ایک دفعہ پھر سوچ لو آسیہ۔۔ وہ دلہن بنی بیٹھی تھی آج اس کا نکاح تھا عفان سے۔۔ عظمیٰ کو عجیب سے ڈر لاحق تھا حالانکہ وہ عفان سے بات کر چکی تھی اور اسے وہ اچھا بھی لگا تھا لیکن پھر دل عجیب سے انداز میں ڈوب رہا تھا۔۔
سوچنے سمجھنے کا وقت گزر گیا ہے عظمی اب بس کر دکھانے کا وقت ہے۔۔ اور تم۔ پلیز یہ سارے وہم نکالو دل سے۔۔ اور مجھے بھی خوشی خوشی رخصت کرو۔۔ بے فکری سے کہتی وہ شیشے میں اپنا عکس دیکھ رہی تھی اور بلاشبہ لال جوڑے میں ماتھے پہ جھومر لگائے میک اپ کیے وہ لگ ہی بہت پیاری رہی تھی۔۔
پتہ نہیں کیوں مجھے لگ رہا ہے یہ سب ٹھیک نہیں ہے ہمیں ایک دفعہ تو چچا سے بات کرنی چاہیے۔۔ عظمیٰ کی بات پہ آسیہ نے اکتاہٹ سے آنکھیں گھمائیں۔۔
افف اس کا کچھ نہین ہو سکتا۔۔ اس کی سوئی وہی اٹکی ہے۔۔ لمبا سانس لے کر وہ اس کے قریب آئی اور اس کا ہاتھ پکڑا۔۔
دیکھو میری پیاری بہن چچا جورو کے غلام میرا مطلب ہے زن مریدی جیسے لفظوں پہ پورا اترتے ہیں وہ تو سانس بھی چچی کی مرضی سے لیتے ہیں۔۔ اگر وہ گھر میرا نہ ہوتا تو دونوں میاں بیوی کب کا مجھے نکال چکے ہوتے۔۔ اور ویسے بھی جانیاں میرے لیے تم اور آسام بھائی اہم ہو۔۔ باقی سب بھاڑ میں جائیں۔۔
صرف میں اور آسام؟؟ عفان نہیں اہم؟؟۔۔ عظمیٰ اسے اب تنگ کر رہی تھی۔۔اس کا اچھا موڈ وہ بھی اتنے اہم۔ دن بھی اسے خراب نہیں کرنا چاہیے یہ اسے احساس ہو گیا تھا۔۔
ہائے وہ تو جان ہیں اپنی۔۔ ٹھنڈی آہ بھرتی وہ کہی سے بھی نہیں شرمائی تھی۔۔
اللہ اکبر لڑکی۔۔ ذرا شرم کر لو۔۔ عظمیٰ کے مکہ جڑنے پہ وہ دونوں اب ہنس رہی تھی۔۔ جب ابان بھاگتا ہوا اندر آیا۔۔
ماما بابا کہہ رہے ہیں۔۔ لالہ ریڈی ہیں تو باہر آ جائیں۔۔ وہ شاید بھاگ کر آیا تھا اس لہے سانس پھولا تھا۔۔ آسیہ کو وہ پیار سے لالہ کہتا تھا۔۔
ارے لالہ کی جان۔۔ بابا سے بولو ماما اور لالہ دونوں بلکل ریڈی ہیں۔۔ آسیہ نے اسے بازوں میں اٹھایا۔۔ وہ تین سال کا گول مٹول۔ سا بچہ آسیہ کو جی جان سے عزیز تھا۔۔
افف آسی کیا کر رہی ہو۔۔ کچھ اپنے دلہناپے کا ہی خیال کر لو۔۔ ڈریس خراب ہو جائے گا۔۔ عظمیٰ کا دل کیا اپنا سر پیٹ لے اس لڑکی کو دلہن بن کر بھی سکون نہیں تھا۔۔
