انعم نے تیزی سے پیچھے مڑ کہ دیکھا جہاں وہی لڑکا کھڑا تھا جس کے ڈر سے انعم تقریبا بھاگتی ہوئی جا رہی تھی ایک تو وہ لیٹ ہو گئی تھی دوسرا احسن اسے چھوڑ کر چلا گیا اور اوپر سے یہ لڑکا اسے ایک دم شدید غصہ آیا تھا “کیا ہے؟” انعم نے شدید غصیلے لہجے میں پوچھا تھا “پلیز آپ غصہ نا ہو میں نے آپ کو کچھ غلط تو نہیں کہا میں سچ میں آپ سے پیار کرتا ہوں آپ کا گھر کہاں ہے؟ نام کیا ہے آپ کا؟ چہرے پر معصومیت طاری کرتے ہوئے حماد نے پوچھا تھا “دیکھو جو بھی ہو تم اپنے کام سےکام رکھو میرا دماغ خراب کیا نا تو بہت برا حشر کروں گی” انعم نے اسی غصیلے لہجے میں کہا تھا “اچھا ٹھیک ہے مت بتائیں آپ مجھے لیکن میری بھی ایک بات سن لیں میں روز یہی کھڑے ہو کر آپ کا انتظار کروں گا مجھے یقین ہے آج نہیں تو کل آپ مجھ سے خود بات کرنے آئیں گی حماد نے مسکراتے ہوئے کہا تھا جبکہ انعم “بھاڑ میں جاؤ” کہتی وہاں سے چلی گئی
اور پھر یہی ہوتا تھا احسن کے ساتھ اسی راستے گزرتے ہوئے وہ روز اس کو دیکھتی تھی آنکھوں میں شکوہ لیے روز وہ انعم کا منتظر ہوتا تھا کچھ دن تو انعم اسے مسلسل نظر انداز کرتی رہی لیکن وہ اس کے بارے میں سوچنے سے خود کو روک نا سکی تھی۔
“انعم کل یونیورسٹی خود چلی جانا پلیز میری بہن” احسن نے انعم سے التجا کرتے ہوئے کہا “کس خوشی میں بتاؤں اب تمہارا جا کہ ابو کو” انعم نے بھی تڑخ کے جواب دیا “بہت دنوں بعد میں نے دوستوں کے ساتھ کہی جانے کا پروگرام بنایا ہے کل صبح صبح ہم جلدی نکل جائیں گے مری جانا ہے راستے میں بھی تو ٹائم لگے گا نا پلیز میری بہن مان جاؤ نہ” احسن نے تفصیل سے کہتے ہوئے آخر میں ایک بار پھر التجا کی کچھ سوچتے ہوئے انعم کے لبوں پہ جاندار مسکراہٹ رینگ گئی” اچھا اچھا ٹھیک ہے چلے جاؤ نہیں کہتی ابو سے” اس نے شانِ بےنیازی سے کہا اور اٹھ کر اپنے کمرےمیں آگئی بستر پہ لیٹے وہ اپنے ہی جہاں میں پہنچ گئی تھی “کیا وہ لڑکا سچ میں مجھ سے پیار کرتا ہے؟” اس نے خود سے سوال پوچھا “ہاں کرتا ہے تبھی تو روز وہاں کھڑے ہو کر میرا انتظار کرتا ہے ورنہ جتنی بے عزتی میں نے اس دن کی تھی اس کی اگر وہ کوئی دونمبر انسان ہوتا تو اس کے بعد نظر بھی نا آتا” اسی طرح خود سے سوال کرتے اور پھر خود ہی جواب دیتے پتا نہیں کب اس کی آنکھ لگ گئی۔
صبح وہ پھر انعم کے انتظار میں وہی کھڑا تھا اسے اپنے انتظار میں دیکھتے ہی انعم کھل کے مسکرائی اس کی مسکراہٹ حماد کی نظروں سے بھی مخفی نہیں تھی ادھر اسے اکیلے آتا دیکھ کر حماد تیزی سے اس کی طرف بڑھنے لگا اور اس کے قریب پہنچتے ہی ایک چٹ زبردستی انعم کے ہاتھ میں پکڑائی اور کہا “مجھے یقین ہے تم مجھے ضرور کال کرو گی میں تمہاری کال کا انتظار کروں گا” کہتے ہی تیزی سے اس کے قریب سے گزر گیا انعم کی روح فنا ہونے لگی وہ بنا کچھ کہے اس چٹ کو سختی سے مٹھی میں دبائے وہاں سے چلی گئی۔
