(Last Updated On: )
پھیلی ہیں فضائوں میں اس طرح تیری یادیں
جس سمت نظر اٹھی آواز تیری آئی
30جون 2011کی صبح حافظ ارشاد احمد نے داعیء اجل کو لبیک کہا۔وہ12۔اگست1957کو جھنگ شہر میں پیدا ہوئے ۔ان کے والد برکت علی انصاری کا تعلق ایک ممتاز مذہبی خاندان سے تھا ۔قیام پاکستان کے بعد ان کا خاندان ہوشیارپور (بھارت)سے ہجرت کر کے جھنگ پہنچا۔انتہائی نا مساعد حالات میں بھی اس خاندان نے عزت نفس ،شخصی وقار ،خودی اور انا کا بھرم برقراررکھا۔ ہجرت کے بعد قناعت، خود داری اور استغنا کی جو درخشاں مثال اس خاندان نے پیش کی وہ ان کی عظمت کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔ ہو س زر و مال کے اسیر لوگ زندگی کی اعلیٰ ا قدار و روایات کو بالائے طاق رکھ کر جس بے دردی سے جعلی کلیموں کے ذریعے لوٹ کھسوٹ میںمصروف تھے یہ ایک لرزہ خیز اعصاب شکن المیہ ہے ۔چربہ ساز ،سارق اور کفن دزد عناصر نے وسائل کی بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیا مگر حافظ ارشاد احمد کا خاندان ہجرت کے بعد کی پریشاں حالی میں صبر و استقامت کا پیکر بن گیا جھنگ شہر کے ایک چھوٹے سے کرائے کے مکان میں گزر بسر کی ،محنت مزدوری کو شعار بنایا۔اپنی دنیا آپ پیدا کرنے کے لیے دن رات ایک کر دیا ۔رزق حلال کمایا اور اپنا پیٹ کاٹ کر پندرہ سال میں اس قدر معقول رقم پس انداز کر لی کہ جھنگ شہر کے جنوب میں واقع ایک کچی آبادی (مصطفیٰ آباد )میں اپنے لیے سر چھپانے کے لیے ایک جھونپڑا تعمیر کرنے کے قابل ہو گئے ۔ان کے والدین نے کبھی در کسریٰ پر صدا نہ کی وہ خوب جانتے تھے کہ یہ جامد کھنڈر اور سنگلاخ دیواریں زندہ انسانوں کے مسائل کا احساس و ادراک کرنے سے قاصر ہیں۔وہ ا س رزق پر موت کو ترجیح دیتے تھے جس کے حصول کے لیے حر یت فکر اور حریت ضمیر سے جینے کی راہیں مسدود ہو جائیں ۔
حافظ ارشاد احمد نے ایک معزز دینی گھرانے میں آنکھ کھولی ۔ان کے والد اور والدہ پابند صوم و صلوٰۃ تھے اور تہجد گزار تھے ۔وہ اکثر اپنی اولاد کو سمجھایا کرتے تھے کہ فغان صبح گاہی سے انسان کو اپنے رب کی معرفت نصیب ہوتی ہے اور انسان اپنے خالق کے حضور سر بہ سجدہ ہو کر جب رو رو کر اپنے دکھوں کا مداوا چاہتا ہے تو رحمت خداوندی جوش میں آجاتی ہے اور دعا کرنے والے کو اللہ ہو میں امان مل جاتی ہے ۔یہ ایک سجدہ جو انسان کی طبع نازک پہ گراں گزرتا ہے یہی سجدہ انسان کو در بہ در اور خاک بہ سر ہونے اور ہزار جگہ پر جعلی بتوں کے سامنے سجدہ ریز ہونے سے بچاتا ہے ۔جھنگ شہر سے ابتدائی پرائمری تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ ایک مقامی مسجد میں دینی تعلیم کے لیے درس میںداخل ہو گئے ۔اپنی خداداد ذہانت اور لگن سے انھوں نے ایک سال میں قرآن پاک حفظ کر لیا اور وفاق المدارس پاکستان سے انھیں اس کی سند عطا کی گئی ۔وہ ایک فطین طالب علم تھے ۔انھوں نے درس نظامی کا امتحان امتیازی حیثیت سے پاس کیا۔