پہلا سوال: حدیث نبی اور نبی کا قول حجت ہے یا نہیں؟
جواب: نبی کا قول حجت ہے۔
ثبوت: یہاں تین صورتیں ہیں؛(پہلی شق) ایک تو یہ کہ نبی کا ہر قول حجت ہے۔ (دوسری شق) دوسری صورت یہ ہے کہ نبی کا کوئی قول حجت نہیں ہے۔ (تیسری شق) تیسری صورت یہ ہے کہ نبی کا بعض قول حجت ہے اور بعض حجت نہیں ہے۔ بس صرف یہی تین صورتیں اور شقیں ہیں اور کوئی شق نہیں ہے۔ تیسری شق یعنی نبی کا بعض قول حجت ہے اور بعض قول حجت نہیں ہے یہ شق باطل ہے۔ اس لئے کہ بعض قول کا حجت ہونا اور بعض قول کا حجت نہ ہونا یہ ترجیح بلا مرجع ہے اور تخصیص بغیر مخصص ہے۔ ترجیح بلا مرجع اور تخصیص بلا مخصص کے یہ معنی ہیں کہ بعض قول بغیر وجہ کے حجت ہے اور بعض قول بغیر وجہ کے حجت نہیں ہے۔ یعنی جبکہ نبی کے دو قول ہیں؛ وہ بعض بھی جو حجت ہیں اور وہ بعض بھی جو حجت نہیں ہیں، تو بغیر وجہ کے ایک بعض حجت ہوا دوسرا بعض حجت نہ ہو، اس کو ترجیح بلا مرجع اور تخصیص بلا مخصص کہتے ہیں۔ اور ترجیح بلا مرجع اور تخصیص بغیر مخصص بداہتہً باطل ہے۔ لہذا بعض قول کا حجت ہونا اور بعض قول کا حجت نہ ہونا یہ شق بالکل باطل ہو گئی۔ اس لئے کہ یہ بعض بھی نبی کا قول ہے جو حجت ہے اور وہ بعض بھی نبی کا قول ہے جو حجت نہیں ہے اور قول ہونے میں دونوں برابر ہیں، تو یہ بات غیر معقول ہے کہ ایک بعض تو حجت ہو اور دوسرا بعض حجت نہ ہو کیونکہ جب دونوں نبی کے قول ہیں۔ تو پھر کیا وجہ ہے کہ ایک تو حجت ہو اور دوسرا حجت نہ ہو؟
اس دلیل کا حاصل یہ ہے کہ جو بعض قول حجت ہے، اس بعض قول کے حجت ہونے پر کونسی شئے حجت ہے؟ اگر یہ کہا جائے کہ نبی کے بعض قول کے حجت ہونے پر اللہ کا قول حجت ہے، یعنی نبی کا قول اگر اللہ کے قول کے مطابق ہے تو بیشک نبی کا قول حجت ہے۔ اور اگر اللہ کے مطابق نہیں ہے، تو نبی کا قول اس وقت حجت نہیں ہے۔ اس مقولہ کا خلاصہ یہ ہوا کہ اگر نبی کا قول اللہ کے قول یعنی قرآن کے مطابق ہے تو نبی کا قول حجت ہو گا ورنہ نہیں۔ یعنی ترجیح بلا مرجع اور تخصیص بلا مخصص لازم نہیں آتی، کیونکہ مرجع اور مخصص اللہ کے قول کی مطابقت ہے۔
ہم کہتے ہیں کہ اللہ کا قول اور قرآن کی آیت نبی کے قول پر اس وقت حجت ہو گی کہ جب اللہ کا قول اورقرآن کی آیت معلوم ہو جائے اور معین ہو جائے کہ یہ اللہ کی طرف سے آیت نازل ہوئی ہے یہ اللہ ہی کا قول ہے۔ یہ قرآن ہی کی آیت ہے اور قول اللہ اور آیت اللہ کا معلوم ہونا اور معین ہونا نا ممکن ہے جب تک کہ نبی معلوم نہ کرائے اور معین نہ کرے۔ اور جب نبی معلوم کرائے گا بتائے گا اور معین کرے گا تو نبی کا وہ قول جس سے اس آیت کو نبی معلوم کرائے گا اس آیت اور اس قول الٰہی کی معلومیت اور تعین پر حجت ہو گا، تب کہیں جا کے یہ آیت اور قولِ الٰہی حجت ہو گا اور یہ معاملہ بالکل اُلٹا ہو گیا۔ یعنی کہا یہ گیا تھا کہ اللہ کا قول نبی کے قول پر حجت ہے اور ثابت یہ ہو گیا کہ نبی کا قول اللہ کے قول پر حجت ہے اور یہی حق ہے، لہذا تیسری شق کہ نبی کا بعض قول حجت ہے اور بعض حجت نہیں، باطل ہو گئی۔
اب رہی دوسری شق کہ نبی کا کوئی قول حجت نہیں یہ کہنا کفر اور جنون اور پوری قوم کے اجماع کے خلاف ہے۔ نیز ہم کہتے ہیں اگر نبی کا کوئی بھی قول حجت نہیں ہو گا تو خدا کا قول بھی حجت نہیں ہو گا، کیونکہ نبی جب یہ کہے گا آج مجھ پر قُل ھُوَ اللہ کی سورت نازل ہوئی اور جب نبی کا کوئی بھی قول حجت نہیں ہے تو یہ قول بھی حجت نہیں رہا۔ اور جب یہ قول یعنی کہ آج مجھ پر قُل ھُوَ اللّٰہ کی سورت نازل ہوئی ہے، حجت نہیں رہا، تو چونکہ یہ قولِ نبی قُل ھُوَ اللّٰہُ کو شامل ہے، اس لیے قولِ الٰہی قُل ھُوَ اللّٰہُ بھی حجت نہیں رہا حالانکہ بالاتفاق خدا کا قول حجت ہے، تو لابُد نبی کا قول بھی حجت ہو گیا۔ اور یہ شق کہ نبی کا کوئی قول حجت نہیں ہے، بالکل باطل ہو گئی۔ اور جب پچھلی دونوں شقیں باطل ہو گئیں تو بالضرور پہلی شق یعنی نبی کا ہر قول حجت ہے ثابت ہو گئی۔ غور کرنا چاہیے۔
قولِ رسول حجت ہے
اب قرآن شریف سے ہم ثابت کرتے ہیں کہ قولِ رسول حجت ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
