احمد تم کیا حرکتیں کرتے رہتے ہو یار؟ میں نے دیکھا تھا وہاں تمہیں، بک فیئر میں۔ کیا ضرورت تھی اس لڑکی کو تنگ کرنے کی؟ بتاؤ مجھے!” فہد نے گھر آتے ہی اس کی کلاس لی۔ وہ دونوں چھت پہ کھڑے تھے۔
“اس کے الفاظ کتنے تلخ تھے فہد! کسی نے مجھ سے ایسے بات کرنے کی ہمت نہیں کی مگر وہ مجھے میری اوقات دکھا گئی۔کتنی بڑی غلطی کی میں نے اس کے منہ لگ کے۔ صحیح کہہ رہی تھی وہ، مجھے واقعی عزت راس نہیں آتی، خود ہی اس سے بے عزتی کروانے چلا گیا۔” وہ کہیں اور ہی گم تھا۔
فہد نے اس کو کندھوں سے پکڑ کر جھنجھوڑا۔ “یار! تم وہ احمد نہیں ہو جسے میں اپنی جان، اپنا جگری یار کہتا تھا۔ کیا ہو گیا ہے تمہیں؟ تم ایسے تو نہیں تھے۔”
وہ احمد کو اس کا ماضی یاد دلا رہا تھا، “کتنے باکردار تھے تم احمد! سارا کالج تمہاری مثالیں دیتا تھا۔ ہر برائی کے خلاف تم ڈٹ کر کھڑے ہو جاتے تھے۔ علی تم پر فخر کرتا تھا۔ تایا اور تائی تمہاری تعریفیں کرتے نہیں تھکتے تھے۔ میں خود تمہارے اوپر رشک کرتا تھا کہ تمہارا اپنے رب سے کتنا گہرا اور مضبوط تعلق ہے۔ ایک باکردار، نیک، پرہیزگار اور نرم لہجے والا احمد چھوڑ کے گیا تھا میں۔ یہ فلرٹ،بدتمیز، انا پرست اور ہر برائی میں مبتلا احمد تو نہیں تھا وہ۔ کن لوگوں کے ساتھ رہنے لگے ہو تم؟” فہد اس سے پوچھ رہا تھا اور وہ خود کو کسی کچہری میں کھڑا محسوس کر رہا تھا۔ وہ ضمیر کی عدالت میں کھڑا کہہ رہا تھا،
“کن لوگوں کے ساتھ؟ عمر، شجاع، عبید، معیز۔۔۔ ان کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے لگا ہوں میں۔ بڑا خوش ہوں میں۔ ہر وہ کام کرتا ہوں جو مجھے مزہ دیتا ہے۔ ایک اجنبی سی راہگزر ہے فہد! جس پہ چل کر مجھے خوشی تو ملتی ہے، مگر سکون نہیں ملتا۔ ہاں فہد! ہر کام میں مزہ آتا ہے۔ مجھے کچھ پرواہ نہیں کہ ماں باپ پر کیا گزرتی ہے، بہن بھائی کس کرب میں مبتلا ہیں۔ خود غرض ہو گیا ہوں میں فہد، خود غرض!” وہ انگلیوں کے پوروں سے کنپٹی سہلانے لگا۔ “اب کچھ نہیں ہو سکتا فہد! میں جانتا ہوں، تم، علی، وریشہ، حرا، ماما، بابا، سب مجھ سے نفرت کرتے ہو اب۔ مگر اب میں نہیں بدل سکتا فہد! گناہوں کے دلدل میں گردن تک دھنس چکا ہوں میں۔ اب کوئی میرے لیے معافی نہیں خرید سکتا، کوئی نہیں۔” اس کا سر درد سے پھٹا جا رہا تھا۔ “تم سب مجھے چھوڑ دو گے اور میں اکیلا رہ جاؤں گا۔ نہیں بدل سکتا اب میں، نہیں بدل سکتا۔”