تحصیل علم کے لیے ان کی مساعی جاری رہیں اور انھوں نے عربی اور اسلامیات میں ایم کیا۔تعلیم مکمل کرنے کے بعد حافظ ارشاد احمد نے محکمہ شناختی کارڈ میں کچھ عرصہ ملازمت کی لیکن جلد ہی اس محکمے کوخیر باد کہہ دیا اور محکمہ تعلیم پنجاب میں عربی اور اسلامیات کے معلم کی حیثیت سے اپنی پسند کی ملازمت کا آغاز کیا اور آخری سانس تک وہ درس قرآن و حدیت اور سیرت و تاریخ اسلام کی تدریس پر مامور رہے ۔جب ان کا آخری وقت آیا تو وہ تلاوت قرآں حکیم میں مصروف تھے ۔اچانک دل میں ایک درد اٹھا ،انھوں نے سجدے میں سر رکھا ،چہرے پر ایک مسکراہٹ پھیل گئی اور روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی ۔
نشان مرد مومن با تو گویم
چوں مرگ آید تبسم بر لب اوست
چوں مرگ آید تبسم بر لب اوست
نیکی کس روحانی جذبے کا نام ہے اور نیکی انسان کے ریشے ریشے میںکیسے سما جاتی ہے اس کو سمجھنے کے لیے حافظ ارشاد احمد جیسے فرشتہ سیرت ،نیک خصلت انسان کی عملی زندگی کا مطالعہ بہت اہم ہے ۔بہترین انسانوں کی زندگی کے روز و شب کا عمیق مطالعہ اور مشاہدہ اس صلاحیت سے متمع کرتا ہے جو مس خام کو کندن بنا نے پر قادر ہے ۔حاٖفظ ارشاد احمد کے حلقہء احباب میں کئی نابغہ ء روزگار علما و فضلا شامل تھے ۔ان میں سے بعض تو افق ادب پر مثل آفتاب و ماہتاب ضو فشا ں رہے ۔میر ی مراد سید جعفر طاہر ،شیر افضل جعفری،رام ریاض ،رفعت سلطان،کبیر انور جعفری ،تقی الدین انجم (علیگ)،خادم مگھیانوی،سید مظفر علی ظفر ،مجید امجد،رانا سلطان محمود ،غلام علی چین ،خادم رزمی ،عبدالعزیز خالد ،الحاج سید غلام بھیک نیرنگ ،حفیظ ہو شیارپوری اور پروفیسر سمیع اللہ قریشی جیسے مشاہیر علم و ادب ہیں جنھوں نے اپنے افکار کی ضیا پاشیوں سے اکناف عالم کا گوشہ گوشہ منور کر دیا ۔حافظ ارشاد احمد نے ان تما م مشاہیر علم و ادب سے بالواسطہ یا بلا واسطہ اکتساب فیض کیا اور تما م عمر اس پر نازاں رہے ۔وہ اکثر ان عظیم ہستیوں کو یاد کرتے اور ان کی تخلیقی کامرانیوں کہ بہ نظر تحسین دیکھتے ہوئے بر ملا کہتے کہ زمانہ لاکھ ترقی کرے ایسے آفتاب و ماہتاب پھر کبھی افق ادب پر طلوع نہیں ہو سکتے ۔یہ لوگ اپنی ذات میں انجمن اور ایک دبستان تھے ۔انھیں محشر خیال نہیں بلکہ ایک ایسا محشر عمل قرار دیتے جن کے افکار نہ صرف فکر و نظر کو مہمیز کرنے کا مئوثر ترین وسیلہ ہیں بلکہ ان رجحان ساز ادیبو ںنے اذہان کی تطہیر و تنویر کے لیے جو گراں قدر خدمات انجام دیں ان سے حالات کی کایا پلٹ گئی اور دلوں کا ایک ولولہ ء تازہ نصیب ہو ا۔ایام گزشتہ کی کتاب کی ورق گردانی کرتے ہوئے جب وہ ان عظیم تخلیق کاروں کو یاد کرتے تو یہ شعر ضرور پڑھتے :
وہ صورتیں الہٰی کس دیس بستیا ں ہیں
اب دیکھنے کو جن کے آنکھیں ترستیاں ہیں
اب دیکھنے کو جن کے آنکھیں ترستیاں ہیں