یٰۤاَیُّہَا الَّذِینَ اٰمَنُوۤا اَطِیعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیعُوا الرَّسُولَ وَ اُولِی الاَمرِ مِنکُم فَاِن تَنَازَعتُم فِی شَیءٍ فَرُدُّوہُ اِلَى اللّٰہِ وَ الرَّسُولِ اِن کُنتُم تُؤمِنُونَ بِاللّٰہِ وَ الیَومِ الاٰخِرِ
(سورت النساء 4 آیت 59)
’اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور تم میں سے جو اولی الامر ہیں ان کی اطاعت کرو۔ پھر اگر کسی شئے میں تم کو اختلاف ہو تو اللہ اور رسول کی طرف رجوع کر لو، اگر تم اللہ اور روز جزا پر ایمان رکھتے ہو۔‘
اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اللہ کی اطاعت کرو، کسی ذی شعور اور با اختیار کی، اطاعت اس ذی شعور اور با اختیار کے حکم اور قول کی اطاعت ہوا کرتی ہے۔ تو اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے یہ معنی ہیں کہ اس کے قول کی اطاعت ہو اور یہ اطاعت صرف قرآن کی اطاعت ہے۔ یہاں سے معلوم ہوا کہ اَطِیعُوا اللّٰہ کے معنی یہ ہیں کہ قرآن کی اطاعت کرو، اسی طرح اَطِیعُوا الرَّسُول کے بھی یہی معنی ہے کہ رسول کے قول کی اطاعت کرو۔
اب اگر کہو کہ رسول کا قول اور قرآن دونوں ایک ہی چیز ہیں، تو یہ بالکل غلط ہے۔ اور اگر رسول کا قول اور چیز ہے اور قرآن اور چیز ہے یعنی دونوں علیحدہ علیحدہ چیزیں ہیں، تو اس صورت میں اس آیت کے حکم کے مطابق قولِ رسول علاوہ قرآن کے حجت ہو گیا۔ اب اگر یہ کہا جائے کہ رسول کی اطاعت کے یہ معنی ہیں کہ قرآن کی رُو سے، قرآن کی روشنی میں رسول جو اقوال و احکام بیان کرے وہ مانو اور اسی طرح اولامر قرآن کی روشنی میں جو احکام صادر کریں وہ مانو۔ تو ہم کہتے ہیں کے رسول کے وہ اقوال و احکام اور اولامر کے وہ احکام جو ہرگز قرآن کی روشنی میں نظر نہیں آتے وہ قطعاً اس وقت ناقابلِ اطاعت ہوں گے اور ان کی اطاعت واجب نہیں ہو گی۔
اس کی توضیح ایک مثال سے ہو سکتی ہے، رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ صبح کی نماز میں فرض دو رکعتیں ہیں اور مغرب کی نماز میں تین رکعتیں ہیں باقی تینوں نمازوں میں چار، چار رکعتیں ہیں اور نبی رسول صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ قول تواتر سے ثابت ہے اور نبی رسول صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ قول نہ قرآن میں نظر آتا ہے نہ قرآن کی روشنی میں نظر آتا ہے۔ تو اب بولو کیا کہتے ہو۔ نبی کا یہ قول واجب اطاعت ہے یا نہیں؛ اگر کہو ہاں واجب اطاعت ہے، تو بیشک نبی کے قول کے حجت ہونے کی یہی معنی ہے۔ اور اگر کہو نبی کا یہ قول واجب اطاعت نہیں ہے، تو یہ کفر اور جنون کا مجموعہ ہے۔ یعنی جو شخص صبح کے دو فرض اور مغرب کے تین فرض اور باقی نمازوں کے چار، چار فرض نہ مانے وہ کافر ہے اور مجنون ہے۔
مطلب یہ ہے کہ قرآن بغیر شرط کے حجت ہے، اس میں کوئی قید نہیں ہے کہ عقل کے مطابق ہو یا نہ ہو۔ بالکل اسی طرح نبی کا قول حجت ہے خواہ وہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا قول قرآن سے ماخوذ ہو، خواہ ماخوذ ہو نہ ہو، مستقل طور پر نبی کا قول ہو تب بھی حجت ہے۔ یعنی جس طرح اَطِیعُوا اللّٰہ قرآن کے حجت ہونے پر دلالت کر رہا ہے۔ اسی طرح اَطِیعُوا الرَّسُول نبی کے قول کے حجت ہونے پر دلالت کر رہا ہے اسی طرح اُولِی الاَمر کا لفظ اجماع پر دلالت کر رہا ہے۔ اور یہ تینوں بلا شرط مستقل حجتیں ہیں، برخلاف حاکم و امام اور باپ وغیرہ کی اطاعتوں کے۔ کیونکہ یہ اطاعتیں مشروط ہیں، اگر قرآن اور حدیث یا دین کے مطابق ہو تو اطاعت کی جائے گی ورنہ نہیں کی جائے گی۔
حاصل یہ ہے کہ اس وقت جو متفق علیہ دین ہیں، وہ کُل کا کُل صرف قرآن سے ثابت نہیں ہے بلکہ کچھ حدیث یعنی قول رسول صلی اللہ علیہ و سلم سے ثابت ہے اور کچھ اجماع سے ثابت ہے۔ مثلاً منکر فرضیت صوم رمضان کافر ہے، یہ مسئلہ دین کا ہے اگرچہ قرآن اور حدیث میں اس کی تصریح نہیں ہے لیکن یہ اجماع سے ثابت ہے، لہذا یہ تینوں غیر مشروط حجتیں ہیں۔ اب رہا قیاس تو وہ مشروط حجت ہے، اس میں شرط ہے کہ فَاِن تَنَازَعتُم فِی شَیء بس اگر ان تینوں حجتوں کے بعد کسی شرعی مسئلے میں اختلاف ہو تو اللہ اور رسول کی طرف رجوع کر لو۔ یعنی اگر کوئی ایسا مسئلہ پیش آئے جو قرآن سے، حدیث سے، اجماع سے ثابت نہ ہو تو قرآن اور حدیث میں سے سے ملتا جلتا مسئلہ دریافت کرو۔ جو حکم قرآن و حدیث میں اس مسئلے کا ہے وہ ہی حکم اس مسئلہ مختلف فیہ کو دے دو، اس کو قیاس کہتے ہیں۔ اس آیت کے یہ معنی نہیں ہیں کہ اختلاف کے وقت قرآن کی طرف رجوع کرو، کیونکہ قرآن کی طرف اور حدیث کی طرف تو اوّل داہلہ میں رجوع ہو گا۔ اور جب وہاں اسے مسئلہ کا حکم نہ معلوم ہو گا تو پھر اختلاف ہو گا اور اختلاف کے بعد اس مسئلہ میں مختلف فیہ کی نظیر قران و حدیث میں تلاش ہو گی اور جو حکم اس کا ہو گا وہی اس کو دے دیا جائے گا، جیسا کہ تمام مجتہدین کرتے ہیں۔ لہذا اس آیت میں چاروں حجتوں کا بیان کر دیا تین غیر مشروط ہیں ایک مشروط ہے، لہذا نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا قول حجت ہے۔
اور یہ بات معلوم ہونی چاہیے کہ قرآن تو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا قول ہی نہیں ہے، قرآن تو خدا کا قول ہے جس کو نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے لفظاً لفظاً نقل کیا ہے۔ قرآن کے علاوہ جتنی باتیں نبی کرتا ہے خواہ وہ باتیں قرآن سے ماخوذ ہو، خواہ نہ ہوں وہ سب باتیں نبی کا قول کہی جاتی ہیں۔ اور ہم نے نبی کے اس قول کو حجت کہا ہے جو نہ قرآن ہے نہ قرآن سے ماخوذ ہے۔ کیونکہ اگر ہم ایسا مضمون بیان کریں جو قرآن سے ماخوذ ہے تو اس صورت میں قرآن کی ماخوذیت کے اعتبار سے ہمارا قول بھی حجت ہو گا، نہ یہ کہ ہمارا قول مستقل حجت ہے لیکن نبی کا قول مستقل حجت ہے۔ اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرعون کو تبلیغ کی تھی تو اس وقت تورات نازل نہیں ہوئی تھی، تو اگر موسیٰ علیہ السلام کا قول حجت نہ ہوتا تو فرعون مستوجبِ عتاب نہ ہوتا۔
غرض یہ کہ نبی کا قول نزول کتاب سے قبل اور نیز نزول کتاب کے وقت اور نزول کتاب کے بعد ہر وقت حجت ہے۔ اور اگر نبی کا قول قطع نظر کتاب سے حجت نہ ہو گا تو کثیر انبیاء کی نبوت باطل ہو جائے گی، کیونکہ کثیر انبیاء پر کتابیں نازل نہیں ہوئیں۔ تو اگر صرف کتاب ہی حجت ہوتی تو بے کتاب کا نبی صاحبِ حجت نہ ہوتا اور اس کا انکار کفر اور موجبِ عتاب نہ ہوتا، لہذا نبی کا قول حجت ہے۔
خدا کے دو قول ہیں
خلاصہ یہ کہ خدا کے دو قول ہیں؛ ایک قول کے ساتھ معجزہ متعلق ہے، دوسرے قول کے ساتھ معجزہ متعلق نہیں ہے۔ جس قول کے ساتھ معجزہ متعلق ہے، اس کو قرآن کہتے ہیں۔ جس قول کے ساتھ معجزہ متعلق نہیں ہے، وہ قول، قولِ رسول کہلاتا ہے۔ تو جس طرح قول با معجزہ حجت ہے اسی طرح قول بے معجزہ حجت ہے۔ جس طرح تمام سابقین انبیاء کے اقوال اور کُتب سب معجزہ سے خالی تھے اور باوجود معجزہ سے خالی ہونے کے وہ سب کے سب حجت تھے۔ اسی طرح خاتم النبیین کے جملہ اقوال حجت ہیں۔ اللہ تعالیٰ اگر کسی انسان کو بذریعہ وحی خطاب کرے تو یہ خطاب ہی نبوت ہے اور یہ نبی عوام کو خطاب کرے تو یہ خطابِ رسالت ہے، اگر نبی کا خطاب عوام کے لئے حجت نہ ہو گا تو رسالت حجت نہ رہے گی۔ تو اب کونسی چیز عوام پر حجت ہوں گی؟ کیونکہ عوام کو تو خدا کا خطاب براہِ راست پہنچ نہیں سکتا، نبی کے ہی واسطے سے پہنچے گا، اس لئے بالضرور نبی کا خطاب جو خدا کے خطاب کو متضمن ہے حجت ہو گا۔
خلاصہ یہ کہ معجزہ نبی کی صداقت پر دلالت کر رہا ہے، یعنی معجزہ اس بات پر حجت ہے کہ مدعی نبوت صادق ہے اور جو کچھ نبی کہے گا وہ سب صادق ہو گا، خواہ یہ کہے کہ یہ قرآن ہے یہ مجھ پر نازل ہوا، خواہ اس کے علاوہ کوئی اور بات کہے۔ تو جس طرح اس کے کہنے سے قرآن مانا جاتا ہے اسی طرح اس کے کہنے سے قرآن کے علاوہ دوسری بات مانی جاتی ہے اور وہ دوسری بات نبی کا قول اور نبی کی حدیث کہلاتی ہے۔ معجزہ نے نبی کی مطلقاً صداقت ثابت کی ہے۔ معجزہ نے صرف یہ نہیں ثابت کیا کہ اگر نبی کوئی بات من جانب اللہ کہے تو وہ صادق ہے، بلکہ معجزہ نے مطلق صداقت نبی کی ثابت کی ہے۔
