“تم یہاں آگئے وہ بھی اکیلے،، تمہیں معلوم نہیں ہے تمہارا یہاں پر آنا خطرے سے خالی نہیں ہے”
رات کے وقت کھانے کی میز پر جب کبریٰ خاتون، سردار اسماعیل خان، زرین اور ژالے موجود تھی۔۔۔ تب حویلی میں تیمور خان داخل ہوا اُس کو دیکھ کر سب لوگ حیرت ذدہ تھے تب سردار اسماعیل خان تیمور خان سے بولا
“تو پھر کیا کرو، کب تک چھپا بیٹھا رہو۔۔۔ اور آپ لوگوں نے کیا کیا ہے روشانے کو اُن بےغیرتوں کے حوالے کردیا”
تیمور خان کو جب سے ضیغم اور روشانے کے نکاح کی خبر ہوئی تھی وہ تب سے جلتے ہوئے انگاروں پر لوٹ رہا تھا۔۔ ابھی بھی وہ غُصے میں ان سب کو دیکھ کر چیخ کر بولا
“روشانے کو اگر اُن لوگوں کے حوالے نہیں کرتے تو پھر فیروز جتوئی اپنے بھائی کے خون کا بدلہ تمہارے باپ کے خون سے لیتا،، گوارا کرلیتے تم۔ ۔۔۔ خون کا پیاسا ہو رہا ہے اِس وقت فیروز جتوئی”
کبریٰ خاتون کرسی سے اٹھ کر تیمور خان کے پاس آتی ہوئی روعب دار آواز میں بولیں
“پیاسے تو وہ لوگ اب بھی ہو رہی ہے میرے خون کے۔۔۔ اِسی وجہ سے تو چھپا بیٹھا تھا مگر آپ لوگوں نے بہت غلط کیا ہے روشانے کو اُن کے حوالے کرکے میں چھوڑوں گا نہیں اب کسی کو بھی”
تیمور خان مزید غُصے میں بولا
“تم ایک قتل کر چکے ہو تیمور، اگر اب تم نے کوئی دوسرا گناہ کیا تو میں تمہیں نہیں چھوڑوں گا،، روشانے کے نصیب میں تم نہیں شمشیر جتوئی کا پوتا لکھا تھا، اس بات کو قبول کرو اور اپنی طبیعت میں سدھار لاؤ”
سردار اسماعیل خان تیمور خان کے غصے کو نظر انداز کرتا ہوا اسے وارن کرنے لگا
مگر سردار اسماعیل خان کی بات سے تو جیسے تیمور خان کو کوئی فرق نہیں پڑا وہ بناء سردار اسماعیل خان کی بات کا اثر لیے اپنے کمرے میں چلا گیا۔۔۔۔ زرین افسوس سے سردار اسماعیل خان کو دیکھنے لگی
****
“میں اس وقت تمہاری شکل نہیں دیکھنا چاہتا،، نہ ہی کوئی بات سننا چاہتا ہو۔۔۔ واپس چلی جاؤ میرے کمرے سے”
رات کے وقت جب سب لوگ اپنے اپنے کمرے میں چلے گئے تب ژالے تیمور خان کے کمرے میں آئی۔۔۔۔ تیمور خان جو کہ صوفے پر بیٹھا ہوا شراب سے بھرا ہوا گلاس ایک کے بعد ایک اپنے اندر انڈیل رہا تھا ژالے کو دیکھتا ہوا اُس پر چیخا