گورنمنٹ کالج جھنگ کے تاریخی ادبی مجلے ’’ کاروان ‘‘کے وہ بہت بڑے مداح تھے ۔1926سے باقاعدگی سے شائع ہونے والے اس رجحان ساز علمی و ادبی مجلے نے گزشتہ آٹھ عشروں میں علم و ادب اور تاریخ ،اسلامیات ،جدید و قدیم علوم اور فنون لطیفہ کے فروغ میں جو عظیم الشان خدما ت انجام دی ہیں وہ انھیں قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے ۔ہر سال جب ’’کاروان‘‘ شائع ہوتا تو حافظ ارشاد احمد اسے حاصل کرنے کے لیے اپنی عظیم مادر علمی گورنمنٹ کالج جھنگ پہنچتے اور اور اس کے صدر دروازے پر پہنچ کر اسے سلیوٹ کرتے اور اس بات کا اعتراف کرتے کہ یہ عظیم درس گاہ ذرے کو آفتاب بنا دیتی ہے ۔جو اس عظیم مادر علمی کی تاریخی خدمات کا معترف نہیں وہ آپ بے بہرہ ہے ۔حافظ ارشاد احمد ایک وسیع المطالعہ دانش ور تھے ۔گورنمنٹ کالج جھنگ کے کتب خانے میں ڈیڑھ لاکھ سے زائد نادر و نایاب کتب موجود ہیں ۔ان میں سے بیشتر حافظ ارشاد احمد کے زیر مطالعہ رہیں ۔وہ مذہب ،فلسفہ ،تاریخ ،ادب ،نفسیات اور علم بشریات سے گہری دلچسپی رکھتے تھے ۔وہ متعدد زبانوں پر دسترس رکھتے تھے ان میں عربی ،فارسی ،اردو
،پنجابی ،انگریزی ،پنجابی،سرائیکی،سندھی ،بلوچی ،پشتو اور ہندکو قابل ذکر ہیں۔گورنمنٹ کالج جھنگ کے اکثر اساتذہ کے ساتھ ان کے عقیدت سے لبریز تعلقات تھے۔ گورنمنٹ کالج جھنگ کے جو نامور اساتذہ حافظ ارشاد احمد کی علمی فضیلت ،تنقیدی اور تحقیقی بصیرت کے معترف رہے ان میں مہر بشارت خان ،دیوان الیاس نصیب ،نور احمد ثاقب ،اقتدار واجد ،محمد شریف خان ،غلام مرتضیٰ شاکر ترک ،عمر حیات
بالی ،عباس ہادی ،عبد ا لستار چاولہ ،محمد عبدالسعید اور عاشق حسین فائق کے نام بہت اہم ہیں۔ان سب کے ساتھ وہ مختلف اوقات میں رابطے میں رہے اور علمی ،ادبی اور مذہبی موضوعات پر سیر حاصل گفتگو کی ۔یہ نشستیں اکثر شام کو باغ نباتات کے حسین سبزہ زار میں ہوتیں ان میں حاٖفظ ارشاد احمد سے مولانا ظفر علی خان کی یہ نعت ترنم کے ساتھ سنی جاتی ۔جب وہ یہ نعت پڑھتے تو تما م حاضرین پر وجدانی کیفیت طاری ہو جاتی ۔وہ ایک سچے عاشق رسول تھے۔یہ نعت انھیں خود بھی بہت پسند تھی ؛
دل جس سے زندہ ہے وہ تمنا تمہی تو ہم جس میں بس رہے ہیں وہ دنیا تمہی تو ہو
پھوٹا جو سینہء شب تار الست سے اس نور اولیں کا اجالا تمہی تو ہو
سب کچھ تمھارے واسطے پیدا کیا گیا سب غائیتوں کی غائیت اولیٰ تمہی تو ہو
جلتے ہیں جبریل کے پر جس مقام پر اس کی حقیقتوں کے شناسا تمہی تو ہو
دنیا میں رحمت دو جہا ں اور کون ہے اے تاجدار یثر ب و بطحا تمہی تو ہو
جھنگ کے ممتاز شاعر رام ریاض کے ساتھ ان کے قریبی تعلقات تھے ۔جھنگ شہر میںوہ ان کے ہمسائے تھے ۔حافظ ارشاد احمد نے انھیں بتایا کہ ان کی نعت گوئی ان کے لیے آخرت میں زاد راہ ثابت ہو گی ۔انہی کے اصرار پر رام ریاض نے یہ نعت لکھی اور جب حافظ ارشاد احمد نے یہ نعت سنی تو ان کی آنکھو ںسے بے اختیار آنسو بہنے لگے ۔وہ مسلسل یہ کہہ رہے تھے کہ کون کہتا ہے کہ رام ریاض (ریاض احمد شگفتہ )صرف غزل کا شاعر ہے اردو نعت گوئی میں بھی و ہ بہت امکانات سامنے لا سکتا ہے ۔ان کی یہ نعت موضوع ،اسلوب اور اظہار میں اس قدر بلند پایہ ہے کہ انھیں شہرت عام اور بقائے دوام عطا کرنے کا وسیلہ ہے ۔یہ نعت اردو کے نعتیہ سرمائے میں گراں قدر اضافہ ہے ۔ رام ریاض کی یہ نعت حافظ ارشاد احمد نے کئی ادبی محفلوں میں پڑ ھی وہ اس بات پر نازاں تھے کہ ان کی تحریک پر رام ریاض نے اردو نعت گوئی پر توجہ دی اور اپنی نعت گوئی کی بدولت صف حسان بن ثابت میں شامل ہو گئے ۔
