَگر ہندوستان میں مسلمان، سکھ اَور ہندو آپس میں لڑتے رَہیں، اِسی میں سیاست دَانوں کی بھلائی ہے۔ جس طرح پاکستان میںشیعہ، سنی کا چکر ہے۔ سیاست دَان اِن باتوں کا فائدہ اُٹھاتے ہیں۔ بنگلہ دیش میں مَیں نے اَپنے کیس کاٹے اَور داڑھی بھی مونڈھ دِی۔ کَچھ،کَڑا،کِرپان،کَنگھا،کیس۔پانچ کی پانچ چیزیں اِستعمال کرنی چھوڑ دِیں اَور مونا سکھ بن گیا۔ گرو جی جانتے ہیں کہ بچے غلطی کرتے ہیں۔ بنگلہ دِیش سے مَیںکشتی پے بیٹھ کر پاکستان آگیا۔ کراچی چند دِن رُکنے کے بعد کوئٹہ چلا گیا۔ کوئٹہ سے اِیران،اِیران مَیں تین سال رَہا۔و ُہاں اِیک سردار جی کے ہوٹل پے کام کرتا رَہا۔اَورنگ زِیب عالمگیر کے دَور ِ حکومت میں، جب اُس نے سکھوں کے گروؤں کو بے دَریغ قتل کرنا شروع کیا تو کچھ لوگ اِس کے مظالم سے تنگ آکر ،آس پاس کے ملکوںمیں ہجرت کرگئے۔ اِس دَوران چند گھرانے اِیران بھی آئے۔اِنہیں گھرانوں میں سے اِیک گھرانہ میرے مالک کا بھی تھا،لیکن مَیں نے اِسے کبھی نہیں بتایا کہ مَیں سکھ ہوں۔ پھر اِیران سے میرا جی اُکتا گیا۔ مَیں ترکی چلا آیا۔ ترکی سے یونان جانے کا اِرادہ تھا، کوشش کی لیکن ہماری ڈَنکی پکڑی گئی۔ ٹرکش لوگ بہت اَچھے ہیں اَور اِن کی پولیس بہت بری ۔ اُنھوں نے جیل میں ہمیں بہت مارا۔ و ُہیں مجھے کوکین کی لت لگ گئی۔ مجھے رَات کو نیند نہیں آتی تھی نہ ہی سکون تھا۔ سکون اَور نیند کے لیئے اِستعمال کی ہوئی چیز اَب عادَت بن گئی ہے اَور حالات نے مجھے ایجنٹ بنا دِیا ۔ کیا ہی اَچھا ہوتا کہ ہم سکھ،مسلمان، ہندو اَور عیسائی کے بجائے اِنسان ہوتے ۔ مَیں آج سکون سے اَپنے ملک میں زندگی گزار رَہا ہوتا۔ رَاجیو گاندھی کے قتل میں تو ہمارا کوئی ہاتھ نہیں تھا۔ چگتائی (چغتائی) صاحب اِس دَوران مَیں نے گھر وَالوں کو آج تک فون نہیں کیا، نہ ہی کبھی خط لکھا، کیونکہ ہمارا ٹیلی فون ٹیب کیا جاتا ہے اَور خط بھی پڑھے جاتے ہیں۔ مجھے تو اِتنا بھی نہیں پتا کے میرے گھر وَالے کس حال میں ہونگے‘‘۔ اِس کے ساتھ ہی جٹلہ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہونے لگے اَور وہسکی کی بوتل بھی ختم ہوگئی۔
٭
آدم اُٹھ کے داؤد کے پاس آگیا، ’’یار جٹلہ صاحب کی کہانی تو بڑی درد ناک ہے‘‘ ۔
داؤد کہنے لگا،’ ’ تم پہلے شخص ہو جس کو اَپنی دَاستان سنائی ہے۔وَرنہ یہ شخص کسی سے زیادہ بات نہیںکرتا‘‘۔ اَبھی وہ اِنھی باتوں میںمصروف تھے کہ ِایک شخص نے آکے مخل کیا۔
