"سر ہمارا اندازہ صحیح ثابت ہوا ہے مغلز پروڈکٹس کہ سارے کارناموں کا ایک ایک ثبوت کپٹن مایا شیخ کے پاس ماجود ہے”
گاڑی اپنی نارمل سپیڈ کے ساتھ کراچی کی مصروف شاہراہ پر اپنی منزل کی طرف گامزن تھی اگلی سیٹ پر ڈرائیور اور منیجر جبکہ پیچھے بازل شاہ اپنے موبائل کے ساتھ مصروف بیٹھا وقتاً فوقتاً باہر دوڑتی ہوئی عمارتوں کو ایک نظر دیکھ لیتا اُسکے حکم کے مطابق عبداللہ اُسے آج کی کاروائی اور اُنکے حاصل کیے ہوئے ہدف کا قصیدہ سنا رہا
"اُس لڑکی کا پتہ معلوم کرو آج ایک ڈیل کرتے ہیں”
مختصر سا جواب دے کر دوبارہ موبائل میں آئی فائلز کو دیکھنے لگ گیا چہرہ پر تاثرات ابھی بھی سپاٹ تھے
"سر وہ لڑکی تھوڑی دماغ کی خراب ہے ۔۔۔۔۔۔ڈیل نہیں کرے گی”
اپنی طرف سے ایک مخلص مشورہ سے نواز کر ایک تخسیں وصول کرنے والی نظر اُسکی طرف ڈالی جس کے چہرے پر اب سخت تاثرات تھے لیکن زبان سے کچھ نہیں کہا
"اوکے سر بس ہم جارہے ہیں”
جلدی سے جواب دے کر اگلی طرف منہ کرکے بیٹھ گیا کبھی بھول جاتا تھا کہ بازل اپنی بات میں کسی کی ٹانگ برداشت نہیں کرتا
°°°°°°°°°°
"یہ کیا بات ہوئی طالش جب کام مکمل نہیں ہوا تھا تو کیوں آگیا تم کوئی تمہاری عام شادی نہیں ہوئی جو بیوی کی یاد ستانے لگی تمھیں اور دو دن گزارا نہیں ہوا ۔۔۔۔تم سے چار سال بڑی ہے اور مجھے نہیں لگتا کے عمروں کے فرق اتنی جلدی ختم ہوجاتے ہے”
ناشتے کے ٹیبل پر سب ماجود تھے اور رخسار کا بس نہیں چل رہا تھا وقت کا پہیہ واپس موڑ دیتیں اور عندلیب کے پاس پہنچنے سے پہلے ہی طالش کو کہیں غائب کردیتی
مرون رنگ کی لونگ فراک کے ساتھ ہلکے گلابی رنگ کا دوپٹہ جو سر پر لے رکھا تھا اور مرون رنگ کی مہمل کی گرم چادر جو کندھوں پر ڈال رکھی چہرے پے آتیں بالوں کی بھیگی ہوئیں لٹیں ،آنکھیوں میں چمک اور اُسکے بیٹھنے کا انداز جو بلکل طالش میں گھس کر بیٹھی تھی جیسے خود کو رخسار سے محفوظ کرنے کی ادنیٰ سی کوشش
اُسے دیکھ کر جو آگ رخسار کے تن بطن میں لگی تھی وہ نظروں سی ہی اسکو بسہم کرنے کا ارادہ رکھتی تھی
"امی بس ایک کام تھا اسلئے آیا تھا آج چلا جاؤں گا”
عام سے انداز میں بات کہہ کر چھوٹا سا نوالہ بنا کر دیب کے منہ کی طرف کیا جو پہلے ہی اُسکی جانے کی بات پر بے یقینی سے دیکھ رہی تھی یہ عمل خاص کر رخسار کو دیکھانے کے لیے کیا تھا
منہ کھول کر نظریں جُھکا لی منہ میں نوالے رکھتے ہی اُسکے طلسمی اُنگلیاں عندلیب کے نازک سے ہونٹوں سے ٹکرائیں تو دونوں طرف دھڑکنیں منتشر ہوئی
دمل تو اپنا منہ پلیٹ میں دیے اپنی طرف سے فل اگنور کر رہا تھا جبکہ دھیان سارا کا اُسی طرف تھا