جو بھی شیریں سخنی ہے مرے مکی مدنی تیرے ہونٹو ں کی چھنی ہے مرے مکی مدنی
نسل در نسل تیری ذات کے مقروض ہیں ہم تو غنی ابن غنی ہے مرے مکی مدنی
دست قدرت نے ترے بعد پھر ایسی تصویر نہ بنائی نہ بنی ہے مرے مکی مدنی
ترا پھیلائو بہت ہے ترا قامت ہے بلند تری چھائوں بھی گھنی ہے مرے مکی مدنی
رام ملحد ہے کہ مسلماں ہے کوئی فیصلہ دے ہر طرف رائے زنی ہے مرے مکی مدنی
حافظ ارشاد احمد تمام عمر ہوس مال و زر سے متنفر رہے ۔وہ رزق حلال کے ذریعے جو کچھ کماتے وہ ا پنی ا ولاد کی تعلیم و تربیت اور گھر کے روزمرہ اخراجات پر خرچ کرتے ۔جو رقم پس انداز کرتے اسے محتاجوں اور ضرورت مندوں پر خرچ کر دیتے ۔زرو مال کو جمع کرنے کے بجائے وہ اسے مستحقین میں تقسیم کرنے کی کوئی نہ کوئی صورت تلاش کر لیتے ۔یہی ان کی شخصیت اور کردار کے حسن و جمال کا راز ہے ۔وہ یہ بات زور دے کر کہا کرتے تھے کہ یہ مال و دولت دنیا اور رشتہ و پیوند سب بتان وہم و گماں ہیں۔دولت کو پائے استقامت سے ٹھکرانے میں جو خاص لطف ہے وہ اس کے دیوانہ وار حصول میں نہیں ۔ان کی زندگی لین دین کے بجائے دین ہی دین کا ایک نمونہ تھی ۔انسانیت سے بے لوث محبت ہمیشہ ان کا نصب العین رہا ۔غریب اور مستحق طلبا کی مالی امداد کے لیے وہ ہر ممکن کوشش کرتے ۔ اپنے پڑوس میں رہنے والے متعدد طلبا کو انھوں نے درسی کتب اور یونیفارم اپنی گرہ سے خرید کر دی ۔وہ کچی آبادی پر مشتمل ایک ایسے علاقے میں رہتے تھے جہاں کا ماحول پتھر کے زمانے کی یاد دلاتا ہے۔ان کی کوششوں سے وہاں علم کی روشنی پھیلی اور چائلڈ لیبر کے بڑھتے ہوئے رجحان میں کمی واقع ہوئی۔وہ بچے جو برقی کھڈیوں پر دھاگہ پا ور لوموں پر کپڑا بننے کے لیے نلیوں پر بھرتے تھے اب وہ سکول جانے لگے اور وہ کم سن بچیاں جو غربت کے باعث قالین بافی پر لگا دی جاتی تھیں اب تعلیمی اداروں کا رخ کرنے لگیں ۔آج سے چار عشرے قبل شروع کی جانے والی ان کی یہ مساعی اب رنگ لا رہی ہیںاور گھر تعلیم کے چرچے ہیں ۔جب بھی کوئی طالب علم اعلیٰ کامیابی حاصل کرتا تو وہ اس طالب علم کو انعام دیتے اور اس کا حوصلہ بڑھاتے ۔ایسے کمٹڈ اساتذہ اب معاشرے میں عنقا ہیں۔