شخص،’ ’بھرا جی دَاڑھی منڈواڑیں اَے کوئی نائی چا دَسو‘‘۔
داؤد،’ ’ہمیں نہیں پتا‘‘۔
شخص،’’تساں کتھو کروَائی اَے‘‘۔
داؤد، ’’ہمارے پاس تو اَپنے رِیزرز ہیں، میرا مطلب ہے بلیڈز ہیں، یعنی اُسترے ہیں‘‘۔
شخص،’ ’تساں نائی اَو‘‘۔
آدم بول پڑا،’ ’جی ہاں ہم نائی ہیں، کَمی ہیںاَور آپ‘‘۔
شخص،’’آساڈِے تے جی مربے نیں، ہک نئی چار‘ ‘۔
آدم،’’تو یہاں ترکی میں کیا کرنے آئے ہیں، خیرسگالی کا دَورے پے‘‘۔
شخص،’’آساڈِی دُشمنڑی چلدی پیئی اَے۔ بلادری بڑی وَڈی اَے۔ رَوز دِھاڑے لڑائیاںتے مارکٹائیاں۔ اَبے ہوراںاجنٹ نال گل کیتی، ہونڑاَسی اِتھائیںآگئے آں۔ وَل وَیکھی وَیسی‘‘۔
آدم،’’تو گاؤں میں شیو میرا مطلب ہے دَاڑھی منڈوانے کا کیا طریقہ کار تھا۔ و ُہاں دَاڑھی خود مونڈتے تھے یا نائی سے منڈواتے تھے‘‘۔
شخص،’’ناں جی ناں، اَساڈے گھار نائی آؤندیاں اَے آ۔ کَمی جے ہوئے۔ سال دِے دَانڑے ،رَوٹی ٹکر دیئی دَااَے۔ نال ساڈِیاں شادِیاں وِیاوَاںدِے سدے وِی دِیندیںآن‘‘۔
آدم،’’آپ بازار سے ڈِسپوزاِیبل رِیزر لے آئیں اَور خود ہی دَاڑھی مونڈھ لیں‘‘۔
شخص،’’اَو کے بلا اَے‘‘۔
آدم،’’میرا مطلب ہے ، اُس نے اَپنے شیونگ بوکس سے ڈِسپوزاِیبل رِیزر دِکھاتے ہوئے بتایا،’ ’اِس طرح کا ہوتا ہے ۔ یہ ساتھ لے جائیں‘‘۔
شخص، ’’وَل بھرا جی اِس ڈَنڈی نال ہی کریندے آں‘‘۔
آدم چیخا،’ ’نہیں، نہیں محترم، جراثیم لگ جائیں گے اَور آپ کو نقصان بھی ہوسکتا ہے‘‘ ۔وہ کیسے سمجھاتا کہ رِیزر سے اِیڈز کا بھی خطرہ ہوتا ہے۔ hepatitis b, c کا بھی خطرہ ہوتا ہے۔ کبھی کبھی کتنا مشکل ہوجاتا ہے کسی کو سمجھانا۔
شخص،’’اَو کنوے خریدی دَا اَے، آسانوں زبان کائی نئی آؤندی۔ تسی آساڈِے نال چلو‘‘۔
آدم،’’زبان تو مجھے بھی نہیں آتی‘‘۔
شخص،’’اَنگریزی تے آؤندی اَے نا تسانوں‘‘۔
آدم نے جان چھڑاتے ہوئے کہا،’’لیکن یہاں تو لوگ ٹرکش زبان بولتے ہیں ۔تھوڑی بہت جرمن، میری اَنگریزی کسی کام کی نہیں‘‘۔
شخص،’’تو آڈے کول اِتھائیں دِی پیسے ہین‘‘۔
آدم،’’ہیں تو سہی ، مگر آپ ڈالر اِستعمال کرسکتے ہیں‘‘۔
شخص،’’ڈالر تے ہین ، پر لالے ہوراں آکھا اِیا، ڈالر نئی خرچ کرنے۔ اِنجھ وِی میرے کول سو ڈالر ہن۔ میرا خرچہ تے کائی نئی آؤنڑاں۔ کیوں کے یونان وِچ اَساڈے کمیاں دَا منڈا اَے۔ اَو آساڈا بندوبست کریسی‘‘۔