کوئی نہیں خیر ہے۔۔ وہ اسے اسی طرح اٹھائے باہر لاؤنج میں چلی آئی جہاں نکاح خواں کے ساتھ باقی افراد بیٹھے تھے۔۔ ان میں عفان آسام اور ان کے کچھ دوست تھے۔۔جبکہ عظمیٰ افسوس کرتی پیچھے آئی اس کا واقعی کچھ نہیں ہو سکتا تھا۔۔
تو تو گیا باس۔۔ عفان کے دوست نے آسیہ کو اس طرح آتے دیکھ کر اس کے کان میں شرارت سے کہا جبکہ وہ اپنی جان من کو پہلے سے ہی جانتا تھا اس لیے فقط مسکرانے پہ اکتفا کیا۔۔
صوفے پہ بیٹھنے سے پہلے وہ ابان کو نیچے اتار چکی تھی۔۔ اور پھر آسام کے کہنے پہ نکاح شروع کیا گیا۔۔
آسیہ بنت سعود آپ کو عفان بن شیس سے یہ نکاح سکہ رائج الوقت پچاس ہزار روپے مئوجل قبول ہے۔۔ نکاح خواں کے تیسری بار پوچھنے پہ اس نے عجیب سی نظروں سے مولوی صاحب کو دیکھا۔۔
مولوی صاحب بس کر دیں۔۔ اتنی بار پوچھے گئے تو مجھے خود ڈائوٹ ہونا شروع ہو جائے گا کہ مجھے قبول ہے کہنا ہے کہ نہیں۔۔ آسیہ کی بات پہ جہاں عفان کے لب مسکرائے تھے وہیں مولوی صاحب کا منہ کھلا تھا اور ساتھ کھڑی عظمیٰ نے اس کے سر پہ چپت لگا کر اسے مئودب رہنے کا اشارہ۔ کیا۔۔
جسے شاید اس نے سمجھ بھی لیا تھا اس لیے خاموشی سے قبول کہہ دیا تھا۔۔ جبکہ عظمیٰ نے صحیح معنوں میں اپنا سر پکڑ لیا۔۔
***
اس وقت وہ دلہن بنی بیٹھی عفان کے کمرے میں بیٹبی تھی۔ نکاح کے بعد وہ اسے اپنے فلیٹ مین لے ایا تھا جسے اس کے دوستوں نے کافی اچھے سے سجا دیا تھا۔۔ ورنہ فلیٹ میں عفان کے علاوہ ایک ملازمہ رہتی تھی جو اس کے تمام کام کاج کرتی تھی۔۔
عفان اپنے سب دوستوں کو فارغ کر کے روم میں آیا۔۔ اور جو کچھ اسے آگے دیکھنے کو ملا تھا وہ اسے شاکڈ کرنے کو کافی تھا۔۔
وہ جو ہزاروں خواب سجا کر کمرے میں داخل ہوا تھا۔۔ بیڈ کی طرف دیکھتے ہی اس کے سارے چکنا چور ہو گئے تھے۔۔ کیا کچج نہ سوچا تھا اس نے اپنے بچپن سے۔۔
کتنی راتیں جاگ کر کتنے خواب اپنی آنکھوں میں اس نے اپنی شادی کی رات کے لیے بُنے تھے۔۔ وہ اپنی دلہن کا گھونگھٹ اٹھایے گا وہ شرمائے گی پھر اسے منہ دکھائی دے گا۔۔
لیکن یہاں جو اسے منہ دکھائی دی گئی تھی وہ اسے ہلا کر رکھ گئی تھی۔۔ اس کے خوابوں کی دلہن حقیقت میں بیڈ پہ آلتی پالتی مارے دوپٹے سے بے نیاز لہگ پہس کے ساتھ بھرپور انصاف کر رہی تھی۔۔
آسیہ۔۔ وہ غصے اور صدمے سے بس اس کا نام بھی نہ بول سکا تھا صرف لب ہلے تھے۔۔