اب جب یہ ثابت ہو گیا کہ نبی صادق ہے تو اس صادق نے دو باتیں کہی ہیں؛ ایک کا نام قرآن ہے، دوسری کا نام حدیث ہے۔ تو جس طرح اس کی صداقت قرآن پر حجت ہے اسی طرح اس کی صداقت حدیث پر حجت ہے۔ یعنی قرآن کو نبی کے کہنے سے ماننا گیا ہے تو گویا نبی کا کہنا اور نبی کا قول قرآن کے قرآن ہونے اور قرآن کے حجت ہونے پر حجت ہے، تو قرآن کی حجیت کی عِلت نبی کا قول ہوا۔ اسی طرح نبی کا قول حدیث کے حجت ہونے پر اور حدیث کے قابلِ قبول ہونے پر حجت ہوا۔ بولو کیا کہتے ہو قرآن کو قرآن کس کے کہنے سے، کس کے قول سے مانا؟ نبی کے قول سے مانا، نبی کے کہنے سے مانا؟ تو بیشک نبی کا قول حجت قرآن پر ہو گیا۔ بالکل اسی طرح نبی کا قول تمام اقوالِ نبی پر حجت ہو گیا، یعنی معجزہ نے یہ بتا دیا کہ نبی سچا ہے اس کی بات مانو۔
نبی کا قول حجت ہونے پر قرآنی دلائل
قرآن شریف سے دوسرا ثبوت: رُسُلًا مُّبَشِّرِینَ وَ مُنذِرِینَ لِئَلَّا یَکُونَ لِلنَّاسِ عَلَى اللّٰہِ حُجَّةٌۢ بَعدَ الرُّسُلِ (سورت النساء 4 آیت 165)
’یعنی رسول خوشخبری دینے والے اور ڈرانے والے اس لیے بھیجے ہیں کہ رسولوں کے آنے کے بعد اللہ پر لوگوں کے لئے حجت باقی نہ رہے۔‘
اس سے صاف ظاہر ہو گیا کہ رسول لوگوں پر حجت ہیں۔ اور فرمایا:
وَمَا کُنَّا مُعَذِّبِینَ حَتّیٰ نَبعَثَ رَسُولًا
(سورت بنی اسرائیل 17 آیت 15)
’جب تک رسولوں کو نہیں بھیجتے اس وقت تک ان کو عذاب نہیں کرتے۔‘
یعنی رسولوں کے آنے کے بعد لوگوں پر حجت قائم ہو جاتی ہے۔ پھر وہ لوگ رسولوں کا انکار کرتے ہیں اور اس انکار کے سبب وہ مستحقِ عذاب ہو جاتے ہیں۔
اور فرمایا:
إِنَّکَ لَتَہدِی إِلَىٰ صِرَاطٍ مُستَقِیمٍ
(سورت الشوریٰ 42 آیت 52)
’بیشک تُو سیدھے راستے کی طرف ہدایت کرتا ہے۔‘
اگر رسول کا قول حجت نہ ہوتا تو اس کی ہدایت سیدھے راستے کی طرف نہ ہوتی۔
اور فرمایا:
إِنَّکَ لَمِنَ المُرسَلِینَ، عَلَىٰ صِرَاطٍ مُستَقِیمٍ
(سورت یٰسٓ آیات 3 -4)
’قطعی تُو رسول ہے اور سیدھے راستے پر ہے۔‘
تو جو شخص سیدھے راستے پر خود ہوں اور سیدھے راستے کی ہدایت بھی کرے اس کا قول حجت نہ ہو یہ عجیب بات ہے۔
اور فرمایا:
لَقَد کَانَ لَکُم فِی رَسُولِ اللّٰہِ اُسوَةٌ حَسَنَةٌ
(سورت الاحزاب آیت 21)
’تمہارے لیے رسول اللہ کا بہترین نمونہ کافی ہے۔‘
اور فرمایا:
فَلاَ وَرَبِّکَ لاَ یُؤمِنُونَ حَتَّىَ یُحَکِّمُوکَ فِیمَا شَجَرَ بَینَہُم
(سورت النساء آیت 65)
’قسم ہے تیرے پروردگار کی یہ مومن ہوں ہی نہیں سکتے جب تک کہ یہ اپنے تمام معاملات متنازعہ فیہ میں تجھ کو حکم نہ بنا لیں۔‘
اور یہ نہیں فرمایا کہ مجھ کو حکم نہ بنا لیں، بلکہ تجھ کو حکم نہ بنا لیں۔ اگر رسول کا قول حجت نہ ہو تو پھر وہ کیونکر وہ حکم بن سکتا ہے؟ قرآن کی رُو سے نبی حکم ہے اور حکم کا قول حجت ہے۔
یہ بات معلوم ہونی چاہیے کہ حجت کے معنی موجبِ ایمان اور موجبِ عمل کے ہیں۔ سو بعض حجت تو موجبِ ایمان و عمل ہے اور بعض حجت صرف موجبِ عمل ہے اور بعض حجت صرف موجب ایمان ہے۔ قرآن شریف کا وہ حصہ جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ وہ ’أُمُّ الکِتَاب‘ اور آیات محکمات ہیں، وہ موجبِ ایمان بھی ہے اور موجبِ عمل بھی۔ اور وہ حصہ جس کے متعلق فرمایا کہ متشابہات ہیں، وہ صرف موجب ایمان ہے، موجب عمل نہیں اور اس کی پیروی کو زیغ اور کجی سے تعبیر کیا گیا ہے۔ لیکن نبی کا قول کُل کا کُل موجبِ ایمان اور موجبِ عمل ہے، نبی کے قول میں تقسیم نہیں ہے جس طرح خدا کے قول میں تقسیم ہے۔ لیکن نبی کا وہ قول جو بطریقِ ظن آیا ہے وہ صرف موجبِ عمل ہے، موجبِ ایمان نہیں ہے، اور عنقریب اس کا بیان آتا ہے۔ حاصل یہ ہے کہ قرآن بہرحال حجت ہے۔
رسول کا مطاع ہونے پر دلائل
اب دیکھنا یہ ہے کہ اس کے حجت ہونے کی کیا عِلت ہے؟ اگر من جانب اللہ ہونا حجت ہونے کی عِلت ہے، تو ہر وہ شئے جو من جانب اللہ ہے وہ حجت ہو جائے گی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
قُل کُلٌّ مِّن عِندِ اللَّہِ
(سورت النساء 4 آیت 78)
یعنی ’ہر حسنہ و سئیہ اللہ کی جانب سے ہے۔‘
اس صورت میں سئیہ حجت ہو جائے گی۔ نیز متشابہات بھی منجانب اللہ ہیں، لہذا وہ بھی حجت ہو جائیں گے حالانکہ سئیہ اور متشابہات دونوں حجت عمل نہیں ہے۔ بلکہ عِلتِ حجت احکام ہے جس کے متعلق فرمایا:
آیَاتٌ مُّحکَمَاتٌ ہُنَّ أُمُّ الکِتَابِ
(سورت ال عمران 3 آیت 7)
’اس میں محکم آیتیں ہیں جو اصل کتاب ہیں۔‘