آدم نے ٹرکش لیرے تھماتے ہوئے کہا،’’یہ لیجئے، نیچے کسی بھی دَوکان پے جہاں سگرٹ وَغیرہ ملتے ہوں، ہاتھ کے اِشارے سے بتا دِیجئے گا‘‘۔
وہ چلا گیا۔ آدم نے داؤد سے کہا، ’’محترم یورپ جارَہے ہیں اَور اَپنے مربے مزارعوں کے ہاتھوں میں چھوڑ آئے ہیں اَور جائیں گے بھی کس کے پاس؟ اَپنے کمیوں دِے منڈے کے پاس‘‘۔
٭
اَبھی تھوڑی دِیر گزری ہوگی کہ وہ شخص پھر وَارد ہوا، اِس کے ہاتھ میں ڈسپوزاِیبل رِیزر تھا۔
آدم سے مخاطب ہوا، ’’بھرا جی وَل میری دَاڑھی تے منڈ دِیئو‘‘۔
آدم،’ ’جی ، مَیں وہ اَپنا نائیوں وَالا چھنا پاکستان بھول آیا ہوں۔ نہ ہی آپ تولیہ ساتھ لائے ہیں‘‘۔
شخص،’’تے فیر کی ہویا۔توساڈے کول تولیہ کائی نئی۔ اَسی مسلمان بھرا واں۔ کیڑے کافر آں۔ تسی کمی اَو، کوئی مراثی یا مصلی تے نئی‘‘۔
آدم کو مذاق بہت مہنگا پڑا ،وہ اِسے سچ مچ نائی سمجھ رَہا تھا۔ خیر آدم نے نہ چاہتے ہوئے اَپنے سوٹ کیس سے تولیہ نکال کر تھمادِیا اَور کہا،’ ’محترم ،مَیں آپ کی دَاڑھی تو نہیں مونڈھ سکتا لیکن تولیہ دِے
رَہا ہوں۔ باقی تکلیف آپ کو خود کرنی ہوگی، اَور ہاں مونچھیں بھی صاف کر دِیجئے گا کیونکہ یورپ میں مونچھوں کا اِتنا رِواج نہیں۔ اَگر کوئی رَکھتا بھی ہے تو فیشن کے طور پے‘‘۔
شخص،’’کی گلاں پئے کریندے اَو، مچھ نئی تے کچھ نئی‘‘۔
آدم بہت گھبرایا، یہ کیا ہے۔ داؤد سے کہنے لگا، ’’داؤد یہ کیا ہے‘‘ ۔
داؤد کہنے لگا،’’آگے آگے دِیکھو کیا ہوتا ہے۔ اَبھی تو شروعات ہے‘‘۔
ابتدائِ عشق ہے رَوتا ہے کیا
آگے آگے دِیکھئے ہوتا ہے کیا
اَچانک دَونوں کو شور سُنائی دِیا۔
پہلی آواز،’ ’ملکا اَے کے کر چھوڑا اِی‘‘۔
دَوسری آواز،’’اَو کمرے وِچ باؤ ہوری نائیں اَے، اُنا آکھا اَے ، مچھا مُن چھوڑ۔ اِتھائیں کاں وِیکھنڑاں اِی‘‘۔
پہلی آواز،’’تے فیر میں وِی مُن چھوڑاں‘‘۔
دَوسری آواز،’ ’ہاں مُن چھوڑ، وَنج میرا اُسترا اُتھائیں رَکھا پیا اَے‘‘۔
اِن میں سے اِیک آدم اَور داؤد کے پاس آگیا۔ یہ و ُ ہی تھا ، جو آدم کو دَاڑھی مونڈنے کے لیئے کہہ رَہا تھا۔ اَب دَاڑھی مونچھیںمونڈھ کر آگیا تھا ۔ اِس نے پہلی دَفعہ مونچھیںصاف کی تھیں۔اِس لیئے عجیب سا لگ رَہا تھا۔ با لکل اَیسے جیسے چھیلا ہوا آلو۔
آدم،’’آپ دَونوں بھائی ہیں‘‘۔
شخص،’’ جی بھرا اِی آں‘‘۔