احسن مری سے آنے کے بعد تھکن کے باعث سو گیا تھا گڑیا باہر پڑھائی میں مصروف تھی اس کے امتحانات شروع ہو چکے تھے موقع پاتے ہی انعم کمرے میں آگئی دروازہ بند کرتے ہی وہ اپنے بیگ کے پاس آئی اور کانپتے ہاتھوں کے ساتھ اس چٹ کو نکال کر تیزی سے دھڑکتے دل کے ساتھ اسے پڑھنا شروع کیا۔
“مجھے نہیں پتا آپ کا کیا نام ہے اب یہ تو جب آپ مجھ سے بات کریں گی تب ہی پتہ چلے گا لیکن میں آپ سے بہت محبت کرتا ہوں اور مجھے پتہ ہے آپ بھی مجھ سے پیار کرتی ہے آپ سے اور بھی بہت سی باتیں کرنی ہیں اس لیے پلیز مجھ سے اس نمبر پر رابطہ کریں” اور نیچے ایک نمبر درج تھا انعم نے اپنا موبائل ہاتھ میں لیا اور حماد کا نمبر ملایا بیل جا رہی تھی انعم کا دل تیزی سے دھڑک رہا تھا اور اس لمحے تودھڑکن ہی رک گئی تھی جب دوسری جانب سے مردانہ آواز میں “ہیلو” کہا گیا تھا کچھ دیر چپ رہنے کے بعد بالآخر انعم نے ہیلو کہا تھا “افف شکر ہے تم نے فون کیا یقین کرو میں ابھی تمہارے بارے میں ہی سوچ رہا تھا” وہ اب آسانی سے اسے “تم” کہہ کر مخاطب کر رہا تھا “انعم کے چہرے پر محبت کے رنگ بکھرنے لگے” آآپ کا نام کیا ہے؟” انعم نے مسکراتے ہوئے پوچھا “میرا نام حماد ہے اور تمہارا؟ اس نے کہا “میرا نام انعم ہے” اب انعم کا اعتماد بھی کافی حد تک بحال ہو چکا تھا “ارے واہ جتنی خوبصورت تم خود ہو اتنا ہی خوبصورت تمہارا نام بھی ہے” دوسری طرف سے مسکراتی ہوئی آواز میں کہا گیا تھا کافی دیر تک پیار بھری باتیں کرتے رہے انعم کو ہوش تو تب آیا جب گڑیا نے دروازہ بجایا ” آپی دروازہ کھولے؟” کافی رات ہو چکی تھی امتحانات کے باعث گڑیا بھی رات دیر تک پڑھتی رہی تھی اب اسے شدید نیند آئی تو اس نے کمرے کا رخ کیا لیکن کمرہ اندر سے بند ہونے کی وجہ سے اس نے دروازہ کھٹکھٹایا انعم نے جلدی سے خدا حافظ کہا اور فورا دروازہ کھولا پھر کچھ ہی دیر میں بستر پر لیٹتے ہی وہ حماد کے حسین سپنوں میں کھو گئی۔
انعم نے اب حسن کو اپنے ساتھ چلنے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا تھا کہ ” اب تمہیں فیکٹری کے لیے دیر ہو جاتی ہے میری وجہ سے اسلیے تم جلدی چلے جایا کرو اب سے میں خود جاؤں گی” اور احسن نے بھی خوشی خوشی اس کی یہ بات مان لی کیونکہ اسے نہیں پتا تھا کہ اس کی بہن کس راستے پر چل پڑی ہے۔ کچھ عرصے میں ہی حماد اور انعم کا رابطہ ٹیلیفونگ سے بڑھ کر اب ملاقاتون تک پہنچ گیا تھا وہ اپنے پیارے باپ کی عزت کو اپنے پیروں تلے روند رہی تھی اس باپ کی عزت کو جس نے دن رات محنت کر کے انہی بچوں کو پال پوس کر بڑا کیا تھا ان کی ہر جائز ضرورت کوہر خواہش کو پورا کیا تھا لیکن ایک نا محرم کی چند دن کی محبت کی خاطر وہ اپنی ماں اپنے باپ کی محبت کو بھول گئی تھی وہ گناہ کے دلدل میں اس قدر گر چکی تھی کہ اب اسے وہ گناہ گناہ لگ ہی نہیں رہا تھا۔
ایسے ہی ان دونوں کو ملتے کافی عرصہ ہو گیا تھا گڑیا کے رزیلٹ میں اب بس صرف ایک مہینہ ہی رہ گیا تھا۔ اتوار کا دن تھا انعم گڑیا اور احسن صحن میں بیٹھے خوش گپیوں میں مصروف تھے جب نوشین بیگم نے اپنے کمرے سے باہر آتے ہوئے اطلاع دی “بچوں جلدی سے تیاری کرو آج تمہارے توقیر ماموں کراچی سے آنے والے ہیں” سب سے پہلے انعم کی پرجوش آواز گونجی تھی “سچ میں امی آج آئے گے احسن کتنا مزہ آئے گا نا امی کیا میرب بھی ساتھ آئے گی آپ ان سے کہتی کہ میرب کو ساتھ لے کر آئے ” پرجوش انداز میں بولتے ہوئے آخر میں اس نے توقیر ماموں کی بیٹی کا پوچھا جو اس کی بہت اچھی سہیلی بھی تھی بچپن میں جب یہ لوگ کراچی جاتے یا وہ لاہور آتے تو میرب اور انعم ہر وقت ساتھ ساتھ رہتی “ہاں ہاں میرب بھی ساتھ ہی آرہی ہے اب جلدی اٹھو اور تیاری کرو انعم تم مہمانوں والا کمرہ اچھے سے صاف کر دو گڑیا تم میرے ساتھ کچن میں آؤ میری ہیلپ کرنےاور احسن تم بھی آؤ باہر سے کچھ سامان منگوانا ہے میں تمہیں اس کی لسٹ بنا کے دیتی ہوں تم لے آنا” نوشین بیگم سب کو ہدایات دیتی وہاں سے چلی گئی اور باقی سب بھی اپنے اپنے کاموں میں مصروف ہو گئے
توقیر ماموں کے ساتھ زارا مامی اور میرب بھی تھی دو دن رہ کر اب وہ لوگ جانے والے تھے جب توقیر ماموں نے عبید صاحب سے کہا” عبید بھائی میں واپس تو جا رہا ہوں لیکن جانے سے پہلے آپ سے آپکی ایک بہت قیمتی چیز مانگ رہا ہوں اور بہت امید کے ساتھ آپ کے پاس آیا ہوں مجھے یقین ہے آپ مجھے انکار نہیں کریں گے” “ارے توقیر تم مانگو تو سہی میں تمہیں نا امید واپس نہیں لوٹاؤں گا میرا یقین کرو” عبید صاحب نے خوشگوار لہجے میں کہا ” توقیر بھائی میں اور زارا یہاں آپ سے اپنے بیٹے سبحان کے لئے انعم بیٹی کا ہاتھ مانگنے آئیں ہیں میری اور زارا کی بہت پہلے سے یہی خواہش تھی کہ انعم ہماری بہو بنے پہلے تو سبحان پڑھ رہا تھا اب تو اس کی پڑھائی بھی مکمل ہو گئی ہے تو ہم یہاں آپ کے پاس آگئے اور میں وعدہ کرتا ہوں آپ سے کہ آپ کی بیٹی کو اپنی بیٹی بنا کر رکھوں گا ان شاء اللہ” توقیر ماموں نے مسکراتے ہوئے لہجے میں کہا ” نوشین بیگم اور عبید صاحب کے