میرے میاں چودھری فضل اللہ لدھیانے سے پاکستان ہجرت کرکے فیصل آباد میں آباد ہوئے۔ تقسیم کے فسادات اور خون خرابے سے ان کا بھرا پرُا خاندان سارے کا سارا محفوظ رہا۔ یہ ایک عجیب اور ناقابلِ فہم حقیقت تھی جس کو ان کے اڑوس پڑوس والوں بلکہ سارے قافلے والوں نے محسوس کیا اور ہر شخص جو اُن سے ملنے آیا، اپنے اپنے اعتقادات اور اپنی اپنی فکر کے مطابق اس کی تفہیم کی۔ اس کے باوجود اس خاندان پر فسا دات کی الم ناکی اسی طرح مسلط رہی جس طرح دوسرے فساد زدہ اور جبری ہجرت کے مارے دوسرے خاندانوں پر اشجارِ زیست جڑوں سے کٹ گئے، اکھڑ گئے، جل گئے، پودے ٹھٹھر گئے، پھول پتی بکھر گئے۔
چودھری فضل اللہ کا خاندان فیصل آ باد میں ایک بار پھر بکھرا اور لوگ اِدھر اُدھر نکل گئے۔ فیصل آ باد سے میں،چودھری فضل اللہ اور ہمارے بچے کراچی پہنچے اور ایک نئی لیکن پھیلتی اور بڑھتی ہوئی غریب طبقے کی بستی میں قیام کیا۔ قریبی بازار میں چھوٹا سا خراد کے کام کا کارخانہ قائم کیا۔ روزی، روٹی اور رہائش کا بندوبست ہوگیا، لیکن جی ٹھکانے نہ لگا۔ چودھری فضل اللہ نے میرے سمجھانے بجھانے کی پر وا نہ کی اور گھر بدل لیا۔ کام مزید چل نکلا، دل بھی ٹھہر گیا۔ البتہ مسکان، مکان، ہانڈی، چولھا، چوکی بدلتے گئے۔ بالآخر ایک مکان جس کے کمرے کسی چھوٹی موٹی کوٹھی جیسے تھے اور جس کا آنگن کشا دہ تھا، نہایت سستے داموں میں مل گیا۔
رہن سہن کے ابتدا ہی میں محلے کی عورتوں میں سے ایک دو بوڑھی بڑی عورتوں نے یہ انکشاف کیا کہ ’’مکان پر نحوست کا سایہ ہے اور ہاں صحن کے بیچوں بیچ جو آم کا درخت ہے اس سے ہوشیار خبردار رہنا، مشہور ہے کہ اس کی جڑوں میں اس مکان کے قدیمی مالک نے اپنی بیوی کا گلا کاٹ کر خون ڈالا تھا اور پھر خود درخت سے لٹک کر مرگیا تھا۔‘‘
میں نے اپنے میاں چودھری فضل اللہ کو جب یہ ہول ناک واقعہ سنایا تو ا س نے جواب میں ایک قہقہہ لگایا۔ اس کی عادت تھی کہ جب مجھے چپ کرانا ہوتا تو معاملے کی مناسبت سے یا تو ایک لمبی ’’ہوں‘‘ سے یا پھر ایک ’’بلند آہنگ قہقہے‘‘ سے مجھے چپ کر دیتا۔ میں نے مکان کے موضوع کو اپنے ذہن سے نکال کر باہر پھینک دیا۔ اڑوس پڑوس کی عورتیں بھی دوبارہ نہیں آئیں، کیوں کہ وہ آ بادی ہزار گز کے پلاٹوں پر مشتمل تھی اور اس کے مکین ایک دوسرے سے ملتے ملاتے نہیں تھے ماسوا کسی تقریب کے۔ ہر موقعے پر باقاعدہ دعوت دیے جانے کی ضرورت پڑتی۔ اس بستی میں لوگ گاڑیوں پر آتے جاتے۔ پیدل چلتے ہوئے اِکا دُکا آد می کو نچلے طبقے کا اچھوت سمجھا جاتا۔ پڑوس کے محلّوں میں رکشے چلتے لیکن اس محلّے میں مجال ہے کوئی رکشہ نظر آ جائے۔