لہذا اب محکم اور متشابہ میں تمیز کون کرے؟ جو تمیز کرے گا اسی کا قول حجت ہو گا۔ اور یہ تمیز صرف نبی کے قول سے ہوئی ہے، لہذا نبی کا قول حجت ہے۔
اور فرمایا اللہ تعالیٰ نے:
وَإِذَا قِیلَ لَہُم تَعَالَوا إِلَى مَا أَنزَلَ اللَّہُ وَإِلَى الرَّسُولِ
(سورت المائدۃ 5 آیت 104)
’اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ آؤ اس شئے کی طرف جو اللہ نے نازل کی ہے اور رسول کی طرف۔‘
اس سے صاف ظاہر ہے کہ اگر رسول کا قول حجت نہ ہوتا تو رسول کی طرف بُلانا بے سود ہوتا۔
اور فرمایا:
وَ مَاۤ اَرسَلنَا مِن رَّسُولٍ اِلَّا لِیُطَاعَ بِاِذنِ اللّٰہِ
(سورت النساء آیت 64)
یعنی ’کسی رسول کو نہیں بھیجا مگر صرف اس لئے کہ باذنِ الٰہی اس کی اطاعت کی جائے۔‘
مَّن یُّطِعِ الرَّسُولَ فَقَد اَطَاعَ اللّٰہَ
(سورت النساء 4 آیت 80)
یعنی ’جس نے رسول اللہ کی اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی۔‘
غرض یہ کہ بے شمار آیات ہیں، جن سے رسول کا مطاع ہونا ظاہر ہو رہا ہے۔
کتاب کے علاوہ کوئی اور چیز بھی حجت ہے، اس کی دلیل یہ آیت ہے:
اِئتُونِی بِکِتٰبٍ مِّن قَبلِ ہٰذَاۤ اَو اَثٰرَۃٍ مِّن عِلمٍ اِن کُنتُم صٰدِقِینَ
(سورت الاحقاف 46 آیت 4)
’اس سے پہلے کہ کسی کتاب سے یا آثارِ علمی سے ان بتوں کی شرکت میرے ساتھ ثابت کرو، اگر تم سچے ہو۔‘
یعنی اللہ تعالیٰ ان مشرکین سے حجت مانگتا ہے کہ تم جو بتوں کو میرا شریک ٹھہرا رہے ہو، اس پر کیا حجت ہے؟ یا کتاب یا آثار علمی۔ بہرصورت ان دونوں میں سے کوئی چیز لاؤ۔ اس سے پتہ چل گیا کہ اللہ کے نزدیک آثار علمی حجت ہے جس کا مطالبہ اللہ نے کیا۔ اور یہ آثارِ علمی کتاب سے علیحدہ چیز ہے جو حجت ہونے میں اللہ کے نزدیک معتبر ہے۔ کتاب سے مراد وہ کتاب ہے جو انبیاء سابقین پر نازل ہوئیں اور آثارِ علمی سے مراد وہ احادیث اور آثار ہیں جو انبیائے سابقین سے بطور خبرِ واحد منقول ہیں۔ اور بالکل یہ آثارِ علمی وہی چیز ہے جسے ہم آثار اور احادیث کہتے ہیں۔
اور فرمایا:
وَمِنَ النَّاسِ مَن یُّجٰدِلُ فِی اللّٰہِ بِغَیرِ عِلمٍ وَّلَا ہُدًی وَّلَا کِتٰبٍ مُّنِیرٍ
(سورت لقمان آیت 20، الحج آیت 8)
’کچھ ایسے لوگ ہیں جو اللہ کی ذات و صفات میں بغیر علم و ہدایت اور روشن کتاب کے مباحثہ کرتے ہیں۔‘
اس سے ظاہر ہو گیا کہ علم و ہدایت روشن کتاب کے علاوہ حجت ہیں۔ علم تو بدیہی مقدمات کو کہتے ہیں۔ ہدایت ان نظری مقدمات کو کہتے ہیں جو بدیہی مقدمات سے ثابت ہوتے ہیں۔
غرض یہ کہ قرآن شریف میں بے شمار آیات موجود ہیں جن سے نبی کے قول کا حجت ہونا ثابت ہے۔ اور اصل دلیل وہی ہے کہ معجزہ نبی کی صداقت پر حجت ہے اور نبی کی صداقت قرآن و حدیث دونوں پر حجت ہے اور معجزہ حِسی طور پر معلوم ہوا کرتا ہے اس لئے معجزہ کے لئے حجت کی ضرورت نہیں ہے۔ کلام اللہ اور کلام اللہ سے جو احکام اور معنی ثابت ہوتے ہیں ان کے علاوہ جو اقوال نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے صادر ہوتے ہیں وہ قطعاً حجت ہیں، اور دلیل وہی ہے جو اُوپر گزر چکی ہے۔
لفظِ عباد پر اعتراض
پہلا اعتراض: منکرینِ حدیث نے کہا ہے کہ:
مَّن یُّطِعِ الرَّسُولَ فَقَد اَطَاعَ اللّٰہَ
(سورت النساء 4 آیت 80)
’جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے خدا کی اطاعت کی۔‘
میں جس اطاعت کا بیان ہے اس اطاعت سے رسول کی ذات مراد نہیں ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے واضح الفاظ میں کہہ دیا ہے کہ کسی نبی کو اس کا حق نہیں پہنچتا کہ وہ لوگوں سے اپنی اطاعت کرائے۔ اس لئے خود رسول اللہ سے کہہ دیا گیا کہ آپ کو لوگوں کے متنازعہ فیہ امور کے فیصلے کتاب اللہ کے مطابق کرنے ہیں:
فَاحکُم بَینَہُم بِمَاۤ اَنزَلَ اللّٰہُ
(سورت المائدۃ 5 آیت 48)
’تم ان کے درمیان کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ کرو۔‘
اور منکرینِ حدیث نے کہا ہے کہ آیت:
مَا کَانَ لِبَشَرٍ اَن یُّؤتِیَہُ اللّٰہُ الکِتٰبَ وَالحُکمَ وَالنُّبُوَّۃَ ثُمَّ یَقُولَ لِلنَّاسِ کُونُوا عِبَادًا لِّی مِن دُونِ اللّٰہِ وَلٰکِن کُونُوا رَبّٰنِیّٖنَ
(سورت آل عمران آیت 79)
