احسان احمد تقریباً تین ماہ بعد گاؤں آئے تھے۔ جب بھی آتے سجاد حسین کے گھر ہی رکتے۔ سجاد حسین دو دن خوب خاطر مدارت کرتا پھر شہر واپس چلے جاتے۔
” تمہارا بیٹا ہے نا سرور۔۔۔ ملا تھا مجھے وہ” احسان احمد نے کوئلے والی چائے سے لطف اندوز ہوتے ہوئے کہا۔
” سرور؟؟ کہاں ملا وہ تمہیں؟” سجاد نے پوچھا۔
” یونورسٹی کے باہر۔۔۔ میں اپنی بیٹی کو چھوڑنے گیا یونی ورسٹی تو پتہ چلا کہ میری بیٹی کے ساتھ ہی پڑھتا ہے وہ۔” احسان احمد نے بتایا۔
” یہ تو بہت اچھی بات ہے۔ ” سجاد حسین نے کہا۔
” بھائی صاحب۔۔۔ آپ کو عجیب نہیں لگتا؟ لڑکیوں کو یونی۔۔۔ پتہ نہیں آگے کیا کہتے ہیں۔۔ رسٹی ۔۔ ہیں یونی رسٹی بھیجتے ہوئے؟”
سکینہ نے پوچھا۔
” زمانہ بدل گیا ہے سکینہ بہن۔۔۔ اچھی تعلیم ہوگی تو اچھے رشتے آئیں گے۔ مستقبل محفوظ ہوگا۔ اپنے ہاتھ میں ڈگری ہوگی تو کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلانا ہوگا۔ خود کما سکتی ہیں۔ وقت کا کچھ پتہ نہیں ۔۔۔ کیسا وقت کب آجائے انسان پر۔ اس لیے تعلیم اور اچھی تعلیم ضروری ہے۔”
احسان احمد نے کہا۔
” ارے رشتا تو گھر میں موجود ہے۔ تم پریشان کیوں ہوتے ہو بچیوں کے رشتے کے لیے۔۔۔ میرا سرور ہے نا ۔۔ دونوں کا رشتا کر دیتے ہیں۔ چچا زاد بھائی تو ہم پہلے سے ہیں ہی۔۔۔ سمدھی بھی بن جائیں گے ۔”
سجاد حسین نے پرجوش انداز میں کہا۔
” نہ نہ۔۔۔ سجاد ۔۔ ایسا سوچنا بھی مت۔ کہاں میری بیٹی۔۔۔ اور کہاں سرور۔”
احسان احمد نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے کہا۔
” ارے بھائی صاحب کیا کمی ہے میرے سرور میں؟” سکینہ کو برا لگا۔
” دیکھو سجاد۔۔۔ میری بیٹی ۔۔۔ بہت پیاری ہے۔” احسان احمد نے کہا۔
” ہاں تو ہمارا سرور بھی شہزادہ ہے شہزادہ ۔۔۔ شکل میں اُس کے جوڑ کا کوئی نہیں پورے خاندان میں۔ ” سجاد حسین نے کہا۔
” ہاں لیکن۔میری بیٹی پڑھی لکھی ہے۔اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہی ہے بہت بڑے تعلیمی ادارے سے۔ بہت قابل ہے وہ۔ ” احسان احمد نے کہا۔
” ہاں تو سرور بھی اسی ادارے میں پڑھ رہا ہے۔” سکینہ نے کہا۔
” ارے بھئی۔۔۔ تم دونوں میری بات نہیں سمجھ رہے۔۔۔ میری بیٹی کے لیے آئے دن کسی سرکاری افسر کے بیٹے کا۔۔۔ یاں کسی بزنس مین کے بیٹے کا رشتا آتا ہے۔۔۔ لیکن عبیر سارے رشتے ٹھکرا چکی ہے۔ اُس کا معیار بہت اونچا ہے۔ اور میں بھی کسی بہت بڑے خاندان میں اس کی شادی کا خواہ ہوں۔ تم لوگ اسے دیکھو گے تو خود ہی سمجھ جاؤ ہے کے وہ محلوں کی حقدار ہے۔”
