١پاستہ باؤل میں منتقل کرتے ہوئے وه ہلکے ہلکے تهرک بهى رہا تها ٹی وی پر فل والیوم میں اس کا من پسند انگلش گانا چل رها تها
جس کے باعث کمرے میں چنگهاڑتے فون کى آواز وه سن نہىں پا رہا تها ۔۔۔۔
زیرِ لب گانے کے بول دوہراتا وه جونہى کمرے میں داخل ہوا مٹى چائے کے دهبوں اور ژنگ کے نشانات سے بهرى ٹیبل پر دهرے اسکے موبائل کے جگمگ کرتے اسکرىن نے اسکى سارى توجہ کهینچ لى
اور کال کرنے والے کا نام پڑهتے کے ساتھ ہى اسکى آنکهیں اتنى ابلیں کے بس گرنے کى کثر ره گئی ۔۔۔
“اللّٰه خیر کرے یہ میرى گنہگار آنکهىں کیا دیکھ رہى ہیں ۔۔۔
سبحان سعید اور مجهے
کال” !
ابهى اسکى حیرت ختم بهى نا ہوئی تهى کہ کال کاٹ کے پهر سے کر دى گئی ۔۔
گہرى سانس بهر کے اس نے دل ہى دل میں سب خیریت ہونے کى دُعا کى تهى ۔۔
کیونکہ سبحان صاحب نے ٢٦ سال کے عرصے میں اسے صرف ٣ بار کال کى تهى
ایک بار جب معاز گهر سارا دن گهر نا آیا تھا
(دراصل وه ان سے ناراض ہو کر اپنے دوست کے گهر چهپا بیٹها تها)
دوسرى بار جب اسکى نانی کا انتقال ہوا تھا ۔۔۔۔
اور تیسرى بار جب معاز کا ایکسڈنٹ ہوا تها
وه اس سے رابطه ہرگز نا کرتے اگر معاز کو خون کى اشد ضرورت نا ہوتى
اور اسکا بلڈ گروپ میچ نا ہوتا ..
“جى”؟؟؟
نا سلام نا دعا … پتهر مار سا “جى” انکا بگڑا ہوا چہرہ مزید بگاڑ گیا ۔۔
مگر وقت پڑنے پر گدهے کو باپ بنایا جا سکتا ہے
تو بیٹا بهى بنایا جا سکتا ہے !
اونہہ !! بیٹا نہیں دولہا !
دل ہى دل میں بڑبڑاتے اپنى نا گوارى چهپاتے گویا ہوئے
“آج ارباز کى شادى ہے” ..
“اب آپ سمیت سب کنفیوز ہونگے کے دولہا کون ہے ؟ ارے بھئی کہا بھی تھا میں نے ۔۔ گھوڑوں کا دور گیا اب ۔۔مگر آپ نے میری ایک نہیں سنی ۔۔ اوپر سے گھوڑے کو بھی کیسا سجا بنا دیا ۔۔ اب سوچتے رہیں ۔۔ ان میں سے آپکا لاڈلا کون ہے ۔۔ اوہو ۔۔۔۔ معاز کے پاپا ۔۔ جو زیادہ خوبصورت لگ رہا ہو ۔۔ وہ گھوڑا ہوگا ۔۔ اب یہ میں نہیں کہ سکتا کہ جو سوار ہوگا وہ دلہا ہوگا ۔۔ نوشے میاں سے کچھ بعید نہیں ۔۔ گھوڑے کو کاندھوں پر لاد کر برات لے چلے ہوں ۔۔ موقعہ ہی اتنی خوشی کا ہے ۔۔ جسے کبھی گدھی نے بھی دل چسپی سے نہیں دیکھا ۔۔ اسے کوئی دل گردے والی انسان کی بچی بالاخر اپنانے کو تیار ہے ۔۔ اتنی خوشی تو چلتی ہے” ۔۔ نان اسٹاپ اناپ شناپ بک کر اب وہ مسنوعی قہقے لگاتا حقیقی کھانسی کا شکار ہوگیا تھا ۔۔ قریب دھری پانی کی بوتل سے منہ لگا کر پانی پیتے ہوئے دوسری طرف سے مسلسل خاموشی پر وہ سچ مچ اچھی خاصی تشویش کا شکار ہوتا ٹی وی آف کر چکا تھا جس کی آواز پہلے ہی میوٹ کر دی تھی ۔۔ موڈ بہت اچھا تھا سو گڑ بڑ کا احساس ہوتے ہوئے بھی فضول گوئی سے خود کو روک نہیں پایا تھا ۔۔