کے یہ معنی ہیں کہ ’کسی انسان کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ اللہ اسے کتاب اور حکومت اور نبوت دے اور وہ لوگوں سے یہ کہے کہ تم اللہ کو چھوڑ کر میری محکومی اختیار کرو۔ اسے یہی کہنا چاہیئے کہ تم ربانی بن جاؤ۔‘
جواب: میں کہتا ہوں کہ یہ معنی غلط ہیں، کیوں کہ آیت میں لفظ ہے ’کُونُوا عِبَادًا لِّی‘ کا یعنی نبی کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ لوگوں سے کہے کہ تم اللہ کو چھوڑ کر میرے بندے بن جاؤ‘ کُونُوا عِبَادًا لِّی کے معنی کسی لغت میں یہ نہیں ہیں کہ میری محکومی اختیار کرو۔ عِبَاد کے معنی بندے اور مخلوق کے ہیں، نہ محکوم کے اور نہ مطیع کے۔ اور عِبَاد کا لفظ مومن، کافر، جاندار، بے جان سب کو شامل ہے۔
اِنَّ الَّذِینَ تَدعُونَ مِن دُونِ اللّٰہِ عِبَادٌ اَمثَالُکُم
(سورت الاعراف 7 آیت 194)
’بیشک اللہ کو چھوڑ کر تم جن کو پکارتے ہو وہ تمہارے ہی جیسے بندے ہیں۔‘
اور فرمایا:
یٰعِبَادِیَ الَّذِینَ اَسرَفُوا عَلٰۤی اَنفُسِہِم
(سورت الزمر 39 آیت 53)
’اے میرے وہ بندو! جنہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا ہے۔
فَوَجَدَا عَبدًا مِّن عِبَادِنَا
(سورت الکہف 18 آیت 65)
’ان دونوں نے ہمارے بندوں میں سے ایک بندے کو پا لیا۔‘
غرض یہ کہ عَبدًا اور عِبَاد کا لفظ جہاں بھی قرآن میں آیا ہے مخلوق کے معنی میں ہے اور بندے کے معنی میں ہیں نہ محکوم کے معنی میں۔
آیت:
ثُمَّ یَقُولَ لِلنَّاسِ کُونُوا عِبَادًا لِّی
(سورت آل عمران 3 آیت 79)
کے معنی یہ ہیں کہ ’پھر وہ لوگوں سے کہے کہ اللہ کو چھوڑ کر میرے بندے بن جاؤ۔ ” یعنی یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں خالق ہوں تم میری مخلوق ہو جاؤ، میں معبود ہو تم میرے عباد ہو جاؤ۔ یہ ترجمہ نہیں ہے کہ پھر وہ کہے کہ تم میرے محکوم بن جاؤ یا میری محکومی اختیار کرو۔ مطلب یہ ہے کہ بَد کو بھی بندہ کہا، نیک کو بھی بندہ کہا بندے ہونے میں تمام مخلوقات برابر ہے اور محکوم ہونا اور مطیع ہونا ذوی العقول کے ساتھ خاص ہیں۔ یعنی: مَاۤ اَنزَلَ اللّٰہُ (سورت المائدۃ 49) کے ساتھ حکم کرنا ذی عقل ہی کے ساتھ خاص ہے اور ’عَبد‘ ذی عقل اور بے عقل دونوں میں مشترک ہے۔ اب اگر کُونُوا عِبَادًا لِّی کے معنی کُونُوا مَحکُومِینَ ہوں گے تو تمام جمادات اور نباتات سب کے سب مَاۤ اَنزَلَ اللّٰہ کے مخاطب ہوں گے، حالانکہ ان کو مَاۤ اَنزَلَ اللّٰہ کے ساتھ خطاب نہیں کیا گیا، ان کو وہ احکام نہیں بتائے گئے جو انسانوں کو بتائے ہیں۔ اس سے صاف ظاہر ہو گیا کہ ’عِباد‘ کے معنی بندے اور مخلوق ہے، نہ کہ محکومین کے اور مطیعین کے۔
اب ہم یہ پوچھتے ہیں کہ تم بتاؤ تو سہی کہ آیت جس شخص نے سُنائی، تم نے اس آیت کو مانا یا نہیں مانا؟ اگر نہیں مانا، تو کافر ہو گئے۔ اور مانا، تو بغیر مَاۤ اَنزَلَ اللّٰہ اور بغیر کتاب اللہ کے حکم کے مانا، تو قطعاً محمد صلی اللہ علیہ و سلم مستقبل مطاع ہو گئے۔ کتاب اللہ میں کہاں ہے کہ صلی اللہ علیہ و سلم کے کہنے سے آیت کو مانو؟ اگر کوئی ایسی آیت پیش کرو گے کہ جس میں یہ مضمون ہو گا کہ صلی اللہ علیہ و سلم کے کہنے سے اس آیت کو مانو، تو اس آیت کو کس کے کہنے سے مانا؟ مطلب یہ ہے کہ تم کہتے ہو کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی اطاعت کے معنی کتاب اللہ کی اطاعت کے ہیں، کیونکہ رسول کی اطاعت اللہ کی اطاعت ہے اور اللہ کی اطاعت کتاب اللہ کی اطاعت ہے۔ تو رسول کی اطاعت در حقیقت کتاب اللہ کی اطاعت ہے لیکن یہ اطاعت رسول کی ذات کی اطاعت نہیں ہے۔ تو ہم کہتے ہیں کہ جب رسول کی اطاعت کتاب اللہ کی اطاعت ٹھہری، تو بتاؤ کہ کتاب اللہ کی اطاعت کس کی اطاعت ہے، اللہ کی اطاعت ہے یا رسول اللہ کی اطاعت ہے؟ اگر کہو کہ کتاب اللہ کی اطاعت اللہ کی اطاعت ہے، تو تم ابھی کہہ چکے ہو کہ اللہ کی اطاعت کتاب اللہ کی اطاعت ہے، تو یہ بالکل اُلٹ پلٹ ہو گیا۔ اور نیز تم کہتے ہو کہ کتاب کی اطاعت بذریعہ رسول ہے تو رسول کی اطاعت کتاب کی اطاعت سے مقدم ہو گئی، اور جب رسول کی اطاعت کتاب سے مقدم ہو گئی تو یہ رسول کی ذات کی اطاعت ہوئی نہ کہ کتاب کی۔