احسان احمد نے کہا۔
” تو اتنا بڑا گھر تو ہمارا بھی ہے بھائی صاحب۔۔۔ دیکھ لیں آپ ۔۔ اور خاندان تو ہمارا اور آپ کا ایک ہی ہے ‘” سکینہ نے کہا۔
احسان احمد اُن کی سادگی سے پریشان ہوگئے تھے۔۔ کیسے سمجھتے کے وہ عبیر کے لائق سرور کو سمجھتے ہی نہیں تھے۔۔۔ وہ تو عبیر کی شادی كسی بہت بڑے بزنس مین سے کرنا چاہتے تھے ۔۔ اور اُنہیں پورا یقین تھا کہ ایسا رشتا ضرور آئے گا عبیر کے لیے۔
____________
گناہ کے بعد جو ندامت ہوتی ہے ۔۔۔ عبیر احسان پچھلے تین دن سے اس ندامت میں گھری ہوئی تھی۔
وہ یونی ورسٹی نہیں گئی تھی ان تین دنوں میں۔ بس کمرے میں بند تھی۔
کبھی محبوب کی قربت کا خمار چڑھ جاتا تو کبھی گناہ کی ندامت۔ کبھی رو رو کر اپنے گناہ کی معافیاں مانگتی تو کبھی اُن لمحوں کو سوچتی۔ موبائل بھی آف کر رکھا تھا اُس نے۔
وہ نیکی اور بدی کے بیچ میں تھی۔
نہ مکمل طور پر گناہ گار ہو پا رہی تھی نہ پارسا۔۔۔
کبھی گناہ کی لذت کا سوچتی۔۔۔ تو کبھی گناہ کے عذاب کا۔۔۔
لذت اور عذاب کے بیچ میں پھنسی ہوئی عبیر احسان کا اونٹ کسی ایک کروٹ نہیں بیٹھ رہا تھا۔
نہ خدا چھوڑ پا رہی تھی نہ محبت۔۔۔
تنگ آکر اُس نے موبائل آن کیا اور شہیر شیرازی کو کال کی۔
شہیر شیرازی جانتا تھا کہ ابھی کچھ دن پھر وہ رابطہ نہیں کرے گی۔۔۔ پھر کر لے گی۔ کیوں کے وہ اُسے گناہ کی لذت چکھا چکا تھا۔
” میں آپ سے نکاح کے لیے تیار ہوں۔ آپ آج شام مجھے لے جائیں۔ مجھے اپنے ساتھ جائز رشتے میں باندھ دیں بس۔۔۔ میں ایسے نہیں رہ سکتی۔ آگے جو ہوگا دیکھا جائیگا۔”
عبیر نے سلام دعا کے بغیر ہی کہا۔
” میں تم سے نکاح نہیں کر سکتا اب۔”
شہیر نے کہا تو عبیر کو سانس لینے میں دشواری ہونے لگی تھی۔
” کیا مطلب؟” عبیر نے تصدیق چاہی۔
” وہ ۔۔۔ میرا مطلب ہے کہ ۔۔۔ میں چھپ کر تم سے نکاح کرنا نہیں چاہتا اب۔۔۔ میں ڈنکے کی چوٹ اور تم سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔ اور اپنے گھر والوں کو منا لونگا۔ مجھے وقت چاہیے۔ ”
شہیر کو فوراً احساس ہوا کے وہ غلط بول گیا ہے اُس نے اگلے ہی پل بات سنبھال لی۔
” اچھا ۔۔۔ ٹھیک ہے ۔۔” عبیر نے کہا اور کال کاٹ دی۔
” جو چیز مفت میں مل رہی ہو ۔۔ اُس کے لیے نکاح کی زحمت کیوں اٹھاؤں۔۔۔”
شہیر شیرازی نے موبائل بیڈ پر پھینکتے ہوئے کہا۔
___________
اگلے دن وہ یونی میں تھا کہ سرور اُس کے پاس آیا۔
” شرافت سے یونی ورسٹی چھوڑ دے ورنہ وہ حشر کروں گا کے اپنے آپ کو بھی آئینے میں پہچان نہیں پائے گا۔”
