کریم سورج،
جو ٹھنڈے پتّھر کو اپنی گولائی
دے رہا ہے
جو اپنی ہمواری دے رہا ہے۔۔
(وہ ٹھنڈا پتّھر جو میرے مانند
بھورے سبزوں میں
دورِ ریگ و ہوا کی یادوں میں لوٹتا ہے)
جو بہتے پانی کو اپنی دریا دلی کی
سرشاری دے رہا ہے
۔۔وہی مجھے جانتا نہیں ہے
مگر مجھی کو یہ وہم شاید
کہ آپ اپنا ثبوت اپنا جواب ہوں میں!
مجھے وہ پہچانتا نہیں ہے
کہ میری دھیمی صدا
زمانے کی جھیل کے دوسرے کنارے
سے آ رہی ہے
یہ جھیل وہ ہے کہ جس کے اُوپر
ہزاروں انساں
اُفق کے متوازی چل رہے ہیں
اُفق کے متوازی چلنے والوں کو پار لاتی ہے
وقت لہریں۔۔
جنہیں تمنّا، مگر، سماوی خرام کی ہو
انہی کو پاتال زمزموں کی صدا سناتی ہیں
وقت لہریں
انہیں ڈبوتی ہیں وقت لہریں!
تمام ملاح اِس صدا سے سدا ہراساں، سدا گریزاں
کہ جھیل میں اک عمود کا چور چھپ کے بیٹھا ہے
اُس کے گیسو اُفق کی چھت سے لٹک رہے ہیں۔۔
پکارتا ہے: “اب آؤ، آؤ!
ازل سے میں منتظر تمہارا۔۔
میں گنبدوں کے تمام رازوں کو جانتا ہوں
درخت، مینار، برج، زینے مرے ہی ساتھی
مرے ہی متوازی چل رہے ہیں
میں ہر ہوائی جہاز کا آخری بسیرا
سمندروں پر جہاز رانوں کا میں کنارا
اب آؤ، آؤ!
تمہارے جیسے کئی فسانوں کو میں نے اُن کے
ابد کے آغوش میں اُتارا۔”
تمام ملاح اِس کی آواز سے گریزاں
اُفق کی شہ راہ مبتذل پر تمام سہمے ہوئے خراماں۔۔
مگر سماوی خرام والے
جو پست و بالا کے آستاں پر جمے ہوئے ہیں
عمود کے اِس طناب ہی سے اُتر رہے ہیں
اِسی کو تھامے ہوئے بلندی پہ چڑھ رہے ہیں!
اسی طرح میں بھی ساتھ اِن کے اُتر گیا ہوں
اور ایسے ساحل پر آ لگا ہوں
جہاں خدا کے نشانِ پا نے پناہ لی ہے
جہاں خدا کی ضعیف آنکھیں
ابھی سلامت بچی ہوئی ہیں
یہی سماوی خرام میرا نصیب نکلا
یہی سماوی خرام جو میری آرزو تھا۔۔
مگر نجانے
وہ راستہ کیوں چنا تھا میں نے
کہ جس پہ خود سے وصال تک کا گماں نہیں ہے؟
وہ راستہ کیوں چنا تھا میں نے
جو رک گیا ہے دلوں کے ابہام کے کنارے؟
وہی کنارا کہ جس کے آگے گماں کا ممکن
جو تو ہے میں ہوں!
مگر یہ سچ ہے،
میں تجھ کو پانے کی (خود کو پانے کی) آرزو میں
نکل پڑا تھا
اُس ایک ممکن کی جستجو میں
جو تو ہے میں ہوں
میں ایسے چہرے کو دھونڈتا تھا
جو تو ہے میں ہوں
میں ایسی تصویر کے تعاقب میں گھومتا تھا
جو تو ہے میں ہوں!
میں اِس تعاقب میں
کتنے آغاز گن چکا ہوں
(میں اُس سے ڈرتا ہوں جو یہ کہتا
ہے مجھ کو اب کوئی ڈر نہیں ہے)
میں اِس تعاقب میں کتنی گلیوں سے
کتنے چوکوں سے،
کتنے گونگے مجسّموں سے، گزر گیا ہوں
میں اِس تعاقب میں کتنے باغوں سے،
کتنی اندھی شراب راتوں سے
کتنی باہوں سے،
کتنی چاہت کے کتنے بپھرے سمندروں سے
گزر گیا ہوں
میں کتنی ہوش و عمل کی شمعوں سے،
کتنے ایماں کے گنبدوں سے
گزر گیا ہوں
میں اِس تعاقب میں کتنے آغاز کتنے انجام گن چکا ہوں۔۔
اب اس تعاقب میں کوئی در ہے
نہ کوئی آتا ہوا زمانہ
ہر ایک منزل جو رہ گئی ہے
فقط گزرتا ہوا فسانہ
تمام رستے، تمام پوچھے سوال، بے وزن ہو چکے ہیں
جواب، تاریخ روپ دھارے
بس اپنی تکرار کر رہے ہیں۔۔
“جواب ہم ہیں۔۔جواب ہم ہیں۔۔
ہمیں یقیں ہے جواب ہم ہیں۔۔”
یقیں کو کیسے یقیں سے دہرا رہے ہیں کیسے!
مگر وہ سب آپ اپنی ضد ہیں
تمام، جیسے گماں کا ممکن
جو تو ہے میں ہوں!
تمام کُندے (تو جانتی ہے)
جو سطحِ دریا پہ ساتھ دریا کے تیرتے ہیں
یہ جانتے ہیں یہ حادثہ ہے،
کہ جس سے اِن کو،
(کسی کو) کوئی مفر نہیں ہے!
تمام کُندے جو سطحِ دریا پہ تیرتے ہیں،
نہنگ بنّا۔ یہ اُن کی تقدیر میں نہیں ہے
(نہنگ کی ابتدا میں ہے اک نہنگ شامل
نہنگ کا دل نہنگ کا دل!)
نہ اُن کی تقدیر میں ہے پھر سے درخت بنّا
(درخت کی ابتدا میں ہے اک درخت شامل
درخت کا دل درخت کا دل!)
تمام کُندوں کے سامنے بند واپسی کی
تمام راہیں
وہ سطحِ دریا پہ جبرِ دریا سے تیرتے ہیں
اب اِن کا انجام گھاٹ ہیں جو
سدا سے آغوش وا کیے ہیں
اب اِن کا انجام وہ سفینے
ابھی نہیں جو سفینہ گر کے قیاس میں بھی
اب اِن کا انجام
ایسے اوراق جن پہ حرفِ سیہ چھپے گا
اب اِن کا انجام وہ کتابیں۔۔
کہ جن کے قاری نہیں، نہ ہونگے
اب اِن کا انجام ایسے صورت گروں کے پردے
ابھی نہیں جن کے کوئی چہرے
کہ اُن پہ آنسو کے رنگ اُتریں،
اور ان میں آیندہ
اُن کے رویا کے نقش بھر دے!
غریب کُندوں کے سامنے بند واپسی کی
تمام راہیں
بقائے موہوم کے جو رستے کھُلے ہیں اب تک
ہے اُن کے آگے گماں کا ممکن۔۔
گماں کا ممکن، جو تو ہے میں ہوں!
جو تو ہے، میں ہوں!