چہرے سے خوشی پھوٹ رہی تھی کیونکہ سبحان ایک بہت ہی اچھا لڑکا تھا حال ہی میں وہ ڈاکٹر بنا تھا نوشین بیگم اور عبید صاحب سمیت گڑیا اور احسن بھی بے حد خوش تھے جبکہ انعم کا چہرہ بلکل زرد پڑ چکا تھا وہ اب اپنے ابو کے جواب کا انتظار کر رہی تھی جب کمرے میں عبید صاحب کے آواز گونجی ” توقیر اس سے خوشی کی بات میرے لیے کچھ نہیں ہو سکتی سبحان بہت اچھا بچہ ہے مجھے یقین ہے ہماری انعم اس کے ساتھ بہت خوش رہے گی ہماری طرف سے ہاں ہے” انعم کے پیروں سے جان نکل گئی تھی خود کو بمشکل گھسیٹتی وہ کمرے میں آئی تھی ” شرما گئی بچی” یہ زارا مامی کی آواز تھی جو انعم کے جانے کو اس کا شرمانا سمجھ رہی تھی ” ارے نوشین اٹھو بھئی خوشی کا موقع ہے سب کا منہ میٹھا کرو” عبید صاحب نے ہنستے ہوئے کہا تھا سب نے منہ میٹھا کیا اس کے بعد توقیر ماموں نے کہا “عبید بھائی اب میں تو اتنا خوش ہوں کہ مجھ سے مزید صبر نہیں ہو رہا ہماری طرف سے تو ساری تیاریاں مکمل ہے اب ہم جلد از جلد اپنی انعم کو اپنے گھر لیکر جانا چاہتے ہیں” عبید صاحب بھی ان کی بات سے متفق تھے اور پھر سب نے مل کر شادی کی تاریخ بھی طے کر دی۔
بچیس دن بعد کی تاریخ طے پائی گئی تھی توقیر ماموں , زارا مامی اور میرب سب چلے گئے تھے جب انعم شدید غصے کی7 حالت میں باہر آئی تھی اور عبید صاحب کےسامنے کھڑی ہو کہنے لگی” آپ ایسا کیسے کر سکتے ہیں میرے ساتھ میرا رشتہ طے کر لیا یہاں تک کہ شادی کی تاریخ بھی طے کر لی مگر مجھ سے ایک بار بھی نہیں پوچھا” کمرے میں رونے کی وجہ سے اس کی آنکھیں سرخ ہو چکی تھی اور آواز بھاری ہو رہی تھی عبید صاحب سمیت سب نے حیرت سے انعم کی طرف دیکھا تھا ” ہاں میں نے نہیں پوچھا کیونکہ مجھے پتا ہے کہ سبحان تمہیں بہت خوش رکھے گا اور کیا تمہیں کوئی اعتراض ہے اس رشتے سے؟” بولتے بولتے عبید صاحب کو کسی گڑ بڑ کا احساس ہوا تھا جو انہوں نے کچھ چونک کر پوچھا ” ہاں بلکل اعتراض ہے مجھے میں سبحان سے شادی نہیں کرنا چاہتی آپ ان کو انکار کر دے” انعم نے لاپرواہی سے کہا تھا ” تمہارا دماغ خراب ہو گیا ہے کیا پاگل ہو گئی ہو جو ایسی باتیں کر رہی ہو” نوشین بیگم بھی انعم کی اس فضول بات پہ بھڑک اٹھی تھی “ہاں ہو گئی ہوں میں پاگل اور یہ میرا آخری فیصلہ ہے ورنہ میں عین نکاح کے موقع پر انکار کر دوں گی” عبید صاحب کب سے صرف اس کے چہرے کو پڑھنے کی کوشش کررہے تھے پھر ایک دم انہوں نے پوچھا “اچھا ہم سبحان کے رشتے کے لئے انکار کر دیں پھر کون ہے وہ جس سے تم شادی کرنا چاہتی ہو ” اب کی بار عبید صاحب کا لہجہ بھی غصہ لیے ہوئے تھا ” ہاں میں سبحان سے نہیں حماد سے