(Last Updated On: )
عباس رضوی(کراچی)
حال یوں کرتے ہیں اشکوں میں بیاں شہر کے لوگ
جیسے رکھتے ہی نہیں منہ میں زباں شہر کے لوگ
کسی طوفان کی آمد ہے کہ لرزاں ہیں شجر
جانتے سب ہیں مگر جائیں کہاں شہر کے لوگ
آج کل کوچہ و بازار میں سناٹا ہے
ہو گئے خوف کے پردوں میں نہاں شہر کے لوگ
حادثے ہیں کہ پرے باندھے ہوئے پھرتے ہیں
نذر کس کس کو کریں تحفۂ جاں شہر کے لوگ
اپنے خوابوں کے جزیروں کی طلب میں آخر
ہو گئے اپنی تباہی کا نشاں شہر کے لوگ
خواب آنکھوں میں دھڑکتے ہیں نہ دل سینوں میں
پہلے ہوتے تھے کبھی شعلہ بجاں شہر کے لوگ
اب یہ ٹھہری ہے کہ آسیب کا پہرہ ہو یہاں
اور آباد کریں شہرِ فغاں شہر کے لوگ