آسیہ کو محسوس ہو رہا تھا کہ وہ کمرے میں آیا ہے لیکن اس نے دیکھنے کہ زحنت نہ کی تھی کیونکہ اس وقت وہ جانتی تھی کہ عفان آیا ہو گا اور ویسے بھی دیکھنے کے لیے اسے مڑنا پڑتا۔۔ اور دوسرا کھانے سے ہاتھ روکنا پڑتا۔۔ جو نا ممکن تھا۔۔
بقول اس کے رزق کو انتظار کروانا بہت بڑا گناہ ہے۔۔ کھانا کھا کر وہ برتن رکھنے کے لیے جونہی مڑی۔۔ سامنے اپنے عفان کو سکتے ہی حالت میں کھڑے پایا۔۔
ارے عفان آپ کب آئے۔۔ اسے اندازہ تو تھا پر پھر بھی اداکاری تو کرنی تھی۔۔
اس وقت جب میری بیوی کھانے کو ایسے لگی تھی جیسے بھوکا خرگوش گاجر کو۔۔ وہ بھی طنز کرنا نا بھولا تھا۔۔
بسسسس عفان۔۔ ایک تو اپ اور اپ کی مثالیں بندہ شرمندہ ہو کر رہ جاتا ہے قسمے۔۔ اس نے بھی منہ چڑایا۔۔
تم اور شرمندہ۔۔ اچھا مذاق اور یہ کیا حلیہ بنا رکھا ہے تم نے بیوی۔۔ کچھ تو خدا کا خوف کرو۔۔ آج شادی ہوئی ہے ہماری۔۔ وہ جتنا بھی اپنی قسمت پہ افسوس کرتا کم تھا۔۔
عفان سچی میرا قصور نہیں ہے۔۔ میں نے ملازمہ کو کہا تھا کہ کھانا نہ رکھے مگر اس نے سنا ہی نہیں۔۔ اور گرم گرم تکہ دیکھ کر مجھ سے رہا نہیں گیا۔۔ وہ سر جھکائے ایسے بولی جیسے اپنے گناہ کا اعتارف کر رہی ہو۔۔ عفان کو اس پہ ٹوٹ کر پیار آیا۔۔
وہ دھیرے سے اس کے قریب آیا اور اس کی ہاتھوں کو پکڑا جنہیں وہ بری طرح مروڑ رہی تھی۔۔
ایسے نہیں کرو نہ مائی لیڈی۔۔ وہ گھمبیر لہجے میں بولتا اس کے اور نزدیک ہوا۔۔ آسیہ کو لگا اس کا سانس رک جائے گا وہ جتنی بھی بولڈ سہی پت تھی تو لڑکی ہی نا۔۔
عفف۔۔ عفان۔۔ اس کے لب پھڑپھڑائے۔۔ وہ اس سے دور ہونا چاہتی تھی لیکن ایک طرف بیڈ تھا تو دوسری طرف وہ۔۔ وہ اسے دھکا دیتی تو خود ہی بیڈ پہ گر جاتی۔۔
اس کا ہاتھ پکڑ کر اس نے لبوں سے لگایا۔۔ بولو میری جان۔۔
مجھے سانس نہیں آ رہا۔۔ وہ نا چاہتے ہوئے بھی اس پہ اپنے جذبات کو عیاں کر گئی۔۔
حیرت ہے۔۔ اتن کھا کر بھی سانس نہیں آ رہا۔۔ موٹی۔۔ آخری لفظ اس نے اسکے کان کے بے حد قریب جا کر ادا کیا جس پہ آسیہ نے اسے جھٹکے سے سر اٹھا کر دیکھا۔۔
میں موٹی ہوں؟؟ ساری شرم بھاڑ میں ڈالتے وہ چلائی۔۔ آنکھیں ابل کر باہر آنے کو تھی۔۔ اس کے انداز پہ عفان خود کو قہقہہ لگانے سے باز نہ رکھ سکا تھا۔۔