انسانیت کے وقار اور سر بلندی کے لیے انھوں نے مقدور بھر جد و جہد کی ایسا محسوس ہوتا تھا کہ حیا ت اور کائنات کے تما م درد وہ اپنے دل پر محسوس کرتے تھے ۔ان کی خواہش ہوتی تھی کہ سفاک ظلمتیں کافور ہوں اور قوت عشق سے ہر پست کو بالا کر دیا جائے اور اس عالم آب و گل کے چپے چپے پر اسم خاتم النبیں سے اجالا کر دیا جائے ۔ہر برباد کو آباد کرنے والا اور غم زدہ کو مسرور اور دلشاد کرنے والا یہی مبار ک نام ہے ۔وہ توحید ،رسالت ،قرآن حکیم ،حدیث پاک اور بزرگان دین کی تعلیمات کو مثبت شعور و آگہی پروان چڑھانے کے لیے نا گزیر خیال کرتے تھے ۔وہ کثیر المطالعہ استاد تھے ان کے زاتی کتب خانے میں سیکڑوں نادرکتب موجود ہیں ۔اردو ادب سے انھیں گہر ا لگائو تھا ۔اردو ادب کی تحریکوں کے بارے میں ان کی رائے ہمیشہ بصیرت افروز ہوتی تھی ۔علی گڑھ تحریک کو بر عظیم پاک و ہند میں جمود کے خاتمے کا نقطہء آغاز قراردیتے تھے ۔ان کا کہنا تھا کہ 1857کے بعد ملت اسلامیہ کی مثال ایک ایسے ہجوم کی تھی جو سرابوں میں بھٹک رہا تھا ۔سر سید احمد خان اور ان کے نامور رفقائے کار کی آواز گویا بانگ درا تھی جس نے اسے کارواں کی شکل دی اور یہ کارواں ایک نئے عزم اور ولولے سے سوئے منزل جادہ پیما ہو گیا ۔
موجودہ زمانے میں قحط الرجال نے ایک گمبھیر صورت اختیار کر لی ہے ۔خود غرضی ،غیبت ،مفاد پرستی اور ایذا پسندی کی قبیح روش کے باعث معاشرتی زندگی کو نا قابل اندمال صدمات کا سامنا ہے ۔ان ہولناک حالات میں بھی وہ لوگ عظیم ہوتے ہیں جو ایک شان استغنا ،خودداری اور قناعت کے ساتھ اپنی زندگی بسر کرتے ہیں ۔حافظ ارشاد احمد ایسے ہی انسان تھے ۔وہ ہمیشہ تعمیر پر توجہ دیتے ۔کسی کی تخریب
،عیب جوئی یا غیبت سے انھوں نے کبھی کوئی تعلق نہ رکھا ۔مساجد کی تعمیر و تزئین ہو یا تعلیمی اداروں کی توسیع و ترقی وہ ہر کام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے مگر کبھی ستائش اور صلے کی تمنا نہ کی ۔غربت و افلاس ،مجبوری و محرومی اور بے سروسامانی کے پاٹوں میں پسنے والی انسانیت کے تکلیف دہ مسائل کو وہ خوب سمجھتے تھے کیونکہ وہ خود ان تجربات کا حصہ رہ چکے تھے ۔دنیا کے دیئے گئے تجربات و حوادث سے انھوں نے بہت کچھ سیکھا اور اس کی روشنی میں اپنا مستقبل کا لائحہ عمل منتخب کیا ۔اہل درد سے انھوں نے جو پیمان وفا باندھا تما م عمر اسے استوار رکھا اور اسی کو علاج گردش لیل و نہار سمجھتے ہوئے اس پر کار بند رہے ۔
آج کے دور کو وہ ایک دور بیگانگی سے تعبیر کرتے تھے ۔ان کا خیال تھا کہ ہوس نے نوع انساں کو انتشار اور پراگندگی کی بھینٹ چڑھا دیا ہے ۔سب سے بڑا المیہ یہ ہوا ہے کہ انسان کی عدم شناخت اور فرد کی بے چہرگی کا مسئلہ روز بہ روز شدت اختیار کرتا چلا جا رہا ہے ۔انسان کی اس بوالعجبی کا احساس مفقود ہے ۔انسان شناسی میں جو مہارت حافظ ارشاد احمد کو حاصل تھی وہ اپنی مثال آپ تھی۔انسانی ہمدردی ان کے رگ و پے میں سرایت کر چکی تھی ۔ان کی کتاب زیست کے متعدد اوراق ابھی ناخواندہ ہیں ۔وہ ایک صاحب باطن ولی تھے ۔انھوں نے معاشرتی زندگی میں پائی جانے والی بے اعتدالیوں کے خلاف انتھک جدوجہد کی اور بھٹکے ہوئے لوگوں کو راہ راست پر لانے کے لیے ذاتی اثر و رسوخ استعمال کیا ۔ سرکاری اہل کاروں ،مقامی کونسلروں اور معززین علاقہ سے ان کا رابطہ رہتا۔ وہ یتیموں ،بیوائوں اور فاقہ کش غریبوں کی اس زندگی جو کہ ایک جبر مسلسل بن چکی تھی اس میں بہتری لانے کے آرزو مند تھے ۔