آدمِ’’کیا مطلب، بھرا اِی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔کیا بھائی نہیں ہیں‘‘۔
شخص،’’اَساڈے علاقے وِچ ،چاچے، مامے دِے پتر بھرا اِی اَکھیندیں اَن‘‘۔
آدم،’’آپ کا نام کیا ہے‘‘۔
شخص،’’جی لہراسب، ملک لہراسب‘‘۔
آدم،’’اَور دَوسرے بھائی صاحب‘‘۔
لہراسب،’’جی ملک گستاسب‘‘۔
آدم کو بڑی حیرت ہوئی ۔ اِتنے مشکل نام ، اَور وہ بھی فارسی میں
آدم،’’ملک صاحب ، آپ کے نام کچھ زیادہ مشکل نہیں‘‘۔
لہراسب،’’آسانوں کائی مشکل نئی، میں اِنو ،گشتو سدینداں وَاں اَو مینوں لہرو اَکھیندا اَے۔ تواڈا کی ناں اَے‘‘۔
آدم،’’آدم۔ آدم خان چغتائی‘‘۔
لہراسب،’’تے دَوجے بھائی ہونراں دا‘‘۔
آدم،’’جی داؤد انصاری‘‘۔
لہراسب،’’پاکستان کے کریندے سو‘‘۔
آدم،’’جی میں پڑھتا تھا۔ ماسٹرز کررَہا تھا۔ میرا مطلب ہے سولھویں جماعت میں تھا‘‘۔
لہراسب،’’جی پڑھایاں وِچ کے رَکھا اَے۔ تسی تے سولھاں کیتیاںآن، اَساڈِے تحصیل دَار دا منڈا تے تو آڈے کولوں وِی زیادہ پڑھا لکھا اَے۔اِس شوھہدے،بی اَے کر چھوڑا اَے۔ وَل ہونڑپولس وِچ بھرتی ہوگیا اَے۔وَچارے دِی قسمت بڑی ماڑی اَے۔اَیس اَیچ اَو نئی بنڑسکا۔ کتھائیں ماڑا جیا اَیس پی بنڑبیٹھا اَے‘‘۔
آدم دِل ہی دِل میں بڑا ہنسا لیکن ظاہر نہ ہونے دِیا۔
٭
اَگلے دِن جٹلہ صاحب نے سب کو بُلایا اَور بتایا کہ،’’ تم لوگوں کی ڈَنکی تیار ہے۔ مجھے سگنل مل گیا ہے۔ آج شام کو ہی نکلنا ہوگا۔ نکلنے سے پہلے سب میری ضروری ہدایات سُن لیں۔آپ چھ بندے جارَہے ہیں۔ملک صاحب آپ کا فون یونان سے آگیا ہے۔ آپ جیسے ہی پہنچیں گے ،مجھے پیسے مل جائیں گے۔اَور آپ داؤد اَور آدم، آپ مجھے اَبھی پیسے جمع کروادِیں۔ پھر اِس نے بنگلہ زبان میں دَونوں بنگالیوں کو سمجھایا اَور مزید ہدایات دِینی شروع کیں۔
۔ کوئی سگرٹ اَور شراب کا اِستعمال نہیں کرے گا۔
۔آپ لوگوں کو اِیک ترک آدمی لے کر جائیں گا، اُسے آپ کی زبان نہیں آتی اَور آپ اُس کی زبان نہیں سمجھتے۔ لحاظا وہ ہر بات اِشارے سے سمجھائے گا۔
ْ۔اَگر پکڑے گئے تو میرا نام نہیں بتانا۔وَرنہ آپ کے پیسے ضبط ہوجائیں گے اَور نہ ہی کسی اَور ایجنٹ سے ذِکر کرنا ہے۔
۔اَپنی جیبوں کی میں اَیسی کوئی چیز نہیں رَکھنی جس سے پتہ چلے کہ آپ ترکی سے آ رَہے ہیں۔ مثلاً، سگرٹ لائٹر، پلاسٹک کے تھیلے، یہاں کی کرنسی، ٹیلی فون کارڈز۔ ہر وہ چیز جس پر ٹرکش زبان لکھی ہوئی ہو۔