“چلی جاؤ گی خان مگر ایک ہارے ہوئے انسان کی شکل دیکھ کر، اُسے اُس کی اوقات یاد دلا کر۔ ۔۔۔ سمجھتے کیا ہو تم خود کو،، جو دولت اور طاقت کے نشے میں مغرور ہو چلے ہو،، خوفِ خدا شاید تمہارے اندر بچا ہی نہیں۔۔۔ ایک مظلوم اور بے قصور انسان کو قتل کرتے ہوئے تمہارے ہاتھ ذرا بھی نہیں کانپے، روشانے کے ساتھ جانوروں جیسا سلوک کرکے تمہارا دل زرا نہیں لرزا، تم روشانے سے پیار کا دعویٰ کرتے ہو ناں خان۔۔۔ سچ تو یہ ہے تمہیں اُس سے پیار بالکل نہیں تھا تم بس اُسے ساری زندگی اپنا غلام بنا ہوا دیکھنا چاہتے تھے۔۔۔ بہت اچھا وہ تمہاری غلامی سے آزاد ہو گئی۔۔۔ بہت اچھا ہوا جو اُس کا نکاح ضیغم جتوئی کے ساتھ ہوگیا۔۔۔ کیونکہ روشانے جیسی معصوم لڑکی تم ڈیزرو ہی نہیں کرتے تھے۔۔۔ اِس وقت ایک تھکے ہوئے اور ہارے ہوئے انسان کی طرح اپنے کمرے میں بیٹھ کر تم اپنی ہار کا سوگ منا رہے ہو،، آج مجھے تمہاری اس حالت پر ذرا ترس نہیں آرہا بلکہ پر افسوس ہو رہا ہے کہ میں نے”
ژالے ابھی مزید تیمور خان کو کچھ کہتی،، مگر تیمور خان کا صبر کا پیمانہ لبریز ہوا وہ گلاس کو دور پھینک کر صوفے سے اٹھتا ہوا ژالے کے پاس آیا
“بہت کرلی تم نے میرے سامنے بک بک، اور بہت برداشت کرلیا میں نے تمہیں۔۔۔ تم مجھے یہاں میرے کمرے میں میری اوقات یاد کروانے آئی ہو، اب میں تمہیں بتاتا ہو اپنی اوقات اور یہ بھی کہ تم کیا ڈیزرو کرتی ہو”
تیمور خان نے بولنے کے ساتھ ژالے کے اوپر سے دوپٹہ کھینچ کر دور فرش پر پھینکا۔۔۔ اِسی طریقے سے ژالے کی بولتی بند ہوسکتی تھی روشانے کو بھی وہ اِسی طرح ڈراتا تھا
“خان”
ژالے سے تیمور خان کی حرکت پر حیرت اور صدمے سے کچھ بولا نہیں گیا۔۔۔ فرش پر اپنے گرے ہوئے دوپٹے کو دیکھنے کے بعد وہ بے یقینی سے تیمور خان کو دیکھنے لگی۔۔۔ کیا وہ اسکی نظر میں اتنی کمتر تھی کہ محبت کے بدلے اس سے یہ زلّت برداشت کرتی کہ وہ اس کا ڈوپٹہ اتار ڈالے
“چلی جاو میرے کمرے سے اِس سے پہلے کہ میرے اندر کا وحشی جانور تمہیں بری طرح نوچ ڈالے”
تیمور خان تحقیر سے ژالے کو دیکھتا ہوا بولا بےاختیار ژالے کی آنکھوں میں نمی اتری۔۔۔ ایک دم ژالے کا ہاتھ اٹھا جو تیمور خان کے گال پر انگلیوں کا نشان چھوڑ گیا۔۔۔ وہ واقعی ایک جانور تھا جس سے وہ دل لگا بیٹھی تھی وہ اس کا تپھڑ ہی ڈیزرو کرتا تھا محبت نہیں
“تم میری محبت کے لائق نہیں ہو خان”
ژالے سے تپھڑ کھا کر وہ قہر آلود آنکھوں سے ژالے کو دیکھنے لگا۔۔۔ ژالے اپنی آنکھوں سے نمی صاف کرتی ہوئی تیمور خان کو دیکھ کر بولی اور فرش پر گرا ہوا ڈوپٹہ اٹھانے لگی
“خان تمہاری محبت کے لائق نہیں ہے۔۔۔ آج یہ خان خود تمہیں کسی دوسرے کے لائق نہیں چھوڑے گا”