حاصل یہ کہ تم کہتے ہو کہ رسول کی ذات کی اطاعت نہیں ہے بلکہ اللہ کی یعنی کتاب اللہ کی اطاعت ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ کتاب اللہ کو کتاب اللہ ماننے میں کس کی اطاعت ہے، کتاب اللہ کی اطاعت ہے یا رسول اللہ کی؟ اگر کہو کہ اللہ کی اطاعت ہے، یعنی اللہ کے کہنے سے کتاب اللہ کو کتاب اللہ ما نا ہے تو یہ بالکل جنون ہے۔ اگر کہو کہ کتاب اللہ کو کتاب اللہ سے مانا ہے، تو یہ حماقت ہے۔ اگر کہو کہ کتاب اللہ کو رسول اللہ کہنے سے مانا ہے، تو یہ حق ہے۔ اور اب رسول اللہ کی اطاعت کتاب اللہ سے مقدم ہو گئی اور یہی رسول اللہ کی ذات کی اطاعت کے معنی ہیں، لہذا رسول اللہ کی اطاعت مستقل ہو گئی۔ بالکل اسی طرح جس طرح کتاب اللہ کی اطاعت مستقل ہے، بلکہ کتاب اللہ کی اطاعت رسول اللہ کی اطاعت کی فرع ہے اور رسول اللہ کی اطاعت کتاب اللہ پر مستقل حجت ہو گئی۔ غور کیجئے۔
لفظِ حکم کے معنی میں بحث
اس آیت کے ترجمے میں منکرِ حدیث نے حکم کے معنی حکومت کے کیے ہیں، یہ غلط ہے۔ باتفاق مفسرین ’حکم‘ کے معنی فہم کے ہیں۔ اور نیز حضرت یحییٰ کی بابت اللہ نے فرمایا:
وَّاٰتَینٰہُ الحُکمَ صَبِیًّا
(سورت مریم 19 آیت 12)
’ہم نے بچپن ہی میں اس کو یعنی یحییٰ علیہ السلام کو فہم عطا کیا تھا۔‘
اگر حکم کے معنی ’حکومت‘ کے ہوتے، تو آیت کے معنی یہ ہوتے کہ ہم نے بچپن ہی میں یحییٰ علیہ السلام کو حکومت دی تھی، حالانکہ سب کو معلوم ہے کہ یحییٰ علیہ السلام کو حکومت نہیں ملی تھی۔
اور یہاں ایک نکتہ ہے، اس کو سمجھ لینا چاہیے اور وہ یہ ہے کہ اگر اللہ کہے کہ میری اطاعت کرو تو اس کہنے کے بعد وہ مطاع ہے، یعنی اللہ کی ذات بذاتہ مطاع ہونے کو نہیں چاہتی کیونکہ اس کی ذات ازلی ہے۔ اور تقاضائے ذات ذات سے جُدا نہیں ہوتا۔ تو اگر ذات کا تقاضا مطاع ہونا ہو تو مطاع ہونا بھی ازلی ہو جائے گا۔ اور مطاع کا تحقق مطیع کے بغیر نہیں ہو سکتا تو مطیع بھی ازلی ہو جائے گا، حالانکہ عالَم اور مطیعین سب کے سب حادث ہیں، ازلی نہیں ہیں۔ اس سے صاف ظاہر ہو گیا کہ اللہ کی عبادت اور اطاعت اس وقت ہو گی جب وہ حکم دے گا، لہذا اللہ کا معبود ہونا اور مطاع ہونا اللہ کے حکم سے ہوا ہے نہ کہ اللہ کی ذات سے۔ یہی وہ دقیقہ ہے کہ جس پر لعینِ اوّل نہیں مطلع ہوا۔ یعنی وہ لعین یہ نہیں سمجھتا کہ مسجود ہونے کی عِلت ذاتِ باری نہیں ہے بلکہ امرِ باری ہے۔ اسی طرح مطاع ہونے کی عِلت امرِ باری ہے نہ ذاتِ باری۔ جب اس نے یہ امر کیا اَطِیعُوا اللّٰہ، اللہ کی اطاعت کرو، تو محض اس امر کی بِنا پر اللہ مطاع ہو گیا۔ پھر اس نے امر کیا اَطِیعُوا الرَّسُول تو محض اس امر کی بِنا پر رسول مطاع ہو گیا۔
خلاصہ یہ کہ جو عِلت مطاع ہونے کی اللہ کے لئے ہے وہی عِلت مطاع ہونے کی نبی کے لئے ہے۔ بس جس طرح اللہ کی اطاعت اس امر کی بنا پر فرض ہے اسی طرح رسول کی اطاعت اس پر فرض ہے۔ یعنی اگر اَطِیعُوا اللّٰہ کا امر نہ ہوتا تو اللہ کی اطاعت فرض واجب نہ ہوتی، بالکل اسی طرح اَطِیعُوا الرَّسُول کا امر نہ ہوتا تو رسول کی بھی اطاعت واجب نہ ہوتی۔ خوب سمجھ لو کہ اللہ تعالیٰ فاعل بالذات نہیں ہے فاعل بالارادہ ہے، کیونکہ یہ عقیدہ کفار فلاسفہ کا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کی ذات اگر مقتضی مسجودیت ہوتی تو دائماً مسجود ہوتی، حالانکہ اوقاتِ مکروہہ میں سجدہ ممنوع اور حرام ہے۔
دوسرا اعتراض: اب اگر یہ کہا جائے کہ نبی کا مطاع ہونا اس آیت اور کتاب اور کتاب اللہ سے ثابت ہوا اور تم اُو پریہ بیان کر چکے ہو کہ نبی کتاب پر حجت ہے نہ کہ کتاب نبی پر حجت ہے۔ اور یہاں تم نے یہ بیان کیا کہ امرِ الٰہی یعنی اَطِیعُوا الرَّسُول نبی کے مطاع ہونے پر حجت ہے، تو اس کی کیا توجیہ ہے؟
جواب: تو ہم کہیں گے امرِ الٰہی حقیقت میں حجت ہے، امرِ الٰہی کبھی قول ہوتا ہے جیسے اَطِیعُوا الرَّسُول میں۔ کبھی فعل ہوتا ہے اور وہ فعلِ الٰہی معجزہ ہے جس نے نبی کو مطاع بنایا۔ محض اس امرِ فعلی اعجازی کی بناء پر نبی مطاع بنا ہے اور یہ عملِ قولی اَطِیعُوا الرَّسُول اس امرِ اعجازی کی تاکید ہے۔