سرور نے اس کے جبڑے کو زور سے اپنے مضبوط ہاتھ میں لیتے ہوئے دھمکی دی۔
” تم ہوش میں تو ہو؟” شہیر نے خود کو چھڑاتے ہوئے کہا۔
” ہاں ہوش میں ہوں۔ اپنی ہی شاگرد کے ساتھ بےحیائی کرتے ہوئے موت نہ آئی تُجھے( گالی) آئندہ اگر تو مجھے اس مقدس مقام پر نظر آیا تو تیرے ٹکڑے ٹکڑے کر کے کتوں کو نہ کھلا دیا تو سرور نام نہیں میرا۔۔۔ ( گالی) تو کیا سمجھتا ہے کہ کسی کو کچھ خبر نہیں؟ سرور کی ہر خبر پر نظر ہوتی ہے۔ لڑکی کو خالی کلاس روم میں بلاتا ہے ( گالی) سب دیکھ لیا تھا میں نے۔ اب اپنا بوریا بستر یہاں سے گول کر ورنہ تیری قبر بھی نہیں ملے گی تیرے وارثوں کو ۔”
اس بار اُس کا گلا دباتے ہوئی سرور بولا۔
اُس کی گرفت شہیر شیرازی کے گلے میں اتنی مضبوط تھی کہ قریب تھا کے وہ مر جاتا۔
تھوڑی دیر میں سرور نے اُس کا گلا چھوڑ دیا اور وہاں سے چلا گیا۔
شہیر شیرازی اب برے طریقے سے کھانس رہا تھا اپنا گلا رگڑتا ہوا۔۔۔
مرتا کیا نہ کرتا ۔۔۔ شہیر شیرازی نے یہ جاب چھوڑ دی۔۔۔ اُسے اپنی جان پیاری تھی اور سرور کے ارادے خطرناک۔
_______________
شہیر شیرازی نے یورنیورسٹی تو چھوڑ دی تھی لیکن عبیر احسان کو نہیں چھوڑا تھا۔
اُس دن کے بعد عبیر اُس سے تنہائی میں نہ ملی تھی۔
بس فون کال پر بات ہوتی تھی۔
کبھی کسی پبلک پلیس میں مل لیتے تھے لیکن تنہائی میں نہیں۔۔۔ شہیر کی پوری کوشش کے باوجود بھی وہ تنہائی میں نہیں ملی۔
بار بار غلطی کرنے والوں میں سے وہ نہیں تھی ۔ ایک ہی غلطی سے سبق حاصل کرنے والوں میں سے تھی۔
لیکن سب سے بڑی غلطی تو اس انسان پر اعتماد تھی ۔۔۔ یہ غلطی اُسے نظر نہیں آرہی تھی۔
دیکھتے دیکھتے چار سال گزر گئے۔
اُس دوران شہیر نے اپنی کزن سے منگنی کر لی۔۔
” مام ڈیڈ کو چپ کروانے کے لیے منگنی کی ہے۔ شادی تم سے ہی کروں گا۔” شہیر کا جواب۔۔ عبیر کا اعتبار ۔۔
کبھی ہوٹلوں میں ملنا۔۔۔ کبھی پارک میں۔۔۔ ملنے کا یہ سلسلہ چلتا رہا ۔۔۔
شہیر شیرازی کے نکاح کا وعدہ چار سال سے وفا نہ ہوا۔۔۔
کیسے کیسے رشتے آتے گئے ۔
پڑھائی کا بہانہ کر کے عبیر ٹالتی رہی۔
لیکن اب تو پڑھائی بھی مکمل ہوگئی تھی۔
ایک دن وہی ہوا جو احسان احمد نے سوچ رکھا تھا۔
شہر کے ایک بزنس مین کے اکلوتے بیٹے کا رشتا آگیا عبیر کے لیے۔ پاب بزنس مین تھا اور بیٹے نے حال ہی میں باپ کا بزنس جوائن کیا تھا۔
احسان احمد کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا۔ خاندان بھی شرفا کا تھا۔ بس لڑکے کی شکل کچھ خاص نہ تھی۔