اس سے پہلے کہ ژالے تیمور خان کے کمرے سے باہر نکلتی۔۔۔ تیمور خان تیزی سے اُس کی طرف بڑھتا ہوا آیا ژالے کے بالوں کو مٹھی میں جکڑ کر بیڈ پر دھکا دیتے ہوئے بولا
“خان نہیں، پیچھے ہٹو جانے دو مجھے”
ژالے نے بولتے ہوئے بیڈ سے اٹھنے کی کوشش کی مگر اس سے پہلے ہی تیمور خان ژالے پر جُھکتا ہوا اس کو اپنی گرفت میں لے چکا تھا۔۔۔ وہ روشانے نہیں تھی جو ڈر سہم جاتی مگر آج تیمور خان بھی اُس کا غرور توڑ دے گا۔۔۔ تیمور خان کے دماغ میں سوچیں آنے لگی
ژالے تیمور خان کی قید میں بری طرح پھڑپھڑا رہی تھی۔۔۔ وہ اپنا ہاتھ ژالے کے ہونٹوں پر رکھ کر اِس کی چیخوں کا گلا گھونٹ چکا تھا
جب اُس نے ژالے کی قمیض کو پھاڑا تو ژالے روتی ہوئی، اپنے بچاؤ کے لئے تیمور خان کا منہ اور بال نوچنے لگی
ژالے کے ناخنوں سے تیمور خان کے دایاں گال زخمی ہو چکا تھا۔۔۔ جس پر غُصے میں تیمور خان نے اُس کے منہ پر سے اپنا ہاتھ ہٹا کر،، اپنے دونوں ہاتھوں سے ژالے کے دونوں ہاتھ کی گرفت میں لیے اب وہ ژالے کی گردن پر جُھکتا ہوا درندگی دکھا رہا تھا
“خان نہیں”
اسکے دانت اپنی گردن میں گڑھتے ہوئے محسوس کر کے ژالے روتی ہوئی بری طرح چیخی تھی۔۔۔ مگر اب تیمور خان کے اندر کا حیوان جاگ چکا تھا، اوپر سے شراب کے نشے میں چور شیطان اس پر غالب ہوچکا تھا۔۔ اُس نے ژالے کی قمیض کو گریبان چاک کردیا۔۔۔ جس پر صدمے سے روتی ہوئی دوبارہ چیخی مگر تیمور خان کو اُس کی چیخیں سنائی نہیں دے رہی تھی وہ مزید حیوانیت پر اتر آتا
مگر جبھی کمرے کا دروازہ کُھلا جس پر تیمور خان کی نگاہ فوراً دروازے پر گئی۔۔۔
“امی”
دروازے پر زرین کو دیکھ کر وہ جلدی سے بیڈ سے اٹھا
“یا اللہ”
زرین کمرے کے اندر کا منظر دیکھ کر کانپ اٹھی،، بے ساختہ اپنے دل پر ہاتھ رکھتی ہوئی وہ دروازے سے چپک گئی
جبکہ روتی ہوئی ژالے تیمور خان کے پیچھے ہٹنے پر خود بھی بیڈ سے اٹھی اور چیخیں مار کر روتی ہوئی وہ زرین کی طرف لپکی۔۔۔ اُسکی بازووں اور گلے سے پھٹی ہوئی قمیض دیکھ کر زرین کانپتے ہوئے ہاتھوں سے اپنی چادر ژالے کے گرد لپیٹنے لگی
اب ژالے زرین کے گلے لگ کر بری طرح رو رہی تھی اور تیمور خان،، جس کا سارا نشہ زرین کو دیکھ جر اتر چکا تھا اب وہ شرمندہ سا کھڑا تھا
“امی یہ میرے کمرے میں خود آئی تھی مگر میں اِسے ڈرا رہا تھا”