۔اَپنے تمام کاغذات ، پاسپورٹ وَغیرہ میرے پاس چھوڑ کے جانے ہوں گے۔
۔کوئی ٹیلی فون نمبریا ٹیلی فون ڈائری آپ کی جیب میں نہیں ہونی چاہئے۔ جو بھی ضروری ٹیلی فون نمبر ہیں زبانی یاد کرلیجئے۔
۔خاص کر باڈر کے قریب دَوبارہ اَپنی جیبوں کی جانچ پڑتال کرنی ہوگی۔ کسی اِیک شخص کی غلطی ،سب کو لے بیٹھے گی۔ جو لوگ باڈر پار کروَاتے ہیں۔ وہ بڑے منجھے ہوئے لوگ ہوتے ہیں۔ مَیں تو اِیک طرح کا سَب ایجنٹ ہوں۔
۔کسی نے گھبرانا نہیں۔ اِیک دَوسرے کی مدد کرنا ہے۔ مصیبت میں اللہ، بھگوان اَور اِیشور کو یاد کرنا ہے۔
آپ کو یونان کا ایجنٹ، اَ لیکسندراپولس چھوڑ آئے گا۔ اِس کے بعد آپ کو جہاں جانا ہو چلے جائیے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آدم نے بڑی حسرت کے ساتھ پوسٹ کارڈز دِیکھے کیونکہ ،نہ وہ ہاگیہ صوفیہ دِیکھ سکا،نہ ہی نیلی مسجد اَور نہ ہی سلیمانیہ مسجد۔ تینوں کو دِیکھنے کی حسرت دِل میں ہی رَہی۔ وہ خوش بھی تھا اَور اُداس بھی۔ وہ نہیں جانتا تھا کہ کیا ہوگا۔ وہ کیا کوئی بھی نہیں جانتا تھا۔
آدھی رَات کو یہ چھ کے چھ اَپنا تمام سامان جو ساتھ لائے تھے، جٹلہ صاحب کے اَڈے پے چھوڑ کے دَبے پاؤں نیچے اُترے۔ پارکنگ میں اِیک سٹیشن وَیگن نماں کار کھڑی تھی۔ اِیک آدمی نے سب کو اِشارَہ کیا۔ سب جلدی جلدی کار کی طرف لپکے۔ اُس نے بھیڑ بکریوں کی طرح سب کو کار میں ٹھونسا اَور کار سٹارٹ کردِی۔ اَور ہاتھ کے اِشارے سے سب کو خاموش رَہنے کا حکم دِیا۔ کار میں وَائرلیس سسٹم تھا۔ ڈرائیور کو آگے کے اِنتظام کی پل پل کی اِطلاع مل رَہی تھے۔ وہ ٹرکش زبان میں بات کررَہا تھا۔ کار چلتی رَہی۔ کافی دِیر بعد آدم اِیک شہر کی تختی پڑھنے میں کامیاب ہوگیا۔ TEKIRDAG (تیکرداغ) لیکن کار اُسی رَفتار سے چلتی رَہی۔ پھر KESAN (کیسان)آیا۔ کیسان کے گزرتے ہی کار کچے رَاستے پے اُترگئی۔ آڑھی ترچھی پگڈنڈیوں سے گزرنے کے بعد کار اِیک بستی کے پاس رُکی۔کچے پکے، پتھر اَور مٹی گارے کے مکان تھے۔ ڈرائیور نے ہاتھ کے اِشارے سے سب کو اِیک پرانے گھر میں دَاخل ہونے کو کہا۔سب اِس طرح اُس کے اِشاروں پے چل رَہے تھے جیسے کوئی پتلی تماشہ ہورَہا ہو۔اِس دَوران کسی نے آپس میں بات چیت نہ کی۔ اِن سب کو اِس گھر کے تہہ خانے میں اُتار دِیاگیا۔جو آدمی اِنھیں تہہ خانے تک چھوڑنے آیا اُس نے صرف اِتنا کہا، ’”no light” (بتی نہیں جلانی) اَور چلا گیا۔