(Last Updated On: )
حدوں میں رہ کر، حدوں سے باہر، بہے سمندر
دکھائے حیرانیوں کا منظر، بہے سمندر
زمیں کی آغوش پر سکوں میں سکوں نہ پائے
ہوا کی راہوں میں ابر بن کر، بہے سمندر
یہ جان و جنبش ثمر ہیں پانی کی ٹہنیوں کے
بدل کے شکل نوید گھر گھر، بہے سمندر
یہ سب کے سب ہیں پڑاؤ اس کی روانیوں کے
پہاڑ یا برف یا صنوبر، بہے سمندر
ہری کویتا کے شبد مٹی پہ لکھتا جائے
زبان اسرار کا سخن ور، بہے سمندر
یہ وجہ فعل وجود اصل وجود بھی ہے
یہی ہے دریا یہی شناور، بہے سمندر
اسی حوالے سے آنکھ پر منکشف ہوئے ہیں
زمین، افلاک اور خاور، بہے سمندر
رکے تو ایسے بسیط و ساکت، ہو موت جیسے
بنام ہستی بہے برابر، بہے سمندر
فنا کرے تو بقا کی گنجائشیں بھی رکھے
ہو جیسے انسان کا مقدر، بہے سمندر
٭٭٭