تیمور خان ہمت کرتا ہوا زرین کے پاس آیا اور اُس کے سامنے بولنے لگا۔۔۔ جبھی زرین ژالے کو خود سے الگ کرتی ہوئی تیمور خان کے پاس آئی اور زور دار طماچہ اُس کے منہ پر رسید کیا
“اپنے ہی گھر پر نقب لگانے کی کوشش کی ہے تُو نے تیمور، شرم نہیں آئی تجھے اتنی گری ہوئی حرکت کرتے ہوئے اور کتنے گناہ کمائے گا تُو، بلکہ کون سا گناہ بچ گئے جو تیرے حساب میں نہیں لکھا گیا ہو شرابی، قاتل، زانی”
زرین تیمور خان کے منہ اور سینے پر زور زور سے تھپڑ مارتی ہوئی بری طرح رو رہی تھی جبکہ تیمور خان شرمندگی اور خجالت سے سرخ چہرہ لیے سر جھکائے کھڑا تھا۔۔ زرین کی چیخ و پکار سے سردار اسماعیل خان اور کبریٰ خاتون بھی اس کے کمرے میں آ گئے تھے
“یا اللہ یا میرے مالک مجھے بتادے، مجھ سے ایسا کون سا گناہ سر زد ہوا ہے جو ایسی بدکار اولاد تُو نے میرے نصیب میں لکھ دی ہے”
اب ذرین نیچے فرش پر بیٹھ کر روتی ہوئی ماتھے پر ہاتھ مار کر بول رہی تھی جبکہ تیمور خان ابھی بھی سر جھکائے مجرموں کی طرح کھڑا تھا۔۔۔ ژالے زرین کی چادر لپٹی ہوئی وہی دیوار سے چپکی سسک رہی تھی
“یہ سب کیا ہو رہا ہے۔۔۔ زرین کیا ہوا ہے تمہیں”
سردار اسماعیل خان کمرے کے اندر داخل ہوتا ہوا زرین سے پوچھنے لگا مگر وہ زرین کی چادر میں لپٹی ہوئی ژالے کو دیکھ کر ٹھٹھک گیا۔۔۔ کبریٰ خاتون بھی روتی ہوئی زرین کے بعد، کونے میں دیورا سے لگی ژالے کو دیکھ رہی تھی اور معاملہ سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی
جبکہ دھاڑے مار کر روتی روتی ہوئی زرین، زرین کی چادر میں لپٹی ہوئی ژالے۔۔۔ ژالے کا فرش پر گرا ہوا دوپٹہ، میز پر موجود شراب کی بوتل، سر جھکائے نادم کھڑا تیمور خان اور تیمور خان چہرے،، گردن پر ناخنوں کے نشانات۔۔۔ سردار اسماعیل خان کو پورا معاملہ سمجھ آ گیا
“بے غیرت، بے شرم، زلیل انسان کیا کیا ہے تُو نے اِس بچی کے ساتھ،، بول نہیں تو میں تجھے جان سے مار ڈالوں گا”
سردار اسماعیل خان غُصے میں تیمور خان کی طرف بڑھ کر اُس کو بری طرح مارتا ہوا پوچھ رہا تھا۔۔۔ تیمور خان ابھی بھی خاموش سردار اسماعیل خان سے مار کھائے جا رہا تھا
“یہ کیا کر رہے ہو اسماعیل خان۔۔۔ میں کہتی ہو چھوڑ دو تیمور کو”
کبریٰ خاتون سردار اسماعیل خان کو دیکھتی ہوئی زور سے بولیں
“آج آپ بیچ میں مت بولیں اماں حضور، یہ جو آج ہمیں دیکھنا پڑ رہا ہے۔۔۔ وہ سب کچھ آپ کی تربیت کا نتیجہ ہے”
