دماغ کو بہت طویل عرصے سے اور بہت تفصیل سے پڑھا جا رہا ہے۔ اس لئے یہ قابلِ ذکر بات ہے کہ ہم اس کی بنیادی چیزوں کا بھی علم نہیں رکھتے یا ان پر متفق نہیں۔ مثلاً، شعور کیا ہے؟ سوچ کیا ہے؟ یہ ایسی چیز نہیں جسے کسی مرتبان میں بند کر لیا جائے یا مائیکروسکوپ کے نیچے دیکھ لیا جائے لیکن سوچ ایک اصل اور غیرمبہم چیز ہے۔ سوچنا ہماری سب سے کلیدی اور معجزاتی صلاحیت ہے۔ لیکن فزیولوجیکل لحاظ سے ہمیں یہ معلوم نہیں کہ سوچ کیا ہے۔
یہی چیز یادداشت کے بارے میں بھی کہی جا سکتی ہے۔ ہمیں اس کے بارے میں بہت کچھ معلوم ہے کہ یادداشت کیسے اسمبل ہوتی ہے اور کہاں پر سٹور ہوتی ہے لیکن یہ تو بالکل نہیں کہ کچھ چیزیں کیوں یاد رہ جاتی ہیں اور کچھ نہیں۔ اس کا تعلق کسی چیز کے مفید ہونے یا اس کی قدر سے نہیں۔ مجھے یاد ہے کہ 1984 کے اولمپکس کے ہاکی فائنل میں جب پاکستان نے جرمنی کو ہرا کر سونے کا تمغہ جیتا تھا تو پاکستان کے ٹیم میں کونسے کھلاڑی کھیل رہے تھے۔ اس یادداشت کا کوئی خاص عملی فائدہ نہیں۔ جبکہ میں خود اپنا موبائل فون نمبر یاد نہیں رکھ پاتا یا جب بہتر نصف نے مجھے بازار سے تین چیزیں لانے کا کہا ہوتا ہے تو یاد نہیں رہتا کہ تیسری چیز کونسی والی تھی۔ کھلاڑیوں کی فہرست سے کہیں زیادہ اہم چیزیں یادداشت کا حصہ کیوں نہیں بنتیں؟ یہ معلوم نہیں ہے۔
ہمارے پاس جاننے کو ابھی بہت کچھ ہے اور بہت کچھ شاید ایسا بھی ہے جو کبھی نہیں جان پائیں گے۔ لیکن جتنا ہم جانتے ہیں، وہ بھی حیران کن ہے۔ مثال کے طور پر، ہم اس کی مثال دیکھتے ہیں کہ ہم دیکھتے کیسے ہیں۔ یا ٹھیک یہ ہو گا کہ دماغ ہمیں کیسے بتاتا ہے کہ ہم دیکھ کیا رہے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اپنے ارد گرد نگاہ دوڑائیں۔ آنکھیں دماغ کو ہر سیکنڈ میں ایک کھرب سگنل بھیج رہی ہیں۔ لیکن یہ کہانی کا صرف ایک حصہ ہے۔ جب آپ کچھ “دیکھتے” ہین تو اس کی صرف دس فیصد انفارمیشن آنکھ سے آتی ہے۔ دماغ کے دوسرے حصوں کو اس کا تجزیہ کرنا ہوتا ہے۔ چہرے پہچاننے ہیں، کسی حرکت کو مطلب نکالنا ہے۔ خطرے کی نشاندہی کرنی ہے۔ دوسری الفاظ میں، دیکھنے کے عمل کا بڑا حصہ بصری سگنل موصول کرنا نہیں ہے بلکہ ان سے معنی اخذ کرنا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہر بصری اِن پُٹ کو تھوڑا سا وقت لگتا ہے ۔۔ تقریباً دو سو ملی سیکنڈ ۔۔ تا کہ انفارمیشن بصری اعصاب سے دماگ میں جائے اور پھر دماغ میں پراسس ہو اور اس کی تشریح ہو۔ جب ہمیں فوری ردِ عمل دکھانا ہو ۔۔۔ کسی آنے والی گاڑی سے بچنا ہے یا سر پر کسی چیز لگنے سے محفوظ رہنا ہو ۔۔۔ تو دو سو ملی سیکنڈ کم وقت نہیں۔ اور اس کے لئے دماغ ایک غیرمعمولی کام کرتا ہے۔ یہ مسلسل اس کی پیشگوئی کرتا ہے کہ دنیا دو سو ملی سیکنڈ بعد کیسی لگے گی اور یہ انفارمیشن ہمیں “حال” کے طور پر پیش کرتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم اپنی پوری زندگی ایسی دنیا دیکھتے رہتے ہیں جو ابھی اصل میں موجود نہیں۔