"کوئی شرم باقی ہے تم میں تالش جوان بھائی کے سامنے یہ حرکتیں کرتے ہوئے ۔۔۔اپنے کمرے میں جو مرضی کرو یہاں بے حیائی مت پھیلاؤ ”
رخسار کا ضبط جواب دیا تو اپنی جگہ سے اُچھل کر کھڑی ہوئی دمل کی تو مسکراہٹ چھپنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی
"ویسے امی آپی ملیحہ جب آتیں تو ہم دونوں اُسکے نہ محرم ہیں پھر بھی باقاعدہ گلے ملتی ہے اسکی شرم و حیا پر تھوڑی سی روشنی ڈال دیں تاکہ ہم مفید ہوسکیں”
دامل نے اپنے دل کی بات کو لفظوں کی رنائت سے نوازہ تو رخسار نے ایک زبرست گھوری سے نوازہ اور پیر پٹخ کر چلی گئیں تو تالش نے داد دینے والی نظر دمل پر ڈالی جو پہلے ہی اپنے کالر جھڑک کر کھڑا ہوا اور ہولے سے نکل گیا
پیچھے ایک فلک شفاک قہقہہ فضا میں گھونجا
°°°°°°°°°°°°°°°°
کراچی کی شاہراہوں پر معمول کے مطابق ٹریفک تھی ڈھلتا سورج اپنے ساتھ تمام روشنیاں سمیٹے غروب ہونے کو تھا پرندوں کی چہچہاہٹ سُورج کے ساتھ معدوم ہورہی تھی
جب کراچی کے ایک مشہور سوسائٹی کے فلیٹ میں کمپیوٹر کے آگے بیٹھی مایا اتنی سردی میں بھی ماتھے اور آنے والے ننھے ننھے سے پسینے کے قطروں کو صاف کر رہی تھی اور وقت کے ساتھ اُسکی دھڑکنے تھمنے کو تھیں اُسکے بلکل پیچھے کھڑی نوین دل ہی دل میں اُسکی کامیابی کی دعا مانگ رہی تھی کمپیوٹر کی سکرین پر بنی لال پٹی پر90 فیصد تھیں جو کافی دیر سے وہیں اٹکی ہوئی تھی
یکدم وہاں
"your data recove successfully”
اُبرا تو دونوں خوشی سے اُچھل پڑیں
"مجھے یقین تھا میرا اللہ میری محنت ضائع نہیں کرے گا”
پُر عزم سی بولی آواز روندی ہوئی تھی اور سانسیں پھول رہیں تھیں
ابھی اسی خوشی میں تھیں جب دیوار پر لگے وائس سیکیورٹی الارم میں خطرے کی گنٹھی بجی
یہ فلیٹ اکثر فورس اپنے استعمال میں لاتی تھی اور سیکیورٹی کے فول پروف انتظامات تھے اگر اُسکی میموری میں ڈالی گیں تصویروں کے علاوہ وہاں پر آنے کی کوشش کرتے تو تین فلیٹ دور ہی الارم بجنا شروع ہوجاتا تھا
"کون ہے نوین دیکھو تو”
نوین نے حکم مناتے ہی گلاس کے دروازہ سے پردہ ہٹاے تو نظریں پھرنے سے انکاری ہوگئی
سامنے شانِ بے نیازی سے چلتا شخص دیکھ کر آنکھیں ساخت ہوگئیں
ہلکے براؤن رنگ کا تری پیس سوٹ آنکھوں پر گوگلز بال ماتھے پر بکھرے ہوئے چال منفرد سی تھی البتہ گردن ضرور اکڑا رکھی تھی جیسے سریا گاڑ رکھا ہو ایک ہاتھ پینٹ کی جیب میں جبکہ دوسرے میں موبائل پکڑ رکھا تھا ساتھ کوئی منیجر یہ گارڈ نہیں تھا ہاں اُسکے چلنے کے انداز سے پتہ چل رہا تھا کے وہ خود پر کسی کی نظروں کی تبش محسوس کر رہا ہے
"نوین کون ہے”
پیچھے جنجلائی ہوئی آواز آئی تو نوین ہوش کی دُنیا میں واپس آئی
"وہی شہزادِ حُسن ۔۔۔۔۔ہزاروں دلوں کی دھڑکن ”