سردار اسماعیل خان تیز آواز میں کبریٰ خاتون کو بولا۔۔۔ اور زندگی میں ایسا پہلی بار ہوا تھا جب اس نے اُس انداز میں کبریٰ خاتون سے بات کی ہو
“میں تم جیسی زلیل اور بدکردار اولاد کو اس چھت کے نیچے برداشت نہیں کر سکتا نکل جاو اس گھر سے”
سردار اسماعیل خان دوبارہ تیمور خان کی طرف مڑتا ہوا اس سے بولا
“آنٹی”
سردار اسماعیل خان ژالے کی آواز پر مڑا جو کہ بھاگتی ہوئی فرش پر بے ہوش پڑی زرین کی طرف بڑھ رہی تھی
****
صبح روشانے کی آنکھ کھلی تو اس نے اپنے قریب سے ضیغم کو سوتا ہوا پایا۔۔۔ وہ روشانے کے بے حد قریب لیٹا ہوا تھا اتنا قریب سے روشانے کہ دل کی دھڑکنیں تھمنے لگی۔۔۔۔ کل رات میں ضیغم اسے حویلی سے اپنے فلیٹ میں لے آیا تھا۔۔۔ سفر میں وقفے وقفے سے وہ روشانے سے باتیں کرتا رہا اسی دوران وہ اُسے بتا چکا تھا کہ اب وہ شمروز جتوئی کے گھر میں نہیں بلکہ اپنے فلیٹ میں شفٹ ہو چکا ہے جو ابھی پوری طرح ڈیکوریٹ نہیں، ساتھ ہی وہ روشانے سے اس کی اسٹیڈیز کے بارے میں پوچھ رہا تھا۔۔۔ روشانے نے ڈرتے ڈرتے اس سے آپ نے اسٹیڈیز کنٹینیو رکھنے کی اجازت مانگی جو ضیغم نے اسے آرام سے دے دی۔۔۔ روشانے اِس بات پر خوش تھی۔۔۔ رات میں ان دونوں کا اپنے فلیٹ میں کافی لیٹ پہنچنا ہوا۔۔۔ جب سونے کا وقت آیا روشانے بیڈروم میں آ کر بیڈ کو دیکھنے کے بعد ضیغم کو دیکھنے لگی
“تم ریلیکس ہو کر سو جاؤ مجھے تھوڑا سا آفس کا کام ہے”
ضیغم اس کے چہرے کے تاثرات دیکھ کر بولتا ہوا دوسرے کمرے میں چلا گیا
رات میں روشانے نے سونے سے پہلے کافی دیر تک ضیغم کا کمرے میں آنے کا انتیظار کیا پھر نہ جانے کب اس کی آنکھ لگ گئی، اُسے خبر ہی نہیں ہوئی کب ضیغم بیڈ روم میں آیا۔۔۔۔ اس وقت وہ پلکیں جھپکائے بنا سوئے ہوئے ضیغم کو بہت غور سے دیکھ رہی تھی۔۔۔ جیسے چند روز پہلے وہ شمروز جتوئی کے گھر میں اُس کی تصویر دیکھ رہی تھی،،
اس کے چہرے کے ایک نقش کو ازبر کرنے کے بعد روشانے اٹھ کر بیٹھنے لگی،، تبھی ضیغم نے اُس کا ہاتھ پکڑ کر اپنی طرف کھینچا روشانے ایک دم اس کے سینے سے جا ٹکرائی اور بے ساختہ اُس کے منہ سے ہلکی سی چیخ نکلی، ساتھ ہی اُس کے بالوں میں بندھا ہوا جوڑا کُھل گیا
“اچھی طرح کر لیا میرے چہرے کا معائنہ”
ضیغم کی آواز میں نیند کا خمار ابھی تک موجود تھا۔۔۔ شاید اپنے چہرے پر نظروں کی تپش سے وہ جاگ گیا تھا۔۔۔ وہ روشانے کے بال اس کے چہرے سے ہٹاتا ہوا قریب سے روشانے کا چہرہ دیکھ کر پوچھنے لگا