شادی کرنا چاہتی ہوں سن لیا آپ سب نے حماد سے اور میں اسی سے ہی شادی کروں گی ” انعم یقینا پاگل ہو چکی تھی “انعم کوئی شرم و حیا ہے تم میں کہ نہیں اپنے باپ کے سامنے کھڑی ہو کر ایسی باتیں کرتے ہوئےتو تمہیں شرم سے ڈوب مرنا چاہئے” نوشین بیگم غصے سے آگ بگولہ ہو گئی تھی “اس میں شرم کی کیا بات ہے میں اسے پسند کرتی ہو شادی کرنا چاہتی ہوں کوئی گناہ تو نہیں کررہی” انعم نے فخر سے کہا “کون ہے وہ اور تم اس لڑکے سے کہاں ملی؟ ” عبید صاحب اب کی بار دھاڑے تھے “میں اس سے یونیورسٹی کے باہر ملی تھی حماد ہمدانی نام ہے اس کا” انعم نے پرسکون لہجے میں بتایا تھا “اچھا تو اس لیے تم نے مجھے منع کر دیا تھا کہ میں تمہیں یونیورسٹی چھوڑنے نا جاؤں شرم آنی چاہئے تمہیں انعم ” احسن بھی غصے و افسوس سے بولا ” اگر ہم سبحان کو انکار کر دے تو کیا اس کے ماں باپ رشتہ لے کر آئیں گے؟ ” عبید صاحب کی اب بار کچھ سوچ کر بولے تھے “نہیں ابھی اس نے اپنے ماں باپ کو راضی نہیں کیا اس نے مجھ سے کہا تھا کہ جب وہ اپنے ماں باپ کو راضی کر لے گا تو پھر وہ رشتہ بھی لیں آئیں گے” اب کی بار انعم دھیمے لہجے میں بولی تھی “یہ سب جھوٹ ہے انعم میری جان ایسے لڑکے لڑکیوں سے تعلقات صرف وقت گزاری کے لیے بناتے ہیں نا کہ ان سے شادی کرنے کے لیے اگر یہ لڑکا سچ میں تم سے شادی کرنا چاہتا تو عزت کے ساتھ رشتہ بھجواتا اور آج پہلی دفعہ مجھے ایسا محسوس ہو رہا ہے جیسے میری ہی پرورش میں کوئی کمی رہ گئی ہے شاید جو میری بیٹی ایک نا محرم سے ملتی رہی اس سے راتوں کو دیر دیر تک باتیں کرتی رہی لیکن مجھے خبر ہی نہیں ہوئی تمہیں ہم نے پڑھایا لکھایا تمہاری پرورش کی کیا یہ دن دیکھنے کے لیے کہ تم اپنے ماں باپ کی عزت کو خاک میں ملا دو” عبید صاحب کی آواز غصے کی وجہ سے کانپ رہی تھی نوشین بیگم اور گڑیا بے تحاشہ رو رہی تھی جبکہ احسن نم آنکھوں سے اپنے باپ کودیکھ رہا تھا جو اس وقت بے حد بےبس نظر آرہے تھے” میں نے کون سا گناہ کر دیا ہے کسی کو پسند کرنا کوئی جرم تو نہیں اور جہاں تک پرورش کی بات ہے تو سبھی ماں باپ اپنے بچوں کو پال پوس کر ہی بڑا کرتے ہیں آپ نے کوئی انوکھا کام نہیں کیا آپ نے میری پرورش کی اس کا مطلب یہ نہیں کہ میں بےزبان گائے ہوں اور آپ مجھے ایموشنلی بلیک میل کر کے کسی کے ساتھ بھی باندھ دیں گے” انعم زہر خندہ لہجے میں بولی تھی عبید صاحب کا خیال تھا کہ انعم بیوقوف ہے اور مان جائے گی لیکن جب وہ لاکھ سمجھانے کے بعد بھی نہیں مانی تو پھر عبید صاحب کو بھی نئے سرے سے غصے آگیا اور انہوں نے نوشین بیگم سے کہا ” آج کے بعد اس پڑھائی بند اب یہ گھر سے باہر قدم بھی نہیں رکھے گی احسن اور سائرہ تم دونوں اس پہ نظر رکھنا اور اگر اس نے گھر سے باہر قدم بھی نکالا تو اس کےساتھ ساتھ تم سب کی ٹانگیں بھی توڑ دوں گا”