ایک ہی کام تھا جو وہ مستقل مزاجی سے کرسکتا تھا ۔۔وہ تھا سبحان صاحب کا دماغ خراب کرنا ۔۔ یہ رائے جویریہ بیگم کی تھی ۔۔ جبکہ اسکا ماننا تھا کہ سبحان صاحب کے پاس دماغ نام کی کوئی شہ ہے ہی نہیں۔۔
“ارے بھئی دلہن تو نہیں بھاگ گئی ۔۔؟؟” کچھ پل ان کے بولنے کا انتظار کرنے کے بعد اس نے اپنا خدشہ ظاہر کر ڈالا ۔۔
“دلہن نہیں دلہا بھاگا ہے” ۔۔ دھیمی نسوانی آواز پر وہ ایک پل کو سٹپٹایا تھا ۔۔ “اماں” !! ان کی روہانسی آواز پر اس کی بچی کھچی شوخی بھی اڑن چھو ہوئی تھی ۔۔
“کیا بات ہے اماں؟” ۔۔ “دولہا بھاگ گیا ہے” ۔۔!! انہوں نے بھینچی آواز می چیخ کر اپنی بات دہرائی ۔۔ سن کر بھی وہ سمجھ نہیں پارہا تھا ۔۔ بس منہ کھولے ان کی بات ہضم کرنے کی کوشش کرتا رہا ۔۔
“سنا تم نے” !! وہ جھنجلائ تھیں ۔۔ سامنے کھڑے سبحان صاحب انہیں مدعا جلدی بیان کرنے کے اشارے دے رہے تھے ۔۔
“سن تو لیا لیکن سمجھ نہیں پا رہا” ۔۔وہ خود کو اس وقت کافی بونگا محسوس کر رہا تھا ۔۔ “پشتو نہیں بولی میں نے” ۔۔ سبحان صاحب بھننا اٹھے ۔۔فضول وقت ضائح نا ہو اس لیئے اس کی بکواس کے درمیان ہی وہ فون انہیں تھما چکے تھے لیکن ۔۔۔۔ جویریہ بیگم اور کچھ بھی کہنے والی تھیں مگر انہوں نے فون اپنے کان سے لگا لیا تھا ۔۔ جبک موبائل اب بھی ہاتھ میں ان ہی کے تھا ۔۔ وہ نو عمر دوشیزہ کی طرح جھینپ گئیں ۔۔ آس پاس چور نظر ڈالی ۔۔ تقریباً سب ہی ان کی جانب متوجہ تھے مگر “وجہ” کچھ اور تھی ۔۔
شرمندہ سی وہ اپنے شوہر کی جانب متوجہ ہوئ تھیں جوایک ہی سانس میں اسے صورتحال سمجھاتے دلہن کے گھر پیہنچنے کی التجا بھی کر رہے تھے ۔۔ جبکہ دوسری طرف جلدی جلدی جوگرز کے تسمے باندھتا وہ نا کے صرف انکاری ہو رہا تھا بلکہ صورتحال پر لطیفے بھی بنا بنا کر پیش کر رہا تھا ۔۔
“داود! تم آ رہے ہو یا نہیں” ؟ بری طرح عاجز آ کر وہ دہاڑے تھے ۔۔ جویریہ بیگم نے گھبرا کر پھر سے اطراف میں نظریں دوڑائیں ۔۔ مگر اگلے ہی پل بیزاری سے سر جھٹک گئیں ۔۔ جتنا تماشہ بننا تھا سبحان سعید کا اپنا بیٹا بنوا ہی چکا تھا ۔۔ بائک پر بیٹھتے ہوئے وہ قطیعت سے گویا ہوا تھا ۔۔ “نہیں” اور اگلے ہی پل فون آف کر کے جیکٹ کی جیب میں ڈال کر بائک اسٹارٹ کر چکا تھا ۔۔
“ہنہ ۔۔ میں ہی پاگل تھا جو اس سے امید لگا بیٹھا ۔۔ میرا اپنا بیٹا میرا غرور ۔۔۔ میرے سر میں خاک ڈلوا گیا ۔۔ ناک کٹوا گیا ۔۔ میرا مان توڑ گیا ۔۔ مجھے ۔۔۔۔۔۔۔” ۔
“ہوا کیا ہے” ؟ جویریہ بیگم کے بیزاری سے ٹوکنے پر انہوں نے بھی ناگواری سے گھورتے ہوئے استہزاہیہ انداز میں اسکا انکار ان کے گوش گزار کیا ۔۔
“تمہیں شوق ہوا تھا اپنے لاڈلے کے سامنے مجھے شرمندہ کروانے کا ۔۔ پہلے کبھی اس نے میرے رشتے نا سہی ۔۔ عمر کا بھی لہاز کیا ہے جو اب میری پکار پر بھاگا چلا آتا ۔۔ مزے لے رہا تھا کمینا ۔۔ میں تو” ۔۔ ”