ٹرانس کی حالت میں بول رہی تھی جبکہ نظریں ابھی بھی جمی ہوئیں تھیں
"یہ بتا دو ہولی وڈ سے یہ والی وڈ سے”
"اُنہو۔۔۔۔۔۔بازل شاہ لولی وڈ سے”
اُسکی بات سن کر جھٹکے سے کھڑی ہوئی آنکھوں میں بے یقینی چہرے پر حیرت کا پہرہ تھا
نوین نے اُسکی اجازت کے بغیر ہی دروازہ کھول دیا جبکہ بازل نے ایک نظر سامنے حیرت کا مجسمہ بنی مایا پر ڈالی اور خود ہی جاکر ٹھری سیٹر صوفے پر برجمان ہوگیا
"فرمائیں آج کیا میرا فلیٹ خرید کر آئیں ہیں جو ڈھیٹوں کی طرح منہ اُٹھا کر بغیر پوچھے صوفے پر بیٹھ گئے”
طنے تیشتر کے تیر بگو بگو کر مارے لیکن اگلے بندہ کے چہرے کی مسکراہٹ گہری ہوئی
"ضرور خریدتا مگر یہ حکومت کی ملکیت ہے اور جو حکومت کی وہ آپکی اور میری مشترکہ ”
گہری نظروں سے دیکھتے ہوئے گویا
نوین ابھی تک صدمے کی حالت میں کھڑی بنے پلک جھپکے اُسے دیکھ رہی تھی جبکہ مایا اُسے سے اجتناب برت رہی تھی
"آنے کی وجہ بتائیں ورنہ دروازہ وہ رہا”
وہاں سے چلتی دروازہ تک آئی اور اسکو کھول دیا جانے کا اشارہ جس پر وہ مبھم سا مسکرایا یوں لگ رہا تھا جیسے تتلیاں اُسکے مسکرانے پر رقص کر رہیں ہوں چاند اُسکی مسکراہٹ پر بادلوں میں چُپ گیا ہو
"ڈیل کرنے آیا ہوں ڈیٹا آپکا استعمال ہوگا کام میرے ادمی کریں گے”
بنا کسی لگی لپٹی کے سیدھا مدھے پر آیا تو مایا کو جھٹکا لگا جس بات کا ابھی اُسے خود کنفرم نہیں تھا وہ انسان اُس کا سودا کرنے آگیا تھا سب سے بڑی بات اتنے سکیور سسٹم سے اُس سے پہلے کون ہیگ کر سکتا تھا
"مجھے کوئی ڈیل نہیں کرنی”
حیرت سے گنگ انداز میں بولی حالانکہ پوری کوشش کر رہی تھی اپنے تاثرات کو چھپا سکے لیکن ناممکن
"آج سے چھ پہلے کوئی تھا ۔۔۔۔۔۔جس کی جان آج بھی تمھیں خود سے زیادہ پیاری ہے اور دوسرا محد جس کو مجھے نہیں لگتا تم کھونا چاہو گی "انداز بہت ہی دوستانہ جیسے اُس سے زیادہ شیریں مزاج کوئی اور پیدا ہی نہیں ہوا تھا
جو بات آج تک خود سے بھی چھپا کر رکھی تھی وہ اُسے بھی جانتا تھا دل کر رہا تھا ہاتھ میں گن ہو اُس خبیث انسان کو وہیں مار دے
"تمہاری نوکری مجھے نہیں لگتا بغیر کسی گناہ سے کسی کو مارنے کی اجازت دیتی ہے اسلئے تمہارے پاس بس پانچ منٹ ہیں سوچ لو”
ٹانگ گھٹنے سے اٹھا کر نیچے کی اور دوبارہ اُسکی طرف دیکھا جو مضبوط تاثرات دینے کی ناکام کوشش کر رہی تھی
"تمہاری بھی تو ایک بیٹی ہے اُسکے بارے میں کیا خیال ہے ”
پُر سکون حالت میں ذرا آگے ہوکر بولی
دوسری طرف آنکھوں میں تھوڑی سی سُرخی در آئی چہرے کے تاثرات تن گے اور میتھیں بھینچ لیں
"بات وہ کرو جس کے بعد تمھیں پچھتاوا نہیں ہو ”
اب اپنی جگہ سے کھڑا ہوالفظوں کو چبا چبا کر ادا کیا آنکھوں میں ابھی بھی لال ڈورے واضح تھے