سب چپ سادھے ،کونوں کھدروں میں بیٹھ گئے۔ ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دِے رَہا تھا۔سب اَپنی گھڑیاں جٹلہ صاحب کے ہاں چھوڑ آئے تھے۔ اِس لیئے وَقت کا بھی نہیںپتا تھا کہ کیا بجا ہے۔وَقت اَیسا لگتا تھا،جیسے تھم گیا ہو۔ اِنھیں اَیسا لگتا تھا جیسے کتنے ہی گھنٹے گزر گئے ہیں۔ اَچانک دَروازہ کھلنے کی آوا ز آئی۔ اِس کی چرچراہٹ سے سب چوکنے ہوگئے۔ اِس شخص نے آکر بلب جلایا اَور سرگوشی کے سے اَنداز میں اِن کو سمجھانے لگا۔وہ ٹوٹی پھوٹی اَنگریزی میں اِن کو سمجھا رَہا تھا کہ،’’ جیسے ہی آگے سے سگنل ملا تم لوگوں کو بارڈر پار کروَادِیں گے۔ اَیسا بھی ممکن ہے تم لوگوں کو اِیک یا دَو رَاتیں اِدھر ہی گزارنی پڑیں۔ کھانے پینے کا اِنتظام ہم کریں گے‘‘۔ اِتنا کہہ کر جانے لگا تو آدم نے پوچھا، ’’what time is it?‘‘ (کیا بجا ہے) اُس نے جواب دِیا، "one” (ایک)جواب دِیکر وہ چلا گیا۔ سب کی اُوپر کی سانس اُوپر اَور نیچے کی سانس نیچے ہی رُک گئی کہ اِیک آدھ دِن رُکنا بھی پڑسکتا ہے۔اَگر رَاستہ صاف نہ ہوا تو۔آدم کو اَپنے وَالد صاحب کی بات یاد آئی،”sometime facts are bitter than fiction” (کبھی کبھی حقائق افسانوں سے تلخ ہوتے ہیں) ۔کتنی درست بات تھی۔ یہ وَقت قیامت کی طرح گزر رَہا تھا۔ جیسے کوئی تیز دَھار تلوار اِن کے سر پے لٹک رَہی ہو۔ جیسے ہی اَپنی جگہ سے ہلیں گے تو اِن کے جسم کو چیرتی ہوئی دَوحصوں میں تقسیم کردِے گی۔ Victor Hugo (وکٹغ ہیوگو)نے "Les dernier jour du condemn” (قیدی کے آخری اَیام) لکھ کر کمال کیا تھا۔ اَگر وہ اِس تہہ خانے میں چند لمحے گزار تاتو اَندازہ کرسکتا تھا کہ کتنا کرب ہے۔ اِس تہہ خانے میں۔ اِیک دَفعہ تو خیال آیا کے سب کچھ چھوڑ چھاڑ کے بھاگ جائے۔ خواہ مخواہ خود کو مصیبت میں ڈالا۔
آدم کا باپ شادی ہی تو کرنا چاہتا تھا۔ کون سی قیامت آجاتی۔لیکن جذبات کی رَو میں بہہ کر اِس نے جو فیصلہ کرلیا تھا۔ اِس کا خمیازہ اِسے بھگتنا تو تھا ہی۔اِسے نادیہ نے منع کیا تھا۔ سب سے بڑھ کے ،نجمہ بیگم نے اِسے رَوکا تھا۔ لیکن آدم نے کسی کی نہ سنی۔ اِیک دَفعہ پھر آہٹ ہوئی۔ کوئی دَروازے کا تالا کھول رَہا تھا۔ آدم کی آنکھ لگ گئی تھی اَور وہ یہ سب خواب میں دِیکھ رَہا تھا۔پھر دَروازہ کھلا اَور کسی نے بتی جلائی۔ ٹوٹی پھوٹی اَنگریزی اَور اِشاروں سے سمجھانے لگا کہ،’’ ڈَنکی کا اِنتظام ہوگیا ہے۔آگے رَاستہ صاف ہے‘‘۔اُس نے اِیک اِیک کرکے سب کی تلاشی لی اَور سمجھایا کہ ،’’ترکی کی کرنسی ، کسی قسم کا کوئی کاغذ ہے ،تو ابھی نکال کر پھینک دَو‘‘۔ جس جس کے پاس غیرملکی کرنسی تھی لے لی۔ حتیٰ کہ سکے بھی۔پھر کار کی طرف جانے کو کہا جو اِن لوگوں کا باہر اِنتظار کررَہی تھی۔ اُس نے ہاتھ کے اِشارے سے سب کو بیٹھنے کو کہا۔ یہ کار تھوڑی مختلف تھی۔ لیکن تھی سٹیشن وَیگن ہی۔کار نے پھر چلنا شروع کیا۔ کافی دِیر چلنے کے بعد درختوں کے جھنڈ میں جاکر رُک گئی۔ ہلکی ہلکی رَوشنی پھیل رَہی تھی۔ گرمیوں کے دِن تھے۔ سورج اَپنی ماں کی گود میں تقریباً نیند مکمل کر چکا تھا۔ کار ڈرائیور نے وَائر لیس کیا۔ اُسے اَوکے کی اِطلاع ملی۔ سب کو کار سے اُترنے کو کہا۔سب کار سے نیچے اُترے گئے۔ پھر اُس نے سب کو اَپنا پیچھے آنے کا اِشارہ کیا۔وہ جھک کر اِن کے آگے آگے بھاگ رَہا تھا اَور یہ سب اُس کے پیچھے پیچھے سر جھکائے بھاگ رَہے تھے جیسے کمانڈو ٹریننگ کررَہے ہوں۔
صبح کے وَقت سرحدوں پر پہرا بدلتا ہے اَور بارڈر کراس کرنے کام اِسی دَوران کرنا ہوتا ہے۔ ترکی اَور یونان کا بارڈر EVROS” ” (ایوروز) ہے۔یہ نہر یا چھوٹا سا دَریا سمجھ لیجئے۔ اَگر آپ نے پار کرلیا تو سمجھیں آپ کی ڈَنکی کامیاب ہوگئی۔ اَگر ترک پولیس کے ہتھے چڑھ گئے تو بڑی مار پڑے گی اَور اَگر یونانی پولیس کے ہتھے چڑھ گئے تو شاید خلاصی ہوجائے۔ سیاسی پناہ کی دَرخواست بھی دِے سکتے ہیں۔
جس آدمی کے پیچھے وہ بھاگ رَہے تھے اُس نے اچانک سب کو رُکنے کو کہا۔ پھر وَائر لیس پے بات چیت کرنے لگا۔ سب سامنے پانی کو بہتے ہوئے دِیکھ رَہے تھے۔ EVROS (ایوروز) بہہ رَہا تھا۔ سب سے پہلے ایجنٹ آگے گیا۔ اُس نے پانی کے بہاؤ کا اَندازہ لگایا۔سب سے پہلے اُس نے اَپنے جوتے اُتارے۔اُن میں جرابیں ٹھونس کر اُن کے تسموں کی گرہ لگائی اَور گلے میں لٹکالیئے۔پھر پتلون اُتار کر گلے میں ڈال کر گرہ لگالی۔ وَائرلیس اُس نے دَانتوں میں دَابا اَور دَبے قدموں سے پانی میں اُتر