عبیر کو شکل کا بہانہ مل گیا۔
” کیا کرنا ہے شکل کا تم نے؟ اچھا خاصا قبول صورت تو ہے۔ لڑکے تو ایسے ہی ہوتے ہیں۔” سعدیہ نے کہا۔
” امی ۔۔۔ مجھے نہیں پسند ” وہ بیزاری سے بولی۔
” عبیر تم حسین ہو اس کا یہ مطلب نہیں کہ دوسروں کی شکل کا مذاق بناؤ۔” سدرہ نے ٹوکا۔
” ایسی بات نہیں۔ بس میرا دل نہیں ” وہ کہتی ہوئی بیڈ پر اوندھی لیٹ گئی
” مجھے سمجھ نہیں آتی کے آخر آپ اس سے پوچھتے ہی کیوں ہیں امی؟ اسے جلدی چلتا کریں یہاں سے تو میرا بھی کوئی رشتا آئے۔ دکھ ہوتا ہے امی مجھے۔۔۔” سدرہ رونے کو تھی۔
بحث طویل ہوتی چلی گئی۔۔۔
نتیجہ وہی ۔۔ انکار ۔۔۔ بھوک ہڑتال ۔۔۔
احسان احمد نے بہانہ بنا دیا۔۔۔ پہلے بڑی بیٹی کا رشتا ہو جائے پھر چھوٹی کے متعلق سوچیں گے ۔۔
” آپ سوچ لیں ہمیں کوئی جلدی نہیں ۔۔۔ ہمیں آپ کی لڑکی پسند ہے ۔۔ ہم انتظار کر لینگے۔”
لڑکے کی ماں کا جواب۔۔۔ یہ رشتا پینڈنگ میں چلا گیا ۔۔۔
وقت گزرتا گیا۔۔۔ عبیر کی ذہنی حالت بگڑتی چلی گئی۔
شہیر شیرازی نہ عبیر کو اپنا پا رہا تھا نہ چھوڑ پا رہا تھا ۔۔۔ وہ بھی پاگل ہوا جا رہا تھا اب۔
جب اس نے پہلی مرتبہ عبیر کو دیکھا تھا تو اُسے استعمال والے خانے میں رکھ دیا تھا
پھر جب اسے جان گیا تو اس کی سوچ بدل گئی۔
جب عبیر نے تنہائی میں ملنے سے انکار کیا اور بات بند کی تو اُسے قدر ہوئی۔۔۔
اس بات کے بعد شہیر شیرازی نے اُسے استعمال والے خانے اسے فوراً نکال دیا۔۔۔ اُسے شادی والے خانے میں رکھ دیا۔۔۔
خود شریف ہو نہ ہو ۔۔۔ لڑکی شریف چاہیے سب کو۔۔۔
وہ شادی کا سوچ بیٹھا۔۔۔ والدین سے ملوایا ۔۔
لیکن دونوں ۔۔۔ ہاں دونوں کو ایک کمزور لمحہ لے ڈوبا اسی دن۔۔
نہ عبیر بہکتی ۔۔ نہ شہیر کا فیصلہ بدلتا ۔۔۔
بہکنے سے پہلے تک۔۔ شہیر شیرازی کا فیصلہ نکاح تھا۔
بہکنے کے بعد شہیر کا فیصلہ بدل گیا ۔۔
اُس نے عبیر احسان کو پھر سے شادی والے کھانے سے نکال کر استعمال والے خانے میں رکھ دیا تھا۔۔
اپنے کردار کی تمام تر غلاظتوں کو نظر انداز کرتے ہوئے شہیر شیرازی نے عبیر کو بدکردار تصور کر لیا تھا۔
پر اب پھر سے اُس کی سوچ بدلنے لگی تھی۔ جب چار سال کی مستقل کوشش کے باوجود عبیر تنہائی میں نہ ملی۔۔۔ اب پھر سے وہ خانہ بدلنے کا سوچ رہا تھا۔۔۔ شہیر شیرازی اسے ایک بار پھر سے اُسے شادی والے خانے میں رکھ چکا تھا۔
لیکن یہ کیا ۔۔۔ بلاک۔۔ ہر جگہ سے بلاک ۔۔ رابطہ اچانک ختم ۔۔۔ ؟؟!