نہیں میری جان تم صرف میری ہو۔۔ اسے اپنا حصار میں لیتا وہ پیار سے اس کے کان میں بولا۔۔ اور آسیہ کو لگا اس سے ذیادہ میٹھے الفاظ اور اتنا میٹھا لہجہ شاید اس نے لبھی نہ سنو ہو گا۔۔
***
اماں ناراض ہیں۔۔ آج اس نے لاہور جانا تھا۔ ویسے بھی وہ ایک ہفتہ لیٹ تھی اماں کے نہ مان جانے کی وجہ سے۔۔ اور اب جب وہ مان گئیں تھی تو اس کا دل کر رہا تھا وہ اڑ لر لاہور پہنچ جائے۔۔ جانے سے پہلے وہ اماں کے سامنے آئی ابان گاڑی میں اس کا انتظار کر رہا تھا۔۔
باہر ابان گاڑی میں اس کا انتظار کر رہا تھا۔۔ سب ملے تھے سوائے اماں کے۔۔ اور وہ ان سے ملے بغیر کیسے جا سکتی تھی۔۔
تمہیں پرواہ ہے۔۔ وہ اس سے ناراض نہ تھی بس اس کے جانے سے اداس تھی۔۔
آپ کو لگتا ہے مجھے پرواہ نہیں ہے؟؟۔۔
مجھے کیا پتہ۔۔
کیا اب تک اتنا ہی جان پائی ہے مجھے آپ؟؟۔۔ اس بار روشم کے لہجے میں واقع دکھ تھا۔۔
جانتی ہوں تمہیں۔۔ بہت اچھے سے جانتی ہوں۔۔ اس لیے تو سوچ رہی ہوں تمہارے بغیر تو یہ گھر کاٹ کھانے کو دوڑے گا مجھے۔۔ میرے گھر کی رونق ہی جا رہی ہے۔۔ ان کے لہجے میں نمی محسوس کر کے روشم بے اختیار ان کے گلی لگ گئی۔۔
اماں پلیز۔۔ آپ روئے گی تو میں نہیں جاؤں گی۔۔ مجھے اپنے خوابوں سے ذیادہ اپنی اماں عزیز ہے۔۔ اس کی بات پہ وہ مسکرائی۔۔ وہ جانتی تھی وہ ان کی اچھی بیٹی ہے۔۔ لیکن اس سے دوری کا دکھ اور انجانے وسوسے انہیں ستا رہے تھے۔۔
جلدی واپس آ جانا۔۔ اسے الگ کرتے انہوں نے اس کے ماتھے پہ بوسہ دیا۔۔
پکا جلدی آ جاؤں گی۔۔ اب تو ناراض نہیں ہے نا۔۔ وہ جان تو گئی تھی پر ان کے منہ سے سننا چاہتی تھی۔۔
ایک ماں اپنی اولاد سے کبھی ناراض نہیں ہوتی۔۔ اس کے ماتھے کو ایک بار پھر انہوں نے چوما تھا۔۔
اپنا خیال رکھنا میری جان۔۔ اسے سینے میں بھینچ کر انہوں نے اسے علیحدہ کیا۔۔
آپ بھی۔۔ اللہ حافظ۔۔ ان کے ہاتھوں کو چوم کر وہ گاڑی کی طرف بڑھی۔۔ جبکہ اماں کو لگ رہا تھا ان کا دل جا رہا ہو۔۔ آج کافی سالوں بعد انہیں پھر کچھ غلط ہونے کا احساس ہو رہا تھا۔۔ مگر وہ بھی اپنی ماں کی بیٹی تھی کہاں کسی کی سننے والی تھی۔۔