ان کا خیال تھا کہ فقیروں کے حالات تو جوں کے توں ہیں جب کے بے ضمیروں کے وارے نیارے ہیں ۔اہل وفا کی صورت حال دیکھ کر وہ تڑپ اٹھتے اور اسے نیرنگیء سیاست دوراں قرار دیتے کہ جاہ و منصب پر ان لوگوں نے غاصبانہ قبضہ کر رکھا ہے جو کبھی شریک سفر ہی نہ تھے۔ایک زیرک معلم اور حساس ادیب کی حیثیت سے انھوں نے زندگی کی اقدار عالیہ کے تحفظ کی خاطر حریت فکر کا علم بلند رکھا ۔نوجوان نسل میں مثبت شعور و آگہی پروان چڑھانے کے لیے ان کی خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی ۔وہ ایک مصلح تھے ان کے بار احسان سے معاشرے کے تمام افراد کی گردن ہمیشہ خم رہے گی ۔
حافظ ارشاد احمد نے اگرچہ علوم اسلامیہ میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی لیکن عالمی ادبیات پر بھی ان کی گہری نظر تھی ۔ادب ،کلچر اور اس سے متعلقہ مسائل کے بارے میں وہ حقیقت پسندانہ موقف اختیار کرتے تھے ۔ان کا خیال تھا کہ ایک جری تخلیق کار اور حریت ضمیر سے زندگی بسر کرنے والاادیب تیشہء حرف سے فصیل جبر کو منہدم کر سکتا ہے ۔اللہ کریم نے انھیں ایک ایسی جمالیاتیحس سے متمتع کیا تھا جس کی بدولت وہ ان تمام مظاہر کو پہچان لیتے تھے جن کے باعث زندگی کا حسن گہنا رہا ہے۔انھیں اس بات کا رنج تھا کہ بعض لوگوں کی بے بصری ،کور مغزی اور کوتاہ اندیشی کے باعث زندگی کا تمام منظرنامہ ہی مسموم ماحول کی بھینٹ چڑھ گیا ہے اور رتیں بے ثمر ،کلیاں شرر اور زندگیاں پر خطر ہو گئی ہیں ۔وہ چاہتے تھے کہ زندگی کی صور ت گری ایسی ہونی چاہیے جیسی کہ قدرت کاملہ کی منشا ہے ۔ان کا کہنا تھا کہ زندگی سر آدم بھی ہے اور ضمیر کن فکاں بھی۔زندگانی کی حقیقت سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ جوئے شیر و تیشہ و سنگ گراں کا منظر نگاہوں میں رہے ۔ان کا استدلال یہ تھا کہ محنت پیہم کے بغیر کوئی جوہر کبھی نہیں کھلتا ۔اس حقیقت کو فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ عقیق سو بار کٹتا ہے تب نگیں بنتا ہے اور خانہ ء فرہاد میں اگر امید کی کرن دکھائی دی تو وہ شرر تیشہ کی مرہون منت ہے ۔وہ زندگی میں رنگ ،خوشبو اور حسن و خوبی کے تمام استعارے پوری آب و تاب کے ساتھ دیکھنے کے متمنی تھے ۔وہ چاہتے تھے کہ زندگی کی حسین مرقع نگاری میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی جائے ۔اہل قلم سے ان کی ہمیشہ یہ توقع رہی کہ وہ لفظ کی حرمت کو ملحوظ رکھیں اور تخلیق فن کے لمحوں میں حسن کاری سے ید بیضا کا معجزہ دکھائیں ۔اس طرح زندگی کی حقیقی معنویت کا اجاگر کرنے میں مدد ملے گی ۔انھیں اس بات کا شدید قلق تھا استحصالی عناصر ہمیشہ مکر کی چالوں سے سادہ لوح عوام کو جل دے جاتے ہیں او رغریب اکثر مات کھا جاتے ہیں ۔وہ سلطانی ء جمہور کے زبردست حامی تھے ۔وطن اور اہل وطن سے ان کی قلبی وابستگی اور والہانہ محبت ان کا امتیازی وصف تھا ۔ارض وطن کے ذرے ذرے سے ان کو پیار تھا ۔