“احمد ریلیکس! ایسا کچھ نہیں ہونے والا۔ پاگلوں والی باتیں مت کرو۔ کوئی تم سے نفرت نہیں کرتا اور کوئی تمہیں اکیلا چھوڑ کے نہیں جانے والا۔ گناہگار سے نہیں، نفرت گناہ سے کی جاتی ہے اور کس نے کہا تم نہیں بدل سکتے؟ کس نے کہا معافی نہیں مل سکتی؟ میں تمہیں ت۔یارا ماضی یاد دلا رہا تھا تاکہ تم سوچو کتنے مطمئن تھے تب تم اور اب کیا حال بنا رکھا ہے تم نے اپنا۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت اس کے غضب پر حاوی ہے احمد! تم ہی کہا کرتے تھے ناں، توبہ کے دروازے کبھی بند نہیں ہوتے۔ پھر خود کیوں مایوس ہوتے یو؟ دوبارہ رجوع تو کرو اور یہ جو اجنبی راہگزر ہے ناں احمد! یہ بظاہر پھولوں بھری ہوتی ہے مگر اس پر چلنے والے کا انجام ہمیشہ کانٹوں بھرا ہوتا ہے۔ وقتی خوشی کے لئے اپنی آخرت مت خراب کرو بلکہ اُس کانٹوں بھری راہگزر کو چن لو جس کا انجام پھولوں بھرا ہو گا اور اپنی عاقبت سنوار لو۔” فہد اس کی حالت دیکھ کر اپنے آنسو ضبط کئے ہوئے تھا۔ کسی کے دوڑتے قدموں کی آواز سنائی دی اور علی بھاگتا ہوا آیا۔
“بھائی میں نہیں کرتا آپ سے نفرت! کون کہتا ہے آپ برے ہیں؟ آپ آج بھی میرے ہیرو ہیں، میرے قابلِ فخر بھائی۔ یہ سب چھوڑ دیں ناں آپ۔ میں پرانے احمد بھائی کو بہت مس کرتا ہوں۔” احمد نے دونوں کو سینے سے لگا لیا۔ آنسو اس کے گالوں پر لڑھک گئے۔
x———-x
“کیا ہوا علیزہ؟ موڈ خراب کیوں ہو گیا؟ ” سارہ نے پوچھا۔
“ایسے ہی یار! کوئی اچھی کتاب ہی نہیں ملی”
“حد ہے! اتنی سی بات پہ منہ بنایا ہوا ہے۔” وہ ہنس دی۔
گھر آ کر اس نے نماز ادا کی اور جلد ہی سونے لیٹ گئی۔ آج کا واقعہ اس کے دماغ میں گھومنے لگا۔
“میں نے کچھ غلط کیا ہے۔ مجھے شاید اس سے ایسے بات نہیں کرنی چاہیئے تھی۔ کوئی بھی کسی انجان شخص سے پہلی بار ملنے پر اتنی بدتمیزی نہیں کرتا۔ وہ بھی کیا سوچے گا کہ ساری حجابنیں ایسی ہی ہوتی ہیں، اکھڑ مزاج اور سڑیل!” اس نے سوچا۔
“چلو خیر ہے، اب مجھ سے بات کرنے کی ہمت نہیں کرے گا۔ اللہ کرے دوبارہ اس سے سامنا نہ ہو۔ ویسے بھی یونی کی چھٹیاں ہیں، پھر ایگزا۔ز اور پھر یونی لائف کا دی اینڈ!”