***
اسلام علیکم۔۔ ابان اسے ابھی ہاسٹل چھوڑ کر گیا تھا۔۔ اور پورے راستے اس کی نصیحتیں بھی جاری رہی تھی۔۔ ہاسٹل میں میلز کا جانا الاؤ نہیں تھا ورنہ وہ تو شاید اس کو کمرے تک چھوڑ کر آتا۔۔ جونہی وہ اپنے کمرے میں آئی سامنے ہی ایک لڑکی کو کتابوں میں گم پایا تھا جو کہ شاید اتنی محو تھی پڑھنے میں کہ دروازہ کھلنے کی آواز سے بھی نہ چونکی۔۔ اسی لیے اس نے ہی سلام میں پہل کی۔۔
وعلیکم السلام۔۔ آپ کون۔۔ اس سے پہلے کہ بیڈ پہ موجود لڑکی کچھ پوچھتی اس کی نظر اس کے ہاتھ میں پکڑی کیری میں گئی۔۔
اوہ تو تم میری کلاس میٹ ہو۔۔ روشم پہلی بار دوسرے شہر آئی تھی وہ بھی اکیلی۔۔ وہ پہلے ہی نروس تھی۔۔ اوپر سے اس کے ڈیٹیکٹو انداز۔۔ اس نے محض اثبات میں ہی سر ہلایا۔۔
ارے گرل تو وہاں کیوں کھڑی ہو۔۔ ادھر پاس آؤ۔۔ پورے ہفتے سے میں اکیلے در و دیوار دیکھ دیکھ کر بور ہو گئی ہو۔۔ وہ فوراً بیڈ سے اتری اور اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے دوسرے بیڈ پہ بٹھایا اور اس کا کیری اٹھا کر سائڈ پہ رکھا۔۔
کیا نام ہے تمہارا۔۔ لگتا ہے کم بولتی ہو۔۔ وہ جو کوئی بھی تھی خود ہی سوال خود ہی جواب۔۔ روشم کا دل کیا کہہ دے آپ بولنے دیں گی تو بولوں گی نا۔۔ پر کیا کہہ سکتے ہیں پہلی ملاقات کی مروت اسے مار رہی تھی۔۔
میرا نام روشم ہے۔۔ گلا کھنکھار کر اس نے گلا صاف کیا۔۔
آہاں نائس نیم۔۔ کیا مطلب ہے اس کا۔۔
سورج کی پہلی کرن۔۔
زبردست۔۔ بڑا افسانوی نام ہے بھئی۔۔ تو مس روشم اب میں کرواتی ہوں اپنا تعارف۔۔ میرا نام ہے نیلم۔۔ میں آپ کے ساتھ ہی ایم اے پولیٹیکل سائنس کی طالبہ ہوں۔۔ اور اب ہم دونوں یونی کو فن لینڈ بنانے والے ہیں۔۔
چونکہ ہاسٹل میں سب ڈیپارٹمنٹس کے رومز الگ الگ تھے اس لیے یہ تو اسے شیور تھا کہ روشم بھی ایم اے پولیٹیکل سائنس کی ہی ہے۔۔ اس کے بولنے پہ روشم قہقہہ لگا کر ہنسی۔۔
مجھے لگتا ہے ایسا ہی ہو گا۔۔ روشم کو لگ رہا تھا یہ پٹاخا لڑکی یقیناً اس کی ہم مزاج ہی ہے۔۔
اوکے دین۔۔ ریڈی ٹو رول۔۔ نیلم نے اسے آنکھ ماری۔۔ جب کہ روشم ابھی نھی مسکرا رہی تھی۔۔ نیلم اسے اچھی لڑکی لگی تھی اور اسے اندازہ نہیں تھا کہ اس کی اتنی جلدی کوئی دوست بن جائے گی یا وہ اتنی جلدی یہاں ایڈجسٹ ہو پائے گی۔۔ لیکن جب ایسی لڑکی دوست بن گئی تھی تو یقیناً اب ایڈجسٹ بھی وہ جلد ہی ہو جایے گی اسے یقین تھا۔۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...