اس کے بعد احسن اور سائرہ نے اپنے بابا کی بات پہ مکمل عمل کیا تھا وہ سائے کی طرح انعم کے ساتھ ساتھ رہتے اس کا موبائل بھی نوشین بیگم نے لے لیا تھا دونوں طرف شادی کی تیاریاں بھی زور و شور سے جاری تھی ایسے میں جہاں باقی سب شادی کی تیاریوں میں مصروف تھے وہی انعم گھر سے فرار ہونے کی پلیننگ کر رہی تھی مہندی کا دن بھی پہنچ گیا تھا مہندی کا فنکشن بہت دھام سے ہوا تھا انعم پہلے سے بھی بہت پیاری تھی اور اب میک اپ نے تو اس کے حسن کو چار چاند لگا دئیے تھے مہندی کے دن ہی اس نے سوچ لیا تھا کہ اب اسے آگے کیا کرنا ہے اگلے دن بارات تھی وہ بلکل نارمل نظر آرہی تھی نوشین بیگم نے سکون کا سانس لیا انہیں لگا کہ شاید انعم کو احساس ہو گیا ہے بیوٹیشن نے انعم کو تیار کر دیا تھا دلہن کے روپ میں تو وہ اور خوبصورت لگ رہی تھی کچھ ہی دیر میں دلہا والے گھر پہ موجود تھے بارات کا سنتے ہی انعم کو کمرے میں اکیلا چھوڑتے باقی سب باہر کی طرف بھاگے تھے اور پلین کے مطابق موقع ملتے ہی انعم اپنے کمرے میں موجود کھڑکی کے ذریعے بھاگ گئی تھی.
وہ دونوں ہاتھوں سے اپنا سرخ لہنگا تھامے پتا نہیں کتنی دیر سے بنا پیچھے دیکھے بھاگ رہی تھی مطلوبہ جگہ پہ پہنچنے کے بعد وہ ایک دم رک گئی تھی اس کا سانس بری طرح پھول چکا تھا گہرے گہرے سانس لیتے ہوۓ اس نے آگے پیچھے دیکھا اور پھر ہاتھ میں پکڑے اس چھوٹے سے موبائل پہ اس نے ایک نمبر ملایا تھا ” “ہیلو! ہیلو! حماد میں گھر سے بھاگ آئی بھاگ آئی ہوں میں آج اس قید خانے سے جہاں مجھے زبردستی کسی ایسے انسان کے ساتھ باندھ رہے تھے جسے میں پسند نہیں کرتی میں صرف اور صرف تم سے پیار کرتی ہوں اب میں تمہیں ایڈریس سینڈ کرتی ہوں پلیز جلدی سے آجاؤں مجھے لینے یہ نا ہو میرے گھر والے مجھے ڈھونڈتے ڈھونڈتے یہاں تک پہنچ جائے ٹھیک ہے جلدی پہنچو” دوسری طرف موجود انسان مسلسل کچھ بولنے کی کوشش کر رہا تھا جسے سنے بغیر وہ کال کاٹ چکی تھی میسج کے ذریعے اسے ایڈریس سینڈ کرنے کے بعد اب وہ اسی سنسان سڑک پر کھڑی اس کا انتظار کر رہی تھی۔
آج ایک اور لڑکی اپنے باپ, اپنے بھائی کی عزت کا جنازہ نکال چکی تھی پتہ نہیں کیوں صرف چند ماہ کی ایک نامحرم کی نام نہاد محبت کے آگے ایسی لڑکیاں اپنے ماں باپ کی محبت کو بھول جاتی ہیں۔
اور یہی سے انعم کی زندگی کے بھیانک دورکا آغاز ہو چکا تھا۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...