مگر اس کے گمان غلط ثابت ہونے والے تھے۔
x———-x
“یونی کی چھٹیاں ہیں ناں تمہاری احمد؟” فہد نے پوچھا۔
“ہاں!” وہ رات والے واقعے پر نادم تھا۔ کتنی عجیب و غریب باتیں کہہ دی تھیں اس نے فہد سے، اور علی نے بھی سن لی تھیں۔
“تو تم نے کیا سوچا، عبید، شجاع اور عمر کے بارے میں؟”
“کون عبید؟ کون عمر؟ میں نہیں جانتا۔ کس شجاع کی بات کر رہے ہو تم فہد؟” فہد مسکرا دیا۔پہلا قدم بڑھا چکا تھا وہ اپنی منزل کی جانب۔۔۔
x———-x
نیند اس کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔ اس لڑکی کے الفاظ احمد کے کانوں میں گونج رہے تھے۔
” اگر دل صاف نہ ہو تو چمکتا چہرہ کسی کام کا نہیں ہوتا۔”
“آپ جیسے لوگوں کی کوئی عزت نہیں ہوتی۔”
اسے لگا وہ لڑکی کسی وجہ سے اس سے نفرت کرتی تھی۔ کوئی چیز تھی جو اسے کھٹک رہی تھی۔ وہ تو اس لڑکی کو نہیں جانتا تھا، مگر اس کا انداز۔۔۔۔ وہ بدظن ہوا تھا۔
x———-x
خود کو بدلنا آسان نہیں ہوتا۔ فہد چار سال بعد واپس آیا تھا اور ان چار سالوں میں احمد کی زندگی مکمل طور پر بدل گئی تھی۔ وہ ہر وقت اپنے دوست کو یاد کرتا رہتا۔ یونیورسٹی میں اس کی دوستی جن لڑکوں سے ہوئی وہ عمر اور شجاع جیسے تھے، بدکردار، چھچھورے، نشئی،فلرٹ اور آوارہ۔
جب انسان کسی لوہار سے دوستی کرتاہے تو لوہار کی بھٹی اس کے کپڑوں کو جلا دیتی ہے یا کم از کم وہ اس سے بدبو ضرور پاتا ہے۔ برے لوگوں کی صحبت میں رہ کر آہستہ آہستہ وہ بدلتا گیا۔ ان چار سالوں میں وہ اتنا بدل گیا کہ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ یہ وہی محمد احمد ہے جو اپنے کردار کی بدولت ہردلعزیز ہوا کرتا تھا۔
اپنے کارناموں کی وجہ سے اکثر اسے اپنے ماں باپ سے کھری کھری سننی پڑتی مگر اب اسے کچھ اثر نہ ہوتا۔ ہر دفعہ کوئی نیا بہانہ بناتا، کسی نہ کسی طرح انہیں مطمئن کر دیتا۔ کتنی ہی دفعہ کہہ چکا تھا کہ آئندہ نہیں کروں گا مگر یہ عزم صرف زبانی جمع خرچ یوتا۔ لیکن علی کی باتوں نے اسے ہلا کر رکھ دیا تھا۔ تب پورے چار سال بعد اسے احساس ہوا تھا کہ وہ جو کر رہا ہے، وہ بالکل غلط ہے۔ اپنی غلطی کا اعتراف کیا اس نے مگر صرف احساس ہو جانے اور احساس کر لینے سے بات نہیں بنتی۔ خود کو بدلنا پڑتا ہے۔۔۔ گناہوں کی دلدل سے نکلنا کوئی آسان کام نہیں۔۔۔ ہر غلط کام میں لذت ہوتی ہے، کشش ہوتی ہے اور جب ایک بار گناہ کا مزہ مل جائے، چسکا لگ جائے تو ان سے بچنے کے لئے جی کو مارنا پڑتا ہے، خواہش کو کچلنا پڑتا ہے۔
رہی بات اس لڑکی کی، تو یہ احمد کی سمجھ سے بھی باہر تھا کہ اس میں ایسا کیا تھا جو وہ اس کی طرف کھنچتا چلا گیا۔ اس کے دوست جب بھی کسی لڑکی کو تنگ کرتے تو وہ بس پیچھے بیٹھ کر انجوائے کرتا تھا۔ اسے کبھی ان لڑکیوں میں دلچسپی تھی ہی ہ
نہیں مگر کل پہلی بار وہ خود کسی لڑکی سے متاثر ہوا تھا۔
وہ لائٹ آف کر کے اپنے بستر پہ اوندھے منہ پڑا تھا۔ وہ لڑکی اس کے ذہن سے نکل ہی نہیں رہی تھی۔ اس لڑکی کی باتیں اسے کتنی ہی بری لگی تھیں مگر ان میں سچائی تھی۔ وہ کتنی ہی دیر سوچتا رہا اور آخر اسے معلوم ہو گیا کہ اسے اس لڑکی کے کردار نے متاثر کیا تھا بالکل اسی طرح جس طرح لوگ کبھی احمد کے کردار سے متاثر ہوا کرتے تھے۔ محمد احمد کے بے داغ کردار سے!