وہ یہ بات ببانگ دہل کہتے کہ حب وطن ملک سلیماں سے بہتر ہے اور وطن کا خار سنبل و ریحان سے حسیں ہے ۔وطن کو وہ مادر وطن کہتے تھے اور اسی لیے کہ یہاں سے تمام شہریوں کے لیے بلا امتیاز راحت ،مسرت ،خوشحالی ،ترقی اور وقار کے سوتے پھوٹتے ہیں جن سے نہاں خانہ ء دل میں امیدوں کی فصل سیراب ہوتی ہے ۔مادر وطن کے خلاف الزام تراشی کرنے والوں سے وہ بیزار تھے اور یہ شعر اس حوالے سے پڑھتے تھے :
تہمت لگا کے ماں پہ جو دشمن سے داد لے
ایسے سخن فروش کو مر جانا چاہیے
ایسے سخن فروش کو مر جانا چاہیے
ہر ملنے والے کے ساتھ اخلاق اور اخلاص سے بھر پور رویہ اختیا کرنا حاٖفظ ارشاد احمد کا معمول تھا ۔عجز و انکسار ،صبر و تحمل اور شفقت ان کی طبیعت کا اہم پہلو سامنے لاتے تھے ۔ان سے مل کر واقعی زندگی سے والہانہ محبت ہو جاتی تھی۔وہ ہر حال میں راضی بہ رضائے الٰہی رہتے ۔ان کی زندگی میں بھی متعدد نشیب و فراز آئے ،کئی سخت مقام آئے مگر انھوں نے مستقل مزاجی اور ثابت قدمی کا جو ارفع معیار قائم کیا وہ نہ صرف لائق صد رشک و تحسین ہے بلکہ قابل تقلید بھی ہے ۔قحط الرجال کے موجودہ دور میں جب کہ اہل جور نے دروغ گوئی ،غیبت طرازی اور ایذا رسانی کو اپنا وتیرہ بنا رکھا ہے ایسے افراد کا وجود پروردگار عالم کا بہت بڑا انعام ہے جو دکھی انسانیت کے لیے سراپا فیض ہیں۔حافظ ارشاد احمد بھی پروانے کی صورت تھی جو انسانی ہمدردی کی شمع پر نثار ہونے کے لیے بے قرار رہا او رکسی خوف کی پروا کیے بغیر سب کچھ اپنے ابنائے وطن پر نچھاور کر دیا ۔اگرچہ کم گوئی اور سنجیدگی ان کا شعار تھا اس کے با وجود کبھی کبھی وہ مسکراتے بھی تھے ۔ایسا محسوس ہوتا کہ وہ اپنے آنسو ہنسی کے خوش رنگ دامنوں میں چھپا نے کی سعی کر رہے ہیں ۔ان کی مستحکم شخصیت ماحول اور معاشرے کے تیزی سے بدلتے ہوئے حالات اور متنوع کیفیات سے ایک تعلق استوار کر لیتی ۔سائنس اور ٹیکنالوجی کے فروغ نے ذاتی پسند اور دلچسپیوںکے تمام تصورات کو یکسر بدل دیا ہے ۔حاٖفظ ارشاد احمد نے اپنے چاروں بچوں کو حافظ قرآن بنایااور اس کے بعد یونیورسٹی آف انجنیئنگ اینڈ ٹیکنالوجی سے اعلیٰ تعلیم دلائی ۔وہ جدید دور کی ٹیکنالوجی سے آگاہ تھے ۔کمپیوٹر کے استعمال اور انٹر نیٹ پر موجو سائبر کتب خانوں سے وہ استفادہ کرتے تھے۔علامہ اقبال سائبر لائبریری ،لاہور میں موجود اردو زبان و ادب کے بیش بہا مخزن کو وہ عالمی ادب کے لیے بہت بڑا اثاثہ سمجھتے تھے۔سائبر کتب خانوں کی بدولت بنیادی مآخذ تک رسائی میں جو مدد ملی ہے اسے وہ ایک انقلاب سے تعبیر کرتے تھے ۔اسے وہ جہان تازہ کی ایک جھلک سمجھتے تھے ۔وہ اکثر محو حیر ت ہو کر کہتے کہ اب مطالعہ اور تحقیق کاانداز بالکل بدل گیا ہے ۔اب پوری دنیا نے ایک گلوبل ویلج کی صورت اختیار کر لی ہے ۔وہ انسانیت کے سفینے کو بحر بے کراں میں روا ں دواں دیکھنے کی تمنا کرتے ۔