گیا۔وہ جلدی جلدی پانی کے بہاؤ کے مطابق تیز تیز چلنے لگا۔ باقی سب بھی بندروں کی طرح اُس کی نقل کرنے لگے۔ سب سے پہلے آدم پانی میں اُترا پھر داؤد، پھر دَونوں مَلِک اَور آخر میں دَونوں بنگالی۔ پانی بہت ٹھنڈا تھا، لیکن پکڑے جانے اَور پانی میں بہہ جانے کے خوف میںسب بھول گئے کہ پانی ٹھنڈا ہے یا گرم۔ صبح کے وَقت پانی کا بہاؤ بھی مناسب ہوتا ہے۔ سب نے EVROS (ایوروز) باخیریت پار کیا اَور ایجنٹ کے اِشاروں پے عمل کرتے ہوئے،جس تیزی سے اِنھوں نے کپڑے اُتارے تھے اُس سے بھی زیادہ تیزی سے اِنھوں نے کپڑے پہنے اَور اُس کے پیچھے جھک کر بھاگنے لگے۔ بھاگتے بھاگتے گھنی جھاڑیاں آگئیں۔ ایجنٹ نے پھر وَائرلیس پے بات کی۔ مخالف سمت سے اِیک سٹیشن وَیگن آتی دِکھائی دِی۔ سب جلدی جلدی اُس میں بیٹھ گئے۔ آدم کواِتفاق سے اُس نے سامنے وَالی سیٹ پر بٹھا دِیا، تین پیچھے بیٹھ گئے اَور باقی دَو کو اُس نے سامان رَکھنے وَالی جگہ بٹھا دِیا اَور کار چل پڑی۔
آدم نے فرنٹ سیٹ پے بیٹھنے کا بھرپور فائدہ اُٹھایا۔ اَب چونکہ صبح ہوچکی تھی اِس لیئے وہ آسانی سے پڑھ سکتا تھا کہ وہ کس جگہ پر ہیں۔اِس نے پھر تختیاں پڑھنا شروع کر دِیں۔ لیکن کوئی بھی تختی ٹھیک سے نہ پڑھ سکا کیونکہ یہاں معاملہ ترکی سے مختلف تھا۔ اِسے اِتنا پتا تھا کہ یونانی زبان میں اَلفا،بیٹا، گیما، اَومیگا ہوتے ہیں ۔لیکن شہروں کے نام پڑھنا مشکل ہورَہا تھا۔ وہ صرف اِیک شہر کے نام کے تین لفظ سمجھ سکا۔ "EPE” کار چلتی رَہی۔ کچے پکے گھر آنے شروع ہوئے۔ پھر شہر کے آثار نظر آنے لگے، گاڑیاں، عمارات وَغیرہ۔ ڈرائیور کے موبائیل کی گھنٹی بجی۔اِس طرح اَندازہ ہورَہا تھا جیسے کہہ رَہا ہو ’’مشن کامیاب ہوگیا‘‘ پھر اُس نے گاڑی لاکر اِیک اَیسی جگہ رَوک دِی، جہاں پہلے سے ہی بہت ساری گاڑیاں کھڑی تھیں۔شاید کوئی سرکاری کار پارکنگ تھی۔ ڈرائیور نے گاڑی سے اُتر کر باہر دِیکھا۔ صبح کا وَقت تھا۔ آس پاس خاموشی تھی ۔اُس نے صورت حال کا جائزہ لیتے ہوئے،اِیک اِیک کر کے سب کو گاڑی سے نکالا۔ جیسے ہی سب لوگ گاڑی سے اُترے ۔وہ دَوبارہ گاڑی میں بیٹھا۔ کار سٹارٹ کی اَور یہ جا وہ جا۔اُس نے پیچھے مڑ کر دِیکھا تک نہیں۔
اَب یہ چھ کے چھ یونان کے میں دَاخل ہوچکے تھے۔ یعنی یورپ میں دَاخل ہوچکے تھے۔ اِن کی ڈَنکی کامیاب ہوچکی تھی۔وہ اِنھیں وَعدے کے مطابق اَ لیکسندرا پولس (Alexandrapolis) اُتار گیا تھا۔
٭
مقدس شاعری کا منفرد شاعر ضیغمؔ زیدی
شاعری ایک خدا داد ملکہ ہے۔یہ خاص الخاص غیبی امداد کی عطا کردہ نعمتِ مترقبہ ہے۔جس کو یہ فن ملتا...