اس منحوس مکان میں رہائش ہم سب کو راس آئی۔ میاں کا معمولی سا سیٹ اپ خراد کے ایک بڑے کارخانے میں بدل گیا۔ آہستہ آہستہ طارق روڈ کے علا قے میں بھی کارخانے کی ایک شاخ قائم ہوگئی۔ مکان جو پہلے ہی کسی انگر یزکی کو ٹھی جیسا لگتا تھا، میرے میاں چودھری فضل اللہ نے اسے ماڈرن بنگلے میں تبدیل کر دیا۔ سرونٹ کوارٹر بھی بنوا لیے جن میں ڈرائیور، باورچی ایک دو اور ملا زم اور ان کے بیوی بچے رہتے تھے۔
میں خوش تھی ظا ہر میں بھی اور باطن میں بھی۔ پیسے کی تنگی سے محفوظ ہونا ہی کسی عورت کے لیے جنت میں رہائش سے کم نہیں ہوتا۔ اولاد کے معاملے میں بھی مجھے بڑا سکون میسر تھا۔ دونوں مہنگے اسکولوں میں پڑھتے تھے، استاد گھرآکر ٹیوشن پڑھاتے۔ لڑکے کرامت اللہ کے لیے ایک پختہ عمر کے کالج کے پرو فیسر اور لڑکی کے لیے ایک کالج گرل۔ لڑکا، لڑکی دونوں اپنی اپنی کلاسوں میں ہمیشہ ٹاپ کرتے۔
خوش حالی کے ساتھ آ دمی تنہا نہیں رہ پاتا۔ ایسا کیوں ہوتا ہے کہ آدمی جب مشکلات میں گھرا ہو تا ہے تو لوگ اس سے دور بھاگتے ہیں حتیٰ کے رشتے دار تک منہ موڑ لیتے ہیں، جب کہ ان کی اور ان کے تعا ون کی اشد ضرو رت ہوتی ہے۔ اور خوش حالی کے دوران ہر چہار اطراف سے یورش کر دیتے ہیں۔ میں نے اس صورتِ حال پر غور بھی کیا ہے اور حیران بھی ہوئی ہوں۔ میرا اپنا حلقہ دیکھتے ہی دیکھتے وسیع سے وسیع تر ہوتا چلاگیا۔ نہ چاہتے ہوئے بھی مجھے کئی ایک کلبوں اور اداروں کا رکن بننا پڑا، ہر ویک اینڈ اپنے خانۂ عافیت سے باہر تا دیر وقت گزارنا پڑتا۔ ’’کٹی‘‘ پارٹیوں میں شریک ہو نا پڑ تا ۔ ادھر بچوں کی بھی کایا کلپ ہو رہی تھی، بیٹی مومی مختصر لباس میں اپنی جیسی اور لڑکیوں کے ساتھ گھومنے لگی تھی۔ بیٹا کرامت کانوں میں ہیڈ فون کی ڈنڈیاں ٹھونسے اپنے کمرے میں ہمہ وقت ناچتا، مٹکتا، تھرکتا پایا جاتا یا پھر کسی نوایجاد فون پر انگلیاں گھما کر جانے کیاکیا کرتا۔ پیسے کی ریل پیل اچانک بڑھ گئی تھی۔ ہمارے میاں چودھری فضل اللہ پر اب اللہ سے زیا د، غیراللہ فضل کرنے لگے تھے۔ پہلے کبھی کبھار جم خانے سے رات گئے نشے میں ٹُن لوٹتے تھے۔ اب ہر رات لڑ کھڑاتے قدموں سے گاڑی سے گھر کے اندر آتے۔ کسی کسی رات، دن چڑھنے کے بعد تشریف آوری ہوتی، اور وہ بھی سر پکڑے بڑی بڑی جما ئیاں لیتے ہوئے۔ آتے ہی کسی صوفے پر گر کر نیبو پانی پیتے۔ ان کے اتا رے ہوئے کوٹ پر اور قمیص پر نارنجی، سرخ اور کبھی کبھار کالے رنگ کی گل افشانیاں دیکھنے میں آتیں۔ جب میں بے مو سم کے روپے پیسوں کی بارش کے بارے میں ان سے کچھ پوچھتی یا ان کے کپڑوں پر لگے لپ اسٹک کے داغ کی طرف انگلی اٹھاتی تو جواب میں کبھی ’’بلند آہنگ قہقہہ‘‘ یا پھر زور دار گونج جیسی لمبی ’’ہوں‘‘ میرے سوالات کا منہ بند کر دیتی۔