خلاصہ یہ ہوا کہ معجزہ یعنی امرِ فعلی اعجازی نبی پر حجت ہوا اور نبی قرآن کے تعین پر حجت ہوا اور قرآن نے نبی کے مستقل مطاع ہونے پر مزید تاکید کر دی۔ نبی کی صداقت قرآن پر موقوف نہیں ہے بلکہ قرآن کا معین ہونا یعنی قرآن کا قرآن ہونا نبی کی صداقت پر موقوف ہے۔ اور نبی کی صداقت، نبی کا مطاع ہونا نبی کا حجت ہونا، یہ سب معجزہ پر موقوف ہے۔ جو امرِ الٰہی فعل ہے یعنی اللہ کے اس فعلی معجزہ نے یہ حکم دیا کہ یہ مدعی نبوت سچا ہے۔ بس غور کرو کہ نبی کا قول، فعل سب اس طرح حجت ہے جس طرح خدا کا فعل حجت ہے۔ جس طرح خدا کے قول کے حجت ہونے میں یہ شرط نہیں ہے کہ وہ عقل کے مطابق ہو، بالکل اسی طرح نبی کے قول کے حجت ہونے میں یہ شرط نہیں ہے کہ وہ قرآن کے مطابق ہو، اس لئے کہ نبی کا قول بھی قول اللہ ہے اور قرآن بھی قول اللہ ہے اور اللہ کے دونوں قول ہیں قرآن بھی اور حدیثِ رسول بھی۔ تو اللہ کے قول کے لیے یہ ضروری نہیں ہے کہ اس میں تنوع نہ ہو، جس طرح کہ اس کے ایک فعل کے لئے یہ ضروری نہیں ہے کہ وہ دوسرے فعل کے مطابق ہو۔ ایک طرف پہاڑ کی چوٹی فلک تک پہنچ رہی ہے، دوسری طرف کھڈ کی گہرائی تحت الثریٰ تک پہنچ رہی ہے۔ جس طرح اس کے ایک فعل کا دوسرے فعل کے مطابق ہونا ضروری نہیں ہے اسی طرح اس کے ایک قول کا یعنی حدیثِ رسول کا اس کے دوسرے قول یعنی قرآن کے مطابق ہونا ضروری نہیں ہے۔
یہاں مغالطہ ہوا ہے کہ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ نبی چونکہ بشر ہے اس لیے ضروری ہے کہ اس کا قول خدا کے قول کے مطابق ہو، حالانکہ یہ بات نہیں ہے۔ نبی کا قول در حقیقت خدا کا قول ہے، قرآن بھی وحی ہے اور نبی کا قول بھی وحی ہے جیسا کہ پہلے صفحات میں ثابت کر دیا گیا ہے: وَ مَا یَنطِقُ عَنِ الہَوٰى (سورت النجم 53 آیت 3) ’اس کا نطق اس کی خواہش سے نہیں ہے۔‘ اِن ہُوَ اِلَّا وَحیٌ یُّوحٰى (سورت النجم 53 آیت 4) ’وہ تو صرف وحی ہے جو وحی کی گئی۔‘
تیسرا اعتراض: اب اگر کوئی کہے کہ:
فَاحکُم بَینَہُم بِمَاۤ اَنزَلَ اللّٰہُ
(سورت المائدۃ 5 آیت 48)
کے کیا معنی ہیں؟ نبی سے یہ کہا جا رہا ہے کہ ’تُو کتاب اللہ کے ساتھ ان کے درمیان حکم کر۔‘
جواب: تو اس کا جواب یہ ہے کہ مَاۤ اَنزَلَ اللّٰہ کے معنی صرف کتاب اللہ کے نہیں ہیں بلکہ مَاۤ اَنزَلَ اللّٰہ کتاب اللہ بھی ہے اور حدیث رسول اللہ بھی ہے۔ غور کرو کہ صبح کے دو فرض اور ظہر کے چار فرض اور عصر کے چار فرض اور مغرب کے تین فرض اور عشاء کے چار فرض یہ سب نبی نے بتائے ہیں اور کتاب اللہ میں کہیں یہ تفصیل نہیں ہے اور نہ یہ تعداد ہے۔ تو اب یا تو یہ کہو کہ یہ پانچوں نمازیں اور ان کے اوقاتِ تعداد کا حکم نہیں ہے، کیونکہ کتاب اللہ میں نہیں ہیں، تو اس صورت میں صرف کفر ہی نہیں بلکہ جنون بھی شامل ہے۔ اور اگر یہ کہوں کہ یہ قطعی حکمِ الٰہی ہے تو ضرور بضرور قرآن کے علاوہ یہ حکم نبی پر نازل ہوا اور نبی نے مَاۤ اَنزَلَ اللّٰہ کے ساتھ حکم کر دیا ہے۔
چوتھا اعتراض: منکرِ حدیث نے رسالہ ’اطاعت رسول‘ میں کہا ہے:
اَمَرَ اَلَّا تَعبُدُوۤا اِلَّاۤ اِیَّاہُ
(سورت یوسف 12 آیت 40)
کے معنی یہ ہیں کہ اس نے حکم دیا ہے کہ تم اس کے سوا کسی اور کی محکومیت اختیار نہ کرو۔ اور کہا ہے کہ قرآن کی رُو سے خدا کی محکومیت اور خدا کی عبادت سے مراد ایک ہی ہے یعنی قوانین خداوندی کی اطاعت؟
جواب: میں کہتا ہوں کہ اس کا حاصل یہ ہے کہ عبادت کے معنی اطاعت کے ہیں اور اس کے نزدیک ’لَّا تَعبُدُوا‘ کے معنی لَا تُطِیعُوا کے ہیں، یعنی عبادت اور اطاعت ایک ہی چیز ہے۔ میں کہتا ہوں کہ عبادت کا اطاعت ہونا بالکل غلط ہے عبادت بتوں کی ہوتی ہے، جنوں کی ہوتی ہے: یَعبُدُونَ الجِنَّ (سباء 42) یعنی ’جنوں کی عبادت کرتے ہیں۔‘ اور ملائکہ کی عبادت ہوتی ہے، مسیح علیہ السلام کی عبادت ہوتی ہے، سورج کی عبادت ہوتی ہے غرض یہ کہ متعدد عبادتیں ہوتی ہیں، لیکن یہ اطاعتیں نہیں ہوتیں۔ یعنی بتوں کا کوئی مطیع نہیں ہوتا اسی طرح ملائیکہ و عیسیٰ علیہ السلام وغیرہ کا کوئی مطیع نہیں ہے لیکن عابد ہے، تو معلوم ہو گیا کہ مطیع اور چیز ہے اور عابد اور چیز ہے۔ اور نیز رسول کی اطاعت اللہ کی اطاعت ہے لیکن رسول کی عبادت اللہ کی عبادت نہیں ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہو گیا کہ اطاعت علیحدہ چیز ہے اور عبادت علیحدہ چیز ہے۔ یہ ایک زبردست مغالطہ ہے جس میں لوگ پھنس گئے ہیں۔
٭٭٭