اپنے حالیہ کالم لکھتے ہوئے میرے پیش نظر پہلی بات یہی ہے کہ وطنِ عزیزمیں مغربی دنیا کی عام زندگی سے متعلق جو غیر ضروری غلط فہمیاں پھیلائی گئی ہیں ان کے سامنے تصویر کا دوسرا رخ بھی پیش کیا جائے۔ بہتر زندگی سے بہترین زندگی کا سفر دھرتی پر سب سے پہلے انسان کی زندگی سے ہی شروع ہے اور اس دھرتی پر آخری انسان کی موجودگی تک یہ سفر جاری رہے گا۔ مغربی مفکرین خود اپنے معاشرے کی خامیوں اورخرابیوںکی نشان دہی کرتے رہتے ہیں۔ان کا مقصد یہی ہوتا ہے کہ ہمارا اچھا معاشرہ مزید اچھا ہو سکے۔ہم اس معاشرہ پر تنقید کرتے ہوئے تب اچھے لگتے ہیں جب ہم سماجی سطح پر ہر شہری کو بنیادی ضروریات اور بنیادی انسانی حقوق مہیا کر دیں۔اس معاملہ میں ہم ابھی مغربی دنیا سے صدیوں پیچھے ہیں۔
مغربی دنیا میں جنسی آزادی کا جو تصور ہے وہ ان کے معاشرے کی اپنی پیش رفت ہے۔وہ اسے گناہ نہیں سمجھتے اور گناہ نہ سمجھ کر جو کچھ کرتے ہیں،اطمینان سے کرتے ہیں ۔ہمارا معاملہ یوں ہے کہ ہم گناہ کو گناہ مانتے ہیں اور پھر بھی چوری چھپے اس کا ارتکاب کرنے کے لیے موقعہ کی تاک میں رہتے ہیں،ان دونوں رویوں کو ایک اور زاویے سے بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ ہم لوگ گناہ کرتے ہیں تو اسے بہر حال گناہ سمجھتے ہیں اور اپنی کمزوری کے باعث اس کا ارتکاب کرتے ہیں۔جبکہ مغربی دنیا گناہ کو گناہ مانتی ہی نہیں۔اپنی شخصی آزادی قرار دیتی ہے۔اس بات سے دو سادھووں کا قصہ یاد آگیا۔دو سادھو کسی سفر پر جا رہے تھے،رستے میں ایک بڑی نہر آگئی۔ انہوں نے دیکھا کہ وہاں ایک نوجوان لڑکی نہر پار کرنے کی غرض سے پریشان کھڑی ہے۔ایک سادھو نے لڑکی سے کہا کہ تم میرے کندھے پر بیٹھ جاؤ میں تمہیں بھی نہر پار کرا دیتا ہوں۔لڑکی اس کے کندھے پر بیٹھ گئی۔نہر کے دوسرے کنارے پر جا کر سادھو نے لڑکی کو اتار دیا۔وہ اپنی منزل کی طرف روانہ ہو گئی اور دونوں سادھو اپنے سفر پر چل نکلے۔دوسرا سادھو بڑی دیر تک خاموشی کے ساتھ چلتا رہا۔کافی دیر کے بعد اس نے زبان کھولی تو پہلے سادھو سے کہنے لگا ہم سادھو ہیں ہمیں تو ناری کو چھونا منع ہے لیکن تم نے ایک نوجوان ناری کو کندھے پر اٹھا لیا۔اس پر پہلے سادھو نے مسکرا کر کہا میں نے تو اس ناری کو دوسرے کنارے پر پہنچتے ہی اتار دیا تھا لیکن لگتا ہے تم نے ابھی تک اسے اپنے کندھے پر سوار کر رکھا ہے۔نہ مغربی دنیا والے سادھو ہیں،نہ ہم سادھو ہیں۔اس کے باوجود جنسی معاملات میں ان کا رویہ یہ ہے کہ وہ دوسرے کنارے پر اسے اتار کر برق رفتارزندگی میں اپنے اپنے منصبی فرائض میں جٹ جاتے ہیں،جبکہ ہم ان معاملات کو اپنے کندھوں پر اس حد تک سوار کیے رکھتے ہیںکہ فرائض منصبی کے دوران بھی یہی خیالات ہمارے ذہنوں پر مسلط رہتے ہیں۔
یہاں آنے والے جنوبی ایشیائی بالعموم اور پاکستانی بالخصوص جب نئے نئے پہنچتے ہیں تو یہاں کی چکا چوند سے پوری طرح لطف اندوز ہوتے ہیں۔نہ صرف لطف اندوز ہوتے ہیں بلکہ اپنے قریبی دوستوں میں بیٹھ کر اپنی” فتوحات “کا ذکر فخریہ انداز سے کرتے ہیں۔ تب ان لوگوں کو نہ اپنے کلچر کی یاد ستاتی ہے، نہ اسلامی احکامات یاد آتے ہیں لیکن جب ان کی اپنی اولاد جوان ہونے لگتی ہے اور وہ بھی مغربی کلچرکے مطابق زندگی گزارنے کی طرف مائل ہوتی ہے تو پھر ایسے” فاتحین“کوکبھی اپنا کلچر یاد آنے لگتا ہے اور کبھی اسلامی احکامات پر عمل کرنے کا احساس جاگنے لگتا ہے۔ اور ساتھ ہی غشی یا دل کے دورے پڑنے لگ جاتے ہیں۔اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ ہم ڈبل سٹینڈرڈز سے کام لیتے ہیں۔