“نہیں تو میں کیوں کرنے لگی بھلا آپ کے چہرے کو معائنہ”
اپنی چوری پکڑے جانے کے ڈر سے وہ شرمندہ ہوتی ہوئی بولی اور ضیغم کے اوپر سے اٹھنے لگی تو ضیغم نے ایک بار پھر اسے اپنی طرف کھینچا
“اور اگر میں اِس وقت تمہارا مکمل معائنہ کرنا چاہو تو” ضیغم کی بات سن کر اس کا رنگ حیا سے لال پڑنے لگا
“آپ رات میں سونے کے لیے کمرے میں اتنی دیر سے کیوں آئے”
روشانے اب اُس کی معنٰی خیز بات کا کیا جواب دیتی،، اس لیے ضیغم کی بات کو گھما کر الٹا اُس سے سوال کرنے لگی
“اگر مجھے ذرا بھی اندازہ ہوتا تم میرا انتظار کرو گی تو کمرے سے جاتا ہی نہیں”
ضیغم اپنے دونوں ہاتھوں سے روشانے کا چہرہ تھامے اس کو بولنے لگا، روشانے ضیغم کی بات پر پلکیں جھکا گئی
روشانے کے پلکیں جھکانے پر بےساختہ ضیغم کو اس پر پیار آیا۔۔۔ وہ روشانے کے چہرے پر جُھکتا ہوا اپنے ہونٹ روشانے کے ہونٹ پر رکھ چکا تھا۔۔۔ اپنے تشنہ لبوں کو سیراب کرتے ہوئے وہ واپس بیڈ پر لیٹ کر بے خود سا روشانے کو دیکھ رہا تھا جس کا چہرہ شرم سے سرخ پر چکا تھا وہ فوراً اٹھ کر واشروم کی طرف بڑھ گئی
“نہیں یار یہی موجود ہو،، کل رات کو ہی واپسی کر لی تھی۔۔۔ میٹنگ شروع ہونے سے پہلے ہی پہنچ جاؤں گا”
روشانے جب واش روم سے باہر آئی تو ضیغم کو موبائل پر محو گفتگو پایا وہ خاموشی سے ضیغم پر نگاہ ڈالے بناء بیڈ سے اپنا دوپٹہ اٹھاتی ہوئی کمرے سے باہر نکل آئی
“کچن میں کسی بھی سامان کی کمی بیشی ہو تو لسٹ بنالینا۔۔ کل سے اپنا کالج جانا اسٹارٹ کردینا، صبح میں تمہیں کالج چھوڑ دیا کروں گا، واپسی کے لیے ڈرائیور کو بھیج دیا کروں گا۔۔۔ آفس سے واپس آتے ہوئے مجھے شام ہو جائے گی”
ڈائننگ ہال میں ناشتے کے دوران ضیغم روشانے کو دیکھتا ہوا بولا
“میں انتظار کروں گی آپ کا”
روشانے کی بات سن کر ضیغم کے چہرے پر مسکراہٹ آئی۔ ۔۔ اسے کہیں سے بھی شائبہ نہیں گزرا تھا کہ روشانے اس کے ساتھ یا پھر اِس رشتے پر خوش نہیں ہے
ضیغم آفس جانے کے لیے فلیٹ سے باہر نکلا تھا تو روشانے دروازے تک آئی۔۔۔ ضیغم اُسے الوداع کہتا ہوا روشانے کے چہرے پر جُھکنے لگا تب روشانے ایک دم پیچھے ہوئی اور جلدی جلدی آیت پڑتی ہوئی ضیغم کے چہرے اور سینے پر پھوکنے لگی تب وہ مسکرا کر اس کی پیشانی پر ہونٹ رکھتا ہوا فلیٹ سے باہر نکل گیا
****
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...