دسمبر 1954 میں 23 سالہ رچرڈ ہیرک کے گردے فیل ہو چکے تھے۔ وہ موت کے دہانے پر تھے۔ انہیں ان کی زندگی لوٹا دی گئی، وہ گردے کا ٹرانسپلانٹ کروانے والے پہلے مریض تھے۔ وہ قسمت کے دھنی تھے کہ ان کا جڑواں بھائی تھا اور وہ عطیہ کرنے کو تیار تھا۔
اس سے پہلے کسی نے ایسی کوشش نہیں کی تھی۔ کسی کو معلوم نہیں تھا کہ نتیجہ کیا ہو گا۔ یہ بھی ہو سکتا تھا کہ دونوں بھائی ہی زندہ نہ بچتے۔ اس سے پہلے کبھی کسی صحتمند شخص کو کسی دوسرے کے لئے اتنا بڑا خطرہ مول لینے کو نہیں کہا گیا تھا۔ لیکن اس کا نتیجہ اچھا رہا۔ رچرڈ ہیرک صحت یاب ہوئے اور اپنی نرس سے شادی کی اور اس سے دو بچے ہوئے۔ آٹھ سال بعد ان کی اصل بیماری (glomerulonephritis) نے انہیں واپس دبوچ لیا اور اس بار وہ نہ بچ سکے۔ ان کے بھائی نے زندگی کے 65 سال مزید ایک گردے کے ساتھ گزارے۔ آپریشن کرنے والے ڈاکٹر جوزف مرے کو 1990 میں نوبل انعام ملا جو کہ ان کے بعد میں امیونوسپریشن پر کئے گئے کام پر تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مدافعتی نظام خارجی شے کو مسترد کر دیتا ہے اور یہ پیوند کاری کیلئے اچھا نہیں تھا۔ ریجکشن کے مسئلے کا مطلب یہ تھا کہ ٹرانسپلانٹ کی زیادہ تر کوششیں کامیاب نہ ہوئیں۔ اگلے دس سال میں 211 ٹرانسپلانٹ ہوئے اور زیادہ تر چند ہفتوں سے زیادہ زندہ نہ رہے۔ صرف چھ ایسے تھے جو ایک سال سے زیادہ عرصہ زندہ رہے اور ان میں سے زیادہ تر کے جڑواں تھے جہاں سے عطیہ کیا گیا تھا۔ امیونیٹی کو دبانے والی معجزاتی دوا سائیکلوسپورین (جس کی دریافت کی کہانی قسط نمبر ۳۷ میں ہے) کی دریافت ہونے کے بعد ہی ٹرانسپلانٹ عام ہونا شروع ہوئے۔
پچھلی چند دہائیوں میں ٹرانسپلانٹ سرجری میں ہونے والی ترقی ناقابلِ تصور رہی ہے۔ امریکہ میں ہر سال 30000 لوگ اعضا کا ٹرانسپلانٹ کرواتے ہیں اور ان مین سے پچانوے فیصد ایک سال سے زیادہ جبکہ اسی فیصد پانچ سال سے زیادہ زندگی پاتے ہیں۔ مسئلہ اعضا کی دستیابی کا ہے۔ اس کی مانگ بہت زیادہ ہے اور انتظار کرنے والوں کی فہرستیں لمبی ہیں۔ روزانہ اس فہرست میں سے بیس لوگ عضو دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے انتقال کر جاتے ہیں۔ گردے کی ناکامی کی وجہ سے ڈائالیسس کروانے سے زندگی کے آٹھ سال اضافی مل جاتے ہیں جبکہ ٹرانسپلانٹ سے تئیس سال۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک تہائی اعضا زندہ ڈونر کی طرف سے آتے ہیں (عام طور پر قریبی رشتہ دار سے) جبکہ باقی ان سے جو مرنے کے بعد اعضا کا عطیہ کرتے ہیں۔ اور یہ ایک چیلنج ہے۔ ٹھیک سائز کا عضو جس میں انتقال کرنے والے کا قابلِ استعمال حالت میں ہو اور عضو لینے والے سے بہت دور نہ ہو۔ صرف اسے ٹرانسپلانٹ کیا جا سکتا ہے۔ سرجن کی ایک ٹیم عطیہ دینے والے کے ساتھ ہوتی ہے جو عطیہ کردہ اعضا نکال سکیں اور دوسری لینے والے کے ساتھ، جو اسے ٹھیک طرح سے لگا سکیں۔ اور یہ سب ایمرجنسی میں ہوتا ہے کیونکہ اسے بہت جلد لگانا ہوتا ہے۔
انتظار کی فہرست اور وقت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ہزاروں لوگ اس انتظار میں ہی وفات پا جاتے ہیں جن کی زندگیاں بچائی جا سکتی تھیں۔
اس کا ایک ممکنہ حل جانوروں سے ہے۔ انسان کے سائز کے سب سے قریب سور ہے جس کے اعضا ٹھیک سائز کے اگا کر نکالے جا سکتے ہیں۔ اور یہ ایمرجنسی کے بجائے شیڈولڈ ہو سکتا ہے۔ یہ اصولی طور پر تو زبردست حل ہے لیکن عملی طور پر اس میں دو بڑے مسائل ہیں۔ پہلا تو یہ کہ کسی دوسری نوع سے آنے والے عضو پر امیون سسٹم طوفان کھڑا کر دیتا ہے۔ (امیون سسٹم کی نظر میں آپ کے جسم میں غیرانسانی جگر کو موجود نہیں ہونا چاہیے)۔ دوسرا یہ کہ سور میں موجود وائرس PERV انسان کو متاثر کرے گا۔ ان مسائل کے حل پر کام ہو رہا ہے اور پہلے ٹرانسپلانٹ کیا جا چکا ہے۔ امید کی جا رہی ہے کہ اگر اس بارے میں مسائل کو حل کر لیا جائے تو ہر سال ہزاروں لوگوں کی زندگیاں بچائی جا سکیں گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ٹرانسپلانٹ کے ساتھ ایک مسئلہ اس کو کامیاب بنانے کے لئے دی جانے والی امیونوسپریسو ادویات کا ہے۔ یہ تمام امیون سسٹم کو متاثر کرتی ہیں اور اس وجہ سے مریض کو مستقل طور پر ایسی انفیکشن یا کینسر ہو جانے کا خطرہ رہتا ہے جس سے نارمل امیون سسٹم نپٹ لیتا۔
خوش قسمتی سے، ہم میں سے اکثر کو ٹرانسپلانٹ کی ضرورت کبھی نہیں پڑے گی لیکن امیون سسٹم ہمیں تنگ کرنے سے باز نہیں آتا۔ کئی بیماریاں ہیں جو اسی کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ یہ آٹوامیون بیماریاں کہلائی جاتی ہیں۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...