"یہی مشورہ تمہارے لیے ہے”
اب مسکرانے کی باری مایا کی تھی
بازل کو اپنے اندازہ پر افسوس ہوا اُس کی سوچ سے زیادہ ٹیری لڑکی تھی
"مجھے آپکی ڈیل منظور نہیں جس لگا کے تمہارے جیسے کمزور کندھے کی ضرورت پیش آئے گی اُسی دن یہ وردی سرکار کو واپس کر دوں گی”
سامنے ہنگ کی ہوئی وردی کی طرف اشارہ کیا تو رُخ موڑ کر کھڑا ہوگیا
"بازل شاہ کبھی ضرور یاد آئے گا تمھیں یہ نام یہ اُس وقت کے لیے”
اپنا کارڈ صوفے پر پھینک کر چلا گیا پیچھے خاموشی کی طوفان سے پہلے والی شاید
°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°
"مہر میری طرف تو دیکھو ”
دونوں جنوری کی شدید سردی میں دروازہ سے تھوڑا دور بیٹھے تھے دمل نے اپنی جیکٹ اُتار کر اُس پر ڈال رکھی تھی لیکن پھر بھی وہ کمزور جان سردی کی وجہ سے کانپ رہی تھی اور ایک قدم کے فاصلے سے دمل سے دور بیٹھی تھی چاندی رات میں دونوں کے عکس دیوار پر پڑھ رہے تھے دور سے گیدڑوں کی آوازیں پُر سور ماحول میں داشت پھیلا رہی تھی
"دامل اب میں جاؤں”
ہمت جمع کرکے کہا اور نظریں اُٹھا کر اُسکی طرف دیکھا چہرے چاند کی چاندنی میں دھک رہا تھا چادر میں سے بس اُسکی آنکھیں اور تھوڑے سے گال نظر آرہے تھے
"یہ تمہارے ہاتھ پر کیا ہوا ہے”
چادر ٹھیک کرتی مہر کا ہاتھ دامل کی نظروں سے نہ بچ سکا
"دامل کچھ بھی تو نہیں”
جلدی سے ہاتھ چادر کے نیچے کرنے لگی تو دامل نے پھرتی سے اُسکا ہاتھ پکڑ لیا جس پر کافی گہرا زخم تھا
"آنٹی نے مارا ہے ۔۔۔۔۔۔۔وجہ نہیں پوچھوں گا بس بہت جلد جہاں سے لے جاؤں گا”
عجیب سی بے چینی اُسکے انداز میں تھی اُسے پتہ تھا اگر مہر سے پوچھے گا وہ کوئی اپنی ہی غلطی بتا کر بات پر پردہ ڈال دیتی
جس دن دمل کا رشتا آیا تھا وہ روز بہانے بہانے سے مہر کو اذیت دیتی تھیں کہاں برداشت ہورہا تھا اُسے کے وہ ایک یقیم لڑکی اور ساتھ میں اتنی بد صورت کو اتنا اچھا لڑکا مل رہا تھا اتنا امیر اتنا تو کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا تھا
بس اپنی بھڑاس کسی نہ کسی طرح اُس معصوم کو دُکھ دے کر سکون حاصل کر لیتی تھی
مہر جلدی سے کھڑی ہوئی تو دامل نے اُسکا ہاتھ اپنے لبوں کو لگایا تو مہر چھینپ کر اندر کی طرف بھاگ گی جبکہ دامل اُسکی معصوم سی حرکت پر مسکرا بھی نہ سکا پتہ تھا وہ لڑکی ہے تکلیف ہنس کر سہہ جانے والوں میں سے اور زبان پر کبھی کسی کے خلاف ایک لفظ نہیں لائے گئی
°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°
جب قانون موجود نہ ہو۔۔۔۔ ایک حیرت انگیز سچا واقعہ
یہ 1 نومبر 1955 کی بات ہے کہ جان گلبرٹ گراہم نامی ایک امریکی شہری کہ جس کا اس کی...