مغرب میں مقیم جنوبی ایشائیوں میں بہت سے ایسے لوگ ملتے ہیں جنہیں یہاں کے بعض قوانین سے سخت شکایات ہیں۔یہاں کی مفت ملنے والی سہولیات کا ذکر بھی ایسے کریں گے جیسے انہیں قبول کرکے مغربی دنیا پر احسان کر رہے ہوں۔ میرے سامنے جب بھی کسی عزیزیا دوست نے اس انداز کی شکایت کی، میں نے ایک ہی بات کی۔کیا تمہیں اس ملک والوں نے دعوت دے کر اپنے ہاں بلایا تھا؟یہاں اتنے ہی دکھی ہو تو واپس کیوں نہیں چلے جاتے؟ ۔یہاں مجھے وہ ٹیکسی ڈرائیور یاد آگیا جسے نائن الیون کے بعد امریکہ میں گرفتار کر لیا گیا تھا امریکی حکومت اسے پاکستان واپس بھیجنا چاہتی تھی۔تب اس نے اپیل کی تھی کہ بے شک اسے ساری زندگی قید میں رکھیں لیکن میرے ملک میں واپس نہیں بھیجیں۔
جلا وطن حکومتوں کا دوسرے ممالک میں قائم کیا جاناسمجھ میں آتا ہے لیکن پاکستان شاید واحد ملک ہے جس کی تمام سیاسی جماعتوں کی شاخیں بیرون ملک بھی قائم ہیں۔نتیجہ یہ ہے کہ یہاں پر ہر کوئی اپنی اپنی سیاسی جماعت کی ڈفلی بجا رہا ہے۔قومی یکجہتی اور پاکستانی کی حیثیت سے اتحاد و اتفاق والی کوئی بات نہیں ہے ۔ہر کوئی اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنا کر بیٹھا ہے۔انڈیا کے لوگ یہاں جب بھی سرگرم ہوتے ہیں انڈین کمیونٹی کی حیثیت سے سرگرم ہوتے ہیں۔یہاں انڈیا کی کسی سیاسی جماعت کی شاخ نہیں ہے۔شاید ہمارے سیاسی شعور کی ارزانی ہے یا پھر مفاد پرستی کے کئی مختلف پہلووں کی ہم آہنگی ہے کہ یہاں پاکستان کی ہر سیاسی جماعت کی برانچ کھلی ہوئی ہے ہر پارٹی کے عہدیدار مل جائیں گے بس خالص پاکستانی ڈھونڈنے کے لیے مشکل پیش آئے گی۔ مغربی دنیا میں حکومت پاکستان کا موقف درست طور پرپہنچ نہ پانے کی متعدد دیگر وجوہات اپنی جگہ بجا۔۔۔لیکن ایک وجہ یہ بھی ہے کہ یہاں کے سفارتخانے مقامی سیاسی جماعتوں کے دباؤ میں رہتے ہیں۔انہیں ایک حد تک بر سر اقتدار جماعت کے عہدیداروں کو نوازنا ہوتا ہے تو دوسری طرف دوسرے پریشر گروپس کو بھی خوش رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔اس ساری کھینچا تانی میں اہم قومی مفادات پس پشت چلے جاتے ہیں اورسیاسی جماعتوں کے عہدیداروں اور سفارتی عملہ کے درمیان مقامی و ذاتی مفادات کے حصول کی دوڑ جاری رہتی ہے۔
بیرون ملک پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں کی شاخیں ختم کرنے سے شاید قومی یکجہتی کی کوئی صورت سامنے آجائے۔ کیا پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں ایسا کرنا چاہیں گی؟اپنی سیاست پر قومی یکجہتی کو ترجیح دینے میں کم از کم ویسا رویہ اختیار کریں گی جیسا انڈیا کی سیاسی جماعتوں نے مغربی دنیا میں اختیار کر رکھا ہے۔وہاں ان کی کوئی سیاسی برانچیں نہیں ہیں۔
روزنامہ مقدمہ کراچی مورخہ ۔۔۱۷جنوری ۲۰۱۰ء
روزنامہ ہمارا مقصد دہلی مورخہ۲۰جنوری ۲۰۱۰ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