حافظ ارشاد احمد کے دوست احباب کثیر تعداد میں تھے لیکن کسی دشمن کے بارے میں انھیںکچھ معلوم نہ تھا۔میرا خیال ہے ان کا کوئی مخالف کبھی موجود نہیں رہا ۔ان کی شرافت ،پاکیزگی ،زہد و تقویٰ کی وجہ سے سفہا اور اجلاف و ارزال کو ان کے قریب آنے کی ہمت نہ ہوتی ۔سارے بے کمال اس صاحب کمال کی ضیاپاشیوں کی تاب نہ لاتے ہوئے مانند شپر غائب ہو جاتے ۔وہ بے لوث محبت کے اعجاز سے اپنی محفلوں کو پر رونق بنا دیتے ۔احباب ان کی طرف کھنچے چلے آتے ۔بے لوث محبت ،بے با ک صداقت اور حریت فکر کے ارفع جذبات نے ان کی شخصیت کو باغ و بہار کا روپ عطا کر دیا تھا ۔ان کی محبت کئی مدارو ں
میں بہ یک وقت سر گرم عمل رہتی ان میں توحید ،رسالت ،قرآن حکیم،مشاہیر اسلام ،وطن اور اہل وطن کے علاوہ اولاد ؎حتیٰ کہ پور ی انسانیت کے دھنک رنگ مناظر قلب و نظر کو مسخر کر رہے ہیں ۔یہ ایسی محبت تھی جو انھیں حصار ذات سے باہر نکال کر ایک وسیع معنویت سے آشنا کرتی اور ایک ایسے حیاتیاتی رشتے کی نمود ہوتی جو تخلیق کائنات کا مظہر ہے ۔وہ بولتے تو باتو ںسے پھول جھڑتے ۔ان کی محفل میں ہر شخص کو اتنی عزت و تکریم ملتی کہ سب ان کے گرویدہ ہو جاتے
وہ خوش کلام ہے ایسا کہ اس کے پاس ہمیں طویل رہنا بھی لگتا ہے مختصر رہنا
ورق ورق نہ سہی عمر رائیگاں میری ہوا کے ساتھ مگر تم نہ عمر بھر رہنا
کچھ عرصہ پہلے ان سے ملاقات ہوئی تو معلوم ہوا کہ وہ اپنی کتاب زیست کو مرتب کر رہے ہیں ۔حیف صد حیف کہ فرشتہء اجل نے ان کے ہاتھ سے قلم چھین لیاور ایک فعال تخلیق کار اچانک ہماری
محفل سے اٹھ گیا ۔ حافظ ارشاد احمد آج ہمارے درمیان موجود نہیں لیکن ان کے افکار ،تدریسی تجربات اور مذہبی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا ۔وہ اپنی ذات میں ایک انجمن اور سراپا خیر تھے ۔انھوں نے نہایت نیک نیتی سے نئی نسل کی تربیت کی ۔ان کی نیت طیبہ ان کی دیانت داری اور تقویٰ کا ثمر تھا۔ انھوں نے ہونہار بچوں کو دینی اور دنیاوی تعلیم کی طرف راغب کیا ۔ان کا وجود کتنی بڑی نعمت تھا اس کا احساس ان کی وفات کے بعد شدت سے ہونے لگا ہے ۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کی وفات کے اثرات تعلیم ،تدریس اور اصلاح معاشرہ کے تمام شعبوں پرنمایاں ہوں گے۔اپنے قلم کا احترام کرنے والے اس محنتی اور با وقار معلم نے جو طرز فغاں ایجاد کی وہی طرز ادا قرار پائے گی ۔علم و ادب کا یہ آفتاب جہاں تاب عدم کی بے کراں وادیوں میںاوجھل ہو گیا ہے مگر اس کی تابانیوں سے وطن کا گوشہ گوشہ منور ہے ۔آج ان کی یاد میں ہر دل سوگوار اور ہر آنکھ اشکبار ہے وہ اس قدر ہر دلعزیز تھے کہ ان کی وفات کی خبر سن کر ہر گھر میں صف ماتم بچھ گئی۔اللہ کریم حاٖفظ ارشاد احمد کو جوار رحمت میں جگہ دے اور ان کے تمام لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے ۔
سب کہا ںکچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں
خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہو گئیں
خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہو گئیں