دماغ کئی اور چیزوں میں ہمیں ہمارے اپنے بھلے کے لئے دھوکا دیتا رہتا ہے۔ آواز اور روشنی کی رفتار ایک نہیں۔ بجلی کی کڑک اور چمک ہمیں الگ وقت میں موصول ہوتے ہیں لیکن روزمرہ کی زندگی میں دماغ ہمیں جو تجربہ پیش کرتا ہے، اس میں ایسے فرق ختم کر دیتا ہے۔ ہماری حسیاتی اِن پُت کو ہم آہنگ کر دیتا ہے۔
اسی طرح دماغ ہمارے لئے دنیا کی یہ فلم پیش کر رہا ہے۔ عجیب چیز یہ ہے کہ روشنی کے فوٹون کا کوئی رنگ نہیں۔ آواز کی لہروں میں کوئی آواز نہیں۔ بو کے مالیکیول کوئی بو نہیں رکھتے۔
جیمز لی فانو کے الفاظ میں، “یہ ہمارا گہرا تاثر ہے کہ ایک کھلی کھڑکی سے نظر آنے والے درختوں کا سبزہ اور آسمان کی نیلاہٹ آنکھیں محسوس کر رہی ہیں۔ لیکن اس پر پڑنے والے روشنی کے پارٹیکل بے رنگ ہیں۔ ویسے ہی جیسے کان کے پردے پر پڑنے والی آواز کی لہریں خاموش ہیں اور خوشبو کے مالیکیول کوئی بو نہیں رکھتے۔ یہ بے وزن، پوشیدہ سفر کرتے ذرات ہیں”۔ زندگی کے اس سب تجربے کی سر میں تخلیق ہوتی ہے۔ جو آپ دیکھ رہے ہیں، صرف وہ ہی ہے جو دماغ دکھا رہا ہے۔
کیا آپ نے کبھی نوٹ کیا ہے کہ صابن کو رنگ جو بھی ہو، اس کا جھاگ ہمیشہ سفید ہوتا ہے؟ اس لئے نہیں کہ جب صابن کو گیلا کیا جاتا ہے تو یہ رنگ بدل لیتا ہے۔ اس کے مالیکیول بالکل وہی ہیں۔ صرف یہ کہ روشنی کے انعکاس کا فرق ہے۔ رنگ جامد حقیقت نہیں، ایک احساس ہیں۔
آپ نے نظر کے دھوکے دیکھے ہوں گے جو اس نکتے کی کچھ وضاحت کرتے ہوں گے۔ دماغ پیٹرن ڈھونڈنے کی غیرمعمولی صلاحیت رکھتا ہے۔ مثال کے طور پر ساتھ لگی تصویر میں کانیزسا مثلث (Kanizsa triangle) ہے۔ اس تصویر میں مثلث نہیں لیکن دماغ مثلث یہاں پر رکھ دیتا ہے اور آپ اسے جھٹک نہیں سکتے۔
دماغ یہ سب اس لئے کرتا ہے کہ اس کا ڈیزائن آپ کی مدد کرنے کے لئے ہے۔ اور تضاد یہ کہ عین اسی وجہ سے یہ ناقابلِ اعتبار ہے۔ دوسروں کی دی گئی تجویز کو قبول کر کے ہم “حقیقت” بدلنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ جھوٹی یادداشت بنا لینا بھی مشکل نہیں۔ آپ کے لئے جو اصل ہے، لازمی نہیں کہ وہ اصل ہو۔
یادداشت کا ذخیرہ عجیب اور ٹکڑوں کی صورت میں سٹور ہوتا ہے۔ ذہن یادداشت کو چہروں، تناظر، جگہوں وغیرہ میں تقسیم کرتا ہے اور اس کو الگ الگ جگہوں میں بھیج دیتا ہے۔ اور یادداشت دہرانے پر یہ سب اکٹھا ہو کر کُل کی صورت اختیار کرتا ہے۔ ایک پرانی آوارہ سوچ دماغ میں بکھرے کئی ملین نیورون متحرک کر سکتی ہے۔ اور یہ خود ایک جگہ پر یکساں نہیں رہتے۔ جگہ تبدیل کرتے ہیں۔ ایک کورٹیکس سے دوسرے میں چلے جاتے ہیں۔ کیوں؟ اس کا کچھ معلوم نہیں۔ لیکن اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں کہ ہم اپنی یادداشتوں کو کچھ دھندلا پاتے ہیں۔
اور اس کا فائدہ یہ ہے کہ یادداشت جامد اور مستقل ریکارڈ نہیں۔ یہ ایک الماری میں لگی فائل کی مانند نہیں۔ یہ ایک وکی پیڈیا پیج کی طرح ہے۔ اس کو تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ آپ خود بھی اور دوسرے بھی اس پر اپنی ایڈٹنگ کر لیتے ہیں۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...