ہمارا ’’ منحوس‘‘ مکان ’’بابرکت‘‘ ثا بت ہو کر ایک شان دار بنگلے میں تبدیل ہوچکا تھا۔ صحن میں کھڑا ہو ا آم کا درخت جس سے مجھے خبردار رہنے کو کہا گیا تھا، ایک سال چھوڑ کر پھل دیتا اور جس سال پھلتا میں اس کے آم بٹواتے بٹواتے بیزار آجاتی۔ اور جس برس پھل نہ دیتا تو تھوڑا سا بور لاکر کیریاں دیتا۔ میں ان کیریوں کا بڑے چائو سے اچار ڈلواتی چند مرتبان پانی کے اور چند تیل کے۔ اچار کی سوغات میں جن کے پاس بھی بھجواتی وہ تعریف کے فون کال سے دل خوش کردیتیں۔ میں جب آم کے درخت کا سوچتی تو اس خیال سے کانپ کر رہ جاتی کہ اس مکان میں رہائش کرنے کے ابتدائی دنوں میں کئی مرتبہ اس کو کٹوا پھینکنے کا فیصلہ کیا، لیکن کبھی کوئی مہمان رہنے کے لیے آگئے یا پھر کسی ناگہانی مصروفیت نے میرے دل و دماغ کو گھیر لیا۔
الغرض میری روز مرہ زندگی اس منحوس مکان اور آم کے اس درخت کے ساتھ جس کی جڑوں کو کسی خبطی، جنونی نے نجانے کن حالات کے تحت اپنی بیوی کے خون سے سینچا تھا اور اپنے بدن کو اس درخت سے لٹکایا تھا، میری، میرے میاں چودھری فضل اللہ اور ہمارے دونوں بچوں کی خوب نبھ رہی تھی۔ میاں کی روز روز کی شراب نوشی اور عیش کوشی، بچوں کی مغرب زدگی کے ماسوا زندگی گل زار تھی۔
ان دنوں موسم کی تبدیلی کچھ زیادہ نمایاں ہونے لگی تھی۔ خواتین افسانہ نگاروں کی زبان کے مطابق گلابی جاڑا سچ مچ کے جاڑے میں بدلتا جارہا تھا۔ میں بنگلے کے اندرونی صحن میں آرام کرسی پر نیم دراز موسمِ سرما کی لذت آگیں دھوپ اور چائے گھونٹ گھونٹ لے رہی تھی۔ اچانک پائل کی چھنک کے ساتھ میں نے چونک کر کیکتی کو دیکھا۔ کیکتی کا تعلق لمباڑا قوم سے ہے۔ کراچی شہر میں برس کے بارہ مہینے مختلف قوم کے لوگوں کا آنا جانا لگا رہتا ہے۔ لمباڑا قوم کے بھی کچھ لوگ سال میں دو تین مر تبہ کراچی کا چکر لگاتے ہیں۔ جب وہ آتے ہیں تو کیکتی میرے ہاں ضرور آتی ہے۔ میری ہدایت کے مطابق سیکیورٹی والے اس کو نہیں روکتے ہیں۔ وہ بلاجھجک اندرونی صحن تک آجاتی ہے۔ کیکتی کو میں ہمیشہ نیچے سے اوپر کی جانب دیکھتی ہوں۔ لمباڑا قوم کی یہ رنگا رنگ لڑکی میری اس عادت سے واقف ہے۔ اور اپنے آپ کو مجھے دکھانے بھی لگی ہے۔ اپنے دائیں پائوں سے ایک بجتا ہوا ٹھمکا لگا کر وہ کسی پرانے دراوڑی زبان کے گیت کے بول گا کر پہلے ہلکے قدم اور پھر تیز رکھتے ہوئے، رقص کرتے ہوئے کبھی ایک جانب اور کبھی دوسری جانب گھومتی ہے۔ اپنے رنگ برنگے گھیردار لہنگے کو گھٹنے تک اٹھا کر کبھی دائیں اور کبھی بائیں ٹانگ آگے کرکے پلٹتی تو اس کے بلائوز میں رنگ برنگے دھاگوں سے ٹکے ہوئے شیشے جھلمل جھلمل کرنے لگتے۔ اس دن بھی وہ معمول کے مطابق گاتے ہوئے رقص کرنے لگی، لیکن اچانک اس کے تھرکتے پائوں ساکت ہوگئے، گیت کے بول اس کے ہونٹوں پر ٹھہر گئے۔
’’ہا ئے دیوا۔‘‘ اس کی زبان سے نکلا۔
میں نے اس کو انتہائی تعجب سے دیکھا۔ وہ آم کے پیڑ کو دیکھ رہی تھی۔ اس کی آنکھیں پھٹ کر پھیل گئی تھیںاور گالوں پر گودے ہوئے سبز ستارے اوپر اٹھ کر اس کی پیشانی کو چھونے لگے تھے۔ پلاسٹک کے کڑوں سے ڈھکے ہوئے اس کے دونوں بازو آسمان کی طرف اٹھے ہوئے تھے۔ اس کا منہ کھلا ہوا تھا اور ہونٹوں سے خانہ بدوش درواڑیوں کی زبان کے لفظ آپ ہی آپ پھیل رہے تھے۔