وہ خاصا ہینڈسم اور ڈیشنگ تھا اور اس دن تو کچھ زیادہ ہی اسمارٹ لگ رہا تھا۔ اگر وہاں کائی اور لڑکی ہوتی تو یقیناً وہ اس پہ فدا ہو جاتی۔
(یا شاید یہ اس کی خوش فہمی تھی) لیکن اس لڑکی نے نہ صرف اسے اگنور کیا، بے وجہ سنایابلکہ اپنا نام تک نہیں بتایا۔
“اف! یہ چڑیل تو میرے سر پہ سوار ہو گئی ہے۔ مجال ہے جو آئندہ میں نے کسی لڑکی سے بات کی۔ مجھے بھی کیا موت آ رہی تھی کہ اس کھڑوس لڑکی سے ملنے گیا، مفت میں بے عزتی بھی کروا لی۔ لوگ تھوڑے ‘نیک’ کیا ہو جائیں، دوسروں کو ‘کافر’ سمجھنے لگتے ہیں۔ ہونہہ! آپ جیسے لوگوں کی کوئی عزت نہیں ہوتی۔” اس نے منہ بنا کر اس کی نقل اتاری اور سر جھٹک کر سونے کی کوشش کرنے لگا۔ جو بھی تھا، وہ اس لڑکی سے دوبارہ نہیں ملنا چاہتا تھا۔ وہ اس سے متاثر ضرور ہوا تھا مگر وہ اسے ‘اچھی’ نہیں لگی تھی۔
x———-x
“میں نے نماز روزی تو نہیں چھوڑا تھا۔ اتنا گیا گزرا نہیں ہوں میں!” وہ فہد کے سامنے صفائیاں پیش کر رہا تھا۔
“مذہب سے جب انسانیت اور خدمت نکل جائے تو صرف عبادت رہ جاتی ہے اور محض عبادت کے لئے پروردگار کے پاس فرشتوں کی کمی نہیں ہے.” فہد مسکراتے ہوئے بولا۔
“تو میں بدلنا چاہ تو رہا ہوں۔ ” وہ منہ بنا کر بولا۔
“احسان ہے آپ کا! بدلنا چاہ تا رہا ہوں ناں۔ آئے بڑے، ابھی تمہارے ہی کمرے سے آیا ہوں۔ اف یار! تم سوچ نہیں سکتے کیسے برداشت کیا ہے میں نے۔” فہد نے اسے گھورا۔
وہ ماتھے پہ ہاتھ مار کے بولا،” پتہ نہیں کون الو کا پٹھا میرے کمرے میں سگریٹ پی رہا تھا۔ میرا بھی بڑا برا حال تھا، قسم سے!سانس بھی نہیں آرہی تھی.”
“ہاں ہاں! آپ تو رہے دنیا کے سب سے شریف انسان۔ مجال ہے جو کبھی امیدوں پر پورا اتر آؤ۔” وہ خفا ہوا۔
“سوری ناں یار! کوئی جادوئی چھڑی ہوتی میرے پاس تو میں وقت کے پہئیے کو گھما دیتا۔” اس نے مظلومیت سے جواب دیا۔
“خیر ہے، چلو اب تو میں تمہارے ساتھ ہی رہوں گا۔ سیدھا کر کے رکھوں گا۔” فہد انتہائی خوش گوار انداز میں بولا تھا۔
ہاں ہاں مولوی صاحب!… ایک منٹ ایک منٹ، کیا کہا تم نے؟؟””
فہد کی مسکراہٹ مزید گہری ہو گئی۔ کمال بے نیازی سے بولا، “میں نے کیا کہا؟۔۔۔۔ اتنا حیران ہونے والی کون سی بات ہے؟ یہ تو پہلے سے ہی طے تھا کہ پہلے میں آؤں گا پھر ماما پاپا اور ہم اب یہیں رہیں گے، تم لوگوں کے ساتھ!”
احمد کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔ “فہد خان! اتنی بڑی بات تم نے مجھ سے اتنے دن چھپائے رکھی، میں تمہیں کچا چبا جاؤں گا۔” اس نے دانت کچکچائے اور فہد کو مارنے کیلئے لپکا۔
“کیچ می اف یو کین!” فہد نے صوفے سے چھلانگ لگائی اور باہر کی طرف دوڑا
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...