نہ کوئی جگھڑا ۔۔ نہ غلط فہمی ۔۔۔ پھر کیوں؟ عبیر نے رابطہ اچانک ختم کر دیا تھا؟؟؟
اُس نے سوچا وقتی ہے یہ ۔۔ لیکن ایک ماہ ۔۔۔ دو ماہ ۔۔ چار ماہ۔۔
نہیں نہیں۔۔۔ وہ مجھے نہیں چھوڑ سکتی۔۔ ایسے کیسے چھوڑ سکتی ہے وہ مجھے۔۔۔
شہیر شیرازی پاگل ہونے لگا۔۔۔ آخری ایسا کیا ہوگیا تھا اچانک؟؟؟
ایک دن مال میں اُسے حریم نظر آئی۔
” تم نے عبیر کو میرے خلاف ورغلایا ہے نہ؟”
شہیر نے حریم کا راستہ روک کر پوچھا۔
” میرے پاس ایسے فضول کاموں کے لیے وقت نہیں۔” حریم کہہ کر آگے بڑھنے لگی۔
” میں اُس کے ساتھ مخلص ہوں؟” شہیر نے کہا۔
” یہ آپ مجھ سے بہتر جانتے ہیں۔” حریم چلی گئی۔
شہیر حریم کے گھر جا پُہنچا۔
حریم کو ملازمہ نے بتایا کہ کوئی ملنے آیا ہے۔ وہ مہمان خانے میں شہیر کو دیکھ کر چونک گئی۔
” مجھے بتاؤ ۔۔ اُس نے مجھے کیوں چھوڑا ہے؟”
شہیر نے اپنی کلائی پر بلیڈ رکھتے ہوئے پوچھا۔
حریم پھٹی پھٹی آنکھوں سے اسے دیکھنے لگی۔
” آپ ۔۔ آپ یہ سب ۔۔ پلیز ایسا نہ کریں۔ چلے جائیں یہاں سے۔۔ میرے مام ڈیڈ باہر ہیں وہ آنے والے ہونگے ”
حریم پریشان ہوگئی۔
شہیر نے اگلے پل اپنی رگ کاٹ لی۔ خون فوارے کی طرح پھوٹ پڑا۔۔۔
” یہ کیا کیا آپ نے؟ حریم آگے بڑھی۔ شہیر پیچھے ہوا ”
مجھے سچ بتاؤ ورنہ یہیں پر مر جاؤں گا” شہیر نے کہا۔
” اُس نے ۔۔ اُس نے برہان احمد سے سیشن لیے ہیں۔۔ اپنا علاج کروایا ہے برہان احمد سے عبیر نے” حریم فوراً بولی۔
” کون برہان احمد؟؟؟” شہیر نے حیرت سے پوچھا۔۔
_____________
برہان احمد اپنے آفس میں بیٹھا ہوا تھا اگلے مریض کے انتظار میں جب وہ اندر داخل ہوا۔
” شہیر شیرازی ۔۔۔ خوش آمدید۔۔۔” برہان احمد نے مریض کا نام دیکھ کے پھر اسے مخاطب کیا۔
” میں ایک لڑکی سے پچھلے چار سال سے تعلق میں تھا۔ اُس سے محبت کرتا تھا۔ لیکن کچھ ماہ پہلے میں اس نے مجھے چھوڑ دیا۔۔۔ جب میں نے اس کی دوست سے پوچھا تو اس نے بتایا کہ اس نے آپ سے علاج کروایا ہے۔۔۔ کیا میں پوچھ سکتا ہوں ایسا کیا زہر بھر دیا ہے آپ نے اُس کے اندر میرے خلاف؟ کل تک جو میرے بغیر سانس نہیں لے سکتی تھی۔۔۔ آج میری شکل سے نفرت کرنے لگی ہے۔۔ ”
شہیر نے غصے سے کہا۔
” میرے پاس ہزاروں لڑکیاں آتی ہیں۔۔ ” برہان نے آرام سے کہا۔
” عبیر احسان کی بات کر رہا ہوں میں۔” وہ بولا۔
“۔ میں نے اس کے اندر زہر نہیں بھرا ۔۔۔ بلکہ تمہارا بھرا ہوا زہر اُس کے اندر سے نکال کر اسے نئی زندگی کی نوید سنائی ہے۔ میں نے زہر نہیں ۔۔۔ اُس کے اندر توانائی بھر دی ہے۔”
برہان احمد نے کہا۔
” آپ کے سامنے قرآن پر حلف لینے کو تیار ہوں کے میں اُس سے محبت کرتا ہوں اور اپنانا چاہتا ہوں”
شہیر بولا۔
” میں لڑکی نہیں ہوں۔۔۔ کے تم میرے سامنے قرآن پر حلف اٹھا لو گے اور میں یقین کر لونگا۔۔۔ ”
برہان احمد میں کہہ کر اُسے جانے کا اشارہ کیا۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...