’’کیا بات ہے کیکتی تو ناچتے ناچتے رک کیوں گئی؟‘‘ میں نے خاصی بلند آواز میں سوال کیا۔
میری آ واز کے زیرِ اثر جیسے وہ اپنے آپے میں آگئی۔ اس نے اپنی کلمے کی انگلی سے آ م کے پیڑ کی جانب اشارہ کیا۔
’’بی بی جی! آپ نے دیکھا آم کے پیڑ پر…..‘‘ اپنا فقرہ مکمل کیے بغیر وہ چپ ہوگئی۔
میں نے اس کی اُٹھی ہوئی انگلی کی جا نب دیکھا۔ آم کے پیڑ پر مجھے کوئی خاص پرندہ یا چیز نہیں دکھائی دی۔ البتہ اس پر بور آرہا تھا۔ اس پر حیران ہوتے ہوئے کہ پیڑ پر بور آنے کو میں نے کیوں نہیں دیکھا میں نے کیکتی سے کہا، ’’وہاں کیا ہے آ م کا بور ہی تو ہے۔‘‘
’’آم کے پھول بی بی جی— آم کے پھول— رُت کے بنا— سردی کی رُت میں— ہائے دیوا— معافی— معافی—‘‘ کیکتی آ سمان کی طرف دیکھ کراپنے ہاتھ جوڑنے لگی اور بغیر کوئی بات کیے، کچھ لیے،پلک جھپکتے میں میری نظروں سے غائب ہوگئی۔ اس کے جانے کے بعد میں آرام کرسی سے اُٹھی، ملازمہ کو آواز دی کہ وہ چائے کی پیالی اُٹھا لے جائے۔ اور ایک نظر آ م کے پیڑ پر ڈالی۔ اس پر بور آ رہا تھا۔ بے موسم کا بور۔
بے موسم کا بور— بے موسم کے بور کو بے موسم کے آ موں میں بدلنے میں دیر نہیں لگی۔ اس کے خلاف کیکتی کے ردِ عمل کے بعد کسی ا ور کا ردِ عمل دیکھنے میں نہیں آیا۔ میرے ملنے والوں میں ایسے لوگ کم تھے جو ان باتوں پر زبان کھولتے۔ میں نے خود اس پر ایک دو مرتبہ سوچا تو اس نتیجے پر پہنچی کہ سردیوں میں آموں کی کھیپ کا آنا خلافِ فطرت واقعہ ضرور ہے۔ اگرچہ کہ بور کم آیا اور کیریاں اور آم بھی کم کم آئے لیکن، آئے۔
شہر کے اکناف فارم ہائوسوں کی تعداد میں اچانک اضافہ ٹاک آف دی ڈے (Talk of the day) کے طور پر ہوا تو خواتین نے بھی اس پر باتیں کیں۔ اس طرح مجھ تک بھی ساری باتیں پہنچیں، لیکن میرے ذہن میں یہ خیال کیسے آسکتا تھا کہ شراب، جوئے اور جسم فروشی کے ان اعلیٰ معیار کے فحاشی کے اڈّوں میں میرے میاں چودھری فضل اللہ لدھیانا والے کا پیسہ بھی لگا ہے۔ مجھے یہ بھی نہیں معلوم ہوسکا کہ میری اپنی بیٹی مومی اپنے بوائے فرینڈ کے ساتھ فارم ہائوسوں میں جانے لگی ہے۔ اور یہ کہ وہ منشیات کی ایڈکٹ (عادی) ہو چکی ہے۔ یہ سب معاملات میرے کانوں تک غیرمعمولی تاخیر سے پہنچے۔ ان کے علاوہ یہ ہول ناک سچائی کہ میرے میاں چو دھری فضل اللہ پر جو فضلِ غیراللہ ہو رہا ہے اور جو دھن میرے گھر پر برس رہا ہے، وہ منشیات کا زیرِ زمینی کاروبار ہے جس میں میرا رفیقِ حیات شریک ہے، مجھ پر اس وقت کھلی جب میں اس سے ملنے پولیس لاک اَپ گئی۔ وہاں اس سے بات کرنے میں مکمل ناکامی ہوئی۔ میرے لاکھ پوچھ گچھ پر بھی وہ کچھ نہ بولا حتیٰ کہ میں رونے لگی۔ پولیس کا ایک آدمی مجھے وہاں سے لے گیا یہ کہہ کر کہ ’’ملاقات کا وقت ختم ہوگیا۔‘‘