وہ آتا ہی ہوگا ۔۔ آپ جلیل صاحب کو سنبھالیے ۔۔ میں زرا تہمینہ بہن کو دیکھ آئوں” ۔۔
“مگر اس نے انکار کیا ہے” ۔۔ ان کے بگڑ کر ٹوکنے پر وہ بڑے انداز سے پلٹی تھیں ۔۔
“جب اس کی ماں کہ رہی ہے وہ آ رہا ہے ۔۔ تو مطلب آ رہا ہے ۔۔ اب آپ مطمئین ہو جائیں اور خولہ کے تایا اور چاچا کو بھی مطمئین کریں” ۔۔ ان کے اشارے پر سبحان صاحب نے گردن گھمائی جلیل اور روحیل صاحب بگڑے تیوروں کے ساتھ ان ہی کی طرف آ رہے تھے ۔۔ ایک نظر خواتین کے لیئے مخصوص کمرے کی طرف بڑھتی بیگم کی پشت پرڈال کر گہری سانس خارج کرتے الفاظ ترتیب دینے لگے ۔
*****
“ایں ! کیا میرے سر پر سینگ نکل آئے ہیں” ؟
جوں ہی اس نے گھر کے مختصر سے صحن میں قدم رکھا تمام کی تمام منڈیاں اس کی اور گھومی تھیں ۔۔۔۔
کئی چہروں کو وہ جانتا تھا ۔۔۔ کئی انجان تھے ۔۔۔۔۔۔
مگر ان کا اس طرح دیکھنا اور پھر ایک دوسرے کے کان میں گھس کر بھنبھنانا ۔۔۔۔۔
وہ بلاوجہ بالوں میں انگلیاں چلانے لگا ۔۔۔۔
یہ اس کی الجھن کا اظہار تھا ۔۔۔۔۔
“آ گیا میرا بیٹا” ۔۔۔۔
بری طرح اچھل کر وہ مڑا تھا ۔۔۔۔
دائیں بائیں اور پیچھے دیکھ کر اس نے ہونق سی شکل بنا کے سبحان صاحب کو دیکھا تھا ۔۔
اور اس وقت تو بس مر جانے والا ہوگیا تھا جب انہوں نے بظاہر اسے سینے سے لگا کر در حقیقت بری طرح بھینچ لیا تھا ۔۔۔۔۔
وہ اونچا لمبا ہٹا کٹا جس حد تک بھی ان کے منخنی سے بازئوں میں سما سکا سما گیا ۔۔۔۔۔
سبحان سعید اسے کسی طور چھوڑنے کو تیار نہ ہوئے ۔۔۔۔
پیچھے سے وہ دو سپاٹ چہروں والے حضرات گلے کھنکار کھنکار کے انہیں متوجہ کر نے کی کوشش کرتے رہے لیکن وہ جس سے انہیں قطعی امید نہیں تھی ۔۔۔ ان کی ناک کا رکھوالا بن کر آیا تھا ۔۔۔۔
وہ یقین و بے یقینی اور سر خوشی کے عالم میں اس سے چپکے رہے ۔۔۔۔۔
“سنیے” !!!
کھنکار کھنکا کے بیزار ہو جانے والے جلال صاحب نے پر جلال انداز میں پکارا تو وہ قدرے اچھل کر پیچھے ہوئے تھے ۔۔۔ جھینپ کر ہنستے ہوئے انہوں نے جھلملاتی نظروں سے اسے دیکھا تھا ۔۔۔۔ جبکہ داود کو اس جھلملاہٹ و وارفتگی سے خوف محسوس ہوا تھا ۔۔۔۔۔ بے ساختہ پیچھے ہٹتا وہ بھاگ جانا چاہتا تھا کہ “بھائی بھائی” چیختا معاز اور صدقے واری ہوتی جویریہ بیگم دوڑے چلے آئے ۔۔۔ “بس !! لڑکا حاضر ہے جلال صاحب ۔۔۔۔۔ نکاح کی تیاری کی جیئے” ۔۔۔ سینہ پھلائے سبحان صاحب کی مسکراہٹ دیکھنے والی تھی ۔۔۔۔ “ہماری طرف سے تو تمام تیاریاں پوری ہی ہیں ۔۔ ہنہ” !! جلال صاحب پر لگتا تھا ان کے نام کا پورا اثر ہوا تھا ۔۔۔۔ “یہ ۔۔ یہ سب کیا ہے” ؟ صدماتی نظروں سے وہ جویریہ بیگم کو گھور رہا تھا جو اس کی طرف دیکھنے سے مکمل اجتناب کرتی اس کی شرٹ کے اوپری بٹن بند کر رہی تھیں ۔۔۔۔ اس کا خیال تھا شائد اسے ارباز کو ڈھونڈنے کے لیئے دوڑایا جائے گا ۔۔۔۔ مگر یہاں تو اس کی قربانی کی تیاری کی جا رہی تھی ۔۔۔ “امی !!! میں کوئی نو عمر دوشیزہ نہیں ہوں جو خاندان والوں کی عزت کے لیئے اپنی قربانی دے دوں” ۔۔۔۔۔ ان کے ہاتھ جھٹک کے وہ بری طرح بھنایا تھا ۔۔۔ “مگر وہ بیچاری بہت معصوم سی بچی ہے ۔۔۔ اگر تونے یہ زرا سا کمپرومائز نہیں کیا تو اسے ساری زندگی کے لیئے کمپرومائز کرنا پڑے گا ۔۔۔ جس کے بعد مجھے میرا ضمیر کبھی سکون نہیں لینے دے گا ۔۔۔ وہ گنجا دیکھ رہے ہو ؟ اس کی تائی کا بھائی ہے ۔۔۔ جوان بچوں کا باپ ہے ۔۔ اگر تم نہیں کروگے تو وہ اس شخص سے اس بچی کو بیاہ دیں گے ۔۔۔ وہ بیچاری یتیم مسکین بچی ۔۔۔ ماں اس سے بڑھ کر سیدھی ۔۔ کچھ کر بھی نہیں سکیں گی وہ ماں بیٹی سوائے صبر کے ۔۔۔ اور صبر کے دوران کے دوران اگر ان کے دل سے کوئی آہ نکل گئی تو ؟ مجھے اس آہ سے ڈر لگتا ہے” ۔۔۔۔
وہ سچ مچ بہت حساس ہو رہی تھیں جبکہ وہ عدم دلچسی سے انہیں سنتا آنکھوں ہی آنکھو میں سبحان صاحب کو کوئی چیلنج کر رہا تھا ۔۔۔۔ صبر کی آخری حد پر پہنچے سبحان صاحب ۔۔۔ جبراً مسکراتے رہے ۔۔ سر ہلاتے رہے ۔۔ جبکہ ان کی “آنکھوں کی گستاخیاں” ملاحظہ کرتا معاز دل کی گہرائی سے سب خیریت سے ہو جانے کی دُعائیں کر رہا تھا ۔۔۔ “آئیے” ۔۔۔ روحیل صاحب کچھ لوگوں کو ساتھ لیئے ان کے سر پہنچے تھے ۔۔۔
گہری سانس خارج کر کے داود نے ان تینوں کی پر امید نظروں کو دیکھا پھر لاچاری سے دونوں ہاتھ اٹھا کے رضامندی دے دی ۔۔۔
کیا آپ کو خولہ بنت کمال لغاری حق مہر بعوز پچاس ہزار قبول ہے ؟
“ہاں جی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قبول ہے”
******
“جواب دو ۔۔۔۔ خولہ” ۔۔۔ مولوی صاحب کے دوسری بار پوچھنے پر بھی جب گھونگٹ کے اس پار خاموشی ہی رہی تو عمارہ بیگم کا دل بیٹھبے لگا ۔۔۔۔ “خولہ” ۔۔۔۔ !!! ایک ہاتھ سے نرمی سے اس کی پشت سیلاتے دوسرا ہاتھ انہوں نے اس کے سجے سنورے ایک دوسرے میں جکڑے ہاتھوں پر رکھ کر اس کی ہمت بھی بندھائی تھى اس سے التجا بھی کی تھی ۔۔۔۔
ٹپ ٹپ ٹپ ۔۔۔۔ کئی آنسو ایک ساتھ ان کے بوڑھے ہاتھ کی پشت پر گرے تھے جبکہ انہیں اپنے دل پر گرتے محسوس ہوئے تھے ۔۔۔۔ “بس میری بچی’سب ٹھیک ہو گیا ہے” ۔۔۔۔ اس کا سر اپنے سینے سے لگاتی جویریہ بیگم کے لہجے میں کچھ ایسی حلاوت تھی کہ قدرے سنبھلتے ہوئے اس نے اپنے سر کو آہستگی سے اثبات میں جنبش دی تھی ۔۔۔ مولوی صاحب نے پھر سے اپنا سوال دوہرایا تھا ۔۔۔۔
“قبول ہے”
مبارک سلامت کے شور میں اس کی سسکیوں کی آوازیں دب چکی تھیں ۔۔۔۔ کوئی اسے اس طرح بھی رجیکٹ کر سکتا ہے یہ غم اسے شدید قسم کے احساسِ کمتری کا شکار کر رہا تھا ۔۔۔۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...