سوشلائز کرنے کے فائدے کے طور پر مجھے بیگم آئی جی پولیس کے توسط سے آئی جی سے ملنا آسان ہوگیا۔ آئی جی نے بڑی نرمی سے مجھ کو معاملات کی نزاکت سے آگاہ کیا۔ ضمانت پر اپنے میا ں کو چھڑانے سے باز رکھنے کا مشورہ دیتے ہوئے مجھ سے کہا کہ ’’منشیات ایک زیرِ زمین کاروبار ہی نہیں ایک ورلڈ وائڈ چین کا حصہ ہے۔ ہم یہ معلومات حاصل کرنے میں لگے ہیں کہ اس کی کراچی شاخ میں آپ کے ہزبینڈ چودھری فضل اللہ کے علا وہ اور کون لوگ شا مل ہیں، یہ حلقہ کتنا وسیع ہے؟‘‘ آئی جی صاحب نے صاف لفظوں میں کہا، ’’بیگم فضل اللہ ہم آپ کے ہزبینڈ کو پولیس لاک اَپ سے فوری طور پر سینٹرل جیل شفٹ کر رہے ہیں۔ وہاں سے انتہائی خفیہ طور پر کراچی سے باہر کسی اور جیل میں منتقل کر دیا جائے گا۔ فی الحال آپ اس معاملے کو بند کتاب سمجھیں۔ بس اتنا ذہن نشین کرلیں کہ چودھری فضل اللہ کی جان کو زبردست خطرہ درپیش ہے۔ منشیات کے عالمی قصائی پہلے ہی اس کی زبان بندی کا حکم نامہ جاری کرچکے ہوں گے۔‘‘
آئی جی صا حب کے بنگلے سے جب میں گھر پہنچی تو میرا بیٹا کرامت جو میرے ساتھ ساتھ لگا گھوم رہا تھا مجھ سے لپٹ گیا، اور بولا، ’’موم گھبرائو نہیں سب ٹھیک ہو جائے گا۔ میں آپ کے ساتھ ہوں، ہم دونوں حا لات کا مقابلہ کریں گے۔‘‘
کر امت جو ہر وقت گانے ناچنے اور دوستوں کے ساتھ آوارگی میں مگن رہتا تھا ، میرے ایک واحد سہا رے کے طور پر کھڑا ہوگیا تھا اور اچانک بڑا بھی ہوگیا تھا۔ مجھ سے بھی عمر میں بہت بڑا۔
بیٹی مومی کو صورتِ حال کا رات دیر گئے پتا چلا جب وہ اپنی کسی نام نہاد گرل فرینڈ کے پاس سے گھر لیٹ نائٹ آئی۔ اس نے بہت دنوں کے بعد پہلی مرتبہ میری آ نکھوں میں آنکھیں ڈا ل کر دیکھا۔
اس کی آ نکھوں نے میری آنکھوں سے کہا، مما میں آپ کی بیٹی ہوں۔ ازلی اور ابدی آپ کی ہوں اور آپ کی رہوں گی۔
زند گی ایک مر تبہ پھر حالات کے محاصرے میں آگئی تھی۔ ایک مر تبہ پھر معاشرہ میرے خلاف کھڑا ہوگیا تھا۔ میں جو مشکلات میں ایک مرتبہ پھر گھر گئی تھی— معاشرہ مجھ سے متصادم تھا— معاشرے کی انگلیوں کا رخ میری جانب تھا اور ہر جانب سے ہم پر تھو تھو پڑ رہی تھی۔ منشیات فروشی کا کالک ہما رے چہروں پر تھوپا جا رہا تھا۔ حا لاں کہ میرا ایسے کسی معاملے سے کو ئی تعلق تھا ہی نہیں۔ سب کچھ مجھ سے بالا ہی بالا ہوا تھا۔ میں نے ترنت فیصلہ لیا، ’’میں جو ان معاملات سے بالا تھی— لا تعلق تھی— لا تعلق ہی رہوں گی۔‘‘
میں نے وہ بنگلہ چھوڑ دیا، اس آم کے درخت سے نجات پالی جس کی جڑوں میں کسی نے اپنی بیوی کا خون ٹپکایا تھا۔ اور جس کے ڈالے سے لٹک کر ایک انسانی زندگی نے اپنا خاتمہ کیا تھا۔
میں نے وہ شہر ہی چھوڑ دیا جس میں میرے شوہر نے منشیات فروشی کے ناپاک دھندے سے اپنی روح کو پلید کیا تھا۔ میں نے اپنے بیٹے کرامت اور اپنی بیٹی مومی کے ساتھ بد نا می سے گم نا می کی جا نب چھلانگ لگا دی۔